یہ واقعہ ہے کہ جزیہ ذمیوں سے ان کی تذلیل وتحقیر کے لیے نہیں لیاجاتا تھا۔ اس سلسلے میں بعض لوگوں کے دلوں میں کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ ہم یہاں انھیں وارداتِ قلبیہ کا جائزہ لیں گے۔ مثلاً کوئی کہہ سکتا ہے کہ جب معاملہ یہ ہے تو آیتِ جزیہ ’’حَتیّٰ یُعْطُوْا لجِزْیَۃَ عن یدوہم صاغرون‘‘میں ’’صَاغِرُوْنَ‘‘ کے کیا معنی ہوں گے؟ اور مسلم حکمرانی کے بعض ادوار میں ذمیوں سے کیوں بظاہر حقارت آمیز طریقے سے جزیہ وصول کیاجاتا تھا؟
آیت جزیہ سے متعلق جواب
اس کا صحیح جواب جاننے کے لیے ضروری ہے کہ آیتِ مذکورہ کی ایسی تفسیر کی جائے جو اسلام کے عام اصولوں سے ہم آہنگ ہو اور اس سلسلے میں یہ بات بھی نگاہ میں رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین نے اسلام کے زریں دور میں اہلِ کتاب (یہود ونصاریٰ) سے کس طرح سے جزیہ لیا تھا۔اہل علم واقف ہیں کہ اسلام نے اہلِ کتاب کے عقائد، ان کے اموال اور ان کی عبادت گاہوں کے احترام کی کس قدر تاکید کی ہے۔ اسی طرح انھیں کسی طرح کی ایذا پہنچانے سے قطعی طور پر منع کیاگیا ہے، چاہے وہ زبان ہی کی حد تک کیوں نہ ہو۔ جس طرح کسی مسلمان کی غیبت کرنے سے روکا گیا ہے اسی طرح اُن ذمّیوں (غیر مسلم رعایا) کی غیبت کرنا بھی جائز نہیں ہے۔
اس سلسلے میں جب ہم اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اہلِ کتاب سے جزیہ وصول کرنے کے معاملے میں نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب سے اور نہ ہی خلفاے راشدین کی جانب سے کوئی ایک ایسا واقعہ ملتا ہے کہ اہلِ کتاب کے ساتھ کوئی ایسا سلوک کیاگیا ہو جسے ذلت و حقارت پر محمول کیا جاسکے۔ اہلِ کتاب سےکبھی اس طرح سے جزیہ نہیں لیاگیا جس سے اُن کے ساتھ کسی طرح کی بدسلوکی یا حقارت کا اظہار ہوتا ہو ۔ اور اسلام نے تو اہلِ کتاب کو ایذا پہنچانے سے منع کیا ہے، حتیٰ کہ اُن کی غیبت کرنا بھی منع ہے تو بھلا ان کے ساتھ ذلت و حقارت کا معاملہ کرنا کیسےجائز ودرست ہوسکتا ہے۔ہمارے لیے چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی شارع (نظامِ قانون بنانے والے) ہیں، اس لیے آپ کا اُسوہ ہی ہمارے لیے قابلِ تقلید و اتباع ہے۔ اور خلفاے راشدین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں سب سے زیادہ آپؐ کے قریب رہے ہیں اور آپؐ کی لائی ہوئی شریعت کو سب سے زیادہ مضبوطی سے پکڑنے والے تھے۔ لیکن ان کے دور میں جزیہ کی وصولیابی کے تعلق سے اہانت و حقارت کا کوئی ایک واقعہ بھی تاریخ کی کتابوں میں منقول نہیں ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ ہم آیت جزیہ کو اس طرح نہ سمجھیں جس طرح کہ بعض لوگوں نے اُسے سمجھا ہے۔ چنانچہ ہم اللہ تعالیٰ کے قول ’’عَنْ یَدِِ‘‘ میں ’’الیَدُ‘‘ کی تفسیر قدرت، استطاعت اور طاقت سے کرتے ہیں۔ ہمیں نصوصِ قرآنی اور عربی زبان و ادب میں ایسے شواہد ملتے ہیں جو اس مفہوم کی تائید کرتے ہیں۔ آپ خالد بن ولیدؓ کے عہد میں ناطفؔ پادری کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کی تحریر میں دیکھ چکے ہیں کہ حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول، ’’علیٰ کل ذِی یَدِِ‘‘ ہے، جس کا صاف اور واضح مطلب ہے کہ ہر صاحب قدرت پر جزیہ لاگو ہوگا۔ اور ہم یہ بات بتا چکے ہیں کہ جزیہ صرف ان لوگوں پر عائد ہوگا جو اُس کی ادائی پر قادر ہوں۔ اِسی بنا پر چھوٹے بچوں ، معذوروں ، فقیروں، راہبوں اور خواتین کو جزیہ سے مستثنیٰ کردیاگیا ہے۔
رہا اللہ تعالیٰ کا قول: ’’وَہُمْ صَاغِرُوْن‘‘ تو یقینی طور پر یہاں لفظ صَغَار ذلت و حقارت کے بجائے خُضُوع (خود سپردگی، تابعداری اور ماتحتی) کے معنٰی میں ہے ۔ اور لغت میں بھی صَغَارٌ (جس سے صاغرون مشتق ہے)کے معنٰی خُضُوع کے آتے ہیں، یعنی کسی کے سامنے جھکنا اور اپنے کو اس کی تابعداری و ماتحتی میں دینا۔ چنانچہ ولد صغیر کا اِطلاق اس بچے پر ہوتا ہے جو اپنے والدین اور اپنے سے بڑوں کی اطاعت کے لیے جھکا رہا ہے۔ اور جزیہ کے سیاق میں خُضوع سے مراد اسلامی مملکت کے اقتدا کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی اطاعت و تابعداری میں جھکے رہنا ہے یا اس کی ماتحتی قبول کرنا ہے۔ اور ذمّیوں کی طرف سے جزیہ ادا کرنے کا مطلب مملکت اسلامی سے وفاداری اور تعلق کا اظہار ہے۔ اس کے مقابلے میں اسلامی مملکت ان کے جان ومال اور عزت وآبرو کی حفاظت کرتی ہے۔ اور ان کے جملہ معاملات کی نگرانی اور ان کے مذہبی عقائد کے احترام کا بھی اہتمام کرتی ہے۔ اور اختلاف عقائد کے باوجود سارے باشندوں کو مملکتِ اسلامی کے اقتدار اور اس کے قوانین و ضوابط کو قبول کرنے اور اس کی تابعداری کے لیے ذلت وحقارت کا راستہ نہیں اختیار کیا جائے گا۔ آیت جزیہ کی یہی وہ صحیح تفسیر ہے جو نُصوص قرآنی، شریعتِ اسلامی کے اصول ومبادی اور اسلام کے گزشتہ سنہری دور کے تاریخی و اقعات سے ہم آہنگ ہے۔
رہی یہ بات کہ مسلم حکمرانی کے بعض ادوار میں، خصوصاً عہدِ عثمانی کے اواخر میں جزیہ کچھ اس طرح لیاجاتا تھا کہ اس میں ذلت و حقارت بھی شامل ہوتی تھی، تو اُسے اسلام کے خلاف حجت نہیں قرار دیا جاسکتا ۔ اسلام میں قانون سازی کے کچھ ذرائع ہیں جو اسلامی نظام کے قوانین وضوابط طے کرتے ہیں، اور وہ قرآن وسنت اور اجماع (اجماعِ امت) ہیں۔ اس لیے مسلمانوں میں سے کسی فردِ واحد کا کوئی عمل، خواہ وہ کسی حیثیت و منصب کا حامل ہو اسلام کے خلاف دلیل نہیں بن سکتاہے۔ ہاں رسول اللہﷺ کا عمل دلیل بن سکتا ہے۔ رہاصحابہ کرامؓ کا عمل تو وہ نبیﷺ کے شاگرد اور رفقاء ہیں اور لوگوں میں سب سے زیادہ مقاصد شریعت پر نظر رکھنے والے ہیں۔اُن کے بارے میں جمہور علماء کا اتفاق ہے کہ اُن کا عمل اُسی وقت حُجت بنے گا، جب وہ اسلامی شریعت کے احکام کے مطابق ہوگا۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ اسلامی حکومت کے آخر کے ادوار میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تعلقات متعدداسباب کی بنا پر ابتری کا شکار ہوگئے تھے۔
اب ایسی خراب فضا میں جس میں غیرمسلموں کے تعلقات اسلامی مملکت کے ساتھ اچھے نہ رہے ہوں، بسا اوقات کوئی حاکم انحراف کا شکار ہوکر انتقام کی طرف مائل ہوسکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی فقیہ یا مفتی غلطی کربیٹھے، اور کوئی ایسی بات طے کردے جو اسلامی شریعت کی روح اور اس کے عام اصول و مبادی کے منافی ہو۔ لیکن بہر صورت سارا قصور منحرف حاکم یا جاہل مفتی کا ہوگا۔ اسلامِ عظیم کی تعلیمات اس سے بالکل بَری ہیں۔ اسلام کے قوانین مبنی برحق اور ہر طرح کے نقائص سے پاک ہیں ۔ بڑے سے بڑا متعصب بھی آج تک اُن میں کوئی نقص یا عیب نہیں نکال سکا ہے۔
اسلام نے جزیہ کے معاملے میں اخلاق، رواداری اور شرافت کی شاندار مثال قائم کی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ بیسویں صدی میں مغربی استعمار کے جوئے تلے دبی اقوام کو اپنی جان ومال کی حفاظت، اپنے عقائد کی ضمانت اور اپنے حقوق کی رعایت اس درجہ نہیں حاصل تھی جتنی کہ چودہ سو سال پہلے اسلامی مملکت میں فتح وعزت کے دنوں میں مُحارب اور مغلوب اقوام کو حاصل تھی۔
سطورِ بالا میں جزیہ سے متعلق جو کچھ کہا گیا ہے، وہ اس باب میں قولِ فیصل کی حیثیت رکھتا ہے۔
مشمولہ: شمارہ جنوری 2015