قرآن کریم نے مختلف حوالوں سے انسان کی فضیلت وبرتری اور دوسری مخلوقات کے مقابلے میں اس کی اعلیٰ درجہ کی صلاحیتوں اور قابلیتوں کا اعتراف کیا ہے وہ اپنی پیدائش اور فطرت کے اعتبار سے اشرف اور مکرم ہے،اس پر بہترین دلالت قرآن کا یہ اعلان ہے کہ وہ خلیفہ اللہ کی حیثیت اور منصب کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے اور جب اس کی تخلیق عمل میں آئی تو فرشتوں کو بھی اُس کے آگے سجدۂ کرنے کا حکم دیاگیا۔ انسان کی تخلیق کے وقت فرشتوں نے یہ اشکال قائم کیا تھا کہ وہ تسبیح وتحمید کے لیے کافی ہیں اور خدا کی عبادت واطاعت کے لیے ہمہ وقت حاضر اور مستعد ہیں مگر اللہ نے جواب میں اپنے لامحدود علم اور فرشتوں کی لاعلمی کا حوالہ دیاتھا:
وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِيْفَۃً۰ۭ قَالُوْٓا اَتَجْعَلُ فِيْہَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيْہَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاۗءَ۰ۚ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ۰ۭ قَالَ اِنِّىْٓ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۳۰ وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَاۗءَ كُلَّہَا ثُمَّ عَرَضَھُمْ عَلَي الْمَلٰۗىِٕكَۃِ۰ۙ فَقَالَ اَنْۢبِــُٔـوْنِىْ بِاَسْمَاۗءِ ھٰٓؤُلَاۗءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۳۱ قَالُوْا سُبْحٰــنَكَ لَا عِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا۰ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ۳۲ قَالَ يٰٓاٰدَمُ اَنْۢبِئْـھُمْ بِاَسْمَاۗىِٕہِمْ۰ۚ فَلَمَّآ اَنْۢبَاَھُمْ بِاَسْمَاۗىِٕہِمْ۰ۙ قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ اِنِّىْٓ اَعْلَمُ غَيْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۙ وَاَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ۳۳ وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ۰ۭ اَبٰى وَاسْتَكْبَرَ۰ۤۡوَكَانَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ۳۴ (البقرہ،۳۰تا۳۴)
’’پھر ذرا اُس وقت کا تصور کرو جب تمہارے، رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ ’’میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والاہوں۔‘‘ انہوں نے عرض کیا ’’کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں جو اس کے انتظام کو بگاڑدے گا اور خوں ریزیاں کرے گا؟ آپ کی حمد وثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کی تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں۔‘‘ فرمایا: ’’میں جانتا ہوں ، جو کچھ تم نہیں جانتے ’’اُس کے بعد اللہ نے آدم کو ساری چیزوں کے نام سکھایا۔ پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا ’’اگر تمہارا خیال صحیح ہے (کہ کسی خلیفہ کے تقرر سے نظام بگڑجائے گا) تو ذرااِن چیزوں کے نام ’’بتاؤ۔‘‘ انہوں نے عرض کیا ’’نقص سے پاک تو آپ ہی کی ذات ہے، ہم تو بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں جتنا آپ نے ہم کو دے دیا ہے حقیقت میں سب کچھ جاننے اور سمجھنے والا آپ کے سوا کوئی نہیں۔‘‘ پھر اللہ نے آدم سے کہا ’’تم انہیں اِن چیزوں کے نام بتاؤ۔‘‘ جب اس نے ان کو ان سب کے نام بتادیے تو اللہ نے فرمایا ’’میں نے تم سے کہا نہ تھا آسمانوں اور زمین کی وہ ساری حقیقتیں جانتا ہوں جو تم سے مخفی ہیں۔ جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو، وہ بھی مجھے معلوم ہے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو، اسے بھی میں جانتاہوں۔‘‘ پھر جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے جھک جاؤ، تو سب جھک گئے مگر ابلیس نے انکار کیا۔ وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑگیا اور نافرمانوں میں شامل ہوگیا۔‘‘
خلیفہ اس کو کہتے ہیں جو کسی کے بعد اس کے معاملات سرانجام دینے کے لیے اس کی جگہ لے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان کو خلیفہ بنانے کا جو ارادہ اللہ نے کیا تھا تو کس کا خلیفہ بنانا مقصود تھا؟ اپنایا زمین میں بسنے والی کسی پیش رومخلوق کا؟ ایک رائے یہ ہے کہ انسان سے پہلے زمین پر جنّات آباد تھے۔ جب انہوں نے فتنہ وفساد مچایا تو اللہ نے انہیں منتشر کردیا اور ان کی خلافت بنی نوع انسان کے سپرد کی۔ دوسری رائے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین میں خود اپنا خلیفہ مقرر کرنے کا فیصلہ کیا۔
مولانا امین احسن اصلاحیؒ کے نزدیک پہلی رائے کمزورہے کیونکہ قرآن، صحیح احادیث یا تورات میں کوئی ایسی چیز نہیں ملتی جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ انسان سے پہلے زمین میں جنات کی حکمرانی تھی۔
مولانا اصلاحی نے خلافت الٰہی کے نظریہ کی تائید درج ذیل دلائل کی روشنی میں کی ہے:
(۱) قرآن انسان کی فضیلت کی طرف باربار اشارے کرتا ہے۔
(۲) کائنات کی تمام چیزیں انسان کی خدمت کے لیے پیدا کی گئی ہیں جیسے تسخیر فطرت کا اصول انسان کے لیے کارفرماہے۔
(۳) فرشتوں کو انسان کے آگے سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا۔
(۴) زمین وآسمان جس بار امانت کو اٹھانے سے قاصر ہے ، اُسے انسان نے اٹھالیا۔
ان قرآنی تذکروں سے اس نظریہ کی تائید ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنا خلیفہ بنایا ہے۔
انسان کو خلافت الٰہی کا اعزاز بخشا گیا اور اس اہم ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے اسے جامع علم بھی عطا کیا۔ اسی علم نے اسے فرشتوں پر فضیلت عطا کی ۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ فرماتے ہیں کہ ان آیات کے مطالعہ سے محسوس ہوتا ہے کہ ہر فرشتے اور فرشتوں کو ہر صنف کا علم صرف اُسی شعبے تک محدود ہے جس سے اُس کا تعلق ہے۔ مثال کے طور پر ہوا کے انتظام سے جو فرشتے متعلق ہیں وہ ہوا کے متعلق سب کچھ جانتا ہے مگر پانی کے متعلق کچھ نہیں جانتے۔ یہی حال دوسرے شعبوں کے فرشتوں کا ہے۔ انسان کو ان کے برعکس جامع علم دیاگیاہے۔ ایک ایک شعبے کے متعلق چاہے وہ اُس شعبے کے فرشتوں کم جانتا ہو، مگر مجموعی حیثیت سے جوجامعیت انسان کے علم کو بخشی گئی ہے، وہ فرشتوں کو میسّر نہیں ہے اور یہی جامع علم انسان کو افضل واشرف بناتا ہے۔
امانت کی اہلیت
انسان کے عزوشرف کا ایک دیگر قرآنی حوالہ اطاعت اختیاری کی وہ امانت ہے جو آسمان، زمین اور پہاڑوں کے سامنے اللہ نے پیش کی تو وہ اس عظیم ذمہ داری کو اٹھانے کے متحمل نہ ہوسکے اور انہوں نے معذرت کردی کہ اس بار گراں سے معاف رکھا جائے مگر انسان نے اسے بڑھ کے اٹھالیا۔ اس سے قرآن یہ ثابت کرناچاہتا ہے کہ مادّی اعتبار سے انسان اس کائنات کی نہایت حقیر ہستی ہے، مگر معنوی اعتبار سے وہ اپنی صلاحیتوں اور قابلیتوں کی بنا پر آسمانوں سے اونچا زمین سے وسیع اور پہاڑوں سے زیادہ مضبوط وسربلند ہے۔ یہ انسان کے اشرف وافضل ہونے کا ایک دوسراپہلو ہے۔ قرآن نے اعلان کیا۔
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَہَا وَاَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الْاِنْسَانُ۰ۭ اِنَّہٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًا۷۲ۙ (الاحزاب:۷۲)
’’اور ہم نے اپنی امانت آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کی تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈرے اور انسان نے اس کو اٹھالیا۔ بے شک وہ ظلم کرنے والااور جذبات سے مغلوب ہوجانے والاہے۔‘‘
آیت کے آخری ٹکڑے اِنَّہُ کَانَ ظَلُوْماً جَہُوْلًا کی تشریح میں مولانااصلاحی کہتے ہیں کہ یہ انسان کی اس صلاحیت کی طرف اشارہ ہے جس کی بنا پروہ اس امانت کا اہل قرار پایا۔ وہ یہ ہے کہ یہ امانت متقاضی تھی کہ انسان کے اندر متضاد داعیے موجود ہوں تاکہ اس کی آزمائش ہوسکے کہ وہ ان متضاد داعیوں کی کشاکش کے اندر اپنے رب کی اختیاری اطاعت کے عہد کو کس طرح نباہتا اور اس کی ذمہ داریوں سے کس طرح عہدہ برآہوتا ہے۔ چنانچہ وہ ’’ظلوم‘‘ اور ’’جہول‘‘ بنایاگیا۔
’’ظلم عدل وحق کا ضد ہے اور ’’جہل‘‘ علم اور حلم کا ضد ہے۔ ظلوم اس کو کہیں گے جو عدل وحق کا شعور رکھتے ہوئے ظلم کا مرتکب ہونے والاہو۔ اسی طرح ’جہول ‘اس کو کہیں گے جو علم وحلم کی صلاحیت کے باوجود جہل اور جذبات سے مغلوب ہوجانے والاہو۔ یہی کشاکش انسان کی آزمائش ہے اور یہ اس کے تمام شرف کی بنیاد ہے۔ اگر وہ ظلم کی راہ اختیار کرنے کی آزادی رکھنے کے باوجود محض اپنے رب کی رضا کی خاطر عدل کی راہ پر استوار رہتا ہے اور اپنے سفل جذبات کے اتباع کی آزادی کے باوجود، محض اپنے رب کے خوف سے، اپنے جذبات پر قابو رکھتا ہے تو بلاشبہ اس کا مرتبہ فرشتوں سے بھی اونچا ہوا ، اس لیے کہ اُن کو خدا کی بندگی کی راہ میں کسی کشمکش سے دوچار نہیں ہوناپڑتا۔ اُن کا راستہ بالکل ہموار اور اُن کا مزاج ظلم وجہل کے محرکات سے ناآشنا ہے۔امانت کی تشریح کرتے ہوئے مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں کہ اللہ نے انسان کو اطاعت ومعصیت کی جو آزادی بخشی ہے اور اُس آزادی کو استعمال کرنے کے لیے اُسے اپنی بے شمار مخلوقات پر تصرف کے جو اختیارات عطا کئے ہیں، اُن کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان خود اپنے اختیاری اعمال کا ذمہ دار قرار پائے اور اپنے صحیح طرز عمل پراجر کااور غلط طرز عمل پر سزا کامستحق بنے۔ یہ اختیارات چونکہ انسان نے خود حاصل نہیں کئے ہیں۔ بلکہ اللہ نے اسے دیئے ہیں اور ان کے صحیح وغلط استعمال پر وہ اللہ کے سامنے جوابدہ ہے، اس لیے ان کے لیے امانت کا لفظ استعمال کیا ہے۔یہ امانت کتنی اہم اور گراں بار ہے، اس کا تصور دلانے کے لیے اللہ نے بتایا ہے کہ آسمان وزمین اپنی ساری عظمت کے باوجود اور پہاڑ اپنی زبردست جسامت ومتانت کے باوجود اُس کے اٹھانے کی طاقت اور ہمت نہ رکھتے تھے مگر انسان ضعیف البیان نے اپنی ذرا سی جان پر یہ بھاری بوجھ اٹھالیا۔مولانا شبیراحمد عثمانیؒ نے آیت میں مذکور’’امانت‘‘ سے مراد ایمان وہدایت کا تخم لیا ہے جو قلوب بنی آدم میں بکھیر گیا۔ جس کو مابہ التکلیف بھی کہہ سکتے ہیں۔ لَااِیمانَ لِمَنْ لاَ اَمانتکم اس کی نگہداشت اور تردد کرنے سے ایمان کا درخت اُگتا ہے۔ وہ فرماتے ہیںکہ بنی آدم کے قلوب اللہ کی زمینیں ہیں۔ بیج بھی اُسی نے ڈال دیا ہے۔ بارش برسانے کے لیے رحمت کے بادل بھی اُسی نے بھیجے جن کے سینوں سے وحی الٰہی کی بارش ہوئی۔ آدمی کا فرض یہ ہے کہ ایمان کے اس بیج کو، جو امانت الٰہیہ ہے۔ ضائع نہ ہونے دے بلکہ پوری سعی وجہد اور تردد و تفقد سے اس کی پرورش کرے مبادا غلطی یا غفلت سے بجائے درخت اُگنے کے بیج بھی سوخت ہوجائے۔ اِسی کی طرف اشارہ ہے حضرت حذیفہؓ اِس حدیث میں إنَّ الْاَمَانَۃَ نزلْتْ مِنَ السَّمَآءِ فی جذرِ قلُوب الرِّجَال ثُمَّ عَلِمُوْا مِن القرآن۔ یہی امانت وہی تخم ہدایت ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے قلوب رجال میں تہ نشین کیاگیا۔ پھر علوم قرآن وسنت کی بارش ہوئی جس سے اگر ٹھیک طور پر اشفاع کیا جائے تو ایمان کا پودا اُگے، بڑھے ، پھولے، پھلے اور آدمی کو اُس کے ثمرۂ شیریں سے لذت اندوز ہونے کاموقع ملے۔
مولانا عثمانی انسان کی مخصوص صلاحیت پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فی الحقیقت عظیم الشان امانت کا حق اداکرسکنا اور ایک افتادہ زمین کو جس میں مالک نے تخم ریزی کردی تھی، خون پسینہ ایک کرکے باغ بہار بنالینا اسی ظلوم وجہول انسان کاحصہ ہوسکتاہے جس کے پاس زمین قابل موجود ہے اور محنت وتردد کرکے کسی چیز کو بڑھانے کی قدرت اللہ تعالیٰ نے اُس کو عطا فرمائی ہے۔
ظالم وجاہل وہ کہلاتا ہے، مولانا عثمانی صراحت کرتے ہیں جو بالفعل عدل اور علم سے خالی ہو مگر استعداد صلاحیت ان صفات کے حصول کی رکھتا ہو۔ پس جو مخلوق بدء فطرت سے علم وعدل کے ساتھ متصف ہے اور اس کے لیے بھی یہ اوصاف اُس سے جدا نہیں ہوئے مثلاً ملائکہ یا جو مخلوق ان چیزوں کے حاصل کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی (مثلاً زمین، آسمان، پہاڑ وغیرہ) ظاہر ہے کہ دونوں اس امانت الٰہیہ کے حامل نہیں بن سکتے۔ بے شک انسان کے سوا جِنّ ایک مخلوق ہے جس میں فی الجملہ استعداد اس کے تحمل کی پائی جاتی ہے اور اُسی لیے مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ میں دونوں کو جمع کیاگیا ۔ لیکن انصاف یہ ہے کہ ادائے حقِ امانت کی استعداد اُن میں اتنی کی ضرورت نہیں۔(نفس مصدر، صفحہ:۵۷۰)
تسخیر اُمت کے لئے
انسان کے اعزازوافتخار کا ایک تیسرا قرآنی کائنات کی تسخیر ہے۔ اللہ نے کائنات کی بزم سجائی ہے انسان کی خدمت کے لیے اس کے لیے قرآن نے تسخیر کی اصلاح استعمال کی ہے۔ تسخیر کے معنی ہیں کسی کو مطیع وفرمانبردار بناکر بلاکسی اجرت ومعاوضہ کے کسی کی خدمت میں لگادینا۔ سورہ بقرہ آیت ۱۸۴ میں بادلوں کے آسمان وزمین کے درمیان مسخر کرنے کے معنیٰ یہ ہیں کہ یہ خدا کے امروحکم کے تحت بالکل مقہور ومجبور ہر لمحہ وہرآن بالکل تیار کھڑے ہیں کہ جب ، اور جس جگہ کے لیے اور جس شکل میں ان کو حکم ہو، وہ اس حکم کی تعمیل کریں۔ یہ مسخر خدا کے ہاتھ میں ہیں اور وہی اپنی ربوبیت اور اپنی حکمت کے تقاضوں کے تحت ان کو رحمت یا عذاب کی جس شکل میں چاہتا ہے استعمال کرتا ہے۔ قرآن میںانسانوں کی نسبت کے ساتھ جب اَبروہوا کی تسخیر کا ذکر آتا ہے تو اس کے معنیٰ یہ نہیں ہوتے کہ اَبر یا ہوا یا سورج یا چاند انسان کے ہاتھ میں مسخر ہیں یا وہ ان کو مسخر کرسکتا ہے بلکہ اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ پروردگار عالم نے ان چیزوں کو مسخر کرکے ان کو انسان کی نفع رسانی اور اس کی خدمت میں لگادیا ہے اور یہ رات دن خدمت میں لگے رہنے کے باوجود انسان سے کسی اُجرت یا صلہ کے طالب نہیںبنتے۔ اسی وجہ سے جہاں کہیں یہ مضمون بیان ہوا ہے وہ سَخَّرَلَکُمْ آیاہے۔
جس کے معنی یہ ہیں کہ خدا نے اُن کو تمہاری نفع رسائی میں لگادیا ہے، یہ معنیٰ نہیں کہ ان کو تمہارے تابع فرمان بنادیا ہے۔ تابع فرمان یہ صرف خدا ہی کے ہیں۔ انسان زیادہ سے زیادہ جو کچھ کرسکتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ ان چیزوں کو جن طبیعی قوانین کے ماتحت رکھا ہے ان میں سے بعض کو اپنی سائنس کے زور سے دریافت کرلے اور ان سے فائدہ اٹھاسکے۔ لیکن ان تمام قوانین کا اصل سررشتہ خداہی کے ہاتھ میں ہے، انسان اس سررشتہ پر کبھی قابو نہیں پاسکتا۔
اس سیاق میں قرآن کریم کی درج ذیل آیات قابل غور ہیں:
اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّہَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِىْ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللہُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ مَّاۗءٍ فَاَحْيَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَبَثَّ فِيْہَا مِنْ كُلِّ دَاۗبَّۃٍ۰۠ وَّتَصْرِيْفِ الرِّيٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ (البقرہ: ۱۶۴)
(بے ’’شک آسمانوں اور زمین کی خلقت، رات اور دن کی آمدوشد، اور ان کشتیوں میں جو لوگوں کے لیے سمندر میں نفع بخش سامان لے کر چلتی ہیں اور اُس پانی میں جو اللہ نے بادلوں سے اُتارا اور جس سے زمین کو اس کی موت کے بعد زندگی بخشی اور جس سے اس میں ہر قسم کے جاندار پھیلائے اور موجوں کی گردش میں اور اُن بادلوں میں جو آسمان وزمین کے درمیان مامور ہیں، اُن لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیںجو عقل سے کام لیتے ہیں۔
اَللہُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَاَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَخْرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ۰ۚ وَسَخَّــرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِيَ فِي الْبَحْرِ بِاَمْرِہٖ۰ۚ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْاَنْہٰرَ۳۲ۚ وَسَخَّــرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَاۗىِٕـبَيْنِ۰ۚ وَسَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّہَارَ۳۳ۚ (ابراہیم۳۲تا۳۳)
’’اللہ وہی تو ہے جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کے ذریعہ سے تمہاری رزق آسانی کے لیے طرح طرح کے پھل پیدا کئے۔ جس نے کشتی کو تمہارے لیے مسخر کیاکہ سمندر میں اس کے حکم سے چلے اور دریاؤں کو تمہارے لیے مسخر کیا۔‘‘
وَہُوَالَّذِيْ سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَاْكُلُوْا مِنْہُ لَحْمًا طَرِيًّا وَّتَسْتَخْرِجُوْا مِنْہُ حِلْيَۃً تَلْبَسُوْنَہَا۰ۚ وَتَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِيْہِ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۱۴ (النحل:۱۴)
’’وہی ہے جس نے تمہارے سمندر کو مسخر کررکھا ہے تاکہ تم اس سے تروتازہ گوشت لے کرکھاؤ اور اس سے زینت کی وہ چیزیں نکالو جنہیں تم پہنا کرتے ہو۔ تم دیکھتے ہو کہ کشتی سمندر کا سینہ چیرتی ہوئی چلتی ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو اور اُس کے شکر گزار بنو۔‘‘
حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام آخرت وصولت اور اوّابیت وشکر گزاری کے واقعات سے قرآن کریم کے صفحات بھرے ہیں۔ سورۂ صٓ میں، سورۂ انبیاء میں ، سورۂ نمل اور سورۂ سبا میں ان نبیوں کے مؤثر واقعات زندگی سنائے گئے ہیں۔ تاکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مخالفین کی ایذا رسانیوں پر صبر کریں اور ان نبیوں کے حالات سے تسلّی حاصل کریں۔ دوسری طرف قریش کے سرکش اور جبّار سرداروں کو تنبیہ بھی ہے کہ وہ دولت وحشمت اور قوت وجمعیت کے بل پر کسی غرور واستکبار میں مبتلا نہ ہوں۔
حضرت داؤد علیہ السلام کے بارے میں قرآن نے صراحت کی کہ وہ صبح وشام دامن کوہ میں بیٹھ کر اپنے رب کی تسبیح کرتے اور جب وہ اپنے خاص لحن میں زبور کے منظوم نغمے چھیڑتےتو پہاڑ بھی ان کی ہم نوائی کرتے اور پرندے بھی جھنڈ کے جھُنڈ جمع ہوکر اُن کے سُر میں اپنے سُرملاتے۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کے پرسوز لحن اور اُن کے درد مند دل میں ایسی تاثیر وتسخیر رکھی تھی کہ اُن کے ارد گرد کی پوری صدائے بازگشت سے گونج اٹھتی اور دشت وجبل، چرند وپرند سب توبہ ومناجات کے لیے ان کے شریک بزم بن جاتے۔(جاری)
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2013