چند حسین تصویریں

مائل خیرآبادی ؒکی روداد سے

چوتھا کل ہند اجتماع حیدرآباد میں ہوا۔ اس موقع سے بچوں اور عورتوں کے مشہور زمانہ ادیب مائل خیر آبادیؒ نے دلچسپ روداد رقم کی جو دعوت اخبار میں تین قسطوں (۷، ۱۰ اور ۱۳ دسمبر ۱۹۶۷) میں شائع ہوئی۔ اس کے کچھ اقتباسات ہم یہاں نقل کررہے ہیں۔ (مدیر)

حیدر آباد کے اہل قلم کے شاہکاروں، دعوت میں ایک خاص ترتیب سے شائع ہوئے مضمونوں اور پروگراموں نے ملک کےکونے کونے میں ایک گونج پیدا کر دی تھی لیکن ایک شخص ایسا بھی تھا جس کے دل میں شرکت اجتماع کے لئے نہ تو معمولی سی حرکت ہی پیدا ہوئی اور نہ خفیف سی گرمی ہی، وہ تھا یہ راقم الحروف۔ نومبر کا پہلا ہفتہ شروع ہو گیا ہے۔ دعوت میں خبریں آنے لگیں، اجتماع میں شرکت کے لئے فلاں جگہ کے اتنے رفقا کے لئے فلاں ٹرین سے رزرویشن ہو گیا۔ فلاں جگہ کے رفقا نے بس رزرو کرالی۔ خود رامپور سے رزرویشن کے لئے رقمیں دہلی جانے لگیں لیکن راقم الحروف کے دل میں “نہ تو حسرت ہی کوئی تھی نہ تمنا کوئی۔”

کیوں؟ کیونکہ وہ اب بھی درد کمر کو کولھے پر لادے ہوئے تھا، اور نومبر کی تقریبًا نصف تنخواہ پیشگی لے کر خرچ کر رہا تھا۔ اس کا فیصلہ اٹل تھا کہ اجتماع میں میرا شریک ہونا ناممکن ہے، لیکن وہ جو کسی نے کہا ہے کہ دنیا میں کوئی بات ناممکن نہیں ہے اور یہ کہ اللہ تعالی جب چاہتا ہے ناممکن کو ممکن بنا دیتا ہے اور بندوں پر ایسی راہوں سے فضل فرماتا ہے کہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ بالکل سچ ہی ہے۔ اس کی حالیہ مثال اس طرح سامنے آئی کہ میں اپنے دفتر میں بیٹھا کام کر رہا تھا۔ اتنے میں رفیق محترم جناب توسل حسین صاحب تشریف لائے۔ خندہ پیشاں ایک نے دوسرے کو سلام کیا۔ گرم جوشی سے ہاتھ ملائے گئے۔ اس کے بعد گفتگو شروع ہوئی تو شرکت اجتماع کی میں نے اپنی معذوری اور وجہ معذوری ظاہر کی۔

موصوف شرکت کے لئے اصرار کرنے لگے۔ دوران گفتگو سلیم سلّمہ (جناب ابو سلیم محمد عبد الحی صاحب کے بڑے صاحبزادے) آ گئے تھے اور وہ بھی مصر ہو گئے۔ میرا جواب نفی میں تھا۔ بڑی بات چیت کے بعد آخر یہ طے ہوا کہ میں مستقبل قریب میں اتنی بڑی کتاب ترتیب دے دوں جس کے پہلے ایک ہزار کے اڈیشن میں دو سو روپے رائلٹی کے مل سکیں۔ یہ کتاب توسل صاحب اپنے سرمائے سے چھپوائیں اور رائلٹی کے لئے دو سو روپیہ آج ہی دے دیں۔ اس تجویز پر میں راضی ہو گیا۔ چنانچہ اسی وقت رزرویشن کے لئے رقم دہلی بھیج دی گئی۔

دوسرے دن عجیب حسن اتفاق پیش آیا۔ اس حسن اتفاق سے مسرت و حیرت کے مارے میری عجیب کیفیت ہو گئی۔ ایک پبلشر صاحب جو عرصے سے میری کتابیں شائع کر رہے ہیں غیر متوقع طور پر میری کسی تحریک کے بغیر علی الحساب انہوں نے تین سو روپے بھیج دیے۔ میں بہت خوش ہوا میں نے دو سو روپے سفر خرچ کے لئے علیحدہ کر لیے اور اب یہ فکر ہوئی کہ درد کمر کا کچھ علاج کر لینا چاہیے۔ ایک ڈاکٹر سے ملا۔ حال کہا۔ دوا لی۔ خدا کی قدرت کہ پہلی ہی دوا سے فائدہ محسوس ہونے لگا۔

۔۔۔۔

مرکزی رفقا مقیم دہلی کی کوششوں سے ۷ نومبر کو دہلی سے حیدرآباد جانے والی ٹرین (جنتا)، میں میری سیٹ کا رزرویشن ہو گیا۔ چنانچہ میں ۶ نومبر کو رامپور سے دہلی روانہ ہو گیا۔ میں نے یہ سفر ۱۰ بج کر ۳۰ منٹ شب کی پیسنجر سے شروع کیا۔ پناہ بخدا، اس میں بے حد بھیڑ تھی۔ بڑی کشمکش اور مشکل سے اتنی جگہ مل سکی کہ میں ڈبے میں کھڑا ہو سکا۔ بڑا تکلیف دہ سفر تھا۔ صبح کو ٹرین دہلی پہنچی تو میں نے محسوس کیا کہ میری کمر کا درد پھر بڑھنے لگا۔ جیسے تیسے پلیٹ فارم سے باہر ہو کر مرکزی رفقا سے ملنے کے لئے چتلی قبر پہنچا۔ وہاں اس تاریخ کو مختلف ٹرینوں سے حیدرآباد کو جانے والے بہت سے رفقا موجود تھے ان سب سے ملا۔ تقریبًا دو گھنٹہ مرکز میں ٹھہر کر جنتا سے جانے والے قافلے کے ساتھ ہو لیا۔ اس قافلے کے امیر سفر جناب سید حسین صاحب مینجر ریڈیئنس تھے۔ جب ہمیں یہ اطلاع ہوئی تو ہم سب خوش ہوئے۔ ہماری خوشی کی وجہ یہ تھی کہ ہم سب سید صاحب کی صلاحیتوں سے بخوبی واقف تھے۔ موصوف ایک مرنجاں مرنج رفیق، ہنس مکھ انسان، ہمہ وقت متحرک کارکن اور بڑی سوجھ بوجھ کے آدمی ہیں۔ موصوف کی حسب ہدایت ہم رکشاوں پر لدلد کر اسٹیشن کی طرف چلے۔ ان رکشاوں کا فراہم کرنا۔ رکشا پولروں سے معاملہ کرنا اور لینا دینا سب سید حسین کے سر تھا۔ ہم تو بے فکر ہو کر اسٹیشن پر پہنچے۔ اسٹیشن پر ٹرین ہمارا انتظار کر رہی تھی۔ سید صاحب کا اشارہ پاکر ہم سب نے اپنی اپنی رزرو برتھوں پر قبضہ کرکے بستر پھیلا دئے اور ٹرین چھوٹنے کا انتظار کرنے لگے۔ سید صاحب ہر رفیق کے پاس پہنچ کر پوچھ رہے تھے کہ سامان سب ٹھیک ٹھاک ہے۔ کوئی تکلیف تو نہیں؟

 

ہمارا سفر آرام سے طے ہو رہا تھا کوئی اجتماع کی باتیں کر رہا تھا، کوئی اخبار دعوت پڑھ رہا تھا۔ ڈبے میں انگریزی کی اعلی تعلیم حاصل کئے ہوئے رفقا بھی تھے عربی کے عالم فاضل بھی اور کم پڑھے لکھے لوگ بھی، ایسے بھی تھے جو اپنے گھر کے کھاتے پیتے اور صاحب ثروت تھے اور ایسے بھی تھے جو تھوڑی آمدنی پر گذارا کرنے والے تھے۔ لیکن یہ سب ایسی اپنائیت سے آپس میں گھل مل گئے تھے جیسے وہ سب سگے بھائی ہوں۔ کسی میں غیریت کا شائبہ نہ تھا۔ اسلامی عقیدے اور دین قیم کے نصب العین نے چھوٹے بڑے ہونے کے احساس کو بالکل ختم کر دیا تھا۔

لیٹے لیٹے میں ذرا کراہا تو میری برتھ کے پاس دوسری برتھ پر لیٹے ہوئے رفیق جناب عبد الوحید صدیقی اٹھ بیٹھے اور حال پوچھنے لگے۔ میں نے درد کمر کا حال کہ سنایا تو موصوف نے کچھ گولیاں نکال کر مجھے دیں۔ ان گولیوں کے استعمال سے مجھے بڑا سکون محسوس ہوا۔

۔۔۔۔

میری عادت ہے کہ مجھے ٹرین میں نیند نہیں آتی۔ میں آنکھیں بند کئے پڑا رہا۔ کبھی کبھی آنکھیں کھول کھول کر ادھر ادھر دیکھ لیتا تھا۔ رات کے پچھلے پہر میں نے دیکھا۔ کچھ رفقا تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد دبے پاؤں اپنے اپنے بستروں سے اٹھ اٹھ کر وضو کرنے کے لئے جانے لگے وہ سب اس احتیاط اور خاموشی سے چل پھر رہے تھے کہ سوتے ہوئے رفیقوں کو زحمت نہ ہو اور ان کی نیند اچاٹ نہ ہو۔ انہیں تہجد کی نماز پڑھتے دیکھ کر دل نے کہا “سفر میں تو اللہ تعالی نے فرض نمازوں میں رعایت فرما دی ہے۔ تہجد تو امت پر واجب نہیں ہے پھر بھی اللہ کے یہ بندے گرم گرم بستروں سے اٹھ کر اللہ کے حضور کھڑے ہو گئے۔ وہ اللہ سے دعائیں کر رہے تھے اور میں اپنے بستر پر لیٹے لیٹے یہ دعا کر رہا تھا کہ بار الہا اپنے ان نیک بندوں کی دعا قبول فرمالے!

۔۔۔۔

قاضی پیٹھ کا جنکشن ہمارے سفر میں قابل تذکرہ یوں ہو گیا کہ یہاں دہلی سے آنے والی ٹرینیں جنتا، صدرن اور جی ٹی حیدرآباد جانے والے مسافروں کے ڈبوں کو چھوڑ دیتی ہیں اور پھر یہ سارے ڈبے ایک ٹرین سے جوڑ دئے جاتے ہیں۔ اس طرح اس دن جو رفیق دہلی یا راستے سے ان ٹرینوں پر بیٹھ کر آیا، قاضی پیٹھ پر رکا رہا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دہلی سے سب سے پہلے ہم جنتا میں بیٹھ کر روانہ ہو گئے تھے لیکن دہلی سے پانچ چھ گھنٹے کے بعد چھوٹنے والی ٹرین “صدرن” ہماری “جنتا” سے تین گھنٹے پہلے قاضی پیٹھ پہنچ گئی۔ صدرن سے ہمارے ایک رفیق جناب سید منظور الحسن ہاشمی صاحب ناظم درسگاہ جماعتِ اسلامی رامپور روانہ ہوئے تھے۔ وہ ہم سے پہلے پہنچ چکے تھے۔ آدھی رات کے قریب جب ہم قاضی پیٹھ پہنچے تو آن محترم جنتا کے ڈبوں کے پاس میرا نام لے لے کر پکار رہے تھے۔ میں نے آواز پہچانی، دوڑ کر ان سے ملا، کھانے سے بھرا ہوا بڑا سا ناشتہ دان موصوف کے ہاتھ میں تھا اور ایک بزرگ ساتھ تھے۔ ان بزرگ سے متعارف کرایا گیا۔ معلوم ہوا کہ وہ جناب ہاشمی صاحب کے خسر ہیں۔ میں نے ادب کے ساتھ سلام کیا، ہاتھ ملایا، اس کے بعد ناشتہ دان پیش کیا گیا تو اس معذرت کے ساتھ معافی چاہی کہ ہم سب مغرب کے وقت ناشتہ کرچکے ہیں۔ ہمارے یہ متواضع رفیق صدرن سے روانہ ہوکر کئی گھنتے پہلے خسر صاحب کے دولت کدہ پر پہنچ چکے تھے۔وہاں جاکر ہمارے لیے کھانا پکوایا اور پھر ان کے ساتھ اسٹیشن تشریف لائے۔ میں اس تواضع سے بہت متاثر ہوا۔ اللہ تعالی اس کا اجر ہر دو بزرگوں کو عطا فرمائے۔

۔۔۔۔

میں اپنی ڈائری کے اس واقعہ کو تحریر میں کئے بغیر نہیں رہ سکتا جس کے گواہ اور دوسرے لوگ بھی ہیں۔ اور میرے محترم جناب ابو سلیم محمد عبد الحی صاحب چیف ایڈیٹر الحسنات بھی۔ ایک کارکن کو دیکھا گیا کہ وہ پانی سے بھرا مٹکا کندھے پر رکھے ایک جگہ سے دوسری جگہ لئے جا رہا تھا۔ کارکن شیروانی پہنے ہوئے تھا۔ مٹکے کا پانی چھلک چھلک کر پشت شیروانی پر گر رہا تھا۔ اور شیروانی بھیگ رہی تھی۔ شائد وقت پر اس کارکن کو امداد کے لئے والینٹر یا مزدور نہ مل سکا اور شدید ضرورت کے تحت دیر کرنا مناسب نہ سمجھا چنانچہ مٹکا اٹھا کر کاندھے پر رکھ لیا تھا۔ اس ایثار و قربانی اور مستعدی کو جس نے دیکھا، دنگ رہ گیا۔ عبد الحی صاحب نے مجھے اس کارکن کا نام بتایا۔ نام مجھے یاد ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ وہ پونا کا مشہور سیٹھ ہے۔ جو آج کل بمبئی میں مقیم ہے۔

۔۔۔۔

اس سے بڑھ کر نظم میں نے راتوں کے اجتماعات میں دیکھا۔ ۱۰ تاریخ کی رات کے اجتماع عام میں میرے اندازے کے مطابق پچاس ہزار کا مجمع تھا۔ ۱۱ تاریخ کے اجتماع عام میں مختلف رائیں ہیں۔ پچہتر ہزار سے ڈیڑھ لاکھ تک کا مجمع بتایا جاتا ہے۔ اول الذکر اجتماع عام میں مولانا محترم تقریر فرما رہے تھے۔ تقریر میں کچھ ایسا درد محسوس ہو رہا تھا کہ بڑے بڑوں کے دل ہل گئے تھے۔ ایک مقام پر پہنچ کر خود مولانا کی آواز میں جب رقت و ارتعاش پیدا ہو گیا تھا تو معا ایک بزرگ چیخ کر بیہوش ہو گئے۔ یہ بزرگ ڈائس پر قیم صاحب کے برابر تشریف فرما تھے۔ ان کے چیخنے پر کئی کارکن بڑھے۔ خود ناظمِ اجتماع گھبرا کر دوڑے لیکن چند ہی قدم گئے تھے کہ اپنی ذمہ داری محسوس کرکے واپس ہوئے۔ مولانا محترم نے تقریر بند کر دی تھی۔ ناظمِ اجتماع نے درخواست کی کہ آپ تقریر جاری رکھیں۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔

ان بزرگ کو سب سے پہلے قیم صاحب نے سنبھالنا چاہا لیکن موصوف خود کمزور آدمی ہیں۔ کسی تاخیر کے بغیر دوسرے کارکن پہنچ گئے اور بیہوش بزرگ کو سنبھال لیا۔ معلوم ہوا ہے کہ یہ بزرگ ناظمِ اجتماع جناب عبد الرزاق لطیفی صاحب کے والد محترم اور بہت پرانے رکن جماعت ہیں۔ یہ جان کر لطیفی صاحب کے جسم کے اندر اس لطیف انسان کی قدر میرے دل میں بڑھ گئی جو اندر سے باہر کے انسان کو حکم دیتا ہے۔ ذمہ داری کے احساس نے لطیفی صاحب کو کس درجہ مضبوط اور متحمل بنا دیا تھا۔ باپ بیہوش پڑا تھا اور بیٹا اپنی ذمہ داری سنبھالے ہوئے چند گز دور بیٹھا تھا۔ دل پر جانے کیا بیت گئی ہوگی لیکن چہرے بشرے سے توکل کا نمونہ سامنے تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر اس وقت ناظمِ اجتماع غیر معمولی طور پر دل پر قابو نہ پا لیتے تو مجمع اکھڑ جاتا اور پھر اس کا مجتمع کرنا بڑا مشکل ہو جاتا۔ الحمد للہ اجتماع عام نہایت سلامت روی کے ساتھ چلتا رہا اور سامعین پورے انہماک سے خطبہ سنتے رہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ اللہ کا فضل ہی تھا جس نے ایسے ایسے کئی عظیم پروگراموں کو کامیابی کے ساتھ اختتام تک پہنچایا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر جنوبی ہند کے پر جوش اور مخلص معاونین اپنا پورا تعاون ناظمِ اجتماع کو نہ دیتے تو فضل باری تعالی کی توفیق انہیں نہ ملتی۔

۔۔۔۔

یہ تو ہوئی تعاون کی بات۔ اب ذمہ داران کی نگرانی کا نمونہ ملاحظہ فرمائیے۔ ناظم والنٹیرس جناب محمود خاں صاحب نے ایک والنٹیر کو ایک خاص جگہ متعین کیا، تاکید کر دی کہ وہاں سے تا مشورہ ثانی نہ ہٹے۔ خدا جانے کیا بات ہوئی۔ کچھ دیر بعد محمود خاں صاحب اس طرف گئے تو والنٹیر کو ڈیوٹی پر نہ پایا وہ دوسری جگہ نظر آیا تو اس کے پاس گئے اور نادری حکم سنایا کہ میں نے آپ کو والنٹیرس کی فہرست سے نکال دیا۔

اس کے بعد مجھے کچھ نہیں معلوم کہ محمود صاحب نے اسے معاف کیا یا نہیں۔ بعض دیکھنے اور سننے والوں نے اس نادری حکم کو محسوس کرکے ایک والنٹیر سے بطور شکایت چند کلمات کہے تو جواب ملا۔ یہ ہمارے ذمہ دار ناظمِ اجتماع جناب لطیفی صاحب سے لے کر محمود خاں صاحب تک ہم پر جان چھڑکتے اور پورا بھروسہ کرتے ہیں۔ لیکن آپ کیا جانیں ہم اس وقت کتنے بڑے انتظامات سے دو چار ہیں۔ توقع سے دوگنے مندوبین کے یکایک آ جانے سے اگر انتظامی امور میں ذرا ڈھیل دی گئی تو سارا کیا کرایا مٹی میں مل جائے گا۔ محمود خاں صاحب نے بہت صحیح مثال قائم کی۔ اب شیطان کو ہمیں ورغلانے کا ان شاء اللہ موقع نہ ملے گا۔

والنٹیر اس طرح ایک مختصر تقریر کے ساتھ اندرون اجتماع کا بھید بھی بتا گیا۔ میں نے محسوس کیا کہ واقعی کوئی اور ہوتا تو اس کے ہاتھ پیر پھول جاتے لیکن مرحبا صد مرحبا سارا نظم لگے بندھے قاعدے کے مطابق ہو رہا تھا۔ یہ سب ناظمِ اجتماع اور ان کے معاونین کے ہوش و گوش کا نتیجہ ہے۔ ایک طرف اتنے زیادہ مجمع کو سنبھالے ہوئے تھے۔ دوسری طرف ان ساڑھے پانچ ہزار مندوبین کے طعام و قیام کا انتظام اس طرح ہو رہا تھا کہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں۔ ایک والنٹیر نے بتایا کہ ہم یہاں اپنی ڈیوٹی پر ہیں لیکن اگر ہمارے گھر کوئی حادثہ ہو جائے تو سب سے پہلے وہاں جو شخص پہنچے گا وہ ہمارا وہ ذمہ دار شخص ہوگا جس کی زیر نگرانی ہم رضاکارانہ کام انجام دے رہے ہیں۔ ایسے ہم درد ذمہ دار اگر کسی وقت سخت بھی پڑ جائیں تو بھی ہمارا فرض ہے کہ اس سختی کو خاطر میں نہ لائیں۔ والنٹیر کی اس تقریر پر سننے والے جزاک اللہ بول اٹھے۔

۔۔۔۔

اس سے زیادہ دل چسپ اور سبق آموز ایک اور واقعہ ملاحظہ فرمائیے۔ شاید اسے آپ لطیفہ بھی کہ سکیں۔ اس رات کو تقریبا ۱۱ بجے رات کو میں سونے کے لئے اپنی قیام گاہ کو جا رہا تھا۔ قریب جاکر دیکھا۔ قیام گاہ کے گیٹ پر جناب محمد عبد الحی صاحب رکن مجلس شوری، جناب مولنا محمد یوسف صاحب اصلاحی اور چند حضرات کھڑے تھے اور ایک والنٹیر انہیں اندر جانے نہیں دے رہا تھا۔ میں پہنچا تو اس نے مجھے بھی روکا “بیج دکھائیے”۔

بیج؟ میری زبان سے سوالیہ لہجے میں نکلا۔ معلوم ہوا کہ دن میں کسی وقت واچ اینڈ وارڈ کے والنٹیرس کو چوکنا رہنے کی ہدایت کر دی گئی تھی اور ہر قیام گاہ کی نگرانی کچھ والنٹیر کو سونپی گئی تھی۔ اس انتظام کے تحت یہ والنٹیر گیٹ پر بطور نگراں کھڑا تھا۔ اسے ہدایت کر دی گئی تھی کہ بیج کے بغیر کسی کو اندر نہ جانے دیا جائے۔ حادثہ یہ ہوا کہ ہم میں سے کسی نے بیج حاصل کرنے سے متعلق اعلان نہیں سنا اور ہمارے امیر حلقہ کسی وجہ سے ہمیں اس طرف متوجہ نہ کر سکے۔ آدھی رات قریب یہ پریشانی سامنے آئی۔

میں نے والنٹیر سے کہا۔ “یہ عبدالحی صاحب رکن مجلس شوری ہیں اور یہ مولانا محمد یوسف صاحب ہیں۔۔ اور میں۔۔۔۔”۔

والنٹیر نے جواب دیا “یہ سب ٹھیک ہے۔ لیکن میں حکم سے مجبور ہوں۔”

وہ تو کہیے عین اسی وقت امیر حلقہ مغربی یوپی جناب محمد شفیع مونس صاحب آ گئے۔ انہوں نے اپنے ایک حکیمانہ انداز سے مسئلہ حل کر دیا۔ والنٹیر سے فرمایا “ارے بھئی! یہ سب میری ہی سفارش سے بیچ پائیں گے نا!؟”والنٹیر چپ رہ گیا اور اسی دوران مونس صاحب نے ہمیں گیٹ سے پاس کر دیا۔ دوسرے دن ہم نے سب سے پہلے جو کام کیا وہ یہ کہ مونس صاحب کے معتمد جناب احسن مستقیمی اصلاحی سے بیج حاصل کیا۔

۔۔۔۔

لاوڈ اسپیکر سے ہر دس پندرہ منٹ بعد دار اللقطہ کی اشیا کا اعلان ہوتا تھا کہ جن صاحبان کی یہ اشیا ہوں آکر لے جائیں۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ دلچسپ راؤ شمشاد علی صاحب کے روپیوں کا واقعہ ہے۔ موصوف نے دو سو کے نوٹ ایک لفافے میں رکھ لیے تھے، اس پر راؤ صاحب کا پتہ لکھا تھا، یہ لفافہ گر گیا، ایک والنٹیر نے پایا۔ اس نے دار اللقطہ پہنچا دیا۔ اب جب اعلان ہوا کہ راؤ صاحب اپنے دو سو روپیہ آکر لے جائیں تو وہ چونکے، نمائش میں چارٹ لگا رہے تھے۔ وہیں جیب دیکھی، لفافہ ندارد۔ ہنستے ہوئے بھاگے اور جاکر لفافہ حاصل کیا۔

۔۔۔۔

نواب طاہر علی خاں صاحب اور نواب حبیب الرحمان خاں صاحب نے جماعت کے متعلق اپنے جو تاثرات ظاہر فرمائے ان کا لب لباب یہ ہے:

حیدرآباد میں اتنا بڑا اجتماع ہم نے نہیں دیکھا۔ ہمیں حیرت ہے کہ جماعتِ اسلامی ہند کی دعوت پر ملک کے دور دراز گوشوں سے آ آکر ساڑھے پانچ ہزار مندوبین جمع ہو گئے۔ جب کہ ارکان کی تعداد صرف ۱۳۶۰ ہے۔ مزید برآں یہ کہ ان سب کے لیے ناظمِ اجتماع نے روشنی کا ایسا عمدہ انتظام کرلیا کہ سب نے اطمینان سے خورد و نوش فرمایا۔ نہ کہیں شور نہ ہنگامہ، نہ پروگراموں کے اوقات میں تاخیر نہ لڑائی جھگڑا اور نہ اودھم ڈھکیل۔ دونوں صاحبان نے جماعت کے تربیت یافتہ کارکنوں کے سلیقے کو سراہا اور ہمیں اجتماع کی کامیابی پر مبارکباد دی۔ محترم بزرگ جناب حبیب الرحمان خاں صاحب نے ایک نہایت پر لطف بات فرمائی۔ فرمایا کہ ان تاریخوں میں حیدرآباد کی روایات کے مطابق پانی برسنا چاہیے تھا۔ میں ڈر رہا تھا کہ اگر خدا نہ خواستہ پانی برس گیا تو اجتماع کا کیا حشر ہوگا۔ یہ شامیانوں پر شامیانے، یہ ہزاروں مندوبین اور یہ غریب کارکن کیا کر سکیں گے، اکٹھا کئے ہوئے سامان کی کیا گت بنے گی؟ نواب صاحب موصوف نے فرمایا کہ میں دل ہی دل میں خدا سے دعا کر رہا تھا کہ بار الٰہا! تو عزیز و حکیم ہے، تیرے اختیار میں سب کچھ ہے، ابر باراں کو ان تاریخوں میں کہیں اور برسنے کا حکم دے دے۔

نواب صاحب یہی بات اگر کسی دوسرے موقع پر ارشاد فرماتے تو شاید سننے والے مسکرا دیتے لیکن بات جو دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔ ہم سب نواب صاحب کے خلوص سے بے حد متاثر ہوئے۔

مشمولہ: شمارہ نومبر 2024

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223