اللہ رب العالمین نے بنی نوعِ انساں کی تخلیق میں ہی یہ خوبی ودیعت کی کہ انسان تنہا زندگی بسر نہیں کرسکتا۔فطرت انسانی سب کے تعامل واشتراک کی محتاج ہے۔اسی فطرت کے نتیجے میں انسان، انسانوں سے باہم جڑتے ہیں توانسانی سماج بنتا ہے۔ایک مضبوط اورمثالی سماج میں سب ایک دوسرے کی ضرورتوں کوپورا کرتے ہیں،ان کے خدمت گاربنتے ہیں،اورایک دوسرے کے حقوق ادا کرتے ہیں۔سب سے اہم بات یہ کہ زمین پرمخلوقات جب ایک دوسرے کی مددگار بنتی ہے تو گویا اللہ کی صفت رحمت کا ظہور ہوتا ہے۔کائنات میں انسانوں کے علاوہ دیگرمخلوقات بھی باہمی تعاون و تعامل کے ذریعہ اپنی ذمہ داریاں وحقوق ادا کررہی ہیں۔یہی خوبی،کائنات کے نظام کوخوبصورت اور متوازن رکھتی ہے ۔
بارش کے برسنے پرغورکریں،سورج ،دریا، سمندر،بادل، ہوائیں،درخت ،سب آپس میں ایک دوسرے کی مدد کررہے ہیں۔ان کا باہمی تعاون سارے نظام کواستحکام بخشتا ہے۔آگ کے جلنے میں ہوا مددگارہے۔چاند کے چمکنے میں سورج اپنا تعاون پیش کرتا ہے۔بادلوں کو چلانے میں ہوائیں خدمت کے لیے حاضرہیں۔شہد کی مکھیوں کے لیے پھول اور پتے وسیلہ بنے ہوئے ہیں۔ زمین کومضبوط بنانے میں پہاڑسہارا دے رہے ہیں ۔الغرض کائنات کی تنظیم کا انحصار تعاون اور ایک دوسرے کے حق کوادا کرنے سے جڑا ہوا نظرآئے گا، ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کا جذبہ،ماحول اور فضا کو سازگار بنائے رکھتا ہے۔ کائنات کا نظم وضبط، استحکام ،خوبصورتی،اورامن وعافیت کا رازاسی میں مضمر ہے ۔
محلہ کے ہم سایوں کے حقوق ادا کرنے میں مردوں کی بہ نسبت خواتین بہتر رول انجام دے سکتی ہیں۔مرد تودن بھرباہرہوتے ہیں اوران کا زیادہ ترواسطہ ہم سائے کی اس قسم سے ہوتا ہے جوآفس، اسکول اورجاب کے جگہوں پرساتھ رہتے ہیں۔خواتین زیادہ وقت گھرپرگزارتی ہے،اس لیے محلہ کے ہم سایوں سے حسن سلوک کرکے خوب ثواب کما سکتی ہیں ۔
خواتین کی جانب سے ہم سایوں کو تحفہ
تحفہ دینے سے محبت بڑھتی ہے۔تحفے سے متعلق یہ تصورنہ رہے کہ کوئی قیمتی چیزہی دی جائے۔کھانے پینے کی چیزوں کی صورت میں بھی تحفہ ہوسکتا ہے۔اس میں بھی یہ لازم نہیں کہ بہترین پکوان ہی دیا جائے۔بلکہ اپنے دسترخوان پرجومیسرہواس میں سے پڑوسی کا حق نکال دینا چاہیے۔آپؐ نے فرمایا:کہ اے مسلمان عورتو! اپنی پڑوسن کے یہاں بھیجنے کے لیے کوئی چیزحقیرنہ سمجھو اگرچہ بکری کا ایک کھرہی کیوں نہ ہو۔(بخاری)۔
آپ جب بھی کھانا بنائیں اپنے ہم سائے کا خیال ضروررکھیں۔اس غرض سے شوربے میں اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ سالن کی لذت متاثرہوگی لیکن برکت بڑھ جائے گی۔ پیارے نبیؐ نےفرمایا:”تم لوگ شوربہ پکاؤتواس میں کچھ زیادہ پانی ڈال کر شوربے کو بڑھاؤ اوراس طرح پڑوسیوں کا خیال رکھو۔“(مسلم)۔
غیرمسلم ہم سایوں کوبھی ان کی پسند کا تحفہ بھیجنا چاہیے۔کھانے کی چیزوں میں پھل وغیرہ جوبھی ان کی پسند کا کھانا ہو،بھیجنے کا اہتمام کریں۔قدیم مدنی معاشرہ میں مسلمانوں اوریہودیوں کے درمیان اختلافات تھے،لیکن پڑوسی کے حق کا خیال تفریق مذہب وملت سے بالاترتھا ۔
حضرت عبداللہ بن عمروؓ کے یہاں ایک بکری ذبح کی گئی ،وہ گھرتشریف لائے توانہوں نے اہلیہ سے دریافت کیا :کیا تم نے ہمارے یہودی پڑوسی کے یہاں گوشت ہدیہ میں بھیجا ؟ (ابوداؤد ،ترمذی)
ہم سایوں سے اشیاء ضروریہ کا لین دین
ضرورت کی اشیاء دینے سے بھی ایک دوسرے کی مدد ہوتی ہے۔سورہ ماعون میں فرمایا گیا: (وَیمْنَعُونَ الْمَاعُونَ تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جومعمولی ضرورت کی چیزیں دینے سے گریزکرتے ہیں) اکثرمفسرین کا خیال یہ ہے کہ ماعون کا اطلاق ان تمام چھوٹی چھوٹی چیزوں پر ہوتا ہے جو عادتاً ہم سائے ایک دوسرے سے مانگتے رہتے ہیں۔ان کا مانگنا کوئی ذلت کی بات نہیں ہوتا،کیونکہ غریب اورامیر سب ہی کوکسی نہ کسی وقت ان کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے۔
پڑوس میں کسی کے فوت ہوجانے پر اس گھرکےافرادغمزدہ ہوتے ہیں۔ ایسے میں ان کی دل جوئی کے لیے طرح طرح کے سامان کرنے کا موقع ہوتا ہے۔پڑوس میں ضرورت کا سامان اپنے گھرسے پہنچانا یا ان کے مہمانوں کے لیے چائےاور کھانے کا نظم کرنا بھی ہم سایوں کا حق ہے۔گھرمیں درختوں پر پھل لگے ہوں توان پر پہلا حق ہم سائے کا بھی ہے۔
ہم سایوں سے باخبر رہنا
کوئی ہمسایہ بیمارہو،پڑوس کی کوئی عورت حاملہ ہو ،کسی کا بچہ بیمارہو،کسی کی بیٹی کا رشتہ طے ہونے میں دشواریاں ہوں یاکسی کے گھرساس بہو کے درمیان مسائل ہوں،خواتین اپنے ہم سایوں کے ان مسائل كوحل کرنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ دعاؤں میں بھی ان کو شامل رکھے۔
مسلم وغیرمسلم سبھی ہم سایوں کے حق میں سب سے اہم دعا ان کی ہدایت ونجات کی دعا ہے۔جس طرح ہم اپنے رشتے داروں کے لیے آخرت کی کامیابی، جہنم سے نجات اورجنت میں جانے کی فکر اوردعا کرتے ہیں اسی طرح اپنے مسلم وغیرمسلم ہم سایوں کے لیے بھی ہماری یہ فکرمندی ہونی چاہیے۔ ہم سایوں کے لیے زندگی میں وہی حقوق ہیں جووارثین کےلیے ہیں، تو یقیناً ہماری دعاؤں پر بھی ہم سائے کا حق ہے ۔
ہم سایوں کے بچوں کا حق
زندگی معنویت سے بھرپور ہوتی ہے جب آپ معاشرتی زندگی سے وابستہ احباب کے مسائل کواپنے مسائل کی طرح محسوس کرتے ہیں ۔اگرمعلوم ہوجاے کہ ہمسایہ كا بچہ کسی مضمون میں کمزورہے اورآپ كو،اس مضمون میں مہارت ہوتو فوراً کچھ وقت اس کو پڑھانے کے لیے فارغ کردیں۔یقینا مسلم وغیرمسلم ہم سائے کے بچے كے لیے یہ فکرمندی دلوں كی دنیا كو متاثركرے گی۔ محلے کے بچوں کے ساتھ تفریحی وعلمی محفل سجانابھی ایک اچھا عمل ہے۔كسی كشادہ گھرمیں جمع ہوكرہفتے میں ایک دن بچے اپنی پسند کی چیزیں نظم،کہانی لطیفےوغیرہ پیش کریں۔ کوئی ایک خاتون ان بچوں کی مینٹر بنیں۔ایسی محفلوں کا اختتام چاکلیٹوں اور بسکٹوں سے ہوتوکیا کہنے ۔
ہم سایوں کے مشکل وقتوں میں ساتھ دینا
زنانہ مسائل سے اکثرخواتین ایک دوسرے کو باخبرکرتی ہیں۔ایسے میں باہم تعاون پیش کرنا ایک اخلاقی فریضہ ہے۔اگرہم سائےکی خاتون حاملہ ہوتواس کے ساتھ ہسپتال جانا،اس کو حوصلہ دینا اور ضرورت کے ہرموقع پراس کے ساتھ کھڑے رہنا آس پڑوس کی خواتین کی ذمہ داری ہے ۔
کسی کے گھرکوئی ناگہانی آفت آجائے توفوراً ہم سائے کے گھر پہنچ کرمعاملہ جاننا چاہیے،ایسے اوقات میں لاتعلقی اورغفلت برتنا درست نہیں ہے۔مسلمان کوتو اسلام کا نمونہ ہونا چاہئے۔
اگرکوئی پڑوسن اپنے شوہرکے قرض کا ذکرکریں تواس کواس مسئلہ سے نجات کے لیے بہترمشورہ دینا،قرض اورغموں سے نجات کی دعا سکھانا، حتی المقدور قرض ادا کرنے میں مدد کرنا بھی بھلائی کا ذریعہ اورہم سائے کا حق ہے ۔خواتین ہم سائے کی مدد کا جذبہ اپنے بچوں میں بھی پیدا کریں ۔رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے اپنے بچوں کوآگاہ کریں ۔اس طرح ماؤں کے ساتھ ساتھ بچے بھی پڑوسی کے حقوق ادا کرنے میں شریک رہیں گے۔
ہم سائے کو اذیت نہ دیں
اپنے محلہ کوصاف ستھرا رکھنا بھی ہم سایوں کا حق ہے۔کسی ہم سائے کو گھرکے اطراف کچرا پھیلانے کی عادت ہوتوبجائے نوک جھونک کے خواتین بچوں کے ذریعہ یا گھرکی کام والی وغیرہ سے صفائی کروادے ۔ایک فرد محلے کی صفائی کا بیڑا اٹھالے تودیکھتے دیکھتے سب کے اندر یہ جذبہ بیدار ہونے لگتاہے۔ہم سایوں کو تکلیف دینے سے ہمیشہ بچنا چاہیے۔محلے میں مختلف تقریبات کا شور،گھر کے سامنے گاڑی وغیرہ پارک کردینا،یا ہم سائے کے گھر میں جھانکنا،ایسےتمام کام باعث اذیت ہوتے ہیں۔ احادیث میں ان کاموں کی سخت ممانعت آئی ہے۔ لیکن اگر کسی ہم سائے کی عادت اس طرح تکلیف دینے کی ہوتوبجائےغصہ ہونے اورلعن طعن کرنے کےاس پرصبرکرنا بھی ہم سائے کےحقوق میں شامل ہے۔
امام غزالی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: یاد رکھو! حقِ پڑوس صرف یہ نہیں کہ پڑوسی کوتکلیف پہنچانے سے اجتناب کیاجائے، بلکہ پڑوسی کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف کو برداشت کرنا بھی حقِ پڑوس میں شامل ہے (احیاء العلوم)
مکی دورمیں ابولہب اورعقبہ بن ابی معیط حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوسی تھے جوآپ کے دونوں طرف آباد تھےاورانہوں نے شرارتوں کی انتہا کی ہوئی تھی ، اذیت دینے کے لیے غلاظت کے ڈھیر حضورؐ کے دروازے پر ڈال دیتے،آپ جب باہر نکلتے تو خود اس غلاظت کوراستے سے ہٹاتے اور صرف اتنا فرماتے:”اے عبد مناف کے بیٹو! یہ تم کیا کررہے ہو؟کیا یہی حق ہمسائیگی ہے “(طبقات ابن سعد ،ج1،ص201)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے آنحضرتﷺ سے کہا: یا رسول اللہ! فلاں عورت بہت زیادہ نوافل پڑھتی ہے،نفل روزے بھی بہت رکھتی ہے اورخوب صدقہ کرتی ہے ،لیکن اپنی زبان درازی سے پڑوسیوں کو ستاتی ہے ،ارشاد فرمایا وہ جہنم میں جائے گی ۔پھر کہا یا رسول اللہ فلاں عورت کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ بہت کم نفلی روزے رکھتی ہے اور کم نفلی نمازیں پڑھتی ہے، اوروہ سکھائے ہوئے دودھ کے چند چھوٹے ٹکڑے بس خیرات کرتی ہے،مگر اپنی زبان سے پڑوسی کو دکھ نہیں پہنچاتی ،ارشاد فرمایا: ”وہ جنت میں جائے گی۔‘‘(احمد ،بزار،ابن حبان )
سچی بات یہ ہے کہ سماج کے اندرایک پڑوسی کی کڑی دوسرے پڑوسی سے جڑتی ہے تب سماج بنتا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ ان روشن تعلیمات کے ذریعہ تبدیلی آئے۔
لطف تو جب ہے کہ کردار بھی کروٹ بدلے
ورنہ جذبے تولیا کرتے ہیں انگڑائی بہت
عارضی ہم سایوں کے حقوق
گھرکے باہرنکلیں توکچھ لوگوں کا ساتھ میسرآ جاتا ہے۔اسی طرح ملازمت وتجارت میں بھی مختلف لوگوں کا ساتھ ملتا ہے۔ ایسے عارضی ساتھ والوں کا شمار بھی ہم سائے میں ہے۔خواتین سے متعلق یہ بات مشہور ہے کہ وہ جلد دوستی کرلیتی ہیں ۔چنانچہ ملازمت کرنے والی خواتین اپنی ہم پیشہ خواتین کے ساتھ نہ صرف وقتی دوستی رکھیں بلکہ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں ان کا حق بھی ہم سایوں کی طرح ادا کریں۔
ٹرین یا بس میں سفر کرتے ہوئے جہاں تک ہوسکے نشست کے انتخاب میں ہم سائے کی پسند کو فوقیت دی جائے۔ کھانا کھاتے وقت اپنے سفر کے ساتھیوں کی راحت کا خیال رکھیں۔ اگرغیرمسلم ساتھ ہوں تو خیال رہے کہ ہماری غذا میں شامل کسی چیز سے ان کو تکلیف نہ پہنچے۔ پانی کی حاجت ہویا کوئی اور دشواری ہوہرحال میں اپنے سفر کے ساتھیوں کا بھرپورخیال رکھنا چاہیے۔واش روم كی صفائی،فون كی آوازاور بچوں کے شوروغل پرکنٹرول کرنےکا خاص دھیان رکھیں ،تاکہ سفرکے ساتھیوں کو تکلیف نہ ہو۔خواتین اپنے بچوں میں بھی یہ شعور پیدا كریں۔
ہاسٹل کی طالبات اپنی تعلیم کے زمانے میں ایک ساتھ رہتی ہیں ۔ان کے اندر ہم سایوں کے حقوق کا شعورضروری ہے ۔ایک ہی رہائش گاہ میں رہنے والی طالبات کے لیےان کی ساری ساتھی ہمسایہ ہیں،جن کے حقوق کی ادائیگی بہترطریقے سے ہونی چاہیے ۔دور جدید میں ہم سایوں کی ناقدری اور ان کے حقوق سے غفلت اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے ۔ایسے ماحول میں دورحاضرکی تحریکی خواتین کی حق ہمسائیگی کی روشن مثالیں ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
تحریکی خواتین کی روشن مثالیں
(۱) ایک تحریکی خاتون ڈاکٹرعذرا بتول پیشے سے ڈاکٹرتھیں،پیشے کے ساتھیوں اورہم سایوں کے ساتھ ان کا رویہ بہت عمدہ تھا ۔ڈاکٹر عذرا کے انتقال کے بعد ان کے ساتھیوں اورہم سایوں نے ان کے بارے میں اپنے اچھے جذبات کا اظہارکیا ہے۔اس کی مختصرسی جھلک ملاحظہ فرمائیں:۔
بحیثیت ساتھی ڈاکٹرکے میرے ساتھ ان کا برتاؤ بالکل ایسا تھا جیسا کہ ایک بڑی بہن کا ایک چھوٹے بھائی کے ساتھ ہوتا ہے۔میرا ان کے ساتھ کام کرنے کا عرصہ تقریباً ساڑھے چھ سال کا ہے اوراس دوران مجھے ان کی زبان اوررویہ سے کبھی کوئی ہلکی سی بھی شکایت نہیں ہوئی ۔بلکہ میں اپنے بہت سے گھریلومسائل انکے ساتھ ڈسکس کرلیا کرتا تھا ۔انکی وفات کے بعد مجھے کچھ معاملات میں یوں محسوس ہوا جیسے میرے اپنے گھرکا ایک فرد مجھ سے جدا ہوگیا ہے۔
ڈاکٹرعذرا کی ایک پڑوسن کہتی ہیں:
میں غالباً آٹھویں جماعت میں تھی جب سنا کہ ہمارے محلے میں نئے لوگ آئے ہیں۔جب میری اس گھرانے سے واقفیت بڑھی تواس گھرکا ماحول اوراس کے مکین مجھے الگ تھلگ سے نظر آئے۔کچھ حیرت بھی ہوئی کہ اس طرح کے لوگ اورگھرانے بھی ہوتے ہیں ،جن میں اسلام ایک چلتی پھرتی صورت میں نظر آتا ہے۔ پھراس گھر کےمکینوں سے میری محبت بڑھتی چلی گئی ۔ہرفرد سے ایک خاص پیارمحبت کا تعلق قائم ہوگیا ۔ڈاکٹرعذرا تقریباً میری ہم عمرتھیں۔اس لیے ان سے زیادہ تعلق تھا۔میراجب دل کرتا اٹھ کران کے گھر چل پڑتی،عذرا کبھی صحن میں ہوتیں اورکبھی کچن میں۔ میں سیدھی ان کے پاس چلی جاتی۔ میں نے دین کا صحیح مفہوم ان سے ہی سیکھا اوراسے عملی زندگی میں نافذ کیسے کرنا یہ سب کچھ انھوں نے سکھایا۔(کتاب ڈاکٹر عذرا بتول ،سعادت کی زندگی شہادت کی موت)
(۲)سن 1945 میں۱یک تحریکی بہن حلقہ کو اپنی ماہانہ رپورٹ ارسال کرتی ہیں :
عید سے پیشترآس پڑوس کے چند ضرورت مندوں کومیں نے تبلیغ مقاصد کی خاطرتقریباً ایک درجن کپڑے سی کردیے۔ میری ایک پڑوسن جس کومطالعہ کا شوق ہے روزانہ مجھ سے اسلامی کتابیں لے کر پڑھتی ہے۔ جتنا اسلامی لٹریچر میرے پاس ہے اس نے تقریباً پڑھ لیا ہے ۔میں اپنی ایک اور پڑوسن کی لڑکی کو حسب سابق گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ روزانہ فارسی ،انگریزی وغیرہ پڑھا رہی ہوں(روداد جماعت اسلامی حصہ چہارم)۔
(۳) سن1947 ایک دوسری بہن کی رپورٹ جوحلقہ کوارسال کی گئی:
گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے میں بیماررہی ہوں اورکوئی کام نہ کرسکی تاہم اتفاقی طورسے جوکچھ ہوگیا وہ ارسال کررہی ہوں۔ میری پڑوسن لیڈی (ایس ٹی ای) کی بہنیں قرآن شریف اورمیری اپنی بھاوج مجھ سے فارسی پڑھتی رہیں اورساتھ ہی ساتھ کچھ اردو میں اسلامی کتابیں بھی ۔ان کے علاوہ ہمارے ہم سائے کا ایک لڑکا مجھ سے انگریزی پڑھتا ہے ۔وہ اس مضمون میں کمزورتھا اوراس کی ماں نے خواہش کی تھی کہ کچھ مدد کروں،میں نے حق ہمسائیگی ادا کرنے کے لیے اس کو غنیمت جانا ۔اب اس سے متاثرہوکر تقریباً سارا گھرانہ دین حق کی طرف مائل ہورہا ہے۔حالانکہ ان کی حالت یہ تھی کہ پورے گھرمیں نمازروزے یا کسی اور طریقے سے اسلام کا نام و نشان تک نہ تھا۔ایك دن بچہ کی ماں كی زبانی پتہ چلا کہ ان کے میاں پڑھنے کے شوقین ہے۔ میں نےانھیں تنقیحات اورکچھ پمفلٹ پڑھنے کے لیے دیے ۔انھوں نے ساری پڑھ ڈالی اور مزید پڑھنے کے لیے کتابیں مانگیں ۔
خدا کا شکر ہےکہ اب یہ باہرسے کتابیں خرید کر پڑھنے لگے ہیں ۔اوریہ معلوم کرکے انتہائی خوشی ہوئی کہ اس رمضان بچوں کے سوا گھر کے سب افراد نے روزہ رکھا اورکچھ دنوں سے نمازیں بھی پڑھنے لگے ہیں۔آگے لکھتی ہیں :۔’’دو وطنی بہنیں بھی میرے خیالات سے متاثرہوئیں لیکن یہ کام ایک مہینے میں نہیں ہوا بلکہ چارپانچ ماہ کی مسلسل توجہ اورتالیف قلب کی کوششوں سے ان میں سے تعصب کسی حد تک دورہوا ہے۔ایک تو ذرا دورکی ہمسائی ہےاوردوسری بالکل قریب کی بلکہ ہمارے ہی مکان کے دوسرے حصے میں رہتی ہیں۔میں ان کے بچوں کی پڑھائی کے سلسلہ میں بھی کبھی کبھی مدد دیتی ہوں۔ (روداد جماعت اسلامی حصہ پنجم )۔
ہماری والدہ: مثالی پڑوسن
ہماری والدہ حورجہاں انجم،آکوٹ مہاراشٹرسے تعلق رکھتی تھیں۔ہم نے بچپن میں ہمیشہ امی کے اطراف پڑوس کی خواتین کا ہجوم دیکھا۔محلے کے سارے بچوں کوامی قرآن پڑھایا کرتیں،دعائیں یاد کرواتیں ،مغرب کے بعد ہمارے گھرمیں بچوں کا ہجوم رہتا اورگھر کے باہربچوں کے قرآن پڑھنے کی آوازیں سنائی دیتیں ۔
امی کی عادت تھی کہ اگر پڑوس سے کسی کے حاملہ ہونے کی خبرمل جائے توایك رشتہ داركی طرح خیال ركھتیں، ضرورت ہوتوہسپتال ساتھ جاتیں،اکثرصبح کے اوقات میں ہم بھائی بہنیں ابو سے پوچھتے کہ امی کہاں گئیں نظرنہیں آرہی،ابو کہتے تمہاری امی رات دوبجے کسی پڑوسن کواسپتال لے کرگئی ہیں۔ آکوٹ کی سینیرلیڈی ڈاکٹر”وینا كیلہ“ امی کی دوست بن گئی تھیں،کیونکہ آئے دن امی محلہ بھرکی خواتین کے ساتھ اسپتال میں حاضر رہتی تھیں۔ماہ رمضان میں ہمارے گھرکے بڑے صحن میں مغرب سے ہی چٹائیاں بچھادی جاتیں۔نماز تراویح کے لیے محلے کی ساری خواتین جمع ہوتیں اورامی سب کو نمازپڑھاتیں۔ معمول تھا كہ ہمارے گھركے دسترخوان پرایک پلیٹ ہم سائے کی ہوتی،امی فوراً پلیٹ میں سبزی ڈال کراس پردوسری پلیٹ ڈھانک کرکہتیں ممتاز،صابرہ کے گھردے آؤ۔گرمیوں کے دنوں میں اچاراورمربے پورے محلے کے لیے ہمارے گھرمیں تیارہوتے۔ امی اچارکے مرتبان سے اچارنکال کرہم کو دوردورتک بھجواتیں کہ فلاں آنٹی کو دے آنا ۔وہ کسی کو نہیں بھولتی تھیں ۔
اس زمانے میں صرف ہمارے گھرمیں ہی فون ہواکرتا تھا ،محلے بھرکے فون ہمارے یہاں آتے،امی سب کے گھرہم بچوں کودوڑایا کرتیں کہ ہم سائے کے گھرکہہ آؤ کہ فلاں کا فون آیا ہے۔لوگ بلا تکلف ہمارے گھر آتے اور جاتے۔ ہمارے گھرکے پیچھے ہندوہم سائے رہائش پذیرتھے ۔ان کے ساتھ ہماری امی کا تعلق ایسا تھا کہ مختلف تہواروں میں پھولوں کی ضرورت ہوتی تو ہمارے صحن میں رکھے گملوں سے بلا تکلف پھول چن کرلے جایا کرتیں۔
1992 کے فسادات کے دوران کچے گھروں میں رہنے والے ہم سائے پریشان ہوئے توامی خود جاکران کی خواتین اور بچوں کو ہمارے گھر لے آئیں اورتین دن تک ہمارے گھرسب کے لیے بڑی سی دیگ میں کھانا بنتا رہا۔حق ہمسائیگی کہ یہ چند جھلکیاں ہے۔ دورجدید میں یہ حسین روایتیں پھرسے زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔معاشرہ کے باہم مربوط ہونے کا سب سے آسان طریقہ یہی ہے کہ انسان اپنے پڑوسی سے گہرا تعلق رکھے ۔
مشمولہ: شمارہ نومبر 2025






