جہاں تک کافروں اور مشرکوں کے ظاہر کا تعلق ہے اسلام نہ تو انھیں گندا قرار دیتا ہے اور نہ محض اس بنیاد پر ان سے الگ تھلگ یا دوٗر رہنے کا حکم دیتا ہے۔ اللہ کے رسولؐ اور آپ کے اصحاب کفار و مشرکین کے درمیان رہتے تھے، ان سے آپ کا ملنا جلنا رہتا تھا، وہ مسجد میں آتے تھے ، آپؐ اور آپؐ کے اصحاب ان کے برتنوں سے پینے اور وضو کرنے کے لیے پانی لیتے، ان کا بنایا ہوا کھانا کھالیتے اور ان کے تیار کیے ہوئے کپڑے پہن لیتے تھے، ایسا نہیں ہواکہ جن چیزوں پر ان کا ہاتھ لگتا ہو یا جو چیزیں ان کے بدن کے کسی حصے سے مَس ہوتی ہوں انھیں دھوئے جانے کا آپؐ نے حکم دیا ہو۔
حضرت حسنؓ بیان کرتے ہیں کہ قبیلۂ ثقیف کا وفد آیا تو اسے مسجد نبوی میں ٹھہرایا گیا۔ بعض صحابہ نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول یہ لوگ تو مشرک ہیں‘‘ (شاید ان کی مراد یہ تھی کہ ان کی وجہ سے مسجد ناپاک ہوجائے گی) آپؐ نے فرمایا:
إن الارض لا ینجّسہا شئ۔(مصنف عبدالرزاق)
(زمین اس جیسی کسی چیز سے ناپاک نہیں ہوتی)
حضرت عمران بن حصینؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر کا حال بیان کرتے ہیں کہ راستے میں ایک پڑاؤ پر پانی کی ضرورت محسوس ہوئی۔ کچھ صحابہ تلاش کے لیے نکلے۔ ایک غیر مسلم عورت پانی کے دو مشکیزوں کے ساتھ ملی۔ وہ اسے آںحضرتؐ کے پاس لے آئے۔ آپؐ نے اور تمام صحابہ نے اس سے پانی لے کر اپنی پیاس بجھائی۔ (بخاری: ۳۵۷۱،مسلم: ۶۸۲)
حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ ہم جنگوں میں رسول اللہؐ کے ساتھ رہتے تھے۔ غیرمسلموں کے کھانے پینے کے جو برتن ہمارے ہاتھ لگتے تھے انھیں ہم استعمال کرتے تھے۔ اس پر آپ ہماری کچھ نکیر نہیں کرتے تھے۔ (ابوداؤد : ۳۸۳۸)
حضرت ابوثعلبہ خشنیؓ نے ایک مرتبہ آںحضرت ؐ سے غیر مسلموں کے ان برتنوں کے بارے میں دریافت کیا، جن کے متعلق امکان ہوکہ ان میں وہ خنزیر کا گوشت پکاتے اور شراب پیتے رہے ہوں۔ آپؐ نے فرمایا کہ اگر دوسرے برتن موجود ہوں تو ان مشتبہ برتنوں کو نہ استعمال کرو، موجود نہ ہوں تو انہی کو اچھی طرح دھوکر استعمال کرسکتے ہو۔(بخاری:۵۴۹۶،مسلم:۱۹۳۰)
اس تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ مشرکین کی نجاست سے مراد عقیدہ کی خرابی ہے، نہ کہ ظاہری گندگی۔جہاں تک انسانی تعلقات اور زندگی کے عام معاملات کا سوال ہے ان میں مشرکین کے ساتھ کوئی بھیدبھاؤ نہیں رکھاگیا ہے اور کسی حال میں ایسا رویہ نہیں اختیار کیا گیا ہے، جس سے ان کے سلسلے میں نفرت اور حقارت کا اظہار ہو۔
۴- کافروں سے دوستی کی ممانعت
معترضین کی جانب سے ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ قرآن میں مسلمانوں کو دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنے سے منع کیا گیا ہے اور انھیں دشمن کہا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ دشمنوں کے بارے میں بغض و نفرت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں اور انھیں نقصان پہنچانے کی تدبیریں کی جاتی ہیں۔ اس اعتراض پر بہ طور دلیل اس طرح کی آیات پیش کی جاتی ہیں:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْکٰفِرِیْنَ أَوْلِیَآئَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِیْنَ۔(النساء : ۱۴۴)
(اے لوگو جو ایمان لائے ہو، مومنوں کو چھوڑکر کافروں کو اپنا رفیق نہ بناؤ)
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ أَوْلِیَآئَ تُلْقُونَ إِلَیْْہِم بِالْمَوَدَّۃِ وَقَدْ کَفَرُوا بِمَا جَآئَ کُم مِّنَ الْحَقِّ۔ (الممتحنہ:۱)
(اے لوگو جو ایمان لائے ہو، میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔ تم ان کے ساتھ دوستی کی طرح ڈالتے ہو، حالاںکہ جو حق تمھارے پاس آیا ہے اس کو ماننے سے وہ انکار کرچکے ہیں)
ان آیات پر ان کے صحیح تناظر میں غور کرنے کی ضرورت ہے۔
اہل ایمان سے کہا گیا ہے کہ وہ کافروں کو ’اولیائ‘ نہ بنائیں۔ اولیاء ولی کی جمع ہے۔ اس کا مادہ ’و ل ی‘ اور مصدر ’ولائ‘ ہے۔ ولاء کا مفہوم یہ ہے کہ دو یا دو سے زائد چیزیں اس طرح یکجا ہوں کہ ان کے درمیان کوئی ایسی چیز نہ ہو جو ان سے مغایر ہو۔ اسی سے استعارۃً یہ لفظ قربت کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ خواہ یہ قربت جگہ کی ہو، یا تعلق کی ، یا مذہب کی، یا دوستی، مدد اور عقیدہ کی۔ جس شخص سے مذکورہ نوعیتوں میں سے کسی نوعیت کاتعلق ہو اس کے لیے ’ولی‘ اور ’مولی‘ دونوں الفاظ مستعمل ہیں۔
لفظ ’مولی‘ کا اطلاق عربی زبان میں بہت سے لوگوں پر ہوتا ہے۔مثلاً رب، مالک، آقا، محسن، غلام آزاد کرنے والا، مددگار، محبت کرنے والا، تابع داری کرنے والا، پڑوسی، چچازاد بھائی، حلیف، جس سے عہد وپیمان ہو، قرابت دار (داماد)، غلام، آزاد کردہ غلام، جس پر احسان کیا جائے۔ علامہ ابن اثیرؒ فرماتے ہیں کہ اس لفظ کا استعمال حدیث میں ان میں سے بیش تر معانی میں ہوا ہے۔ ہرجگہ سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی معنیٰ میں آیا ہے۔(النہایۃ:۴/۲۳۱)
مذکورہ بالا آیتوں اوران جیسی دیگر آیتوں میں لفظ ’ث‘ انتہائی قربت کے معنیٰ میں آیا ہے۔ علامہ قرطبیؒ فرماتے ہیں:
أولیاء أی خاصتکم وبطانتکم منہم۔ (تفسیرقرطبی:۵/۴۲۵)
(کافروں کو اپنا ولی یعنی بہت قریبی اور رازدار نہ بناؤ)
علامہ زمخشری اس کایہ مفہوم بتاتے ہیں:
لاتتّخذوہم اولیاء تنصرونہم وتستنصرونہم وتؤاخونہم و تصافونہم وتعاشرونہم معاشرۃ المؤمنین۔ (کشاف:۱/۶۱۹)
(کافروں کو اولیاء نہ بناؤ، یعنی ان سے تمہارا معاملہ ایسا نہ ہو کہ تم ان کی مدد کرو، ان سے مدد چاہو، ان سے بھائی چارہ اور خلوص و محبت کے تعلقات رکھو اور ان کے ساتھ اس طرح گھل مل کر رہو جس طرح اہل ایمان باہم رہتے ہیں)
ان حالات کو بھی نگاہ میں رکھنا ضروری ہے جن میں مسلمانوں کو کافروں سے قربت کا تعلق رکھنے سے منع کیا گیا تھا۔ مسلمان سخت حالات سے گزر رہے تھے۔ ان کے خلاف ان کے دشمنوں نے جنگ برپا کررکھی تھی اور انھیں بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کے درپے تھے۔ یہود و نصاریٰ کا رویّہ کھلی دشمنی پر مبنی تھا۔ وہ مسلمانوں کے خلاف کافروں کا ساتھ دے رہے تھے۔ ایک تیسرا گروہ منافقین کا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو ظاہر میں اسلام کا دم بھرتے تھے اور انھوں نے خود کو مسلمانوں میں شامل کررکھا تھا، لیکن حقیقت میں وہ کافروں کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔ مسلمانوں کو کوئی کامیابی ملتی تو ان کے سینوں پر سانپ لوٹتے تھے اور انھیں کچھ نقصان پہنچتا تو خوشیاں مناتے تھے۔ یہ سارے لوگ اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی پر متحد تھے۔ ایسے حالات میں اپنے دشمنوں سے قریبی تعلق رکھنا مسلمانوں کے لیے انتہائی خطرناک تھا۔ یہ چیز دینی حیثیت سے بھی ضرر رساں تھی اور سیاسی اعتبار سے بھی۔ اسی لیے قرآن نے الگ الگ ہر گروہ کے بارے میں وضاحت سے مسلمانوں کو تاکید کی کہ ان سے ’ولایت‘ کا تعلق نہ رکھیں۔ کفّار کے بارے میں کہا:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْکٰفِرِیْنَ أَوْلِیَاء مِنْ دُوْنِِ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ (النساء : ۱۴۴)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق نہ بناؤ‘‘۔
یہود و نصاریٰ سے تعلقات کے بارے میں بھی یہی حکم دیا:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْیَہُودَ وَالنَّصَارَی أَوْلِیَآئَ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَآئَ بَعْضٍ وَمَنْ یَتَوَلَّہُم مِّنکُمْ فَإِنَّہُ مِنْہُمْ۔ (المائدۃ:۵۱)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ۔ یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انہی میں ہے‘‘۔
منافقین کے بارے میں فرمایا:
وَدُّواْ لَوْ تَکْفُرُونَ کَمَا کَفَرُواْ فَتَکُونُونَ سَوَآء فَلاَ تَتَّخِذُواْ مِنْہُمْ أَوْلِیَآء۔ (النساء : ۸۹)
’’وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح وہ خود کافر ہیں اسی طرح تم بھی کافر ہوجاؤ، تاکہ تم اور وہ سب یکساں ہوجائیں، لہٰذا ان میں سے کسی کو اپنا دوست نہ بناؤ‘‘
اس معاملہ میں قرآن نے اس حد تک تاکید کی کہ جن لوگوں کے باپ اور بھائی دائرۂ اسلام میں داخل نہیں ہوئے ہیں اور انھوں نے ایمان پر کفر کو ترجیح دی ہے، ان سے بھی قربت کا ویسا تعلق نہ رکھا جائے، جیسا کہ اہل ایمان کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔ مبادا ان کے واسطے مسلمانوں کے اسرار کفار تک نہ پہنچ جائیں:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ آبَآء کُمْ وَإِخْوَانَکُمْ أَوْلِیَآء إَنِ اسْتَحَبُّواْ الْکُفْرَ عَلَی الإِیْمَانِ وَمَن یَتَوَلَّہُم مِّنکُمْ فَأُوْلٰـئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُونَ۔ (التوبۃ: ۲۳)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بناؤ، اگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں۔ تم میں سے جو ان کو رفیق بنائیں گے وہی ظالم ہوں گے‘‘
قرآن کریم کی بعض آیات میں ان اسباب کی وضاحت کردی گئی ہے جن کی بناپر مسلمانوں کے علاوہ دوسروں سے قربت کا تعلق رکھنے سے منع کیا گیا ہے:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الَّذِیْنَ اتَّخَذُواْ دِیْنَکُمْ ہُزُواً وَلَعِباً مِّنَ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتٰبَ مِن قَبْلِکُمْ وَالْکُفَّارَ أَوْلِیَآء۔ (المائدۃ: ۵۷)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے پیش رَو اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے تمہارے دین کو مذاق اور تفریح کا سامان بنالیا ہے، انھیں اور دوسرے کافروں کو اپنا دوست اور رفیق نہ بناؤ‘‘۔
سورۂ ممتحنہ میں ہے:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ أَوْلِیَاء۔ (آیت: ۱)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ‘‘۔
اسی سورت میں آگے ہے:
إِنَّمَا یَنْہٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ قٰتَلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَأَخْرَجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ وَظَاہَرُوا عَلَی إِخْرَاجِکُمْ أَن تَوَلَّوْہُمْ وَمَن یَتَوَلَّہُمْ فَأُوْلٰئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُونَ۔ (آیت؍ ۹)
’’وہ تمھیں جس بات سے روکتا ہے وہ تو یہ ہے کہ تم ان لوگوں سے دوستی کرو جنھوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نکالا ہے اور تمہارے اخراج میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے۔ ان سے جو لوگ دوستی کریں وہی ظالم ہیں‘‘۔
پہلی آیت میں بتایا گیا کہ ان لوگوں نے تمھارے دین کو مذاق اور کھیل بنارکھا ہے، اس کے سلسلے میں وہ سنجیدگی سے کام نہیں لے رہے ہیں۔ دوسری آیت میں کہا گیا کہ وہ تمھارے دشمن ہیں اور تیسری آیت میں یہ وضاحت کی گئی کہ وہ محض دین کی وجہ سے تم سے جنگ کررہے ہیں، تمھیں تمھارے وطن سے نکالا ہے یا اس میں مدد کی ہے۔ یہ اسباب بجا طور پر اس بات کے متقاضی تھے کہ ان سے قریبی تعلق نہ رکھا جائے۔
یہی مضمون ایک دوسری آیت میں یوں مذکور ہے:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ بِطَانَۃً مِّنْ دُونِکُمْ لاَ یَأْلُوْنَکُمْ خَبَالاً وَدُّواْ مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآئُ مِنْ أَفْوَاہِہِمْ وَمَا تُخْفِیْ صُدُوْرُہُمْ أَکْبَرُ۔ (آل عمران: ۱۱۸)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنی جماعت کے لوگوں کے سوا دوسروں کو اپنا رازدار نہ بناؤ۔ وہ تمھاری خرابی کے کسی موقع سے فائدہ اٹھانے سے نہیں چوکتے۔ تمھیں جس چیز سے نقصان پہنچے وہی ان کو محبوب ہے۔ ان کے دل کا بغض ان کے منہ سے نکلا پڑتا ہے اور جو کچھ وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں وہ اس سے شدید تر ہے‘‘۔
اس آیت میں لفظ ’بطانۃ‘ کے استعمال میں بڑی بلاغت پائی جاتی ہے۔ بطانۃ کپڑے کے اندرونی حصے کو کہتے ہیں، جو جسم سے متصل ہوتا ہے۔ بہ طور استعارہ اس کا اطلاق اس شخص پر کیا جاتا ہے جسے آدمی اپنا گہرا دوست اور ہم دم وہم راز بنالے۔
اس آیت میں مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ اپنے علاوہ دوسروں سے اتنا قریبی تعلق استوار نہ کرلو کہ ان پر اپنے راز منکشف کردو۔ اس لیے کہ وہ لوگ تمھارے بہی خواہ نہیں ہیں، تمھیں نقصان پہنچانے کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور تم سے دشمنی اور نفرت ان کے رویّے سے عیاں ہے۔
قریبی تعلق سے ممانعت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مسلمانوں کو عام غیر مسلموں کے ساتھ انسانی تعلقات رکھنے سے بھی منع کیا گیا ہے، بلکہ ممانعت صرف ایسا تعلق رکھنے کی ہے جس سے اسلامی ریاست کے سیاسی و عسکری راز دشمنوں پر افشا ہوجائیں اور مسلمانوں کے مسائل میں اضافہ ہوجائے۔ یہ ممانعت صرف ان لوگوں سے ہے جو مسلمانوں کے ساتھ برسر جنگ ہوں یا ان کے دشمنوں کے مددگار بنے ہوئے ہوں۔ رہے وہ غیر مسلم جو مسلمانوں کے ساتھ مصروفِ جنگ نہ ہوں اور نہ ان کا طرز عمل عداوت اور ظلم و ستم پر مبنی ہو، ان کے ساتھ عدل و انصاف کرنے، اچھے تعلقات رکھنے اور بھلا برتاؤ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لَا یَنْہٰکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُم مِّنْدِیَارِکُمْ أَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْا إِلَیْْہِمْ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ۔(الممتحنۃ: ۸)
’’اللہ تمھیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرو، جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘۔
غیر مسلموں سے تعلقات کے سلسلے میں یہ ایک بہت اہم آیت ہے۔ اس میں دو الفاظ آئے ہیں: ’أَنْ تَبَرُّوْہُمْ‘ اور ’تُقْسِطُوْا إِلَیْْہِمْ‘۔ برّ سے مراد ہے حسن سلوک اور صلہ رحمی کرنا ۔ اس میں زیادہ حسن سلوک کرنے کا مفہوم پایا جاتا ہے (البرّ: التوسّع فی الاحسان الیہ) ]راغب[ تُقْسِطُوْا إِلَیْْہِمْ کے معنیٰ بعض مفسرین نے یہ بیان کیے ہیں کہ ان کے ساتھ عدل و انصاف کا معاملہ کرو، جب کہ بعض دیگر مفسرین اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ صلہ رحمی کے طور پر اپنے مال کا کچھ حصہ انھیں دو (ان تعطوہم قسطاً من اموالکم علی وجہ الصلۃ)[ابن العربی، ماوردی، قرطبی]
بعض مفسرین اس آیت کو منسوخ قرار دیتے ہیں، لیکن اکثر مفسرین کی رائے ہے کہ یہ آیت محکم (یعنی غیر منسوخ )ہے (وقال اکثر اہل التاویل ہی محکمۃ)
امام قرطبیؒ نے لکھا ہے:
ہذہ الآیۃ رخصۃ من اللہ تعالیٰ فی صلۃ الذین لم یعادوا المؤمنین ولم یقاتلوہم۔ (تفسیر قرطبی: ۱۸/۵۹)
’’اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان غیر مسلموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی اجازت دی ہے جنھوں نے مسلمانوں کے ساتھ دشمنی نہیں کی اور ان سے جنگ نہیں کی‘‘۔
امام رازیؒ فرماتے ہیں:
قال اہل التأویل: ہذہ الآیۃ تدلّ علی جواز البرّ بین المشرکین و المسلمین، وان کانت الموالاۃ منقطعۃ۔ (تفسیر کبیر:۸/۱۳۴)
’’مفسرین نے کہا ہے کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکوں اور مسلمانوں کے درمیان نیکی اور حسن سلوک کا معاملہ جائز ہے، اگرچہ ان کے درمیان موالات (یعنی قریبی تعلق رکھنا) ممنوع ہے‘‘۔
اس سے واضح ہوا کہ غیر مسلموں سے ہر طرح کے تعلق سے منع نہیں کیا گیا ہے، بلکہ ممانعت صرف ’ولایت‘ یعنی مخصوص قسم کے قریبی تعلق کی ہے۔ جہاں تک عام انسانی اور سماجی تعلقات رکھنے کی بات ہے وہ اس ممانعت میں داخل نہیں ہے۔
علامہ قرطبیؒ فرماتے ہیں:
الاحسان والہبۃ مستثناۃ من الولایۃ۔(تفسیرقرطبی:۸/۹۴)
’’غیر مسلموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور انھیں کچھ دینا ’ولایت‘ میں شامل نہیں ہے‘‘
امام رازیؒ نے لکھا ہے:
’’مومن کے کافر کو ’ولی‘ بنانے کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں:
(۱) وہ اس کے کفر کو پسند کرتا ہو، اس کے باوجود اس سے دوستانہ تعلقات رکھتا ہو۔
(۲) اس کو برسر باطل سمجھنے کے باوجود رشتہ داری یا قلبی تعلق کے سبب اس کی طرف مائل ہو، اس کا تعاون ، حمایت اور نصرت کرتا ہو۔
(۳) دنیاوی معاملات میں اچھے تعلقات کا اظہار کرتا ہو۔
اول الذکر دو صورتیں ممنوع ہیں، تیسری صورت ممنوع نہیں ہے‘‘۔ (تفسیرکبیر:۲/۴۵۰)
۵- مخالفوں سے لڑنے اور انھیں قتل کرنے کے احکام
معترضین کی جانب سے قرآن پر ایک بڑا، بلکہ شاید سب سے بڑا اعتراض اس کے تصور جہاد پر ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ قرآن میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ کافروں اور مشرکوں سے جنگ کریں، ان کے ساتھ سختی سے پیش آئیں، ان کے لیے گھات لگائیں اور انھیں جہاں پائیں قتل کریں۔ بہ طور دلیل یہ آیات پیش کی جاتی ہیں:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ قَاتِلُواْ الَّذِیْنَ یَلُوْنَکُم مِّنَ الْکُفَّارِ وَلْیَجِدُوْاْ فِیْکُمْ غِلْظَۃً۔ (التوبۃ: ۱۲۳)
(اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جنگ کرو ان کافروں سے جو تمھارے پاس ہیں اور چاہیے کہ وہ تمھارے اندر سختی پائیں)
فَاقْتُلُواْ الْمُشْرِکِیْنَ حَیْْثُ وَجَدتُّمُوْہُمْ وَخُذُوْہُمْ وَاحْصُرُوْہُمْ وَاقْعُدُواْ لَہُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ۔ (التوبۃ: ۵)
’’۔۔۔ تو مشرکوں کو قتل کرو جہاں پاؤ اور انہیں پکڑو اور گھیرو اور ہر گھات میں ان کی خبر لینے کیلئے بیٹھو‘‘
یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ جَاہِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْْہِمْ وَمَأْوَاہُمْ جَہَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ۔ (التحریم: ۹)
(اے نبی، کفار اور منافقین سے جہاد کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ، ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے)
قَاتِلُوہُمْ یُعَذِّبْہُمُ اللّہُ بِأَیْْدِیْکُمْ وَیُخْزِہِمْ وَیَنصُرْکُمْ عَلَیْْہِمْ وَیَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَ۔ (التوبۃ: ۱۴)
(ان سے لڑو، اللہ تمھارے ہاتھوں سے ان کو سزا دلوائے گا اور انھیں ذلیل و خوار کرے گا اور ان کے مقابلے میں تمھاری مدد کرے گا اور بہت سے مومنوں کے دل ٹھنڈے کرے گا)
قَاتِلُواْ الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُونَ بِاللّٰہِ وَلاَ بِالْیَوْمِ الآخِرِ وَلاَ یُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللّہُ وَرَسُولُہُ وَلاَ یَدِیْنُونَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتٰبَ حَتَّی یُعْطُواْ الْجِزْیَۃَ عَن یَدٍ وَہُمْ صٰغِرُونَ۔ (التوبۃ: ۲۹)
’’جنگ کرو اہل کتاب میں سے ان لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روز آخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے۔ (ان سے لڑو) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں‘‘
اس طرح کی آیات پیش کرکے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ جب تک یہ آیات موجود ہیں اس وقت تک مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان بقائے باہم ممکن نہیں۔
یہ غلط فہمی درحقیقت جنگ کے بارے میں قرآن کے احکام و تعلیمات کو صحیح تناظر میں نہ دیکھنے اور متعلقہ آیات کو ان کے سیاق و سباق سے ہٹاکر پڑھنے کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ اس موضوع پر متعدد پہلوؤں سے غور کرنے کی ضرورت ہے:
(الف) اسلام جبر واکراہ کا مخالف ہے۔ قرآن میں یہ بات بہت زور دے کر کہی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے سامنے حق و اضح کردیا ہے، ساتھ ہی انھیں ارادہ و اختیار کی آزادی بخشی ہے کہ وہ چاہیں تو اسے قبول کرکے دائرۂ اسلام میں آجائیں اور چاہیں تو کفر کی روش پر قائم رہیں:
إِنَّا ہَدَیْنٰـہُ السَّبِیْلَ إِمَّا شَاکِراً وَإِمَّا کَفُوراً۔ (الدھر: ۳)
’’ہم نے اسے راستہ دکھادیا، خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا‘‘
وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّکُمْ فَمَن شَآئَ فَلْیُؤْمِنْ وَمَن شَآئَ فَلْیَکْفُرْ۔ (الکہف: ۲۹)
’’صاف کہہ دو کہ یہ حق ہے تمھارے رب کی طرف سے۔ اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کردے‘‘۔
(ب) جب مسلمانوں کو حد سے زیادہ ستایا جانے لگا تب انھیں اجازت دی گئی کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا جواب دے سکتے ہیں:
أُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرٌ۔ الَّذِیْنَ أُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ بِغَیْرِ حَقِ إِلَّا أَنْ یَّقُولُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ۔ (الحج:۳۹۔۴۰)
’’اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے، کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے، صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے: ہمارا رب اللہ ہے‘‘
اسلامی تاریخ شاہد ہے کہ جنگ کا آغاز مسلمانوں نے نہیں کیا تھا، بلکہ جنگ ان پر تھوپی گئی تھی۔ دشمنوں کا منصوبہ تھا کہ مسلمانوں کو، جو ابھی کم زور ہیں، ابتدائی مرحلے ہی میں کچل دیں اور شمعِ اسلام کو اپنی پھونکوں سے گُل کردیں۔ اس صورتحال میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ ان کا منہ توڑ جواب دیں اور ان کے منصوبوں کو خاک میں ملادیں، لیکن اس وقت بھی انھیں تاکید کی گئی کہ ان کے ساتھ جتنی زیادتی کی گئی ہے اتنا ہی بدلہ لیں، حد سے تجاوز نہ کریں:
وَقَاتِلُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُونَکُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّہَ لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ۔ (البقرۃ: ۱۹۰)
’’اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں، مگر زیادتی نہ کرو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔
(ج) قرآن کریم میں مذکور آیاتِ قتال کاتعلق عام حالات سے نہیں ہے، بلکہ ان میں دورانِ جنگ کے سلسلے کی ہدایات دی گئی ہیں۔ جب کسی گروہ سے جنگ برپا ہو تو میدانِ جنگ میں ایک فریق دوسرے فریق کے ساتھ کوئی روٗرعایت نہیں برتتا، بلکہ ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے مخالف کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچائے اور اس کے افراد کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں قتل کرکے اس کی فوجی طاقت پارہ پارہ کردے۔ اس موقع پر کسی کم زوری اور نرمی کا مظاہرہ خود اپنے کو ہلاکت میں ڈالنے کے مثل ہے۔
(د) جنگ ایک ناپسندیدہ لیکن ناگزیر صورت حال ہے۔ مختلف مذاہب میں اس کے بارے میں احکام پائے جاتے ہیں۔ جن مذاہب میں جنگ سے متعلق کسی طرح کی تعلیم نہیں ملتی ان کے پیرووں کو بھی مختلف مواقع پر جنگ کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ مذہبی کتابوں میں جنگ سے متعلق احکام و قوانین ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کا تعلق دشمن قوم کے ساتھ عام برتاؤ سے ہے، بلکہ ظاہر ہے کہ ان میں جنگ کی مخصوص صورت حال کا بیان ہے۔ مثال کے طور پر ذیل میں ہندو مت کی مذہبی کتابوں کے چند حوالے دیے جاتے ہیں:
’’اے اِندر، ہم کو بہادرانہ سطوت عطا کر، آزمودہ کاری اور اس روز افزوں قوت کے ساتھ، جو مال غنیمت حاصل کرتی ہے۔ تیری مدد سے ہم جنگ میں اپنے دشمنوں کو مغلوب کریں، چاہے وہ اپنے ہوں یا پرائے، ہم ہر دشمن پر فتح مند ہوں۔ اے بہادر، ہم تیری مدد سے دونوں قسم کے دشمنوں کو قتل کرکے خوش حال ہوں، بڑی دولت کے ساتھ‘‘۔ (رِگ وید:۶:۱:۸۔۱۳)
’’اے اگنی، ہماری مزاحمت کرنے والی جماعتوں کو مغلوب کر، ہمارے دشمنوں کو بھگادے۔ اے اجیت، دیوتاؤں کو نہ ماننے والے حریفوں کو قتل کر اور اپنے پجاری کو عظمت و شوکت نصیب کر‘‘۔ (یجروید:۹:۳۷)
’’اے مینو، طاقت ور سے زیادہ طاقت ور ہوکر ادھر آ اور اپنے غضب سے ہمارے تمام دشمنوں کو ہلاک کردے، دشمنوں اور ورتیروں اور دسیوں کو قتل کرنے والے۔ تو ہمارے پاس ہر قسم کی دولت اور خزانے لا‘‘۔ (اتھروید:۴:۳۲:۱۔۳)
بھاگوت گیتا کا تو موضوع ہی جنگ ہے۔ یہ در اصل کرشن جی کے اس طویل اپدیش پر مشتمل ہے جو انھوں نے پانڈوؤں کے سردار ارجن کو، جنگ پر ابھارنے اور لڑنے کی ترغیب دینے کیلئے دیا تھا۔
(ہ) ایک چیز یہ بھی ملحوظ رکھنے کی ہے کہ ان آیات کا خطاب اسلامی ریاست اور اس کی فوج سے ہے۔ قرآن نے تمام مسلمانوں کو کھلی چھوٹ نہیں دے دی ہے کہ وہ جب چاہیں اور جہاں چاہیں غیر مسلموں کو قتل کردیں، بلکہ اسلامی ریاست سے دشمنی رکھنے والے غیر مسلموں سے جنگ کا فیصلہ کرنے کا اختیار صرف سربراہِ ریاست کو ہے۔ اسی کو طے کرنا ہے کہ جنگ کی جائے یا نہیں؟ اور کی جائے تو کب اور کیسے؟ رعایا پر ہر حال میں اس کی اطاعت لازم ہے۔ علامہ ابن قدامہؒ نے لکھا ہے:
امر الجہاد مو کول الی الامام واجتہادہ ویلزم الرعیّۃ طاعتہ فیما یراہ من ذلک۔(المغنی:۸/۳۵۲)
’’جہاد کا معاملہ سربراہِ ریاست کے ذمّے ہے۔ وہی اس کا فیصلہ کرے گا اور رعایا پر اس کے فیصلے کو تسلیم کرنا لازم ہے‘‘۔
اسی طرح جس قوم سے جنگ ہورہی ہو اس کے صرف ان افراد کو قتل کرنے کی اجازت دی گئی ہے جو جنگ میں عملاً حصہ لے رہے ہوں، یا اس کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ غیر متعلق لوگوں سے تعرّض کرنے اور انھیں نشانہ بنانے سے منع کیا گیا ہے۔ حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا:
ولا تقتلوا شیخاً فانیاً ولا طفلاً ولا صغیراً ولا امراۃً۔(ابوداؤد:۲۶۱۴)
’’اور نہ قتل کرو کسی بوڑھے کھوسٹ کو، کسی بچے کو، کسی کم سن کو اور کسی عورت کو‘‘
قرآن کریم پر کیے جانے والے جملہ اعتراضات جذباتی نوعیت کے ہیں۔ ان کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کے جذبات بھڑکانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے لیے قرآن کے مختلف مقامات سے کچھ آیتیں منتخب کرلی جاتی ہیں اور انھیں سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کیا جاتا ہے اور ان کے من مانے مفہوم بیان کیے جاتے ہیں۔اگر ان آیات کا مطالعہ ان کے سیاق میں کیا جائے اور ان حالات کو بھی پیش نظر رکھا جائے جن میں وہ نازل ہوئی تھیں تو کوئی اعتراض وارد نہیں ہوگا، بلکہ پڑھنے والے پر قرآن مجید کی معقولیت آشکارا ہوگی۔
مشمولہ: شمارہ جولائی 2013