صفائی صرف ایک خوبصورتی یا ظاہری پسند نہیں ہے بلکہ یہ کائنات کے سانچے میں بُنا ہوا ایک آفاقی اصول ہے۔ سب سے چھوٹے کیڑے سے لے کر سب سے بڑے جانور تک، ہر مخلوق کو ایک قدرتی جبلت دی گئی ہے کہ وہ اپنے جسم، ماحول اور ٹھکانے کو صاف رکھے۔ پرندے اپنے پروں کو سنوارتے ہیں، چیونٹیاں اپنے بلوں سے گندگی نکالتی ہیں اور ہاتھی اپنی کھال کی حفاظت کے لیے مٹی میں نہاتے ہیں۔ یہ سب اتفاق نہیں بلکہ ایک خدائی نظام کی نشانیاں ہیں۔ قرآن میں اس فطری رجحان کو فطرت کہا گیا ہے — وہ اصل مزاج جس پر اللہ نے تمام انسانوں کو پیدا کیا:
” پس آپ اپنا رخ سیدھا رکھیں دین کی طرف، اللہ کی اس فطرت پر جس پر اُس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی پیدائش کو کوئی بدل نہیں سکتا۔“(الروم: 30)
فطرت کے مطابق زندگی گزارنا دراصل ہم آہنگی اور توازن کے ساتھ جینا ہے۔ جانور عقل کے بغیر اپنی جبلت سے صفائی قائم رکھتے ہیں، لیکن انسان کو عقل، اختیار اور اخلاقی ذمہ داری دی گئی ہے۔ یہ نعمتیں انسان کو بلند کرتی ہیں مگر مشکل بھی پیدا کرتی ہیں، کیونکہ انسان صفائی کو نظر انداز کر سکتا ہے، لالچ یا غفلت میں ماحول کو گندا کر سکتا ہے۔ یہی صلاحیت جو ہم آہنگی کو توڑ دیتی ہے، ہدایت کو لازمی بناتی ہے، کیونکہ صرف عقل اکثر خواہشات یا مفاد کے تابع ہو جاتی ہے۔ اس لیے اسلام صفائی کو صرف ایک اچھی عادت نہیں بلکہ ایک دینی فریضہ قرار دیتا ہے، جو انسان کو واپس فطرت کی طرف لے جاتا ہے اور جسم، دماغ اور روح کو ایک کرتا ہے۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ” پاکیزگی آدھا ایمان ہے“(مسلم)۔ یہ حدیث اسلام کی روح کو نہایت خوبصورتی سے واضح کرتی ہے۔ پاکیزگی صرف ظاہری معاملہ نہیں بلکہ ایک ایسا اندرونی اور بیرونی نظام ہے جو انسان کے تعلق کو اللہ، معاشرے اور اپنے نفس کے ساتھ سنوارتا اور مضبوط کرتا ہے۔ صفائی کا مطلب یہ ہے کہ انسان نہ صرف جسم کا میل کچیل کو دور کرے بلکہ دل کے تکبر، ظلم اور معاشرتی لاپروائی کو بھی ختم کرے۔ اسلام میں صفائی جسمانی اور روحانی دونوں پہلوؤں کو جوڑتی ہے۔ نماز سے پہلے وضو جسم کو پاکیزہ کرتا ہےاور سچائی و اخلاص دل کو منور کرتے ہیں۔ ایمان کی تکمیل کے لیے دونوں کا ایک ساتھ ہونا لازمی ہے۔
جدید علم بھی اس حقیقت کی تائید کرتا ہے۔ ماہرینِ نفسیات کہتے ہیں کہ گندگی اور بے ترتیبی انسان کے ذہنی دباؤ کو بڑھا دیتی ہے، توجہ کو منتشر کر دیتی ہے اور تخلیقی صلاحیت کو کمزور بنا دیتی ہے۔ ماہرینِ اعصاب کے مطابق بکھرا ہوا ماحول دماغ پر غیر ضروری بوجھ ڈالتا ہے، جس سے ارتکاز اور خیالات کی روانی متاثر ہوتی ہے۔ اس کے برعکس، صاف ستھرا اور منظم ماحول ذہنی سکون، سوچ کی صفائی اور نظم و ضبط کو پروان چڑھاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے گندا آئینہ روشنی کو صاف نہیں دکھا سکتا، ویسے ہی آلودہ ماحول تخیل اور روحانیت کو دھندلا دیتا ہے۔
صفائی کا دائرہ ہمارے سماج پر محیط ہے
اسلام میں صفائی صرف ذاتی جسم یا گھر تک محدود نہیں، بلکہ اس کا دائرہ باہر کے ماحول تک پھیلتا ہے۔ ایک مسلمان کا ایمان اُس وقت مکمل نہیں ہوتا جب وہ خود کو تو پاکیزہ رکھے لیکن اُن جگہوں کو گندا چھوڑ دے جہاں دوسرے لوگ رہتے ہیں۔ اسی لیے شہری صفائی اسلام میں اخلاقی اور روحانی ذمہ داری ہے، جو قرآن، سنت اور اسلام کے سماجی نظریے میں باہمی حقوق کی بنیاد پر جڑی ہوئی ہے۔
ہم سایہ: شہری اخلاقیات کا مرکز
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور والدین کے ساتھ بھلائی کرو، اور قرابت داروں، یتیموں، محتاجوں، قریبی ہم سائے، اجنبی ہم سائے، پاس والے ساتھی، مسافر اور ان (غلاموں) کے ساتھ جو تمہارے قبضے میں ہیں۔ بے شک اللہ تکبر کرنے والوں اور فخر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (النساء 36)
اس آیت میں ہم سائے کو والدین اور رشتہ داروں کے بعد ذکر کیا گیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام میں ہم سایہ محض ایک اتفاقی تعلق نہیں بلکہ مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا:
’’وہ جنت میں داخل نہ ہوگا جس کا ہم سایہ اُس کی ایذا سے محفوظ نہ ہو۔‘‘
ہم سائے کو نقصان پہنچانا صرف مارپیٹ یا بدکلامی نہیں، بلکہ اُس میں وہ سب چیزیں شامل ہیں جو تکلیف کا باعث ہوں—دروازے کے سامنے کوڑا پھینک دینا، راستے میں پانی کو جمع ہونے دینا جس سے بدبو یا بیماری پھیلے، دھواں یا گندی بُو پھیلانا یا راستوں کو گندا کرنا۔ یہ سب ہم سائے کی عزت گھٹاتے ہیں اور ان کے حق کی خلاف ورزی ہیں۔ اسلام میں اس طرح کی غفلت گناہ ہے اور ایمان کو کمزور کرتی ہے۔
شہری شعور بطور ایمان کا حصہ
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا ایمان کی شاخ اور صدقہ ہے۔ یہ تعلیم شہری شعور کو نماز اور روزے جیسے اعمال کے برابر ایک روحانی دائرے میں لے آتی ہے۔ گلیوں کو صاف رکھنا، کچرا ٹھکانے لگانا اور اپنی عادات کو دوسروں کے لیے اذیت کا سبب نہ بننے دینا چھوٹی بات نہیں بلکہ عبادت کے درجے میں ہے۔
ایک مسلمان جو اپنے لیے صفائی پسند کرتا ہے، اُسے دوسروں کے لیے بھی صفائی پسند ہونا چاہیے۔ اپنے گھر کو خوبصورت بنانا مگر گلی کو گندا چھوڑ دینا نفاق ہے۔ اصل پاکیزگی وہ ہے جو ذاتی اور عوامی دونوں جگہوں پر ظاہر ہو۔ یوں صاف ستھرا محلہ دراصل عدل کی ایک شکل ہے، کیونکہ یہ سب کے مشترکہ حق کو محفوظ کرتا ہے۔
اسلام میں ہم سایہ بطور خاندان
اسلام نے ہم سائے کو خاندان کے درجے تک بلند کیا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’جبریل ہم سائے کے بارے میں مسلسل وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ شاید اسے وراثت میں شریک کر دیا جائے گا۔‘‘
یہ حدیث بتاتی ہے کہ ہم سایوں کے حقوق کوئی اختیاری چیز نہیں بلکہ لازمی اور گہرے تعلقات کا لازمی تقاضا ہیں۔ جیسے انسان اپنے گھر والوں کے لیے سکون اور صفائی چاہتا ہے، اُسے اپنے ہم سائے کے لیے بھی وہی چاہنا چاہیے۔ اس کو نظر انداز کرنا ایمان کے بنیادی تقاضوں کو کمزور کرتا ہے، کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’تم میں سے کوئی اُس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اپنے بھائی کے لیے وہی نہ چاہے جو اپنے لیے چاہتا ہے۔‘‘
اس طرح ہم سایہ ایمان کا امتحان بن جاتا ہے۔ اللہ کی محبت کا دعویٰ کھوکھلا ہو جاتا ہے اگر اپنے قریب ترین لوگوں کو بھلا دیا جائے۔
انفرادی اخلاق سے شہری اداروں تک
اسلامی تہذیب نے اس اصول کو اداروں کی شکل بھی دی۔ مدینہ میں نبی اکرم ﷺ نے راستوں کو صاف رکھنے اور مشترکہ پانی کے ذرائع کو گندا کرنے سے منع فرمایا۔ بعد کے مسلمان شہروں میں نکاسی کا نظام، عوامی حمام اور ’’محتسب‘‘ نامی افسر مقرر کیے گئے جن کی ذمہ داری تھی کہ صفائی، بازاروں میں انصاف اور شہری نظم قائم رکھیں۔ ’’حسبہ‘‘ کے نظام نے یہ یقینی بنایا کہ گلیاں، بازار اور عوامی جگہیں رکاوٹوں اور گندگی سے پاک رہیں۔ یوں صفائی کو محض ایک عادت نہیں بلکہ قانون اور نظمِ حکومت کا حصہ بنا دیا گیا۔
شہری ذمہ داری اور ایمان کا امتزاج
اسلام میں شہری صفائی فرد اور معاشرے کو جوڑتی ہے۔ ذاتی طہارت سماجی ذمہ داری میں بدلتی ہے اور ذاتی عادات ہم سایوں کے حقِ عدل میں ڈھل جاتی ہیں۔ ایک شخص جو صرف اپنے گھر کی صفائی کرتا ہے مگر اپنے ہم سائے کو نقصان پہنچاتا ہے، اُس کا ایمان ادھورا ہے۔ لیکن جو اپنی پاکیزگی کو گلی، بازار اور پورے ماحول تک پھیلا دیتا ہے، وہ نبی ﷺ کے اُس تصور کو پورا کرتا ہے جس پر ایک پرامن، منظم اور عادلانہ معاشرہ قائم ہوتا ہے۔
یوں ہم سایہ اسلام میں محض ’’قریبی مکین‘‘ نہیں بلکہ اخلاقی خاندان کا حصہ ہے۔ اُس کے سکون، عزت اور صفائی کی حفاظت محض اچھائی نہیں بلکہ ایمان کا معیار ہے۔ جو معاشرہ اپنے ہم سایوں کو نظر انداز کرے وہ نبوی تعلیمات کا دعویٰ نہیں کر سکتا، کیونکہ نبی اکرم ﷺ کو اُن کے ہم سایوں نے بہترین ہم سایہ پایا—جو سب کے لیے امن اور سلامتی لے کر آئے۔
صفائی، رحمت اور سماجی انصاف
اسلام میں صفائی صرف جسم دھونے یا گلی کوچے صاف رکھنے کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ دراصل رحمت کا ظہور ہے۔ رحمت وہ اصل ہے جو انصاف کو معنی دیتی ہے؛ یہی دوسروں کے حقوق محفوظ رکھتی ہے، عزت کو قائم کرتی ہے اور نقصان کو دور کرتی ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جو صفائی کو اپنی پہچان بنا لے، وہ دراصل ہر فرد پر—چاہے وہ ہم سایہ ہو یا مسافر، غریب ہو یا کمزور—رحمت کی چادر تان دیتا ہے۔
صفائی کی بنیاد: رحمت
قرآن مجید نے نبی اکرم ﷺ کو یوں متعارف کرایا:
” اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر۔“(الانبیاء: 107)
یہ رحمت محض ایک نظریہ نہیں تھی، بلکہ آپؐ کی زندگی میں عملی صورت میں جلوہ گر تھی۔ آپ ؐ نے حکم دیا کہ راستوں سے نقصان دہ چیزیں ہٹا دی جائیں، پانی کے چشمے صاف رکھے جائیں اور کمزوروں کا سہارا بننا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ اس نظر سے دیکھا جائے تو صفائی دراصل رحمت کا عملی مظہر ہے۔ صاف ماحول مہیا کرکے دوسروں کو بیماری اور اذیت سے بچانا، ان کے آرام اور سکون کا بندوبست کرنا، رحمت ہے۔
رحمت مہلت دیتی ہے، سنبھلنے کا موقع دیتی ہے۔ صرف انصاف کبھی سخت سزا بن سکتا ہے، لیکن رحمت معاشرے کو درستگی کا وقت دیتی ہے۔ صفائی کو اگر رحمت کے تناظر میں دیکھیں تو اس کا مطلب ہے ایسا ماحول پیدا کرنا جہاں صحت پنپے، تخلیق پروان چڑھے اور عزت محفوظ رہے۔
صفائی: ایک سماجی ذمہ داری
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، اگر ایک عضو دکھتا ہے تو پورا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے۔ یہی اصول صفائی پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ جو شخص اپنا گھر تو صاف رکھے مگر گلی میں کچرا پھینک دے، وہ دراصل پورے معاشرے کے جسم کو بیمار کرتا ہے۔ اس طرح صفائی محض ایک ذاتی عمل نہیں بلکہ معاشرتی یکجہتی اور ذمہ داری ہے۔
گلی کو صاف رکھنا، کچرا صحیح جگہ ڈالنا، اور پانی جمع نہ ہونے دینا یہ سب بظاہر چھوٹے کام ہیں، لیکن حقیقت میں یہ بچوں، بوڑھوں اور کمزوروں کی صحت کے محافظ ہیں۔ یہ پورے معاشرے کی عزت کو بچاتے ہیں۔ گندگی اعتماد کو کھو دیتی ہے، جبکہ صفائی لوگوں کے درمیان بھروسہ اور محبت پیدا کرتی ہے۔
رحمت سے تہذیبی عروج تک
جب صفائی اور رحمت معاشروں کا حصہ بن جاتے ہیں تو تہذیبیں پروان چڑھتی ہیں۔ اسلامی تاریخ اس کی روشن مثال ہے: مدینہ میں نبی اکرم ﷺ نے راستے صاف رکھنے کی تلقین فرمائی، پانی کے ذرائع کو آلودہ کرنے سے منع فرمایا۔ بعد کے دور میں مسلم شہروں میں نہروں کا نظام، عوامی حمام، باغات اور حسبہ کے ادارے وجود میں آئے، جو عوامی صحت اور شہری صفائی کے ضامن تھے۔ یہ سب محض سہولتیں نہیں بلکہ رحمت اور انصاف کے ادارے تھے۔
جب گلیاں کچرے سے بھر جائیں، پانی آلودہ ہو جائے اور ہم سائے گندگی سے اذیت پائیں تو یہ رحمت کے خاتمے اور انصاف کے انہدام کی علامت ہے۔ اسی طرح صفائی تہذیب کا آئینہ ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ معاشرہ اللہ کی رحمت اور عدل پر قائم ہے یا غفلت اور تکبر میں گھر چکا ہے۔
خلاصہ کلام
اسلام میں صفائی کوئی معمولی عادت نہیں، بلکہ ایک ہمہ گیر اصول ہے جو جسم، ذہن، معاشرے اور کائنات کو جوڑتا ہے۔ یہ فطرت سے جڑا ہوا ہے—وہی فطرت جس پر اللہ نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا۔ جس طرح پرندے اپنے پروں کو صاف کرتے ہیں، مکھیاں اپنے چھتّے کو پاک رکھتی ہیں اور مچھلیاں صفائی کے مراکز پر جاتی ہیں، اسی طرح انسان کو بھی حکم دیا گیا ہے کہ اپنی زندگی کو پاکیزہ رکھے۔
انسان کے لیے صفائی کا مطلب زیادہ وسیع ہے۔ یہ صحت کو سہارا دیتی ہے، ذہن کو سکون بخشتی ہے، روح کو جِلا دیتی ہے اور دوسروں کے لیے رحمت کا ذریعہ بنتی ہے۔ فرد کی سطح پر صفائی جسم کو راحت دیتی ہے، ذہن کو یکسوئی بخشتی ہے اور دل کو پاکیزگی عطا کرتی ہے۔ معاشرتی سطح پر یہ انصاف اور رحمت ہے، کیونکہ یہ دوسروں کو تکلیف سے بچاتی ہے۔ تہذیبی سطح پر یہ اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ کوئی قوم اپنی اجتماعی زندگی میں رحمت اور انصاف کو کس قدر قائم رکھتی ہے ۔
ہر سطح پر صفائی ایمان کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ” صفائی آدھا ایمان ہے۔ “
قرآن اور سنت ہم سایوں کا خیال رکھنے کو اس اصول کی کسوٹی قرار دیتے ہیں۔ جو دوسروں کے راستے کو گندا کرتا ہے، یا مشترکہ جگہوں کو آلودہ کرتا ہے، وہ حقیقی ایمان کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ اس لیے صفائی ایمان کی پہچان، رحمت کا اظہار اور انصاف کی بنیاد ہے۔
آخرکار رحمت وہ اصل ہے جس پر انصاف اور صفائی قائم ہیں۔ اللہ کی رحمت ہی کائنات کو سہارا دیتی ہے، بگاڑ کو کاٹتی ہے اور انسانوں کو سدھرنے کا موقع دیتی ہے۔ انصاف اسی رحمت کا ڈھانچہ ہے، اور صفائی دونوں کا عملی اظہار۔
یوں صفائی فطرت کی طرف واپسی ہے، رحمت کا چہرہ ہے اور انصاف کا قیام ہے۔ یہ کوئی ظاہری زیبائش نہیں بلکہ ایک خدائی اصول ہے جو صحت، سکون اور عزت کی ضمانت دیتا ہے۔ جو مسلمان اس تعلیم کو اپناتا ہے وہ نبی اکرم ﷺ کی اس سنت کو زندہ کرتا ہے جس میں جسم کی پاکیزگی، ذہن کی یکسوئی، دل کی نرمی اور معاشرے میں عدل سب ایک ساتھ پروان چڑھتے ہیں۔
مشمولہ: شمارہ نومبر 2025






