دینِ اسلام کی اشاعت کے نتیجے میں جہاں اسلامی عقائد توحید، رسالت اور آخرت سے متعلق شعور جاگنے لگا اور اپنی زندگی کو زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور منشا کے تابع کردینے کا رجحان پیدا ہوا، وہیں قرآن مجید کی بعض آیات سے اللہ تعالیٰ کا یہ منشا بھی سمجھ لیاگیا کہ مومن کو صرف مذہبی دنیا تک ہی محدود نہیں رہنا چاہیے۔ بل کہ مذہبی دنیا سے باہر کی سائنٹفک دنیا کو بھی جاننے اورپہچاننے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے۔ کیوں کہ مذہب سے باہر کی دنیا مذہب سے الگ کوئی چیز نہیں ہوتی بلکہ مذہب ہی کاایک حصہ ہوتی ہے۔ دونوں کا منبع ایک ہی ہوتا ہے۔ وہ ہے خالق کائنات :
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّیْلِ وَالنَّھَارِ لَٰایٰتِ لِّاُوْلِی الْاَ لْبَاب۔أَلَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللَّہَ قِیٰمًاوَّقُعُوْدًاوَّعَلیٰ جُنُوْبِھِمْ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ، رَبَّنَا مَاخَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلاً سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔﴿آل عمران: ۱۹۰،۱۹۱﴾
’’آسمانوں اور زمین کی پیدایش میں اور رات ،دن کے باری باری آنے جانے میں اُن ہوش مند ﴿یا عقل مند﴾ لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں، جو اٹھتے بیٹھتے اور لٹتے ہوئے، ہر حال میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی ساخت ﴿تخلیق﴾ میں غوروفکر کرتے ہیں﴿اور بے اختیار بول اٹھتے ہیں﴾ پروردگار! یہ سب کچھ تونے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا۔ تو‘ پاک ہے، اس بات سے کہ کوئی کام عبث کرے‘‘۔
سورۃ البقرہ کی آیت نمبر ﴿۱۶۴﴾ میں بھی ہمیں یہی پیغام ملتا ہے۔ اسلام کی ابتداء ہی میں ابن رشد(Averroes) نے اپنی ایک تحریر کے ذریعے واضح کیا کہ ساینس اور مذہب میں نہ کوئی اختلاف پایاجاتا ہے نہ وہ ایک دوسرے سے متصادم ہیں، بلکہ سائنسی تحقیقات کے ذریعے جو کچھ بھی سامنے آتا ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی کتابوں میںپہلے ہی سے درج ہے۔ یہ تحریر ایسے وقت میں منظر عام پر آئی جب کہ یورپ کے لوگ پوری طرح چرچ کے تابع فرمان تھے اور ساینس کی کوئی بھی بات برداشت نہیں کی جاتی تھی۔ مسلمانوں نے اس نظریے کو عام ہی نہیں کیا بلکہ عملاً اپنایا بھی۔چنانچہ اُس زمانے کی مسجدوں میں کالج اور یونیورسٹیاں قائم کی گئیں جن میں مذہبی علوم کے ساتھ ساتھ ساینس، طب، ریاضی، انجینئرنگ، کیمیا، طبعیات کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ چند مساجداوریونیورسٹیوں کا مختصراً تعارف درج ذیل ہے:
- مراقش کی القیروان یونیورسٹی جس کو فاطمہ الفہری نامی ایک پاکباز اور عبادت گزار خاتون نے۸۴۱ عیسوی میں قائم کیا تھا۔ جو ایک مسجد بھی تھی اور ایک جامعہ ﴿یونیورسٹی﴾ بھی۔ علم فلکیات میں تحقیق کے لیے سارے ضروری آلات اس میں فراہم کیے گئے تھے ۔
- ٹمبسکٹو کی سنکور مسجد / یونیورسٹی، جس کی بنیاد تو ٹمبسکٹو کے چیف جج قاضی ثاقب بن محمود نے۹۸۹ عیسوی میں رکھی، پھر کسی خاتون نے اس کو یونیورسٹی کے درجے تک پہنچا دیا۔ یہ یونیورسٹی ’’مالی‘‘ ’’گھانا‘‘ اور ’’شنگھائی کے لیے علم ودانش کا مرکز تھی۔ یہاں تعلیم کے علاوہ تجارت، زراعت، تعمیرات، کارپنٹری، ٹیلرنگ اور ملاحی کے فنون کی عملی تربیت بھی دی جاتی تھی۔
- تیونس کی زیتونہ مسجد/ یونیورسٹی میں درس وتدریس کے اہتمام کے ساتھ ساتھ لائبریری کی شکل میں کتب کی فراہمی کا بھی انتظام تھا۔ وقت کے گزرتے گزرتے مسجدوں کے علاوہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے لیے شاندار عمارتیں بنائی گئیں، لیکن طرز تعلیم وہی رہا ۔جب شوق کا تازیانہ ہاتھ میں ہو اور سرپٹ دوڑنے والا گھوڑا بھی میسر آجائے تو نئی نئی منزلیں چشم بہ راہ ہوتی ہی ہیں۔ اِسی لیے مسلمان نئی نئی منزلیں سرکرتے ہوئے بہت جلد آسمان علم کے ستارے بن کر چمکنے لگ گئے۔ ان چمکتے ستاروں میں بہترین ساینس داں، بہترین اطبا، بہترین سرجن، بہترین ریاضی داں، بہترین انجینئر، بہترین کیمسٹ، بہترین کاری گر ، کاشت کاری اور آب پاشی کے بہترین ماہر شامل تھے۔تفصیلات انٹرنیٹ پردیکھی جاسکتی ہیں۔ان سب کی علمی تحقیقات کبھی رکیں نہیں اور انھوں نے اپنی تحقیقات اور تجربات پر مبنی سیکڑوں کتابیں لکھ ڈالیں جن کے اُس دور کی مروجہ لاطینی زبان میں ترجمے ہوئے اور یورپ کی یونیورسٹیوں میں حالیہ تک وہی کتابیں پڑھائی جاتی رہیں۔ آج یورپ میں ترقی کی جو بلند وبالا عمارتیں کھڑی ہیں، ان کی بنیاد مسلمانوں نے ہی فراہم کی تھی۔
مسلمانوں نے دینی اغراض پوری کرنے کے لیے بہت ساری چیزیں ایجاد کیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سامنے آیا کہ ’’پاکی نصف ایمان ہے‘‘ تو جسم کی پاکی کے لیے صابن ایجاد کیا۔ بعد میں صابن سازی ایک انڈسٹری بن گئی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ ارشاد سامنے آیا کہ ’’آپ فرما دیجیے کہ کس نے حرام کی اللہ تعالیٰ کی وہ زینت جو اس نے اپنے بندوں کے لیے نکالی‘‘۔ ﴿الاعراف: ۳۲﴾تو‘ زینت کی بہت ساری چیزیں ایجاد کیں جن میں مختلف اقسام کے الکحل سے پاک پرفیوم، جِلد، بالوں، دانتوں کی دیکھ بھال کی اشیائ، مائوتھ واش اور ہینڈ کریم شامل تھے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد سامنے آیا کہ: ’’اے اولادِ آدم ؑ ! ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے۔ تاکہ تمھارے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمھارے لیے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو‘‘ ﴿الاعراف: ۲۶﴾ تو پارچہ بافی یا کپڑا بننے کے فن میں یکتا ہوکر دکھا دیا۔ مسلم کاریگروں اور فن کاروں کا تیار کردہ نفیس ریشمی کپڑا ، یورپ کی ملکائوں کے عروسی جوڑوں میں استعمال ہوتا رہا۔ سب سے اہم بات یہ کہ خانۂ کعبہ کے غلاف کے معاملے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمانوں کو غیر مسلموں سے ہمیشہ بے نیازہی رکھا اور یہ خدمت ہمیشہ مسلم کاری گر ہی انجام دیتے رہے۔قبلہ رخ کا تعین کرنے کے لیے نقشے تیار کیے گئے۔ ا س مقصد کے لیے سروے کرنے کے لیے ضروری آلات اور نقشہ نویسی کے ضروری آلات ایجاد کیے گئے اور علم جغرافیہ کی بنیاد ڈالی گئی۔ پانچ وقت کی نمازوں کے اوقات کو واضح کرنے کے لیے حسب ذیل آیات میں مختلف علامات بتائی گئیں:
﴿۱﴾ وَأَقِمِ الصَّلَاۃَ طَرَفِی النّھَارِ وَزُلَفاًمِّنَ الَّیْلِ۔ ﴿ھود:۱۱۴﴾
’اور نماز قائم کرو دن کے دونوں کناروں اور رات کے کچھ حصے میں‘‘۔
﴿۲﴾ فَسُبْحٰنَ اللّٰہِ حِیْنَ تُھْسُوْنَ وَحِیْنَ تُصْبِحُوْنَ۔ وَلَہُ الْحَمْدُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَ َٔرْضِ وَعَشِیًّا وَّحِیْنَ تُظْہِرُوْنَ۔ ﴿الروم: ۱۷،۱۸﴾
پس اللہ کی تسبیح بیان کرو جب شام کرو اور جب صبح ہو اور اُسی کی تعریف ہے آسمانوں اور زمین میں اور کچھ دن رہے اور جب تمھیں دوپہر ہو‘‘۔
﴿۳﴾ أَقِمِ الصَّلَاۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ الَّیْلِ وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ۔ ﴿بنی اسرائیل: ۷۸﴾
’نماز قائم کرو سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک اور صبح کا قرآن‘‘۔
﴿۴﴾ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْل طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِہَا، وَمَنْ آنَائِ الَّیْلِ فَسَبِّحْ وَأَطْرَافِ النَّھَارِ۔ ﴿طٰہٰ۔۱۳۰﴾
’اور اپنے رب کی حمد وثنا کے ساتھ تسبیح بیان کرو سورج نکلنے سے پہلے اور سورج کے غروب ہونے سے پہلے اور رات کے اوقات میں بھی تسبیح کرو اور دن کے کناروں پر بھی‘‘۔
اوپربتائی گئی علامتیں پانچوں نمازوں کے اوقات کو ظاہر کرتی ہیں، لیکن ان علامات کو پہچاننا ہر کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔ اس کے علاوہ ان علامتوں کی بنا پر ہر کسی کا نمازوں کی ادائی کے لیے ایک وقت پر متفق ہونا بھی ضروری نہیں تھا۔اس میں اختلاف رائے کی گنجایش تھی۔ اس لیے اس بات کی سخت ضرورت تھی کہ نمازوں کے اوقات کا تعین وقت کی اکائی کے مطابق کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے مسلمانوں کی نگاہیں بار بار آسمان ، سورج اور ستاروں کی جانب اٹھنے لگیں اور انھوں نے زمین کو مرکز مان کر آسمان میں منزلیں معلوم اور متعین کیں۔ اس مقصد کے لیے درکار سارے آلات مسلمانوں ہی نے ایجاد کیے۔ علم ریاضی کے ضمن میں مسلمانوں نے کروی مثلثات کو حل کرنے میں دسترس حاصل کی۔ مسلمانوں کی تحقیقات کے نتیجے میں قدرت کے حسب ذیل راز بھی منکشف ہوئے:
﴿۱﴾ زمین چپٹی نہیں ہے بلکہ ایک کرہ ہے۔
﴿۲﴾ زمین کا ایک محور ہے اور وہ اپنے محور پر ۲۴گھنٹوں میں ایک چکر پورا کرتی ہے۔
﴿۳﴾ زمین کا محور ایک جانب مائل رہتا ہے ۔ اس میلان کی مقدار ﴿۳۲ 0 ۲۳﴾ ﴿۲۳﴾ ڈگری اور ﴿۳۲﴾ منٹ ہے۔ اس میلان کے سبب سال بھر کے دنوں اور راتوں میں فرق پایا جاتا ہے۔
﴿۴﴾ زمین اپنے محور پر ہی نہیں بلکہ اپنے مدار پر سورج کے اطراف چکر لگاتی ہے، جس کی وجہ سے موسموں میں تبدیلی واقع ہوتی ہے۔
﴿۵﴾ دنیا کے مختلف علاقوں کا طول بلد اور عرض بلد بھی معلوم کیاگیا جن کی بنیاد پر دنیا کے مختلف حصوں میں نمازوں کے اوقات میں تبدیلی واقع ہوتی ہے۔
ان ساری معلومات کو کام میں لاتے ہوئے دنیا کے مختلف علاقوں کے اوقاتِ نماز کا تعین کیاگیا اور سال بھر کی نمازوں کے اوقات جداول کی شکل میں منظر عام پر آگئے۔سائنسی تحقیقات پرمبنی ان جداول سے بلا استثنا ہر مسلمان مستفید ہورہا ہے ،خواہ وہ ساینس کو تسلیم کرتا ہوخواہ اس سے گریزاں ہو۔
ساینس کے اسلامی میراث ہونے سے متعلق لکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ متحِسس دل اس بحر عمیق میں غوطہ زن ہو کر بہت سارے گوہر نایاب حاصل کرسکتے ہیں۔یہاں اتنا بتانے پر اکتفا کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں نے جہاں دین اسلام کا پرچم ہر طرف بلند کیا وہیںسائنس کے میدان میں ترقی کی نئی نئی منزلیں بھی طے کیں۔ ایک طرف دین داری ، پرہیزگاری اور ان کا شیوہ تھی تو دوسری طرف وہ ہر فن میں یکتاتھے۔ اس ضمن میں استنبول ﴿ترکی﴾ کی مسجد سلیمانیہ کا ذکر بے محل نہ ہوگا ،جو فنِ تعمیر کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ اس مسجد کے معمار، انجینئر ، آرکٹیکٹ سنان اپنے فن میں یکتا ہونے کے ساتھ ساتھ اتنے زیادہ دین دار ، عبادت گزار اور پرہیز گار تھے کہ سلطانِ وقت سلیمان نے اپنی موجودگی کے باوجود اس مسجد کا افتتاح معمار سنان کے ہاتھوں کروایا۔
حیدرآباد دکن کا طویل حسین ساگر ڈیم فن تعمیر کا اس لحاظ سے بھی اعلیٰ نمونہ ہے کہ اس پر ایک بے حد کشادہ پل ہے، جو حیدرآباد اور سکندر آباد کو آپس میں ملاتاہے۔ یہ پل مضبوط بھی ہے اور بڑھتی ہوئی ٹریفک کی مانگ کو برسوں سے پورا کرتا چلا آرہا ہے۔ اس ڈیم اورپل کے ڈیزائنر اور انجینئر حسین شاہ ولی تھے ،جن کے دن انجینئرنگ کے جوہر دکھانے میں گزرتے تھے اور راتیں اللہ کے ذکر اور عبادت میں گزرتی تھیں۔
امتدادِ زمانہ نے پتا نہیں کیا اور کیسی چال چلی کہ مذہب اسلام اور سائنس کے درمیان ایک اونچی دیوار کھڑی ہوگئی اور مسلمان اُسی دوراہے پر نظرآنے لگے، جہاں کسی زمانے میں یورپ نظر آتا تھا۔ پھر تو سائنس جو دراصل اسلامی میراث تھی غیر مسلموں کی جھولی میں ڈال دی گئی۔ اس علیم و خبیر ذات بابرکات نے اس تبدیلی کا نزولِ قرآن کے موقع یپر ہی واضح اشارہ دے دیا تھا:
سَنُرِیْہِمْ اٰیَاتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْ أَنْفُسِہِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ۔ ﴿حٰم السجدہ:۵۳﴾
’’عن قریب ہم ان کو ﴿غیر مسلموںکو ﴾ اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی،یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے کہ یہ قرآن حکیم واقعی برحق ہے‘‘۔
اس آیت میں خالق کائنات کی جانب سے اعلان ہے کہ قرآن مجید کی حقانیت کو اجاگر کرنے کے لیے خالق کائنات خود اپنی نشانیاںغیر مسلموں کو دکھا دیںگے، آفاق میں بھی اور خود ان غیرمسلموں کی ذات میں بھی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ غیر مسلموں کو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کا علم عطا کیا جائے گا بلکہ فرمایا کہ انھیں ان نشانیوں کا مشاہدہ کروایا جائے گا۔ کسی بھی بات سے متعلق علم کا حاصل ہوجانا یا کسی کا کوئی نظریہ قائم کرلینا اور کسی بات کے مشاہدے میں آنے کے بعد اس کو مان لینے میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔ کسی بھی ذریعے سے حاصل ہونے والے علم کی صحت کا دارومدار، اُس ذریعے کے قابل اعتماد ہونے پر ہوتا ہے۔ اسی طرح کسی کا قایم کیا ہوا نظریہ بھی صحیح یا غلط ہوسکتا ہے۔ لیکن کسی بات کا مشاہدہ خاص طور پر اس وقت قابل یقین ہوجاتا ہے جبکہ خالق کائنات خود کسی بات کا مشاہدہ کروائے۔ عینی شاہد ویسے ہی اہم ہوتا ہے۔ لیکن جب خالق کائنات خودغیر مسلموں کو اپنی نشانیوں کا عینی شاہد بنا دے تو وہ عینی شاہد آفاق میں یا اپنی ذات میں اپنے مشاہدے کی بنا پر جو کچھ بھی انکشاف کرے گا وہ سب برحق ہوگا اس لیے بھی کہ اس کے مشاہدے کے پیچھے اللہ تعالیٰ کاارادہ، اللہ تعالیٰ کی منشائ اور اللہ تعالیٰ کی تائید کارفرما ہوگی۔
آفاق میں خالق کائنات کی اہم اور قابل مشاہدہ نشانیوں میں سورج، چاند اور دوسرے ستارے اور سیارے شامل ہیں۔ قرآن مجید میں سورج، چاند اور دوسرے ستاروں اور سیاروں کا اجمالاً ذکر کیاگیا ہے۔ اُن کی ہیئت یا گردش کی تفصیل پر سے پردہ نہیں اٹھایاگیا مثلاً:
- ﴿۱﴾أَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُبِحُسْبَانِِ۔ ﴿الرحمٰن: ۵﴾
’سورج اور چاند ایک حساب کے پابند ہیں‘‘۔ ﴿حساب کی تفصیل نہیں بیان کی گئی﴾
- ﴿۲﴾وَالشَّمْسُ تَجْرِی لِمُسْتَقَرِلَّہَا، ذٰلِکَ تَقْدِیْرُالْعَزِیْزِ الْعَلِیْم۔ وَالْقَمَرَقَدَّرْنٰہُ مَنَازِلَ حَتیّٰ عَادَ کَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیْمِ۔ لَاالشَّمْسُ یَنْبَغِیْ لَہآ أَنْ تُدْرِکَ الْقَمَرُ وَلَا الَّیْلُ سَابِقُ النَّہَارِ۔ وَکُلٌّ فِیْ فَلَکِِ یُّسْبَحُوْنَ۔ ﴿یٰسین۔۳۸ — ۴۰﴾
’اور سورج ، اپنے ٹھکانے کی طرف چلا جارہا ہے۔ یہ زبردست علیم ہستی کا باندھا ہوا حساب ہے۔ اور چاند، اس کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کردی ہیں۔ یہاں تک کہ ان سے گزرتا ہوا وہ پھر کھجورکی سوکھی شاخ کے مانند رہ جاتا ہے۔ نہ سورج کے بس میں ہے کہ وہ چاند کو جاپکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جاسکتی ہے۔ سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں‘‘۔ ﴿ان سارے حقایق کی تفصیل نہیں بیان کی گئی۔﴾
- ﴿۳﴾فَلآَ أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُوْمِ۔ ﴿الواقعہ: ۷۵﴾
’پس نہیں، میں قسم کھاتا ہوں تاروں کے مواقع کی‘‘۔ ﴿مواقع کی کوئی تفصیل نہیں﴾
- ﴿۴﴾وَلَقَدْ زَیَّنَا السَّمَآئَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ ۔ ﴿الملک۔۵﴾
’’اور ہم نے تمھارے قریب کے آسمان کو عظیم الشان چراغوں سے آراستہ کیا ہے‘‘۔
یہاں بھی چراغوں کی کوئی تفصیل نہیں۔سورج ،چاند اور تاروں سے متعلق صرف اشارے ہیں۔ کوئی تفصیل نہیں! اور یہ اس لیے کہ قرآن مجید کوئی ساینس کی کتاب نہیں، بلکہ یہ ایک ہدایت نامہ اور ایک منشور ہے۔اسی لیے جب اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ اُن کی قدرت کی نشانیاں انسان پر آشکار ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کا مشاہدہ کروا دیا تاکہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، ربوبیت، الوہیت اور شہنشاہیت کا صاف صاف پتا چل جائے اور یہ بات بھی کھل کر سامنے آجائے کہ قرآن مجید برحق ہے۔
سورج، چاند اور ستاروں او ر سیاروں کی ہیئت اور گردش سے متعلق عصری تحقیقات پر مبنی مختصراً بیان درج ذیل ہے:
سو رج:۔سورج دراصل ہائیڈروجن گیس کا مسلسل جلتا ہوا ایک گولہ ہے۔ سورج کو اپنی بقائ کے لیے ہرسیکنڈپر پانچ ملین ٹن ہائیڈروجن درکار ہوتی ہے۔ رب کائنات کی شان کیسی نرالی ہوگی جس نے اربوں سال سے، کسی توقف کے بغیر، کسی تاخیر کے بغیر، اتنی کثیر مقدار میں ہائیڈروجن کی فراہمی کا انتظام کر رکھا ہے۔ ہماری حکومتیں معمولی پکوان گیس کاانتظام صحیح نہیں کرسکتیں، پٹرول کی فراہمی یا بجلی کی فراہمی ان سے ڈھنگ سے نہیں ہوپاتی اور وہ بھی انتہائی ترقی یافتہ ہونے کے باوجود۔ قادر مطلق کی حکمرانی ملاحظہ کیجیے کہ کیا ان اربوں سالوں میں کوئی ایک دن بھی ایسا گزرا کہ سورج نہ نکل پایا ہو یا اس کی روشنی یاتمازت میں کوئی کمی واقع ہوگئی ہو۔ سورج جس کا قطر چودہ لاکھ کلو میٹر ہے، اپنے حجم میں ہماری زمین سے تیرہ لاکھ گنا بڑا ہے اور زمینی چاند سے ۴. ۶کروڑ گنا بڑا۔ سورج کے مرکزی حصے میں درجۂ حرارت ۱۵ – ۲۰ ملین ڈگری ہوتا ہے اور سطح پرچھے ہزار ڈگری۔ اس کی محوری گردش ۲۷ دن میں پوری ہوتی ہے اور مداری گردش ۲۲۵ ملین سالوں میں۔
وَجَعَلْنَا سِرَاجًاوَّہَّاجًا۔﴿ ’’اور ایک نہایت روشن اور گرم چراغ پیدا کیا‘‘۔﴾
اس آیت کی تلاوت کیجیے، اس کا ترجمہ اور تفسیر ملاحظہ کیجیے ، پھر اپنے دلوں میں جھانکیے اور محسوس کیجیے کہ آپ کا دل اس ترجمے اور تفسیر سے کس حد تک متاثر ہوتا ہے۔ اس کے بعد سورج کے تعلق سے سائنٹفک تحقیقات پر مبنی اوپر دی ہوئی تفصیلات پر نظر ڈالیے جن سے خالق کائنات کی عدیم المثال سلطنت کا پتا چلتا ہے۔ خالق کائنات کی قدرت کے مسحور کن عجائب پر سے پردہ اٹھتا ہے، پھر فیصلہ کیجیے کہ قرآن مجید کو سمجھنے کے لیے ان تحقیقات سے مستفید ہونا برحق ہے یا نہیں۔
سورج گہن
سورج گہن کا شمار بھی عجائب قدرت میںہے۔ یہ اُس وقت واقع ہوتا ہے، جب سورج، چاند اور زمین ایک سیدھ میں جمع ہوجاتے ہیں اور چاند ،سورج اور زمین کے درمیان آجاتا ہے جس کی وجہ سے سورج کا کچھ حصہ یا تقریباً پورا سورج زمین والوں کو دکھائی نہیں دیتا۔ سورج کے مقابلے میں چاند انتہائی چھوٹا ہونے کی وجہ سے چاند کا قرص سورج کے قرص کا مکمل احاطہ نہیں کرسکتا۔ اسی لیے مکمل سورج گہن کے موقع پر چاند کے عکس کے سیاہ قرص سے سورج کی شعاعیں پھوٹنے لگتی ہیں اور آتشیں حلقہ نظر آنے لگتا ہے۔ سورج گہن کے متعلق علم نجوم کی بنیاد پر اور طاقتور دوربینوں اور سٹیلائٹ کے ذریعے مشاہدے کی بنیاد پر قبل از وقت بتا دیاجاتا ہے کہ وہ کس علاقے میں کس وقت شروع ہوگا، کتنا دکھائی دے گا اور کس وقت ختم ہوگا۔ ان ساری سائنسی معلومات پر پورا بھروسا کرلیاجاتا ہے کیوں کہ وہ من وعن صحیح ثابت ہوتی ہیں اوربھروسا کرنے کے معاملے میں عام مسلمان اور علماءے کرام سب برابر ہوتے ہیں۔
چاند زمین کے گرد اور زمین کے ساتھ ساتھ سورج کے گرد گردش کرنے والا بے حد چھوٹا سیارہ ہے جو خود روشن نہیں ہے بلکہ سورج کی روشنی کو منعطف کرنے کی وجہ سے روشن دکھائی دیتا ہے۔ چاند کو اللہ تعالیٰ نے عجیب فلک ﴿مدار﴾ عطا کیا ہے کہ ہلال سے بڑا ہوتا ہوتا بدر بن جاتا ہے اورپھر بدر سے چھوٹا ہوتا ہوتا کھجور کی سوکھی شاخ کی طرح ہوجاتاہے۔ یہ زمین کے اطراف ساڑھے ۲۹ دنوں میں اور زمین کے ساتھ ساتھ سورج کے اطراف ۳۶۵ دنوں میں اپنا چکر پورا کرتا ہے۔ اس کا قطر ﴿۳۴۷۶ کلو میٹر ہے۔ اس کا زمین سے فاصلہ تین لاکھ چوراسی ہزار کلو میٹر ہے۔ سورج چاند سے ﴿۴. ۶﴾ کروڑ گنابڑا ہے اور سورج کا چاند سے فاصلہ ﴿۶. ۱۴۹﴾ ملین کلو میٹر ہے۔
چاند گہن۹
چاند گہن بھی قدرت کی کرشمہ سازی کا ایک عجیب نمونہ ہے ۔ یہ اس وقت واقع ہوتا ہے جب سورج، زمین اور چاند ایک سیدھ میں جمع ہوجاتے ہیں اور زمین سورج اور چاند کے درمیان آجاتی ہے جس کی وجہ سے زمین کا سایہ چاند پر پڑنے لگتا ہے۔ زمین کا جس قدر سایہ چاند پر پڑے، اتنا ہی چاند گہن بھی واقع ہوتا ہے۔ کیوں کہ وہی حصہ تاریک یا بے نور ہوجاتا ہے۔ چاند گہن کی پیش گوئی سالہا سال سے کی جاتی رہی ہے لیکن اب طاقتور دور بینوں، عصری آلات اور سٹیلائٹ کی وجہ سے اس کی توجیہ بھی ممکن ہوچکی ہے۔ چاند گہن سے متعلق جو پیش گوئی کی جاتی ہے وہ حرف بہ حرف ، ایک ایک سیکنڈ کی صحت کے ساتھ سچ ثابت ہوتی ہے۔ چاند گہن کے پیش آنے کی کیفیت بھی چوں کہ نظریات پر نہیں بلکہ مشاہدے پر مبنی ہوتی ہے، اسی لیے سب کے لیے بغیرکسی ادنیٰ تامل کے قابل قبول ہوتی ہے اور برسہا برس گزر جانے کے باوجود چاند گہن کے واقع ہونے کی توجہ اور تفصیل سے متعلق کسی نے انگشت نمائی کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
سورۃ القیامہ کی آیت نمبر ۸ کے مطابق قیامت کے دن پیش آنے والے واقعات میں ’’خَسَفَ الْقَمر‘‘ چاند گہن کا وقوع بھی شامل ہوگا۔ کیا یہ چاند گہن اُسی طرح واقع ہوگا جیسا کہ کروڑوں سالوں سے واقع ہوتا رہاہے۔ زمین سورج اور چاند کے درمیان آجائے گی جس کی وجہ سے زمین کا سایہ چاند پر پڑے گا اور چاند کا وہ حصہ بے نور ہوجائے گا یا پھر یہ ایسا چاند گہن ہوگا جس میں چاند سورج سے جاملے گا؟ ان سوالات کا جواب ڈھونڈنے کے لیے ہمیں قیامت کے دن پیش آنے والے دیگر واقعات پر ایک نظر ڈالنی ہوگی جیسے قیامت کے دن پیش آنے والا زلزلہ جس کا ذکر سورۃ الحج کی پہلی، سورۃ النازعات کی چھٹی اورسورۃ الزلزال کی پہلی آیت میں ملتا ہے۔ نوعیت کے اعتبار سے زلزلہ وہی کچھ ہوگا جیسا کہ انسان برسہا برس سے مشاہدہ کرتا آرہا ہے۔ لیکن اس کی شدت غیرمعمولی اور ناقابل تصور ہوگی اور ساری دنیا اس کی زد میں آجائے گی۔ آسمان کے شق ہونے کا ذکر بھی بار ہا آیا ہے۔ یہ انشقاق اگرچہ بے حد عظیم ہوگا لیکن عام فہم سے بالاتر نہیں ہوگا۔ ستارے بجھ جائیں گے ﴿المرسلات:۸﴾ اسی طرح جیسے چراغ بجھ جاتے ہیں۔ سیارے جھڑپڑیں گے ﴿الانفطار:۳﴾ جس طرح سونامی کی حالت میں سمندر ابل پڑتے ہیں۔ لیکن ایک سمندر نہیں بلکہ سارے ہی سمندر انتہائی شدت کے ساتھ ابل پڑیں گے۔
آفاق میں خالق کائنات کی عدیم المثال شہنشاہیت کا جو مشاہدہ کروایاگیا اس میں نظام شمسی بھی شامل ہے جو کہ زمین کے علاوہ آٹھ سیاروں پر مشتمل ہے۔ ویسے نظام شمسی سارا ہی انتہائی حیرت زدہ کردینے والا ہے، لیکن ان کی مندرجہ ذیل تفصیلات بہت زیادہ چونکا دینے والی ہیں۔
سیارہ
مدار کا طول
مدتِ دوران
رفتار۔ ک م/گھنٹا
چاند
۱
عطارد
۳۶۵ ملین کلومیٹر
۸۸ دن
ایک لاکھ تہتر ہزار
۔
۲
زہرہ
۶۸۰ ملین کلومیٹر
۲۲۵ دن
ایک لاکھ چھبیس ہزار
۔
۳
زمین
۹۴۰ ملین کلو میٹر
۳۶۵ دن
ایک لاکھ آٹھ ہزار
۱
۴
مریخ
۱۴۳۳ ملین کلو میٹر
۶۸۷
چھیاسی ہزار نوسو
۲
۵
مشتری
۴۸۷۱ملین کلو میٹر
۱۱۰۸۶سال
سینتالیس ہزار
۶۳
۶
زحل
۸۹۷۰ ملین کلو میٹر
۴۶ئ ۲۹ سال
بیالیس ہزار
۳۴
۷
یورانس
۱۸۰۳۴ ملین کلومیٹر
۸۴ سال
چوبیس ہزار پانچ سو
۲۱
۸
نپچون
۲۸۲۶۰ ملین کلو میٹر
۱۶۵ سال
انیس ہزار چھ سو
۱۳
۹
پلوٹو
۳۷۰۸۵ ملین کلو میٹر
۲۴۸سال
سترہ ہزار ایک سو
اوپر دیے ہوئے جدول میں مدار کے طول ، مدت دوران اور سیاروں کی غیرمعمولی رفتار پرغور کیجیے۔ اگر خالق کائنات نے ان کا مشاہدہ نہ کروایاہوتا توکیا ہم کسی ایسے نظام کا تصور کرسکتے؟ ایک ایسا نظام جس میں اللہ تعالیٰ کے تخلیق کردہ سیارے اربوں سالوں سے بغیر کسی ظاہری توانائی یا ایندھن کے ، ایک سیکنڈ کے توقف کے بغیر، مسلسل محو گردش ہیں۔ اس سارے عرصے میں نہ ان کے مدارمیں کوئی فرق آیا نہ رفتار میں۔ رفتار بھی ایسی جو ہمارے تصور کی حدوں سے بہت بہت زیادہ بالاترہے۔ تقریباً پندرہ منٹ کے عرصے میں زمین ۲۵۰۰۰ کلو میٹر کافاصلہ طے کرلیتی ہے۔ جب کہ ہمارے تیز رفتار ہوائی جہاز کو ۲۵۰۰ کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنے کے لیے کم از کم پچیس گھنٹے درکار ہوتے ہیں اور اس دوران جہاز کو ایندھن کی بھی ضرورت پڑسکتی ہے۔ اور سیاروں کی اتنی تیز رفتاری کے باوجود اربوں سالوں میں نہ کبھی کوئی حادثہ نہ ٹکرائو۔ انتہائی ترقی یافتہ ہونے کے باوجود ہمارا یہ حال ہے کہ اخبارات سڑک حادثات، ٹرینوں کے حادثات، ہوائی حادثات اور خلائی حادثات سے پرہوتے ہیں۔ سیاروں کے تعلق سے یہ سب جان کر ایک مومن کا دل تو ضرور پکار اٹھے گا:
’’ذٰلِکَ تَقْدِیْرُالْعَزِیْزُ الْعَلِیْم۔ ﴿یٰسین:۳۸﴾
’’یہ زبردست علیم ہستی کا باندھا ہوا حساب (Programing) ہے‘‘جس پر اربوں سال سے عملدرآمد ہوتا چلا آرہا ہے۔
ہمارا نظام شمسی، ہماری گیلکسی کاایک حصہ ہے۔ ہماری گیلکسی ہی میں اوربہت سارے سورج ﴿ستارے﴾ اور ان کے گرد گھومنے والے سیارے ہیں۔ اسی طرح کی اربوں چھوٹی بڑی گیلکسیز (Galaxies) آسمانِ دنیا کے بطن میں موجود ہیں۔ ان میں سے ہر گیلکسی میں اربوں کی تعداد میں سورج اور کھربوں کی تعداد میں ان کے گرد گھومنے والے سیارے اپنا وجود رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو:
وَلَقَدْ زَیَّنَّاالسَّمَآئَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ۔ ﴿سورہ الملک:۵﴾
’’اور ہم نے آسمان دنیا کو عظیم الشان چراغوں سے آراستہ کیا ہے‘‘ ۔
فرماکر ان گیلیکسیز کی جانب صرف اشارہ کیا ہے۔البتہ آفاق میں اپنی نشانیوں کا مشاہدہ کرواتے ہوئے ان گیلیکسیز کا بھی مشاہدہ کروا دیا اسی لئے مومن پکار اٹھتا ہے:
رَبَّنَا مَاخَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلاً۔ سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ ﴿آل عمران:۱۹۱﴾
’’پروردگار! یہ سب کچھ تونے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا۔تو‘ پاک ہے اس بات سے کہ کوئی کام عبث کرے‘‘ ۔
سائنسی معلومات کی روشنی میں قرآن مجید کوسمجھنے کی کوشش کی جائے تو دلوں کی دنیا ہی بدل کر رہ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کبریائی دلوں کو چھونے لگتی ہے اور اللہ تعالیٰ سے قرب کا احساس ہونے لگتا ہے۔
مشمولہ: شمارہ جنوری 2012