ہندوستان میں اور خاص طور پر شمالی ہندوستان میں دینی مدارس کی ایک زریں تاریخ ہے۔ ان مدارس نے جہاں ایک طرف مسلم عوام اور ان کی نئی نسل کے دین و ایمان کی حفاظت کی اہم خدمات انجام دی ہے، وہیں ملک سے جہالت و ناخواندگی کا خاتمہ کرنے اور تعلیم و تربیت کو عام کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان مدارس کی یہ خدمت بھی جدید ہندوستان کی تاریخ کے صفحات پر ثبت ہے کہ ان کے فضلاء اور فارغین نے ملک کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرانے اور اسے خود مختاری فراہم کرنے کے لیے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ اس کے سپوتوں نے ملک کو ترقی کی منزلوں تک پہنچانے، فرقہ وار میل جول کو فروغ دینے اور برادران وطن کے ساتھ یک جہتی، رواداری، صلح و آشتی اور پر امن بقائے باہم کو رواج دینے میں اپنا غیر معمولی کردار نبھایا ہے۔ لیکن افسوس کہ ادھر کچھ عرصے سے مدارس کے اس کردار کی نہ صرف یہ کہ ان دیکھی کی جارہی ہے اور اس سے تجاہل برتا جا رہا ہے، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر فروغ تعلیم کے میدان میں ان کی خدمات کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے، ان پر دہشت گردی اور انتہا پسندی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں اور ان سے ملک سے وفاداری کے ثبوت مانگے جا رہے ہیں۔
مکاتب کا سروے
کچھ عرصے قبل ملک کے شمالی سرحدی علاقوں میں قائم مکاتب و مدارس کا سروے کرایا گیا تھا ، اس کے پیچھے بھی یہی محرک کار فرما تھا کہ کہیں ناپسندیدہ اور باغی عناصر ان مدارس کو اپنی پناہ گاہ کے طور پر تو نہیں استعمال کر رہے ہیں۔ پندرہ اگست کے موقع پر حکومت اتر پردیش کی طرف سے ایک سرکلر جاری کیا گیا تھا کہ ہر مدرسے میں یوم آزادی کی تقریبات منعقد کی جائیں اور ان کی ویڈیو گرافی کرواکے اسے حکومت کو فراہم کیا جائے۔ اگرچہ اس سرکلر کا اطلاق صرف حکومت سے امداد یافتہ مدارس پر ہی ہوتا تھا، لیکن اس کی دہشت سے دیگر مدارس کے ذمہ داران بھی خود کو محفوظ نہ رکھ سکے۔ چنانچہ دینی مدارس میں بڑے پیمانے پر تقریبات آزادی منعقد کی گئیں اور سوشل میڈیا پر ان کی خوب تشہیر بھی کی گئی۔
بر صغیر ہند میں مدارس کا قیام آٹھویں صدی عیسوی ؍ دوسری صدی ہجری ہی سے ہونے لگا تھا۔ خاص طور سے شمالی ہند میں مدارس کی تاسیس ترکوں کی فتوحات ہی سے ہونے لگی تھی۔ پھر عہد سلطنت میں بڑی تعداد میں مکاتب و مدارس قائم ہوئے، جس کا سلسلہ مغل دور حکومت تک جاری رہا۔ لیکن جب ملک میں انگریزوں کا اقتدار قائم ہوا توحکومتی سرپرستی سے محروم ہوجانے کی وجہ سے یہ تمام مدارس بند ہو گئے۔ انگریزوں نے اپنا نیا تعلیمی نظام قائم کیا، جس کا مقصد حکومتی مشنریوں کے لیے کل پرزے فراہم کرنا تھا۔ انگریزوں کی سرپرستی میں عیسائی مشنریاں یہاں زورو شور سے کام کرنے لگیں۔ ان کا اصل مقصد عیسائیت کی تبلیغ کرنا تھا، لیکن انھوں نے ساتھ ہی اسلامی عقائد و ایمانیات، عبادات اور تہذیب و معاشرت پر بھی حملہ کرنے شروع کر دیے۔ اس وجہ سے اندیشہ پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں مسلمانوں اور خاص طور پر ان کی نئی نسل کا ان کے دین پر ایمان و یقین متزلزل نہ ہوجائے اور وہ صرف نام کے مسلمان نہ رہ جائیں، ان کی زندگیوں میں اسلام کی کوئی رمق باقی نہ ہو۔
تاریخی پس منظر
امت کے بہی خواہوں نے اس نازک صورت حال کا مقابلہ کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ چنانچہ انھوں نے دینی مدارس کے قیام کا فیصلہ کیا ۔ دارا لعلوم دیوبند کی تاسیس ۱۸۶۶ء میں ہوئی۔ ۱۸۹۸ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء قائم ہوا۔ پھر بیسویں صدی عیسوی میں شمالی ہندوستان میں اور بھی مدارس قائم ہوئے۔ وہ اگرچہ مسلمانوں میں رائج مختلف مسالک سے تعلق رکھتے تھے، لیکن سب کا مقصد مسلمانوں کی نئی نسل کو بنیادی دینی علوم سے روشناس کرانا ، اپنے دین پر ان کا ایمان مضبوط کرنا، ان کے اخلاق و کردار کو سنوارنا اور ان کو اچھا شہری بنانا تھا۔ ان مدارس نے اسلا م کی حفاظت اور علوم اسلامی کی اشاعت کا غیرمعمولی کام انجام دیا۔ آج ہندوستان کی مسلم امت میں دین سے جس حد تک وابستگی پائی جاتی ہے اور اس کے اندر جو کچھ ملی شعور پایا جاتا ہے وہ ان مدارس دینیہ ہی کا فیض ہے۔
مدارس کی خدمات کے اور بھی بہت سے پہلو ہیں، جن کا اعتراف کیا جانا چاہیے۔ مثال کے طور پر مدارس نے ملک کی شرح خواندگی کو بڑھانے میں حکومتوں کا بھرپور تعاون کیا ہے۔ اگر مدارس کا سرگرم تعاون نہ ہوتا تو ’تعلیم سب کے لیے‘ کا نعرہ محض نعرہ ہی رہ جاتا۔ مدارس نے بنیادی تعلیم کو غربت کے مارے ان طبقات کے لیے سہل الحصول بنایا ہے، جن تک پہنچنے میں حکومتی مشنریاں ناکام رہتی ہیں۔ دیہی علاقوں میں بنیادی تعلیم کا جتنا نظم مدارس و مکاتب کے ذریعے ہوا ہے، اتنا دیگر سرکاری یا غیر سرکاری اداروں کے ذریعے نہیں ہو سکا ہے۔ مدارس کے فارغین نے مسلمانوں کی نئی نسل سے ناخواندگی کو دور کرنے اور اسلامی تعلیم عام کرنے کے لیے قصبوں اور دیہاتوں پر بھی توجہ دی ہے، تاکہ کوئی بھی مسلم گھرانہ علم دین کی روشنی سے محروم نہ رہ جائے۔
موجودہ دور میں تعلیم کے مصارف بہت گراں بار ہوگئے ہیں۔ ابتدائی اور ثانوی تعلیم کے عصری ادارے ہوں یا اعلیٰ تعلیم اور بالخصوص پیشہ ورانہ اور تکنیکی تعلیم فراہم کرنے والے ادارے، وہ پرائیویٹ طور پر چل رہے ہوں یا حکومت کی سرپرستی میں ، ان تعلیم گاہوں کی بھاری فیس ادا کرنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ دینی مدارس ایسے غریب افراد کے لیے سہارا بنتے ہیں ۔ وہ بہت کم خرچ پر یا بالکل مفت ان کے بچوں کے لیے تعلیم کا انتظام کرتے ہیں ۔ مفت تعلیم کے بغیر ایک فلاحی ریاست کا تصور ادھورا ہے۔ دینی مدارس اس تصور کو روبہ عمل لانے کا اہم ذریعہ ہیں۔ تعلیم کو سماج کے ہر طبقے تک یکساں پہنچانے میں حکومت کی اسکیمیں عموماً ناکام رہتی ہیں، لیکن مدارس کام یابی کے ساتھ یہ خدمت انجام دیتے ہیں اور تمام طبقات یکساں طور پر ان سے فیض اٹھا تے ہیں۔
بہتر کار کردگی کی جانب
مدارس کی خدمات کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ملک میں اردو زبان مدارس ہی کے دم سے زندہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اردو زبان پر کسی ایک مذہب کے ماننے والوں کی اجارہ داری نہیں ہے۔ اس کے فروغ میں مختلف مذاہب کے پیروکاروں نے حصہ لیا ہے۔ لیکن افسوس کہ ایک طرف وہ آہستہ آہستہ حکومتی سرپرستی سے محروم ہوتی گئی، دوسری جانب ہندی زبان کو خوب بڑھاوا دیا گیا، اس کے نتیجہ میں اردو زبان کا دائرہ سکڑتا اور سمٹتا چلا گیا۔ اس صورت حال میں دینی مدارس نے اردو زبان کی ترویج و اشاعت میں بہت اہم کردار سر انجام دیا ہے۔ ملک میں مکاتب و مدارس کی تعداد لاکھوں میں ہے اور ان کا ذریعہ تعلیم اردو ہے۔ اس طرح یہ مدارس خاموش طریقے سے اردو زبان کی ترویج اور فروغ کی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ ادھر کچھ عرصے سے دینی مدارس نے مسلم بچوں کی کیریر سازی پر توجہ دی ہے۔ خود بعض مدارس کے کیمپس میں ایسے کورسز چلائے جا رہے ہیں، جن سے فائدہ اٹھا کر وہاں کے فارغین روزگار سے جڑیں۔ اس کے علاوہ مدارس کے نصاب میںبعض ایسے مضامین شامل کیے جا رہے ہیں جن کی بدولت وہاں کے فارغین بعد میں عصری جامعات میں داخلہ لے سکیں اور وہاں کی ڈگریاں حاصل کر کے مین اسٹریم میں شامل ہو سکیں۔ اگرچہ اس سلسلے میں ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
تعلیم کے فروغ میں مدارس کی خدمات کا انکار ممکن نہیں ہے اور ان سے ملک کو جو فیض پہنچ رہا ہے اس سے اغماض نہیں برتا جا سکتا، لیکن ان کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے اگر کچھ تدابیر اختیار کی جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ ملک کے موجودہ حالات میں اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اس تعلق سے چند باتیں عرض کرنے کی جسارت کرنا چاہتا ہوں:
۱۔ نصاب تعلیم کا مسئلہ
مدارس کے نصاب تعلیم میں تبدیلی کا مسئلہ مسلمانوں کے درمیان کافی عرصہ سے زیر بحث ہے۔ آج سے سو برس پہلے علامہ شبلی نعمانی (م۱۹۱۴ء) نے اس کی صدا بلند کی تھی۔ انھوں نے اس وقت دینی مدارس کی اکثریت میں رائج درس نظامی کا جائزہ لیا تھا اور اس کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے پر زور انداز میں یہ بات کہی تھی کہ ہر دور میں اس میں اصلاح اور تبدیلی ہوتی رہی ہے تو آج کل کیوں نہیں ہو سکتی؟ لیکن ان کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوئی اور اسے کوئی خاص مقبولیت نہ مل سکی۔ تحریک ندوۃ العلماء کا آغاز ہی اصلاحِ نصاب کے نعرے سے ہوا تھا ، لیکن جب اس کی سرپرستی میں دار العلوم قائم ہوا تو اصلاح نصاب کی ابتدائی کوششوں کے بعد وہاں بھی خاموشی چھا گئی۔ مدارس کے نصاب کی بات کی جاتی ہے تو عموماً تین رویے سامنے آتے ہیں: ایک رویہ ان لوگوں کا ہوتا ہے جو اسے موجودہ دور سے غیر آہنگ اور کارِ عبث سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں اس میں جوہری تبدیلی کی ضرورت ہے۔وقت کا تقاضا ہے کہ اس میں اس قدر عصری علوم شامل کر دیے جائیں کہ وہاں کے فارغین کسی بھی دنیاوی میدان میں عصری اداروں کے گریجویٹس سے پیچھے نہ رہیں۔ یہ حضرات دینی تعلیم حاصل کرنے والے تین چار فی صد طلبہ کی دنیوی تعلیم کی تو فکر کرتے ہیں ، لیکن انھیں چھیانوے ستانوے فی صد عصری تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی دینی تعلیم کی کوئی فکر نہیں ہوتی۔
دوسرا رویہ ان حضرات کا ہے جو اس نصاب میں ادنیٰ سے بھی تبدیلی کے روادار نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک یہ نصاب مدارس کے مقصدِ قیام یعنی دینی تعلیم کی فراہمی سے پوری طرح ہم آہنگ ہے اور پوری دنیا میں اس کے ثمرات مطلوبہ طریقے سے ظاہر ہو رہے ہیں، اس لیے اس میں اصلاح کی کوئی کوشش ان مدارس کو مقصد قیام سے ہٹانے کے مترادف ہوگی۔
افراط اور تفریط پر مبنی ان دونوں رویوں کے درمیان ایک معتدل رویہ یہ ہے کہ مدارس میں طلبہ کو دینی علوم میں اختصاص فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ بعض قدیم اور موجودہ دور میں غیر ضروری علوم کی کتابیں کم کر کے بعض ایسے جدید علوم و فنون کا اضافہ کیا جا سکے جن سے طلبۂ مدارس خود کو زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر سکیں۔ اس رویہ کے حاملین اور حامی حضرات کی کوششوں کو اگرچہ ابھی خاطر خواہ کام یابی نہیں مل سکی ہے، لیکن بہر حال ان کی کوششیں لائق ستائش ہیں۔
۲۔ مدارس کا داعیانہ کردار
جدید ہندوستان میں مدارس کا قیام مسلمانوں کی نئی نسل کے عقیدہ و ایمان کی حفاظت اور اسلامی تعلیمات کے صحیح تعارف کے لیے ہوا تھا، لیکن بہت جلد یہ مدارس اپنی داعیانہ اسپرٹ سے دور ہو گئے اور تعلیم و تدریس کا عمل محض ایک پیشہ بن کر رہ گیا۔ اس کا نقصان یہ ہے کہ مدارس سماج سے کٹ کر رہ گئے۔ نہ اہل مدارس کو باہر کی خبر رہتی ہے اور نہ باہر والے یہ جانتے ہیں کہ مدارس کے احاطوں میں طلبہ کیا پڑھتے ہیں؟ اور ان کی معمول کی سرگرمیاں کیا رہتی ہیں؟
ضرورت ہے کہ طلبہ مدارس میں دعوتی مزاج پروان چڑھایا جائے، دعوت کے اختصاصی شعبے قائم کیے جائیں، ان کا مخصوص نصاب تیار کیا جائے۔ موجودہ دور فکری الحاد کا دور ہے۔ آج کل مختلف گم راہ کن نظریات کا بول بالا ہے۔ طلبہ کی اس طرح ذہن سازی کی جائے کہ جب وہ فارغ ہو کر سماج میں پہنچیں تو ان کے ابطال پر قادر ہو سکیں اور اسلام کی حقانیت کو دلائل سے ثابت کر سکیں۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ مدارس کے نصاب میں ہندوستانی مذاہب کا تقابلی مطالعہ شامل کیا جائے۔ اس سے فارغین مدارس کو آئندہ زندگی میں دعوتی کام کرنے میں آسانی ہوگی۔
۳۔مدارس پر دہشت گردی کا بے بنیاد الزام
ناواقفیت غلط فہمی کو جنم دیتی ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں کے بد خواہ جان بوجھ کر ان کے خلاف مسلسل فتنہ کی آگ بھڑکاتے رہتے ہیں اور انھیں انتہا پسندی کا سرچشمہ اور دہشت گردی کا اڈہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مدارس کے ذمہ داروں کو اس سلسلے میں بیداری کا ثبوت دینا ہوگا اور اس الزام کے دفاع کے لیے ایک منظم حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ اس کا ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے نظام میں شفافیت پیدا کریں، اپنی تدریسی اور غیر تدریسی سرگرمیوں سے عوام کو واقف کرائیں ، مدارس کے کیمپس میں منعقد ہونے والے اجتماعات اور تقریبات میں غیر مسلم سماجی خدمت گاروں اور حکومتی افسران کو مدعو کریں۔ اس طرح ان کے بارے میں غلط فہمیوں کے بادل چھٹیں گے اور ان کا صحیح تعارف عام ہوگا۔
۴۔ دینی مدارس کا عصری جامعات سے الحاق
مسلم بچوں کی کیریر سازی میں ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ ادھر کچھ عرصے سے بعض مدارس کے سرکاری جامعات سے الحاق کے نتیجے میں فارغینِ مدارس کے لیے اعلیٰ تعلیم کے مواقع حاصل ہوئے ہیں ۔ حکومت کی طرف سے قائم کردہ سچر کمیٹی کی جو رپورٹ ۲۰۰۰ء میں منظر عام پر آئی تھی ، اس میں یہ سفارش کی گئی تھی کہ مسلمانوں کی مدرسی تعلیم کو مختلف سطحوں پر یونی ورسٹیوں سے جوڑنے کی کوشش کی جائے۔ مختلف جامعات نے فارغینِ مدارس کے لیے پہلے سے اپنے دروازے کھول رکھے تھے، اس کے نتیجے میں ان کی خاصی تعداد نےعصری تعلیم حاصل کی ہے۔ یونیورسٹیوں میں مدارس کے فارغین طلبہ کی تعداد میں برابر اضافہ ہو رہا ہے۔ یونی ورسٹیوں سے فراغت کے بعد وہ وہیں تدریسی اور انتظامی مناصب پر فائز ہو رہے ہیں اور دوسرے مقامات پر بھی وہ اہم سماجی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ مدارس کی اسناد کی منظوری اور معادلہ کے لیے یونی ورسٹیز کی بعض مخصوص شرائط ہیں۔ مدارس کے ذمہ داران ان شرائط کی تکمیل کر کے اپنے طلبہ کے لیے مزید گنجائش پیدا کر سکتے ہیں۔ بعض یونی ورسٹیز نے فارغین مدارس کے لیے اپنے یہاں ـ’برج کورس‘ کا آغاز کیا ہے، جس کی تکمیل کے بعد طلبہ ان یونیورسٹیز کے تمام کورسز میں داخلہ کے مجاز ٹھہرتے ہیں۔ یہ ایک خوش آئند اقدام ہے۔ عموماً ذمہ داران مدارس کی جانب سے یونیورسٹیوں میں داخلہ کے لیے اپنے فضلاء کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔ اس رویے کو تبدیل ہو نا چاہیے۔
۵۔ مدارس کا وفاق۔وقت کی ضرورت
دینی مدارس کے خلاف ادھر کچھ عرصے سے جو مہم چلائی جا رہی ہے اور ان کے وجود پر خطرات کے جو بادل منڈلا رہے ہیں ان کا مقابلہ کرنے کی اس کے علاوہ اور کوئی صورت نظر نہیں آتی کہ ملک گیر سطح پر ان کا وفاق وجود میں لایا جائے۔ اس وقت مختلف مسالک اور جماعتوں سے تعلق رکھنے والے مدارس کے درمیان کوئی تال میل نہیں ہے۔ ضرورت ہے کہ مدارس کے مسائل پر اجتماعی غورو خوض کا آغاز کیا جائے، اس کے لیے خاص طور پر بڑے مدارس کے ذمہ داروں کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور کوئی منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔
مشمولہ: شمارہ نومبر 2017