یہودیت ، عیسائیت اور اسلام اس پر متفق ہیں کہ زمین پر نسلِ انسانی کا آغاز آدم علیہ سے ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے اس زمین کا انتظام حضرت آدم ؑ اور ذریت آدم کودیا اور ہرطرح کی فہمائش (Admonition) کردی کہ تمہیں کیسے رہنا ہے ، کس چیز سے بچنا ہے ، کس ہدایت کی اطاعت کرنی ہے اورہر معا ملے میں کس مالکِ حقیقی کا سہارا لینا ہے ۔ عقل بھی اس چیز کوباور کرتی ہے کہ ایک نئی مخلوق کوایک نئی جگہ بھیجا گیا ہے توضرور ہے کہ اسے ہر طرح کی ہدایت کے ساتھ بھیجا جائے ۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ نام نہاد سائنسداں ، فلسفی اورمورخ مذہبی امور پر کلام فرماتے ہیں تو بلا دلیل یہ کہتے ہیں کہ انسان نے اپنی زندگی کا آغاز شرک سے کیا ، پھر ارتقاء کرتے کرتے وہ توحید کے مقام پر پہنچا۔ یہ صرف ایک قیاس ہے جس کا ساتھ نہ تاریخ دیتی ہے اورنہ ہی عقل اسے قبول کرتی ہے ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ خالق نے اپنی مخلوق کویوں ہی در بدر کی ٹھوکر یں کھانے کے لئے چھوڑدیا ہو اور اس کی کوئی رہنمائی نہ فرمائی ہو ۔ قرآن توصاف صاف کہتا ہےکہ اس زمین پر انسانی زندگی کا آغاز پوری طرح روشنی میں ہوا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو پورا نظام حیات سمجھا کر بھیجا تھا ، اور خصوصیت کے ساتھ یہ بتادیا تھا کہ تمہارا اور تمہار ی نسلوں کا دین توحید ہوگا ۔ ایک زمانے تک یہ سلسلہ چلا، لیکن بعد کے دور میں لوگوں نے اپنی جہالت سے اس تعلیم کوگم کردیا ، اور ان کا یقین ایک ماورائی طاقت (Transcendental Power) سے ہٹ کر کچھ مرئی طاقتوں کوگھڑنے میں لگ گیا ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ معقولیت کےدائرے سے نکل کر محسوسیت کے ہالے میں منڈلانے لگا ۔ خدا نظر نہیں آیا تو اسے ہٹایا ، اور جو پُر اسرار چیزنظر آئی اسے خدا کی صف میں لا کھڑا کیا اورپھر بگاڑ کی حد یہ کردی کہ ارواح ، اصنام، اولیاء، توہمات ، نظریات ،افسانے اورمختلف طرح کے فلسفوں سے مذاہب کا ایسا ہیولیٰ کھڑا کیا کہ یہ سمجھنا محال ہوگیا کہ کون سی تعلیم خدا کی تھی اور کون سی انسان کی ۔ بالآخر اپنی نفسانی خواہشات کے غلام بن کر ایسے ایسے قوانین گڑھے کہ جس سے زمین ظلم سے بھر گئی ۔ انہیں سب چیزوں کا نام اسلام کی زبان میں شرک ہے اوراسی شرک کومٹانے کے لئے ہزاروں انبیاء ہر دور میں ہر ملک اور قوم میں مبعوث ہوتے رہے ، تاکہ انسان نے اپنی جہالت سے جتنی بھی خرابیاں پیدا کی ہیں ان کا خاتمہ کیا جائے اور خالص توحید کی دعوت دی جائے ۔ بالآخر تمام انبیاء نے اپنے اپنے مشن کوبڑی خوبی کے ساتھ انجام دیا ، لیکن وہ منصوبہ پائے تکمیل کونہیں پہنچا جوقدرت کومطلوب تھا ۔ چنانچہ اسے تکمیل تک پہنچانے کے لئے عرب کی سرزمین میں حضرت محمد ﷺ کوآخری پیغمبر کی حیثیت سے مبعوث فرمایا تاکہ آپ ساری دنیا کے سامنے توحید کی دعوت پیش کریں اوروہ تمام اصول وفرامین بتادیں جوانسانی حیثیت سے انہیں درکار ہیں۔ چنانچہ اسی نظام کوسمجھانے کے لئے آپ کو قرآن دیا گیا تا کہ خدا کے اس کلام کی روشنی میں ساری انسانیت کوایک ضابطۂ زندگی دیں جوقیامت کے لئے کافی ہو۔
قرآن نے کہا : الحمد للہ رب العالمین تعریف کا مستحق صرف رب کائنات ہے ۔ باقی سب تعریف کرنے والے ہیں ، تعریف کرنے والے نہیں ۔ یہ قرآن کا اتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے انسان کو دربدر کی ٹھوکریں کھانے کے بجائے ان کی عقل وعمل کوصرف ایک رب پر لا کر مرکوز کردیا ۔ورنہ انسان اتنے معبود بنا چکا تھا کہ جن کی ناز برداری کرتے کرتے اس کی کمر ٹوٹ جاتی تھی ، اوران کے تقاضات کوپورا کرنے کے لئے اس کی زندگی بھی کم پڑجاتی تھی ۔ کیونکہ شرک اپنی ذات میں صرف حیرانی اورپریشانی کا نام ہے ۔ اوروہ اس قدر وائرس پھیلاتا ہے کہ جس سےانسا ن کا امن وامان غارت ہوجاتا ہے ۔ وہ ذاتی حیثیت سے بھی ، سماجی حیثیت سے بھی اورتمدنی حیثیت سے بھی انسان کوصرف پیچھے دھکیلتا ہے ، وہ عقل وعلم کی راہ کا ایسا روڑا ہے کہ معلوم یہ ہوا کہ فلاں چیز کوہمیں اپنا خادم بنانا ہے تو پتہ چلا کہ ہم نے تو اسے خدا کے زمرےمیں لا کھڑا کیا ہے بھلا اسے کس طرح چھیڑیں ؟
اس لئے قرآن نے کہا کہ ! خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوْہُ (الانعام۔۱۰۲)کائنات کی ہر چیز اس کی مخلوق ہے ، وہ کسی کی مخلوق نہیں ہے ۔ وہ صرف اورصرف خالق ہے ۔ اسی نے تمہارے لئے ہوا ، پانی ، پیڑ، پہاڑ، دریا، نالے، چرند ، پرند ، سورج ، چاند، بجلی الغرضـ کہ ہر چیز مسخر کی ہے ۔ اس میں خدائی اوصاف تلاشنا خود خدا کے ساتھ ساتھ اپنے نفس اور اپنی عقل پر ایک ظلم ہے ۔ نفس جانتا اورسمجھتا ہے کہ اس کا خالق ، اس کا رازق ، اور اس کا حاکم کون ہے ۔ لیکن اس کے باوجود بھی یہ شرک جواس کے اپنے نفس کی ایجاد ہے اس سے زیادتی کرواتا ہے ۔
شرک سے بڑی جہالت دنیا میں کوئی نہیں ۔ ہر انسان دیکھ رہا ہے کہ ایک ماورائی طاقت اس دنیا کوچلا رہی ہے ، مخلوقات کوپیدا کررہی ہے ، غذا فراہم کررہی ہے ۔ الغرض کہ ہر چیز میں ایک نظام پایا جارہا ہے ، لیکن اس کے بعد بھی مشرکین کی جہالت دیکھئے کہ کھاکسی کار ہے ہیں اورگاکسی کارہے ہیں ۔ مصیبت میں اس معنیٰ میں ہے کہ مشرکین کوکبھی بھی اپنی عبادت یا پوجا سے سکون نہیں ملتا ہے ۔ اس کا دل کبھی مطمئن نہیں ہوتا ہے ، اس لئے کہ وہ اسی الجھن میں گرفتار رہتا ہے کہ کس کس کو کس کس طرح سے خوش کروں ۔ وہ جوکچھ کرتا ہے محض دل کے بہلاوے کے لیے کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعے سے کچھ ہی عارضی سکون حاصل کرسکے۔
سارے مشرکین مل کربھی ایک ادنیٰ سایہ ثبو ت نہیں دے سکتے کہ اس کائنات کے بہت سارے خدا ہیں ۔ یا خدائی میں انبیاء ، اولیا، اجنہ ، ملائکہ یا اوتار شریک ہیں ۔قیاس اور تخمینہ کے بل پر جونظریۂ قائم کیا گیا ہے ، اس کے متعلق دنیا کا ہر انسان یہ جانتا ہے کہ علمی دنیا میں قیاس صرف ایک مذاق ہے ۔ ویلو علم اور دلیل کی ہوتی ہے گمان کی نہیں اور افسوس کہ ساری دنیا کے مشرکین اس باب میں علم اوردلیل دونوں سے خالی ہیں ۔ اس لئے اسے میں نے بدترین جہالت سے تعبیر کیا ہے ۔ اس سے بھی بڑی ایک اعلیٰ درجے کی جہالت دیکھئے کہ مشرکین اپنے معبود کی رکھوالی کرتے ہیں ، انہیں چڑھاوا چڑھاتے ہیں ، انہیں کھانا کھلاتے ہیں ، انہیں نہلاتے ہیں ، انہیں کپڑا پہناتے ہیں ۔ الغرض کہ انہیں خوش رکھنے کے لیے ہر طرح کے جتن کرتے ہیں ۔ اس کے برعکس وحدانیت کسی کی رکھوالی کا محتاج نہیں ہے ، کسی کے نذو نیاز اور چڑھاوے کا اسے انتظار نہیں ہے ، کسی کے کھانے اورنہلانے کی اسے ضرورت نہیں ہے ۔ بلکہ وہ ہمیں کھلاتا ہے ، ہم سے کھاتا کچھ نہیں ، وہ ہمیں دنیا کی ہرچیز دیتا ہے ، ہم سے لیتا کچھ نہیں ۔ وَہُوَيُطْعِمُ وَلَا يُطْعَمُ ’’ وہ روزی دیتا ہے ،روزی لیتا نہیں۔ (الانعام ۔ ۱۴)
دنیا کے مشرکین نے جتنے بھی معبود ایجاد کئے ہیں وہ انہیں کسی نہ کسی شکل میں روزی پہنچا رہے ہیں ۔ ہند و ہر دیوی اور دیوتاکی ہر طرح سے خدمت کررہا ہے ، یہودی اورعیسائی اپنے اپنے احبار اوررہبان ، اپنے اپنے قسیسین اورپوپ جوکہ نائبِ خدا اورشبیہ مسیح بنے بیٹھے ہیں انہیں رب مان کر ہر طرح سے ناز برداری کررہے ہیں ، بادشاہ جوظل اللہ بنے بیٹھے ہیں ان کے مریدان کی قدم بوسی کررہے ہیں اور عقیدت کے نذرانے سے نوازتے ہیں، قبر پرست صاحب قبر کی معبودیت قائم رکھنے کے لئے اعلیٰ قسم کے مقبرے، اعلیٰ قسم کی چادریں بناتے ہیں اورپھول اورعطریات نچھاور کرتے ہیں ۔ الغرض کہ سارے مشرکین اپنے اپنے معبود کی محتاجی دو ر کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارا معبود ہماری خدمت کا محتاج نہیں ہے ۔ بلکہ ساری کائنات اس کی ہر پل ہر لمحے محتاج ہے ، انسان کے بنائے ہوئے خدا خود انسان کے محتاج ہیں ۔ اگر وہ اس کی ناز بردا ر ی نہ کریں تو انہیں مکھیاں تک نہیں پوچھیں گی اورہمارے خدا کی کائنات کا ایک ایک ذرہ محتاج ہے ۔
کیا اتنے بین ثبوت کے بعد بھی کوئی عقل سابق ہی روش پر قائم رہنا چاہتی ہے ۔ فاعتبروایا اولی الابصار۔ غور کرو کہ اسلام کے تصورِ توحید نے کتنے بڑے پیمانے پر انسان کوجہالت اورمصیبت سے نکالا ہے ۔ اس کے سامنےدنیا کے سارے مذاہب ہیچ ہیں ۔ بلکہ انہوں نے تو انسان کواورالجھایا ہے کیونکہ ان کے ہاں خالص توحید کا تصور ہے ہی نہیں ۔ توحید کے الفاظ کو اگر انسانی تاریخ سے نکال دیا جائے تو دنیا کے پاس کچھ بچتا ہی نہیں ہے سوائے جہالت کے ۔
توحید ایک رحمت
توحید کا تصو ر انسان کے لئے بڑی نعمت اور رحمت ہے یہ تصور تخلیق آدم کے وقت ہی دے دیا گیا تھا کہ تمہارا صرف ایک خالق اورمالک ہے ۔ لیکن انسان نے اسے گم کردیا اور کچھ دوسرے فلسفے ایجاد کر بیٹھا ۔ پھر کتابیں آتی رہیں، انبیاء آتے رہے ۔ لیکن اس کے بعد بھی لوگ اپنی اس گمشدہ چیز کو یاد کرتے اور بھلاتے رہے، اوربہت سے بالکل ہی نہ مانتے رہے۔ بالآخر خالق کائنات نے توحید کے نقش کو اپنی آخری کتاب قرآن میں بڑے پیمانے پر دے کر یہ فائنل فیصلہ بھی سنا دیا کہ اب اس پر قوموں کے فیصلے ہوں گے ، جو اس پرایمان لائے گا وہ کامیابی سے ہمکنار ہوگا اورجواس کا انکار کرے گا وہ عذاب سے دوچار ہوگا۔
نزولِ قرآن سے پہلے انسان ہزاروں طرح کے شرک میں صرف اپنی شرارت کی وجہ سے پھنسا ہوا تھا ۔ کہیں وہ اوتاروں کے پیچھے دو ڑرہا تھا ، کہیں پیڑ پہاڑوں کے چکر لگا رہا تھا ، کہیں روحوں اور پتھروں کوپکار رہا تھا ، کہیں ندی ، نالوں اور دریاؤں کومقدس سمجھ رہا تھا حتیٰ کہ انسانوں کوبھی پھول مالا چڑھا رہا تھا ۔ الغرض کہ ہر انسان نے اپنے اپنے لئے طرح طرح کے معبود تراش رکھے تھے ۔ حالانکہ اس سے پہلے کی کتابیں ایک الٰہ کا نقش پیش کرچکی تھیں ۔
’’تم اپنے لئے بت نہ بنانا اورنہ کوئی تراشی ہوئی مورت یا لاٹ اپنے لئے کھڑی کرنا ، اورنہ اپنے ملک میں کوئی شبیہ دار پتھر رکھنا کہ اسے سجدہ کرو، اس لئے کہ میں خدا وند تمہارا خدا ہوں ۔‘‘ (احبار۔ باب ،۲۶۔آیت ۱۷)
لیکن اس کے باوجود وہی بائیبل یہ بھی بتاتی ہے کہ یہ موسیٰ اور عیسیٰ کے وارثین کس طرح سے اپنے کوشرک میں مبتلا کرلئے اورکن کن چیزوں کے پرستا ر ہواُٹھے ۔ مثلاً ’’تراخیم‘‘ جوان کے بزرگو ں کے بُت تھے ۔ ’’انمود‘‘ جوان کا مشورے کار تھا ۔’’بعل‘‘ جس کے معنیٰ آقا کےہیں ۔ جو زرخیزی کا دیوتا تھا ۔ ’’مولک‘‘ جس کے معنیٰ عبرانی زبان میں بادشاہ کے ہیں ۔ اس کا سربیل اورجسم انسان کا تھا ۔ ’’اشیرا ‘‘ جو کوئی درخت تھا ۔ ’’الوہم ‘‘ ’’یہوداہ ‘‘ ’’آہورا ‘‘ یہ سب خود تراشیدہ معبود تھے جنہیں بعد میں خدا کے سا تھ ضم کردیا گیا ۔ اس طرح سے ’’بیل‘‘ اور’’سانپ‘‘ تھے ۔ جس میںیہ اپنے پیشواؤں کوبھی گھسیٹ لائے۔ پیتل کا سانپ جس کا موجدیہ بدبخت حضرت موسیؑ کوبتاتےہیں ۔ یہ ذکر بائیبل کی کتاب ’’ گنتی ‘‘ باب اللہ میں درج ہے ۔ میری سمجھ سے بنی اسرائیلیوں کوفرعون کوغلامی نے سانپ سے عقید ت پیدا کردی تھی ، کیونکہ مصر کے لوگ سانپ کو ایک مقدس چیز سمجھتے تھے ۔ ا ور دوسرے موسیؑ کی لٹھیا جو سانپ کا روپ لے لیتی تھی اس سے اس جاہلی عقیدت کواورغذا ملی۔ان کے شرک کا ثبوت خود ’’بائیبل ‘ ‘ ان الفاظ میں بیان کرتی ہے ۔
’’افراہیم کے کلام میں ہیبت تھی ۔ وہ اسرائیل کے درمیان سرفراز کیا گیا ۔ لیکن بعل کے سبب سے گنہگار ہوکر فنا ہوگیا اوراب وہ گناہ پر گناہ کرتے ہیں ۔ انہوںنے اپنے لیے چاندی کی ڈھالی ہوئی مورتیں بنائیں ، اور اپنی فہمید کے مطابق بت تیار کئے جوسب کے سب کاری گروں کے کام ہیں ۔ وہ ان کی بابت کہتے ہیں جولوگ قربانی گزارتے ہیں بچھڑوں کو چومیں۔‘‘( ہوسیع ۔ باب ۱۳۔ آیت، ۲)
اس طرح سے بائیبل مختلف طرح کے معبود کا پتہ دیتی ہے اورشاید یہ تمام نواز شات یہودیوں کو فرعونیوں سے ملی تھیں جس کی پرستش سے وہ آخیرتک نہ نکل پائے۔
اس لیے قرآن کی جنگ شرک سے ہے ۔ اوریہ جنگ محض اس لیے نہیں ہے کہ خدا نے ہمیں جوکچھ دیا ہے وہ اس کا شکر ہم سے وحدانیت کی شکل میں چاہتا ہے ۔ بلکہ اس سے پہلے اس لیے ہے کہ یہ شرک پوری انسانیت کے لیے قدم قدم پر نقصان دہ ہے۔ یہ دینی حیثیت سے توانسان کوبرباد کرے گا ہی ، لیکن دنیاوی حیثیت سے بھی یہ زمین کوبرباد کرکے رہے گا ۔ اس سے ظلم وجور کوشہ ملے گی ، اسی سے فتنہ وفساد آسمان تک مچے گا ، اسی سے انسانیت ختم ہوگی، اسی سے زامادہ پرستی پروان چڑھےگی۔ الغرض کہ اس سے دنیا جہنم بن کے رہے گی ۔ کیونکہ شرک ان اصول وتعلیم سے خالی ہے جوتوحید ہمیں دے رہا ہے ۔ آخر اس میں سے کون سی چیز ایسی ہے جودنیا میں نہ چل رہی ہو۔ ان سب کی وجہ شرک ہے ۔ نظریۂ توحید میں ہم ہر معاملے میں ایک خدا کے سامنے جواب دہ ہیں۔ لیکن شرک میں توایک خدا کا وجود ہی نہیں ہے توجواب دہی کا کیا سوال۔
شرک اپنے نفس اوراپنے علوم وفنون کے ساتھ ایک ظلم ہے ۔ اسی لئے اسے ظلم عظیم کہا گیا ہے ۔ اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ۔ یہ خدا سے بھی دور کرتا ہے اور عقل کوبھی کودن بناتا ہے ۔ معلوم ہوا کہ جوچیزیں ہماری خدمتگار ہیں ہم ہی اس کے خادم بن جارہے ہیں ۔ مثال کے طور پر جوقومیں چاند کو پوجتی تھیں ان کے دماغ میں کبھی یہ خیال نہ آیا کہ ہم چاند پر قدم رکھیں ۔ ایسا تصور بھی ان کے ہاں ایک گھناؤنا پاپ تھا ۔ اسی وجہ سے انسان چاند پر نہ پہنچ سکا ۔ لیکن جب قرآن نے اس کی معبودیت کو توڑا اوراس کو مخلوق کا درجہ دیا اورکہا کہ اللہ تو صرف ایک ہے ’’ہواللہ احد‘ ‘ کائنات کا ایک ایک ذرہ اس کی تخلیق ہے ، توانسانی عقل میں ایک انقلاب اُٹھا اوراس انقلاب کا نتیجہ یہ ہوا کہ سب سے پہلے اہلِ قرآن یعنی عرب کے علماء اورمسلم سائنٹسٹ چاند او ر سورج پر تدبر کی نظر ڈالنے لگے ، اوراس کے متعلق اپنا نظریۂ ، اپنا تجربہ اور مشاہدہ بیان کرنے لگے جس سے دنیا کوایک نیا نظریہ ملا اوروہ بھی متوجہ ہوئی اوراس قدر ہوئی کہ وہ اپنی پوجا کوتوڑ کر چاند پر پہنچنے کے لیے بے چین ہواُٹھی ، اور بالآخر انیسویں صدی میں اس نے پہنچ کر دم لیا اور آج تویہ انقلاب اس قدر بڑھتا جارہا ہے اورثبوت پہ ثبوت فراہم کرتا چلا جارہا ہے کہ اس کائنات کا صرف ایک خالق ، ایک حاکم، ایک ناظم اور ایک مالک ہے ۔ اس طرح سے انسان کوہر معاملے میں ایک نیاز اویہ ملا۔ ذرا سوچوتو صحیح کہ کیا وحدانیت انسانیت کے لیے رحمت نہیں کوئی زحمت ہے ۔
شرک ایک مصیبت:
اس زمین پر سب سے بدترین بلاشرک ہے ۔ اس لیے قرآن نے صاف صاف کہہ دیا ہے اِنَّ اللہ لاَ یَغْفِرُ اَنَّ یُّشْرِکْ بِہٖ وَدُوْنَ ذٰالِکَ مَنْ یَّشْاءُ۔ اس کی معافی ہے ہی نہیں ۔ بظاہر شرک سننے میں ایک ہلکی چیز نظر آتا ہے ، لیکن سمجھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ اپنے اندر ہر طرح کی ممانعت (Prevention)اور مزاحمت (Obstruction)کی ایک ایسی دنیا رکھتا ہے جس میں انسان کا نہ دین میں بھلا ہے نہ دنیا میں۔آپ خود دیکھئے کہ جب تک دنیا بظاہر پرستی(Phenomenal worship)میں پھنسی رہی تب تک ہر اعتبار سے دنیا کا امن، دنیا کافن ، دنیا کا عروج کس قدر کا ہوا تھا ۔ کیونکہ شرک نے قدم قدم پر انسان کویہ سمجھا دیا تھا کہ جوچیز سمجھ میں نہ آئے اس کے متعلق یہ تسلیم کر لو کہ یہ کوئی دیوتا، کوئی برہما، کوئی بھگوان،کوئی ابن اللہ ہے لہٰذا اس کے چرنوں میں صرف ماتھا ٹیکو ۔ اس سے انسان کی بے چینی میں صرف اضافہ ہوا ۔ یہ نادان جانتےنہیں کہ یہ سب عارضی بہلاوے ہیں جس سے سکون قیامت تک نہیں مل سکتا ہے ۔ حقیقی اورہمیشگی کا سکون تو صرف توحید کے پاس ہے جس کے متعلق وہ صاف صاف کہتا ہے ۔ الا بذکر اللہ تطمئن القلوب ۔ اللہ کی یاد سے دلوں کو سکون ملتا ہے ۔ خیال رہے قرآن نے صرف ’’اللہ‘‘ کہا ہے ۔ اصنام ،ارواح، اولیاء ، انبیاء اور ملائکہ نہیں کہا ہے ۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب اللہ ایک ہے تو وہی سکون بھی پہنچا سکتا ہے ، اور صرف اس کے یہاں سکون مل بھی سکتا ہے۔
اس چیز کوایک مغربی فلسفی نے ’’آر، ڈبلو، ٹرائن ‘‘ بڑی خوبی کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ وہ کہتا ہے :۔
“Open your heart and mind to the divine inflow, put yourself in the receptive attitude. Then you will feel a quit, peaceful, illuminig power.”
اپنے دل ودماغ کوکھول دو ، الٰہی فائدے کواندر آنے دو ۔ اس سے عاجزی کےساتھ لینے کا طریقہ اختیار کرو۔ تب تمہیں ایک سکوت، پرسکون نورانی طاقت کااحساس ہوگا۔
(In tune with the infinite-P.180)
آج ہر انسان بجز ایک قلیل تعداد کے اپنے نفس سے ایک ایک خدا بنا کے بیٹھا ہے ۔ کوئی انبیاء کوبنا کےبیٹھا ہے ، کوئی اولیاء کو بنا کے بیٹھا ہے ، کوئی نور اور نار کوبنا کے بیٹھا ہے ، کوئی دیوی اوردیوا کوبنا کے بیٹھا ہے ، کوئی حیوان اورشیطان کوبنا کے بیٹھا ہے حتیٰ کہ کوئی امریکہ اوربرطانیہ تک کوبناکے بیٹھا ہے۔
یہودیوں کا شرک
موسیٰ ؑ کی بعثت کے قبل اوربعد یہودیوں کا مشرکانہ ذہنیت کا ذکر بائیبل کی زبان میں پیش کیا جاچکا ہے ۔ افسوس کہ یہودی اپنی مذہبی کتاب میں توحید کا نقش پانے کے بعد بھی اس سے صرف تلاوت تک رکھے اورشرک کا عقیدہ جوں کا توں قائم رکھا ۔ اس کا ثبوت قرآن خود دیتا ہے کہ یہ شرک کا مرض آج بھی ان کے اندر کسی طرح سے موجود ہے۔ وَقَالَتِ الْيَہُوْدُ عُزَيْرُۨ ابْنُ اللہِ ۔ یہودی کہتے ہیں کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے۔
حضرت عزیر جن کو بائیبل عزرا کے نام سے پیش کرتی ہے ، جنہیں یہودی اپنے مذہب کا مجدد مانتے ہیں ۔ ان کا معاملہ یہ ہے کہ جب تورات دنیا سے ناپید ہوگئی تو انہوںنے پرانے عہد نامے کومرتب کیا ، اورشریعت موسوی کی بڑے پیمانے پرتجدید کی اور یہودی قوم کوایک بڑے تعلیمی، اخلاقی اورسیاسی نظام سے ہمکنار کیا ۔ ان کے اس پاکیزہ خصائل کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہودیوں نے انہیں خدا کا بیٹا بنا ڈالا ۔ عزیر کوخدا ئی میں شریک کرنے کے بعد بھی جب جی نہ بھرا تو خود بھی خدا ئی میں شریک ہواُٹھے ۔ نحن انباء اللہ واحباء ہ ۔ ہم اللہ کے بیٹے اوراس کے چہیتے ہیں ۔
عیسائیوں کا شرک
یہودیت کے بطن سے نکلی ہوئی نسل پرستی کی یہ شاخ روشن خیالی (جہالت) کی اس دوڑ میں پیچھے کیسے رہتی۔ چنانچہ اس نے بھی اعلان کیا کہ ’’وَقَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِيْحُ ابْنُ اللہِ ، عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے ۔ (التوبہ ۔ ۳۰)انہوں نے برجستہ حضرت عیسیٰ ؑ کومحض اس لئے خدا کا بیٹا قرار دے ڈالا کیونکہ ان کی پیدائش بنا باپ کے ہوئی تھی ۔ حالانکہ یہ ان لوگوں کی ایک بڑی جہالت تھی اگر عیسیٰ ؑ اپنی معجزانہ ولادت سے خدا بن گئے ، تو یحیٰ ؑ جوحضرت عیسیٰؑ سے چھ ہی مہینے پہلے معجزانہ طور سے پیدا ہوئے تھے وہ خدا کیوں نہیں بنائے گئے اور محض بات یہیں پرختم نہیں ہوجاتی ، بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر حضرت آدمؑ آتےہیں جوبناماں اورباپ دونوں کے پیدا کئے گئے، جن کی ولادت عقل، اصول اور سسٹم کے خلاف تھی کیوں نہ سب سے پہلے وہ خدا تسلیم کئے گئے ۔ اگر خدا کی قدرت کا ایک کرشمہ اور عظیم شاہکار آدمؑ کبھی بھی نہ خدا اورنہ خدا کا بیٹا بن پائے تواسی آدمؑ کا بیٹا عیسیٰ ؑ کیسے ابن اللہ بن گئے؟ پھر عیسائیوں نے اتنے پر بھی بس نہیں کیا ، بلکہ اس سے بھی بڑی جُست لگائی اوراس ابن اللہ کوعین اللہ بنا ڈالا۔
فَقَدْکَفَرَالَّذِینَ قَالُوْا اِنَّ اللہَ ہُوَ الْمَسِیْحُ ابْنَ مَرْیَمَ‘‘ یقیناً ان لوگوں نے کفرکیا جنہوں نے کہا کہ اللہ مسیح ابن مریم ہے ۔ پھر اس سے بھی آگے بڑھ کر تثلیث (Trinity)کا عقیدہ گڑھا جس میں تین خدا باپ ، بیٹا اور روح القدس کو تراش ڈالا ۔ حالانکہ انا جیل اربعہ میں عیسیٰؑ کے جوبیانات ہمیں ملتے ہیں ان میں توحید کے سوا تثلیث کا کوئی رنگ نہیں ملتا اور خود عیسائی دنیا کو اس سے انکار نہیں کہ مسیح ؑ نے انہیں ایک الٰہ کا نظریۂ دیا تھا ۔ انہوں نے خود سے تثلیث کا عقیدہ تصنیف کیا ۔
اور افسوس کہ اتنے پر بھی ان کا جی نہ بھرا ، بلکہ ایک چوتھی دیوی بھی حضرت مریمؑ کی شکل میں تراش ڈالی گئی جنہیں ’ ’ ام اللہ ‘‘ کا خطاب عطاکیا گیا ۔ ’’ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِيْ وَاُمِّيَ اِلٰــہَيْنِ مِنْ دُوْنِ اللہِکیا(عیسیٰؑ ) تونے لوگوں سے کہا تھا کہ خدا کے سوا مجھے اور میری ماں کو بھی خدا بنالو ۔ (المائدہ۔۱۱۶)’’علامہ سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ‘‘ اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں ، جس سے عیسائیوں کے شرک کی پوری تاریخ موجودہ دور تک کی سامنے آجاتی ہے ۔
’’عیسائیوں نے اللہ کے ساتھ صرف مسیح اورروح القدس ہی کو خدا بنانے پر اکتفا نہیں کیا ، بلکہ مسیح کی والدۂ ماجدہ حضرت مریمؑ کوبھی ایک مستقل معبود بناڈالا ……تیسری صدی عیسوی کے آخری دور میں اسکندریہ کے بعض علماء دینیات نے پہلی مرتبہ حضرت مریم کے لئے ’’ ام اللہ ‘‘ یا ’’مادرِ خدا ‘‘ کے الفاظ استعمال کئے ۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ الوہیت مریم کا عقیدہ اورمریم پرستی کا طریقہ عیسائیوں میں پھیلنا شروع ہوا ۔ پھر جب سطور یس کے اس عقیدے پر کہ مسیح کی واحدذات میں دو مستقل جدا گانہ شخصیتیں جمع تھیں ، مسیحی دنیا میں بحث وجدال کا ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا تو اس کا تصفیہ کرنے کے لئے ۴۳۱ء میں شہر افسوس میں ایک کونسل منعقد ہوئی ، اور اس کونسل میں پہلی مرتبہ کلیسا کی سرکاری زبان میں حضرت مریمؑ کے لئے ’’مادرِخدا ‘‘ کا لقب استعمال کیا گیا ۔ ….نزولِ قرآن کے زمانہ تک پہنچتے پہنچتے حضرت مریم اتنی بڑی دیوی بن گئیں کہ باپ ، بیٹا اور روح القدس تینوں اس کے سامنے ہیچ ہوگئے ۔ ان کے مجسمے جگہ جگہ کلیساؤں میں رکھے ہوئے تھے، ان کے آگے عبادت کے جملہ مراسم ادا کئے جاتےتھے، انہی سے دعائیں مانگی جاتی تھیں ۔ وہی زیارسی ، حاجت روا ، مشکل کشا اور بے کسوں کی پشتیاں تھیں۔ اورایک مسیحی بندے کے لئے سب سے بڑا ذریعۂ اعتماد اگر کوئی تھا تووہ یہ تھا کہ’’مادرِخدا ‘‘ کی حمایت وسرپرستی اسے حاصل ہو…….نبیؐ کے ہم عصر قیصر ہرقل نے اپنے جھنڈے پر ’’مادرِ خدا ‘‘ کی تصویر بنا رکھی تھی ، اور اسے یقین تھا کہ اس تصویر کی برکت سے یہ جھنڈا سرنگوں نہ ہوگا۔ اگرچہ بعد کی صدیوں میں تحریک اصلاح کے اثر سے پروٹسٹنٹ عیسائیوں نے مریم پرستی کے خلاف شدت سے آواز اُٹھائی ، لیکن رومن کیتھولک کلیسا آج تک اس مسلک پر قائم ہے۔‘‘
(تفہیم القرآن ۔ ص ۵۱۵۔ ۵۱۶ ۔ جلد ۔ اول)
دیکھئے کہ ایک حقیقت کے انکار اورجہالت کے گرد منڈلانے کے سبب عیسائی دنیا کو کیسے کیسے پھوڑوں نے گھیر رکھا ہے ۔ کہیں ہر مسیح کو ابن اللہ بنادیا، کہیں پر عین اللہ بنادیا، کہیں پرتمام انسانوں کے گناہوں کا کفارہ مطلوب ہونے کے بدلے قرار دلوادیا ، کہیں پر مریمؑ کوخدا کی ماں بنوادیا ۔ اور گہرائی کے ساتھ یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہ کی گئی کہ حقیقتاً مسیح نے اپنے کوکس شکل میں پیش کیا تھا اورآج بھی ’’انجیل‘‘ ان کا کیا نقش پیش کرتی ہے۔
ہندؤں کا شرک
ہندوستان کے شرک کی ایک مثال ملاحظہ ہو!’’تلسی راس ‘‘ ’’رام چر تر مانس‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’و اقعی رام وہ خدا ہے جوسراپاوجود ہم تن عقل اور سرتاپا مسرت ہے جوناموادو ہے ۔ جس کا جوہر ہی علم ہے ، اور جو توانائی کا ایک عظیم خزانہ ہے ۔وہ سب میں سمایا ہوا ہے ، یہ وہ ان اشیاء پر بھی مشتمل ہے جن میں وہ سرایت کئے ہوئے ہے ۔ وہ ناقابل تقسیم اورغیر محدود ہے ، وہ غیر مشروط اوروسیع ہے ۔ وہ گویائی اور دیگر حواسوں کے ذریعے ناقابل رسائی ہے ، غیر جانبدار ہے ۔ بے عیب ، بے داغ ناقابل تسخیر، بے صورت ، جہالت سے بری ، ابدی اور مایا سے پاک ہے ، وہ پروکرتی کی دسترس سے باہر ہے، ہر دل کا مالک ، اور اس میں بسنے والا ہے ، خواہشات سے آزاد، علائق سے پاک اورغیر فانی ہے ۔‘‘
(جاری )
مشمولہ: شمارہ نومبر 2016