قسط اول میں قرآن مجید کی ان آیات کا تجزیہ کیاگیا تھا جن میں لفظ ’’قلب‘‘ یا ’’قلوب‘‘ کا استعمال کیاگیا ہے۔ اس قسط میں بھی یہ سلسلہ کچھ حد تک جاری رہے گا۔
﴿ج﴾ اطمینان قلب
الَّذِیْنَ اٰ مَنُواْ وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُہُم بِذِکْرِ اللّٰہِ أَلاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوب۔ ﴿الرعد:۲۸﴾
’’جو لوگ ایمان لائے اور ان کے قلوب کو اللہ کے ذکر سے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ یاد رکھو کہ اللہ کے ذکر ہی سے قلوب کو اطمینان نصیب ہوتا ہے‘‘۔
ذہن کو مطمئن کرنے کے لیے دلائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ وجوہ بیان کرنی ہوتی ہیں ۔ جیسے کوئی وکیل اپنے دلائل کے ذریعے ، وجوہ بیان کرکے، ثبوت پیش کرکے جج کو ذہنی طور پر مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں نہ کوئی دلیل ہے نہ کوئی وجہ نہ کوئی ثبوت کہ ان کے ذریعے سے انسان کا ذہن مطمئن ہوتا ہو۔ پھر بھی اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اطمینان حاصل ہوتا ہے ۔تو یہ اطمینان صرف اور صرف قلب ہی کا ممکن ہوسکتا ہے۔
اللّٰہُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتَاباً مُّتَشَابِہاً مَّثَانِیَ تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُودُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُودُہُمْ وَقُلُوبُہُمْ الٰی ذِکْرِ اللّٰہ۔﴿الزمر:۲۳﴾
’’اللہ نے بڑا عمدہ کلام نازل فرمایا ہے جو ایک ایسی کتاب ہے جو باہم ملتی جلتی ہے، بار بار دہرائی گئی ہے جس سے اپنے رب سے ڈرنے والوں کی کھالوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ پھر ان کی کھالیں ﴿بدن﴾ اور دل نرم ہوکر اللہ کے ذکر کی جانب متوجہ ہوجاتے ہیں‘‘۔
کسی بھی طرح کی ہیبت دل میں محسوس ہوتی ہے ، ذہن یا دماغ میں نہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی خشیت دلوں پر طاری ہوتی ہے دماغوں پر نہیں۔اور اسی لیے دل ہی اللہ کے ذکر کی طرف راغب ہوتے ہیں دماغ نہیں۔ یہ ساری کیفیت کسی بھی طرح کی دلیل یا ثبوت سے خالی ہوتی ہے۔ اسی لیے دماغ متاثر ہونے نہیں پاتے۔
ناسمجھ دل
وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیْراً مّنَ الْجِنّ وَالانسِ لَہُمْ قُلُوبٌ لاَّ یَفْقَہُونَ بِہَا وَلَہُمْ أَعْیُنٌ لاَّ یُبْصِرُونَ بِہَا وَلَہُمْ اٰذَانٌ لاَّ یَسْمَعُونَ بِہَآ أُوْلٰٓ ئِکَ کَالأَنْعَامِ بَلْ ہُمْ أَضَلُّ أُوْلٰٓ ئِکَ ہُمُ الْغَافِلُون۔﴿الاعراف: ۱۷۹﴾
’’ اور ہم نے بہت سارے ایسے جن اور انسان جہنم کے لیے پیدا کیے ہیں جن کے دل ایسے ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں اور جن کی آنکھیں ایسی ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں اور جن کے کان ایسے ہیں جن سے وہ سنتے نہیں وہ لوگ چوپایوں جیسے ہیں بل کہ ان سے بھی زیادہ گم راہ یا بدتر۔ وہی لوگ ہیں جو غافل ہیں‘‘۔
یہ بات ان کے حق میں کہی گئی ہے جن کے دماغ، جن کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ، جن کی بصارت، جن کی سماعت صد فی صد نارمل ہو اور جو اپنے کاروبار زندگی میں بالکل بھی غافل نہ ہوں۔ لیکن ان کو دیکھنے کے باوجودحق دکھائی نہیں دیتا، سننے کے باوجود حق سنائی نہیں دیتا۔ تو یہ دماغ کے خلل کی وجہ سے تو نہیں ہوسکتا۔ اس کا واحد سبب صرف اورصرف دل کا خلل ہی ہوسکتا ہے۔ چوپائے اپنے مالک کو پہچانتے بھی ہیں اور اپنے مالک کی بات مانتے بھی ہیں۔ انسان اپنی ساری عقل ودانش کے باوجود اپنے مالک کو نہ پہچانے نہ اپنے مالک کی بات مانے تو اس کی دلی حالت، ﴿دماغی نہیں﴾ ایسی ہوجاتی ہے کہ وہ جانوروں سے بھی بدتر ہوجاتا ہے۔
اندھے قلوب
افَلَمْ یَسِیْرُوا فِیْ الْأَرْضِ فَتَکُونَ لَہُمْ قُلُوبٌ یَعْقِلُونَ بِہَآ أَوْ اٰذَانٌ یَسْمَعُونَ بِہَا فَاِنَّہَا لَا تَعْمَی الْأَبْصَارُ وَلٰکِن تَعْمَی الْقُلُوبُ الَّتِیْ فِیْ الصُّدُور۔ ﴿الحج:۴۶﴾
’’تو کیا یہ ﴿منکرلوگ﴾ ملک میں چلے پھرے نہیں کہ ان کے دل ایسے ہوجائیں کہ ان سے سمجھنے لگیں یا ان کے کان ایسے ہوجائیں کہ ان سے سننے لگیں۔ ﴿حقیقت میں نہیں سمجھنے والوں کی﴾ آنکھیں اندھی نہیں ہوجایا کرتیں بل کہ وہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں‘‘۔
اس آیت مبارکہ سے پہلے اللہ تعالیٰ نے ان بستیوں کا ذکر فرمایا ہے جن میں رہنے والوں کو اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کے رسولوں کی نافرمانی کی پاداش میں ہلاک کردیاگیا تھا اور ان کے بڑے بڑے محل مسمار کردیے گئے تھے اور ان کے کنویں خشک اور بے کار ہوچکے تھے۔ کفار و مشرکین ان علاقوں سے گزرتے، ان بستیوں کی تباہی کی المناک داستان سننے اور اپنی آنکھوں سے بھی سب کچھ دیکھتے، پھر بھی انھیں عبرت حاصل نہیں ہوتی تو یہ ان کی آنکھوں کے اندھے ہونے کے سبب نہیں ہوتا۔ آنکھوں سے دیکھنے اور کانوں سے سننے کے بعد دماغ بھی متاثر ہوہی جاتا لیکن دلوں کے اندھے ہونے کی وجہ سے ان المناک اور عبرتناک واقعات کا ان پر کوئی بھی اثر نہیں ہوپاتا۔
اس آیت مبارکہ کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ اس میں ’’قلب‘‘ کی اس طبی تشریحی (Medical Anatomy) عضو کی حیثیت سے واضح نشاندہی کردی گئی ہے جو کہ صدر یعنی سینے میں دھڑکتا رہتا ہے۔ بعض علماء نے صدرکا مطلب بھی دماغ ہی لیا ہے، جیسا کہ مکاتیب سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے مکتوب نمبر ۲۶۰ کے درج ذیل خلاصے سے ظاہر ہے:
’’قرآن مجید چوں کہ سائنس کی زبان میں نہیں بل کہ ادب کی زبان میں نازل ہوا ہے، اس لیے وہ قلب، فوأد اور صدر کے الفاظ اسی طرح ادبی طرز میں استعمال کرتا ہے جس طرح تمام دنیا کی زبانوں میں یہ الفاظ استعمال ہوتے ہیں مثلاً اردو میں ہم کہتے ہیں کہ اس بات کو میرا دل نہیں مانتا یا فلاں شخص کا سینہ ﴿ صدر﴾ بے کینہ ہے — اس سے خود بخود یہ ظاہر ہوجاتاہے کہ قلب، فواد اور صدر سے مراد علم، شعور، جذبات ، ارادوں، نیتوں اور خواہشات کے مراکز ہیں۔ ادب کی زبان میں اس مقصد کے لیے دماغ کا لفظ کم اور دل کا لفظ زیادہ استعمال ہوتا ہے.‘‘
اس تشریح کے بعد آیت مبارکہ کے آخری حصے کا مطلب ہوگا کہ ’’وہ دماغ اندھے ہوتے ہیں جو کہ دماغ کے اندر ہیں‘‘۔ دماغ کے اندر دماغ؟ لمحۂ فکر! سورۃ العادیات میں جو فرمایا گیا:
’’وَحُصِّلَ مَا فِی الصُّدُوْر‘‘
تواس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ دماغوں کی یاد داشت حاصل کی جائے گی۔ دماغوں کی یاد داشت تو باقی ہی نہیں رہے گی۔ کیوں کہ جب کسی سے پوچھا جائے گا کہ اس نے دنیا میں کتنا وقت گزارا تو وہ جواب دے گا : ’’یَوْمً اَوْبَعْضَ یَوْم‘‘ ایک دن یا دن کا کچھ حصہ۔ اس کے اعمال کی تفصیل تو نامۂ اعمال کی شکل میں پیش کی جائے گی۔ ہاں سینوں میں دھڑکنے والے قلوب یا دلوں میں پوشیدہ کینہ، کپٹ، بغض وعداوت، ہٹ دھرمی و شقاوت ، حسد، جلن اور اسی طرح کی ساری بیماریوں کو قلوب یا دلوں سے نکال کر بطور ثبوت ظاہر کردیا جائے گا۔ اسی لئے قیامت کے دن ایسی ساری بیماریوں سے پاک قلب سلیم یا قلب منیب کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے روبرو حاضر ہونے میں ہر طرح کی بھلائی ہے۔ ہر طرح کی سعادت مندی ہے۔ جیسا کہ درج ذیل آیات سے ظاہر ہوجائے گا۔
قلب سلیم، قلب منیب
یَوْمَ لَا یَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ۔الَّا مَنْ أَتَی اللّٰہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ ۔﴿الشعرائ:۸۸،۸۹﴾
’’جس دن نہ کسی کا مال کام آئے گا نہ اولاد۔ مگر ہاں اس کی نجات ہوگی جو قلب سلیم ﴿ساری روحانی بیماریوں سے پاک دل﴾ لے کر اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو‘‘۔
وَاِنَّ مِن شِیْعَتِہِ لَاِبْرَاہِیْمَ۔اِذْ جَآئَ رَبَّہ‘ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ۔﴿الصّٰفّٰت:۸۳،۸۴﴾
’’نوح علیہ السلام کے طریقے پر چلنے والوں میں سے ابراہیم ؑ بھی تھے جب کہ وہ ساری آلایشوں سے پاک دل کے ساتھ اپنے رب سے رجوع ہوئے‘‘۔
وَأُزْلِفَتِ الْجَنَّۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ غَیْرَ بَعِیْدٍ۔ہٰذَا مَا تُوعَدُونَ لِکُلّ أَوَّابٍ حَفِیْظٍ۔مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰن بِالْغَیْبِ وَجَآئ بِقَلْبٍ مُّنِیْب۔ ﴿قٓ:- ۳۱ ۳۳﴾
’’اور جنت متقیوں کے قریب لائی جائے گی کہ کچھ بھی دور نہ ہوگی۔ یہ ہے وہ جس کا تم سے وعدہ کیاجاتا تھا ہر رجوع ہونے والے پابند شخص کے لیے۔ جو بغیر دیکھے ہی اللہ سے ڈرتا ہواور رجوع ہونے والا دل لے آئے‘‘۔
کیا اوپر مذکورہ آیت نمبر ﴿۱﴾ کا یہ مطلب لیاجائے گا کہ قیامت کے دن مال و اولاد کام نہیں آئیں گے صرف وہی لوگ سرخرو اور کامیاب ہوں گے جو اللہ کے دربار میں بہترین دماغی حالت میں حاضر ہوں گے؟ یعنی اس دن ان کی بہترین عقلیں ہی کام آئیں گی؟ اسی طرح آیت نمبر دو کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے رب سے اس حالت میں رجوع ہوئے کہ ان کی عقل صحیح سلامت اور بہترین حالت میں تھی؟ اور آیت نمبر ۲ کے مطابق جنت ان کے لیے ہوگی جو اللہ سے بن دیکھے ڈریں اور رجوع ہونے والے دماغ یا ذہنی ارتکاز (Concentration)کے ساتھ اپنے رب سے جاملیں؟ قیامت کے دن تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے:
لَقَدْ کُنتَ فِیْ غَفْلَۃٍ مّنْ ہٰذَا فَکَشَفْنَا عَنکَ غِطَآئ کَ فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌ ۔ (قٓ:۲۲﴾
’’تو‘ اس دن سے غفلت میں پڑا ہوا تھا اسی لیے ہم نے تیری ﴿غفلت﴾ کے پردے کو ہٹا دیا ہے پس تیری نگاہ تو آج بہت ہی تیز ہے‘‘۔
آنکھوں کی روشنی اور چمک اور نگاہ کی تیزی، دماغ کی تیزی اور بہترین دماغی حالت کو ظاہر کرتے ہیں ۔ اس کا مطلب ہوا کہ اس دن کفار ومشرکین اور گنہ گاروں کی دماغی حالت بہترین اور ان کے سمجھنے کی صلاحیت اعلیٰ سطح پر ہوگی اور یہ نہ ان کے جنت میں جانے کے کام آئے گی نہ دوزخ سے بچنے کے۔ پھر جنت اور اللہ تعالیٰ کی نوازش کے مستحق کون ہوں گے؟ وہی جو قلب سلیم اور قلب منیب کے ساتھ اللہ کے پاس حاضر ہوں۔
ربطِ دل
وَأَصْبَحَ فُؤَادُ أُمّ مُوسٰی فَارِغاً اِن کَادَتْ لَتُبْدِیْ بِہٰ لَوْلَآ أَن رَّبَطْنَا عَلَی قَلْبِہَا لِتَکُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْن۔ ﴿القصص:۱۰﴾
’’اور موسیٰ ﴿علیہ السلام﴾ کی والدہ کا دل ﴿مختلف اندیشوں کی وجہ سے﴾ بے قرار ہوگیا۔ قریب تھا کہ وہ ﴿اپنی بے قراری کی حرکتوں سے﴾ موسیٰ ﴿علیہ السلام﴾ کا حال سب پر ظاہر کردیتیں اگر ہم ان کے دل کو اس غرض سے سنبھالے ہوئے اور مضبوط نہ رکھتے کہ وہ ﴿ہمارے وعدے پر﴾ یقین کیے بیٹھی رہیں۔
اگر اس آیت مبارکہ میں فواد اور قلب دونوں کے معنی ’’دماغ‘‘ لیے جائیں تو مطلب ہوگا کہ موسیٰؑ کی والدہ فرعون کے ہرکاروں سے اس قدر خوفزدہ ہوگئی تھیں کہ اپنا ہوش کھو بیٹھتیں، اگر اللہ تعالیٰ نے ان کے دماغ کو مضبوط نہ کیا ہوتا۔ دماغ مضبوط ہونے یا مطمئن ہونے کے لیے دلیل اور شہادت طلب کرتا ہے تو کیا پھر اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام فرمایا کہ فرعون کے ہر کارے نومولود لڑکوں کی ٹوہ میں آئیں ہی نہیں؟ ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ کے اس غیبی وعدے پر ایمان ویقین سے کیامراد جو کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰؑ کی حفاظت کے تعلق سے ام موسیٰؑ سے فرمایاتھا؟ اور پھر موسیٰؑ کو تابوت میں رکھ کر دریا میں ڈال دینا بھی تو عقل کے خلاف ہی ہوتا۔ یقینا اللہ تعالیٰ نے اُسی دل کو مضبوط کیا تھا جو کہ سینے کے اندر دھڑکتا ہے اور اسی لئے اللہ تعالیٰ کے وعدے پر دل سے ایمان لاتے ہوئے انھوں نے موسیٰؑ کو تابو ت میں ڈالا اور تابوت کو دریا میں ۔
اردو ادب میں بھی دل کا استعمال بطور دل ہی ہوا ہے، بطور دماغ کہیں نہیں ہوا۔ جیسا کہ غالب کا مشہور شعر ہے:
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟
یا یہ مصرع: دردِ دل کے واسطے پیداکیا انسان کو۔ اسی طرح دل گرفتگی، دل آزاری، دل شکفتگی ، دل فریبی وغیرہ دل ہی کے لیے استعمال ہوتے ہیں دماغ کے لیے کبھی نہیں ہوئے۔
حقیقت قلب اور سائنسی انکشافات
اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ فرمایا تھا:
سَنُرِیہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الاٰفَاقِ وفیْٓ اَنْفُسِہِمْ۔
’’ہم ان کواپنی نشانیاں دکھلا دیں گے آفاق میں بھی اور ان کے جسم میں بھی‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے قلب کی ماہیت کے تعلق سے بھی بہت سارے سربستہ راز منکشف فرما دیے ہیں اور سائنسی طور پر یہ ثابت ہوچکا ہے کہ دل محض خون کو پمپ کرنے کا آلہ ہی نہیں بل کہ ادراک، ارادہ، نیت، تدبر، جذبات، فیصلہ سب کا مرجع اور منبع ہوتا ہے۔ حسد، جلن، کینہ کپٹ، دشمنی ، نافرمانی،خون خرابہ وغیرہ کا تعلق بھی دل ہی سے ہوتا ہے۔ دل دراصل دماغ کو کنٹرول کرتا ہے اور دماغ اپنے اعصابی نظام کے ذریعے باقی اعضائے جسمانی کو۔ دماغ، دل کا ماتحت اور ادنیٰ کارندہ ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے سارے قرآن مجید میں دل کا نہایت ہی اہمیت کے ساتھ بار بار ذکر فرمایا ہے اور اس کی جانب بار بار انسان کی توجہ مبذول فرمائی ہے۔ حقیقت قلب کو صوفیائے کرام نے بھی اچھی طرح سمجھا تھا۔ اسی لیے انھوں نے اپنے دلوں کی اصلاح اور ترقی کی جانب پوری توجہ بھی کی ۔ساتھ ہی اپنے شاگردوں اور مریدوں کے دلوں کی اصلاح کی بھی فکر کی۔ ان پر محنت بھی کی اور ان سے محنت کروائی بھی اور وہ سب شفاف اور اللہ تعالیٰ کو پسند آنے والے دلوں کے حامل بن گئے— ان میں بعض کی حالت ایسی ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ ان کی آنکھیں بن گئے جن سے وہ دیکھتے تھے، اللہ تعالیٰ ان کے کان بن گئے جن سے وہ سنتے تھے۔ صحابہ کرامؓ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں ہوتے تو ان کی کیفیت مختلف ہوتی اور جب اپنے اپنے گھر چلے جاتے تو کیفیت بدل جاتی۔ یہ کیفیت دلوں ہی کی ہوسکتی تھی، دماغوں کی نہیں۔
پروفیسر محمد عمر سالم کی رپورٹ کا خلاصہ
دنیا کی مختلف تہذیبوں کی طویل تاریخ میں ہمیشہ دل یا قلب ہی کو مختلف جذبات، ایثار و ہمدردی اور عقلمندی کا سرچشمہ اور مرکز مانا جاتا تھا۔ ہر کسی کا یہی احساس تھا کہ محبت، نفرت جیسے جذبات دل کے علاقے ہی میں پائے جاتے ہیں اور یہ بات بھی قابل توجہ تھی کہ دماغ اُسی صورت میں سکون واطمینان کی حالت میں ہوتا ہے جبکہ دل پرسکون ہو۔ اسی لئے دل کی سربستہ حقیقت اور دل اور دماغ کے درمیان رابطے کے ذرائع جاننے کے لیے کوششیں اور تحقیقات شروع ہوگئیں۔
اُسی دوران دماغ کا مشاہدہ کرنے پر پتا چلا کہ دماغ کو اس کے اپنے اعصابی نظام یا نروس سسٹم سے ہٹ کر بھی کہیں سے طاقتور اشارات یا سگنل موصول ہوتے ہیں اور دماغ ان اشارات یا سگنلس کے مطابق عمل بھی کر رہا ہوتا ہے ۔ انسانی جسم میں کوئی بھی ایسا عضو نہیں پایا گیا جہاں سے اس انداز کے اشارات دماغ تک پہنچتے ہوں سوائے دل کے اور جب دل کی نئے سرے سے جانچ کی گئی تو پتا چلا کہ اس چھوٹے سے گوشت کے لوتھڑے کے اندر اس کا اپنا انتہائی حساس اور طاقتور دماغی نظام ہوتا ہے جو کہ چالیس ہزار نیوران کے ساتھ اپنا خود کا مکمل (Perfect) اور دماغ سے کئی گنا زیادہ طاقتور نروس سسٹم رکھتا ہے — اس میں تعجب کی کوئی بات بھی نہیں کیوں کہ جب کمپیوٹر ایجاد ہوا تھا تو اس کا سائز بے حد بڑا تھا اور اب یہ حال ہے کہ ایک چھوٹے سے موبائل فون کے اندر کمپیوٹر کی بیشتر سہولتوں کے علاوہ تصویر کشی اور تصاویر کو دنیا کے کسی بھی حصے میں بھیجنے کی سہولت بھی حاصل ہوگئی ہے۔
محققین نے یہ بات بھی نوٹ کی کہ دل کی تبدیلی (Heart Transplant) کے آپریشن کے موقع پر کسی بھی قسم کی اعصابی نسوں کو کاٹنے یا جوڑنے کی نوبت ہی نہیں آتی۔ پھر بھی نیا دل، پرانے دل ہی کی طرح پورے افعال انجام دیتا ہے اور دماغ پر اپنی حکمرانی اور کنٹرول جاری رکھتا ہے۔ دل اور دماغ کے درمیان رابطے کا ایک اور ذریعہ وہ مقناطیسی لہریں ہیں جو اپنے اپنے طور پر دل میں بھی پیدا ہوتی ہیں اوردماغ میں بھی۔ دل کی ارتعاشی حرکت کی وجہ سے جہاں خون سارے جسم میں دوڑتا اور پہنچتا رہتا ہے ، اُسی وقت دل میں برقی رو بھی پیدا ہوتی ہے جس کی پیمائش ECG کے ذریعے کی جاسکتی ہے اور جہاں الیکٹری سٹی یا برقی رو ہو وہیں مقناطیسی لہریں بھی پیدا ہوتی ہیں اور ایک مقناطیسی میدان (Magnetic Field) وجود میں آتا ہے ۔ دل کی ارتعاشی حرکت سے پیدا ہونے والا مقناطیسی میدان اس قدر طاقتور ہو تا ہے کہ محسوس کرنے والے آلات ہوں تو مقناطیسی میدان انسانی جسم سے سات فٹ دور تک بھی محسوس کیا جاسکتا ہے، جس کے سبب دل کو ایک انتہائی طاقتور اور پیچیدہ نشریاتی مرکز (Irans mitting Station) فراہم ہوجاتاہے، جہاں پیغامات موصول بھی ہوتے ہیں، ان کا تجزیہ بھی ہوتا ہے اور پھر مناسب پیغامات یا مناسب احکام دماغ کو ارسال بھی کیے جاتے ہیں، جن کے مطابق دماغ اعضائے جسمانی کو اپنے پیغامات یا احکام جاری کردیتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے دماغ میں بھی برقی رو کے پیدا ہونے کا انتظام فرما رکھا ہے۔ برقی رو کے بغیر دماغ ناکارہ ہوکر رہ جاتا ہے جیسے موبائل فون الیکٹری سٹی کے بغیر ناکارہ ہوجاتا ہے ۔ دماغ کے برقی رو کی پیمائش (Electroencephalogram) یا EEG کے ذریعے کی جاتی ہے ۔ جہاں برقی رو ہو وہاں مقناطیسی لہروں کا پیدا ہونا بھی ضروری ہے۔ دماغ کی مقناطیسی لہرو سے جو مقناطیسی میدان پیدا ہوتا ہے وہ دل کے مقناطیسی میدان کے مقابلے میں پانچ سو گنا کمزور ہوتا ہے۔ اسی لیے دل کا مقناطیسی اثر دماغ کے مقناطیسی اثر پر حاوی ہوتا ہے اور دل کے اپنے احکام دماغ تک پہنچانے کا اہم ذریعہ بن جاتا ہے۔ جب دل اور دماغ کی مقناطیسی لہریں ایک دوسرے سے مربوط ہوتی ہیں تو دماغ چاق وچوبند رہتا ہے۔ بہتر طور پر سوچ سمجھ سکتا ہے اور بہتر طور پر فیصلے کرسکتا ہے ۔آنکھوں سے پڑھی جانے والی یا کانوں سے سنی جانے والی باتیں دل میں محفوظ ہونے لگتی ہیں اور اگر وہ ایک دوسرے سے مربوط نہیں ہوتیں تو پھر نہ کسی کام میں دل لگتا ہے اور نہ پڑھنے لکھنے میں اور نہ کوئی بات ذہن نشیں ہوتی ہے۔
تحقیقات کے دوران دل اور دماغ کے درمیان رابطے کا ایک اور ذریعہ بھی سامنے آیا اور وہ یہ کہ دل ایک ایسا ہارمون (Atrial Natriurelic Factor) ANF تیار کرتا اور خارج (Release) کرتا ہے جو نمایاں طور پر دماغ کے ان حصوں پر اثرانداز ہوتا ہے جو جسمانی اعضائ کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اس بات کا بھی پتا چلا کہ دل (Oxytocin) نامی ہارمون بھی خارج کرتا رہتا ہے جس کو محبت یاآپس میں جوڑنے والا (Bonding) ہارمون مانا جاتا ہے جس کی وجہ سے الفت، ایثار اور ہمدردی جیسے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور آپسی تعلقات پر اس ہارمون کا گہرا اثر مرتب ہوتا ہے ۔ دل میں جب مثبت احساسات پیدا ہوتے ہیں تو دماغ کا ردعمل بھی مثبت ہوتا ہے اور دل میں جب منفی احساسات پیدا ہوتے ہیں تو دماغ کا ردعمل بھی منفی ہی ہوتا ہے۔ اسی لئے دل ہی جذبات واحساسات کا مرکز ہوتا ہے اور دماغ صرف دل کا تابع ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب دل گھبراتا ہے تو کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا۔ غم اور غصے کی حالت میں بھی دماغ کام نہیں کرتا۔ اس کے برخلاف پرسکون دل، دماغ کو بہتر طور پر سوچنے سمجھے اور فیصلہ کرنے کے قابل بنا دیتا ہے۔
پروفیسر محمد عمر سالم کی رپورٹ میں دل کے تعلق سے اور بھی انکشافات ملتے ہیں ، لیکن اوپر کے خلاصے سے میرے اس ایمان اور یقین کی تصدیق ہوجاتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں قلب، قلوب، فواد کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں تو یقینا ان سے مراد دل کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتا ۔
ایک گزارش
دین اسلام کے ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے مجھے قلب، قلوب، فؤاد اور صدر کے تعلق سے بعض موقر علماء ے کرام کی باتیں عجیب سی لگیں اور مجھے محسوس ہوا کہ کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی سبب سے بہت بڑی غلط فہمی کو جگہ پانے کا موقع مل گیا تھا اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی تھی کہ اس وقت کے سائنسی انکشافات کے مطابق دل کو خون پمپ کرنے کی ایک مشین کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں سمجھا جاتا تھا اور دماغ کو جسم کے سپریم کمانڈر کی حیثیت دے دی گئی تھی۔
میں نے اس سلسلے میں بعض علماء سے رجوع کیا لیکن تسلی بخش جواب نہیں ملا ۔ پھر میں نے Google پر ایک سوال ٹائپ کیا کہ ﴿جذبات کہاں پیدا ہوتے ہیں؟﴾ تو جواب میں دل کے تعلق سے نئی تحقیقات کا پتا چلا اور یہ بھی پتا چلا کہ دل اور دماغ کے تعلق سے سارے نظریات یکسر بدل چکے ہیں۔ پروفیسر محمد عمر سالم کی رپورٹ بھی انٹرنیٹ کے ذریعے ہی حاصل ہوئی ہے۔
یہ انٹرنیٹ کا دور ہے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اپنے انٹرنیٹ پر دل کی طلسماتی دنیا کا مشاہدہ کریں اور میں امید کرتا ہوں کہ وہ دل کی دنیا کو مجھ سے بہتر انداز میں سمجھنے اور سمجھانے کے قابل ہوں گے اور آخرکار وہ بھی قلب، قلوب فواد کے تعلق سے اسی نتیجے پر پہنچیں گے ،جس نتیجے پر پہنچ کر میں نے یہ مختصر مضمون آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ کیا اب بھی کسی شک کی گنجائش ہوسکتی ہے کہ قرآن مجید میں پائے جانے والے الفاظ ﴿۱﴾قُلُوْبُنَا فِیٓ اَکِنَّۃِ یا قُلُوْبُنَا غُلْف یعنی ہمارے دل غلاف میں ہیں ﴿۲﴾ بل ران علیٰ قلوبہم ﴿بل کہ ان کے دلوں پر زنگ چڑھ گیا ہے ﴿۳﴾ یُطَہِّرَقُلُوْبَہُمْ ﴿دلوں کا پاک کرنا﴾ ﴿۴﴾ تَقَطَّعَ قُلُوبَہُمْ ﴿دل کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجانا﴾ ، دماغ کے تعلق سے ہرگز استعمال نہیں کیے جاسکتے؟
مشمولہ: شمارہ اپریل 2013