موجودہ دور میں ملک میں عمومی پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں نے اپنے آٹھ سو سالہ دور اقتدار میں ہزار ہا ہندو مندر توڑے۔ قومی میڈیا نے اس پروپیگنڈے کو گھر گھر پہنچا دیا ہے۔ جس میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد اور شدت آگئی ہے۔ اِس کی آڑ میں آج بنارس کی گیان واپی جامع مسجد، متھرا کی شاہی عیدگاہ اور دوسری مساجد (ومزارات) فرقہ پرستوں کے نشانہ پر ہیں۔ عدلیہ کے رویے سے بھی لوگ مطمئن نہیں ہیں۔ فرقہ پرست قوتیں کہتی ہیں کہ مسلم سلاطین نے مندر توڑ کر ہندو سائکی کو مجروح کیا، اُس کی تذلیل کی اور اس تذلیل اور ٹراما سے قوم کو نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ ایسے تمام مندروں کو دوبارہ واگزار کرا دیا جائے جن کو توڑا گیا تھا اور ہندوؤں کی عظیم تہذیب (سبھیتا)کو زندہ کیا جائے۔
حالاں کہ تاریخ داں بتاتے ہیں کہ قدیم عہد کے ہندو تاریخ کے بڑے راج گھرانوں چولا، چولکیا، پلّوا کے حکم رانوں، سری لنکا اور بنگال، مدورائی اور چانڈیلا اور اڑیسہ کے سیاسی خانوادوں کی باہمی لڑائیوں میں ایک دوسرے کے مندروں کو توڑنا، حریف کی من پسند مورتی کی جگہ اپنی پسند کی مورتی نصب کردینا یا مورتیاں اٹھا لے جانا ایک عام روایت تھی۔ اس لیے مسلم سلاطین کے ذریعے مندروں کو توڑنے سے ہندو سائکی پر کوئی عمومی منفی اثر تو نہیں پڑا ہوگا۔ البتہ مسلمان چوں کہ بیرونی حملہ آور تھے اس لیے ان کی فتوحات سے اور بعض مسلم حکم رانوں کی شدت پسندی کے مظاہرے سے ہوسکتا ہے کہ شروع میں دونوں قوموں کے مابین تنافر پیدا ہوا ہو۔ یہ صحیح ہے کہ مندر توڑنے کے کچھ واقعات ان کی طرف منسوب کیے جاتے ہیں، مگر مسلم سلاطین کی یہ کوئی عمومی پالیسی نہ تھی بلکہ اگر ایسا ہوا بھی تو وہ بعض معروضی اسباب کے تحت ہوا۔ اس مضمون میں مختصرًا ہم اسی بات کا جائزہ لیں گے۔
ہند میں باقاعدہ مسلم سلطنت غزنوی اور غوری کی فتوحات کے ذریعے قائم ہوئی۔ دہلی سلطنت پر مختلف خاندانوں کی حکومتیں قائم رہیں اس کے بعد سن1347ء میں علاء الدین اسماعیل گنگو بہمن نے دہلی سلطنت سے الگ ہوکر جنوبی ہند میں بہمنی سلطنت کی بنا ڈالی جو دو صدیوں تک قائم رہی۔ بعد میں یہ سلطنت مختلف چھوٹی ریاستوں میں بنٹ گئی جن میں بیجاپور، احمدنگر، برار، بیدر اور گولکنڈہ کی سلطنتیں مشہور ہیں۔ مغل سلطنت نے ان میں سے اکثر کا خاتمہ کردیا تھا۔ ان کے علاوہ اٹھارویں صدی کی ابتدا میں عہد مغلیہ کی ایک مدبر و فرزانہ شخصیت نظام الملک آصف جاہ نے 1720 میں مملکت آصفیہ کی تاسیس کی جس کا پایہ تخت حیدرآباد تھا۔ [1]
مستشرقین نے عمومی طور پر تمام علوم اسلامیہ کو اپنے مطالعہ وتحقیق کی جولان گاہ بنایا ہے۔ جن میں قرآن، حدیث، فقہ و سیرت و تاریخ کے علاوہ اشاعت اسلام کے موضوع پر بھی انھوں نے مطالعات کیے ہیں۔ اس سلسلے میں تھامس واکر آرنولڈ کا نام بہت معروف ہے اور بر صغیر میں اشاعت اسلام کی تاریخ میں ان کی کتاب ‘‘پریچنگ آف اسلام یا اسلام کی دعوت’’ ایک ناگزیر علمی حوالہ بن چکی ہے جوکہ اس سلسلہ کا نقش اول تھی۔ [2]آرنولڈ اپنے شاگرد علامہ اقبال کی عظمتوں کے معترف تھے چناں چہ انھوں نے اقبال کے بارے میں کہا: ‘‘ہندوستان میں حرکتِ تجدید نے اپنا ممتاز ترین ظہور سر محمد اقبال کی شاعری میں حاصل کیا ہے‘‘[3] آرنولڈ جب علی گڑھ میں تھے توان سے مولانا شبلی نے بھی استفادہ کیا اور انھوں نے شبلی سے۔ علی گڑھ میں اِس کتاب کے چرچے تھے البتہ بعض حلقوں میں اس کتاب کے خلاف ردعمل بھی تھا۔ [4]
مستشرق رچرڈ ایم ایٹن بھی ہندی اسلام کے مختلف پہلوؤں کے مطالعہ کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ان کا مختصر تعارف یہ ہے :
رچرڈ میکس ویل ایٹن (عمر 82 سال) امریکی تاریخ دان ہیںجو گرینڈ ریپڈس، مشی گن، ریاستہائے متحدہ میں 8 دسمبر 1940 کو پیدا ہوئے یونیورسٹی آف وسکانسن، میڈیسن، ورجینیا یونیورسٹی، دی کالج آف ووسٹر میں تعلیم پائی۔ ان کی درج ذیل تصنیفات معروف ہیں:
- The Rise of Islam and the Bengal
- Essays on Islam and Indian History
- A social History of Daccan
- India in the Persianate
- Age Sufis of Bijapur
وہ ایریزونا یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر ہیں۔ انھوں نے جیسا کہ گزرا 1800 سے پہلے کے ہندوستان کی تاریخ کے حوالے سے کئی قابل ذکر کتابیں لکھی ہیں۔ صوفیاکے معاشرتی کردار اور عہد متوسط کے ہندوستان کی ثقافتی تاریخ پر تحقیقی کام کا سہرا ان کے سرہے۔ [5] اگلی سطور میں ہم انھیں دونوں خاص مستشرقین تھامس واکر آرنولڈ اور رچرڈ ایم ایٹن کے خصوصی حوالہ سے اس بات پر روشنی ڈالیں گے کہ مسلمانوں کے ذریعے کئی ہزار مندروں کو توڑنے کا جو پروپیگنڈا کیاجارہا ہے اس کی کیا حقیقت ہے۔
اپنی کتاب‘‘پریچنگ آف اسلام’’ کے آغاز میں پروفیسر آرنولڈ بتاتے ہیں کہ ‘‘ہندوستان میں اسلام کی دعوت پر تاریخ میں الگ سے کچھ نہیں لکھا گیا۔ کیوں کہ مؤرخین عمومی طور پر جو تصویر پیش کرتے ہیں وہ یہی ہے کہ ہند میں اشاعت اسلام کا مفہوم ہے کہ مسلمانوں نے فتوحات کے بعد اپنی مملکت قائم کی اور ان کے جانشینوں نے اس کو قائم رکھا۔ یعنی ان کی تلوار ہی اسلام کی اشاعت کا بھی سبب بنی جس کے لیے محمود غزنوی کے حملے، اس کے برہمنوں کے قتل عام، اورنگ زیب عالمگیر، حیدر علی اور ٹیپو کے ذریعے غیر مسلم مفتوحین کیpersecutionکی مثال پیش کی جاتی ہے۔ [6] لیکن آرنولڈ سوال اٹھاتے ہیں کہ جو فاتحین آئے ان کی ذریت اور ان کے ساتھ ترک وطن کرنے والے سپاہی وغیرہ بہت کم تھے جو زیادہ تر سلطنت کے انتظام اور اس کی بقا کی جدوجہد میں لگے رہے، تو آخر بر صغیر میں کروڑوں کی تعداد میں مسلمان کہاں سے آئے؟ صرف حملہ آوروں کی نسل تو ہونے سے رہی۔ اس سوال کے جواب میں انھوں نے اپنی یہ تصنیف لکھی، وہ کہتے ہیں کہ: ‘‘ ان مسلمانوں کی اکثریت جو اپنے آپ کو غیر ملکی مسلم القاب شیخ، بیگ، خان اور حتی کہ سید سے بھی موسوم کرتی ہے ان کی اکثریت مقامی مذہب تبدیل کرنے والوں کی تھی جنھوں نے مختلف وجوہات کے تحت اپنے آپ کو مسلمان اشرافیہ سے وابستہ کرلیا تھا۔’’[7] اِن میں سے بعض لوگوں نے تو جبراً یا مصلحتاً مذہب تبدیل کیاہوگا [8]گر زیادہ تر اسلام میں خود اپنی مرضی سے داخل ہوئے۔ [9] وہ مزید کہتے ہیں: ہندوستانی مسلمانوں نے یا یوروپی مصنفوں نے ملک کی جو تاریخ لکھی ہے وہ صرف جنگوں، خوںریز مہموں اور بادشاہوں کے کارناموں پر مشتمل ہے۔ مذہبی زندگی کا بیان یہاں کم ہی ملتا ہے جس کی کچھ جھلکیاں ہم کو صوفی مشائخ کے تذکروں و سوانح سے مترشح ہوتی ہیں۔ [10] موجودہ زمانے میں شیخ محمد اکرام نے اپنے سلسلہ کوثریات، اور مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ نے تاریخ دعوت وعزیمت اور عزیز احمد نے ہند کی اسلامی ثقافت پر اپنی وقیع کتاب میں اور خلیق احمد نظامی نے تاریخ مشائخ چشت میں صوفیا کی دعوتی مساعی کو آشکارا کیا ہے۔
بابر کی وصیت
مغل سلطنت کے بانی بابر نے اپنی وفات کے وقت اپنے جانشین ہمایوں کو جو وصیت کی تھی اس میں ہندو رعایا کی دل جوئی کا خاص خیال رکھا تھا۔ اس کا متن یہ ہے:
”بیٹا، ہندوستان میں مختلف مذاہب کے ماننے والے رہتے ہیں۔ الحمد للہ تمھیں یہ سلطنت دی گئی ہے۔ اپنے دل سے تعصب نکال کر انصاف کرو۔ خاص طور پر گائے کی قربانی سے منع کرو۔ اس سے تمھیں لوگوں کے دل جیتنے میں مدد ملے گی اور وہ سلطنت کے قریب آجائیں گے۔ “
”سلطنت میں عبادت گاہوں کو نہ گراؤ۔ اس حد تک غیر جانب دار رہو کہ لوگ اپنے شہنشاہ کی تعریف کریں اور تم بھی ان سے راضی ہو جاؤ۔ اسلام تلوار سے نہیں بلکہ گرم جوشی سے کام یاب ہو گا۔ “ (بحوالہ رفیق زکریا: What Went Wrong With Indian Muslims, P 9)
دکن میں اسلام
آرنولڈ لکھتے ہیں: ”دکن میں بھی بہت سے مسلمان داعیوں نے کام یاب دعوتی کوشش کی۔ یہ معلوم ہے کہ عرب تاجر ہند کے مغربی ساحلی شہروں میں آتے جاتے تھے۔ انھوں نے کونکن کے علاقوں میں شادیاں بھی کیں۔ بہمنی مسلم حکم رانوں(1347-1490) اور بیجاپورکے سلطانوں(1489-1686)کے زمانہ میں دکن میں مزید عرب تارکین وطن آئے۔ تاجروں اور سپاہیوں کے ساتھ ہی مبلغین اور داعی بھی آئے۔ انھوں نے تبلیغ اور عملی نمونہ سے دکن کے غیر مسلموں کے دلوں میں جگہ بنائی۔ کیوں کہ ہمارے پاس اس بات کا کوئی رکارڈ موجود نہیں کہ ان سلطنتوں کے عہد میں جبریہ مذہب تبدیل کرایا گیا ہو کہ یہ حکمراں خاندان بڑے روادار اور مسامحت پسند تھے۔“[11]
ضمنًا یہاں یہ تبصرہ بھی مناسب ہوگا کہ بر صغیر اور دکن میں اشاعت اسلام کے بارے میں آرنولڈ نے کئی جگہ رواروی میں یہ بات دہرادی ہے کہ محمود غزنوی نے مندر توڑے اور زبردستی لوگوں کو مسلمان بنایا۔ اسی طرح دوسرے مؤرخوں کی طرح وہ بھی اورنگ زیب عالمگیر، حیدر علی اور سلطان ٹیپوکے بارے میں یہی الزام بار بار لگاتے ہیں اور لکھتے ہیں:[12]
“Thus the missionary spirit of Islam is supposed to show itself in its true light in the brutal massacres of Brahmans by Mahmud of Ghazna, in the persecutions of Aurangzeb, the forcible circumcisions effected by Haydar Ali, Tipu Sultan and the like”.(The Preaching of Islam,Page 193)
(اس طرح اسلام کا مشنری جذبہ اپنی حقیقی روشنی میں غزنی کے محمود کے ذریعے برہمنوں کے وحشیانہ قتل عام میں، اورنگ زیب کے ظلم و ستم میں حیدر علی اور سلطان ٹیپوکے ذریعے جبری ختنوں وغیرہ میں ظاہر ہونا خیال کیا جاتا ہے۔ صفحہ 193)
اس کے لیے انھوں نے تاریخ فرشتہ کا حوالہ دیا ہے۔ مگر آرنولڈ اس مسئلہ سے زیادہ بحث نہیں کرتے۔ حالاں کہ اِن تینوں حکم رانوں پر اس قسم کے الزامات کا پورا تجزیہ کرنا ضروری ہے۔
سلطان ٹیپوکے سلسلے میں جبراً مسلمان بنانے کے لیے آرنولڈ نے مالابارکے باغی ہندوؤں کے نام سلطان کا فرمان نقل کیا ہے۔ مگر خود اس فرمان کے تجزیہ سے ہی یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ سلطان کا اصل منشا اِن باغیوں کو جبراً مسلمان بنانا نہیں بلکہ ان کو مطیع فرمان بنانا اور عورتوں کے تعلق سے جو ان میں انتہائی غیر انسانی اور تہذیب سے گری ہوئی رسمیں جاری تھیں ان کا خاتمہ کرنا تھا۔ ان لوگوں میں رواج تھا کہ اگر کسی گھر میں دس بھائی ہوتے تو ان میں صرف بڑا بھائی شادی کرتا اور باقی سب اس کی بیوی پر اپنا حق سمجھتے۔ اسی طرح ماؤں اور بہنوں کو نیم عریاں رکھا جاتا، ان کو شوہر کی چتا کے ساتھ زبردستی جلا دیا جاتا وغیرہ۔ ان بری رسموں سے خواتین کو نجات دلانے اور ان باغیوں کو مطیع فرمان بنانے کے لیے سلطان نے بار بار کی مصالحانہ و مصلحانہ کوششوں کی ناکامی کے بعد ایک فرمان جاری کیا تھا جس کا خلاصہ یہ ہے :
“تم لوگ باربار کی بغاوت اور عورتوں کے ساتھ ایسے بیہمانہ سلوک سے جس سے آپ سب لوگ ولد الزنا قرار پائیں مسلسل فہمائش کے بعد بھی باز نہیں آتے۔ اگر تم لوگ اب بھی اپنے کرتوتوں سے باز نہیں آئے تو میں تم سب کو اسیر بنا کر سری رنگا پٹم لے جاؤں گا اور سب کو مسلمان بنالیا جائے گا”۔ [13]
یہ ایک بغاوت کا مخصوص کیس ہے اور اس سے کوئی عمومی نتیجہ نکالنا درست نہ ہوگا۔ اسی طرح اورنگ زیب عالمگیر کی مہمات وغیرہ اور بعض مندروں کو توڑنا بھی مخصوص کیس ہیں جن کو درست پس منظر میں دیکھنا ضروری ہے۔ (ملاحظہ کیجیے اورنگ زیب عالمگیرکے فرامین، پنڈٹ بشمبر ناتھ پانڈے، اردو ترجمہ مولانا عطاء الرحمن قاسمی )
رچرڈایٹن کی ایک کتاب ہندوستان میں ہندو مندروں کے انہدام کے بارے میں ہے۔ Desecration of Temples in Muslim Indiaاِس میں انھوں نے بتایا ہے کہ محمد بن قاسم سے لے کر اخیر مغلیہ عہد تک تقریبا اسی (۸۰) مندر ڈھائے گئے۔ کس سلطان یا حاکم کے زمانہ میں کس ریاست اور کس پرگنہ میں اور کب یہ تباہ کیے گئے اس کا تفصیلی چارٹ انھوں نے دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مندروں کایہ انہدام خالصتاً سیاسی وجوہ سے ہوا مذہبی اغراض کے لیے نہیں۔ لہٰذا ہزاروں مندروں کے انہدام کی بات تو بالکل غلط اور خالصتا منفی پروپیگنڈا ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ کئی مندر مغل سلاطین کی نگرانی و سرپرستی میں تعمیر بھی کیے گئے تھے۔ (علاوہ ازیں اورنگ زیب نے بنارس کے کئی مندروں کو جاگیریں دیں۔ سلطان ٹیپو نے اپنی مملکت میں مندروں کا خاص خیال رکھا)۔ ان کے مطابق:
یہ ہندوستان میں عام ٹرینڈ تھا کہ بادشاہ یا راجہ مہاراجہ جس دوسرے راجا مہاراجا پر حملہ کرتے اور اس کو شکست دے دیتے تھے تو مفتوح راجہ کے بنائے ہوئے مندر توڑ دیتے تھے یا ان کی مورتیوں کو اٹھا لیتے اور ان کی جگہ اپنی من پسند مورتی لگوا دیتے۔
ایک مذہب دوسرے مذہب کی تمام مذہبی علامتوں کو مٹا دیتا تھا چناں چہ یہاں جب بودھ مغلوب ہوئے اور ان کی جگہ ویدک دھرم نے دوبارہ اپنا تسلط جمایا تو انھوں نے بودھوں کے مٹھوں کو بہت بڑے پیمانے پر ختم کردیا۔ ایک ہندو مہاراجہ پشیامترا (185ق م تا149ق م نے تقریبًا 84000 بودھ اسٹوپا(معبد)توڑ دیے تھے۔
حریف آرمی مندر میں پناہ لے لیتی تھی اور ان کو مرکز بنا کر لڑتی تھی تو دوران جنگ قلعہ کے ساتھ مندر بھی مسمار کر دیا جاتا یا جلا دیا جاتا۔
مندروں میں بڑی دولت و ثروت ہوتی تھی جس کی لوٹ کے لیے مندر پر حملہ کیا جاتا اور اکثر اس کونقصان پہنچایا جاتا۔ (ملاحظہ ہو تاریخ فرشتہ اردو ترجمہ جلدچہارم ص 381)
تو مسلم سلاطین نے اگر مندروں کو توڑا ہے تو ایسا کر کے وہ کسی اسلامی مذہبی حکم کی تعمیل نہیں کررہے تھے (کیوں کہ اسلام میں ایسا کوئی حکم نہیں ہے) بلکہ انھوں نے ان مندروں کو توڑا جو حریف (شکست خوردہ ) راجا مہاراجہ کی سرپرستی میں تھے اور ان کے اقتدار کی علامت سمجھے جاتے تھے۔ اس طرح انھوں نے مذہبی حکم کی نہیں بلکہ ماضی کے ہندو راجاؤں کی تقلید کی تھی۔ [14]
سلطان محمود غزنوی نے بار بار ہندوستان پر حملے کیے۔ اس کی بت شکنی اور ہندوؤں کے قتل عام کا جو پروپیگنڈا کیا جاتا ہے اگر ان کو درست تناظر میں دیکھا جائے تو اس پروپیگنڈے کی بھی ہوا نکل جاتی ہے جیسا کہ مشہور و ممتاز مؤرخ رومیلا تھاپر نے سومناتھ مندر پر اپنی کتاب میں محمود کے حملوں اور بت شکنی کے واقعات کا تجزیہ کرکے ثابت کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سومناتھ پر حملہ اور بت کا توڑا جانا اس عہد کا کوئی غیر معمولی واقعہ نہ تھا کیوں کہ معاصر پالی، پراکرت اور سنسکرت لٹریچر میں اس کا کوئی خصوصی تذکرہ نہیں ملتا جب کہ مفتوح قوم کو توvictimhoodکی نفسیات کے تحت اس کا چرچا زیادہ کرنا چاہیے تھا۔ یہ تو بعد کے درباری مؤرخین ہیں جنھوں نے عربی و فارسی تاریخوں میں نمک مرچ لگا کر اپنی فخر پسند نفسیات کو تسکین دینے کے لیے اس کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ [15] (مثلًا تاریخ فرشتہ کے بیانات، تاریخ فرشتہ جلد چہارم ص۴۰۹ ) اور آج ہندوتو کے احیائیت پسند مؤرخین اس کو زیادہ سے زیادہ نمایاں کرکے ہندو مسلم منافرت کو زیادہ ہوا دے رہے ہیں۔
رچرڈایٹن نے اپنے مطالعہ میں ثابت کیا کہ بر صغیر میں اسلام تلوارکے زور پر نہیں پھیلا بلکہ صوفیائے کرام کے ذریعے پھیلا۔ انھوں نے یہ بھی ثابت کیا کہ صوفیا بھی بالقصد دعوت و تبلیغ کا ہدف نہیں رکھتے تھے بلکہ ان کے ذریعے زیادہ تر اشاعت اسلام کا کام بالواسطہ اور غیر محسوس طور پر ہوا یعنی اسلام تصوف کا ضمنی حاصل (By Product)ہے۔
عہد متوسط کے متعلق مصنفین و مؤرخین عموماً بتاتے ہیں کہ فاتحین اور مسلم بادشاہوں کے رویوں میں جو شدت تھی اور اس سے عام لوگوں میں اسلام سے جو تنفر تھا اور جو دوری تھی اس دوری کو مٹانے کی کوشش صوفیائے کرام نے کی اور اس شدت کو کم کیا۔ یعنی تصوف اسلام کی شان جمالی کا اظہار تھا۔ اسلامی ہند پر اہم لکھنے والوں جیسے عزیز احمد، خلیق احمد نظامی، ایچ کے شیروانی، تاراچند، یوسف حسین خان اور تھامس واکر آرنولڈ، محمد مجیب اور احمد رشید وغیرہ کی کتابیں بھی اسی خیال کااظہار کرتی ہیں۔ صوفیا کے ذریعے نچلی ذات کے ہندو، صفائی کرنے والے اور کپڑے بننے والے طبقات نے اسلام قبول کیا اور صوفیا نے الیٹ مسلمانوں کے برعکس ان کے ساتھ انسانی اور مساویانہ سلوک کیا۔ واضح رہے کہ مسلم حکمراں اور امرا بھی مسلم غیر مسلم سے قطع نظر معاشرہ کی اشرافیہ اور اراذل کی جاہلی تقسم کو روا رکھے ہوئے تھے۔
رچرڈ ایٹن لکھتے ہیں: ‘‘(میرا) استدلال یہ ہے کہ فوک لٹریچرکے دونوں ذرائع یعنی صوفیا کے ذریعے لکھے گئے عوامی رسالوں اور درگاہوں دونوں نے مل کر عقیدت پر مبنی عوامی اسلام کی تشکیل کی۔ جس سے نان الیٹ طبقے اور خاص کر خواتین اور عام لوگ تصوف کے قریب آئے۔ سترہویں صدی سے شروع ہونے والا یہ رجحان آج بھی موجود ہے۔ چناں چہ درگاہوں پر خواتین زائر زیادہ آتی ہیں۔ تاہم واضح رہے کہ جیسے عیسائی مشنری ہوتے ہیں اسی طرح سے صوفیا کو اسلامی مشنریاں یا پیشہ ور مبلغین نہیں شمار کرسکتے۔ کیوں کہ صوفیا نے کبھی بھی منصوبہ بند طریقہ سے دعوت وتبلیغ کا کام نہیں کیا جیسے کہ مسیحی مشنری کرتے ہیں۔ (بعض اکا دکا مثالیں استثنائی ہوسکتی ہیں، مضمون نگار) بیجاپورکے صوفیا کے حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ صوفیا کی کشف و کرامات سے متاثر ہوکر نان الیٹ اور خاص کر خواتین، مزدور و دستکار مختلف صوفیاء کے ارادت مند ہو جاتے تھے۔ بعض لوگ باقاعدہ بیعت بھی ہوتے تھے۔ ان کی تبدیلیٔ مذہب کوconversionنہیں کہا جائے گا۔ بلکہ اپنے صوفی شیخ کے استرشاد میں آنے سے وہ بتدریج اسلام کے رنگ میں رنگ جاتے مگر اپنے رہنے سہنے، پہننے اوڑھنے اور کھانے پینے کے قدیم طریقوں کو برقرار رکھتے اور وقت گزرتے ان کو اسلامی تہذیبی روایات کا حصہ بنالیتے۔ یوں صوفیا کی درگاہوں اور مزارات نے عام لوگوں کو اسلام کے دامن میں لانے میں غیر محسوس طور پر ایک بڑا کارنامہ انجام دیا۔[16]
اس طرح مستشرقین کے مطالعات یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچا دیتے ہیں کہ بر صغیر میں اشاعت اسلام میں تلوار کا اور فتوحات کا حصہ بہت کم رہا ہے۔ اس سلسلے میں عرب تاجروں کی دعوت اور صوفیائے کرام کی بالواسطہ اصلاحی و دعوتی مساعی نے ہی اصل کردار ادا کیا۔ اور اگر تاریخ میں جبری تبدیلیٔ مذہب کے اکا دکا واقعات کہیں ملتے بھی ہیں تو ان کی حیثیت استثنائی واقعات کی ہے۔ اور اس طریقہ پر جو لوگ مسلمان ہو بھی جاتے تھے وہ حالات کا جبر ختم ہونے پر جلد ہی اپنے سابقہ مذہب کی طرف لوٹ جاتے تھے۔[17] البتہ ابتدائی عرب مسلم غازیوں نے جہاں بھی حملہ کیا انھوں نے جنگ سے پہلے حریف کے سامنے قبول اسلام کرکے اپنے بھائی بن جانے کا آپشن بھی پیش کیا۔ اِس کو جبراً اسلام قبول کروانا نہیں کہا جا سکتا یہ تو اسلام کے آئین جنگ کا لازمی حصہ ہے۔ [18]
بہر کیف یہ دونوں مستشرقین اس بات پر متفق ہیں کہ دکن میں خصوصاً اور پورے ملک میں عموماً اشاعت اسلام کا کام صوفیائے کرام کے ذریعے انجام پایا۔ یقینًا بعض صوفیاء نے جہاد بھی کیا اور شہادت بھی پائی، مگر ان کے جہاد کی نوعیت صرف دفاعی تھی یعنی وہ جن علاقوں میں اپنے پیرو مرشد کی ایما پر گئے وہاں کے حکام اور راجاؤں نے ان کو رہنے کی اجازت نہ دی اور ان کے کام میں مزاحم ہوئے تو ان سے جہاد کی نوبت آگئی۔ جیسے سید ابراہیم شہید جو مدینہ سے آئے تھے اور پانڈیا حکم رانوں سے ان کی جنگ ہوئی تھی، یہاں تک کہ ایک علاقہ پر انھوں نے بارہ سال تک اپنا اقتدار بھی قائم رکھا مگر بالآخر راجہ کے مقابلہ میں شہید ہوگئے۔[19]ورنہ زیادہ تر صوفیانے اپنے بالواسطہ طریقۂ دعوت اور صلح کل کے طریقوں سے کام لے کر عام لوگوں کو یعنی سماج کے دبے کچلے لوگوں، غریبوں، اچھوتوں اور شودروں کو اپنے سے قریب کیا۔ انھوں نے فقہا کی سی شدت نہیں دکھائی بلکہ عملی معاملات میں بہت زیادہ لچک دکھائی جس میں بہت دفعہ غلو بھی ہوا اور کفر و اسلام کا فرق بھی مٹتا ہوا سا محسوس ہوا بہرحال ان بالواسطہ طریقوں نے زیادہ بڑے پیمانے پر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ اور سلاطین کے ذریعے اسلام کو جبری قبولوانا محض ایک پروپیگنڈا ہے جو تاریخ کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتا۔
حواشی وحوالے:
[1] مولانا مودودی، تاریخ دولت آصفیہ، یہ کتاب عمومی معنوں میں تاریخ نہیں ہے البتہ اِس میں اورنگ زیب عالمگیر کے بعد سلطنت مغلیہ کی ابتری اور دولت آصفیہ کے قیام کے اسباب پر اچھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ مطبوعہ فرید بک ڈپو نئی دہلی۔
[2] تاریخ دعوت وعزیمت کے مصنف مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ نے اس کتاب کو بہت پسند کیا ہے۔ آرنولڈ اقبال کے بھی استاد تھے اور اقبال نے اپنے اس استاد کی یاد میں ایک نظم لکھی بعنوان : نالہ ٔفراق
ا بسا مغرب میں آخر اے مکاں تیرا مکیں آہ مشرق کی پسندآئی نہ اس کو سر زمیںآ گیا آج اس صداقت کا مرے دل کو یقیں ظلمت شب سے ضیائے روزِ فرقت کم نہیںکلیات اقبال ص 105 خصوصی ایڈیشن،اقبال اکادمی پاکستان لاہور طبع1990
[3] ایضًاص ۱۱
[4] ملاحظہ ہو مولاناامین احسن اصلاحی دیباچہ تفسیر نظام القرآن جس میں انھوں نے مولانا حمیدالدین فراہی کا یہ تاثر نقل کیا ہے کہ وہ اس کتاب کو مسلمانوں کے اندر سے جذبہ جہاد کوختم کرنے کی بساط کا ایک مہرہ سمجھتے تھے: ص ۱۱،طبع دائرہ حمیدیہ فروری 2009
[5] رچرڈایٹن کی ایک کتاب ہندوستان میں ہندو مندروں کے انہدام کے بارے میں ہے۔ Desecration of Temples in Muslim India
اس کتاب کا خلاصہ معروف انگریزی تجزیاتی مجلے Front Line نے دوقسطوں میں شایع کیا تھا: جس کا عنوان تھا
: Temple Destruction in Pre-modern India Issue 22 December 2000
[6] The Preaching of Islam Page 193
[7] Census of India 1891 General report by J.A Baines P.167 London 1893 -7 اور ایضًا صفحہ 126
[8] ص 194 پریچنگ آف اسلام
[9] (ایضًاص194)
[10] (ایضًاص194)
[11] ایضًا
[12] پروفیسر آرنولڈ، پروفیسر آف عربک یونیورسٹی آف لنڈن، یونیورسٹی کالج، پریچنگ آف اسلام Second Edition Revised. London Constable & Company Ltd 1913
[13] ایضًا
[14] رچرڈایٹنEssay on Islam and Indiaص190
[15] ملاحظہ ہو: رومیلا تھاپر
Somnath, The many Voices of a History Penguin Books
[16] رچرڈایٹن Essay on Islam and Indiaص190
[17] چناں چہ محمود غزنوی نے جب بلند شہر پر حملہ کیا تو وہاں کے راجہ ہری دت نے دس ہزار لوگوں کے ساتھ اسلام قبول کرلیا مگر بعد میں وہ اپنے سابقہ مذہب کی طرف لوٹ گیا، ملاحظہ ہو: پریچنگ آف اسلام ص195
[18] مثال کے طورپر جارج ایلیٹ نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ محمد بن قاسم نے حملہ سے پہلے ہندو راجہ کو قبول اسلام کی دعوت دی اور بعد کے فاتحین نے بھی ایسا ہی کیا(جلداص175-207)۔
[19] شیخ محمد اکرام،آب کوثرص 354
مشمولہ: شمارہ مارچ 2024