شہر غرناطہ کو اغرناطہ بھی کہتے ہیں، یہ دونوںعجمی نام ہیں، غرناطہ دراصل صوبہ البیرہ کا ایک شہرہے ۔ البیرہ اندلس کے صوبوں میں سب سے بڑا صوبہ ہے۔ یہ بڑامشہور و معروف مقام تھا۔ اس کے باشندے دولت و ثروت سے مالا مال تھے۔ یہاں نامور علماء اور فقہا موجود تھے۔ ۴۰۰ ھ میں شہر البیرہ کی تباہی سے وہاں کے باشندوںنے خوفزدہ ہوکر غرناطہ میں پناہ لی اس وقت سے غرناطہ کو مرکزی حیثیت مل گئی۔اندلس میںمسلمانوں کی آخری حکومت بنی نصر کی تھی۔۶۳۶ھ سے ۸۹۷ھ تک دارالحکومت تھا، شہر غرناطہ بنی نصر کی راجدھانی بننے سے پہلے بھی علم و ادب کی راجدھانی اور علماء و ادباء کا مسکن تھا، لیکن اس آخر دور میں توسارا اسلامی اندلس سمٹ سمٹا کر غرناطہ ہی میں آگیا تھا۔ غرناطہ کے علماء اور اور اہل فن کو دنیا نہیں بھلا سکتی ۔اُن کی مسند سے دنیا میں روشنی پھیلتی رہی۔ انھوں نے علم و فضل کی ایسی شمعیں روشن کیں جن سے دوسری شمعیں روشن ہوئیں ۔ ۱؎
اندلس کےعلماء
آٹھویں صدی عیسوی میں خلافت بنوامیہ کے دور میں طارق بن زیاد اور موسیٰ بن نصیر کی سپہ سالاری میں مسلمانوں نے اندلس کو فتح کیا ۔ اس وقت اسلامی علوم و فنون اپنی جداگانہ اورامتیازی شناخت حاصل کرچکےتھے۔ تصنیف و تالیف کے پہلے مرحلے کو طے کیاجاچکاتھا۔فتح اندلس کے بعد اسلامی علوم و فنون کی تعمیر و تشکیل کا کام وسیع ہوااور نویں صدی عیسوی میں تکمیل کو پہنچا۔
اندلس میںدوسرے علوم وفنون کی طرح علم قراء ت بھی اپنے ارتقائی مرحلہ سے گزرا۔ اندلس کے اطراف و جوانب میں علم قراء ت کے مراکز قائم ہوئے۔ مشرق سے آئے ہوئے قراء عظام نے اندلسی قراء تیار کیے ۔اندلسی علماء اور ماہرین فن نے اپنے مراکز میں تعلیم و تربیت پاکر تعلیم و تدریس کے ذریعہ اس فن کو ترقی دی۔اکثر علماء و قراء نے اندلس کے مراکز سے استفادہ کرنے کے بعد مشرق کے علماء سے بھی کسب فیض کیا۔ بعض نے مشرق کوہی درس و تدریس کا مسکن بنایا اور کچھ اندلس آئے۔ انہوںنے جدید معلومات سے اپنے ملک کے طالب علموں کو سیراب کیا اور تجوید و قراء ت کو عروج بخشا، اندلسی علماء قراء ت نے مشرقی ماہرین کی کتابوں اور رسالوں کو تعلیم و تدریس کے ذریعہ وہاں کے عوام تک پہنچایا۔
اندلس پر اسلامی پرچم لہرانے کے ساتھ ہی مختلف علوم وفنون کے ماہرین وہاں پہنچے تھے۔ ان میں سے متعدد علوم ایسے تھے جن کے ماہرین نے فاتحین کے پہلے بیڑے کے ساتھ اندلس کی سرزمین پر قدم رکھا اور اس زمین میں اپنے علوم کے بیج بوئے ۔فن قراء ت انہیں علوم اسلامی میں شامل تھا جو اندلس کی فتح کے ساتھ وہاں روشناس و متعارف کرایا گیا۔فاتحین اندلس میں اپنے پیش رو اسلامی لشکروں کی مانند حافظ قرآن شامل تھے۔ ان میں بہت سے حضرات علماء و محدثین تھے۔ محض سپہ سالار اورفوجی نہ تھے۔ اسلامی کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ اولین فاتحین اندلس میںمتعدد حضرات تابعین کرام کے اہل علم طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔ ان بزرگوں اوراہل علم مسلمانوں کے ساتھ فن قراء ت اندلس پہنچا ۔ علم قرآء ت کی عملی تعلیم وتربیت کی ابتداء ہوئی جہاں جہاں مسلم آبادی قائم ہوتی گئی وہاں قرآن کریم کی صحیح قراء ت کے مراکز و مدارس کی بنیاد پڑتی گئی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اندلس کے علماء اور ماہرین فن قراء ت کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے رہے۔ ۲؎
بارہویں صدی میںاندلس کے مختلف بلاد و امصارمیں علم قراء ت کے علماء و فضلا کی بڑی تعداد نظر آتی ہے۔ ان میںسے بعض شہروں او رمرکزوں کو دوسروں پر فوقیت حاصل تھی ۔ان میںاشبیلیہ، غرناطہ، بلنسیہ اور قرطبہ امامت کا مقام رکھتے تھے۔ ہم غرناطہ کے قراء کرام کا تعارف اور ان کی خدمات کا تذکرہ پیش کررہے ہیں۔
غرناطہ کے قراء کرام
غرناطہ کے تجوید و قراء ت کے ائمہ و شیوخ میں پہلے شخص امام علی بن احمد المری (۵۲۰ھ/ ۱۱۲۶ء) تھے، آپ غرناطہ کے ایک گاؤں دور کے رہنے والے تھے۔ آپ کا شمار ماہر ین علم قراء ت میں ہے۔ آپ کے پاس جو بھی علم تھا اس کو دوسروں تک پہونچایا آپ کے زمانہ کے دوسرے ماہر فن استادابو جعفر احمد بن علی ابن احمد ابن خلف الانصاری المعروف بہ ابن الباذش تھے۔آب کی ولادت اندلس کے شہر غرناطہ میں ۴۹۱ھ میں ہوئی اسی لیے آپ الغرناطی بھی کہلاتے تھے۔
اندلس میں غرناطہ کی بڑی اہمیت تھی یہ خوبصورت شہر تھا، اپنی نہروں ، پہاڑوں،وادیوں، درختوں ، مختلف اقسام کے پھولوں اور باغوںکی وجہ سے اس خوبصورت شہر کی اندلس میں بڑی اہمیت تھی ساتھ ہی یہ شہر علماء ، شعراء اور ادباء کا مرکز تھا۔ لسان الدین ابن الخطیب کہتے ہیں کہ ابوجعفر ابن الباذش ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے جسے علم و فضل، عفت و ورع اور سنت کی پیروی کےاوصاف سے متصف ہونے کا شرف حاصل تھا۔ اندلس علوم و فنون کا گہوارہ تھا۔اطراف و اکناف کے طلبہ جوق در جوق آتے اور اپنی علمی تشنگی بجھانے کا وافر سامان پاتے اسی علمی اور پاکیزہ ماحول میںابوجعفر نے اولاً قرآن کریم کو حفظ کیاپھر مبادی علوم کاآغاز اپنے والد ماجد سے استفادےسے کیا جو علم نحو،قراء ت، حدیث اور شعر میں ممتاز تھے۔
اس کے بعد دیگر علوم و فنون میںکمال و مہارت پیداکرنے کے لیے اندلس اور اندلس کے علاوہ مشرق و مغرب کا سفر کیااور خاص طور پر علم القراء ات بلند مقام حاصل کیا۔ نیز مسجد غرناطہ کے خطیب بھی بنے، یہ ایسا مقام تھا جس تک رسائی کسی عبقری اور نابغۂ روز گار ہی کی ہوسکتی تھی۔
اساتذہ و مشائخ
مختلف علوم فنون میںزبردست قابلیت کے لیے ظاہر ہے کہ چند ایک استاذ تک محصور نہیںرہا جاسکتا تھا تذکرہ نگار آپ کے اساتذہ اور شیوخ کی طویل فہرست بیان کرتے ہیں یہاں چند مشہور اساتذہ کی طرف اشارہ ہے۔آپ کے اساتذہ کی دو قسمیں ہیں۔(۱)وہ اساتذہ جو خاص طور سے قراء اورمقرئین کی نوع سے تعلق رکھتے ہیں جن سے امام ابو جعفر نے قرآن کریم پڑھا ہے۔دوسری قسم ان اساتذہ کی ہے جن سے مستقلاً اور عرضاً نہیں بلکہ جزوی طور پر قراء ت میںاستفادہ کیا اور علم نحو کے مسائل میں شاگردی اختیار کی ہے۔
پہلی نوع کے اساتذہ کا ذکر اولاً کیاجاتا ہے۔
۱- آپ کے والد امام العلامہ ابوالحسن علی ابن احمد ابن خلف الانصاری الغرناطی المعروف بہ ابن الباذش، ولادت ۴۴۴ھ آپ اندلس کے مشاہیر علماء اور اعلام میں سے تھے قراء ت اور آداب کے صاحب بصیرت محققین میں شامل تھے۔ حدیث اور رجال حدیث کے عارفین میں سے ایک تھے۔ ساتھ ہی ، زہد اورفضل کی صفات سے متصف تھے۔ قرآن و حدیث لغت اور شعر و نحو سے شغف تھا۔ سیبویہ کی کتاب کے حافظ تھے گویا جامع العلوم و الفنون تھے۔ آپ نے سیبویہ کی شرح لکھی۔ ساتھ ہی ’’المقتضب‘‘ اصول ابن السراج ’’الایضاح‘‘ الجمل اور ’’الکافی للخاس کی شرحیں لکھیں۔وفات ۵۲۸ھ میںہوئی آپ کے بیٹے ابوجعفر نے نماز جنازہ پڑھائی۔
آپ کے والد ابوالحسن آپ کے پہلے استاذ تھے تمام علوم اولاً آپ ہی سے حاصل کیے ، ابن الخطیب فرماتے ہیں کہ امام ابوالحسن سے آپ نے تفقہ (فقہ میںکمال) حاصل کیا اور اکثر روایات بھی آپ سے پڑھیں اور جو کچھ بھی والد صاحب کے پاس تھا وہ سب حاصل کیا۔
۲- ابوالقاسم خلف ابن ابراہیم ابن سعید ابن النخاس القرطبی المعروف بالحصار(اوابن الحصار) ولادت ۴۲۷ھ، وفات ۵۱۱ھ۔
۳- ابوالحسن شریح ابن محمد ابن شریح الرعینی الاشبیلی المذکور(ولادت۴۵۱ھ، وفات ۵۳۷ھ یا ۵۳۹ھ) آپ سے ابوجعفر بہت مستفید ہوئے۔
۴- ابوعبداللہ ابن احمد الہمذانی الضبی الجیانی المعروف بالجاولی آپ سے ابوجعفری نے پورا قرآن عرضاً پڑھا۔
۵- ابوبکرعیاش ابن خلف ابن عیاشی البطلیوسی، نزیل اشبیلیہ م۵۱۰ھ، آپ نے ابوعبداللہ محمد ابن عیسیٰ المغامی سے پڑھا۔
۶- ابوالقاسم فضل اللہ ابن محمد ابن وہب اللہ المقری الانصاری القرطبی آپ نے صاحب کتاب ’’الکافی‘‘ محمد ابن شریح سے پڑھا نیز مکی ابن ابی طالب کے شاگرد ابوشعیب سے پڑھا۔ (ولادت ۴۵۴ھ، وفات۵۲۴ھ)
مذکورہ چھ مشائخ وہ ہیں جن سے ابوجعفر نے قراء ت اربع عشرہ میں متعدد قرآن مکمل کیے اور انہیں اپنی سند میں ذکر کیا ہے آگے چند حضرات اور بھی ذکر کیے جارہے ہیں۔
۷- ابوالقاسم خلف ابن محمد ابن خلف الانصاری المعروف بہ ابن العریبی آپ نے علامہ دانی سے بھی پڑھا ہے(م۵۰۸ھ)
۸- ابوالحسن علی ابن احمد ابن محمد ابن کرزالانصاری الغرناطی(م۵۱۱ھ) ابوجعفر نے اپنے کتاب میں متعدد مقامات پر تذکرہ کیا ہے۔
۹- ابوالعباس احمد ابن خلف ابن عیسون ابن خیار الجذامی الاشبیلی، المعروف بہ ابن النحاس المجود، حسن ادا کے باعث المجود سے مشہور ہوئے آپ کی ایک کتاب بھی ہے’الناسخ و المنسوخ‘‘ کے عنوان پر(م۵۳۱ھ)
۱۰- ابوالقاسم عبداللہ ابن علی ابن علی عبدالمالک آپ نے مروان ابن عبدالملک سے قراء ت پڑھی محقق ابن الجزری نے آپ کو ابو جعفر کا شیخ شمار کیاہے۔
۱۱- ابوجعفر ہابیل ابن محمد الحلاسی لسان الدین الخطیب اور ابن الجزری نے آپ کو ابوجعفر کے شیوخ میںلکھا ہے۔
دوسری قسم ان شیوخ و اساتذہ کی ہے جن سے قراء ت کی روایت اور سماع کیا ہے یا جن سے اجازت حاصل ہے ایسے مشائخ کی تعداد پندرہ بتائی جاتی ہے۔
۱- ابو داؤد سلیمان ابن نجاح الاندلسی(م۴۹۶ھ)
۲- ابوالحسن علی ابن عبدالرحمن ابن احمد ابن الدوش الشاطبی (م۴۹۶ھ)
۳- ابوعلی الحسین بن محمد ابن احمدالغسانی(م۴۹۸ھ)
۴- ابوعلی الحسین ابن محمد ابن سکرہ الصدفی(م۵۱۴ھ)
۵- ابوالحسن عبدالعزیز ابن عبدالمالک ابن شفیع المقری المری الاندلسی(م۵۱۴ھ)
۶- ابوالحسن علی ابن عبدالرحمن ابن مہدی التنوخی النحوی الاشبیلسی المعروف بہ ابن الاخضر(م۵۱۴ھ)
۷- ابوالولید احمدابن عبداللہ ابن احمد ابن طریف القرطبی(م۵۲۰ھ)
۸- ابو محمد عبداللہ ابن محمد السیدالنحوی البطلیوسی (م۵۲۱ھ)
۹- ابوعبداللہ محمد ابن سلیمان ابن احمد النفزی المالقی النحوی(م۵۲۵ھ)
۱۰- ابوعامر محمدابن حبیب ابن عبداللہ ابن مسعود الاموی الجیانی(م۵۲۸ھ)
۱۱- ابوالولید ہشام ابن احمد ابن الہلالی الغرناطی(م۵۳۰ھ)
۱۲- ابو محمد عبدالرحمن ابن محمد عتاب (م۵۳۱ھ)
۱۳- ابوعبداللہ محمد ابن علی ابن احمد التجیبی الغرناطی النواشی۔
۱۴- ابوبکر محمد ابن عبداللہ ابن محمد الاشبیلی (م۵۴۳ھ)
۱۵- عبدالقادر ابن محمد الصدفی۔ ۳؎
تلامذہ
آپ کی مہارت کا غلغلہ بلند ہوا تو دور دراز سے لوگوں نے آپ کی طرف تحصیل قراء ت کے لیے رجوع کیا۔ آپ سے شرف تلمذ رکھنے والوں میں سے نو حضرات کے نام درج کیے جاتے ہیں۔
(۱)ابوجعفر احمد ابن علی ابن حکم الغرناطی،(۲)ابومحمد عبداللہ ابن محمد ابن عبیداللہ الحجری الخطیب، (۳)ابو علی الحسن ابن عبداللہ السعدی الاندلسی، (۴)ابوخالد یزید ابن محمد ابن یزید ابن رفاعہ اللخمی الغرناطی، (۵)ابوعلی القلعیی المعدی، (۶)ابوالعباس احمد ابن عبدالرحمن ابن محمد ابن عبدالرحمن ابن محمد الصقر الانصاری الخزرجی، (۷) ابوالحسن ابن الضحاک خود آپ کے بیٹے ابو محمد عبدالمنعم ابن احمد ابن علی ابن الباذش ابوجعفر احمد ابن محمد ابن فرج ابن سلمہ المرادی الغرناطی۔
تصانیف
ابو جعفر نے چار کتابیں تالیف کیں جن میں سے صرف ’’الاقناع‘‘ ہی دستیاب ہے باقی نظر نہیںآتیں صرف ان کا نام ملتا ہے۔
(۱)الاقناع فی القراء ت السبع، (۲)الطریق المتداولہ فی القراء ات، ابن الخطیب نے اس کتاب کی بڑی تعریف و توصیف کی ہے اصول تک بیان کرسکے تھے کہ وقت موعود آپہنچا اور تکمیل نہ ہوسکی۔ محقق ابن الجزریؒ فرماتے ہیں:
’’والف کتاب الطرق المتداولۃ فی القراء ت حرر اسانیدہ و طرفہ ولم یکملہ المفاجاۃ الموت‘‘
خود ابوجعفر نے اپنی کتاب الاقناع میںاس کاذکر اس طرح کیا ہے :
’’وساضع ان شاء اللہ عزوجل کتابا یشتمل علی الطرق التی قراء ت بھا تلاوۃ و مبارقہا ثلاثماۃ طرق‘‘۔
(۳)کتاب التکبیراس کتاب کا تذکرہ خود مصنف نے ’’الاقناع‘‘ کے آخر میں کیا ہے۔ ۴؎
(۴) فہرس شیوخ والدہ اس کتاب کا تذکرہ ابن خیر نے ’’فہوسۃ ابن خیر‘‘ ص:۴۳۷ پر کیا ہے۔
علمی مقام اور مرتبہ
علماء زمانہ نے آپ کے علمی مقام و مرتبہ کی دل کھول کر تعریف و توصیف کی ہے یہاں صرف چند حضرات کے کلمات توصیفی درج کیے جاتے ہیں۔قاضی ابومحمد ابن عطیہ فرماتے ہیں۔ ادب و اعراب کے عارف، اسانید میںبصیرت رکھنے والے اور عظیم نقاد تھے، شاذ اورمعروف میںبڑی تمیز رکھنے والے تھے‘‘مجدالدین الفیروزآبادی فرماتے ہیں’’امام نحوی، مسند۔ مقری نقاد‘‘
علامہ سیوطی آپ کو النحوی ابن النحوی لکھتے ہیں :
آپ کے معاصر اور ساتھی محمدابن خیر الاشبیلی بایں الفاظ رقم طراز ہیں۔
’’الفیقۃ المقرئی المحدث الحافظ ابوجعفر احمد ابن علی صاحبنا رحمہ اللہ (فہرست ابن خیر، ص:۴۳۷)
دیگر علوم میں آپ کی جو شان تھی وہ تو تھی ہی لیکن علم القراء ت میںتو بات ہی اور تھی ابھی قاضی ابن عطیہ کا قول اوپر گذرا مزید فرماتے ہیں:
’’امام المقرنین و مقدم فی جھابذۃ الاستاذین، روایۃ مکثر متفنن فی علوم القراء ۃ مستبحر‘‘
ابن الزبیر فرماتے ہیں:
’’وما علمت فیما انتہی الیہ نظری وعلمی احسن انقیاداً لطرق القراء ولا احل اختیاراً منہ لایکاد احمد من اہل زمانہ ولاممن اتی بعد ان یبلغ درجتہ فی ذالک ۵؎
محقق ابن الجزری فرماتے ہیں:
’’استاذ کبیر و امام محقق محدث ثقۃ مفنن، الف کتاب الاقناع فی السبع من الحسن الکتب‘‘
آپ نے اپنی کتاب ’’الطریق المتدوالۃ فی القراء ت‘‘ میں قرآن کریم کی تلاوت کے طریق بیان کیے ہیں۔ علم القراء ت کی تحصیل کے اسباب خود آپ کے گھر میں والد محترم کی شکل میںمہیا تھے، اولین استاذ آپ کے والد ہی تھے اور آپ نے نابغہ عصرمشائخ سے مسلسل اخذ و واستفادہ کیا تحصل قراء ت کے لیے اندلس کا کوئی گوشہ شرقاً اور غربا نہیں چھوڑا اس فن پر کتابیںلکھیں طلبہ کو برابر پڑھاتے رہے۔
یہی نہیں کہ صرف ان کتابوں سے استفادہ کیا ان سے قراء کے اقوال نقل کیے بلکہ خود بھی کتاب تصنیف کی کتابوں پر نقد و تنقید بھی کی ان کے صواب و خطا کو ظاہر کیا اورترویج و اختیار کا بھی کام کیا یعنی آپ صرف ناقل نہ تھے۔ آپ کے علم قراء ت میںاخلاص کی بڑی دلیل یہ ہے کہ آپ نے صرف اسی فن کو اپنی تالیف و تصنیف کا میدان بنایا حالانکہ آپ قراء ت کے ساتھ نحو، حدیث اور رجال کے موضوع پر بھی بہتر سے بہتر تالیف و تصنیف کی پوری استطاعت اور صلاحیت رکھتے تھے ۔ پچاس سال کی عمر میں ۵۴۰ھ میں آپ کا انتقال ہوگیا۔ رحمہ اللہ تعالیٰ رحمۃ واسعۃ و مغفرۃ کاملۃ۔ ۶؎
ابن ابی سمرہ
اس دور کے دوسرے غرناطی ماہرین قراء ت میںامام ابن ابی سمرہ قیسی غرناطی ہیں۔ ان کااسم گرامی محمد بن فرج تھا(م قبل۵۴۰ھ/۱۱۴۵ء) اور کنیت ابوعبداللہ تھی۔ مگر پہلے نام سے زیادہ معروف تھے ۔ آپ نے امام عبدالحق بن محمد خزرجی اور امام ابن النحاس وغیرہ سے قراء ت کی تعلیم حاصل کی۔ پھر غرناطہ میں اس کی تعلیم دی۔ آپ کا شمار شہر کے مشہور قراء میںہوتا تھا۔ آپ کے شاگردوں میں ابوعبداللہ محمد بن جعفر اموی تھے۔
امام قراء ت ابوجعفر احمد بن محمد بن فرج المرادی (م بعد ۵۴۰ھ/۱۱۴۵ء) اسی دور کے ایک معتبر عالم تھے اور ماہر استاذ تھے۔ آپ نے امام ابو جعفر احمد بن علی بن البازش اور امام شریح بن محمدرعینی اشبیلی سے قراء ت کے علوم سیکھے آپ کے زمانے کے اور ہم وطن امام ابوالقاسم عبدالرحیم بن محمد انصاری (۵۴۲-۴۷۲ھ) زیادہ تر ابن الفرس کے نام جانے جاتے تھے آپ ایک تجربہ کار قاری اور باصلاحیت استاذ اوربڑے ماہر فن تھے۔ امام ابوداؤد اورامام ابوالحسن الدوشی کے سامنے زانوئے ادب تہیہ کیا تھا اور اپنا علم قراء ت اپنے فرزند ابوعبداللہ محمد اور اپنے پوتے عبدالمنعم کوسکھانے کے علاوہ ابوالقاسم قنطری اور ابوالعباس بن الیتیم جیسے اہم علماء قراء ت کو منتقل کیا تھا۔ ۵۳۹ھ /۱۱۴۴ء میںاسلامی حکومت کے ختم ہونے کے سبب آپ شہر منکب چلے گئے جہاں اپنی وفات تک درس و تدریس سےوابستہ رہے۔ آپ کی وفات ستر سال کی عمر میں اسی شہر۵۴۲ھ میںہوئی اور یہیں مدفون ہوئے۔۷؎
اسی دور کے ماہر فن امام ابوعبداللہ محمد بن علی تجیبی نوالشی ہیں۔ آپ کی پیدائش۵۳۲ھ میں ہوئی۔ آپ نے امام ابوداؤد، امام محمدبن المفرج، امام ابن البیاز اور امام ابن الدوش سے اخذ و استفادہ کیا اور محمد بن احمد بن عروس، عبدالمنعم بن خلوف اور عبدالوہاب بن عتاب وغیرہ کو پڑھایا۔ جب ان حضرات کے علم و فن کی شہرت ہوئی تو ان سے بہت سے لوگوں نے استفادہ کیا۔
عبادۃ بن صامت خزرجی انصاریؓ کی اولاد میں ایک امام قراء ت ابوالحسین علی بن عبداللہ خزرجی صامتی عبادی ہیں۔ آپ کی پیدائش (۴۷۰ھ) میں ہوئی۔ آپ نے امام ابوالحسن بن کرز، امام ابوداؤد، امام ابوالحسن بن الدوش، امام ابن البیاز سے قراء ت کی تعلیم حاصل کی۔ اپنے والد ماجد اور دوسرے باکمال استاد سے اس فن کو سیکھا، مشرق کا سفر کیا اور حج کے بعد مکہ مکرمہ میں ابو عبداللہ بن حسین طبری وغیرہ سے اور اسکندریہ میں ابوعبداللہ حضرمی سے کسب فیض کیا۔ آپ فقہ و حدیث میں بھی مہارت رکھتے تھے، ایک عرصہ تک جامع مسجد غرناطہ کے خطیب و امام رہے۔ آپ کے شاگردوں میں ابوبکر بن رزق، ابو عبداللہ بن حمید، عبداللہ الصمد بن یعیش، ابو جعفر بن حکم رہے ہیں۔ آپ کی وفات ۵۳۹ھ میںہوئی۔ ۸؎
ابو بکریحییٰ بن خلف بن نفیس المعروف ابن الخلوف الغرناطی
آپ کی پیدائش ۴۶۶ھ میںہوئی آپ نے مقرئین کی ایک جماعت سے ملاقات کی اور ان سے اخذ و تحصیل کی ان اساتذہ میں سے چند حضرات یہ ہیں، محمد ابن الفرج،علی بن خلف ابن ذی النون، عبدالقادر الصدفی یحییٰ ابن الفرج الخشاب، ابوالقاسم ابن النحاس، ابوالحسن علی ابن احمد ابن محمد ابن کرز، ابوالحسن محمد ابن داؤد الفارسی، حازم ابن محمد مکی اور بغداد میںابوطاہر ابن سوارآپ کی شہرت و حذاقت اور مہارت فن کے باعث آپ کی مجلس میں لوگوں کا بڑا مجمع رہتا تھا اور آپ سے پڑھنے والوں میںچند کے نام یہ ہیں۔آپ کے بیٹے عبدالمنعم، محمد ابن احمد ابن عروس، ابومحمدابن عبداللہ، ابوبکر ابن رزق، اعبدالمنعم ابن محمد، ابن عبدالرحیم ابن الفرس وغیرہ۔
محقق ابن الجزری آپ کو امام، حاذق، استاذ لکھتے ہیں:
اللہ نے آپ کو لمبی عمر سے نواز ا، حافظ ذہبی لکھتے ہیںکان راسافی القراء ت، عارفاً بالتفسیر کثیر التفنین ذاجلا لۃ وا وقار‘‘ آپ علوم قراء ت میں اساس کی حیثیت رکھتے تھے تفسیر کی معرفت بھی آپ کو حاصل تھی اور بہت سے فنون میں آپ کو مہارت تھی۔ آپ بڑے باوقار و بارعب شخصیت کے مالک تھے آپ کی وفات ۵۴۱ھ میںہوئی۔ ۹؎
اندلسی دور انحطاط کے غرناطی قراء
اسلامی اندلس کے دور زوال میںاسلامی علوم و فنون کے مراکز میںصرف دو مراکز ایسے تھے جو تیرہویں صدی میںبھی علم کی شمع کو روشن کیے ہوئے تھے۔ ان دو میںاشبیلہ میںعلوم قراء ت کے چار ماہرین کا ذکر ملتا ہے جب کہ غرناطہ کے ماہرین قراء ت کی کثیر تعداد ہے۔غرناطہ کے ماہرین و شیوخ نے علم قراء ت کی درس و تدریس کی اورترویج و اشاعت کے قواعد کومرتب کیا۔مشہور و معروف امام قراء ت اثیر الدین ابوحیان محمد بن یوسف بن علی بن حیان الاندلسی الغرناطی، کی ولادت ۶۵۴ھ غرناطہ میں ہوئی۔
۶۷۰ھ میں آپ نے تعلیم کا آغاز کیا، قراء ت سبعہ اپنے شہر میںعبدالحق ابن علی ابن عبداللہ الانصاری، احمد ابن علی ابن محمد ابن الطباع الرعینی اور حافظ ابوجعفر احمد ابن ابراہیم ابن زبیر وغیرہ سے پڑھی۔ ان کے علاوہ التیسیر۶۷۱ھ میں ابوعلی الحسن ابن عبدالعزیز ابن علی ابن ابوالاحوص سے پڑھی ’’المصباح‘‘ ابوالکرم کی ’’الیسر‘‘ ابن عبداللہ ابن محمد ابن خلف سے پڑھی۔ اسکندریہ میں الصفراوی کے شاگرد عبد النصیر المربوطی سے اور قاہرہ میں ابوطاہر ابن اسماعیل سے علم حاصل کیا۔ ان قراء کے علاوہ اور بہت سے دیگر ماہرین فن سے استفادہ کیا۔آپ سے بہت سے حضرات نے علوم قراء ت کو سیکھا جیسے احمد ابن محمد الدمشقی، ابوبکر الشمسی، ابوالفتح ابن عبداللطیف ابن محمد علی السبکی اور محمد ابن احمد ابن اللبان ۔
آپ عربی زبان و ادب میں کامل اور ماہر تھے۔ حافظ ذہبیؒ فرماتے ہیں کہ آپ کو فقہ، آثار اور قراء ت میں یدطولیٰ حاصل تھا۔ قراء ت اورنحو میں آپ کی تصنیفات ہیں ۔ علامہ جزری لکھتے ہیں کہ آپ نے قراء ت سبعہ کو نظم میںلکھا ہے، اس میں بہت سے مفید نکتے بیان کیے ہیں۔ اسی طرح یعقوب حضرمی کی قراء ت کو بھی منظوم انداز میں پیش کیا ہے۔ ’’التسہیل‘‘ کی شرح لکھی، لسان عرب سے متعلق ’’ارتشاف الضرب من لسان العرب‘‘ کی تالیف کی’’الفیہ‘‘ ابن مالک کی دو جلدوں میں ہے اس کی شرح لکھی، تفسیر میں بھی آپ کی مشہور و معروف اور بے مثال کتاب ’’البحر المحیط‘‘ یہ دس جلدوں میں ہے اور اس کی تلخیص ’’النہر‘‘ کے نام سے تین جلدوں میں ہے۔
حافظ ذہبیؒ اپنی تصنیف ’’معرفۃ القراء‘‘ کے سلسلہ میںلکھتے ہیں کہ میری خواہش ہے کہ آپ اس کتاب کو دیکھیں اور اس کی اصلاح کے ساتھ مزید اس پر ضافہ فرمائیں کیونکہ آپ اس فن کے امام ہیں۔ ان جملوں سے آپ کی عظمت و جلالت شان کابخوبی اندازہ ہوجاتا ہے، علامہ جزری آپ کے بارے میں فرماتے ہیں’’الاستاذ شیخ العربیہ والادب والقراء ت مع العدالۃ والثقۃ‘‘ یہ مبالغہ نہیں بلکہ حقیقت ہے ۔ آپ کی وفات قاہرہ میں ۷۴۵ میں ہوئی۔۱۰؎
اس عہد کے ایک غرناطی ماہر قراء ت ابوجعفر القزاز کے نام سے مشہور تھے ۔ ان کا اصل نام احمد بن سعد انصاری ہے آپ نے وادی آش میں عبدالصمد بلوی سے قراء ت کاعلم ۶۱۳ھ میں حاصل کیا اور ان کے علاوہ اپنے والد سے بھی پڑھا۔ پھر غرناطہ میںعلی بن حجاج بن بقا سے تعلیم پائی اور ابن الکول سے حرمین شریفین کی قرآء ت سیکھی، اورکچھ قرآن کریم ابوبکر بن فزال سے بھی پڑھا۔امام ابوحیان ان کے بھی شاگرد تھے انہوںنے ان سے سورہ مریم تک قرآن کریم کو جمع کے طریق سے اور کتاب التلیسیر سماع و عرض کے طریق سے پڑھاتھا۔ امام ابوالقاسم غرناطی سے تین قراء تیں اور حمد بن سعد جزیری سے ساتوں قراء تیں پڑھی تھیں۔ آپ قرآن کریم کے ھجاء اور ضبط کے عظیم ترین ماہر تھے اور اپنے عہد کے جلیل القدر ماہرین میں شمار ہوتے تھے۔آپ نوے سال کی عمر میں ۶۷۵ میں وفات پائی۔
ابوجعفر احمد ابن یوسف الرعینی الغرناطی
آپ محقق ابن الجزری کے استاذ ہیں آپ کے بارے میں ’’امام، نحوی، لکھتے ہیں، آپ نے غرناطہ میں ابوالحسن علی ابن عمر القیجاطی اور ابوعبداللہ محمد بن البیسوی سے پڑھا تھا۔ ان سے قصیدہ لامیہ اور تیسیر کی سماعت کی تھی، ۷۳۸ھ میں حج کے ارادہ سے غرناطہ سے روانہ ہوئے حج سے فارغ ہوکر قاہرہ پہونچے یہاں ابوحیان سے کچھ پڑھا، پھر دمشق کارخ کیا اور یہاں المزی سے سماع کیا، اور یہاں سے بعلبک کا سفر کیا فاطمہ بنت الیونینی سے شاطبیہ کاسماع کیا، اس کے بعد حلب آئے۔ محقق ابن الجزری فرماتے ہیں کہ میں نے آپ سے القیجاطی کاقصیدہ لامیہ دمشق میںپڑھا اور۷۷۱ھ کے اوائل میںالتیسیر بھی پڑھی، حلب میں آپ کا انتقال ۷۷۹ھ میں ہوا۔(غایۃ، ج۱، ص۱۵۱)
غرناطہ کے عظیم ائمہ قراء ت میں ایک قیجاطی قاری بھی شامل نظر آتے ہیں، آپ کا اسم گرامی ابوالحسن، علی بن عمر الکتانی القیجاطی ہے۔
آپ کی ولادت ۶۵۰ھ میںہوئی ، اور اپنے شہر قیجطہ میں اپنے والد محترم سے قراء ت پڑھنے کے بعد ابوعلی حسین بن ابی الاحواص عبداللہ بن مساعد، ابوعبداللہ مشغون،احمد بن علی رعینی طباع، ابراہیم بن عبداللہ بن مطرف جیسے علماء سے اخذ و استفادہ کیا اور امام محمد بن ابراہیم طائی سے امام ورش کی قراء ت سیکھی۔ آپ کے تلامذہ میں بڑے جید قراء حضرات شامل ہیںمثلاً آپ کے پوتے محمد بن محمدعلی، محمد بن یوسف لوشی خطیب غرناطہ، ابوسعید فرج بن قاسم ، شیخ غرناطہ ابوالقاسم محمد بن محمد الخشاب، قاضی دمشق اور استاذ ابن جزری اسماعیل بن ہانی قاضی ابوالبرکات محمد بن بلقیقی، قاضی جماعہ وغیرہ، ۷۱۲ھ میں آپ غرناطہ تشریف لائے اور یہاںجامع مسجد میں لوگوں کو تعلیم دینے کے لیے مسند تدریس کو زینت بخشی، آپ قراء ت کے ساتھ ساتھ فقہ عربی زبان و ادب کی بھی تعلیم دیتے تھے، اور لوگ دور دراز سے علمی استفادہ کے لیے آپ کے پاس آتے تھے۔ آپ نے غرناطہ کے شیوخ سے استفادہ کیا۔ آپ غرناطہ کے عوام کے پسندیدہ خطیب اورمقبول استاذ تھے۔ آپ کا انتقال ذی الحجہ ۷۳۰ھ میں غرناطہ میںہوا بڑی تعداد میں لوگ آپ کے جنازہ میں شریک ہوئے اور بادشاہ وقت نے آپ کے جنازہ کوکاندھا دیا۔ ۱۲؎
اندلس میںسب سے پہلے علم القراء ت کوجن بزرگ شخصیات نے روشناس کرایا وہ یہ ہیں ابوعمر احمد بن محمد الطلمنکی (م۴۲۹ھ) ان کے بعد ابومحمد مکی ابن ابوطالب القیسی القیروانی الاندلس (م۴۳۷ھ) ابو عمرو عثمان ابن سعید الدانی(م۴۴۴ھ) ان عظیم شخصیات کے ساتھ ان کی گراں قدر تصنیفات و تالیفات بھی اندلس کے ارباب شوق کی علمی محفلوں کو گرما رہی تھیں۔ اندلس کی تاریخ علماء کی گراں قدر خدمات کی گواہ ہے۔
حواشی
۱- الاحاطہ فی اخبار غرناطہ؛اردو ترجمہ سید احمداللہ، ج۱، ص۱۲، نفیس اکیڈمی کراچی۔
۲- اندلس میںعلوم قراء ت کا ارتقاء؛ڈاکٹر محمد یٰسین مظہر صدیقی۔ ص۱۷۔ اے ایم یو پریس ،علی گڑھ
۳- غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء۔ ابن الجزری، ج۱، ص۴۳۷،۸۳۔ ج۲، ص۳۴۵ مکتبہ الخانجی ، مصر
۴- الاقناع فی القراء ت السبع ۔ ابو جعفر،ج۱،ص۱۳۲، ج۲، ص۸۱۹
۵- الاحاطہ فی اخبار غرناطہ، ج۱، ص۱۹۵، بغیۃ الوعاۃ، للسیوطی۔ حرف العین، ۳۴۷۔ مطبعہ السعادۃ ۱۳۲۶ھ
۶- الاقناع۔ فی القراء ت السبع ،مقدمہ، ص۹، ۲۶
۷- طبقات القراء ، ج۲، ص۲۲۸، ج۱،ص۱۱۴، ج۱، ص۳۸۳، ۱۶۳۴۔ بغیۃ الملتمس فی تاریخ رجال اہل الاندلس، احمد یحییٰ ابن الضبی۔ ۱۵۰، مطبوعہ ۔ روخس ۸۸۳م
۸- طبقات القراء ج۱، ۵۵۲، ج۲،۲۰۰،ج۱،۵۱۸۔۵۱۹۔ابن الزبیر۔ الذخائر۔ص۱۶۸
۹- معرفۃ القراء ، الذھبی ، ج۱،ص۵۰۰
۱۰- معرفۃ القراء،ج۱،ص۷۲۳۔غایۃ النہایہ، ج۲ ،ص۲۵۸
۱۱- غایۃ النہایہ، ج۱،ص۱۵۱ ۱۲-غایۃ النہایہ، ج۱ ،ص۵۵۷ تا۵۵۸
مشمولہ: شمارہ جون 2018