سید مودودیؒ کی انفرادیت
’’سید مودودی ؒ ‘‘ ایک ایسی شخصیت کا نام ہے کہ جس کے بغیر اس ملت کی دینی، تعلیمی ، سیاسی ، معاشی ، اخلاقی تاریخ ادھوری ہے ۔ اس لئے کہ ہر شعبے کے تعلق سے جس فلسفیانہ اورسائنسیانہ طرز سے آپ نے اپنوں کے ساتھ ساتھ غیروں کی بھی رہنمائی فرمائی ہے اتنے بڑے پیمانے پر ابھی تک کام نہیں کیاگیا ۔کسی نے تصنیف سے رہنمائی کی ہے تو کسی نے تحریک سے ۔ لیکن مولانا نے دونوں طریقے سے بھر پور کام کیا ہے اور جوکیا ہے اس کا حق ادا کردیا ہے ۔
افکارِ مودودیؒ کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ان میں ایک امر کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔ جوحکومتِ اِلٰہیہ کے قیام کا نظریہ ہے ۔ علامہ محترم نے اس پر زوردیاہے اور آئینی ذرائع سے ہرممکن کوشش کی ہے کہ قیامِ حق کے لیے اقتدار کو حاصل کیا جاسکے ، اور اسلامی حکومت قائم کرکے دنیا کویہ میسیج دیا جاسکے کہ دنیا و آخرت کی عافیت اس دین کے اندر موجود ہے ۔ لیکن مولانا خونی انقلاب کے قائل نہیں ۔ آپ کے بقول !’’تشدد اورتوڑ پھوڑ کے ذریعہ سے جوانقلاب لایا جاتا ہے وہ ناپائیدار ہوتا ہے ‘‘ آپ تدریجی نقطۂ نظر سے پہلے ذہنی انقلاب پر زور دیتے ہیں ۔ جب ذہن بدل جائے گا تو ملک بدلے گا ۔ اس نظریے کی روشنی میں بحث اس پر نہیں کہ مولانا کتنا کامیاب رہے اور کتنا ناکام ۔ ناکام وہ قطعاً نہیں اس لیے کہ حق فطری طور پر کامیاب ہے ۔ ناکام تووہ بدقسمت ہیں جو حق کو ٹھکراتے ہیں ۔
سید مودودیؒ یہ آرزو رکھتے تھے کہ ہر سچے اورپکے مسلمان کو با شعور ہوناچاہئے کہ وہ حکومتِ اِلٰہیہ کے قیام کو اپنا نصب العین بنائے، اور اس کے لئے کوشش کرے ۔ بعض نادان سمجھتے ہیں کہ گویا پوری دنیا میں جنگ چھیڑ دی جائے گی اورکہا جائے گاکہ اِلٰہی حکومت قائم کرو ورنہ ہم ماریں گے ۔ آپ کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ہم قول وعمل سے اسلام کا جیتا جاگتا نمونہ بن کراثر ڈالیں ، تاکہ لوگوں کے رجحان تبدیل ہوں۔ البتہ جنگ (شرائط کے ساتھ) ان سے ناگزیر ہے جواسلام کی راہ میں روڑا بن جائیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ و ہ پوری دنیا کے کفار ومشرکین سے بلا جواز ٹکرانے کی بات کررہے تھے ۔ انہوںنے اپنا نظریہ بیان کیا کہ جنگ بذاتِ خود بھلائی نہیں، بلکہ برائی ہے ۔تو بھلاوہ عظیم انسان پوری دنیا سے کیسے جنگ چھیڑنے کو کہتا—— اس غرض کے لئے اس انسان نے تحریک جماعت اسلامی کا قیام کیابہت سوچ سمجھ کر لوگوں کو رکن بنایا ۔
کچھ ماڈرن لوگ اس طرح کی فقرے بازی کرتے ہیں کہ ’’ مولانا مودودی کے لئے کانگریس اورمسلم لیگ میں جگہ بنانا مشکل تھا سو انہوںنے حکومتِ اِلٰہیہ کے نعرے کے ساتھ جماعت اسلامی کے اپنے پلیٹ فارم سے اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کا سامان کیا ۔‘‘(احیائے ملت اوردینی جماعتیں ۔ ص ۸۰)
یہ ایک صریح بہتان ہے ۔ اگر سید مودودی کا مقصد یہ رہا ہوتا تو خود کانگریس اورمسلم لیگ انہیں دوڑ کر لے لیتی۔ وہ ویسے ہی جگہ بنالیتے ۔ وہ کانگریس کے چہرے سے نقاب نہ اتارتے، مسلم قوم کومتنبہ نہ کرتے، مسلم لیگ پر تنقید کرکے اسے صحیح راستہ نہ بتاتے ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس مردِ مومن نے کانگریس کوتوپرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں دی اور مسلم لیگ سے بھی کنارہ کش ہی رہے۔ ذرا دیکھ لیجئے کہ جماعت اسلامی کا قیام کن مقاصد کے تحت ہوا تھا۔
نصب العین
’’سید مودودیؒ‘‘ ارشاد فرماتے ہیں:
’’ مسلمانوں کا اصل نصب العین اسلامی نظام زندگی کا قیام ہے، ان کا نصب العین اپنی ایک قومی حکومت کا قیام نہیں ہے۔ بلکہ ان کا حقیقی نصب العین ایک ایسی ریاست قائم کرنا ہے جودنیا میں اللہ کا کلمہ بلند کرے ۔ جس کی تہذیب وثقافت جس کا معاشرتی نظام، جس کا معاشی نظام، جس کا اخلاقی ماحول، جس کی عدالت، جس کی پولیس، جس کے قوانین ، جس کی فوج، جس کی سفارت غرض جس کی ہر چیز دنیا کے سامنے اسلام کا نمونہ پیش کرنے والی ہو۔ جس کو دیکھ کردنیا یہ جانے کہ اسلام اورکفر میں کیا فرق ہے ‘‘۔ (تذکرہ سید مودودی۔ دوم ۔ ص ۵۱۹۔ معارف اسلامی، لاہور)
اُس وقت دنیا گمراہ کن اصولوں پر کھڑی تھی یعنی سکولرزم ، نیشنلزم اور ڈیموکریسی جنہوںنے عالم انسانیت پر شب خون مار کر اس کا حلیہ بگاڑدیا تھا ، ان کے مقابل جماعت نے تین صالح اصولوں کو پیش کیا جو جامع ہیں اوران میں انسان کی فلاح مضمر ہے ۔ ’’سید مودودیؒ‘‘ فرماتے ہیں:۔
’’مغربی تہذیب نے جس سیاست کوجنم دیا ہے اس کی بنیادوں پر عام طور ’’لادین‘‘ ’’قومی‘‘ ’’جمہوری ریاست‘‘ وجود میں آتی ہے ۔ لادینیت ، قوم پرستی اورانسان کے اقتدار پر اعلیٰ کے بنیادی اصولوں پر جوریاستیں قائم ہوتی ہیںان سے کبھی انسان کوفلاح نصیب نہیںہوسکتی۔ اس کے مقابلے میں جماعت اسلامی جس نظام کولے کر اُٹھی ہے اس کے تحت قائم ہونے والی ریاست کی بنیاد لادینیت کی جگہ خدا کی بندگی، قوم پرستی کی جگہ انسانیت اور جمہوریت کی حاکمیت کے مقابلہ میں خدا کی حاکمیت اور جمہور ہیں۔‘‘(حوالہ مذکور ۔ ص ۵۴۳)
یہ تھا قیامِ جماعت کا مقصد ۔ یعنی اسلامی نظامِ حکومت ۔ کیا اس سے کوئی پہلو اس طرح کا نکلتا ہے کہ ایک شخص نے اپنے ’’سیاسی عزائم‘‘ یعنی اپنے مفاد ، کے لئے ایک پلیٹ فارم بنایا ، اور ہز اروں لوگ اتنے نادان تھے کہ اس مفاد پرست کے ساتھ ہوگئےاورپھر کیا ایک مفاد پرست کی زبان سے اس طرح کے جملے نکل سکتے ہیں ۔ ایک جاہل سے جاہل آدمی بھی کہہ دے گا کہ اس سے سوائے نظامِ اسلامی کے قیام کے لیے خلوص کے سوا کچھ نہیں جھلکتا ۔
جماعت اسلامی
جماعت اسلامی کا قیام اس غرض کے لئے ہوا تھا کہ دنیا کے ہر شعبے پر اسلامی نقوش کومرتسم (impressed) کریں، معاشی ، معاشرتی ، اخلاقی ، تعلیمی ، علمی و ادبی و سیاسی شعبوں پر حق غالب ہو ۔ سیاست کے شعبے پر توجہ کریں تو اس کے ذریعے سے وہ کام جلد ہوجائے گا جو اصلاح کی بنیاد ہوگا۔ یہ فکر کوئی نرالی نہیں بلکہ اس قول کی تشریح تھی کہ !اِنَّ اللہَ یَزَعُ بِالشَّیْطَانِ مَالاَ یَزَعُ بِالْقُرْآن ۔ یعنی اللہ تعالیٰ حکومت کی طاقت سے ان چیزوں کا سدِّ باب کردیتا ہے جن کا سدّ باب قرآن سے نہیں کرتا ‘‘۔ اس مقصد کے تحت قائد آواز لگاتا ہے کہ حکومتِ اِلٰہیہ کے لئے سرتوڑ کر کوشش کرو‘‘ ۔ لیکن یہ آواز مارکس وادیوں کی طرح نہیں ہوتی کہ دنیا کے مزدور و متحد ہوجاؤ اورحکومت کواکھاڑ پھینکو خواہ اس کے لئے لاشوں کا پُل ہی کیوں نہ بن جائے۔ بلکہ اس آواز میں ضلالت کے مقابلے ہدایت ہے، جوش کے مقابلے ہوش ہے، قوم پرستی کے مقابلےمیں انسانیت ہے۔
اس کے بعد قائد بتاتا ہے کہ ہم جس دین پر ایمان رکھتے ہیں اس کا مطلب کیا ہے ؟
’’دین‘‘ کا لفظ عربی زبان میں اس نظام زندگی یا طریقِ زندگی کے لئے استعمال ہوتا ہے جس کے قائم کرنے والے کو سند اور مطاع تسلیم کرکے اس کا اتباع کیا جائے ۔ پس بعثتِ رسول کی غرض اس آیت میں یہ بتائی گئی ہے کہ جس ہدایت اوردین حق کووہ خدا کی طرف سے لایا ہے اسے دین کی نوعیت رکھنے والے طریقوں اورنظاموں پر غالب کردے ۔ دوسرے الفاظ میں رسول کی بعثت کبھی اس غرض کے لئے نہیں ہوئی ہے کہ جونظامِ زندگی لے کروہ آیا ہے وہ کسی دوسرے نظام زندگی کا تابع اور اس سے مغلوب بن کر اور اس کی دی ہوئی رعایتوں اورگنجائشوں میں سمٹ کر رہے ۔ بلکہ وہ بادشاہ ارض و سما کا نمائندہ بن کر آتا ہے اوراپنے بادشاہ کے نظام حق کوغالب دیکھنا چاہتا ہے ۔اگر کوئی دوسر ا نظام زندگی دنیامیں رہے بھی تو اسے خدائی نظام کی بخشی ہوئی گنجائشوں میں سمٹ کر رہنا چاہیے ۔ جیسا کہ جزیہ ادا کرنے کی صورت میں ذمیّوں کا نظامِ زندگی رہتا ہے ‘‘۔ (تفہیم القرآن۔ دوم۔ص ۱۹۰)
دین کا مفہوم
قرآن کی آیت کی تشریح میں ہم جس مقام پر پہنچتے ہیں وہ یہ ہے کہ دین کا تقاضا یہ ہے کہ اہلِ ایمان جہاں کہیں بھی ہوں وہ اس کے لئے سر توڑ کر کوشش کریں کہ سماج سے جرم ، ظلم اور حیوانیت ختم ہوا ور اِلٰہی حکومت قائم ہو۔ ہم انہیں نہیں چھیڑیں گے ، جو ہماری راہ میں حائل (Obstructing)نہ ہیں ، فتنہ وفساد نہ مچائیں ۔ ہم انہیںصرف تبلیغ کریں گے ۔ جولوگ اپنے ناقص مطالعہ سے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ دین کا مقصود صرف اپنی اصلاح ہے، یا اپنے گھر کی، یا اپنے خاندان کی یا زیادہ سے زیادہ اپنی قوم کی تو یہ قرآن کے خلاف ہے اوریہ خیال پست ذہنیت کا ثبوت ہے غلامی ایسے ہی حالات پیدا کردیتی ہے اوربدن کے ساتھ ذہن کوبھی مفلوج کرکے رکھ دیتی ہے —— قیام دین کا نظریہ ہمیں قرآن دے رہا ہے ، یہ کسی کا ذہنی اختراع نہیں۔ قرآن کہتا ہے :وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّہٗ لِلہِ’’ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہےاور دین پورا کا پورا اللہ کے لئے ہوجائے‘‘۔ (الانفال :۳۹)
کیا یہ حکم صرف آنحضورؐ کودیا گیا تھا، اب ہم اس سے بری ہیں ۔ کیا اب زمین سے فتنہ ختم ہوگیا ہے ، اب اس حکم پر عمل خدا کو مطلوب نہیں ہے ۔ اگر ایسا ہے تو اسے منسوخ ہوجانا چاہیے تھا کوئی وجہ نہیں تھی کہ قیامت تک مسلمان صرف اس کی تلاوت کریں اور اغیار بھی طعنہ دیں کہ قرآن تو قتل وخو ن کا درس دیتا ہے ۔ غلطی سے بعضـ لوگوں نے ’’دین‘‘ کا ایک محدود تصور ذہن میں قائم کررکھا ہے جس کی قید سے وہ باہر نہیں نکل پارہے اور نہ دین اس کی وسعت کوسمجھ پارہے ہیں ۔ اس لئے بلا دلیل یہ کہتے ہیں کہ قرآن سے اقامتِ دین کا نظریہ ثابت نہیں ہے ۔
جہاد کی غایت
علامہ مودودیؒ ‘‘ کی اس فلسفیانہ بحث کودیکھیں جن میں سارے اسرار ورموز سامنے آجاتے ہیں:۔
’’ (اللہ کی راہ میں)لڑائی کی غایت یہ نہیں ہے کہ وہ ایمان لے آئیں اوردین حق کے پیرو بن جائیں ۔ بلکہ اس کی غایت یہ ہے کہ ان کی خود مختاری وبالادستی ختم ہوجائے۔ وہ زمین میں حاکم اورصاحب امربن کر نہ رہیں۔ بلکہ زمین کے نظام زندگی کی باگیں اورفرماں روائی وامامت کے اختیارات متبعین دینِ حق کے ہاتھوں میں ہوں او ر وہ ان کے ماتحت تابع ومطیع بن کررہیں ….. جولوگ خدا کے دین کواختیار نہیں کرتے اوراپنی یا دوسروں کی نکالی ہوئی غلط راہوں پر چلتے ہیں وہ حد سے حد بس اتنی ہی آزادی کے مستحق ہیں کہ خود جوغلطی کرنا چاہتے ہیں کریں ، لیکن انہیں اس کا قطعاً کوئی حق نہیں ہے کہ خدا کی زمین پر کسی جگہ بھی اقتدار وفرماں روائی کی باگیں ان کے ہاتھوں میں ہوں۔ اوروہ انسانوں کی اجتماعی زندگی کا نظام اپنی گمراہیوں کے مطابق قائم کریںاور چلائیں ۔ یہ چیز جہاں کہیں ان کوحاصل ہوگی فساد رونماہوگا اور اہل ایمان کا فرض ہوگا کہ ان کو اس سے بے دخل کرنےاورانہیں نظام صالح کا مطیع بنانے کی کوشش کریں۔‘‘(تفہیم القرآن ۔ دوم۔ ص ۱۸۸)
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ نظریہ سید مودودی کے دماغ کی اُپج ہے ، یہ دین میں تحریف ہے ، اپنے سیاسی رنگ کو چمکانے کے لئے یہ نظریہ تراشا اور اس کا سہارا لیا، تنقید کرنے والوں میں پیش پیش وحید الدین خاں صاحب اور جناب سلطان احمد اصلاحی مرحوم ہیں۔
مثال کے طور پر جناب سلطان احمد اصلاحی لکھتے ہیں:۔
’’بانی جماعت اسلامی مولانا مودودیؒ کی حکومتِ اِلٰہیہ کے قیام کی یہ تھیس صرف ان کی انشاء پر واز کی دین ہے اورسیاسی کشمکش کے اپنے سلسلے اوراس سلسلے کی اپنی دیگر تصنیفات ورسائل مضامین میں انہوں نے قرآن حکیم کی جن آیات سے استدلال کیا ہے ان سے یہ مضمون ثابت نہیں ہوتا۔ ان آیات کریمہ کی ان کی یہ بالکل طبع زاد تفسیر وتشریح ہے…..اس طرح سے اس بحث میں قرآن کے اسوۂ یوسفی کی کلیدی اہمیت ہے جنہوںنے جلیل القدر پیغمبر ہوتے ہوئے مصلحت کے تقاضے سے اپنے وقت میں مصر کی غیر اِلٰہی حکومت میں وزارتِ عظمیٰ یا وزارتِ خزانہ کا کلیدی منصب قبول کیا ۔ مولانا مودودی کی اس کے سلسلے میں کوئی تحقیق نہیں ہے اوراپنی تفسیر اوردیگر میں انہوں نے اسوۂ یوسفی کے حوالے سے جوکچھ کہا ہے وہ نادرست اورراہ صواب سے منحرف ہے ۔‘‘(علم وادب ۔ ص ۲۲۔۲۳۔ مارچ ۲۰۱۴ء)
اسوۂ یوسفی
مولانا مودودی دین کے مبلغ تھے، کوئی وکیل نہیں تھے کہ اپنا مقدمہ جیتنا چاہ رہے تھے ۔ انہوں نے جو نظریہ بیان کیا ہے وہ ان کا طبع زاد نہیں بلکہ اسے انہوںنے قرآن سے اخذ کیا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ اسوۂ یوسفی میں’’ خزائن‘‘ کی اصطلاح کن معانی میں آتی ہے ۔ خزائن سے مراد وزارتِ عظمی یا وزارتِ خزانہ لینا ایک مہمل بات ہےصحیح بات یہ ہے کہ یہاں خزائن کے معانی اقتدار کے ہیں۔ مولانا مودودیؒ نے اسوۂ یوسفی کے تعلق سے جوکچھ لکھا ہے وہ قطعاً ’’راہِ صواب سے منحرف ‘‘ نہیں ہے ۔
اس موضوع (اسوۂ یوسفی) پر میں تفصیلی بحث کرچکا ہوں۔ جیسے دیکھنا ہو ملاحظہ فرمائیں۔ (زندگی نو۔ جولائی ۲۰۱۶ء ) تھوڑی دیر کے لئےمان لیا جائے کہ انہوںنے وزیر مالیات ہی کا شعبہ مانگاتھا۔ تو سوال یہ ہے کہ کس لئے؟ نظام کی نوکری کے لئے یا صالح تبدیلی کے لئے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اللہ کے نبی کا تو یہ کام نہیں تھا کہ وہ بھی موجود نظام میں شامل ہوجائے۔ وہ تو قانونِ اِلٰہی کے نفاذ کے لئے بھیجا گیا تھاحضرت یوسف نے چاہاہوگاکہ بتدریج دین اللہ قائم کروں جیسا کہ کیا بھی۔ تو یہ بات بے بنیاد ہے کہ انہوںنے حکومتِ کافرہ کے ساتھ تعاون کیا ۔
’’سلطان احمد اصلاحی صاحب‘‘ ایک مقام پر یوں رقم طراز ہیں:
’’یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ تو بہ ۳۳ اورانفال۳۹ کی آیات کی تفسیر کے سلسلے میں مفکر اسلام مولانا مودودی نے جس سہل انگاری کا ثبوت دیا ہے کسی اوسط درجے کے عالم دین سے بھی اس کی توقع نہیں کی جاتی ۔ واقعہ ہے کہ مولانا مودودی بہت بڑے عالم دین ہیں اور اسلامیات کا ان کا مطالعہ بھی غیر معمولی طور پر وسیع ہے ۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ جنگ عظیم اوّل ۱۹۱۵تا ۱۹۱۹ اورجنگ عظیم دوم ۱۹۳۹ تا ۱۹۴۵ تک ان کے اوپر اس عالمی اتھل پتھل کے پس منظر میں ایسی ہیجانی کیفیت طاری رہی کہ وہ کتاب اللہ کے ساتھ انصاف نہیں کرسکے ۔ بعد کے دور میں انہوں نے اپنے کوقدرے سنبھالا ، لیکن اسے قبل وہ اسلام کے اپنے مخصوص فلسفے کے جس اساس کومستحکم کرچکے تھے اپنے قلم سے وہ اس کو ڈھانے کی ہمت نہ کرسکے اوراب ان کے ناخلف جانشینوں کی کاروباری مصلحتیں اس کی راہ میں عزائم ہیں کہ وہ ان کے لٹریچر کے مخصوص حصوں کی بے اعتدالیوں کورفع کرنے کی کسی مہم کا آغاز کرسکیں‘‘۔ (حوالہ مذکور۔ ص ۵۰۔۵۱)
دین کی وسعت
سو رہ توبہ آیت ۳۳ کی تشریح میں مولانا مودودیؒ نے جولکھا ہے ، آخر اس میں غلطی کیا ہے ۔ کیا دین طریقِ زندگی نہیں ہے ؟ کیا دین اس لئے ہے کہ وہ کفار ومشرکین کے تابع رہے؟ کیا دین غلبہ واقتدار نہیںچاہتا؟ کیا دین کا تقاضا مغلوبیت ہے؟ کیا دین یہ نہیں چاہتا کہ لوگوںنے جواوہام وتخیلات ، خرافات ایجاد کرلیے وہ دین اللہ کوان خرافات کا تابع نہ بنائیں؟ میں جس دین کوجانتا اور سمجھتا ہوں وہ اوپر کی پیش کردہ تمام شرائط چاہتا ہے ، اور تقاضا کرتا ہے کہ دنیا میں میرے ماننے والے کم تر نہیں برتر ہوں، غلام نہیںامام و قائد بن کر رہیں اوراس لئے وہ یہ درس دیتا ہے ۔ لِیُظْہِرَہُ عَلٰی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوکَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّہٗ لِلہِ ’’ یہ حکم قیامت تک کے لیے ہے اور صرف تلاوت کے لئے نہیں ، بلکہ عمل در آمد کے لئے ہے ۔ اگر اس حکم کوکوئی آنحضورؐ تک یاصحابہ تک یا عرب تک یا ایک خاص وقت تک محدود کرتا ہے تو یہ اس کے اپنے ذہن کی تنگی ہے ۔ ورنہ آیات تو بر حق اور آفاقی ہیں۔
سلطان صاحب ایک مقام پر کہتے ہیں:۔
’’جب تک کسی مفسر قرآن یا محقق اسلام کا دیگر پہلوؤں کے علاوہ اسوۂ یوسفی کا درست مطالعہ نہ ہو وہ قرآن کی صحیح تفسیر اوراس کی اصطلاحات کے حقیقی مفہوم تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب نہیںہوسکتا۔ مفکر اسلام مولانا مودودیؒ کی طرح ہے چونکہ سید واحد علیؒ بھی اسوۂ یوسفی کے درست تحقیقی مطالعہ سے قاصر ہیں ، اس لئے بہت سارے مقامات پر وہ آیاتِ قرآنی کی صحیح تفسیر کرنے سے کوتاہ دست رہے ہیں ۔ یہ دونوں کے دونوں حاکمیت اِلٰہ کی جماعت اسلامی کی مخصوص تھیس کے اثبات میں گھما گھما کر یوسف: ۴۰ اِنَّ الحُکْم الا للہ کا حوالہ دیتے ہیں جس کا تقاضا ہے کہ ایک سچے متبع قرآن کو اس کے برعکس حاکمیت انسان کی علم بردار دنیا بھر کی غیر مسلم اکثریتی حکومتوں کے خلاف کسی استثناء اور کسی تفریق وتقسیم کے بغیر لام بند ہوجانا چاہئے، یہاں تک کہ مسلمان اکثریتی ملکوں میں بھی ان کے گم کردہ راہ حکمراں اگر حاکمیت اِلٰہ کے تقاضوں پر عمل کرتے ہوئے اپنے یہاں مکمل طور پر آخری محمدی شریعت کے نفاذ سے قاصر ہوں تو کسی تاخیر کے بغیر ان کوبھی مسند اقتدار سے بے دخل کر دینے کی مہم کا آغاز کردینا چاہیے‘‘۔(حوالہ مذکور۔ ص۔ ۷۵۔ ۷۶)
سید مودودیؒ بہت پہلے تحریر فرماچکے تھے۔
’’تمہاری جنگ نہ تو اپنی مادی اغراض کے لئے ہو، نہ ان لوگوں پر ہاتھ اُٹھاؤ جودین حق کی راہ میں مزاحمت نہیں کرتے—– بلا شبہ انسانی خون بہانا بہت برا فعل ہے ۔ لیکن جب کوئی انسانی گروہ زبردستی اپنا فکری استبداد دوسروں پر مسلط کرے اور لوگوں کوقبولِ حق سے روکے اوراصلاح وتغیر کی جائز و معقول کوششوں کا مقابلہ دلائل سے کرنے کے بجائے حیوانی طاقت سے کرنے لگے تووہ قتل کی بہ نسبت زیادہ سخت برائی کا ارتکاب کرتا ہے اورایسے گرو ہ کو بزور شمشیر ہٹا دینا بالکل جائز ہے ۔
کافر، مشرک ، دہرئے ہرایک کواختیار ہے کہ اپنا جوعقیدہ رکھتا ہے رکھے، اور جس کی چاہے عبادت کرے یا کسی کی نہ کرے ۔ اس گمراہی سے اس کو نکالنے کے لئے ہم اسے فہمائش اورنصیحت کریں گے مگر اس سے لڑیں گے نہیں۔ لیکن اسے یہ حق ہر گز نہیں ہے کہ خدا کی زمین پر خدا کے قانون کے بجائے اپنے باطل قوانین جاری کرے اورخدا کے بندوں کوغیر از خدا کسی کا بندہ بن جائے ۔ اس فتنے کودفع کرنے کے لئے حسب موقع اور حسب امکان تبلیغ اورشمشیر دونوں سے کام لیا جائے گا ۔‘ ‘ (تفہیم القرآن ۔ اوّل۔ ص ۱۵۰۔ ۱۵۱)
جہاد کا منشا
یہ ہے مولانا مودودیؒ کی تحریر جس میں وہ پوری دنیا کے مشرکین سے جنگ چھیڑ نے کو نہیں کہتے ۔ بلکہ راہِ حق میں مزاحمت ، فکری استبداد ، قبولِ حق میں رکاوٹ اور ، حیوانی طاقت کے استعمال کی صورت میں تلوار اُٹھانے کی اجازت دیتے ہیں ۔ وہ بھی اپنا شوقِ فرماں روائی پورا کرنے کے لئے نہیں، بلکہ فتنہ وفساد کوکچلنے کے لئے اورقتال فی سبیل اللہ کے لئے۔
اگردین کا مفہوم غلبہ واقتدار ، حکمرانی وفرماں روائی، اطاعت وبندگی اور شریعت وقانون ہوتا ہے تو کیا ہمیں ان مفہومات کوصِرف اپنے ذہن میں رکھنا ہے ۔ دین کا نفاذ مطلوب نہیں ہے ۔ کیا طعام کا مطلب کھانا ہے تو اس کو صرف پیٹ میں رکھنا ہے ، کھانے سے پیٹ بھرنا نہیں ہے ۔ اگر ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم حق کے اقتدار کے لئے کوئی فکر نہ کریں، کوئی کوشش نہ کریں، کوئی قدم نہ اُٹھائیں اورصرف حجرے میں بیٹھ کر ان آیات کا ذکر کرتے رہیں تا کہ ہماری نا اہلی سے کافرو مشرک اس زمین کا حال بدسے بدترکردیں۔ پھر یہ اقتدار ہمیں تسبیج کے دانے پھرانے سے ملنے والا نہیں ہے، بلکہ اس کے لئے جان ومال کی قربانی دینی پڑے گی اورحسبِ ضـرورت توپ وتفنگ بھی چلانی پڑے گی—— قرآن تو یہی بتاتا ہے کہ اللہ کی حاکمیت صرف فوق الفطری ہی نہیں، بلکہ سیاسی اور قانونی حیثیت سے بھی ہے ۔ اسی سیاست اور قانون کوجاری کرنے کے لئے رسول اللہ نے تبلیغ بھی کی، جنگ بھی کی اور اسلامی ریاست بھی قائم کی۔ معلوم ہوا کہ جب حاکمیت صرف اس اللہ واحد کی ہے تو لامحالہ حکومت، عدالت، قانون، نظم ونسق اس زمین پر اس کے ہونے چاہئیں ۔ کسی بادشاہ ، حکمراں، اورجمہورکویہ حق نہیں ہے کہ وہ خدا کے بندوں کو خود اپنا بندہ بنائے۔
خدا کا قانون عالم گیر ہے ۔ وہ محض مسلمانوں ، یا عربوں تک محدود نہیں ۔ بلکہ وہ ہر شعبے پر اپنا اثر و تسلط چاہتا ہے ۔ اسی کو لے کر اُٹھ کھڑا ہونا جہاد فی سبیل اللہ ہے ، اور کھڑے ہونے والے کومجاہد کہا جاتا ہے ، اوراس کے لئے لڑنا قتال فی سبیل اللہ ہے۔
’’سلطان احمد اصلاحی مرحوم‘‘ لکھتے ہیں:۔
’’مفکر اسلام نے حکومتِ اِلٰہیہ کے قیام کے اپنے مخصوص ایجنڈے کی تائید کے لئے آیات قرآنی میں کفروبلونت کو اپنا مستقل وطیرہ بنارکھا ہے —— اس پورے سلسلےمیں متعلق انبیاء کی لڑائی اپنی اپنی اقوام سے خالص توحید اورشرک کی لڑائی ہے ، جس کومصنف نے غلط رنگ دے کر اسکو اصلاً دنیا کے اقتدار کی طرف موڑ دیا ہے‘‘۔(علم وادب ۔ ص ۴۵۔ ستمبر ۲۰۱۵ء)
سلطان صاحب نے ایسی بے مقصد کی بحثیں پیدا کیں جن کا کوئی حاصل نہیں ان میں محض دو رنگ نمایاں ہیں ۔ ایک تو ذہنی خلش کا جوان کے ادب کوکھا گیا ہے اوردوسرے خوش خیالی کا جوحقیقت کونگل گیا ہے اورانہیں حقیقت کو سمجھنے نہیں دے رہا ہے ۔
اگر سلطان صاحب نے سید مودودیؒ کے نظریۂ اقامتِ دین کو گہرائی سے سمجھا ہوتا تو اس طرح کی بے وز ن بات نہ کرتے ۔ آئیے ہم آپ کو اقامتِ دین کے تعلق سے سید مودودیؒ کی ایک فیصلہ کن بحث کی طرف لے چلتے ہیں ۔ پھر فیصلہ کیجئے کہ کون کھرا ہے اورکون کھوٹا۔ سلطان صاحب جیسے لوگوں نے جو خرابیاں پھیلادی ہیں اس سے لوگ گمراہ نہ ہوں اور حقیقت کی راہ پاسکیں۔
اقامتِ دین
’’سید مودودیؒ ‘‘ لکھتے ہیں:۔
’’اقیموا الدین —— اقامت کے معنیٰ قائم کرنے کے بھی ہیں اورقائم رکھنے کے بھی اورانبیاء علیہ ان دونوں ہی کاموں پرمامور تھے—— اب ہمارے سامنے دو سوالات آئے ہیں ۔ ایک یہ کہ دین کوقائم کرنے سے کیا مراد ہے؟
دوسرے یہ کہ خود دین سے کیا مراد ہے جسے قائم کرنے اور پھر قائم رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ؟ ان دونوں باتوں کواچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔
قائم کرنے کا لفظ جب کسی مادّی یا جسمانی چیز کے لئے استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد بیٹھےکواُٹھانا ہوتا ہے۔ مثلاً کسی انسان یا جانور کواُٹھانا ۔ یا پڑی ہوئی چیز کو کھڑا کرنا ہوتا ہے ۔ جیسے بانس یا ستون کوقائم کرنا —–لیکن جوچیزیں مادّی نہیں بلکہ معنوی ہوتی ہیں ان کے لئے جب قائم کرنےکا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے مراد اس چیز کی محض تبلیغ کرنا نہیں بلکہ اس پر کما حقہ، عملدرآمد کرنا ، اسے رواج دینا اوراسے عملاً نافذ کرنا ہوتا ہے ۔ مثلاً جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص نے اپنی حکومت قائم کی تو اس کے معنیٰ یہ نہیں ہوتے کہ اس نے اپنی حکومت کی طرف دعوت دی ، بلکہ یہ ہوتے ہیں کہ اس نے ملک کے لوگوں کواپنا مطیع کواپنا مطیع کرلیا اور حکومت کے تمام شعبوں کی ایسی تنظیم کردی کہ ملک کا سارا انتظام اس کے احکام کے مطابق چلنے لگا—- اس تشریح کے بعد یہ بات سمجھنے میں کوئی دقّت پیش نہیں آسکتی کہ انبیا ء علیہ السلام کو جب اس دین کے قائم کرنے اورقائم رکھنے کا حکم دیا گیا تواس سے مراد صرف اتنی بات نہ تھی کہ وہ خود اس دین پر عمل کریں ، اور اتنی بات بھی نہ تھی کہ وہ دوسروں میں اس کی تبلیغ کریں تاکہ لوگ اس کا برحق ہونا تسلیم کرلیںتواسے آگے قدم بڑھا کر پورا کا پورا دین ان میں عملاً رائج اورنافذ کیا جائے تا کہ اس کے مطابق عمل در آمد ہونے لگے۔
اب دوسرے سوال کو لیجئے ۔ بعض لوگوں نے دیکھا کہ جس دین کوقائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔و ہ تمام انبیاء کے درمیان مشترک ہے ، اورشریعتیں ان سب کی مختلف رہی ہیں ۔ جب کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے ۔ لکل جعلنا منکم شرعۃ ومنہا جا اس لئے انہوں نے یہ رائے قائم کرلی کہ لامحالہ اس دین سے مراد شرعی احکام وضـوابط نہیں بلکہ صرف توحیدو آخرت اور کتاب وثبوت کا ماننا اوراللہ تعالیٰ کی عبادت بجالانا ہے ، یا حد سے حد اس میں وہ موٹے موٹے اخلاقی اصول شامل ہیںجوسب شریعتوں میں مشترک رہے ہیں۔ لیکن یہ ایک بڑی سطحی رائے ہے جومحض سرسری نگاہ سے دین کی وحدت اور شرائع کے اختلاف کودیکھ کر قائم کرلی گئی ہے اوریہ ایسی خطرناک رائے ہے کہ اگر اس کی اصلاح نہ کردی جائےتو آگے بڑھ کر بات دین وشریعت کی اس تفریق تک جا پہنچے گی جس میں متبلا ہوکر سینٹ پال نے دین بلا شریعت کا نظریہ پیش کیا اورسید نا مسیح علیہ السلام کی امت کوخراب کردیا —– اس طرح کے قیاسات سےدین کا مفہوم متعین کرنے کے بجائے آخر کیوں نہ ہم خود اللہ کی کتاب سے پوچھ لیں کہ جس دین کوقائم کرنے کا حکم یہاں دیا گیا ہے آیا اس سے مراد صرف ایمانیات اورچند بڑے بڑے اخلاقی اصول ہی ہیں یا شرعی احکام بھی ۔ قرآن مجید کا جب ہم تتبع کرتے ہیں تو اس میںجن چیزوں کودین میں شمار کہا گیا ہے ان میں حسب ذیل چیزیں ملتی ہیں۔
وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِــيَعْبُدُوا اللہَ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ۰ۥۙ حُنَفَاۗءَ وَيُقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَيُؤْتُوا الزَّكٰوۃَ وَذٰلِكَ دِيْنُ الْقَيِّمَۃِ۵(البینۃ:۵) حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَۃُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيْر——-اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ (المائدہ: ۳ )قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ (التوبۃ:۲۹)
یہ وہ نمونے ہیں جن میں شریعت کے احکام کو بالفاظ صریح دین سے تعبیر کیا گیا ہے——
در اصل ساری غلط فہمی صرف اس وجہ سے پیدا ہوئی ہے کہ آیت لکل جعلنا منکم شریعۃ ومنہاجا کا الٹا مطلب لے کر اسے یہ معنیٰ پہنادئےگئے ہیں کہ شریعت چونکہ ہر امت کے لئے الگ تھی اورحکم صرف اس دین کے قائم کرنے کا دیا گیا ہے جوتمام انبیاء کے درمیان مشترک تھا۔ اس لئے اقامتِ دین کے حکم میں اقامتِ شریعت شامل نہیں ہے—-
قرآن مجید کوجوشخص بھی آنکھیں کھول کر پڑھے گا اسے یہ بات صاف نظر آئے گی کہ یہ کتاب اپنے ماننے والوں کوکفر اورکفار کی رعیت فرض کرکے مغلوبانہ حیثیت میں مذہبی زندگی بسر کرنے کا پروگرام نہیں دے رہی ہے ، بلکہ یہ علانیہ اپنی حکومت قائم کرنا چاہتی ہے ۔ اپنے پیروؤں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ دین حق کو فطری ، اخلاقی ،تہذیبی اور قانونی وسیاسی حیثیت سے غالب کرنے کے لئے جان لڑادیں ، اور ان کو انسانی زندگی کی اصلاح کا وہ پروگرام دیتی ہے جس کے بہت بڑے حصے پر صرف اس صورت میں عمل کیا جاسکتا ہے جب حکومت کا اقتدار اہلِ ایمان کےہاتھ میں ہو۔ یہ کتاب اپنےناز ل کئے جانے کا مقصد یہ بیان کرتی ہے کہ اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰىكَ اللہُ (النساء۔ ۱۰۵) ’’ اس کتاب میں زکوٰۃ کی تحصیل وتقسیم کے جواحکام دئےگئے ہیں وہ صریحاً اپنے پیچھے ایک ایسی حکومت کا تصور رکھتے ہیں جوایک مقرر قاعدے کے مطابق زکوٰۃ وصول کرکے مستحقین تک پہنچانے کا ذمہ لے— اس کتاب میں سود کو بندکرنے کا جوحکم دیا گیا ہے اورسود خواری جاری رکھنے والوں کے خلاف جواعلان جنگ کیا گیا ہے وہ اس صورت میں رو بعمل آسکتا ہے جب ملک کا سیاسی اورمعاشی نظام پوری طرح اہلِ ایمان کے ہاتھ میں ہو۔ اس کتاب میں قاتل سے قصاص لینے کا حکم ، ہاتھ کاٹنے کا حکم، زنا اور قذف پر حد جاری کرنے کا حکم، اہلِ کتاب سے جزیہ لینےکا حکم اس مفروضے پر نہیںدیا گیا ہے کہ مسلمان کافروں کی رعایا ہوتے ہوئے بھی ان سے جزیہ وصول کریںاور یہ معاملہ صرف مدنی سورتوں ہی تکب محدود نہیں ہے ۔ مکی سورتوں میں بھی دیدۂ بینا کو علانیہ نظر آسکتا ہے کہ ابتداء ہی سے جونقشہ پیش نظر تھا وہ دین کے غلبہ واقتدار کا تھا نہ کہ کفر کی حکومت کے تحت دین اوراہلِ ایمان کے ذمی بن کر رہے گا۔
سب سے بڑھ کر جس چیز سے تعبیر کی یہ غلطی متصادم ہوتی ہے وہ خود رسول اللہ کا وہ عظیم الشان کام ہے جو حضورؐ نے ۲۳ سال کے زمانہ ٔ زرسالت میں انجام دیا ۔ آخر کون نہیں جانتا کہ آپ نے تبلیغ اورتلوار دونوں سے پورے عرب کومسخر کی اور اس میں ایک مکمل حکومت کا نظام ایک مفصل شریعت کے ساتھ قائم کردیا، جو اعتقادات اورعبادات سے لے کر شخص کردار ، اجتماعی اخلاق،تہذیب وتمدن، معیشت ومعاشرت، سیاست و عدالت، اورصلح وجنگ تک زندگی کے تمام گوشوں پر حاوی تھی ۔ اگر حضورؐ کے اس پورے کام کو اقامتِ دین کے اس حکم کی تفسیر نہ مانا جائے جواس آیت کے مطابق تمام انبیاء سمیت آپ کودیا گیا تھا توپھر اس کے دو ہی معنیٰ ہوسکتے ہیں ۔ یاتو معاذ اللہ حضورؐ پر یہ الزام عائد کیا جائے کہ آپ مامور توصرف ایمانیات اور اخلاق کے موٹے موٹے اصولوں کی محض تبلیغ ودعوت پر ہوئے تھے ، مگر آپ نے اسے تجاوز کرکے بطور خود ایک حکومت قائم کردی اورایک مفصل قانون بنا ڈالا۔ یا پھر اللہ تعالیٰ پریہ الزام رکھا جائے کہ وہ سورہ شوریٰ میں مذکورۂ بالا اعلان کرچکنے کے بعد خود اپنی بات سے منحرف ہوگیا اوراس نے اپنے آخری نبی سے نہ صرف وہ کام لیا جو اس سورہ کی اعلان کردہ اقامتِ دین سے بہت کچھ زائد اور مختلف تھا‘‘۔تشریح کے لیے دیکھ لیں۔(تفہیم القرآن ، چہارم ۔ ص ۴۸۷ تا ۴۹۲)
شرک کے اثراتِ بد
صداقت تو یہ ہے کہ سید مودودیؒ نے اس اقتباس میں اقامتِ دین کی تشریح کا حق ادا کردیا ہے اور اگر مگر کی کوئی گنجائش باقی رہنے نہ دی ۔ اس کے باوجود کسی کی سمجھ میں نہ آئے تو وہ اپنی عقل کاماتم کرےرہا سلطان احمد اصلاحی صاحب کا یہ اعتراض کہ ’’انبیاء کی لڑائی اپنی اپنی اقوام سے خالص توحید اورشرک کی لڑائی ہے ۔ جس کو دنیا کے اقتدار کی طرف موڑ دیا گیا ہے ‘‘۔ تو اس کی اصل یہ ہے کہ ممکن ہے انہوںنے توحید کو سمجھا ہومگر شرک کو قطعاً نہیں سمجھا ہے ۔ شرک ام الخبائث ہے ، یہ خرابیوں کی جڑ ہے ۔ یہ جہاں بھی پایا جائے گا وہاں کوئی چیز صحیح نہیں ہوسکتی۔ عدل، انصاف ، انسانیت، تعمیرِ اخلاق، تطہیرِ افکار کسی کا گزر نہیں ہوسکے گا صرف فتنہ وفساد ، ہر معاملے میں رہے گا ۔ انبیاء کی جنگ شرک سے تھی اس دعوت کے دائرے میں حکومت، عدالت، عبادت، تہذیب، اخلاق سب کچھ شامل تھا ۔ ان صالح بندوں نے یہ سوچا کہ شرک کومٹا یا جائے تو ہر شعبے سے خرابیاں ختم ہوںگی او ر اصلاح ہو گی ۔
اگر ایسا نہ ہوتاتونوح علیہ السلام یہ نہ کہتے ۔ ربِّ لا تذر علی الارضِ من الکافرین دیارا ’’پروردگار!زمین پر کسی کافر کو زندہ نہ چھوڑ۔ اگروہ محض مبلغ ہوتے تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ منکرینِ حق کی ہلاکت کی دعا ء کریں۔ آنحضور کی دعا ء بے معنی ہوکر رہ جاتی کہ واجعل لی من لدنک سلطانا نصیرا اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کومیرا مد دگار بنادے ۔ یعنی یاتو مجھے اقتدار بخش دے یا پھر کسی حکومت کوتیرا مدد گار بنادے۔
ہر کوئی محض تبلیغ کرکے چلاجاتا ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہر نبی اور رسول نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا کہ میں تمہاری جہالت کی اتباع کرنے نہیں آیا ہوں، بلکہ حق کی اتباع کرانے آیا ہو ں ، لہٰذا میری سنو۔ اور مانو۔
ہمارے لئے اسوہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ اللہ کے رسول نے پہلی اسلامی ریاست قائم کی اس راہ پر چل کر قیامت تک مسلمان اِلٰہی حکومت کے لئے کوشش کریں ۔ یہ رسول اللہ کی سنت ہے بدعت نہیں۔ البتہ بدعت وہ معترضین پیدا کررہے ہیں جو اس اسوہ کوسمجھتے نہیں۔
اطیعوا الرسول کاتقاضا محض اتنا نہیں کہ نماز پڑھو ،روزہ رکھو، زکوٰۃ دو، حج کرو، بلکہ عبادات کے ساتھ دنیا کا سیاسی، معاشی، تہذیبی ، تعلیمی نظام بھی اصلاح کا تقاضا کرتا ہے۔ مسلمان دنیا کو دارالاسلام بنانے کی جی توڑ کوشش کریں۔ نبیوں کے سرتاج ، نبی آخر الزماں کی یہ عظیم سنت ہے کہ حق کوبراجمان کرو۔ نہ کہ غلامی میں خوش رہو۔
دوسرے ناقد مولانا وحید الدین خاں صاحب کوسید مودودیؒ کے نظریۂ اقامتِ دین پر اعتراض ہے اس اعتراض نے مجبور کیا کہ ’’تعبیر کی غلطی‘‘ لکھیں۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ ان کی تعبیر کی غلطی الٹا ’’غلطیوں کی تعبیر‘‘ بن گئی ۔ اس پر میں کوئی طویل تبصرہ نہیں کرنا چاہتا، کیونکہ اس کے تعلق سے میں ایک بحث اپنی زیر طبع کتاب ’’افکارِ مودودی پر ایک تحقیقی نظر‘‘ میں کرچکا ہوں ۔لہٰذا یہاں میں محض ایک جھلک رکھنا چاہتا ہوں تاکہ قارئین کو اندازہ ہوجائے کہ ان لوگوں کی قرآن فہمی کیسی ہے؟
رب کا مفہوم
سید مودودیؒ لکھتے ہیں:
’’ اللہ کا لفظ جن تصورات کی بنا پر بولا گیا ہے وہ یہ ہیں:۔
حاجت روائی، پناہ دہندگی ، سکون بخشی ، بالاتری ، بالادستی ، اوران طاقتوں کا مالک ہونا جن کی وجہ سے یہ توقع کی جائے کہ معبود قاضی الحاجات اورپناہ دہندہ ہوسکتا ہے اس کی شخصیت کا پراسرار ہونا یا منظرِ عام پرنہ ہونا، انسان کا اس کی طرف مشتاق ہونا‘‘۔ (قرآن کی چاربنیادی اصطلاحیں ۔ ص ۱۳)
’’رب‘ ‘ کے تعلق سے مولانا مرحوم ایک طویل بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
’’آیات کوسلسلہ وار پڑھنے سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ قرآن ربوبیت کوبالکل حاکمیت اور سلطان کا ہم معنیٰ قرار دیتا ہے اوررب کا یہ تصوّر ہمارے سامنے پیش کرتا ہے کہ وہ کائنات کا سلطانِ مطلق اور لا شریک مالک وحاکم ہے ‘‘۔ ( ص ۷۹)
’’دین‘‘ کے تعلق سے تحریر فرماتے ہیں:۔
’’قرآنی زبان میں لفظ دین ایک پورے نظام کی نمائندگی کرتا ہے ، جس کی ترکیب چاراجزا ءسے ہوتی ہے۔
۱۔ حاکمیت واقتدار اعلیٰ ۔ ۲۔ حاکمیت کے مقابلے میں تسلیم واطاعت۔ ۳۔ وہ نظام فکرو عمل جو اس حاکمیت کے زیر اثر ہے ۔ ۴۔ مکانات جواقتدارِ اعلیٰ کی طرف سے اس نظام کی وفاداری و اطاعت یا سرکشی وبغاوت کے صلے میں دی جائے۔
اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ وہ لفظ دین کو ایک جامع اصطلاح کی حیثیت سے استعمال کرتا ہے اوراس سے مراد ایک ایسا نظام زندگی لیتا ہے جس میں انسان کسی کا اقتدارِ اعلیٰ تسلیم کرکے اس کی اطاعت فرماںبرداری قبول کرے—– حسب ذیل آیت میں ’’دین‘‘ اس اصطلاح کی حیثیت سے استعمال ہوا ہے ۔ قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰي يُعْطُوا الْجِزْيَۃَ عَنْ يَّدٍ وَّہُمْ صٰغِرُوْنَ ’’اہل کتاب میںسے جولوگ نہ اللہ کومانتے ہیں (یعنی اس کو واحد مقتدرِ اعلیٰ تسلیم نہیں کرتے) نہ یوم آخرت کومانتے ہیں ، نہ ان چیزوں کوحرام مانتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اور دینِ حق کو اپنا دین نہیںبناتے ان سےجنگ کرو یہاں تک کہ وہ ہاتھ سے جزیہ اداکریں اور چھوٹے بن کر رہیں‘‘۔(توبہ ۔۲۹)
اس میں دینِ اسلام کے پیرؤں کوحکم دیا گیا ہے کہ دنیا سے لڑو اور اس وقت تک دم نہ لوجب تک فتنہ یعنی ان نظامات کا وجود دنیا سے مٹ نہ جائے جن کی بنیاد خدا سے بغاوت پر قائم ہے اور پورا نظامِ اطاعت وبندگی اللہ کے لئے خالص نہ ہوجائے ‘‘۔(چار بنیادی اصطلاحیں ۔ ص ۱۰۲۔۱۰۸۔۱۱۱)
وحید الدین خاں صاحب کی تنقید:
جناب خاں صاحب کہتے ہیں:
’’ اس کتاب میں چاروں اصطلاحوں کا مفہوم الٹ گیا ہے ۔ اللہ اوررب میں اقتدار کے تصّور سے اس کے دیگر مفہومات اخذ کئے گئے ہیں ۔ حالانکہ حقیقتاً احساس احتیاج اوراحساس پرورش اس کے دوسرے تمام پہلوؤں کے درمیان وجہ اشتراک ہے ۔عبادت کی بحث میں بالاتری تسلیم کرکے اس کے مقابلے میں اطاعت اختیار کرنے کو اس کے دیگر اجزاء کی اساس قرار دیا گیا ہے ۔ حالانکہ عبادت کی اصل حیثیت خدا سے عاجزانہ تعلق ہے۔
مجھے تسلیم ہے کہ ہر چیز یں جواصطلاحات اربعہ کی تشریح میں بیان کی گئی ہیں وہ سب کسی نہ کسی حیثیت سے اس میں شامل ہیں۔ مگر ان کی مجموعی تصویر جس طرح بنائی گئی ہے وہ ایسی ہے کہ اصل اور اوّلین حقیقت اس میں اوجھل ہوگئی ۔ یا اگر باقی رہی تو بہت دھندلی شکل میں‘‘۔ (تعبیر کی غلطی ۔ ص ۱۵۱۔ ۱۵۲)
یہ موصوف کی اعلیٰ ظرفی کہی جائے یا کم ظرفی کہ اگر ان عبارتوں میں سارے مفہومات کسی نہ کسی حیثیت سے شامل ہیں تو پھر تنقید کس لئے ۔ اس اقتباس میں صرف حقیقی، مصنوعی اور مجموعی تصویر وغیرہ جیسے الفاظ کا سہارا لے کر الجھانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ حالانکہ صاحب کتاب خود الجھا ہوا نظر آرہا ہے اور کوئی دلیل ایسی نہیں دے پارہا ہے جس سے اس کی تنقید وزن دار ثابت ہو۔
اس طرح سے ’’تفہیم القرآن‘‘ میں اس آیت کی تشریح پر اعتراض کرتے ہیں۔ یا ایہا الذین امنوا کونوا قوامین بالقسط—–
’’اس فقرے میںاہل ایمان کی اپنی ذات کا ذکر ہے ۔ لیکن زیربحث ذہن نے چونکہ دین کا تصور ایک ایسے نظام کی شکل میں کیا ہے جس کوزمین پر جاری ونافذ کیا جاتا ہے ۔ اس لئے اس کے ذہن میں قیام کا یہ فعل ایک خارجی فعل بن گیا اور اس نے ترجمہ کیا : اے ایمان والو انصاف کے علم بردار بنو۔ اس علم برداری کی مزید تفصیل اس نوٹ سے ہوتی ہے جواس ترجمہ کے نیچے دیا گیا ہے—— یہ فرمانے پر اکتفا نہیں کیا کہ انصاف کی روش پر چلو۔ بلکہ یہ فرمایا کہ انصاف کے علم بردار بنو۔ تمہارا کام صرف انصاف کرنا ہی نہیں ہے ، بلکہ انصاف کا جھنڈا لے کر اُٹھنا ہے ۔ تمہیں اس بات پر کمر بستہ ہونا چاہیے کہ ظلم مٹے اور اس کی جگہ عدل دراستی قائم ہو۔
دیکھئے ذہن کے فرق کی وجہ سے ایک ذاتی نوعیت کا حکم غیر شعوری طور پر عالمی انقلاب برپا کرنے کے ہم معنیٰ ہوگیا‘‘۔ ( تعبیر کی غلطی ۔ ص ، ۲۶۰)
لگتا ہے وحید الدین خاں صاحب ہوا میں بات کرر ہے ہیں ۔ اگر یہ حکم ذاتی نوعیت کا ہے کہ ’’ وہ اپنے معاملات میں پوری طرح قسط کی روشنی پر عامل ہوجائیں ‘‘ تو کیا دوسروں کے معاملے میں قسط کی روش سے آزاد ہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ داخلی ہی حکم نہیں بلکہ خارجی فعل کے لئے بھی ہے ۔ کسی حکم کو کسی ذات تک محدود کرنا جبکہ الفاظ اور سیاق وسباق اس کا ساتھ بھی نہ دیتے ہوں کوتاہ بینی ہے ۔ کیا رسول صحابہ تابعین نے ، وہی سمجھا ہے جو آپ سمجھا رہے ہیں۔ غور کیجئے کہ ’’ قوّام ‘‘ کے معنیٰ خوب قائم کرنے والا بھی ہے ۔ اگر اس کی جگہ اصطلاح میں’’ علم بردار بنو‘‘۔کہہ دیا جائے تو لفظی اعتبار سے تو فرق ہوسکتا ہے ، مگر معنوی اعتبار سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
آگے ارشاد ہوتا ہے:۔
’’ آپ کی غلط تشریح نے کسی طرح آپ کے عمل کے نشانے بدل دئے ۔ قرآن میں ہم کوجونشانہ بنایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اپنے اوپرخدا کے دین کوقائم کرو اور دوسروں تک اس کا پیغام پہنچاؤ ۔ مگر اس تشریح نے اس کے بجائے ایک اور نشانہ آپ کےسامنے کردیا۔ دنیا میں اسلامی نظام برپا کرنے کی جدوجہد کرو۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نگاہیں ان دونوں نشانوں سے ہٹ گئیں ۔ اب نہ خود عمل کرنے کی فکر رہی اورنہ پہنچانے کی دھن پیدا ہوئی۔ اب ساری توجہ اس ایک مسئلے پر لگ گئی کہ کس طرح اقتدار بدلنے کی کوئی تدبیر ہاتھ آئے۔ تاکہ اسلامی قوانین کونافذ کیا جاسکے۔ جس طرح کمیونسٹ کا عشق اپنے کارکنوں کویہ نشانہ نہیںدیتا کہ وہ اپنی زندگی کوبدلیں ، ان کا ذہن ہمیشہ اقتدار پر قبضہ کرنے کی تدبیر ہی سوچتا رہتا ہے ، ٹھیک یہی نفسیات اسلام کی اس تعبیر نے اپنے متاثر ہونے والوں میں پیدا کردی‘‘۔ (تعبیر کی غلطی۔ ص ۲۶۷۔ ۲۶۸)
وحیدالدین خاں صاحب غور کریں کہ جس کی نگاہیں اصل نشانے سے ہٹ جائیں توکیا وہ اسلامی نظام برپا کرنے کی سوچ سکتا ہے ۔ اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد تو وہی کرسکتا ہے جو قرآن کے اصل فلسفے کوسمجھے گا ۔ اگر یہ نشانہ غلط ہے اورصحیح یہ ہے کہ ’’اپنے اوپر خدا کے دین کو قائم کرو اور دوسروں تک پہنچاؤ‘‘ تو کیا سید مودودیؒ نے اپنے اوپر قائم نہیں کیا اوردوسروں تک نہیں پہنچایا ۔ اس عظیم انسان نے توپہنچایا تقریر سے بھی تحریر سے بھی ۔ دوسرے اگراصل نشانہ وہی ہے جوآپ بتارہے ہیںتو اس کی دلیل کیا ہے؟ قرآن کے الفاظ توآپ کا ساتھ نہیں دے رہے ۔ اگر قرآن یہ کہتا کہ اقیموا الدین فی انفسہم یا فی بیوتہمتو بحث کی کوئی بات ہی نہ تھی اورآپ کے فرمودات حق بجانب ہوتے۔ بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے جو اصطلاح استعمال کی ہے اس کا اطلاق پوری روئے زمین پر ہوتا ہے ۔ اگر ایسا نہیں ہے تو رسول عبادات کا طریقہ بتا دیتا نہ کہ اسلامی اسٹیٹ بناتا کیوں صحابہ نے مسلسل جہاد و قتال کیا ۔
اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد کو کمیونسٹ سے تشبیہ دینا جہالت کا شاہکار ہے ۔کمیونسٹ پیٹ کی بھوک کا ذکر کرتا ہے جبکہ اسلامی انقلاب کا منشا فتنہ وفساد کاخاتمہ اور خدا کی حکومت کا قیام ہے۔
وحید الدین خاں صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ اسلامی نظام کی فکر اس کے اوپر طاری ہوگی جسے خدائی حکومت سے محبت ہوگی اورطلبِ آخرت کی فکر ہوگی ۔ آپ کی تحریرسے ایسا لگتا ہے کہ کوئی سنیاسی یہ باتیں کررہا ہے جو صرف مٹھ اورخانقاہ میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرنا چاہتا ہے ۔
حکومتِ اِلٰہیہ
حکومتِ اِلٰہیہ کے قیام کا نظریہ کسی کے دماغ کی اُپج نہیں ، بلکہ دین کا تقاضا ہے ۔ کیا خدا کو اپنی زمین سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ دہرئے کہتے ہیں کہ زمین انسان کے حوالے ہے سوجیسے چاہیں اس کوچلائیں ۔ کیا خدا کواپنی حکومت، اپنا قانون مطلوب نہیں خواہ دنیا کفرو شرک کا گہوراہ بنی رہے اورفتنہ وفساد مچارہے ۔ کیا خدا کواپنے صالح بندوں سے کوئی واسطہ نہیں کہ وہ غلام بنے رہیں ، باطل تہذیب میں گم ہوجائیں اورسمجھنا مشکل ہوجائے کہ ا ن میں کون خدا کے بندے ہیں اورکون شیطان کے ۔ کتنی سطحی سوچ ہے کہ دنیا میں خدا کے باغیوں کا راج مطلوب ہے ۔ ہندو کورام راج ، چینی کو بودھسٹ راج ،روسی کوکمیونٹی راج، افریقی کوبربری راج ، امریکی کوعیسائی راج، اسرائیلی کویہودی راج چاہیے، لیکن ایک بے چارہ سب سے غریب اسلام ہے جسے اپنا راج نہیں چاہیے ، بلکہ وہ خدا کے باغیوں کے رحم وکرم پرجینا چاہتا ہے۔
اس طرح کی سوچ محض شاعری ہےاس کے حق میں کوئی دلیل نہیں ۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ کومقتدرِ اعلیٰ سمجھتے ہیں تواسے صرف سمجھنے ہی سے حق ادا نہیںہوگیا ، بلکہ حق قائم کرنے سے ادا ہوگا۔ صرف سمجھنا اور ماننا مطلوب ہوتا تو ۔ نہ مسجدکی ضرورت تھی ، نہ جماعت کی ، نہ زکوٰۃ وصول کرلانے کی ۔
قرآن میںاللہ کی حکومت، عدالت،قانون وغیرہ کا ذِکر ہے کیا وہ محض تلاوت کے لئے ہے ، اس کا نفاذ مطلوب نہیں۔ کیا دنیا میں کوئی قانو ن ایسا بھی بنتا ہے کہ جس کا بس لکھ لینا اور پڑھ لینا کافی ہوتا ہے ، اس پر عمل درکار نہیں ۔اگردنیا کے قانون کونفاذ درکار ہے تو اللہ کا قانون کیوںصرف گھروں یا دلوں کے اندررہے ۔ اس کا نفاذ ، اس کا مظاہرہ اور قیام کیوں مطلوب نہیں ہے۔ صداقت تو یہ ہے کہ قرآن اپنے پیرؤں سے تقاضا کرتا ہے کہ حق کے لئے سر دھڑکی بازی لگادو ، اگر ایسا نہ ہوتا تو آنحضورؐ کا تلوار چلانا، صحابہ کا شہید ہونا ، مکہ فتح کرنا سب کچھ بے معنیٰ ہوکر رہ جاتا۔ ہمارے لئے ہدایت صرف قرآن ہے اوراسوہ صرف رسول ؐ ہیں ۔ آنحضورؐ نے خدا کی تکوینی حاکمیت کےاعلان کے ساتھ خدا کی تشریعی حاکمیت زمین پر قائم کی جودلیل ہے قیامت تک۔ سید مودودی علیہ الرحمۃ نے اقامتِ دین کے تعلق سے جوکچھ کہا اورلکھا ہے وہ بالکل بجا ہے اور جس کی دلیل خود قرآن اوررسول ہیں۔ اس نظریہ کو نظر انداز کرنا، یا تحریف کا الزام لگانا دیانت نہیں بلکہ مہمل خیال آرائی ہے ۔ زیادہ سے زیادہ یہ عذر کیا جا سکتا ہے کہ ہم حالات کے تحت فی الحال مجبور ہیں ——
ہم دین کے مبلغ ہیں مبلّغ کا یہ فرض ہے کہ حاکم اعلیٰ نے جوحکم دیا ہے اسے بیان کرے مانے ، اسپر عمل کرے ۔ کتاب اللہ اس سے بلند ہے کہ اس میں حیلہ سازی کی جائے۔ اپنے من موافق مفہوم ڈھالنا جرم ہے ایسے جرم سے مسلمان کوپناہ مانگنی چاہئے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ احکامِ اِلٰہی کا مرتبہ بہت بلند ہے ۔ لہٰذا کتاب اللہ کے تقاضے کو ببانگِ بلند بیان کیا جائے تا کہ آپ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوں کوئی مانے یا نہ مانے ، کسی کواچھا لگے یا برا ۔ نہ قرآن دلجوئی کے لئے آیا ہے اورنہ مسلمان دلجوئی کے لئے بنایا گیا ۔ ہم داعی ہیں اور داعی کا کام یہ ہے کہ حق کو بلا کم و کاست بیان کردے۔
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2018