تعمیر معاشرہ اور خواتین

اسلامی انقلاب ہر مسلمان کے دل کی آرزو ہے۔ کتنے ہیں جو اسلامی انقلاب کانعرہ سنتے ہی جو ش وجذبے میں آجاتے ہیں اور کچھ کردکھانے کے لیے بے چین ہوتے ہیں ۔ ہماری خواتین کا بھی یہی حال ہے۔ بلکہ خواتین میں اسلامی انقلاب کے لیے جذبۂ ایثار وقربانی کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے۔ لیکن صحیح راہ نہ ملنے کے باعث کوئی صحیح اقدام نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ کتاب وسنت میں نظائرموجود ہیں اور تاریخ اسلام میں کئی ایسے واقعات ہیں جو ہمارے لیے مشعل راہ ہوسکتے ہیں۔ اسلام دین بندگی ہے اور ہم سب خدا کے بندے ہیں۔ اگر ہم اسلامی انقلاب کی بات کرتے ہیں تو اپنے آپ کو پوری طرح اسلام کے رنگ میں رنگ لینا چاہیے۔ اسلام کا رنگ اللہ تعالیٰ کا رنگ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’کہو، اللہ کا رنگ اختیار کرو۔ اس کے رنگ سے اچھااور کس کا رنگ ہوگا اور ہم اسی کی بندگی کرنے والے لوگ ہیں‘‘۔   (البقرہ:۱۳۸)

اسلام ہمیں فرض شناسی کی تعلیم دیتا ہے اور فرض شناسی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم خدائے بزرگ وبرتر کی بندگی کریں۔ خود بھی بندگی کریں اور دنیا والوں سے بھی بندگی کرائیں۔ یہ کام اگر کہیں نہیں ہورہا ہے تو اس سے بڑی بدنصیبی کوئی اور نہیں ہے۔ اگر بھٹکی ہوئی انسانیت کو راہ راست پر لانے کے لیے کچھ لوگ مصروف عمل ہوں ، سوتوں کو جگانے کی سعی کر رہے ہوں اور دعوت حق کا فریضہ ادا کررہے ہوں اورخود بھی  بندگی رب کے تقاضے پورے کر رہے ہوں تو اس سے بڑی کوئی سعادت اور خوش نصیبی نہیں ہے اور یہ حقیقی فرض شناسی ہے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا:

’’اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے ، اٹھو اور خبردار کرو اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو اوراپنے کپڑے پاک رکھو۔ اور گندگی سے دور رہو اور احسان  نہ کرو زیادہ حاصل کرنےکے لیے اور اپنے رب کی خاطر صبر کرو‘‘۔ (المدثر: ۱۔۷)

توآپؐ نے توحید کا اعلان کیا اور لوگوں کو بندگیٔ رب کی دعوت دی۔ آپؐ کی دعوت پر صرف مردوں نے ہی لبیک نہیں کہا بلکہ عورتیں بھی آگے بڑھیں اور کسی کی دیکھا دیکھی نہیں بڑھیں بلکہ فہم وشعور کی پختگی اور دل ودماغ کی گہرائی کے ساتھ آگے بڑھیں، رشتوں اور ناطوں کی پروا نہیں کیں۔ جائدادوں اور تعلقات کی قربانیاں دیتی ہوئی آگےبڑھیں۔ پھر آگے بڑھ کر انھوں نے ایثار و قربانی کی مثالیں قائم کردیں اور آج امت مسلمہ ان کے احسانات سے کسی صورت سبکدوش نہیں ہوسکتی۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ ؐ کی پیروی کرنے والے نیک اور صالح لوگوں کے سامنے یہی مقصد تھا کہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہو اوردوسرے سارے کلمے اس کے سامنے پست ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کرنے کا مقصد ہی یہ بتایا ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں:

’’میں نے جِن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں‘‘۔  (الذاریات: ۵۶)

انسان کی زندگی کا کوئی گوشہ بھی اللہ تعالیٰ کی بندگی سے منحرف نہ ہو ، نہ گھر میں، نہ بازار میں، نہ دربار میں ۔ کہیں پر وہ خودمختار نہیں ہے۔ ہر جگہ وہ ایک مالک الملک کا بندہ ہے۔ فرد کو اپنی انفرادی زندگی میں، معاشرے کو اپنی اجتماعی زندگی میں اور دونوں کو اپنی زندگی کے ہر گوشے میں بندگی رب کے تقاضے پورے کرنے ہوں گے۔ ایک مسلمان کا انفرادی اور اجتماعی لحاظ سے یہ فریضہ ہے کہ وہ عمر بھر اس بات پر کمربستہ رہے کہ خود بھی اور دنیا کو بھی اس راہ راست پر چلائے جو صراط مستقیم ہے، کیونکہ صراط مستقیم پر چلنا ہی دنیا وآخرت میں کامیابی کا ذریعہ ہے۔

سوال یہ ہے کہ اسلام اس کام کو کس طرح سرانجام دیتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام کے عین مطابق دل ودماغ کی تبدیلی اور اصلاح احوال کا کام چار مرحلوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

اصلاح کے کام کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ سب سے پہلے لوگوں میں اسلام کا شعور پیدا کیا جائے۔ انہیں معلوم ہو کہ اسلام کیا ہے اور غیراسلام کیا ہے۔ صدیوں کے پیہم انحطاط سے بہت سے غیر اسلامی افکار و اعمال مسلمانوں میں داخل ہوگئے ہیں، انہیں چن چن کر نکالا جائے اور مغربی تہذیب کے مقابلے میں اسلامی تہذیب پر انہیں مطمئن اور یکسو کیا جائے۔ تحدیث نعمت کے طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ تحریک اسلامی نے اسلام کے افکار ونظریات کی صداقت پر مطمئن کرنے کے لیے ایک وسیع لٹریچر تیار کیا ہے اور دنیا کی مختلف زبانوں میں اس کا ترجمہ بھی ہوچکا ہے اور اس کے نتیجے میں مسلمانوں میں اسلامی شعور کی ایک پرزور لہر اٹھ کھڑی ہوئی ہے، اس سے باخبر دنیا کے لوگ اچھی طرح آگاہ ہیں۔

اس کام کا دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ قوم کے اندر سے جو افراد خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں ہوں، بچے ہوں یا بوڑھے ہوں، تعلیم یافتہ ہوں یا ناخواندہ ہوں، اگر وہ اپنی اصلاح پر آمادہ ہوں تو ان کاایک جتھا بنالیا جائے اور انہیں اجتماعیت کی لڑی میں پرولیاجائے۔ انہیں دین کے کام کے لیے منظم کیا جائے اور تنظیم کی قوت کو اس طرح بڑھایا جائے کہ پوری طرح ساتھ دینے والوں کو پوری طرح دعوت وتبلیغ کے کام پر لگایاجائے اور جس سے جتنا تعاون ملے، اسے قبول کیاجائے۔

انقلابی تبدیلی لانے کے لیے تمام لوگوں کو محض منظم کرنے پر اکتفا نہ کیاجائے بلکہ ان کی مناسب ذہنی، اخلاقی اور دینی تربیت بھی کی جائے تاکہ وہ اس عظیم کام کے اہل تر سپاہی بن سکیں۔ ایسا نہ ہو کہ وہ زبان سے تو اسلام کا راگ الاپتے رہیں لیکن ان کے شام وسحر غیراسلامی کاموں کی انجام دہی میں صرف ہوں۔

اس کام کا تیسرا مرحلہ یہ ہے کہ کوئی گوشہ ایسا نہ رہے جہاں اصلاح کے داعی اور تبدیلی احوال کے مبلغ اپنی دعوت لے کر نہ پہنچیں۔ پرانے جمود اور نئی تہذیب سے مرعوبیت کے نتیجے میں قوم کے اندر جو علیٰحدہ علیٰحدہ رجحانات پیدا ہوگئے ہیں وہ دور ہوں اور وہ مسائل حاضرہ کے حل کے لیے اسلام کو شاہ کلید سمجھ کر اسی کی طرف رجوع ہوں۔ اسلامی طرز زندگی کا علمبردار ہر فرد قوم کے اندر گھس کر جس جس مقام پر جس جس نوعیت کا اصلاحی کام کرسکتا ہو اسے پوری قوت سے شروع کردے تاکہ ہر طرف سے اصلاح اخلاق وعمل کی لہریں اٹھیں اور گندے افکار اور بڑے اعمال کا دھارا تھم جانے پر مجبور ہوجائے۔

اس کام کا چوتھا مرحلہ یہ ہے کہ حکومت کی بھی اصلاح ہو۔ اگر نیک اور صالح حکومت ہو تو وہ جنت کا درخت ہے جس کے پھل میٹھے ، جس کاسایہ ٹھنڈا ،جس کی ہوا معطر اور جس کا منظر شاداب ہے۔

اسلامی انقلاب کچھ یوں ہی نہیں آجاتا یا صرف مردوں کی جدوجہد سے ہی یہ کامیابی کے مراحل طے کرسکتا ہے کیونکہ عورت اور مرد گاڑی کے دوپہیے ہیں۔ اسلامی انقلاب کی جدوجہد میں عورتوں کو شامل نہ کرنے کا مطلب ایک پہیے پر گاڑی چلانے کی نامحمودکوشش ہے۔ گھوڑا گاڑی میں اگر گاڑی کو آگے اورگھوڑے کو پیچھے ڈال دیں تو پھر بھی گاڑی چل سکتی ہے لیکن ایک پہیے پر گاڑی چلانے کا تصور بھی نہیں کرسکتے جبکہ دوسرا پہیہ جام ہو۔

آنحضرت ﷺ کے مبارک دور میں اسلامی انقلاب کی جدوجہد میں خواتین نے بھرپور حصہ لیا تھا بلکہ اسلام کی راہ میں ابوجہل کے برچھے سے زخمی ہوکر خون میں لت پت ہونے اور جام شہادت پینے والی بھی ایک خاتون حضرت سمیہؓ تھیں۔ آج بھی یہ مبارک نام مسلم گھرانے کی بچیوں کا رکھنا ایک سعادت سمجھا جاتا ہے۔ حضور اکرمﷺ کی رسالت پر ایمان لانے والی کوئی اور خاتون نہیں بلکہ خود آپؐ کی رفیقۂ حیات حضرت خدیجہؓ تھیں۔ جب رسول اکرمؐ پر پہلی بار وحی کا نزول ہوا اور رسالت کی گراں بہا ذمے داری سے آپ سخت متفکر تھے اور اپنی رفیقۂ حیات سے فرمایا: خدیجہؓ مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے۔ تو جاں نثار بیوی نے ڈھارس بندھائی اور کہا: اللہ تعالیٰ آپؐ کو ہرگزضائع نہیں کرے گا کیونکہ آپؐ غریبوں پر شفقت فرماتے ہیں۔ سچ بولتے ہیں۔ بیوائوں اور یتیموں کی دستگیری کرتے ہیں۔ مہمان نوازی فرماتے ہیں اور مصیبت زدوں سے ہمدردی فرماتے ہیں‘‘۔ اُم المؤمنین حضرت خدیجہؓ سب سے پہلے حضور ﷺ پر ایمان لائیں اور اسلام کی دعوت پھیلانے میں مال ودولت کے انبار لگادیے اور تن من دھن سے دعوت اسلامی کے کام میں حضور اکرمؐ کا ساتھ دیا۔ حضرت عمر فاروقؓ جیسے انسان کو اسلام کی راہ میں لانے پر بھی کوئی اور نہیں بلکہ ایک خاتون نے یہ کام انجام دیا۔ وہ خاتون کوئی اور نہیں بلکہ خود حضرت عمر فاروقؓ کی بہن فاطمہ بنت خطاب تھیں، پھر وہ بھی ایک خاتون تھیں حضرت اسماء بنت ابوبکر صدیقؓ جنھوںنے ہمت اور شجاعت کے ساتھ تین دن تک غارثور میں حضور اکرمؐ تک کھانا پہنچایا۔ انھوںنے ابوجہل جیسے تندخو آدمی کی پرسش پر صاف جواب دے دیا اور ایک سخت طمانچہ برداشت کیا تھا۔ پھر وہ بھی ایک خاتون تھیں جنھوں نے جنگ اُحد میں بیش بہا خدمات انجام دیں۔ زخمیوں کو پانی پلاتی پھرتی تھیں اور خطرناک حالات میں اپنی جان کی پروا نہ کرتی تھیں۔ انھوں نے اپنے  بھائیو ں اور شوہر کی مسخ شدہ لاشیں دیکھیں لیکن زبان سے اُف تک نہ کی۔ وہ صرف نبی کریمؐ کی خیریت کی طالب تھیں۔ یہ ہماری محترم مائوں اور بہنوں کی وہ درخشاں داستاں ہے جو تاریخ کےصفحات پر نقش ہیں۔ انھوںنے شعور حاصل کیا اور پھر اپنے شعور کے مطابق اپنے مقصد زندگی کیلیے عظیم قربانیاں پیش کیں۔

مسلمان خواتین اپنی اولاد کو ایمان کا دودھ پلائیں ، ہمت وجرأت اور شجاعت کالقمہ کھلائیں،  خدا ترسی اور تقویٰ کا لباس پہنائیں اور شیرخدا بناکر اٹھائیں اور اس کے لیے خود بھی حضرت عائشہؓ، حضرت سمیہؓ اورحضرت فاطمہؓ کی سنت پر چلنے کا عزم اوراہتمام کریں۔ اگر یہ منظر پیدا ہوتو حسنؓ وحسینؓ جیسے فرزندان اسلام پیدا ہوتے ہیں۔

مشمولہ: شمارہ جولائی 2014

مزید

حالیہ شمارے

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau