رسائل و مسائل

محمد رضی الاسلام ندوی

رمضان المبارک میں جماعت اسلامی ہند کی ابو الفضل انکلیو کی مقامی جماعت کے حلقۂ خواتین کی ایک نشست میں جو سوالات و جوابات ہوئے تھے، ان کی پہلی قسط زندگی نو، اگست ۲۰۱۶ء میں شائع ہوئی تھی۔ اب دوسری قسط پیش خدمت ہے۔ (محمد اسعد فلاحی، معاون شعبۂ تصنیفی اکیڈمی)

کیا زکوٰۃ کو روک کر رکھا جا سکتا ہے؟

سوال:  زکوٰۃ کی رقم کو کتنے عرصہ تک اپنے پاس رکھا جا سکتا ہے؟ یعنی اس کو کب تک خرچ کردینا چاہیے؟ کسی بچے کی پڑھائی میں خرچ کرنے کے لیے کیا زکوٰۃ کی رقم کو ایک سال کے لیے روکنا جائز ہے؟

جواب: زکوٰۃ واجب ہونے کے بعد حسب ضرورت کچھ عرصے کے لیے روکی  جا سکتی ہے۔ ہم واجب شدہ رقم کوالگ رکھ لیں یا کسی اکائونٹ میں ڈال دیں اور اس میں سے حسب ضرورت تھوڑا تھوڑا خرچ کرتے ر ہیں۔لیکن جب تک زکوٰۃ کی رقم کو مکمل طور پر ادا نہ کر دیا جائے، اس وقت تک زکوٰۃ ادا نہیں سمجھی جائے گی۔

وصیت کس قدر کی جا سکتی ہے؟

سوال: کوئی شخص جس کی دو شادی شدہ لڑکیا ں ہیں، لڑکا کوئی نہیں ہے، لڑکیوں کی اجازت کے بعد کیا وہ اپنی تمام جائیداد بیوی کے نام وصیت کر سکتا ہے؟ ظاہر ہے، بیوی کے بعد وہ جائداد لڑکیوں ہی کی ہوگی۔ اگر پوری جائیداد کی وصیت بیوی کے حق میں جائز نہیں تو کس قدر کی جا سکتی ہے؟

جواب: اگر ہم تین باتوں کو سمجھ لیں تو وصیت اور وراثت کے معاملات کو بہ آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ تین اصطلاحات ہیں:ہبہ ، وصیت اور وراثت ۔ ہبہ کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنے مال کا مالک ہے ،  اپنی زندگی میںوہ جس کو چاہے دے، جس کو چاہے نہ دے۔وہ اپنامال بیوی کو بھی دے سکتا ہے، بیٹے کو بھی دے سکتا ہے اور بیٹی کو بھی دے سکتا ہے۔ حتیٰ کہ قانونی طور پر یہ بھی جائز ہے کہ وہ کسی ایک کو دے اور دوسروں کو محروم کر دے۔ اگر چہ اولاد میں فرق کرنے سے شریعت میں روکا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ کوئی شخص زندگی میں اپنی اولاد میں سے کسی کو دے اور کسی کو نہ دے، یہ غلط ہے۔ دینا ہے تو سب کو برابر دے۔ لیکن یہ حکم اخلاقی طور پر ہے۔ قانونی طور پر بہ ہر حال اسے حق ہے کہ وہ جس کو چاہے دے اور جس کو چاہے محروم کر دے۔

وصیت اس کو کہتے ہیں کہ آدمی کہے کہ میرے مرنے کے بعد میرافلاں مال فلاں کو اور فلاں مال فلاں کو دے دیا جائے۔ وصیت کے بارے میں حکم ہے کہ یہ ایک تہائی سے زیادہ نہیں کی جا سکتی۔ دوسری  بات یہ کہ جن لوگوں کو وراثت میں حصہ ملنا ہے ان کے حق میں وصیت جائز نہیں۔ لیکن موجودہ دور کے حالات کو دیکھتے ہوئے فقہاء نے وصیت کی ایک خاص صورت کو جائز قرار دیا ہے۔ عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ کسی کا انتقال ہو گیا، اس کے بعض لڑکےشر پسند اور طاقتور ہیں، انھوں نے سارا مال اپنے قبضے میں کر لیا اور اپنی بہنوں کو محروم کر دیا، یا لڑکوں میں بھی جو بڑا ہے وہ تیز طرار ہے ،اس نے پوری جائداد پر قبضہ کر لیا اور اپنے دیگر بھائیوں کو اس سے محروم کر دیا۔ چنانچہ فقہاء نے اجازت دی ہے کہ آدمی کے مرنے کے بعد اس کی وراثت شریعت کے مطابق جس طرح تقسیم ہو گی، وہ مرنے سے پہلے اس کو شرعی تقسیم  وصیت کی شکل میں رجسٹرڈ کرا سکتا ہے۔اس صورت کو انھوں نے اس لیے جائز قرار دیا ہے کہ اس سے کسی مستحق وارث کی حق تلفی نہیں ہو رہی ہے۔آدمی اپنی زندگی میںاپنی پوری پراپرٹی اپنی بیوی کو دے سکتا ہے، لڑکیوںسے رضا مند ی لینے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن اس کو وصیت کا نام نہیں دیا جائے گا، بلکہ ہبہ قرار دیا جائے گا۔ پوری پراپرٹی بیوی کی بیوی کے نام منتقل ہو جائے گی اور بیوی کے انتقال کے بعد اس کی وراثت کی حیثیت سے تقسیم ہوگی۔

نماز قصر سے متعلق احکام

سوالـ : اگر کوئی اپنے آبائی وطن جاتا ہے تو وہاں پر نماز قصر ہوگی یا نہیں؟ جیسے عورت کا میکہ اور مرد کا آبائی وطن؟

جواب: وطن ایک یا ایک سے زائد ہو سکتے ہیں۔ وطن اس کو کہیں گے جہاں ہم پیدا ہوئے ہیں اور جہاں ہماری نشو و نما ہوئی ہے۔ ملازمت کے سلسلے میں ہم کہیں اور آگئے ہیں اور وہاں اپنا مکان بنا لیا ہے،  تووہ بھی وطن ہے۔یہ دونوں ہی ہمارے وطن اصلی ہیں، دونوں ہی جگہ  نماز پوری پڑھنی ہے۔ عورت کا میکہ بھی اس کا وطن اصلی ہے، اس لیے کہ اس سے اس کا تعلق ابھی باقی ہے۔ وہ جگہ وطن اصلی ہے جہاں سے مرد یا عورت کا رابطہ   Attachment باقی ہو اور جہاں اس کے والدین ہوں، جہاں اس کی پراپرٹی ہو، جہاں اس کا مکان ہو ۔ گویا ہر وہ جگہ، جہاں سے کسی مرد یا عورت کا مضبوط قسم کا تعلق ہو، اس کو وطن اصلی کی حیثیت حاصل ہوگی اور وہاں اس کو پوری نماز پڑھنی ہو گی۔

اگر کسی عورت کے بیٹے کہیں رہتے ہوں تو وہ جگہ اس عورت کا وطن اصلی نہیں ہے، لیکن اگر وہ اپنے بیٹوں کے پاس جا کر مستقل رہ جائے تو اس کی حیثیت وطن اصلی کی ہو جائے گی۔ لیکن اگر کسی عورت کے چار پانچ بیٹے ہوں، وہ کسی کے یہاں ایک مہینہ، کسی کے یہاں دو مہینے رہتی ہے تو اس کی حیثیت وطن اصلی کی نہیں ہوگی۔ اگر کوئی شخص پندرہ (۱۵) دن سے زیادہ کسی جگہ رہنے کی نیت کرے تو اس کی حیثیت مقیم کی ہوگی، لیکن اگر وہ پندرہ( ۱۵) دن سے کم وہاں رہنے کی نیت کرے یا وہاں سے واپسی کی کوئی تاریخ متعین نہ کی ہو ، دس دس دن بڑھاتے ہوئے چھ مہینہ گزر جائیں ،تو بھی اس کی حیثیت مسافر ہی کی ہوگی۔

شوہر کی اطاعت کے حدود

سوال: شوہر کی اطاعت کہاں تک ضروری ہے؟ پردہ کرنے سے اگر شوہر منع کرے تو کیا اس کی اطاعت ضروری ہوگی؟

جواب: صحیح حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق (الجامع الصغیر للسیوطی) ’’ خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطا عت نہیں کی جائے گی‘‘۔ ازدواجی زندگی میں شریعت کے اس اصول پر عمل کیا جائے گا البتہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ شوہر اگر بیوی کو پردہ کرنے سے روکتا ہے تو عور ت کو چاہیے کہ وہ حکمت کے ساتھ گفتگو کرے۔ شوہر سے اپنا یہ حق تسلیم کر وا لے کہ وہ با پردہ رہنا چاہتی ہے تو اسے اس کی اجازت دی جانی چاہیے۔ شوہر کی بات نہ ماننے کے نتیجے میں اگر ازدواجی زندگی میں بگاڑ پیدا ہو جانے کا اندیشہ ہو تو بیوی کو تحمل ہی سے گفتگو کرنی چاہیے۔ حق بات کہنا ضروری ہے، لیکن حق بات حکیمانہ طرز پر کہی جائے۔ ایک دو مرتبہ شوہر کی غلط بات کی تردید نے کریں۔ تیسری مرتبہ حکمت کے ساتھ اس سے صحیح بات منوائی جا سکتی ہے۔

اکتیسواں روزہ

سوال: عرب ممالک میں روزہ  ہندوستان سے ایک دن پہلے شروع ہوتا ہے۔وہاں ملازمت کرنے والے ہندوستانی بسا اوقات دوران رمضان اپنے ملک واپس آتے ہیں۔ یہاں کبھی انتیس (۲۹) کا چاند نہ ہونے کی وجہ سے تیسواں روزہ رکھنا پڑتا ہے، جو عرب ممالک سے آنے والوں کا اکتیسواں روزہ ہوتا ہے۔ ان کے سلسلے میں یہ سوال ہے کہ وہ اکتیسواں روزہ رکھیں یا نہ رکھیں؟ بعض حضرات کی طرف سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ چوں کہ قمری مہینہ انتیس (۲۹) یا تیس (۳۰) دن کا ہوتا ہے، اس لیے اکتیسواں روزہ رکھنا درست نہیں۔ بہ راہ کرم اس معاملہ میں صحیح رہ نمائی فرمائیں۔

جواب: یہ بات صحیح ہے کہ قمری مہینہ انتیس(۲۹) یا تیس (۳۰) دن کا ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے ایک مرتبہ یہی بات انگلیوں پر گن کر بتائی تھی، پھر صحابہؓ سے فرمایا کہ اگر ماہ رمضان میں انتیس(۲۹) کا چاند نظر نہ آئے تو اگلے دن بھی روزہ رکھ لیا کرو۔ (بخاری:۱۹۰۹، ۱۹۱۳، مسلم: ۱۰۸، ۱۰۸۱) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عام حالات میں ماہِ رمضان کے روزے تیس دنوں سے زیادہ نہیں ہو سکتے۔ تیسویں دن چاہے چاند نظر آئے یا نہ آئے، اگلے دن مسلمانوں کے لیے عید منانا لازم ہے۔

لیکن اس مسئلہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ بعض احادیث سے اللہ کے رسول ﷺ کا یہ حکم معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شخص جس جگہ ہو وہاں کے مسلمانوں کے ساتھ وہ دینی شعائر کی انجام دہی کا پابند ہوگا۔ حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:

الصوم یوم تصومون و الفطر یوم تفطرون، والأضحی یوم تضحون (جامع ترمذی: ۶۹۷)

’’روزہ اس دن ہے جب تم سب روزہ رکھو، عید الفطر اس دن ہے جب تم سب عید منا ؤ اور عید الاضحی اس دن ہے جب تم سب قربانی کرو‘‘۔

امام ترمذی نے لکھا ہے: ’’اس حدیث کا مطلب بعض اہل علم نے یہ بتایا ہے کہ روزہ رمضان کا آغاز اور اختتام سب لوگ ایک ساتھ کریں گے‘‘۔

اس سے معلوم ہوا کہ کوئی شخص، جس کے تیس(۳۰) روزے پورے ہو چکے ہوں، وہ  اگرکسی ایسی جگہ ہو جہاں کے مسلمان ابھی روزہ رکھ رہے ہوں (ان کے یہاں ابھی عید کا چاند دکھائی نہ دیا ہو) تو ان کی متابعت میں وہ بھی روزہ رکھے گا۔ یہی فتویٰ موجودہ دور کے تمام علماء نے دیا ہے۔ ان میں شیخ وہبہ الزہیلی (الفقہ الاسلامی و ادلتہ، دار الفکر دمشق: ۱۹۸۵، ۲؍۶۰۷) شیخ ابن باز (فتاویٰ اسلامیہ، دارالسلام ریاض، ۲؍۱۶۱، ۱۶۲) شیخ محمد صالح العثیمین (مجموع فتاویٰ الشیخ ابن عثیمین، سوال نمبر:۲۵) شیخ محمد صالح المنجد (Islam QA، سوال نمبر۴۵۵۴۵) مفتی محمد تقی عثمانی (فتاویٰ عثمانی، ۲؍ ۱۷۶) مفتی محمد شفیع، مفتی رشید احمد لدھیانوی (احسن الفتاویٰ، ۴؍ ۴۳۳)  اور مولانا خالد سیف اللہ رحمانی (کتاب الفتاویٰ ، کتب خانہ نعمانیہ دیوبند، ۳؍ ۴۲۴،۴۲۵) قابل ذکر ہیں۔

فقہ کی قدیم کتابوں میں بعض فقہاء کی یہ رائے نقل کی گئی ہے کہ ایسا شخص اکتیسواں روزہ نہیں رکھے گا، لیکن وہ خاموشی اختیار کرے گا، اپنے روزہ دار نہ ہونے کا اظہار نہیں کرے گا (انہ یفطر سِرًّا) اور اگلے دن تمام مسلمانوں کے ساتھ عید الفطر کی نماز ادا کرے گا۔ (مجموع فتاویٰ و رسائل الشیخ ابن عثیمین، جلد ۱۹،ص ۴۶)اگر کبھی اس کے بر عکس صورت حال پیش آئے، یعنی ایک شخص ہندوستان میں روزۂ رمضا ن کا آغاز کرے، پھر کسی عرب ملک میں جائے، جہاں انتیس(۲۹) کا چاند ہو جائے، اس صورت میں اس شخص کے اٹھائیس (۲۸) روزے ہی ہوں گے۔ ایسا شخص وہاں کے لوگوں کے ساتھ اگلے دن عید منائے گا اور بعد میں ایک روزہ کی قضا کرے گا۔

مشمولہ: شمارہ ستمبر 2016

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau