بہ ہرحال پانی کی قلت کے پیش نظر اس طرح کی پابندی لگانا حکومت کا حق ہے اور ایسی پابندیوں پر عمل کرنا مسلمانوں پر شرعاً واجب ہے، جو ضروریات زندگی میں نہ شامل ہوں۔
﴿۵﴾ انسان کی مملوکہ زمین میں جو پانی پایاجاتا ہے وہ انسان کی اپنی ملکیت ہے۔ اس لیے کہ زمین پر ملکیت اس کے تمام اجزائ کے ساتھ ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر کسی کے ذاتی گھر یا مملوکہ زمین میں معدن پایاجائے تو معدن مالک کی ملکیت ہوتی ہے، امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک اس میں خمس بھی واجب نہیں ہے۔ دلیل یہ دی گئی ہے کہ وہ اپنی زمین کا تمام اجزائ کے ساتھ مالک ہوتا ہے اور دیگر اجزائ پر مؤونت نہیں ہے ؛ لہٰذا اس پر بھی کوئی مؤونت نہ ہوگی۔
’’ ولہ أن من اجزائ الارض مرکب فیھا ولا مؤنۃ فی سائر الأجزائ فکذا فی ھٰذا الجزئ …. ‘‘ ﴿ہدایہ ۱/۲۰۰﴾
پانی اجزاء ارض میں سے ہے ؛ لہٰذا یہ بھی انسان کی مملوکہ زمین میں اپنی ملکیت ہوگی۔ اس میں جیسا وہ چاہے تصرف کر سکتا ہے، مگر اس سے دوسروں کو بھی استفادے کا حق ہے؛ اس لیے کہ آپ ا نے پانی، گھاس اور آگ میں لوگوں کو شریک قراردیا ہے حسب ضرورت ہر ایک کو اس سے استفادے کا حق حاصل ہے۔ حکومت کو حق ہے کہ مصالح عامہ کے پیش نظر بعض مباحات پر پابندی لگائے جیسے حضرت عمر ص نے روز انہ ذبیحے سے منع فرمایا:
’’ فو لی الامر من حقہ أن یقید بعض المباحات اذا کان فی ذلک مصلحۃ راحجۃ …. ‘‘ ﴿فتاویٰ معاصرہ :۱/۵۹۴﴾
اگر پانی کی سطح نیچے چلی جانے کے خطرے سے حکومت مملوکہ زمین میں بورنگ کرنے سے منع کرے تو اسلامی نقطۂ نظر سے ایسا حکم دینے کی گنجایش ہے ۔ کیوں کہ یہ تنظیمی امور اورمصالح عامہ میں سے ہے۔ اس کا مقصد ہے مستقبل میں پانی کی قلت کے اندیشے کو دور کرنا، پانی کی سطح نیچے چلی جائے تو اس سے ضرر عام ہوگا۔ ایک انسان سڑکوں پر چلتی ہوئی گاڑیوں کے تصادم سے فکر مند ہوتا ہے اور خواہش ہوتی ہے کہ ایسا حادثہ پیش نہ آئے، تاکہ چند جانوں کا نقصان نہ ہو۔ پانی کی قلت میں تو عام لوگوں کا نقصان ہے۔ اس باب میں انسان کو زیادہ فکر مند اور اس طرح کے قوانین پر عمل کرنے کے لیے حریص ہونا چاہیے۔
۶﴾ملک میں بہتر نظم و نسق عدل و انصاف کا قیام اور رعایا کی عمومی ضرورت کی تکمیل حکومت کی ذمہ داری ہے۔ تاکہ عوام ضرر سے بچ سکیں، جس طرح اس پر ضروری ہے کہ عوام میں جھگڑا لڑائی کی بنیاد کو ختم کرکے امن و سکون کا نظم قائم کرے یہ ذمہ داری دفع ضرر کے لیے ہے۔
’’ أن من واجبات الحکومۃ المسلمۃ أن تنظیم علاقات الناس علی أسس سلیمۃ فتضع من الأ نظمۃ و القوانین مایحقق العدل و یرفع الظلم و یشیع الطمانینۃ و الاستقرار بین الناس۔ .. ‘‘ ﴿فتاویٰ معاصرہ : ۱/۵۹۳﴾
پانی کا تعلق بھی عام زندگی سے ہے۔ اس کی کمی سے عام زندگی کو ضرر لاحق ہوگا۔ اس لیے اس کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے، نہ کہ افراد کی۔ البتہ اس کے لیے عوام کا تعاون حاصل کیا جاسکتا ہے۔ جیسے رسول اکرم ا نے جنگ بدر کے قیدیوں کے تحفظ اور ان کی ضرورت کی تکمیل کے لیے مختلف صحابۂ کرام ث میں تقسیم فرمادیا تھا، جب کہ قیدیوں کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح آپ اکے پاس جو وفود بیرون ممالک سے آتے تھے ان کی مہمان نوازی کی ذمہ داریاں بھی تقسیم فرمادیتے تھے۔
پانی کے تحفظ سے عام لوگوں کامفاد وابستہ ہے اس لیے یہ ایک صالح اور نیک کام ہے۔ اس میں مسلمانوں کو کھل کر تعاون کرناچاہیے۔ البتہ اس حکم کی تعمیل مسلمانوں پر واجب نہ ہوگی۔ کیوں کہ یہ ان کے واجبات میں سے نہیں ہے۔ لہٰذا پانی کے ذخائر کی حفاظت کی ذمہ داری شہریوں سے متعلق کی جاسکتی ہے۔ مگر اپنے مکان کے ایک حصے کو حفاظتِ آب کے لیے مخصوص کرنے اور اس طرح کے احکام کی تعمیل ضروری نہیںہے۔
﴿۷﴾ پانی کی ذخیرہ اندوزی چوں کہ حکومت کی ذمہ داری ہے، اس کی تکمیل کے لیے ڈیم تعمیر کرنااور ذخیرے کے اسباب تلاش کرنا حکومت کی ذمہ دا ری ہے اور اس سے مصالح عامہ بھی وابستہ ہیں اس لیے حکومت کے لیے یہ جائز ہے کہ آبادیاں منتقل کرکے اس حصے کو ڈیم بنائے اور اس کا عوض فراہم کردے۔ وقتی طور پر اگرچہ انتقال مکانی سے لوگوں کو تکلیف اور ضرر ہوگا مگر عوض ملنے سے یہ ضرر بڑی حد تک ختم ہوجائے گا۔تھوڑی بہت تکلیف یا ضرر کا اعتبار نہیںہے۔ کیوںکہ ڈیم کی تعمیر میں اجتماعی مصلحت اور مفاد ہے، ڈیم کی تعمیر نہ کرنے سے ضرر عام ہوگا اور قاعدہ ہے :’’ الضررالأ شد یزال بالضرر الأخف ‘‘﴿ الفقہ الاسلامی و ادلتہ ۵/ ۵۹۵﴾اسی طرح یہ بھی قاعدہ ہے: ’’ أن دفع الضرر العام واجب ‘‘﴿أ لفقہ الاسلامی و ادلتہ :۴/۴۵۱﴾
تاہم یہ اس وقت ہے جب کہ آبی ذخیرہ اور ڈیم کے لیے دوسری متبادل جگہ حکومت کو نہ ملے ۔ جہاں آبادیاں نہ ہوں، اگر دوسری جگہ دستیاب ہو تو خواہ مخواہ انتقال مکانی پر مجبو رکرنا درست نہ ہوگا۔ اسی طرح یہ بھی شرط ہے کہ زرعی یا گھر کی زمین جسے ڈیم میں شامل کی جاتی ہے۔ اس کا عوض معروف طریقے پر دیاجائے ورنہ درست نہ ہوگا۔ کیوں کہ اضطرار یا ضرورت سے کسی کا حق ختم نہیں ہوگا: ’’الاضطرار لا یبطل حق الغیر‘‘ ﴿ الفقہ الاسلامی و ادلتہ ۵/۵۹۳﴾
﴿۸﴾ سیلاب سے بچائو کے لیے تعمیر کردہ ڈیم کے بندھن یا باندھ کو اس طرح کاٹنا کہ نشیب کے علاقوں میں بسے ہوئے لوگ ڈوب جائیں اور جان و مال کا نقصان زیادہ ہو، یہ جائز نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس میں تھوڑے نقصان کو دور کرنے کے لیے ضرر کثیر لاحق ہوگا۔ ایک تو پانی کی ذخیرہ اندوزی متأثر ہوگی، دوسرے حکومت کا نقصان ہوگا اورتیسرے نشیبی علاقے میں تباہی زیادہ ہوگی۔ اس لیے اس بندھن کو کاٹنے کے بجائے حکومت کو اس کا دوسرا نظم کرنا چاہیے۔ یاتو پانی کے اخراج کے لیے دوسرے راستے نکالے جائیں یا پھر اوپر کی آبادی کو دوسری جگہ منتقل کردی جائے اور انتقال مکانی پر حکومت کی طرف سے متبادل زمین اور معاوضہ فراہم کردیاجائے، اس میں بھی مذکورہ قاعدہ ’’الضرر الاشد یزال بالضرر الأ خف ‘‘اور’’ أن دفع الضرر العام واجب ‘‘ملحوظ رکھنا چاہیے۔
﴿۹﴾ دریا، ندی، عوامی کنویں، چشمے اور سرکاری تالاب و غیرہ مباح عام ہے۔ ان سے سارے لوگوں کو استفادے کا حق ہے۔ اگر حکومت کی جانب سے پانی سے استفادہ کی کوئی تحدید نہ پائی جاتی ہو اور وافر مقدار میں پانی موجود ہو یعنی استعمال سے دوسرے افراد کی حق تلفی نہ ہوتی ہو تو اس صورت میں عام نہروں، کنویں اور ندیوں سے افراد و اشخاص کے لیے ہر طرح کا استفادہ جائز ہے، اپنے گھر کے روز مرہ استعمال، چویایوں اور جانوروں کی پیاس بجھانے اور اپنے کھیت اور باغات سینچنے کے لیے جس قدر ضرورت ہو، پانی لیا جا سکتا ہے، نہر، تالاب، چشمے اور ندی وغیرہ سے اپنے کھیت اورباغات تک چھوٹی نہر کھودی جا سکتی ہے اور ضرورت پڑنے پر مشین وغیرہ کا نصب بھی درست ہے ۔
ڈاکٹر وھبہ زحیلی لکھتے ہیں :
’’ وحکمہ أنہ لاملک لأحد فی ھٰذہ الأ نھار لافی المائ ولا فی المجریٰ بل ھو حق للجماعۃ کلھا فلکل واحد حق الانتفاع بھا بالشفۃ ﴿ سقی نفسہٰ و دوابہٰ ﴾ و الشرب ﴿سقی زرعہ و اشجارہ ﴾ و شق الجداول منھا ونصب الاٰلات علیھا لجرا المائ لأ رضہ و نحوھا من و سائل الانتفاع بالمائ ‘‘ ﴿الفقہ الاسلامی و ادلتہ :۵/ ۵۹۶ (
دریا، ندی، سمندر اور عام جگہوں میں پائے جانے والے پانی میں محرز کرنے کے بعد تمام تصرفات درست ہیں ؛ حتی کہ اسے فروخت بھی کیا جاسکتا ہے۔ جس طرح ایک صحت مند صحابی جس نے رسول اکرم ا کے پاس دست سوال دراز کیا تو آپ ا نے ان کو جنگل سے لکڑی کاٹنے اور اس کے فروخت کا حکم دیا تاکہ لوگوں سے بھیک مانگنے کی نوبت نہ آئے، جنگل ارض مباح ہے، وہاں کی لکڑی کا استعمال بھی تمام لوگوں کے لیے جائز ہے، جس طرح چاہے استعمال کرے۔ اس لیے آپ ا نے بیع وغیرہ کا حکم دیا، اشیائ مباح کے احراز کے بعد اگر ان کو بیچنا درست نہ ہوتا تو آپ ا اس کا حکم نہ دیتے :
’’ با لقیاس علیٰ جواز بیع الحطب اذا أ حرزہ الحاطب لحدیث الرجل الذی امرہ النبی ا بالا حتطاب لیستغنی بہ عن السوال ‘‘ ﴿الفقہ الاسلامی و ادلتہ ۵ /۵۹۲﴾
اور اگر افراد و اشخاص کے آزاد انہ استعمال سے مستقبل میں پانی کے ختم ہونے کا اندیشہ ہویا دیگر افراد کی حق تلفی ہوتی ہو تو حکومت کو استعمال کی تحدید کردینی چاہیے، جس کی پابندی افراد و اشخاص پر ضروری ہوگی۔
﴿۱۰﴾ اگر کوئی نہر مختلف علاقوں اور مختلف لوگوں کے کھیتوں سے گزرتی ہو تو ہر ایک کو اس سے بقدر ضرورت استفادے کا حق حاصل ہے۔ نہر سے جس کاکھیت متصل ہے پہلے اس کو حق ہے کہ عرف عام کے مطابق اپنا کھیت پانی سے بھر لے پھر زائد پانی دوسروں کے لیے چھوڑ دے اور اگر نہر میں پانی بند ہونے کا اندیشہ ہو یا پانی کم آرہاہو تو نہرسے متصل کھیت اور باغ کے مالک کو چاہیے کہ بھرے بغیر محض سیراب کرکے پانی اپنے متصل کھیت کے لیے چھوڑ دے۔ یہ عمل ان کا فضل و احسان اور اخلاقیات میں شمار ہوگا۔ ایسا کرنا ان کے لیے ضروری نہیں ہے۔ حضرت زبیرص اور ایک انصاری صحابی ص میں کھیت کو سینچنے کے بارے میں جب اختلاف ہوا تو آپ انے حضرت زبیرص کو اپنا کھیت محض سیراب کرکے انصاری کے کھیت کے لیے پانی چھوڑنے کا حکم دیا ؛لیکن جب انصاری صحابی کو اس پر اعتراض ہوا تو آپ انے اب عدل اور قانون اسلامی کے مطابق فیصلہ فرمایا اور حکم دیا : ’’یا زبیر! اسق أرضک الی أن یبلغ الجذر‘‘ ﴿صحیح بخاری و مسلم ﴾ ’’ ز بیر ! تم اپنا کھیت اس طرح سینچ لوکہ درخت کی جڑ ڈوب جائے ‘‘۔ گویا یہ ہر کھیت والے کا حق ہے اور اس سے پہلے پانی کا چھوڑدینا فضل ہے۔ اسی طرح حضرت عبادہ ص سے مروی یہ حدیث بھی قابل استدلال ہے :
’’ ان النبی ا قضیٰ فی شرب النخل من السیل : أن الاعلیٰ یشرب قبل الاسفل ویترک المائ الی الکعبین ثم یرسل المائ الی ا لأ سفل الذی یلیہ و کذالک حتی تنقضی الحوائط او یفنی المائ ‘‘ ﴿ابن ماجہ، مسند احمد﴾
﴿۱۱﴾ پانی کی بیع کے با رے میں فقہاءکی مختلف رائیں ہیں۔ پانی کی مختلف قسمیں ہوسکتی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کا حکم الگ الگ ہے۔ آسانی کے لیے پانی کو ہم تین قسموں میں تقسیم کرسکتے ہیں:
﴿الف ﴾ وہ پانی جسے اپنے برتن، گھڑے، حوض یا کسی اور ذریعے سے جمع کرلیا جائے اسے مائ محرز کہا جاتا ہے، اس پر بالاتفاق محرز کی ملکیت ہوگی، دوسروں کو اس کی اجازت کے بغیر اس سے استفادہ کرنا درست نہ ہوگا۔
﴿ب ﴾ پانی کی دوسری قسم سمندروں، دریائوں، ندیوں، نہروں اور عام چشموں کا پانی ہے۔ وہ مباح عام ہے۔ اس میں افرادو اشخاص کو بالاتفاق ملکیت حاصل نہیں ہوتی ہے۔ البتہ اس میں سے جوپانی برتن و غیرہ میں احراز کرلیا جائے، احراز کے بعد اس پر ملکیت حاصل ہوگی۔
﴿ج﴾ تیسری صورت ہے کہ کسی شخص کا اپنا ذاتی کنواں ہے۔ اس ذاتی اور مملوک کنویں کے پانی پر کس کی ملکیت ہے، یہ شکل مختلف فیہ ہے امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک مالک کو ملکیت حاصل نہ ہوگی۔ بلکہ اسے مباح کہا جائے گا۔ ندی، نہر، تالاب اور عام چشموں کی طرح اس سے عام لوگوں کو استفادے کا حق ہوگا ۔البتہ صرف اپنی گھریلو ضروریات اور جانوروں کو سیراب کرنے کے لیے درست ہے۔ کھیت یا باغات وغیرہ بلا اجازت سیراب نہیں کیا ساسکتا۔ اس سے کنویں کے مالک کو ضرر ہوگا۔ چوں کہ کنواں ان کا مملوک ہے۔ اس لیے ان کو حق خاص ہوگا۔ اپنے درخت، کھیت وغیرہ سیراب کرنے کا ان کو حق حاصل ہے۔ اگر دوسرے لوگ پانی کثیر مقدار میں نکال لیں تو مالک بئر نقصان میں رہیں گے۔
’’ ومن استقیٰ منہ شیئا فھولہ قال ﴿ ابویوسف ﴾ ولیس لصاحب العین و القناۃ و البئر و النھر أن یمنع الماء من ابن السبیل لما جائ فی ذلک من الاحادیث و الآثار ولہ أن یمنع سقی الزرع و النخل والشجر وا لکرم وھو یضر لصاحبہ فاما الحیوان و المواشی والابل والدواب فلیس لہ أن یمنع من ذلک ‘‘۔ ﴿اعلائ السنن:۱۶۷/۱۴﴾
رسول اکرم ا کا ارشاد ہے :
’’ الناس شرکاء فی ثلٰث، الماء و الکلأ و النار ‘‘﴿ ابوداؤد ﴾
’’ لوگ تین چیزوں میں شریک ہیں، پانی، گھاس اور آگ‘‘
لفظ عام ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پانی، خود روگھاس اور آگ سے حاصل ہونے والی روشنی عام لوگوں کے لیے مباح ہے۔ اس دلیل سے احناف نے کنویں کے پانی کو خواہ وہ ذاتی زمین میں ہو یا ارض مباح میں اس کو افراد کے لیے غیر مملوک قراردیا ہے۔ سلامتی کی شرط کے ساتھ ہر ایک کو اس سے نفع حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔ تاہم نفع کے حصول کے لیے کنواں اگر گھر کے اندر ہو یا بائو نڈری میںتو دخول کی اجازت لینا ضروری ہوگا۔ ورنہ مالک کو ضرر لاحق ہوگا۔
اما شافعیؒ اور امام احمد ؒ کے نزدیک ذاتی کنویں کے پانی پر ملکیت حاصل ہوگی۔ جس کنویں کو اپنی محنت سے کھودا ہے، خواہ وہ ارض مملوکہ میں ہو یا ارض مباح میں، کنویں نکالنے کے لیے محنت اور پیسے لگا ئے۔ لہٰذا افراد کو ایسے کنویں کے پا نی پر ملک حاصل ہوگا ۔ البتہ ان کے نزدیک بھی ضرورت مندوں کو پانی دینا ضروری ہوگا۔ استعمال سے زائد پانی کو روکنا درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ آپ ا نے ارشاد فرمایا :
’’لا تمنعوا فضل الماء لتمنعوا بہ الکلأ ‘‘ ﴿صحیح بخاری ﴾
’’ لوگوں کو بچے ہوئے پانی سے منع نہ کرو تاکہ اس کے بہانے تم گھاس سے منع کرو ‘‘
بہر حال ذاتی کنویں کے سلسلے میں ائمہ کرام کا اختلاف ہے۔ احناف کے نزدیک افراد کو اس پر ملکیت حاصل نہیں ہوتی اور شوافع کے یہاں ذاتی کنویں کے پانی پر ملکیت حاصل ہوجاتی ہے۔ طرفین برحق ہیں، دونوں کے مقلدین کو اپنے اپنے امام کی رائے پر عمل کرنا چاہیے ۔ کیوں کہ کوئی شدید ضرورت نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے اپنے امام کے قول سے عدول کیا جائے۔
جن صورتوں میں آدمی پانی کا مالک بن جاتا ہے، یعنی مائ محرز کو جمہور علما کے نزدیک بیچنا جائز ہے اور آج اسی پر لوگوں کا عمل ہے بلکہ پانی کی بیع قدیم زمانے سے چلی آرہی ہے البتہ اس میں زیادتی بعد کے زمانے میں پیدا ہوئی ہے۔ پانی کی بیع درج ذیل دلائل سے درست ہے :
﴿الف﴾ رسول اکرم ا کی ترغیب پر حضرت عثمان غنی ص نے بئر رومہ خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کردیا تھا۔ ﴿ نیل الاوطار ۵/۱۴۶ ﴾
﴿ب ﴾ المسلمون شرکاء فی ثلاث الماء و الکلأ و النار۔ اس حدیث میں آپ ا نے گھا س میں بھی عام مسلمانوں کو شریک بتایا ہے مگر احراز کے بعد گھاس کی بیع بالاتفاق جائز ہے، اس لیے کہ ایک صحابی کو آپ انے جنگل سے لکڑی وغیرہ کاٹ کر بیع کرنے اور گذر بسر کرنے کی ہدایت دی تھی، جب لکڑی اور گھاس وغیرہ کی بیع احراز کے بعد درست ہے تو پانی کی بیع بھی ملکیت کے بعد درست ہوگی۔
﴿ج ﴾ أن رسول اللہ ا نھی عن بیع المائ الاما حمل منہ۔ ﴿ اعلائ السنن ۱۴/۱۶۶﴾
حمل سے مراد احراز ہے، حدیث میں غور کرنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عام پانی کی بیع درست نہیں ہے البتہ جب اس کو جمع کرلیا جائے تو درست ہوگا۔
﴿ ۱۲﴾ شہروں میں نشیبی علاقوں کے حصے میں پلاٹنگ کرکے اس کی بیع درست ہے۔ اس میں آبادیوں کا بسانا بھی درست ہوگا۔ چوں کہ رہائش بھی ایک ضرورت ہے۔ جب شہر پھیلے گا اور نشیبی علاقوں کے علاوہ کوئی جگہ نہ ہوگی تو زندگی بسر کرنے کے لیے مکانات کی تعمیر ان نشیبی علاقوں میں ناگزیر ہوجائے گی، پانی وغیرہ کااسٹاک شہر سے باہر بھی کیا جاسکتا ہے بلکہ بیرون شہر ہی اس کے لیے مناسب ہے، اگر آبادی بسانے کی اجازت نہ دی جائے تو نقصان زیادہ ہوگا اور یہ بہ حیثیت مجموعی پانی کی سطح نیچے چلی جانے کا نقصان خفیف ہے اس لیے الضرر الاشد یزال بالضرر الأ خفاور لاضرر ولا ضرار کے قاعدے سے یہ درست ہے۔
لیکن واضح رہے کہ اگر حکومت مصالح عامہ کی وجہ سے منع کردے اور نشیبی علاقوں میں آبادیاں بسانے پر پابندی لگادے تو پھر پلاٹنگ کرنا اور آبادیاں بسانا درست نہ ہوگا۔ اس لیے کہ مصالح عامہ عدل وانصاف، ضرر و ضرار سے تحفظ کے لیے جو قانون بنایاجائے شرعا ایسے قانون کی پابندی لازمی ہوتی ہے۔
﴿۱۳﴾ حکومت پر واجب ہے کہ عوام کو درپیش ضرورتیں فراہم کرے۔ جیسے سڑکیں، لائٹ، آمد و رفت کی سہولت اور پانی وغیرہ، ہر شہری کو حق حاصل ہے کہ وہ حکومت سے ان چیزوں کا مطالبہ کرے۔ البتہ حکومت کے لیے یہ درست ہے کہ وہ عوام سے مناسب مقدار میں اس کا عوض لے۔ جیسے بسوں اور ٹرینوں کا کرایہ، سڑکوں کا ٹیکس و غیرہ لیا جاتا ہے اسی طرح پانی فراہم کرنے کا عوض بھی لینا درست ہوگا، اور اجرت نہ دینے کی صورت میں حکومت کو پانی روک لینے کا حق ہے، کیوں کہ پانی اور سہولت کی چیزیں فراہم کرنے کااگر عوض نہ دیاجائے تو یہ صرفہ کس طرح پورا ہوگا۔ بیت المال سے حکومت چلتی ہے اور بیت المال کا خز انھ تو عوام سے ہی لیا جائے گا جیسے خمس، عشر، خراج وغیرہ سب اسی کی صورتیں ہیں، رسول اکرم ا نے خیبر کی زمین بعض عوض کے بدلے تقسیم کیا تھا۔
تاہم اگر کوئی غریب ہے ذرائع آمدنی نہیں ہے تو ان کو پانی کے عوض نہ دینے کی صورت میں پانی روک دینا درست نہ ہوگا، کیوں کہ وہ مجبور ہے اور اضطرار کی کیفیت سے گزر رہا ہے اور بیت المال میں تمام افراد کی ملکیت پائی جاتی ہے۔ البتہ اس کا نظم و نسق حکومت کے قبضے میں ہے۔
۱۴﴾ عوام کو جس طرح کا بھی ضرر ہو یا ضرر کا اندیشہ ہو اس سے بچانا حکومت کی ذمہ داری ہے، اس لیے حکو مت کو چا ہیے کہ عوا م کو صا ف پا نی فرا ہم کرے اور اس کے لیے ڈرینج کا مستحکم نظام بنا ئے، ڈر ینج کا نظام نہ بنانے کی صورت میں امراض پھیلیں گے، وبا پھیلے گی، اور عوام متأ ثر ہوں گے، اس لیے شہریوں کا حق ہے کہ وہ ڈرینج بنانے کا مطالبہ کریں۔
مشمولہ: شمارہ اپریل 2012