تمہید:- اس عنوان پر مضمون لکھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ایک طویل عرصہ سے ایک خاص بات مشاہدہ میں آرہی ہے ۔ جماعت کی مختلف سطحوں پر مثلاً علاقہ، ضلع و مقام پر بعض رفقاءانتہائی اہمیت کے حامل کاموںسے بچتے ہیں مثلاً ماہانہ انفرادی و جماعتی رپورٹیں لکھنا، اجتماعات کی رودادیں لکھنا ، ارکان و کارکنان کا جائزہ و احتساب کرنا، دفتری فائلیں اور دستاویزات محفوظ رکھنا، بیت المال کے حسابات باقاعدگی سے رکھنا یعنی کیش و لیجرکا اہتمام کرنا، منصوبہ و بجٹ وغیرہ ۔ حالانکہ باربار انہیں اس کی تاکید کی جاتی ہے۔ بعض رفقاء مرکز اور حلقہ کے سرکلروں اور مراسلوں پرتوجہ نہیں دیتے۔ بہت سے مقامات پر رفقاء اپنی سرگرمیوں کی رپورٹیں نہ مرتب کر تے ہیں اور نہ تحریکی اور دیگر اخبارات و رسائل میں اشاعت کے لیے بھیجتے ہیں ،بلکہ اس ضروری و اہم کام کو شہرت طلبی پر محمول کرتے ہیں۔ یہ کوتا ہی بعض ذی علم رفقاء سے بھی ہورہی ہے۔ جواب طلب کرنے پر بعض رفقاء تاویل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ نری دفتر یت ہے۔ تحریک سے اس کا کیا تعلق؟ ۔حالانکہ ان رفقاء کو شاید یہ معلوم نہیں کہ کوئی بھی تحریک بلا ضروری نظم کے نہیں چل سکتی۔ اسے چلانے کے لیے ایک طاقتور اور فعال و متحرک تنظیم کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ نبیؐ نے اپنے مشن اور تحریک کو چلانے اور آگے بڑھانے کے لیے ایک مستحکم نظم قائم کیا تھا۔ اپنے ساتھیوں کی زبر دست تربیت کرکے ان کو منظم کیا۔ ان کے اندر اطاعت اور فرمانبرداری کی ایسی روح پیدا کی کہ ’’سمعنا و اطعنا‘‘ ترجمہ:’ ہم نے سنا او ر اطاعت کی‘
ان رفقاء کی اس فکر اور سوچ کے پیچھے جو علت ہے وہ غالباً یہ ہے کہ باوجود یہ کہ ان کا علم انتہائی عمیق ہے، انہوں نے اس معاملہ پر غور نہیں کیا ریکارڈس و رپورٹس کا اہتمام کرنا بھی سراسر ایک دینی ضرورت ہے یہ کام نہ صرف یہ کہ تنظیمی نقطۂ نظر سے انتہائی ا ہمیت کے حامل ہیں ،بلکہ دینی نقطہ نظر سے بھی واجب اور لازمی ہیں ان کی ادائیگی پر اجر و ثواب ملے گا وہیں ان کو ادا نہ کرنے پر خدا کی ناراضگی اور غضب کے بھی ہم حقدار بن جائیں گے۔پس ان کاموں کی دینی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے یہ مضمون لکھا گیا ہے تاکہ ایسے رفقا ء کے قلب و ذہن متوجہ اور مطمئن ہوں اور وہ اور دیگر وابستگان خوش دلی اور رغبت سے نظم کی اتباع کریں۔
تنظیمی اہمیت و ضرورت:- ان امور کی تنظیمی اہمیت بھی مختصراً واضح کرنے کی ضرورت ہے:
انفرادی رپورٹیں: قرآن اور حدیث میں ذاتی محاسبہ کرتے رہنے کی بڑی اہمیت بیان ہوئی ہے۔ اس سے آدمی اپنے اندر کی خرابیوں سے واقف اور ان کے تدارک کے لیے حساس رہتا ہے۔ اس محاسبے کو اگر روزانہ نوٹ کرلیا جائے تو اس کی مدد سے ایک 100% صحیح انفرادی رپورٹ بن جاتی ہے جو ایک بالکل درست مقامی ماہانہ رپورٹ بنانے میں مددگار ہوسکتی ہے۔
ماہانہ اور سہ ماہی رپورٹیں: ارکان و کارکنان کی ماہانہ انفرادی رپورٹوں کی مدد سے بننے والی مقامی جماعتوں اور حلقہ کارکنان کی ماہانہ /سہ ماہی رپورٹیں امیرحلقہ کے سامنے پہنچتی ہیں۔ چونکہ امیرحلقہ ریاست کے تمام افراد اور مقامات تک خود نہیں پہنچ سکتے اور رفقاء و جماعت کے تازہ بہ تازہ حالات سے انہیں واقفیت حاصل ہونا ضروری ہے، اس لیے یہ رپورٹیں پابندی سے ملیں تو گویا امیرحلقہ بنفس نفیس تمام حالات سے واقف رہیں گے۔
حلقہ کی رپورٹیں: یہی رپورٹیں مرتب ہوکر محترم امیرجماعت کے پاس جاتی ہیں۔ امیر جماعت اور مرکزی شوریٰ کے سامنے پورے ملک کی جماعت کے حالات رہتے ہیں جس سے مختلف فیصلے کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔اس طرح صحیح فیصلے ہوسکیں گے۔
مثالیں:- (i) لٹریچر کی اشاعت (ii) الیکشن پر اثر انداز ہونے کا فیصلہ
(i) لٹریچر کی اشاعت تحریک کے اہم کاموں میں سے ایک کام ہے۔ انفرادی اور مقامی رپورٹوں کی درستگی پر ہی لٹریچر کی مناسب اشاعت منحصر ہے۔ ہم لوگ اکثر یہ شکایت کرتے ہیںکہ حالات کے مطابق ہمارے پاس نیا لٹریچر نہیں ہے۔ اس کی وجہ ہم خود ہیں۔ ہم اپنی انفرادی و اجتماعی رپورٹیں مرتب نہیں کرتے یا یہ رپورٹیں ناقص ہوتی ہیں اس لیے ہماری قیادت یہ سمجھنے میں ناکام رہتی ہے کہ موجودہ حالات میں کس قسم کے لٹریچر کی کتنی ضرورت ہے؟
(ii) الیکشن کا فیصلہ : بلدیاتی اور قانون ساز اداروں کے انتخابات پر اثرانداز ہونے یا ان میں حصہ لینے کے لیے ضروری ہے کہ ہمیںجماعت کی قوت کار، اس کے افراد کی طاقت، سماج میں ان کے اور جماعت کے اثرات کا بالکل صحیح صحیح اندازہ ہو۔ یہ اندازہ صرف اور صرف صحیح انفرادی و اجتماعی رپورٹوں سے ہی حاصل ہوسکتا ہے۔
روداد: سرگرمیوں کی روداد لکھنا دراصل جماعت کی تاریخ لکھنے کے مترادف ہے۔ جماعت کے ابتدائی دور کی رودادیں پڑھے بنا کسی کو رکن نہیں بنایا جاتا تھا۔ کیوں؟ اس لیے کہ ان میں جماعت کی روح قلم بند ہے۔ ان کے مطالعے سے ہی جماعت کا صحیح تعارف حاصل ہوتا ہے۔ ان رودادوں میں جو بعض تقریریں ریکارڈ ہیں وہ جماعت کے لیے سنگِ میل اور بنیادی لٹریچر کی حیثیت رکھتی ہیں۔ رو د ا د یں یہ بتاتی ہیں کہکن حالات میں جماعت نے کیا اقدامات کیے؟ جماعت میں آئندہ شامل ہونے والوں کی یہ رہنمائی کرتی ہیں۔
سرکلر اور مراسلے : ان کی بڑی اہمیت ہے۔ ان کی وجہ سے ہم آہنگی رہتی ہے اور غلطی کا احتمال نہیں رہتاکیوں کہ یکسانیت کے ساتھ ہر مقام پر بات پہنچتی ہے۔ سرکلر اور مراسلوں کے بغیر جماعت کے کام متاثر ہوں گے بلکہ جماعت انتشار کا شکار ہوجائے گی۔
منصوبہ: کام میں منصوبہ بندی ضروری ہے۔ نشانے سامنے رہنے سے مستعدی رہتی ہے۔ تقسیم کار کی وجہ سے ہر ساتھی فعال رہتا ہے اور اسے معلوم رہتا ہے کہ اسے کب کیا کرنا ہے۔ منصو بہ میقاتی، سالانہ اور ماہانہ اوقات کار میں تقسیم ہونا چاہیے تاکہ ہر کام بسہولت اور بروقت ہوتا رہے اور آسانی سے جائزہ بھی ہوسکے کہ کیاکام کرلیا اور کیا کام کرنا باقی ہے۔
بجٹ: ہر قسم کے کام معلوم و متعین انداز میںکرنے کے لیے بجٹ بنایا جانا ضروری ہے جس سے کاموں کی تکمیل میں قرض وغیرہ کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ نہ ہی ایسا ہوگا کہ مالیہ کی کمی کی وجہ سے اہم سرگرمیاں انجام نہ پاسکیں۔ جہاں بجٹ نہ ہو وہاں بہت سے اہم کام نہیں ہوپاتے اور کئی غیر ضروری کام کردیے جاتے ہیں۔
کیش بک لیجر اور گوشوارے: باقاعدگی پسندیدہ عمل ہے۔ ، عوام اور رفقاء حسابات کو منضبط دیکھیں گے تو ان پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ عدم شفافیت اور بے ڈھنگے کاموں سے لوگ چڑتے اور دور ہوتے ہیں۔ اس طرح ان میں شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ اگر حسابات مکمل ہوں تو پوچھنے پر زبانی طور پر کسی کو بھی بتا سکتے ہیں نیز یہ حوالے کا کام دے سکتے ہیں۔ مثلاً اگر کوئی پوچھ لے کہ فلاں مد میں کتنی آمدنی ہوئی یا کتنا خرچ ہوا تو فوراً جواب دیا جاسکتا ہے۔ حسابات مکمل ہوں تو ہر نئے سال کے موقع پر بجٹ بنانے میں سہولت ہوگی۔
رپورٹوں کی اشاعت : تحریکی اور عام اخبار و رسائل میں مقامی ضلعی علاقائی اور حلقے کی اہم سرگرمیوں کی رپورٹیں مسلسل شائع ہوتے رہنے سے رفقاء اور عوام جماعت کی سرگرمیوں سے پوری طور پر واقف رہتے ہیں۔ ان کی وجہ سے دوسروں کو حوصلہ اور رہنمائی بھی حاصل ہوتی ہے۔
آیت یٰٓا اَیُّہَاالَّذِیْنَ آمَنُوْ اَطِیْعُوْاللَہ وَ اَ طیْعُوْ الرَّسُوْلَ۔ وَاُوْلِیْ الَاْمْرِمنِکُمْ اس بات کو فیصل کردیتی ہے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کے علاوہ اولی الامر کی اطاعت جو کہ اللہ و رسول کی اطاعت کے ماتحت ہوگی، لازمی ہے۔ اگر آپ غور کریں تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اللہ اور رسول کے احکامات تو تماتر قرآن و سنت میں محفوظ ہیں جن کی اطاعت کی جائے گی۔ اولی الامر کی اطاعت کے معنی ہیں کہ اللہ اور رسول کے احکامات کے علاوہ اولی الامر کے احکامات کی اطاعت لازمی ہے۔ مثلاً اگر امیر جماعت یا امیرحلقہ انفرادی ماہانہ رپورٹ کا مطالبہ مامورین سے کریں تو اس حکم کی تعمیل مامورین پر فرض عین کی طرح ہوگی۔ اس آیت میں اختلاف کرنے کی جو بات کہی گئی ہے وہ صرف ان احکامات کے متعلق ہے جن کا معروف ہونا مشتبہ ہو۔ معروف حکم چاہے کتنا ہی ناگوار کیوں نہ لگے اس کی اطاعت کرنا ہوگی۔ صحیحین میں یحییٰ قطان سے روایت ہے اَلسَّمْعُ وَالطَّاعَۃُ عَلَی الْمَرْئِ الْمُسَلِمِ فِی مَا اَحَبَّ اَوْ کَرِہَ مَا لَمْ یُوْ مَرْ بِمَعْصِیَۃٍ فَاِذْا اُمِرَ بمَعْصِیَۃٍ فَلاَ سَمْعَ وَلَا طَاعَۃَ۔ ترجمہ: مرد مسلم پر سمع و طاعت فرض ہے اُن امور میں جو اسے پسند ہوں اور ان امور میں بھی جو اسے ناپسند ہوں جب تک اسے معصیت خداوندی کا حکم نہ دیا جائے ،مگر جب اسے خدا اور رسول کی معصیت کا حکم دیا جائے تو اس حکم کو نہ سننا ہے اور نہ اس کی اطاعت کرنی ہے۔ اسی طرح اگر کسی امیر یا ذمہ دار کی شخصیت بھی ایک آدمی کے نزدیک ناپسندیدہ ہے تب بھی اس کی اطاعت لازمی ہے۔ صحیح مسلم میں امّ حصین سے مروی ہے وَلَوِاسْتَعْمِلَ عَلَیکُمْ عَبْدٌ یَقُوْدُکُم بِکِتَابِ اللہِ اسْمَعُوا لَـہٗ وَاَطِیعُوا ۔ ترجمہ: اگر تم پر ایک غلام کو حاکم بنا دیا جائے جو تمہاری قیادت اللہ کی کتاب کے مطابق کرے تو اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو۔
امیر اگر جماعت کی مصلحت کے پیش نظر وقتی طور پر کسی جائز چیز سے روک دے تب بھی اطاعت کرنا لازمی ہے اور اس چیز سے رک جانا ضروری ہے (سورہ بقرہ ۔ آیت249) ترجمہ : پھر جب طالو ت لشکر لے کر چلا تو اس نے کہا ایک دریا پر اللہ کی طرف سے تمہاری آزمائش ہونے والی ہے جو اس کا پانی پیے گا وہ میرا ساتھی نہیں۔ میرا ساتھی صرف وہ ہے جو اس سے پیاس نہ بجھائے۔ ہاں ایک آدھ چلو کوئی پی لے تو پی لے۔ مگر ایک گروہ قلیل کے سوا وہ سب اس دریا سے سیراب ہوئے۔ پھر جب طالوت اور اس کے ساتھ مسلمان دریا پار کرکے آگے بڑھے تو انہوںنے طالوت سے کہہ دیا کہ آج ہم میں جالوت اور اس کے لشکروں کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں۔ لیکن جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ انہیں ایک دن اللہ سے ملنا ہے، انہوں نے کہا ’’بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے۔ اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے‘‘ (مولانا مودودیؒ نے حاشیہ لگایا ہے کہ غالباً یہ کہنے والے وہی لوگ ہوں گے جنہوںنے دریا پر بے صبری کا مظاہرہ کردیا تھا)
قرآن اور حدیث کے ان حوالوں سے یہ بات بالکل منکشف ہوگئی کہ امیر کی اطاعت لازمی ہے۔ اس کے بغیر نظم جماعت قائم ہی نہیں رہ سکتا اور نہ وہ مقصد حاصل ہوسکتا ہے جس کے لیے جماعت قائم کی گئی ہے۔ اس تفصیل کے بعد ضروری نہیں کہ اس باب میں مزید گفتگو کی جائے لیکن رفقاء کے اطمینان اور شرح صدر کے لیے ان امور کے متعلق قرآن و سنت سے مزید نظائر پیش کیے جاتے ہیں۔
بعض رفقاء ان امور ’دفتریت ‘ کا نام دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ بھی سنا گیا کہ بعض لوگوں کو اس پر بھی اعتراص ہے کہ جماعت اپنے کاموں کو انجام دینے کے لیے دفتر وغیرہ کیوں خریدتی ہے؟
مسلم معاشرے میں جماعت کی جو پوزیشن ہے وہ بالکل واضح ہے۔ بہت سی ہم عصر جماعتیں اور گروہ جماعت کے مخالف ہیں اور مساجد وغیرہ میں جماعت کو کام کرنے کی اجازت نہیں۔ اس لیے جماعت کے اپنے کاموں کے لیے اپنے مراکز کی اشد ضرورت ہے۔ بعض مساجد میں درس اور اجتماع وغیر ہ کی اجازت تو ہے مگر بہت سے کام ایسے ہیں جو اگر مساجد میں کیے جائیں تو عام مسلمان ناک بھوں چڑھائیں گے اس لیے دفتروں کا قیام ضروری ہے۔ نبیؐ کی زندگی میں اس کی واضح مثالیں ہیں۔ مکہ میں عام دعوت کا کام شروع کرنے سے قبل ایک مرکز دارارقم کی شکل میں فراہم کیا گیا تھا۔ اسی طرح مدینہ پہنچ کر سب سے پہلا کام نبیؐ نے جو کیا تھا وہ مسجد نبوی کے لیے زمین حاصل کرکے مرکز بنانا تھا۔
نبیؐ نے مدینہ پہنچ کر تھوڑے دنوں بعد، جیسے جیسے حالات معمول پر آتے گئے اور اسلامی حکومت کو استحکام حاصل ہوتا گیا ایک باقاعدہ سکریٹریٹ قائم کرلیا۔ چنانچہ آپؐ نے مختلف امور کی انجام دہی کے لیے صحابہ کرامؓ کو مقرر فرمایا۔ ان میں سے ہر ایک کے ذمہ الگ اور متعین کام تھا۔ مثلاً حضرت بلالؓ آپؐ کے ذاتی معاون تھے یعنی آپؐ کے گھریلو کاموں کی تکمیل میں مدد دیا کرتے تھے۔ حضرت بلالؓ مسجد نبویؐ کے موذن بھی تھے۔ حضرت ابیؓ بن کعب ، عبداللہؓ بن مسعوٗد معاویہؓ بن ابو سفیانؓ کے ذمہ کتابت وحی اور حدیث کی ذمہ داری تھی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ بھی احادیث لکھا کرتے تھے۔ (ابتداء ً نبیؐ نے احادیث لکھنے سے منع فرمایا تھا۔ اس کی حکمت یہ تھی کہ کہیں قرآن و احادیث کو لوگ گڈمڈ نہ کردیں۔ جب یہ احتمال ختم ہوگیا تو آپؐ نے احادیث نوٹ کرنے کی اجازت مرحمت فرمادی) عبداللہؓ بن ارقم ، اور علاء ؓ بن عقبہ لوگوں کے لیے اسناد، وثیقے ، ان کے باہمی معاہدے اور تجارتی دستاویز لکھتے تھے۔ زبیرؓ بن عوام اور جُہیمؓ بن الصَّلت بیت المال کے حسابات آمد و صرف لکھتے تھے۔ حذیفہؓ بن الیمان ان جائیدادوں کا، جنہیں رفاہ عامہ کے لیے تحویل میں لے لیا گیا تھا ، حساب لکھنے پر مامور تھے۔ مُعیقبؓ بن ابی فاطمہ مال غنیمت کا اندراج کرتے تھے۔ زیدؓ بن ثابت حاکموں اور بادشاہوں کے نام خطوط لکھا کرتے تھے اور اسی کے ساتھ رسول اللہؐ کے لیے ترجمانی کا کام کیا کرتے تھے۔ خالدؓ بن سعدؓ بن العاص رسول خدا کے پیش کار تھے۔ جب مختلف ضروریات پیدا ہوتی تھیں انہیں لکھتے تھے۔ ایسا ہی مغیرہؓ بن شعبہ اور حصینؓ بن ثمیر بھی کرتے تھے۔ نیز حنظلہؓ بن ربیع کی حیثیت اضافی تھی۔ جب کوئی کاتب غیر حاضر ہوتا تھا تو یہ اس کاکام انجام دیتے تھے۔ ان کے علاوہ شر جیلؓ بن حسنہ ، ابّانؓ بن سعید، علاءؓ بن الحضری، عبداللہؓ بن سعد بن ابی لسرح نے بھی یہ خدمات انجام دیں۔ ان کے علاوہ دیگر شعبہ جات اور محکمہ جات بھی باقاعدگی سے کام کرتے تھے چنانچہ زکوٰۃ و صدقات کی وصولی و تقسیم، نئے احکامات کی تشہیر و تنقید کا نظام، نظام صلوٰۃ ، نظام تعلیم و تدریس وغیرہ موجود تھے جنہیں خلفاء راشدین خصوصاً حضرت عمرؓ بن خطاب کے دور میں مزید منظم و مستحکم کیا گیا۔
جب کبھی وفود مدینہ سے باہر جاتے تو واپسی میں نبیؐ کی مجلس میں اپنی رپورٹ پیش کرتے۔ بے شمار واقعات ہیں۔ (۱) وہ وفد جس میں ایک صحابیؓ نے سورہ فاتحہ پڑھ کر بچھو کے کاٹے پر دم کیا تھا۔ (۲) وہ وفد جس میں ایک صاحب نے بغیر غسل کے نماز فجر پڑھائی تھی۔ (۳) وہ وفد جسے نماز عصر ایک یہودی بستی میں بنی قریضہ میں پہنچ کر ادا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ (۴) وہ وفد جس میں حضرت مجلم بن ھشامہ کے ہاتھ سے ایک شخص سلام کرنے کے باوجود قتل ہوگیا تھا۔ (۵) بئر معونہ کاوفد ۔
رپورٹنگ کا مقصد جماعت و تحریک کے مکمل حالات سے باخبر رہنا ہے۔ نبی اکرمؐ بہت سے سرایا میں اور کتنے ہی مواقعے پر بنفس نفیس شامل نہیں ہوپاتے تھے۔ کیا یہ بات کسی درجہ میں بھی قابل قبول ہوسکتی ہے کہ جن میں نبیؐ کی شرکت نہ ہوتی تھی ان تمام واقعات سے آپؐ بے خبر رہتے ہوں گے؟ ہرگز نہیں۔ آپؐ کے سامنے تمام جزیات کے ساتھ تفصیلی رپورٹ پیش کی جاتی تھی۔ بعض معاملات میں تو خود اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعہ آپؐ کو باخبر کردیتا تھا۔ احادیث کا عظیم الشان ذخیرہ اس بات کی ناقابل تردید دلیل ہے کہ نبیؐ کو بات بات کی خبر دی جاتی تھی۔ چنانچہ احادیث بیان کرنے کو انگریزی میں اصطلاحاً رپورٹنگ ہی کہا جاتا ہے۔
رپورٹنگ قرآن میں:- (i) سورہ السجدہ آیت 5 :- وہ آسمان سے زمین تک دنیا کے معاملات کی تدبیر کرتا ہے اور اس تدبیر کی روداد اُوپر اس کے حضور جاتی ہے ایک ایسے دن میں جس کی مقدار تمہارے شمار سے ایک ہزار سال ہے۔ (اس کے علاوہ بے شمار احادیث میں بھی یہ بات کہی گئی ہے کہ فرشتے انسانوں کے معاملات خدا کے سامنے پیش کرتے ہیں) (ii) سورۂ نمل آیت 20 تا 23 ۔ واقعہ ہدہد جس میں پرندہ اپنی غیر حاضری کی وجہ بتاتا ہے اور قوم سبا کی رپورٹ پیش کرتا ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی کئی مثالیں ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آج دینی کاموں کے لیے کی جانے والی رپورٹنگ کوئی غیر دینی کام نہیں ہے۔ یہاں ایک لطیف نکتہ مدنظر رہنا چاہیے کہ انسانوں کی طرح اللہ تعالیٰ محدود و مجبور نہیں کہ رپورٹوں کے بغیر اس کا کام ہی ٹھپ ہوجائے۔ اللہ تمام انسانوں کے ذرہ ذرہ عمل سے واقف ہونے کے باوجود فرشتوں سے رپورٹس حاصل کرتا ہے تاکہ انسانوں کی پیشی کے لیے مزید ثبوت موجود رہیں۔
روداد:- بہت سارے افراد، انبیاء علیہم السلام اور قوموں کے خاص خاص واقعات قرآن میں محفوظ کردیے گئے ہیں۔ بعض واقعات تفصیل سے ہیں۔ سورہ بقرہ اور آل عمران میں یہود و نصاریٰ کا ذکر ہے۔ سورہ انفال اور آل عمران میں غزوہ بدر واحد پر تبصرے موجود ہیں۔ یہ سب رودادیں ہیں۔ احادیث کا بڑا ذخیرہ رودادوں پر مشتمل ہے جن کی بناء پر اسلام کی مکمل تاریخ ہم تک پہنچ سکی ہے۔ افراد، انبیاء کرامؑ اور سابقہ اقوام کی رودادیں بعد میں آنے والوں کے لیے سنگ میل اور رہنمائی کا کام دیتی ہیں۔ اگر ہمیں اپنی تاریخ محفوظ رکھنی ہے تو ہمیں جماعت کی رودادوں کو محفوظ کرلینا چا ہیے۔
ریکارڈس ، ضابطۂ تحریر میں لانا :- رپورٹیں، رودادیں دراصل ریکارڈس ہی ہیں۔ ریکارڈ کا مطلب ہے محفوظ کرلینا۔ چنانچہ سیرت نبویؐ کے تمام گوشے، آپؐ کا سراپا، اخلاق، معا ملا ت ، طرز بودو باش، جنگیں، طریقۂ تربیت و تعلیم ہمیں اس لیے معلوم ہیں کہ وہ ریکارڈ کرلیے گئے تھے۔ سابقون الاولون صحابہؓکون تھے؟ عشرہ مبشرہ کے نام کیا ہیں؟ ہجرت حبشہ اول و دوم میں کون لوگ شامل تھے؟ دارِارقم کی کیا حیثیت ہے؟ شعب ابی طالب کسے کہتے ہیں؟ وہاں کیا ہوا تھا؟ بیعت عقبہ اول و دوم میں کتنے افراد تھے ؟ ان کے نام کیا تھے؟ کیا معاہدہ ہوا؟ غزوہ بدر میں کتنے مجاہدین تھے؟ اُحد میں کتنے تھے؟ غزوہ خندق میں کتنی لمبی خندق کتنے دنوں میں کھودی گئی تھی؟ ہر ایک صحابیؓ کے ذمہ کھدائی کا کتنا کام آیا تھا؟ غزوہ تبوک میں کیا واقعات پیش آئے؟ منافقین اور یہود کیا سازشیں کرتے تھے؟ وغیرہ یہ سب آپ کو اور ہم کو کیسے معلوم ہوا؟ ریکارڈنگ کی وجہ سے!!!
جائزہ و احتساب :- نبیؐ اپنے ساتھیوں کا جائزہ و احتساب کیا کرتے تھے اور خود بھی اپنے کو جائزہ کے لیے پیش کیا کرتے تھے۔ غزوہ تبوک کے بعد آپؐ نے پیچھے رہ جانے والوں کا احتساب کیا تھا۔ سورۂ آل عمران میں غزوات احد اور حنین کے بارے میں احتساب کیا گیا۔ حضرت عمرؓ کا احتساب ایک صحابیؓ نے ان کے جبہ کے تعلق سے کیا تھا۔ کیا یہ واقعات جائزہ و احتساب کی اہمیت ہم پر واضح نہیں کرتے؟ ان سے جو فوائد حاصل ہوئے وہ ہمیں اس مسنون عمل پر کیوں نہیں اُبھارتے؟
کیش بک، لیجر بک، گوشوارے، بیت المال:- صدقات، زکوٰۃ، خمس، فے، غنیمت کی وصولی پر اصحابؓ مقرر تھے۔ ان کی آمد و صرف کے باقاعدہ حسابات لکھے جاتے تھے اور تقسیم کا بھی باقاعدہ حساب رکھا جاتا تھا۔ آخر بغیر حساب کتاب کسی کے مال کی مقدار متعین کرکے ڈھائی فیصد زکوٰۃ کیسے وصول ہوگی؟ زراعت میں عشر کیسے نکلے گا؟ مال غنیمت کا خمس کیسے بیت المال کو ملے گا؟ کیسے معلوم ہوگا کہ کس سے جزیہ لے لیا گیا ہے کون باقی رہ گیا ہے؟ اگر ضرورت مند وں کی تعداد نہ معلوم ہو ان کی ضروریات نہ معلوم ہوں اور وہ مندرج نہ ہوں تو کس طرح مال تقسیم کیا جاتا ہوگا؟ کیا اندھی بانٹ سے، جس کا تو ہم تصور ہی نہیں کرسکتے؟ اس کے علاوہ بیت المال سے قرضے بھی دیے جاتے تھے۔ چیزیں اُدھار بھی دی جاتی تھیں۔ غزوات میں ہتھیار اور سواریاں بھی دی جاتی تھیں اور واپس لے لی جاتی تھیں۔ کیا یہ سب کچھ بغیر حساب کتاب کے ممکن تھا؟
منصوبہ بندی:- خدا کا ہر کام منصوبہ کے مطابق ہوتاہے۔ پوری کائنات کا منصوبہ ام الکتاب میں تحریر ہے۔ سال بہ سال شب قدر کو سالانہ منصوبہ فرشتوں کے حوالے کیا جاتا ہے۔ ہر آدمی کی زندگی کا منصوبہ اللہ کے پاس لکھا ہوا ہے۔ نصیب ، قسمت ، تقدیر، یہ کیا الفاظ ہیں؟ نصیب یعنی حصہ، ٹکڑا۔ قسمت یعنی بانٹنا، ہرایک کا حصہ الگ کرنا، تقسیم کرنا۔ تقدیر یعنی اندازہ مقرر کرنا۔ گویا ہر انسان کا حصہ ایک اندازہ سے اللہ نے تقسیم کردیا ہے۔ یعنی ہر انسان کی زندگی منصوبہ بند ہے۔ نبیؐ نے بھی انتہائی منصوبہ بند طریقے سے کام کیا۔ ابتداء ً کم زوری کا دور تھا تب آپ نے دعوت کا کام چپکے چپکے کیا۔ کچھ افراد آگئے تب کھل کر کیا لیکن اس میں بھی یہ طریقہ تھا کہ ظلم و ستم برداشت کرتے رہو، دعوت دیتے رہو۔ ایک دور وہ آئے گا کہ اسلام طاقتور ہوگا۔ جنگیں بھی انتہائی منصوبہ بند طریقے سے لڑیں۔ مؤ رخین کہتے ہیں کہ ایسا کبھی نہ ہوا کہ نبیؐ کی افواج دشمن کے بعد میدان جنگ میں پہنچی ہوں اور دشمن کو زیادہ بہتر اور مفید مقام و مواقع حاصل ہوئے ہوں! نہیں۔ بلکہ ہمیشہ نبیؐ ہی دشمن سے پہلے میدان میں پہنچ کر زیادہ بہتر مقام پر قابض ہوا کرتے تھے۔
بجٹ:- تقدیر،کے الفاظ یہ کھلا اشارہ کرتے ہیں کہ خدا کے یہاں بھی منصوبہ بندی ہوتی ہے ۔ (نعوذباللہ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ انسانوں کی طرح اللہ کے پاس بھی محدود ذرائع وسائل ہونے کی وجہ سے اس کی ضرورت پیش آتی ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے انسانوں کی تقد یر مقرر فرماکر ان کے لیے اپنے پاس ایک منصوبہ طے کردیا ہے)۔ بجٹ کے لغوی معنی اندازہ، تخمینہ ہے۔ یعنی جو کچھ اپنے پاس ہے اس کے مطابق اپنی ضروریات پوری کرنا۔ اس طرح کہ نہ ضروریات تشنہ رہیں نہ خرچ زائد ہو۔ نبیؐ کی سیرت میں باقاعدہ کسی بجٹ کی نشاندہی تو نہیں کی جاسکتی البتہ یہ کہ بجٹ کے اصول واضح طور پر آپؐ کی زندگی میں ملتے ہیں۔ قرآن کی آیات فضول خرچیوں سے منع کرتی ہیں، حرام کاموں میں خرچ کرنے سے روکتی ہیں، جائز کاموں میں دل کھول کر خرچ کرنے کی ترغیب دیتی ہیں: دراصل بجٹ کے بنیادی اصول ہیں۔ اسی طرح زکوٰۃ کے خرچ کی مدیں متعین کرنا، مال غنیمت سے خمس اسلامی ریاست کا حصہ طے کرنا وغیرہ یہ بجٹ کی ابتدائی شکلیں ہیں۔
حضرت جبرئیل ؑ اللہ کے ہر کارے تھے جو انبیاء کے پاس احکامات خداوندی لاتے تھے۔ اسی طرح نبیؐ اپنے احکامات تحریراً اور زبانی لوگوں کے پاس پہنچایا کرتے تھے۔ چناں چہ شراب کی حرمت کا حکم آتے ہی منادی گلیوں میں گھوم گیا اور شراب کی حرمت کا اعلان کیا گیا۔ سورۂ توبہ کے نازل ہونے پر اس کے بعض احکامات حضرت ابوبکرؓ کے پاس پہنچانے کے لیے حضرت علیؓ کو بھیجا گیا۔ یہ زبانی سرکلر تھے۔ بعد کے ادوار میں تحریری سرکلر/ مراسلے / خطوط بھی عمال اور حکام کو بھیجے گئے، ان میں سے کچھ تو آج بھی محفوظ ہیں۔
الغرض فی زمانہ تحریکی ضروریات کی تکمیل کے لیے ’’دفتری کام‘‘ انجام دینے لازمی ہیں ان سب کے جواز قرآن و حدیث میں موجود ہیں۔
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2015