حضرت آدم علیہ السلام کھیتی باڑی کرتے تھے۔ حضرت داؤد علیہ السلام لوہار کاکام کرتے تھے۔ حضرت ادریس علیہ السلام کپڑے سیا کرتے تھے ۔حضرت موسی علیہ السلام بکریاں چراتے تھے اور حضرت محمد ﷺ پیشۂ تجارت سے منسلک ہونے سے پہلے بکریاں چرایاکرتے تھے ۔ غرض ہر نبی کسی نہ کسی صنعت وحرفت سے منسلک تھے ۔ نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام ؓکی اسی طرح تربیت فرمائی ۔ ایک صحابی آپ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے اور امداد طلب کی ۔ آپ ؐ نے سائل سے پوچھا کہ ان کے پاس کیا موجود ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ان کے پاس ٹاٹ کا ایک ٹکڑا ہے ، جس کے ایک حصے کو بچھاتے ہیں اور دوسرے حصے کو اوڑھتے ہیں اور ملکیت میں ایک پیالہ بھی ہے جس میں وہ پانی پیتے ہیں ۔ نبی کریم ﷺ نے وہ ٹاٹ اور پیالہ منگوایا ، پھر خود بولی لگاکر دو درہم میں فروخت کیا ۔ ایک درہم گھر کے خرچ (کھانے پینے ) کے لیے عطا فرمایا ، اور دوسرے سے کلہاڑی خرید کر لانے کی ہدایت فرمائی ، نیز کلہاڑی لانے پر اپنے دست مبارک سے دستہ لگایا اور فرمایا کہ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاؤ ، اور بیچو ، پندرہ دن سے پہلے میرے پاس نہ آنا ،پندرہ دن بعد وہ صحابی ؓ حاضر خدمت ہوئے اور بتایا کہ دس درہم آمدنی ہوئی ہے ، جس سے کپڑے خریدے اور غلہ مول لیا، تونبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ تمہارے لئے اس سے بہتر ہے کہ تم قیامت کے دن بھیک مانگنے کی وجہ سے داغ والے چہرے سے آؤ۔ (سنن ابی داؤد :۱۶۴۳، ضعفہ الالبانی )
گداگری سے نفرت پیدا کرنے کی خاطر رسول اکرم ﷺ نے مختلف مواقع پرالگ الگ اسالیب میں نصیحت فرمائی ہے ۔حجۃ الوداع کے موقع پر آپ ؐمال تقسیم فرمارہے تھے کہ دو حضرات صف میں شامل ہوگئے ، آپ نے ان کی طرف نظر اٹھاکر دیکھا تو وہ تنومند اور تندرست معلوم ہوئے ۔ آپ ؐنے فرمایا : اگر تم چاہو تو میں اس میں سے تم دونوں کودے سکتا ہوں ، لیکن صاحب حیثیت ، تندرست اور کام کرنے کے قابل لوگوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے۔( سنن ابی داؤد:۱۶۳۵)
حضرت قبیصہ ؓ مقروض ہوگئے تھے ۔ وہ اپنی ضرورت لے کر خدمت نبوی میں حاضر ہوئے۔ آپ ؐنے ان کی مالی مدد کرنے کے بعد ارشاد فرمایا : اے قبیصہؓ ! سوال کرنا اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا صرف تین اشخاص کو روا ہے ۔ ایک اس شخص کو جو قرض کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہو، لیکن ضرورت پوری ہوجانے پر مانگنے سے رک جائے ۔ دوسرا وہ جس پر ایسی ناگہانی مصیبت آپڑے جو اس کا تمام مالی سرمایہ برباد کردے ،وہ حالت کسی قدر درست ہونے تک مانگ سکتا ہے۔ تیسرا وہ شخص جو فقر وفاقہ میں مبتلاہو ، اور محلے کے تین معتبر آدمی اس بات کی گواہی دیں کہ اسے ( حقیقت میں ) فقروفاقہ لاحق ہے ، ان کے علاوہ جو کوئی مانگ کر کھاتا ہے وہ حرام کھاتا ہے۔ ( صحیح مسلم : ۲۴۵۱)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کو ایسی تعلیم دی کہ وہ بلا ضرورت دست سوال دراز کرنے سے دور رہیں ۔ خودداری ،اور غیرت کی زندگی گزارنے کی ہرممکن کوشش کریں ، کسی پر بوجھ نہ بنیں ، لوگوں کے صدقات وخیرات کی طرف نظر نہ اٹھائیں ، صاحب حیثیت بظاہر ان لوگوں کو دیکھ کر یہ سمجھ لیں کہ یہ سب بے نیاز لوگ ہیں، جیساکہ قرآ ن کریم اس کی منظر کشی کرتا ہے :یَحْسَبُھُمُ الْجَاھِلُ اَغْنِیَآئَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُھُمْ بِسِیْمٰھُمْ لَا یَسْئَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا (سورۃ البقرۃ :۲۷۳) ترجمہ : ’’یہاں تک کہ نہ مانگنے کی وجہ سے ناواقف شخص اُن کو غنی ( مالدار ، صاحب حیثیت ) خیال کرتا ہے اور تم چہرے سے اُن کو صاف پہچان لو گے (کہ حاجتمند ہیں اور شرم کے سبب) لوگوں سے چمٹ کر نہیں مانگتے ‘‘۔
مذکورہ صورت حال میں اگر کوئی شخص بوڑھاپے کی عمر کو پہنچ گیا ہو لیکن اتنا کمزور نہیں ہے کہ کسب معاش نہ کرسکے کسی قدر مشقت کے ساتھ سہی وہ کما کر خود اپنی ضرورت پوری کرسکتا ہے تو ایسے شخص کو اس کی اولادکی طرف سے کسب معاش پر مجبور کرنا شرعا درست نہیں ہے ، بلکہ اولاد پر واجب ہے کہ وہ والدین کو حسب استطاعت کھلائیں ،پلائیں، ان کی ساری واجبی ضروریات کا پورا خیال رکھیں ، انہیں کسب معاش پر مکلف کرنا کسی بھی شکل میں جائز نہیں ہے ، البتہ اعزہ واقارب کی طرف سے کسی کی کفالت ہورہی ہو تو مذکورہ حالت میں( اولاد نہ ہونے کی صورت میں) اعزہ واقارب کی صرف اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ان عمر رسیدہ افراد کی خدمت کریں، ان کے قیام وطعام کی پوری سہولت فراہم کریں،لیکن مذکورہ حالت میںیعنی کسی قدر مشقت کے ساتھ ہی سہی معمر افراد کسب معاش پر قادر ہوں تو ایسی صورت میں اعزہ واقارب کو انہیں مجبور کرنے کی اجازت ہوگی۔
حضرت عمر ؓ کے دور میں یہ حکم عام تھا کہ ملک کے جس قدر اپاہج ، اور معمر اور سن رسیدہ افراد ہیں ، ان سبھوں کی تنخواہ بیت المال سے مقرر کردی جائے، یہاں تک کہ غیر مسلم سن رسیدہ افراد کو بھی بیت المال سے وظیفہ مقرر تھا، ایک مرتبہ عمر فاروق ؓ نے ایک بوڑھے یہودی نابینا کو بھیک مانگتے دیکھا،آپ نے اس شخص سے بھیک مانگنے کاسبب پوچھا ،یہودی نے جواب دیا کہ جزیہ اور بوڑھاپا،حضرت عمر ؓ نے اس کا ہاتھ پکڑا ۔ اپنے گھر لے گئے،اور اتنا کچھ دیا ، جو اس وقت کی ضروریات کے لئے کافی تھا ، پھر بیت المال کے خزانچی کو کہلا بھیجاکہ اس شخص کی طرف اور اس جیسے دوسرے افراد کی طرف توجہ دی جائے، خدا کی قسم ۔ یہ انصاف نہیں کہ ہم اس کی جوانی کی کمائی کھائیں،اور بڑھاپے میں دھتکار دیں ، آپ نے ایسے افراد کو جزیہ سے بری قرار دیا۔ (کتاب الخراج ابویوسف، ص ۱۳۶، العدالۃ الاجتماعیۃ فی الاسلام ،سید قطب شہیدؒ)
سوال(۲ )سن رسیدہ حضرات کا نفقہ وعلاج کن صورتوں میں دوسروں پر واجب ہوگا؟
جواب ۔ہر سماج میں سن رسیدہ افراد کا نفقہ اور علاج ومعالجہ ان کی اولاد پر واجب ہے ، حتی المقدور اولاد خواہ وہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں والدین کی خدمت کو شرف سمجھ کر ان کی ہر طرح کی مادی ومعنوی خدمت انجام دیں ، ولوبالفرض سن رسیدہ حضرات کی اولاد نہ ہو اور عزیز واقارب صاحبِ حیثیت ہوں تو ان لوگوں کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ ان کے اخراجات برداشت کریں، سن رسیدہ افراد جن کو کمانے کی قوت و طاقت نہ ہو ، وہ ومعذور ومجبور ہوں تو عصبات( باپ کی جانب سے رشتہ دار ) کی اہم ذمہ داری ہوگی، الاقرب فالاقرب کے اصول کے تحت معمر افراد کی خدمت ان پر واجب ہوگی ، پھر ذوی الارحام ( ماں کی طرف سے رشتہ دار )کی ذمہ داری ہوگی ، آخر کار ان رشتہ داروں کی غیر موجودگی میں یا ان کی عدم استطاعت کی صورت میں بیت المال کے ذریعہ یا اجتماعی نظام زکوۃ کے فنڈ سے ان کی کفالت کا نظم کیا جائے گا۔
سوال(۳ )بوڑھے والدین یا خاندان کے وہ بڑے جن کا نفقہ ان کے چھوٹوں پر محتاجی کی صورت میںواجب ہے اگر وہ محتاج نہ ہوں خود صاحب ثروت ہوں تب بھی وہ اپنی اولاد سے یا ان لوگوں سے جن پر بحالت حاجت نفقہ واجب ہوتا ہے ، زیادہ سہولت کے لئے یا دوسرے لوگوں پر خرچ کرنے کے لئے یا کچھ رقم محفوظ کرنے کے لئے زائد رقم کا مطالبہ کرسکتے ہیں ؟
جواب ۔اولاد در اصل والدین کی کمائی اور ان کی قیمتی سرمایہ ہیں ، والد کو حق ہے کہ وہ اولاد کی کمائی اور ان کے مال واسبا ب میں سے اپنی جائز ضرورتوں کی تکمیل کی غرض سے حسب ضرورت ومصلحت کچھ حاصل کرسکتے ہیں،جیسا کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک شخص آیا او رکہا کہ میرے والد نے میرا مال زبردستی لے لیاہے ،تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ۔ تو اورتیرا مال تیرے باپ کی ملکیت ہے ، مزید فرمایاتمہاری پاکیزہ کمائی تمہاری اولاد ہیں ۔ تم ان کے مال میں کھاؤ، پیو،( صحیح ابن ماجہ ، عن ابن عمر ؓ )لہذا بوڑھے والدین کو ہر حال میں خوش رکھنا اولاد کا حق ہے ، محض دنیا کے مال ومتاع کی خاطر والدین کو ناراض کرنا شرعا ًصحیح نہیں ہے، لیکن اپنی ضروریات کے علاوہ دوسرے کی مدد کرنے کی غرض سے اولاد یا دیگر افراد سے جن پر بحالت حاجت وضرورت نفقہ واجب ہوتا ہے ، مزید رقم کا مطالبہ شرعاً درست نہیں ہے ، البتہ اپنی اولاد سے زیادہ سہولت پانے کے لئے یا حفظ ما تقدم کے طورپر مزید رقم کے مطالبہ میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے انت ومالک لأبیک( ۲۲۹۱‘ سنن ابن ماجہ ‘ صححہ الالبانی) ‘ یعنی تم او رتمہاری کمائی تمہارے باپ کی ہے ‘فتاوی محمودیہ میں ہے ۔الجواب حامدا ومصلیا اگر دونوں لڑکوں میں مالدار اور غریب ہونے کے اعتبار سے زیادہ فرق ہے ‘ تو والد کے نفقہ میں بھی فرق ہوگا ‘ یعنی حسب حیثیت واجب ہوگا ‘ جب زید خود بھی صاحب عیال ہے اور اس میں اتنی گنجائش نہیں ہے کہ والد صاحب کو دس روپئے ماہانہ دے او روالد کا گزر اس کے روپئے پر موقوف بھی نہیں‘ جبکہ وہ خود صاحب حیثیت ہے اور اپنا خرچ خود برداشت کرسکتا ہے توپھرزید کے ذمہ دس روپیہ دینا واجب نہیں ‘ بلکہ اپنی استطاعت کے موافق والد کی خدمت کرتا رہے اس میں کوتاہی نہ کرے۔ اگر والد استطاعت سے زیادہ طلب کرے تو اس کے نہ دینے سے زید پر مؤاخذہ نہیں ‘ واللہ سبحانہ تعالی اعلم حررہ العبد محمود گنگوہی ‘ عفا اللہ عفا اللہ عنہ معین مفتی مدرسہ مظاہر علوم ‘ ۲۲/۱۱/۵۷ھ الجواب صحیح۔ سعید احمد غفر لہ مفتی مدرسہ ہذا ‘ صحیح عبد اللطیف ‘ ۲۴/ذی قعدہ ۵۷ھ( فتاوی محمودیہ‘ ۱۳/۴۶۴)
سوال (۴ )( الف ) کیا زیادہ آمدنی کے لئے لڑکوں کا اپنے والدین کو چھوڑکر دوسری جگہ جانا جائز ہے ؟
جواب۔ اولاد کا محض زیادہ آمدنی کی خاطرضعیف والدین کو چھوڑکر دوسرے شہر یا ملک کا سفر کرنا شرعا صحیح نہیں ہے ، نبی کریم ﷺ کی زندگی میں بعض احباب نے جہاد میں شرکت کے لئے اپنا نام مجاہدین کی فہرست میں درج کرایا ، جب ضعیف والدین نے ان اولاد کے خلاف شکایت کی ، اور ان کی ضرورت کے تعلق سے نبی کریم ﷺ سے درخواست پیش کی تو آپ ﷺ نے ان مجاہدین کو جہاد جیسے فریضہ کے مقابلہ میں والدین کی خدمت کے لئے واپس بھیج دیا ، حالانکہ اس دور میں ایک ایک مجاہد کی بھی اشد ضرورت تھی ۔( صحیح بخاری ، ۲۸۴۲)مذکورہ صورت حال میں والدین کی مرضی اور اجازت کے بغیر اولاد کا والدین سے دوری اختیار کرنا شرعا معیوب ہے ۔
(ب)۔ اگر بہو ساس سسر کے ساتھ رہنا نہ چاہتی ہویا اس کی ساس کو خدمت کی ضرورت ہولیکن کوئی خدمت گزار موجود نہ ہو،اور بیٹیوں کو ان کے شوہروں کی طرف سے میکے میں رہنے کی اجازت نہ ہوتو اس صورت میں بہو کی کیا ذمہ داری ہے ؟اور کیا اسے اس کے ساس سسر کے ساتھ رہنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے ؟
جواب۔بیوی پر اولین حق ہے کہ وہ شوہر کی اطاعت کرے ، اور اسے خوش رکھے، اس کے مال ومتاع کی حفاظت کرے اور اس کے بال بچوں کی حسن ِتربیت کرے اور ان کی خدمت کرے ، اس کی غیر موجودگی میں اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے ، اس کے بستر پر کسی اجنبی کو قریب آنے نہ دے ، کتاب وسنت کی روشنی میں بہو کے واجبات میں ساس سسر اور اس کے نندوںیا دیوروں کی خدمت شامل نہیں ہے ، ساس بہو کا رشتہ کوئی خونی رشتہ بھی نہیں ہے ، زیادہ سے زیادہ بہو کو اپنی ساس کی خدمت ایک بزرگ کی حیثیت سے کرنا ہے ، بیوی کی ذمہ داریوں میں ساس سسرال والوں کی خدمت شوہر کی اطاعت کے ضمن میں شامل ہے، ظاہر ہے کہ ساس عمر میں بڑی ہے اور عموما ضعیف بھی ہوتی ہے ، اس لئے انسانیت کے تقاضے کے تحت ساس اور سسر کی خدمت ،ادب واحترام اور ان کے راحت کا انتظام کرنا شامل ہے ، نیز یہ سوچ کربھی خدمت کرے یہ میرے شوہر کی خوشی کا باعث ہے ، اسی طرح شوہر بھی اپنے ساس وسسر کی خدمت او رحسن سلوک کو لازم سمجھے تو عام طورپر جو جھگڑے ہوتے ہیں ، سب کے سب ختم ہوجائیں گے۔
آپس میں ایک دوسرے کے جذبات کا لحاظ کرنے سے دوریاں ختم ہوںگی، فاصلے میں کمی آئے گی، الفت ومحبت کا ماحول عام ہوگا، لہذا اخلاقی اعتبار سے یا عرف و معاشرہ کے اعتبار سے بہو کو چاہیے کہ وہ ساس سسر کی خدمت کرے، شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری کا ایک اخلاقی حصہ سمجھے،نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ المراۃ راعیۃ علی بیت زوجہا وولدہ ، (صحیح بخاری ، ۵۲۰۰) یعنی بیوی اپنے شوہر کے گھر اور اس کی اولاد کی ذمہ دار اور مسؤل ہے، لہٰذا اخلاقی لحاظ سے یا انسانیت کے تقاضوں کے تحت ضعیف ساس سسر کی خدمت عورت کی مسؤلیت میں شامل ہے ۔البتہ مذکورہ حالت میں جب کہ ساس سسر کی خدمت کرنے والے کوئی نہ ہوں ، بیٹیوں کو ان کے شوہر وں کی طرف سے اجازت نہ ملے، یا وہ بالکل دورہوں ، ایسی مجبور ی وبے بسی کی صورت میں حدیث رسول ﷺ کے مطابق ( المراۃ راعیۃ علی بیت زوجہا وولدہ ،( صحیح بخاری ، ۵۲۰۰) یعنی بیوی اپنے شوہر کے گھر اور اس کی اولاد کی ذمہ دار اور مسؤل ہے، ) بہو کو ساس سسر کی خدمت پر مجبور بھی کیا جاسکتا ہے ، سماج کے مسائل میں مشترکہ خاندانی نظام بھی ایک مستقل مسئلہ ہے،اسلامی نقطہ نظر سے جداگانہ اور مشترکہ خاندانی نظام کے ثبوت اور مثالیں عہد نبوت ورسالت اور عہد صحابہؓ سے ہی ملتے ہیں، دونوں نظام زندگی فی نفسہ جائز ودرست ہیں، جس نظام میں شریعت کے حدود وقیود کی پاسداری ہوسکے، والدین اور دیگر افراد خاندان، نیز معذورین کا حق ورعایت ممکن ہوسکے، اس نظام پرعمل بہتر ہوگا، جہاں مشترکہ خاندانی نظام ہو ایک دوسرے کوبرداشت کرنا ، سب کا لحاظ کرنا ، بڑوں کا پاس ولحاظ ، چھوٹوں پر شفقت ،ایک دوسرے کی خوشی میں شریک ہونا اور مرض والم، رنج وغم میں ڈھال بن کر ساتھ دینا ضروری ہوتا ہے ، ہمارے اسلامی معاشرے وتہذیب میں یہ قربانیاں عملا مطلوب ہوتی ہیں ، ایسی صورت حال میں بعض عورتیں پریشان ہوکر یا مزاج میں آزادی کی خواہش موجزن ہو تو شوہروں سے مطالبہ کرتی ہیں ، کہ چلو ہم الگ گھر بسا ئیں گے ،آزاد رہیں گے ، کسی کی ہم پرکوئی حکومت نہ ہو گی،لیکن شوہر اپنے بوڑھے والدین ، جوان بہنوں ، اور چھوٹے بھائیوں کو چھوڑکر الگ گھربسانا نہیں چاہتا ہے، اور نہ ہی یہ انسانیت کا تقاضا ہے ، دوسری طرف بیوی اور اس کے متعلقین کا اصرار اور دباؤرہتا ہے ، نتیجہ کے طور پریہ سبب طلاق وخلع کا ایک اہم سبب بن جاتا ہے ،، حق بات یہ ہے کہ نبی کریم ﷺکے دور میں بھی مشترکہ خاندانی نظام موجود تھا جیساکہ حضرت جابر ؓ نے باکرہ/کنواری کے بجائے ثیبہ (شوہر دیدہ خاتون) سے ہی شادی کی تو آپ ﷺ نے وجہ دریافت فرمائی تو اس کا جواب یہی بتایا کہ میری بہنیں ہیں، ان کی تعلیم وتربیت او ر ادب سکھانے کے لئے ہمارے گھر کے لئے ثیبہ ( شوہر دیدہ عورت) ہی بہتر ہے،حالات وضروریات کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے۔
خصوصا جہاں مشترکہ نظام ہو یہ اس وقت تک کامیاب نظام ہے جب تک کہ افراد میں ایثار، ہمدردی ، تحمل ا ور ایک دوسرے کوبرداشت کرنے کی صلاحیت موجود ہو،ایک دوسرے کی چھوٹی چھوٹی لغزشوں کو نظر انداز کرنے کی قوت ہواور گھر کے سرپرست حضرات عدل وانصاف کو سامنے رکھیں، کسی کو کسی پر بلاضرورت فوقیت نہ دیں،کسب معاش میں بعض افراد خاندان کا دوسروں کے بالمقابل کم یا زیادہ ہونا اور اسی کی بنیاد پر تفریق کرنا وغیرہ اس نظام کو پارہ پارہ کردیتے ہیں، اس نظام کو چلانے میں سرپرستوںمیں عدل وانصاف کا بدرجہ اتم پایا جانا بہت ضروری ہے ورنہ خاندان کا شیرازہ بکھرجائے گا، سرپرست حضرات کی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ سنجیدگی کے ساتھ حالات کے مطابق فیصلہ کریں، اگر عافیت اس میں ہے کہ جداگانہ نظام پر عمل ہی بہتر ہوتو فورا اس پر عمل کیا جائے، خواہ مخواہ کی ضد اچھی چیز نہیں،بعض والدین کا بے جا اصرار ہوتا ہے کہ ہماری زندگی تک ہمارے بچے ہر حال میں ہمارے ساتھ ہی رہیں، پھر ہماری وفات کے بعد اولاد کی مرضی ہے، خواہ مل جل کررہیں، یا جداگانہ نظام پر عمل کرسکیں، اس سے بہتر صورت تو یہی ہے کہ سرپرست بروقت صحیح فیصلہ کریں، عدل وانصاف کو ملحوظ رکھیں، جو مناسب ہو حکمت عملی کا ثبوت دے کر اولاد کی صحیح رہنمائی کریں، واللہ ہو الموفق،(تفصیلات کے لئے۔ فقہ اسلامی، ص ۱۲۴)
ِِِِِ ساس سسر کی خدمت کے ضمن میں فضیلۃ الشیخ ابن عثیمین ؒ کا فتوی درج ذیل ہے ، اس بزرگ وضعیف آدمی کے ساتھ احسان ہے ، اور خود آپ کے شوہر کے ساتھ بھی احسان کے مترادف ہے ،(فتاوی برائے خواتین ، ص ۴۳۴) شیخ محمد صالح المنجد حفظہ اللہ کا بہو کے حق میں فتوی یہ ہے کہ ۔ آپ کی ساس اور نندوں کا آپ پر یہ حق ہے کہ آپ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں ، ان سے صلہ رحمی کریں، اور ان کے ساتھ احسان کرنے کی حتی الوسع کوشش کریں، اور آپ کی ساس کا جو یہ ذہن اور خیال ہے کہ آپ ہر معاملہ میں ان کی موافقت اور اجازت لیںتویہ صحیح نہیں ہے ، اور نہ ہی علماء کرام نے اسے بیوی کے حقوق میں ذکر کیا ہے ، بلکہ آپ پر واجب یہ ہے آپ اپنے خاوند کی اطاعت کریں اور اس کی اجازت طلب کریں، اور اس کی بھی اطاعت اس وقت تک ہے جب تک کہ وہ برائی اور معصیت کا حکم نہ دے، اگر وہ معصیت کا حکم دیتا ہے تو اس میں اس کی اطاعت نہیں ہوگی ۔واللہ اعلم بالصواب
(ج)۔ ماں باپ کی خدمت صرف بیٹوں پر واجب ہے یا بیٹیوں پر بھی ، بعض اوقا ت بیٹیاں اپنے والدین کی مجبوری اور بے بسی کو دیکھتے ہوئے اپنے والدین کی خدمت کرنا چاہتی ہیں لیکن ان کے شوہران کو اس کی اجازت نہیں دیتے ، کیا ان کے شوہر کو اس کا حق حاصل ہے ؟
جواب ۔ شوہروں کو چاہیئے کہ حالات کی نزاکتوں کا لحاظ کرتے ہوئے اپنی بیویوں کو والدین کی خدمت سے نہ روکیں ، خصوصا جب ان کے اور سسرال کے مابین کوئی لمبا فاصلہ نہ ہو، آنے جانے میں کوئی دقت نہ ہو ، البتہ سسرال اور شوہر وں کے درمیان فاصلہ ہو ، خود اس کے بچے ماں کے محتاج ہوں ، ان کا دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہ ہو ، تو ایسی صورت میں شوہر کو وقتی طور پر اپنی بیوی کو روکنے کا مجاز حاصل ہوگا،فتاوی محمودیہ میں ہے کہ شرعا ہندہ کے ذمہ شوہر کی ماں کی خدمت واجب نہیں ‘ لیکن اخلاقی طورپر اس کا خیا ل کرنا چاہئے‘ کہ وہ اس کے شوہر کی ماں ہے تو اپنی ماں کی طرح اس کو بھی راحت پہنچانے کا خیال رکھے ‘ اور شوہر کی اطاعت کرے‘ آخر جب ہندہ کو ضرورت پیش آتی ہے تو شوہر کی ماں ہی اس کی خدمت کرتی ہے ۔ اس طرح آپس کے تعلقات خوشگوار رہتے ہیںاور مکان آباد رہتا ہے ‘ البتہ شوہر کوبھی چاہئے کہ اپنی بیوی سے نرمی اور شفقت کا معاملہ کرے ‘ اس کو سمجھائے کہ میں تمہاری ماں کا احترام کرتا ہوں اور ان کو اپنی ماں کی طرح سمجھتا ہوں ‘ تم بھی میری ماں کو اپنی ماں کی طرح سمجھو۔نیز بیوی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالے ۔فقط واللہ سبحانہ اعلم حررہ العبد محمود گنگوہی ‘ عفا اللہ عنہ ‘ دار العلوم ‘ دیوبند ۱۷/۱/۹۰ھ الجواب صحیح۔ بندہ نظام الدین عفی عنہ دار العلوم ‘ دیوبند ۱۷/۱( مکمل ومدلل فتاوی محمودیہ‘ ۱۸/۶۱۶)
اس سلسلہ میں بیسویں فقہی سمینار ۔ یوپی میں یہ تجویز طے کی گئی تھی کہ(والدین کی خدمت وکفالت لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں پر بھی حسب استطاعت واجب ہے، اگر ماں کو ایسی خدمت کی ضرورت ہوجس کو کوئی عورت ہی انجام دے سکتی ہو اور بہو کے علاوہ کوئی دوسری قریبی عورت خدمت کرنے والی نہ ہونیز ماں مجبور ہو خود سے وہ کام انجام دینے کے لائق نہ ہوتو ایسی صورت میں بہو پر ساس کی خدمت واجب ہوگی ، (نئے مسائل اور فقہ اکیڈمی کے فیصلے،ص ۱۲۵)
سوال(۵)کیا اولاد کو والد کے دوسرے نکاح میں رکاوٹ بننے کا حق ہے ؟ اگر والد خود اپنی بیوی کی کفالت کی استطاعت نہ رکھتا ہوتو کیا اولاد پر کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ؟
جواب۔(۱) والد صحت وتندرستی کی حالت میں ہو اور اسے شادی کی ضرورت ہوتو اولاد کو شرعا والد کی شادی میں رکاوٹ بننے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے، عہد سلف میں بے شمار مثالیں ملتی ہیں جہاں باپ نے نکاح ثانی کی ، یا نکاح ثالث کی ، مگر اس میں اولاد کو کوئی رکاوٹ نہ تھی ، نیز والد کی خدمت کے لئے کوئی اولاد نہ ہو، ہر ایک اپنی زندگی میں مگن ہو، عمر رسیدہ باپ کی خدمت کے لئے کوئی تیار نہ ہوتو ایسی صورت ِحال میں باپ اگر شادی کرنا چاہے تو اولاد کو معاون بننا چاہئے۔
(۲)ولو بالفرض باپ حسب ِ ضرورت ومصلحت نکاح ِ ثانی کرلے تو اولاد پر سوتیلی ماں کی عزت و احترام واجب ہے ،اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا ، صلہ رحمی کرنا ، ان کے رشتوں کی عزت واحترام بھی ملحوظ رکھنا واجب ہے ، نیز باپ کے حق کے ساتھ سوتیلی ما ں کے حق کا لحاظ رکھنا اولاد پر واجب ہوگا ، چونکہ باپ کی بیوی بھی ماں کا درجہ رکھتی ہے،لہٰذا اولاد کی ذمہ داری میں خدمت اور نفقہ دونوں چیزیں بھی ضمناواجبات میں شامل ہیں ، اولاد بخوشی یہ خدمت انجام دے، البتہ باپ کی وفات کے بعدسوتیلی ماں کی خدمت یا نان ونفقہ اولاد پر واجب نہیں ہے، بلکہ اس سوتیلی ماں کے رشتہ داروں ( عصبیت وذوی الارحام)کی ذمہ دار ی ہے کہ وہ اس کی کفالت کریں۔ (جاری)
مشمولہ: شمارہ جنوری 2017