سوال: ایک ہی چیز پر زکوٰة ہر سال اور بار بارادا کرنا کیوں ضروری ہے؟
جواب: عبادات میں سے کچھ زندگی میں صرف ایک بار فرض ہیں، جیسے حج۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ البَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً (آل عمران: ۹۷)‘‘لوگوں پر یہ اللہ کا حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے۔’’ایک مرتبہ اللہ کے رسول ﷺ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ‘‘ اَیُّھَا النَّاسُ! قَد فَرَضَ اللّٰہُ عَلَیکَمُ الحَجَّ فَحُجُّوا’’( لوگو ! اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے، اس لیے حج کرو۔) ایک شخص نے سوال کیا: ‘‘اے اللہ کے رسول ﷺ! کیا ہر سال ؟ ’’آپ نے ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ‘‘اگر میں ہاں کہہ دوں تو ہر سال فرض ہو جائے گا،لیکن پھر تم ہر سال نہیں کر سکو گے۔’’( مسلم: ۱۳۳۷)
لیکن کچھ عبادات وقت اور زمانہ کے ساتھ فرض کی گئی ہیں، مثلاً نمازوں کی فرضیت مخصوص اوقات کے ساتھ ہے۔ جب بھی وہ اوقات آئیں گے، نماز فرض ہوگی۔ روزہ کی فرضیت ماہِ رمضان کے ساتھ ہے۔ جب بھی رمضان آئے گا،روزہ رکھنا فرض ہوگا۔
اسی طرح زکوٰة کی فرضیت اس مال پر ہے جو مالک کے پاس ایک برس تک رہا ہو۔حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: لا زَکاۃَ فِی مَالٍ حَتّیٰ یَحُولَ عَلَیہِ الحَولَ۔ ( ابن ماجہ: ۱۷۹۲) ‘‘مال میں اس وقت زکوٰة ہے جب اس پر ایک برس گزر جائے۔’’
اس سے معلوم ہوا کہ جب بھی کسی مال پر ایک برس گزرے گا، اس پر زکوٰة فرض ہوگی۔
سوال: صاحب نصاب کس کو کہتے ہیں؟ زکوة کس شخص پر واجب ہے؟
جواب: مال کی جس مقدار پر زکوٰة فرض ہوتی ہے اسے نصاب کہتے ہیں اور جس شخص کے پاس اتنا مال ہو جتنے پر زکوة فرض ہوجاتی ہے اسے صاحب نصاب کہا جاتا ہے۔
زکوٰة کا نصاب سونے اور چاندی میں متعین کیا گیا ہے:
سونے کا نصاب ۲۰؍ مثقال ( یعنی ساڑھے سات تولہ)ہے۔ یہ موجودہ دور میں ۸۵؍ گرام کے بقدر ہے۔
چاندی کا نصاب ۲۰۰؍ درہم( یعنی ساڑھے باون تولہ) ہے۔ یہ موجودہ دور میں ۵۹۵؍ گرام کے بقدر ہے۔
حدیث میں سونا اور چاندی دونوں کا نصاب بتایا گیا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے میں ۲۰؍ مثقال سونے کی مالیت ۲۰۰؍ درہم کی مالیت کے بقدر تھی، لیکن آہستہ آہستہ دونوں میں کافی تفاوت ہوگیا ہے۔
نقد رقم کا نصاب متعین کرنے کے لیے علما نے چاندی کے نصاب کو معیار( Standard) مانا ہے۔یعنی اگر کسی کے پاس اتنی رقم سال بھر تک رہے جو ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو تو اسے صاحب نصاب مانا جائے گا۔
بعض علما کہتے ہیں کہ موجودہ دور میں، جب کہ سونا اور چاندی کی قیمتوں میں بہت زیادہ تفاوت ہوگیا ہے اور بہت سے غریب لوگوں کے پاس بھی چاندی کا نصاب پورا ہوجاتا ہے،سونے کے نصاب کو اسٹینڈرڈ بنانا چاہیے۔ ان کی یہ تجویز معقول معلوم ہوتی ہے۔
سوال: زکوة کن کن چیزوں پر نکالنا ضروری ہے؟
جواب: زکوٰة ‘مال نامی ’( یعنی بڑھنے والے مال )پر فرض کی گئی ہے:
(۱) سونا، چاندی اور ان سے بنی ہوئی چیزیں، جیسے زیورات، برتن،سکّے وغیرہ۔
ان چیزوں کو اسلام میں تجارت کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے ان پر ہر صورت میں زکوٰة لازم ہے، چاہے کوئی ان کے زیورات بنا کر رکھے، یا انھیں ٹکڑوں کی شکل میں محفوظ کرلے۔
(۲) نقد رقم، خواہ کرنسی کی شکل میں ہو، یا سرٹیفکٹ، بانڈ وغیرہ کی شکل میں۔
(۳) مال تجارت۔
اگر کوئی شخص کسی کارخانے کا مالک ہے تو اس کی ان مصنوعات پر بھی زکوة عائد ہوگی جو ابھی فروخت نہیں ہوئی ہیں اور جن کا ابھی اسٹاک موجود ہے۔
اگر کوئی شخص کسی دکان کا مالک ہے تو اس میں موجود تمام اموال تجارت پر زکوٰة ادا کرنی ہوگی۔
کارخانے میں لگی ہوئی مشینوں اور سامان تیارکرنے والے آلات پرزکوٰة نہیں ہے۔
مکان، زمین،جائیداد اگر تجارتی مقصد سے نہ ہوں تو ان پر زکوٰة نہیں ہے۔
کسی شخص کے پاس کئی مکانات ہوں اور انہیںاس نے کرایے پر اٹھا رکھا ہو، یا کچھ دوسری چیزیں ہوں جنھیں کرایے پر چلاتا ہو تو ان پر زکوٰة نہیں ہے۔ ہاں، اگربطور کرایہ حاصل ہونے والی رقم، تنہا یا دوسری رقموں کے ساتھ مل کر،نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر ایک سال گزر جائے تو زکوٰة عائد ہوگی۔
ذاتی استعمال کی چیزوں، مثلاً گاڑی،فرنیچر، برتن،کپڑوں وغیرہ پر زکوٰة نہیں ہے۔
(۴) جانور، جو تجارت کی غرض سے پالے گئے ہوں۔(اونٹ، گائے بھینس اور بکریوں وغیرہ کا الگ الگ نصاب ہے۔)
(۵) زمین کی پیداوار، خواہ غلّہ ہو یا پھل، ترکاری وغیرہ۔
اس پر عائد ہونے والی زکوٰة کو عُشر یا نصف عُشر کہتے ہیں۔اگر پیداواربارش کے پانی سے یا بغیر سینچائی کے ہوئی ہو تو اس پر عُشر (یعنی 10%) نکالا جائے گا اور اگر سینچائی کی گئی ہو تو نصف عُشر(یعنی 20%)ا دا کرنا ہوگا۔
سوال:کیازکوٰة سونا، چاندی، پیسہ، زمین جائیداد کی الگ الگ نکالنا چاہیے؟
جواب: سونا چاندی کا الگ الگ نصاب ہے۔
پیسہ اور زمین جائیداد(اگر تجارت کے لیے ہو) تو اس کی زکوٰة نکالنے کے لیے علما نے چاندی کو معیار مانا ہے۔
اگر کسی شخص کے پاس کوئی مال نصاب کو نہ پہنچتا ہو، نصاب سے کم ہو توبعض علما کے نزدیک اس پر زکوٰة نہیں۔
اس سلسلے میں علمائے احناف کا مفتیٰ بہ قول یہ ہے کہ سب کی قیمت نکالی جائے گی۔ اگر ان سب کی مالیت چاندی کے نصاب کے برابر پہنچ جائے تو اسے صاحب نصاب مانا جائے گا اور اس پر زکوٰة فرض ہوگی۔
سوال: زکوٰة نکالنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟
جواب: زکوٰة ڈھائی فی صد (یعنی مال کا چالیسواں حصہ) نکالی جاتی ہے۔
وجوب زکوٰة کے لیے شرط ہے کہ مال آدمی کی بنیادی ضروریات سے زائد ہو۔
بنیادی ضروریات میں یہ چیزیں داخل ہیں:
(۱) اپنے اور اپنے اہل و عیال نیز زیر کفالت افراد سے متعلق روز مرّہ کے اخراجات۔
(۲) رہائشی مکان، کپڑے، سواری، صنعتی آلات، مشینیں اور دیگر وسائل رزق، جن کے ذریعے کوئی شخص اپنی روزی کماتا ہے۔
(۳) بنیادی ضروریات ہر زمانہ، علاقہ اور افراد کے حالات اور ان کے معیار زندگی کی روشنی میں طے ہوں گی۔
(۴) صرف سال بھر کے اخراجات کا اعتبار ہوگا۔
زکوٰة واجب ہونے کے لیے دوسری شرط یہ ہے کہ مال اس کے مالک کے پاس ایک سال تک رہا ہو۔اگر سال کی ابتدا میں اتنی رقم تھی جس پر زکوٰة واجب ہوتی تھی، لیکن سال پورا ہونے سے پہلے وہ ختم ہوگئی تو اس پر زکوٰة نہیں عائد ہوگی۔ اگر سال کے شروع میں زکوٰة واجب ہونے کے بقدر رقم تھی،درمیان میں کم ہوگئی، لیکن سال کے آخر میں پھر اتنی رقم آگئی جس پر زکوٰة عائد ہوتی ہے تو درمیان کے چند مہینوں میں رقم کم ہونے سے زکوٰة ساقط نہیں ہوگی۔مثلاً اگر کسی شخص کے پاس سال کے شروع میں پچاس ہزار روپے تھے اورسال کے آخر میں ستّر ہزار روپے ہوگئے تو اسے ستّر ہزار روپے کی زکوٰة ادا کرنی ہوگی۔
سوال: زکوة کے مستحقین کون لوگ ہیں؟
جواب: زکوٰة کے مستحقین کا تذکرہ قرآن مجید میں صراحت سے کردیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِینِ وَالْعَامِلِینَ عَلَیهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغَارِمِینَ وَفِی سَبِیلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِیلِ فَرِیضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِیمٌ حَكِیمٌ ( النساء: ۶۰)
‘‘ (فرض )صدقات تو در اصل فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہیں اور ان لوگوں کے لیے جو صدقات کے کام پر مامور ہوں اور ان کے لیے جن کی تالیف قلب مطلوب ہو، نیز یہ گردنوں کے چھڑانے اور قرض داروں کی مدد کرنے میں اور اللہ کی رہ میں اور مسافر نوازی میں استعمال کرنے کے لیے ہیں۔ ایک فریضہ ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ سب کچھ جاننے والا ہے اور دانا اور بینا ہے۔’’
فقیر اور مسکین میں تھوڑا فرق ہے۔ فقیر سے مراد وہ شخص ہے جو بالکل خالی ہاتھ نہ ہو، لیکن اپنی ضرورت کے لیے دوسرے کا محتاج ہو۔ مسکین وہ شخص ہے جو بالکل تہی دست ہو اور روزی کمانے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو، مثلاً معذور، بوڑھا، بے سہارا، یتیم، بیوہ وغیرہ۔
‘وَ فِی الرقابِ’ سے مراد غلام ہیں۔ آج کے دور میں جو بے گناہ ظالمانہ طریقے سے قید و بند میں مبتلا ہیں وہ بھی اس کے مستحق ہیں۔
‘فی سبیل اللہ’ کو جہاد کے معنیٰ میں خاص کیا گیا تھا۔لیکن بعض معاصرعلما دعوت الیٰ اللہ، اشاعت دین، داعیوں کی تیاری اور اسلام پر کیے جانے والے اعتراضات کا جواب دینے اورسازشوں کا توڑ کرنے لیے انجام دی جانے والی سرگرمیوں کو بھی زکوٰة کا مصرف قرار دیتے ہیں۔
سوال: زکوٰة مستحقین تک پہنچانے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟
جواب: زکوٰة جس پر فرض ہے اسے ادا کرنے کی فکر کرنی چاہیے۔ صاحب نصاب کو گھر بیٹھے انتظار نہیں کرنا چاہیے کہ کوئی غریب آئے گا اور ہاتھ پھیلائے گا تب اسے کچھ دے دیں گے،بلکہ غریب اور مستحق لوگوں کو تلاش کرکے انھیں زکوٰة دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔ سماج میں بہت سے افراد ( مرد و خواتین) ضرورت مند، لیکن وہ اپنی غیرت کے مارے ہاتھ پھیلانا پسند نہیں کرتے۔ اصحاب ثروت کی ذمے داری ہے کہ ان کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کی کوشش کریں۔
زکوٰة انفرادی طور پر ادا کی جا سکتی ہے اور اس کے جمع و صرف کا اجتماعی نظم بھی کیا جا سکتا ہے، بلکہ موجودہ زمانے میں زکوٰة کا اجتماعی نظم قائم کرنا پسندیدہ اور مطلوب ہے۔تمام عبادات میں اجتماعیت کی روح پائی جاتی ہے۔ اسی طرح زکوٰة کی ادائیگی بھی اجتماعی طور پر کی جانی چاہیے۔
ادائیگی زکوٰة کے حکم کےساتھ مختلف احتیاطی تدابیر بتائی گئی ہیں۔مثلاً کسی کوزکوٰة دے کر اس پر احسان نہ جتایا جائے، اس سے بدلہ یا شکریہ کی خواہش نہ رکھی جائے، نمود و نمائش اور ریاکاری سے بچا جائے۔ زکوٰة کا اجتماعی نظم انسان کو ایسی تمام خامیوں سے بچاتا ہے۔
موجودہ دور میں بہت سے مسلمانوں کو زکوٰة کے اجتماعی نظام کی اہمیت کا احساس نہیں ہے۔ جو مال دار مسلمان زکوٰة کو ایک دینی فرض سمجھ کر ادا کرنا چاہتے ہیں ان میں سے بڑی تعداد اپنی دولت کا ٹھیک ٹھیک حساب کرکے زکوٰة نہیں نکالتی۔ اور جو حساب کرکے پوری زکوٰةنکالتے ہیں ان کی اکثریت اسے اپنی صواب دید پر خرچ کردیتی ہے۔اگر مسلمان صحیح طریقے سے زکوٰة کا اجتماعی نظام قائم کرلیں اور احکام شریعت کے مطابق اس کے جمع و تقسیم کی منصوبہ بندی کریں تو ان کے بہت سے مسائل حل ہوجائیں گے اور ان کی معاشی ترقی میں مدد ملے گی۔
سوال:کیازکوٰة مسجد، مدرسہ، والدین، بھائی بہن کو دی جاسکتی ہے؟
جواب: زکوٰة مسجد کی تعمیر یا اس کی ضروریات میں نہیں دی جا سکتی۔
زکوٰة مدرسہ کی عمارتوں کی تعمیر میں بھی نہیں دی جا سکتی۔ اسی طرح دیگر انتظامی ضروریات میں بھی نہیں خرچ کی جاسکتی۔
ہاں مدرسہ کے غریب بچوں کی تعلیم، کھانے پینے اور دیگر ضروریات میں اسے خرچ کیا جاسکتا ہے۔
زکوٰة اصول اور فروع کو نہیں دی جا سکتی۔‘اصول’ سے مراد ماں باپ،دادا دادی،نانا نانی وغیرہ اور‘فروع’ سے مراد بیٹا بیٹی، پوتا پوتی، نواسا نواسی وغیرہ ہیں۔
زکوٰة غریب بھائی بہن اور دوسرے رشتے داروںکو دی جا سکتی ہے۔
سوال:کیا کسی غریب سیدکوزکوٰة دی جا سکتی ہے؟
جواب: حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: إِنَّ الصَّدَقَۃَ لَا تَنْبَغِی لِآلِ مُحَمَّدٍ، إِنَّمَا ھِی أوْسَاخُ النَّاسِ ( مسلم: ۱۰۷۲)‘‘صدقہ (یعنی زکوٰة) آل محمدؐ کے لیے جائز نہیں ہے۔ یہ لوگوں کا میل کچیل ہے۔’’
اس سے فقہا نے یہ استنباط کیا ہے کہ سادات( یعنی خاندان بنو ہاشم) کو زکوٰة نہیں دی جا سکتی۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ حرمت بنو ہاشم کے اعزاز و اکرام کی وجہ سے ہے۔
البتہ بعض فقہا کا خیال ہے کہ سادات(بنو ہاشم )کو زکوٰة دینے کی حرمت صرف عہدِ نبوی کے لیے تھی، جب مالِ غنیمت میں ’خُمس’ یعنی پانچواں حصہ اللہ کے رسولﷺ اور آپ کے خاندان والوں کے لیے خاص تھا۔ لیکن جب یہ حصہ ختم ہو گیا تو اب دوسرے غریب مسلمانوں کی طرح غریب سادات کو بھی زکوٰة دی جا سکتی ہے۔
سوال:کیا قرض دارکوبھی زکوة دی جا سکتی ہے؟
جواب: قرآن مجید میں زکوٰة کے جو مصارف بیان کیے گئے ہیں ان میں سے ایک ‘غارمین’ ہے۔ اس سے مراد قرض دار لوگ ہیں،یعنی وہ لوگ جو قرض کے بوجھ سے دبے ہوئے ہیں۔
قرض چاہے جس مقصد سے لیا گیا ہو،مکان بنانے کے لیے، یا تجارت کے لیے، یا علاج معالجہ کے لیے، یا بیٹی کی شادی کے لیے،یا کسی اور کام کے لیے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کسی شخص پر بھاری قرض ہو، کوشش کے باوجود وہ اسے ادا نہ کرپارہا ہو، تو اسلام کی نظر میں وہ اس بات کا مستحق ہے کہ دوسرے مال دار مسلمان اس کی مدد کریں۔ ایسے شخص کی مدد زکوٰة سے بھی کی جا سکتی ہے۔
سوال:کیازکوٰة کسی ضرورت مند کی شادی کے لیے دی جاسکتی ہے؟
جواب: زکوٰة کسی غریب کو اس کی کسی بھی ضرورت کے لیے دی جا سکتی ہے۔وہ اور اس کے گھر والے فاقے سے دوچار ہوں تو انھیں کھانے پینے کی چیزیں دی جا سکتی ہیں۔ اس کے پاس روزی کمانے کے لیے کچھ نہ ہو تو اسے کچھ مال دے کر روزگار سے لگایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اس کی لڑکی سیانی ہو رہی ہو اوربہت زیادہ غربت کی وجہ سے اس کی شادی نہ ہوپارہی ہو تواس میں مدد کے لیے بھی زکوٰة دی جا سکتی ہے۔
شادی میں مدد کے لیے زکوٰة نقد رقم کی صورت میں دی جا سکتی ہے اور کوئی سامان خرید کر بھی دیا جا سکتا ہے۔
آج کل شادیوں میں بہت زیادہ فضول خرچی کی جانے لگی ہے۔ مُسرفانہ رسوم و روایات پر عمل کوضروری سمجھا جاتا ہے۔ ویسے بھی ان رسوم سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے اور دوسروں کو ان سے اجتناب کرنے کی تلقین کرنی چاہیے۔ لیکن ان رسوم کی انجام دہی کے لیے زکوٰة دینی مناسب نہیں ہے۔ ہاں شادی کے ضروری مصارف کے لیے زکوٰة کے ذریعے تعاون کیا جا سکتا ہے۔
سوال:کیازکوٰة قسطوں میں دی جاسکتی ہے؟ اگر ہاں تو اس کا حساب لگانے کا کیا طریقہ ہے؟
جواب: زکوٰةیک مشت نکالی جا سکتی ہے اور قسطوں میں بھی۔
قسطوں میں زکوٰة نکالنے کا ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ اپنے پورے مال کا حساب کرکے جتنی زکوٰة واجب ہوئی ہو اسے الگ کرلیا جائے،یا اگر پوری رقم بینک میں ہو تو زکوٰة کی رقم کو الگ نوٹ کرلیا جائے اور اس میں سے حسب ضرورت و موقع تھوڑا تھوڑا خرچ کیا جائے، یہاں تک کہ پوری رقم خرچ ہوجائے۔
اس کا دوسرا طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ سال مکمل ہونے سے پہلے، آدمی حسب ضرورت زکوٰة نکالتا رہے۔ جب وہ کسی غریب کو کچھ مال دے تو نیت کرلے کہ میں یہ مال بطورزکوٰة دے رہا ہوں۔ سال مکمل ہونے پر حساب کرلے کہ اس پر کتنی زکوٰة واجب ہوئی ہے۔ حساب ہونے پر اگر زکوٰة کی کچھ رقم اس کے پاس بچ رہے تو اسے بھی نکال دے اور اگر وہ زیادہ زکوٰة نکال چکا ہو تو زائد رقم کو اگلے سال کی زکوٰة میں شمار کرلے۔
سوال:کیا زکوٰة کو ماہ رمضان میں ادا کرنا ضروری ہے،یا بعد رمضان بھی دینے سے ادا ہو جاتی ہے؟
جواب: کسی مال پر جب ایک سال گزر جائے تب اس پر زکوٰة واجب ہوجاتی ہے۔ کوئی شخص چاہے تو سال مکمل ہونے سے پہلے بھی ایڈوانس اس کی زکوٰة نکال سکتا ہے۔ اور زکوٰة واجب ہونے کے کچھ دنوں کے بعد بھی نکالنے کی گنجائش ہے۔
کوئی شخص چاہے تو زکوٰة نکالنے کے لیے رمضان المبارک کی کوئی تاریخ متعین کر سکتا ہے۔ خلیفۂ سوم حضرت عثمان بن عفانؓ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ اپنی زکوٰة رمضان المبارک میں نکالا کرتے تھے۔
بہر حال زکوٰة ماہ رمضان میں نکالنا ضروری نہیں۔ جیسے ہی اس کے صاحب نصاب ہونے پرایک سال پورا ہوتا ہے، اس پر زکوٰة واجب ہوجاتی ہے۔
سوال:کیا زکوٰة کی رقم کسی کوبغیر بتائے کہ یہ زکوٰة ہے، دی جاسکتی ہے؟
جواب: جس شخص کو زکوٰة دی جائے اسے بتانا ضروری نہیں کہ یہ زکوٰة ہے، بلکہ نہ بتانا بہتر ہے۔ زکوٰة کسی بھی نام سے دی جا سکتی ہے، جیسے ہدیہ،عیدی، بچوں کی ٹیوشن فیس۔
البتہ جو شخص زکوٰة دے رہا ہے اس کے لیے زکوٰة کی ادائیگی کرتے وقت اس کی نیت کرنی ضروری ہے۔
کوئی شخص کسی کو کچھ مال دے دے، پھر بعد میں اسے زکوٰة میں شمار کرنے لگے توایسا کرنا درست نہ ہوگا۔ اس سے اس کے ذمّے لازم زکوٰة ادا نہ سمجھی جائے گی۔ n
مشمولہ: شمارہ جولائی 2023