جدیدسائنس کے حاصلات اور اس کی فراہم کردہ آسانیوں سے مستفید ہوتے رہنے کے باوجود اس کے بارے میں شکوک و شبہات کی فہرست طویل تر ہے۔ اس کے بعض وجوہ تو خود سائنس کے اندر پائے جاتے ہیں اور یقیناً جائز ہیں البتہ بعض وجوہ ایسے بھی ہیں جو محض امکانات میں مضمر ہیں لیکن یہ اس حدتک وسیع ہوجاتے ہیں کہ سائنس مذہب کی بنیادوں کے لیے چیلنج بن کر ابھر نے لگتی ہے۔جائز وجوہ میں سائنس کی اس استطاعت کا ادراک بلکہ تجربہ ہے کہ اس کے ذریعے انسانوں کی تباہی کے سامان بھی جان بوجھ کر تیار کیے جاسکتے ہیں۔مثلاًایٹمی اور کیمیکل ہتھیاروں کی تیاری اوران کے ذریعے انسانون کی تباہی۔ لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ سائنس اپنی عمومی سرگرمیوں کے دوران بھی بعض اوقات ایسی راہوں کی طرف نکل پڑتی ہے کہ اس کے حاصلات وقت گزرنے کے ساتھ انسانوں کے لیے شدید نقصان کا باعث بن جاتے ہیں۔مثلاًزہریلی گیسوں اور کیمیکلز کے ذریعے ہوا اور پانی یعنی ماحولیات کی تباہی اور کیڑے مار دواؤں کے استعمال کے نتیجے میں زمین کی زرخیزی میں کمی وغیرہ۔
اس سلسلے میں ایک مسئلہ خاصی اہمیت اورسنجیدگی سے پیش کیا گیا ہے[1]، جس کا تعلق جینٹیک انجینئرنگ (genetic engineering) سے ہے جس نے حیاتیاتی سائنس میں بڑے امکانات پیدا کردیے ہیں۔1968میں جب ہندوستانی نژاد ہر گوبند کھورانا کو اس میدان میں نوبل پرائز ملا تو مدتوں اخبارات میں اس کی تحقیق کے ممکنہ نتائج پر اس طرح اظہار ہوتا رہا تھا کہ جیسے کہ اب جینز کے مزید مطالعے کے ذریعے حیات کے پراسیس میں بہت سی تبدیلیاں آسکیں گی۔ اور چند ہی برسوں میں بائیوٹکنالوجی کا ایک نیا میدا ن ابھرا اور پیدائش و نمو کے بڑے بڑے امکانات رونما ہونے لگے، اور ظاہر ہے کہ آج بہت سے امکانات حقیقت بن کر سامنے آ چکے ہیں۔ اس وقت بھی اس امکان کا اظہار کیا گیا تھا کہ حیاتیاتی نظام میں جینیاتی سطح پر دخل اندازی ممکن ہے، اور شاید جسم انسانی میں بھی یہ تبدیلیاں ممکن ہیں۔گوکہ تقریباًپچاس گزر چکے ہیں ابھی تک ہم سائنس کے ذریعے اس نوعیت کی تبدیلیوں تک نہیں پہنچ سکے، لیکن ان کے قریب تر ضرور ہوئے ہیں۔ انسان کی جین میپنگ (gene mapping) ہوچکی ہے اور اس بات کے امکانات زیادہ ہوگئے ہیں کہ مختلف بیماریوں سے متعلق ہر جین کی پہچان کر کے اگر اس جین کو غیر موثر کیا جاسکے تو ہم انسانیت کو اس بیماری سے محفوظ کرسکیں۔ حالاں کہ ہم آج بھی اس عظیم مقصد سے دور ہیں لیکن اس کے امکانات روشن ضرور نظر آتے ہیں۔
یہاں ایک اورنکتے کی وضاحت ضروری ہے۔ مغربی سائنس دانوں (اورسچ یہ ہے کہ آج کل ہر قوم کے سائنس داں سائنس کے میدان میں مغربی انداز ہی سے سوچتے ہیں) کی یہ خواہش دیرینہ بار بار ظاہر ہوتی رہتی ہے کہ دنیا کے تمام انسانوں میں جینز کی سطح پر 99.7 فیصد سے 99.9 فیصد تک یکسانیت ہونے کے باوجود 0.2 فیصد اختلاف کی بنیاد پر رنگوں، رویوں اور ذہانت میں فرق کی وضاحت ہوسکے۔ اور سائنس کی بنیاد پر سفید نسل کی برتری کے مفروضے کو سائنس کی زبان میں بیان کیا جاسکے۔ اس مطالعہ کو یوجینکس (eugenics) کا نام دے کر ایک باقاعدہ سائنسی میدان بنانے کی کوشش کی گئی لیکن مختلف سمتوں سے اعتراضات ہوئے اورنتیجتاً بطور مضمون تو یہ اب تقریباًمتروک ہوچکا ہے لیکن اس کے اثرات اکثر و بیشتر آئی کیو اور سماجیاتی حیاتیات کے نام سے سامنے آتے رہتے ہیں۔
مذکورہ بالا وضاحت کا مقصد یہ بتانا ہے کہ جینزکے مطالعے سے انسانوں کے رویوں اور ان کے نسلی امتیازات اور رجحانا ت کو سمجھنے کی کوشش کرنا آج ایک اہم سائنسی موضوع بن چکا ہے۔یہ بات قابل غور ہے کہ تمام انسانوں میں جینیاتی یکسانیت کا مطالعہ جس نوعیت کے امکانات روشن کرسکتا تھاان پر توجہ نہ دے کر اس 0.2 فیصد فرق کو موضوع بنایا گیا۔البتہ یہ ضرور ہے کہ مطالعہ و تحقیق کے اس مخصوص رخ پر توجہ دینے کے نتیجے میں بعض بڑے ہی وسیع اور غیر معمولی مثبت امکانات روشن ہوئے ہیں، خاص طور پر مختلف بیماریوں سے نجات پانے کے امکانات۔ اور آج تازہ ترین کرسپر ٹیکنالوجی (CRISPR)کے ارتقا نے (جس پر 2020میں دو خواتین کو کیمسٹری کا نوبیل پرائز دیا گیا) اس امکان کو مزید روشن کردیا ہے، بلکہ وسیع بھی کردیا ہے۔ اب بیماریوں کے علاج کے ساتھ دواؤں کی تیاری اور زراعت کے میدان میں بھی اس کے ذریعے بڑا انقلاب آرہا ہے۔ ہمارے حلقوں میں اس عظیم پیش رفت پر شکر کا اظہار ہونا چاہیے تھا، اور جو لوگ اس تحقیق میں مشغول ہیں ان کے حاصلات کو انسانیت پر احسان سمجھتے ہوئے اظہار تفاخر کرنا چاہیے تھا۔ لیکن اس پہلو کو یکسر ناقابل توجہ سمجھتے ہوئے اس کے ممکنہ منفی پہلو پر زیادہ توجہ دی گئی۔چناں چہ اس خدشہ کا اظہار کیا گیا ہے کہ اب کرسپر ٹکنالوجی آجانے کے نتیجے میں مذکورہ بالا مثبت امکانات کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہوسکے گا کہ انسان میں موجود جینز، جو اس کے اخلاقی رجحانات اور خیرو شر کی تمیز کی ذمہ دار ہیں، ان پر بھی سائنس داں کنٹرول حاصل کرلیں گے۔ کوئی35 سال پہلے خبر آئی تھی کہ انسان میں ہم جنسیت کے رجحانات سے متعلق جین کو پہچان لیا گیا ہے، اسے اس طرح پیش کیا گیا کہ وہ تمام رجحانات جنھیں ہم خیر یا شر کہتے ہیں یا بلند اخلاق یا رذیل اخلاق سمجھتے ہیں ان کی متعلقہ جینز انسان میں موجود ہوتے ہیں، اس لیے اگر ان رذیل اخلاق کا اظہار ہونے لگے تو یہ سمجھنا چاہیے کہ انسان مجبور محض ہے کیوں کہ سب اس کے جینز کی بدولت ہورہا ہے جو پہلے سے اس میں موجود ہیں۔
اس طرح دوباتیں سامنے آتی ہیں۔ ایک یہ کہ انسانی اخلاقیات جبریہ ہیں اور دوسری بات یہ کہ جینٹک انجینئرنگ کے ذریعے انسانوں کی اخلاقیات تبدیل ہوسکتی ہیں۔ یہ دونوں نتائج ہمارے اس تصور سے متصادم ہیں جس کے مطابق خیر و شر کا تصور فطری طور پر انسان پر واضح ہوتا ہے، اور وہ کس تصور کو اختیار کرے اور کس تصور کے تحت اپنے رویوں اور افعال کی تشکیل کرے، یہ اسے عطاکردہ قوت اختیار کا نتیجہ ہوتا ہے اور اسی بنیاد پر وہ قابل مواخذہ اور جواب دہ ٹھہرتا ہے۔اگر ان معاملات میں جبریت (determinism) کا رول ہوگا تو جواب دہی جودین کی اصل بنیاد ہے ختم ہوجائے گی۔
اگر یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ انسانوں کے رویوں کا اظہار مخصوص جینزکا شاخسانہ ہوتا ہے تو یہ بھی ایک سائنسی حقیقت ہے کہ جینزاپنے آپ کو مناسب ماحول میں ظاہر کرتے ہیں (gene expression)۔ یعنی کسی مخصوص رویے کے لیے اگر ماحول مناسب ہوگا، تو اس رویے کے جینز اپنے آپ کو ظاہر کریں گے۔ یہ ماحول در اصل خلیے کا اندرونی ماحول ہے لیکن اسے ہم خارجی ماحول سے غیر متعلق نہیں کرسکتے۔ خارجی ماحول کا تعلق غذا، آب وہوا، ارد گرد کا انسانی ماحول یعنی وہ کس طرح کے افراد کے درمیان رہتا ہے اور اس کے ذہن کا تعامل کس قسم کے تصورات سے ہوتا ہے وغیرہ، یہ تمام عوامل مل کر وہ ماحول بناتے ہیں جس میں جینزاپنے آپ کو ظاہر کرتے ہیں۔
دوسرا یہ امکان ہے کہ آج ہم جینٹک انجینئرنگ کے ذریعے انسانی جینزمیں ایسی تبدیلیاں لاسکتے ہیں کہ اس کا شعور خیر و شر بھی ختم ہوجائے۔یہ امکان کسی حد تک ایک صحیح قیاس آرائی ہے۔اس نوعیت کے کردار ناولوں میں ضرور پائے جاتے ہیں۔بظاہر اس نوعیت کا سائنسی پروجیکٹ زیر تحقیق نہیں اور بالعموم جو ادارے سائنسی تحقیق کو اسپانسر کرتے ہیں انھیں اس قسم کے منصوبوں میں کوئی منافع نظر نہیں آئے گا۔لیکن اگر بالفرض ایسا ممکن بھی ہوگیا اور سائنس کے ذریعے ایسے افراد پیدا ہوگئے جو خیر و شر کی تمیز ہی کھوبیٹھیں تو یہ سوال اٹھنا فطری ہے کہ اس طرح تو اسلام کا فلسفہ خیر و شر اور تصور جواب دہی متاثر ہوجائے گااور دین کی بنیاد ہی ہلادے گا۔اس سلسلے میں چند باتیں پیش نظر رہنی چاہئیں۔
ایسے افراد جنھیں خیر و شر کا شعور نہیں ہوتا آج بھی موجود ہیں اورجن کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر واضح ہے۔ سن بلوغت تک پہنچنے سے قبل بچوں کے بارے میں یہ بات واضح ہے کہ وہ اگر اس دنیا سے رخصت ہوجائیں تو ان پر جواب دہی اور اس کے لوازمات نافذ نہیں ہوں گے۔ بچوں کے بارے میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ فطرتاًدین اسلام پر ہوتے ہیں۔ اس طرح فاتر العقل افراد بھی اسی نوعیت کے ہوں گے کیوں کہ انھیں عقل و شعور عطا نہیں ہوا یا وہ ان سے چھن گیا ہے اس لیے ان کی جواب دہی نہیں ہوگی۔
اس طرح اگر سائنسی تصورات کے نتیجہ میں ایسے افراد پیدا ہوجاتے ہیں یا وہ ان تبدیلیوں کا شکار ہوجائیں تویہی انجام ان کا بھی ہونا چاہیے۔ اگر وہ اپنی پسند سے ان تبدیلیوں کا شکارہوں گے تو وہ اپنے اس فیصلہ پر قابل مواخذہ ہوسکتے ہیں۔ لیکن ان کی نوعیت فاتر العقل اور نابالغ بچوں جیسی ہی ہوگی۔ اگر خدا نخواستہ ایسی کوئی نسل ہی پیدا ہوجائے تو یقیناً اس کے ساتھ بھی اﷲ کا رویہ اسی طرز کا ہوگا۔یہ بھی واضح رہے کہ گذشتہ برسوں میں جب سے اس نوعیت کی تبدیلی کے امکانات پیدا ہوئے ہیں ایسی کوشش واقعتاً ہوئی نہیں ہے۔ہم محض امکانات کی بنا پر سائنس کے بارے میں رائے قائم کررہے ہیں۔
چناں چہ جینٹیک انجینئرنگ کے ذریعے اگر بعض انسانوں میں خیر و شر کی تمیز ختم ہوبھی جائے تو اسلام کا تصور انسانی، تصور جواب دہی وغیرہ متاثر نہیں ہوں گے۔
اب یہاں ایک سوال باقی رہتا ہے کہ اس نوعیت کی ٹکنالوجی کے ساتھ ہمارا رویہ کیا ہونا چاہیے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ ٹکنالوجی قابل تحسین ہے اور ایک بڑی نعمت ہے کیوں کہ اس کے ذریعے بیماریوں سے دفاع، علاج کے لیے دواؤں کی تیاری اور زراعت کے میدان میں بڑی گہری اور دوررس اہمیت اور فائدوں کی حامل ترقیوں کے گہرے امکانات موجود ہیں۔ البتہ کسی حتمی نتیجہ پر پہنچنے کے ساتھ ساتھ ایک اور وضاحت ضروری ہے جو ہم چند مثالوں سے سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
دولت میں اضافے کے لیے حلال ذرائع بھی ہیں اور حرام ذرائع بھی موجود ہیں۔ دولت کے ذریعے تجارت بڑھاکر اس میں ہم اضافہ کرتے ہیں جب کہ سودی کاروبار کے ذریعے بھی یہ اضافہ ممکن ہے لیکن دوسرا طریقہ حرام ہے۔ محض ایک حرام عمل کے امکان کے پیش نظر ہم دولت سے نفرت تو نہیں کرتے اور اس کے استعمال کو ناجائز تو قرار نہیں دیا جاسکتا۔
جنگوں میں خون بہتا ہے۔ بعض اوقات یہ خون بہنا امن کے قیام کے لیے ضروری ہوتااور درجات کی بلندی کا باعث ہوتا ہے۔ البتہ بعض اوقات یہ ظلم کا اظہار ہوتا ہے۔ محض ظلم کے ممکنہ پہلو کی بنا پر جنگ کو اصولاً ناجائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔
علم اور اس کا ارتقا اگر عام انسانوں کی فلاح کے لیے ہوتو یہ ایک قدر بن جاتا ہے لیکن اگر اسے انسانوں کی تباہی، انھیں غلام بنانے اور اقوام کے استحصال کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ وبال بن جائے گا اور ظلم کا ذریعہ بنے گا۔
معلوم ہوا کہ انسانی مشاہدات، تجربہ اور تعقُل کے ذریعے جو علوم و فنون ہمارے ہاتھ لگتے ہیں وہ اصل میں تو انسانوں کے لیے منافع بخش ہی ہوتے ہیں لیکن انھیں دوسرے انسانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے اور سائنس کی تاریخ بتاتی ہے کہ اسے نقصان رساں بنانے میں اس انسانی رویہ کا ہاتھ رہا ہے۔
لیکن ان سب کے باوجود ہم سائنس سے صرف نظر کر ہی نہیں سکتے۔ اہم تر سوال یہ ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ان ممکنہ نقصانات سے بچا جاسکے؟ وہ نقصانات جو دید ہ و دانستہ طور پر سائنس کے غلط استعمال کے نتیجہ میں سامنے آتے ہیں ان سے تو ہم سائنس اور سائنس کرنے والوں کو بعض اقدار کا پابند بنا کراپنی اور دوسروں کی حفاظت کرسکتے ہیں لیکن جو اثرات چھپے ہوتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ہی ظاہر ہوتے ہیں ان سے بچنے یا ان کے اثرات کو کم سے کم کرنے کی کیا تدابیر ہوسکتی ہیں ؟ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ سوال بجائے خود صحیح نہیں ہے کیوں کہ جب حصول علم میں مشاہد ہ اور تجربہ شامل ہوگا تو سیکھنے اور جاننے کے عمل میں ممکنہ ضرررساں نتائج سے ہم کنار ہوکر ہی انسان کی آگہی میں اضافہ ہوگا۔ اصولاً یہ بات صحیح ہے لیکن سائنس کے ساتھ معاملہ ذرا مختلف ہے کیوں کہ مکمل طور پر کوئی دریافت نقصان دہ نہیں ہوتی۔مثلاً دواؤں کے سلسلے میں یہ معلوم ہے کہ تقریباً ہر جدید دوا کے کچھ نہ کچھ مضر اثرات ہوتے ہیں یعنی اصل مرض کا علاج تو ہوتا ہے لیکن اس کے ضمنی مضر اثرات مزید مسائل پید ا کردیتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہم ان دواؤں کو چھوڑ تے نہیں ہیں۔ بالکل یہی حال کیمیکل فرٹیلائزر کا ہے جو کچھ دن تک تو زرعی فصل میں اضافہ کا باعث ہوتے ہیں لیکن کچھ دن بعد ان کے مضر اثرات سامنے آنے لگتے ہیں۔ البتہ دواؤں اور فرٹی لائزر جیسے دوسرے سائنسی پراڈکٹس کے ساتھ ان سے وابستہ ایک اور پہلو ان کمپنیوں کی مالی منفعت بھی ہے جو انھیں تجارتی سطح پر تیار کرتی ہیں۔ بعض نقصانات کی بنا پر یہ کمپنیاں ان دواؤں کی تیاری بند نہیں کرتیں اور منافع کے لیے اس چھپے ہوئے ظلم کو جاری رکھتی ہیں اور بعض اوقات ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ کیوں کہ یہ کمپنیاں ریسرچ و تحقیق کے پروجیکٹوں پر مالی مدد فراہم کرتی ہیں اس لیے یہ منفی نتائج کومتاثر بھی کرلیتی ہیں۔اس طرح کے مسائل سے نمٹنے کے لیے بعض مفکرین نے ایسی قرآنی اقدار کی وضاحت کی ہے جن پر عمل اس نوع کے اثراتِ بد کو کم سے کم کرسکتا ہے۔ لیکن یہ بات واضح رہنا چاہیے کہ اس طرح کی اقدار اپنے پورے ورلڈویو میں رہتے ہوئے ہی موثر ہوتی ہیں۔
اس بحث کے پس منظر میں ایک اور پہلو بڑی اہمیت کا حامل ہے جو ہمارے پیشِ نظر رہنا چاہیے۔ قرآن کریم کا زور اس کائنات کے مختلف مظاہر کے مشاہدات اور ان پر غور و خوض کرتے رہنے، فکر و تدبیر اور زندگی کے تمام معاملات میں عقل کے استعمال بلکہ یہاں تک کہ خود قرآن کریم اور اس کی معلومات کو اسی عقل کی روشنی میں سمجھنے پر بہت زیادہ ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ قرآن عقل کی انتہائی اہمیت باور کرانے کے باوجود اس کے تزکیہ پر بھی زور دیتا ہے۔ یعنی یہ بتاتا ہے کہ بعض حقائق کو تسلیم کرنے کے لیے عقل کا تزکیہ ضروری ہے اور عقائد دراصل یہی فریضہ انجام دیتے ہیں۔ لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ ان عقا ئد کو تسلیم کرنے کے لیے بھی وہ اسی عقل کو متوجہ کرتا اور اس عقل سے اپیل کرتا ہے۔ اب یہ بات واضح ہے کہ کائنات پر غور و خوض اور عقل کے تعامل کے نتیجہ میں سائنس جیسے علوم ضرور منظر عام پر آئیں گے اور تاریخ میں یہی ہوا بھی کہ ہجرت کے محض پچاس ساٹھ سال کے اندر اندرمسلمانوں کا پہلا بڑا سائنس داں خالد بن یزید منظر عام پر آگیا تھا۔ چناں چہ کسی سائنسی انکشاف اور ایجاد پر ہمارا اوّلین ردِّ عمل امکانات پر نہیں بلکہ واقعات پر ہونا چاہیے۔ زیربحث موضوع پر بحث کا آغاز محض امکان سے ہوا اور وہ بھی اُس امکان سے جس کا اظہار سائنس دانوں نے نہیں بلکہ سائنس کے صحافیوں کی طرف سے ہوا۔ میں صحافیوں کے اس حق کو تسلیم کرتا ہوں۔لیکن یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اس طرح سائنس کے بارے میں منفی تاثران حلقوں میں پہنچتا ہے جو آج بھی سائنس کی مخالفت کرکے اپنی دکانیں کچھ دیر کے لیے چمکالیتے ہیں لیکن اپنے زیر اثر نوجوانوں کی کثیر تعداد کو غیر موثر اور ذہنی طور پر غیر فعال بنادیتے ہیں اور یہ سب قرآن کے نام پر ہوتاہے۔
قرآن کریم کے بیانیے کی تشکیل عقل، مشاہدے اور تجربہ سے ماخوذ نتائج اور عقل سلیم کو تسلیم اعلیٰ تر حقائق پر مشتمل ہے اور ان تینوں ذرائع پر مشتمل ہر آگہی، ایجاد اور فکر اس بیانیے کو تقویت پہنچاتاہے۔ سائنس کی ترقیاں آج اسلام کے مرکزی خیال کو چیلنج نہیں بلکہ ان کو complimentکرتی ہیں۔ کوشش یہ ہوکہ جو لوگ ہماری نئی نسل کو قرآن کی تعلیم دینے پر متمکّن ہیں وہ ان نسلوں کو اس طرح تیار کریں کہ سائنسی انکشافات اور ایجادات کی شکل میں جو خیر کا کا م ہورہا ہے اور جس سے ہر انسان مستفید ہورہا ہے وہ بھی اس کارِ خیر کا حصہ بننے کے تمنائی ہوسکیں اور فاستبقوالخیرات کی قرآنی پکار پر لبیک کہنے کی تمنا ان کے اندر بیدار ہواور اس کے ساتھ ساتھ سائنس کے منفی اثرات کا بھی انھیں ادراک رہے۔
مشمولہ: شمارہ مئی 2021