٭نبوت کے دسویںسال آپﷺنے طائف کا سفر کیاتاکہ وہاں بھی اسلام کی روشنی پھیلائیں۔ وہاں کے تینوں سردار عبدیالیل، مسعود اور حبیب کا جواب گُستاخانہ اور تکلیف دہ تھا۔ نہ وہ خود سنناچاہتے تھے اور نہ یہ چاہتے تھے کہ آپﷺان کی قوم میں تبلیغ کریں۔ اس لیے شہر کے بدمعاش اورغنڈوں کو آپﷺکے پیچھے لگادیا کہ آپﷺجہاںجائیں آپﷺکی ہنسی اڑائیں اور آپﷺجدھر سے بھی گزریں آپﷺپر پتھرپھینکیں۔ آپﷺیہ مصیبتیں جھیلتے اور صبر کرتے رہے۔آپﷺقدم اٹھاتے اور زمین پر رکھتے تو وہ بدبخت آپﷺکے ٹخنوں پر پتھر مارتے۔ جب آپﷺتھک کر اور زخموں سے چور ہوکر بیٹھ جاتے تو پھر وہ غنڈے آپﷺکا بازو پکڑکر کھڑا کردیتے، گالیاں دیتے، تالیاں بجاتے، آوازے کستے اور چلنے پر مجبور کرتے اور پھر پتھر کی بارش کرتے۔ پتھروں سے اتنی چوٹیں آئیں کہ آپﷺکے جوتے مبارک خون سے بھرگئے۔ جسم زخموں سے چورہوگیا اور پھر آپﷺبے ہوش ہوکر گرپڑے۔ حضرت زیدؓ آپﷺکو اپنی پیٹھ پر اُٹھاکر آبادی سے باہر لائے۔
٭ مکہ میں تقریباً دس سال تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم تکالیف اُٹھاتے رہے۔ مشرکین اور کفار اکثر ظلم وتشدد پر اُترآتے، ذلیل حرکتیں کرتے، گالیوں سے تواضع کی جاتی، سرِ اقدس پر خاک پھینکی جاتی۔ اس طرح ایسی ہزاروں مصیبتیں آپﷺبرداشت کرتے رہے۔ دورِ نبوت کے تیرہویں سال قریش کے درندوں نے آپﷺکو شہید کرنے کے ارادے سے رات بھر آپﷺکے گھر کو گھیرے رکھا۔ مگر آپﷺبہ حفاظت مدینہ ہجرت کرگئے۔
٭غزوۂ احد کے دن عبداللہ ابن قمیّہ نے اس زور کاحملہ کیاکہ آپﷺکا رخسارِ مبارک زخمی ہوگیا۔ ‘‘خود‘ کے دو حلقے (Ring)رخسارِ مبارک میں دھنس گئے۔ عتبہ ابی وقار نے پتھر پھینک کر مارا، جس سے نیچے کے دندانِ مبارک شہید ہوگئے اور ہونٹ کٹ گیا۔ عبداللہ بن شہاب زہری نے پتھر مارکر پیشانی لہولہان کردی۔ حضرت ابوعبیدہؓ ابن جراح نے ‘‘خود‘ کے ایک حلقے کو دانتوں سے پکڑکر اس زور سے کھینچاکہ جب وہ رخسارِ مبارک سے نکلا تو حضرت ابوعبیدہؓ ابن جراح کا دانت بھی ٹوٹ گیا۔ اسی طرح جب دوسرا حلقہ دانت سے پکڑکر کھینچا تو اتنا زور لگاناپڑاکہ حلقہ نکالتے وقت دوسرا دانت بھی ٹوٹ گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زخموں سے خون کسی طرح بند نہ ہوتاتھا۔ زخمی حالت میں کچھ دور چلے تاکہ محفوظ مقام پر منتقل ہوجائیں کہ ابوعامر فاسق کے کھودے ہوئے گڑھے میں گرگئے۔ جسے اس نے پتّوں سے ڈھانک رکھاتھا۔ حضرت علیؓ اور حضرت طلحہؓ بن عبداللہ کی مدد سے بڑی مشکل سے گڑھے سے نکل کر اونچائی پر تشریف لے گئے۔
٭مدینہ منوّرہ میں آپﷺاور آپﷺکے گھر والوں کو جو مالِ غنیمت ملتا غریبوں پر خرچ کردیتے۔ تین تین ماہ گھر میں چولہا نہ جلتا، تین تین دن فاقے ہوتے۔ روٹی کھاتے بھی تو جَو کی۔ ہر انسان کو جہنم سے بچانے کی اتنی فکر تھی کہ رات رات بھر رو رو کر دعائیں مانگا کرتے اور اس قدر مشقّت اُٹھاتے کہ وہ خدا جس نے آپﷺکو پیغمبر بناکر لوگوں تک دین پہنچانے کی ذمّے داری دی تھی، اُس نے بھی کہاکہ آپ اس قدر مشقت کیوں اٹھاتے ہیں۔
’’اے پیغمبرﷺ شاید تم اس رنج سے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے اپنے آپ کو ہلاک کرلوگے۔‘‘ ﴿ الشعرائ : ۳﴾
٭وہ شفیق نبی صلی اللہ علیہ وسلم جس نے اپنی جان اور مال سب کچھ ہم تک دین پہنچانے کے لیے قربان کردیا۔ آج ہم ان قربانیوں کی کتنی قدر کرتے ہیں؟ کیا ہماری ساری محبتیں اور دعوے زبانی جمع خرچ نہیں ہیں؟ اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ کیا ہم نے اس پرکبھی عمل کرنے کی کوشش کی؟ اسی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ میری بات دوسروں تک پہنچائو چاہے وہ ایک آیت ہی کیوں ہو۔ کیا ہم نے کسی کو بھی دین کی کوئی بات سمجھانے کی کوشش کی ہے؟
٭ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ کوئی اپنے اعمال کی بدولت جنت میں داخل نہ ہوگا، جب تک کہ اللہ تعالیٰ کاکرم شامل حال نہ ہو اور اللہ کاکرم ہم پر اسی وقت ہوگا جب ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں پر چلیںگے۔ اس لیے آئیے ہم اور آپ اپنے شفیق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیوں کو یاد کریں۔ ان قربانیوں کی قدر اس طریقے سے کریں کہ جس کا آپﷺنے حکم دیا ہے اس پر عمل کریں اور جس سے آپﷺنے روکا ہے اس سے رُک جائیں۔ ہم عہدکریں کہ ہر دِن آپﷺکی ایک حدیث ضرور پڑھیں گے، یاد کریںگے، عمل کریںگے اور دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کریں گے۔
مشمولہ: شمارہ جون 2010