بغیر متن کے تر جمہ ٔ قرآن کی اشاعت:
قرآن فہمی کے لئے عر بی کے علا وہ دوسری زبا نوں میں قرآن کی اشاعت ،پیغام الہی کی تبلیغ کا خو بصورت دھوکہ ہے۔ کیو ں کہ اس کے ذریعہ ایک طرف لوگ با لوا سطہ طو ر پرپیغام الہی کو سمجھیں گے ،دوسری طرف قرآن سے دور بھی ہو جا ئیںگے ۔ اسی طرح تر جمہ قرآن کی اشاعت سے ،منزل من اللہ کتاب الہی ’’ قر آن‘‘ پس پشت چلی جا ئے گی ۔یو رپ میںاشاعتِ اسلام کی ایک وجہ ،مسلمانوں او ر فضلائے اسلام کا براہ راست عربی مصادر سے اسلام کی معلومات حاصل کر کے مخا طب اقوام کی زبان میں اسلام کوپیش کر نا ہے۔
غیرعر بی میں قرآن کی اشا عت کی مما نعت پر صا حب در المحتار اور علامہ ابن عا بدین ؒشامی کی تحقیقات ِفقہیہ درج ذیل ہیں :
’’ اور غیر عر بی رسم الخط میں قرآن کی ایک آ یت یا دو آ یتیں لکھنا جا ئز ہے اور اس سے زیا دہ لکھنا جا ئز نہیں ہے۔ اور قرآ نی آ یات کے نیچے قرآن کی تفسیرلکھنا مکروہ ہے۔ علا مہ شا میؒ فر ما تے ہیں کہ کا فی کے حو الے سے فتح میں ہے کہ قرآن کو کسی دوسری زبان(مثلاً فا رسی) میں تلا وت کی عا د ت کر لینے سے روکا جا ئے گا۔ اور ایک یا دو آ یتوں میں کوئی ایسا کرے تو نہیں روکا جا ئے گا ۔ اور اگر قرآن کو لکھا جا ئے اور اس کے ساتھ ہر حرف کی تفسیر اور تر جمہ لکھا جائے تویہ جا ئز ہے ۔ آ گے صا حب ِ رد المحتا ر کا رد کر تے ہو ئے فر ما تے ہیں کہ میں نے جو با ت ابھی کہی ،رد المحتا ر کی عبا رت اس کے مخا لف ہے۔ لیکن اس کے بر خلا ف میں نے مجتبی کے حوا لے سے خزائن کے حا شیہ میں میں شا رح کی تحریر دیکھی ہے ۔ وہ اس طرح ہے : اور قرآن میں فارسی زبان میں تفسیر لکھنامکروہ ہے جیسا کہ بعض لوگوں نے اس کی عا دت بنا لی ہے ۔ اور اما م ہندوا نی ؒنے قرآن میں تفسیر لکھنے کی اجا زت دی ہے۔ اور یہاں فا رسی زبان کا تذکرہ اتفا قی ہے ورنہ کسی بھی زبان میں قرآن کی تفسیر کے تعلق سے یہی مسئلہ ہے۔‘‘ ( الشا میہ مع الرد ص ۱۸۷؍ جلد شا نی ۔ زکریا(
مندرج بالا سطور میں ، عربی نسخۂ قرآن کے ساتھ ترجمہ اور تفسیر لکھنے میں بھی مما نعت اور عدم مما نعت کی صرا حت مو جو د ہے ایسی صورت میں عربی عبارات ِقر آ نی کو ترک کر کے غیر عر بی میں تر جمہ قرآن کی اشاعت بدر جہ اولی ممنو ع ہو گی ۔غیر عر بی زبان میں لکھا ہو ا نسخہ ٔ قرآن ، قرآن کی تعریف سے خا رج ہو گا اس میں قرآن ی پیغا م کا کوئی حصہ تو ہو گا لیکن وہ قرآن نہیں ہو گا ۔
’’ وہ قرآن نام ہے جوخا ص نظم میںعربی الفا ظ میں اتا ر اگیاہے۔ اور مصا حف میں لکھا ہوا ہے۔ ہم تک توا تر کے ساتھ پہنچا ہے ۔ غیر عر بی میں اس قسم کے نظم سے خا لی نسخو ں کو ( یا الگ الگ نسخو ں کو)عجمی لوگ قرآن کہتے ہیں وہ حقیقی نہیں ہے بلکہ مجا زی طور پرکہا جا تا ہے ۔اسی لئے اگر اس سے قرآن کا نام ہٹا لیا جائے تو بھی درست ہے ۔‘‘( الشا میۃ ۱۸۴؍ جلد ثا نی۔ زکریا(
قر آ ن کی تعریف قرآن اور احا دیث رسو ل ﷺ کے مطابق ہے ۔ مثا ل کے طور پرقر آ ن مجید کی چند آ یا ت درج ذیل ہیں :
الۗرٰ۰ۣ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ۱ۣ اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ قُرْءٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ۲ (سور ہ یو سف پ ۱۲(
’’ الر، یہ اُ س کتاب کی آ یتیں ہیں جو حق وا ضح کر نے والی ہے،ہم نے اِ س کو ایسا قرآن بناکر اتارا ہے جو عر بی زبان میں ہے ،تا کہ تم سمجھ سکو۔‘‘(تر جمہ مفتی محمد تقی عثما نی مدظلہ(
اسی طر ح سورہ حم سجدہ میں ارشاد ہوا:
حٰـمۗ۱ۚ تَنْزِيْلٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۲ۚ كِتٰبٌ فُصِّلَتْ اٰيٰتُہٗ قُرْاٰنًا عَرَبِيًّا لِّــقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ۳ۙ (حم سجدہ، پ۲۴(
’’حم، یہ کلام اُس ذات کی طرف سے نازل کیا جا رہا ہے جو سب پر مہر بان، بہت مہربان ہے،عربی قرآن کی شکل میں یہ وہ کتاب ہے جس کی آ یتیں علم حاصل کر نے والوں کے لئے تفصیل سے بیان کی گئی ہیں۔‘‘(تر جمہ مفتی محمد تقی عثما نی مدظلہ(
دوسری جگہ ارشا د فر مایا گیا :
’’حم، قسم ہے اس وا ضح کتا ب کی،ہم نے اسے عربی زبان کا قرآن بنا یا ہے ، تاکہ تم سمجھو۔‘‘ (الزخرف پ ۲۵)،تر جمہ مفتی محمد تقی عثما نی مدظلہ(
سورہ نحل میں فر ما یا:
’’ کہہ دو: ’ یہ (قر آ ن کریم) تو روح القدس( یعنی جبریل علیہ السلام) تمہارے رَبّ کی طرف سے ٹھیک ٹھیک لے آ ئے ہیں ، تا کہ وہ ایمان والوں کو ثا بت قدم رکھے، اور مسلمانوں کے لئے ہدا یت اور خو ش خبری کا ساما ن ہو،{۱۰۲} اور (اے پیغمبر!) ہمیں معلوم ہے کہ یہ لوگ (تمہارے با رے میں) یہ کہتے ہیں کہ: ’ ان کو تو انسان سکھا تا پڑھاتا ہے ۔‘ ( حا لاںکہ) جس کا یہ حو الہ دے رہے ہیں، اُ س کی زبان عجمی ہے۔اور (یہ قرآن کی زبان) صا ف عر بی زبان ہے۔‘‘(النحل پ۱۴(
حا شیہ:مکہ مکر مہ میں ایک لو ہا ر تھا جو آ نحضرت ﷺ کی با توں کو دل لگا کر سنا کر تا تھا اس لئے آ پ ﷺ کبھی کبھی اس کے پا س تشریف لے جا یا کر تے تھے اوروہ کبھی کبھی آ پ کو اِنجیل کی کوئی بات بھی سنا دیا کر تا تھا، مکہ مکرمہ کے بعض کا فروں نے اس کو بنیاد بنا کر یہ کہنا شروع کر دیا کہ آ ں حضرت ﷺ یہ قرآن اس لو ہا ر سے سیکھتے ہیں۔ یہ آیت کریمہ اس اعتراض کی لغویت کو بیان کر رہی ہے کہ وہ بے چا رہ لوہار تو عرب نہیں ہے، عجمی ہے ۔ وہ عر بی زبان کے اس فصیح وبلیغ کلام کا مصنف کیسے ہو سکتا ہے۔(تو ضیح القر آ ن ص۸۴۴؍۸۴۵؍ تر جمہ و تفسیر از مفتی محمد تقی عثما نی مدظلہ(
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰى۳ۭ اِنْ ہُوَاِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى۴ۙ (سورہ النجم پ ۲۷(
’’ اور یہ اپنی خو اہش سے کچھ نہیں بو لتے، یہ تو خا لص و حی ہے جو ان کے پاس بھیجی جا تی ہے۔‘‘(تر جمہ مفتی محمد تقی عثما نی مدظلہ(
دوسری جگہ فر ما یا کہ قرآن کے الفا ظ، رسو ل اللہ ﷺ کے نہیں ہیں ۔ بلکہ وہ اللہ کی طرف سے مقر ر کر دہ ہیں۔
حضرت رسو ل اللہ ﷺ نے اپنی طرف عر بی میں کوئی آ میز ش نہیں فر مائی ہے :
’’ اور یہ کسی شا عر کا کلام نہیں ہے۔( مگر)تم اِیمان تھو ڑا ہی لا تے ہو،اور نہ یہ کسی کاہن کا کلا م ہے ،(مگر) تم سبق تھو ڑا ہی لیتے ہو۔یہ کلام تمام جہا نوں کے پرور دگار کی طرف سے اتا را جا رہا ہے،اور اگر ( با لفرض) یہ پیغمبر کچھ (جھوٹی) با تیں بنا کر ہما ری طرف منسوب کر دیتے،تو ہم ان کا داہنا ہا تھ پکڑتے،اور پھر ہم ان کی شہہ رَگ کا ٹ دیتےپھر تم میں کوئی نہ ہو تا جو ان کے بچاؤ کے لئے آ ڑے آ سکتا۔ ‘‘(الحا قہ پ۲۹ ،تر جمہ مفتی محمد تقی عثما نی مدظلہ(
یہاں الفاظِ قرآن میں اللہ کے سوا کسی انسان و فر شتہ حتی کہ رسول للہ ﷺ کو اپنی طرف سے عر بی الفا ظ میں تر جما نی یا آمیزش پر یہ سخت تہدید اور و عید سنائی جارہی ہے ۔ اور یہ یقینی بات ہے قرآن کو دوسری زبان میں تر جمہ کر نے میں سو فیصد انسا نی علم اور فہم کا ہی اثر ہو تا ہے اور الفا ظ سارے کے سا رے انسا ن ہی کے ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں عر بی سے معری ،متر جم قرآ ن کو ’’قر آ ن‘‘ سے مو سو م کر نا ایسی جسا رت ہوگی۔ جس کی اجازت خو د رسو ل اللہ ﷺ کو بھی نہیں تھی۔ بریں بنا بغیر متن کے قرآن کی اشاعت ممنوع اور گنا ہ ہے۔ چوں کہ تر جمہ قرآن بھی قرآ نی احکاما ت پر مشتمل ہے اس لئے اسے خریدنے اور تقسیم اور ہدیہ کر نے کی گنجا ئش ہے ۔
غیر مسلموں کو قرآن دینا
قرآن تما م انسانوں کی ہدا یت اور رہ نما ئی کا وا حد کا میاب ذریعہ ہے اس لئے اس کی تعلیمات تما م انسانوں تک پہنچا نا مسلمانوںکی دینی ذمہ داری ہے ۔ اس کی تعلیما ت، مختلف موضو عا ت اور عنوا نات کے تحت غیر مسلموں تک پہنچا ئی جا سکتی ہیں ، لیکن براہ راست قرآن سے اگر کو ئی غیر مسلم استفادہ کر نا چا ہے ۔تو اس کو عر بی سے معری خا لص تر جمہ قرآن دینا درست نہیں ہے ۔کیوں کہ خا لص تر جمہ قرآن ، قرآن نہیں ہے ۔ اس کو ایسا قرآ ن دیا جا ئے جس میں عر بی رسم الخط میں ’’کلام ِ الہی‘‘ ہو اور مخا طب کی زبان میں اس کا عمدہ اور فصیح تر جمہ ہو۔ اور ساتھ میں مختصر یا مفصل تشریح! اب مسئلہ یہ پیدا ہو تا ہے کہ عر بی رسم الخط میں قرآن غیر مسلموں کو دینا اہا نت کا باعث ہو سکتا ہے ۔اسی مظنہ کے پیش نظر بعض فقہاء نے عام حالات میں بھی غیرمسلموں کو قرآن دینے اور انھیں نسخہ ٔ قرآن خریدنے سے منع فر ما یا ہے لیکن امام محمد رحمۃ ا للہ علیہ نے غسل کے بعد کافر کو قرآ ن دینا جا ئز فر ما یا ہے ۔
’’ کا فر اگر کسی مسلمان غلام یا نسخۂ قرآن کو خریدے تو ہما رے نزدیک یہ خریداری نا فذ ہو گی ۔اس میں امام شا فعیؒ کا اختلاف ہے۔(۲) البتہ اس کا فر کو مجبور کیا جا ئے گا کہ وہ مسلم غلام یا قرآن کو کسی مسلمان سے فروخت کر دے۔ ‘ ‘ ( مختا را ت النوا زل جلد ۳؍ ص۲۸۶؍ ایفا پبلیکیشنز دہلی(
درمختار میں ہے :
’’ نصرانی کو قرآن مجید کے چھونے سے منع کیا جا ئے گا۔ اما م محمد ؒ نے اسے قرآن مجید چھو نے کو جا ئز کہا ہے ۔ اور نصرانی( وغیرہ) کو قرآن یا فقہہ کی تعلیم دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ اس سے اس کو ہدا یت مل جا ئے۔ علا مہ شامی ؒ کہتے ہیں کہ یہاںنصرانی کو منع کر نے کا تذکرہ ہے جب کہ بعض نسخوں میں نصرا نی کے بجائے’ کا فر‘ لفظ ہے اور فتا وی خا نیہ میں ’حربی اور ذمی‘ ہے (حربی کا مطلب ایسا کا فر ہے جو اسلام اور مسلما نوں کے خلا ف مصلح جنگ میں مصروف پیکا ر رہتا ہو اور ذمی کا مطلب ایسا کا فر ہے جو اسلامی ریا ست میں حکومتِ اسلامی کی حفا ظت میں رہتا ہو۔اشرف ) پھر شا می کہتے ہیں صا حبِ در اور رَد ،نے جو نصرا نی کو قرآن چھو نے سے منع کیا ہے اس میں حربی ذمی اور کا فر کی کوئی قید نہیں ہے۔ آ گے پھر،غسل کے بعد کا فر کا نسخۂ قرآن ،چھونے کے با رے میں امام محمد ؒ کے قو ل کی تو جیہ پیش کر تے ہو ئے کہتے ہیںکہ۔ ’ فتا وی خانیہ میں بغیر کسی اختلاف کے امام محمدؒ کے اس قول پر جزم اور اعتما د کیا گیا ہے‘ اور بحرالرائق میں کہا گیا ہے کہ ’شیخین ؒ کے نزدیک ہر قسم کے کا فر کو خو اہ وہ نصرانی ہو یا حربی یا ذمی ہو قرآن چھونے سے منع کیا جائے گا۔ ‘‘ ( الرد مع الشا میہ جلد اول ص۳۲۱(
حضرت امام محمد ؒ کے موقف کی تا ئیدحضرت عمرؓ کے ایما ن لا نے وا لے وا قعے سے ہو تی ہے ۔حضرت عمر ؓنے قرآن کو ایسے موقع پر طلب کیا جب کہ ان کی سا ری عداوت قرآن سے تھی اور عداوت اور غضب اپنے انتہا کوپہنچی ہو تی تھی ۔اسی کتا ب کی آ وا ز سن کر حضرت عمرؓبے قا بو ہو گئے۔ بہن بہنو ئی کی بنا ؤ ٹی با توں کو ما ننے کے بجا ئے ما ر پیٹ پرآ ما دہ ہو گئے ۔ آ خر بہن بہنو ئی سے خو ب ما ر پیٹ کر نے کے بعد بہن کے استقلا ل کو دیکھتے ہو ئے اُس کلام کو ما نگا تو بہن نے غسل کر نے کو کہا۔ابھی حضرت عمر ؓ حا لت ِکفر میں تھے۔ غسل کے بعداسی کفریہ حا لت میں وہ نسخہ ٔ قرآن حضرت عمرؓکو دیا۔یہ واقعہ تین اصحا ب رسول ﷺ کے سامنے ہوا ۔اگر کسی کا فر کو قرآن دینا نا جا ئزہو تاتو غیظ و غضب میں بھرے انؓ جیسے کفر کی حا لت وا لے شخص کو بدر جہ ٔ اولی منع ہو نا چا ہئے ۔لیکن ان تینوں اصحا ب ؓ رسول نے حضرت عمر کو نسخہ ٗ قرآن دینے سے انکا ر نہیں کیا۔ اور غسل کے بعدعمرؓ کو صحیفہ د ے دیا ۔ذیل میں ان کے ایمان لا نے سے متعلق وا قعے کاایک اقتباس الرحیق المختوم مترجم اردو سے نقل کیا جاتا ہے۔
’’ایک روز خودجناب محمد رسول ﷺ کا کام تما م کر نے کی نیت سے تلوار لے کر نکل پڑے لیکن ابھی را ستے ہی میں تھے کہ نعیم ؓبن عبداللہ النحام عدوی (۶۷) سے یا بنی زہرہ (۶۸) یا بنی مخزوم (۶۹) کے کسی آ دمی سے ملا قا ت ہو گئی۔ اس نے تیورد یکھ کر پو چھا: عمر ؓکہاں کا ارادہ ہے ؟ انھوں نے کہا : محمد ﷺ کو قتل کرنے جا رہا ہوں ۔ اس نے کہا : عمر تمہا ری بہن بہنو ئی بھی تمہا را دین چھوڑ کربے دین ہو چکے ہیں ، یہ سن کر عمر غصے سے بے قابو ہو گئے اور سیدھے بہن بہنو ئی کارخ کیا ۔ وہاں انھیں حضرت خبابؓبن اَرَتّ سورہ طہٰ پر مشتمل ایک صحیفہ پڑھا رہے تھے۔ جب حضرت خبا ب ؓ نے حضرت عمر ؓ کی ا ٓ ہٹ سنی توگھر کے اندرچھپ گئے۔ ادھر حضرت عمر ؓ کی بہن فا طمہؓ نے صحیفہ چھپا دیا، لیکن عمرؓ گھرکے قریب پہنچ کر حضرت خباب ؓ کی قرأت سن چکے تھے، چنا نچہ پو چھا یہ کیسی دھیمی دھیمی سی آ واز تھی جو تم لوگوں کے پا س سے میں نے سنی تھی ؟ انہوں نے کہا کچھ بھی نہیں ! بس ہم آ پس میں با تیں کر رہے تھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا غالبًا تم دو نوںبے دین ہوچکے ہو ؟ بہنو ئی نے کہا : اچھا عمر! یہ بتا ؤ اگرحق تمہا رے دین کے بجائے اور دین میں ہو تو؟ حضرت عمر ؓ کا اتنا سننا تھا کہ اپنے بہنوئی پر چڑھ بیٹھے اور انھیں بری طرح کچل دیا۔ ان کی بہن نے لپک کر انھیں اپنے شو ہر سے الگ کیا تو بہن کو ایسا چانٹا مارا کہ چہرہ خو ن آ لود ہو گیا،کہنے لگے: اچھا یہ کتا ب جو تمہارے پاس ہے ذرا مجھے بھی پڑھنے کو دو بہن نے کہا ! تم نا پاک ہو ۔ اس کتاب کو صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں ۔ اٹھو غسل کرو۔ حضرت عمرؓ نے اٹھ کر غسل کیا۔ پھر کتا ب لی اور بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھی۔ کہنے لگے: یہ تو بڑے پا کیزہ نام ہیں ۔ اس کے بعد طہٰ سے اننیٓ اناا للہ لآ الٰہ الا انا فا عبدنی واقم الصلوٰۃ لذکری(۲۰۔۱تا۱۴) تک قرأت کی۔ کہنے لگے: یہ تو بڑا عمدہ اور بڑا محترم کلام ہے ۔ مجھے محمدﷺ کا پتا بتا ؤ!
حضرت خباب ؓ حضرت عمر کے فقرے سن کر اندر سے با ہر آ گئے ۔(۷۰)‘‘حوا شی وماٰ خذ(۶۷) ابن ہشام ۱/۳۴۴؍(۶۸)تاریخ عمر بن الخطاب لابن جو زی ص ۱۰؍ و مختصر السیرۃ از شیخ عبداللہ ص ۱۰۳ اگر کا فر کو قرآن دینے کی مما نعت ہو تی تو در با ر رسا لت سے کسی ہدا یت اور رہ نما ئی کے بغیر بھی یہ لو گ نسخۂ قر آن، عمرؓ کو نہ دینے کا فیصلہ کر تے ۔کیوں کہ صحا بہ عام انسانوں کی طرح نہیں بلکہ ناموس رسا لت مآ ب ﷺ اور عظمت قرآن کے لئے سب کچھ قر بان کر نے کے لئے صبحِ ازل میں منتخب اور من جا نب اللہ موفق تھے۔اللہ تعالی نے ان کے یہ اوصا ف چھو ٹی بڑی آسما نی کتابوں میں بیا ن کیا ۔جس کاذکر قرآن میں اس طر ح آ یا ہے۔
’’ محمد( ﷺ) اللہ کے رسول ہیں،اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں، وہ کا فروں کے مقابلے میں سخت ہیں،(اور) آ پس میں ایک دوسرے کے لئے رحم دل ہیں، تم انھیں دیکھو گے کہ کبھی رُکوع میں ہیں، کبھی سجدے میں ، (غرض) اللہ کے فضل اور خو شنو دی کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کی یہ علامتیںسجدے کے اثر سے اُن کے چہروں پر نما یاں ہیں ۔ یہ ہیں اُ ن کے وہ اوصا ف جو تورات میں مذکور ہیں ، اورا نجیل میں اُن کی مثال یہ ہے کہ…. ‘‘(الفتح پ۲۶،تر جمہ مفتی تقی عثمانی مد ظلہ(
ان نفوس قدسیہ نے اپنے اجتہاد سے کا م لے کر غسل کے بعد کا فر کو صحیفہ دیا اور ان کا یہ عمل حضرت عمرؓ کی ہدا یت اور اسلام کی تقویت کا باعث بنا۔
حضرت عمرؓ کے ایما ن لا نے والے واقعے سے معلوم ہو تا ہے غسل کے بعد قرآ ن ،غیر مسلم کو دیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ امام محمد کا مو قف ہے۔ غسل سے اصطلا حی اور شرعی غسل مراد نہیںہے بلکہ ظا ہری طور پر جسما نی پاکیز گی مقصود ہے ۔کیوں کہ فقہا ء کا اس بات پراتفا ق ہے کہ کا فر شرعی طور پر پاک ہو تا ہی نہیں ہے ۔ علا مہ شامی فر ما تے ہیں کہ
والتفقو ا علی ان الکا فر لا یطھر با لغسل( الشا میہ جلد اول ص ۳۶۷؍ زکریا(
’’ فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ کا فر غسل کے بعد بھی شرعی طور پا ک نہیں ہو تا ہے۔‘‘
اس لئے غیر مسلموںکو قرآن دینے سے قبل انھیں تر غیب دی جائے اور ذہنی طورپر انھیں قرآن کے مطا لعہ کے لئے تیا ر و آ ما دہ کیا جا ئے اور ایسے وقتوں اور مو قعوں پر انھیںقر آ ن دی جا ئے جب وہ صاف ستھرے ہوں ۔ اگر ان کی طر ف سے بے تو جہی یا استخفا فِ قرآن کا اندیشہ ہو تو اس اندیشہ کے ڈر سے قرآن کودو سری زبان میں بدل کر دینے کے بجائے مختلف مو ضو عا ت سے متعلق قرآن ی مضامین پر مشتمل کتا بچے انھیں دئے جا ئیں۔
بریل کوڈ میں قرآن کی کتابت:
بریل کو ڈ کی ایجاد ایک خدا ئی نعمت ہے ۔ اس کی ترقی اور تر ویج میں مسلمانوں کو بڑ ھ چڑھ کر حصہ لینا چا ہئے۔ یہ صرف بینا افراد کے لئے ہی مفید نہیں ہے۔ بلکہ اس کے ذ ریعہ نا بینوں کی تعلیمی صورت ِحا ل کی اصلا ح اور ترقی سے بینا افراد کو بھی ا پنے بہت سے کاموں میں مدد حا صل ہو گی ۔اسلا می نقطہ نظر سے بریل کو ڈ قا بلِ قدرتعلیمی ذریعہ ہے ۔ اس میں قرآن کی اشاعت سے متعلق بھی مسا ئل قا بل ِتو جہ ہیں۔ بریل کو ڈ چوں کہ کو ئی مستقل تحریر نہیں ہے بلکہ نقطے کو حرو ف کے قائم مقام ٹھہرا کر انھیں سے مفرد اورمرکب حروف فرض کئے جا تے ہیں۔ ان مرکب حروف سے الفا ظ اور کلمات مقرر ہو تے ہیں ۔ اگر اس میں مزید کو شش کی جا ئے تو عا م حروف والفا ظ اور جملے بنا ئے جا سکتے ہیں ۔ اس طرح کی کا میا بی حا صل کرنا اب کو ئی مشکل نہیں ہے ۔کیوں کہ مروجہ بریل کوڈمیں حروف نہیں ہو تے ہیں بلکہ محض نقطوں کے جو ڑ تو ڑ سے لٹریچر اور نصا بی کتب تیار کر لی گئیں ۔تو پہلے سے مو جود اور قائم حرو ف کو بدر جہ اولی نا بینا افراد کے لئے مفید بنا یا جا سکتا ہے ۔ وہ دینی تعلیمی ادارے جو بریل کوڈ کی مدد سے نا بینا افرادکو زیور تعلیم سے آ را ستہ کر رہے ہیں ۔ وہ اس عظیم اخترا عی کا م میںسبقت حا صل کر سکتے ہیں ۔اس لئے انھیں اللہ کانام لے کر اس کام کو عملی شکل دینے کی کوشش کر نی چا ہئے ۔ اللہ تعا لی کسی مسلمان کو اس کی تو فیق دے جو بریل کوڈ کو زمین بنا کر نقطوں کے بجائے حرو ف کے ابھا ر اور لمس سے نا بینا افراد کی تعلیم کا سلسلہ شروع کرے۔
اگر ایسا ہو جا ئے کہ نا بینا کوپڑ ھنے کے لئے با لکل اسی طر ح حروف جوڑے جا ئیں اور اُن کے فہم و ادراک کے لئے بریل کوڈ کی طرح کا غذ پر ابھا ر رکھا جا ئے ۔تو پھر اس کی کتابت میں ابھا ر کی پو ری اجازت کے ساتھ حروف اور تحریر میں مصحف عثمانی کا اہتما م ا ور اتبا ع کر نا ضروری ہے۔ جیسا کہ گذ شتہ اورا ق میں بیا ن ہوا۔ چو ں کہ بریل کو ڈ حرو ف ہی نہیں ہیں ۔ اس لئے اس میں کلی طور پر مصحف عثما نی کی اتباع کا حکم نہیں لگا یا جا سکتا ہے! البتہ یہ اصحابِ فن کے درمیان ایک مروج و معروف تحریر بن چکی ہے۔ اس لئے ا س کو جزئی طو پر عربی تحریروں سے بھی مر بوط کر کے بریل کو ڈ میں قرآن کی کتا بت میںتا حدِ امکان، مصحفِ عثما نی کی پیروی کی جائے۔ بریل کو ڈ عام لو گوں کے لئے غیر وا ضح اور نا بینا و ما ہرین کے لئے ما نوس ومتعا رف تحریر ہے۔ ایسی غیر وا ضح تحریروں سے متعلق علامہ ابن عا بدین ؒ فرماتے ہیں۔
’’ اور ایسی واضح تحریر جس کا رواج نہ ہو جیسے کہ دیوروں اور درختوں کے پتوں پر لکھنا یا خلا فِ عادت طریقے پر کاغذ پر لکھنا۔ یہ تحریر کوئی حجت اور حکم کی حا مل نہیں ہے۔ ہاں! اگر اس کے سا تھ کسی دوسری چیز کوملا کر مقصود کو متعین کر دیا جا ئے تو پھر اس پر احکام جا ری ہو ں گے۔ کیوں لکھا ئی کبھی تجربہ وغیرہ کے لئے ہو تی ہے تو انھیں کے ذ ریعہ تحریر کے مقاصدمتعین ہو ں گے۔ دوسری صورت ایسی تحریر کی ہے جو واضح نہ ہو۔ جیسے کہ ہو ایا پا نی پر لکھنا۔ یہ تحریر نہ سنے ہوئے کلام کے درجے میں ہے۔ اس سے کچھ بھی احکام ثا بت نہیں ہو ںگے اگر چہ نیت کی ہو۔ )‘‘ الشا میۃ جلد ۱۰ ؍ ص۴۶۱ ؍زکریا(
ان سطو ر سے معلوم ہوا کہ بریل کو ڈ، نا بینا اور ما ہرین کے نزدیک واضح ومعروف اور عام لو گوں کے لئے غیر وا ضح و ناموس ہو تے ہو ئے بھی پہلے طبقے کی طرف سے اس کا مقصود متعین ہو جا نے کے بعد اس پر احکام جا ری ہو ں گے۔ چو ں کہ یہ مستقل مروج حروف نہیں ہو تے ہیں ۔ لیکن ان سے معنی و مقصود کی تعیین ہو تی ہے
موبائل میں قرآ ن مجید
موبا ئل میں قرآ ن درحقیقت اسی طرح ہو تاہے جس طر ح انسا ن کے دما غ اور سینے میں ہو تا ہے اور یہ ہر وقت اس کے ساتھ رہتا ہے ۔ وہ خو ا ہ کسی بھی (پاک ، ناپاک)حا لت میں ہو۔ اس لئے موبا ئل میں قرآ ن کی صوتی ریکا رڈنگ اور تلا وت کے لئے قرآن ی تحریروں کو محفوظ کرنا درست ہے ۔ یہ ریکا ڈنگ یا تو مو با ئل میں ہو تی ہےیا پھر چِپ میں ۔ دو نوں کے احکام ایک ہی ہیں ۔ جب تک ان کو جا ری On Or Openنہ کیا جا ئے اس وقت تک ان کی آ وا زیا تحریر دکھا ئی اور سنا ئی نہیں پڑ تی ہے ۔ کبھی ایسا بھی ہو تا کہ قرآن کی کو ئی آ یت یاسورۃ اسکرین پر کر لی جاتی ہے ۔ اس کو با وضو اور بے مس کر نے سے متعلق مسئلہ پیدا ہو تا ہے ۔ لیکن چو ں کہ یہ اصل کتابت کا نچ کے اندر بلکہ میموری میں ہے اس لئے او پر ہا تھ لگا نے میں کو ئی ہرج نہیں ہے ۔ اس طرح تحریروں کو اس طور چھو نے سے متعلق متعدد نظا ئر کتب فقہ مو جو د ہیں ۔ بغیر و ضو کے کتا بت قرآن سے متعلق مسئلہ بیان کر تے ہوئے رد المحتار کی ایک عبارت پر علامہ شا می کی تشریح درج ذیل ہے۔
’’ بغیر وضو کے کا غذ یا ایسی تختی جو زمین سے لگی ہو، پر قرآن لکھنا مکروہ نہیں ہے ۔ علا مہ شامی ؒ کہتے ہیںکہ صا حب رد المحتا ر نے جو’ صحیفہ پر‘ کی قید لگا ئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تختی ،صحیفہ (کا غذ) کے حکم میں نہیںہو سکتی ہے کیوں کہ تختی پر صرف مکتوب( تحریر) ہی کو چھو نا منع ہے ۔ با قی تختی کے جس حصے پر آ یت نہیں لکھی ہو ئی ہے اس کو بلا وضوچھوناجا ئزہے۔‘ ‘ ( شا میۃ جلد ا؍ ۳۱۷؍ زکریا(
مو با ئل کے اسکرین پر قرآن کی آ یت دِکھتی تو ہے لیکن اس کے اوپر کا نچ GLASS ہو تا ہے وہ مکتو ب سے اگر چہ جڑا ہو تا ہے لیکن یہ کتا بت ،کتا بت الصحیفہ۔ نہیں ہے اس لئے اوپر کا نچ کو بلا وضو چھو ا جا سکتا ہے ۔ ایک اور جزئیۃ سے اس کو تقویت ملتی ہے کہ تعویذ جس میں آ یت قرآ نی لکھی ہو۔ اس پر موم لگا یا ہو۔اس کوکسی غلا ف میں رکھا جا ئے تو وہ غلاف اگر چہ اس سے متصل ہے لیکن درمیا ن میں موم کی و جہ سے غلاف کو منفصل ما نا جا ئے گا۔ اور اس کو اس دوسرے غلا ف سے چھونا اور اس کے ساتھ بیت الخلا میں دا خل ہو نا جا ئز ہے ۔
’’ صا حب رد المحتا ر نے رقیۃ (تعویز) کہا ہے۔ اس بظا ہر قرآن ی آ یا ت پر مشتمل وہ تعویذ مراد ہیں جنھیں ہیکل اور حما ئل کہا جا تا ہے ۔ اگر اس کا غلا ف اس سے جدا ہو جیسے کہ اس پر موم چڑھا یا گیا ہو یا اسی طرح کو ئی چیز، تو اس کے ساتھ بیت الخلا ء میں دا خل ہو نا جا ئز ہے ، اسی طر ح اس کو بغیر وضو چھونا بھی جا ئز ہے اور جوکچھ آ یا ت قرآن ی اس میں لکھی ہیں انھیں اٹھانا اور ہا تھ میں بغیر وضو کے لینا بھی جا ئز ہے ۔ اس سے یہ مستفاد ہو تا ہے کہ دعا اور ثنا وغیرہ پر مشتمل جو آ یا تِ قرآن یہ لکھی جا تی ہیں وہ قرآن کے حکم سے خا رج نہیں ہو تی ہیں۔ البتہ پڑھنے میں نیت کے لحا ظ سے وہ آ یا ت ،حصہ قرآن ہو تی ہیں اور نیت ہی کے لحا ظ سے قرآن کے بجائے ذکر ودعا کے حکم میں ہو جا تی ہیں۔ ا س اعتبار سے قرآن کے با رے میںنیت کا حکم صرف لکھے ہو ئے کلمات کے منطوق میں جا ری ہو گا ۔ تحریر میں نیت کا اعتبار نہ ہو گا۔ تحریر میں تو وہ کلمات، قرآ ن ہی رہیںگی۔‘‘ (الرد مع الشا میۃ جلد اول ص ۳۲۱؍ ۳۲۲؍ زکریا(
مو با ئل اسکرین پر مکتوب آ یا ت اور سورۃ کو انگو ٹھی پر تحریر، اسمِ الہی کے مسئلہ سے بھی مربوط کیا جا سکتا ہے ۔ چو ں کہ لو گ مو با ئیل فون کوہر وقت پا س ہی میں رکھتے ہیں اس لئے قرآن کو بیگ و غیرہ میں رکھنے کے جو احکام ہیں وہ بھی ایسے موبا ئیل کے لئے مشعل را ہ ہیں ۔ اسکرین کو چھو نے اور ایسے مو با ئل کو بیگ و غیرہ میں رکھنے سے متعلق فتاوی بزز ایہ کی درج ذیل عبارت کافی وا ضح ہے ۔
’’ اور سفرطنفسہ( طنفسہ قالین کو کہتے ہیں ۔ یہاں زین وغیرہ میں سامان رکھنے کا جو خا نہ بنا رہتا ہے وہ مراد ہے اسی حکم میں مو ٹر سا ئیکل اور دوسری سوا ریوں کی سیٹوں میں بنے (ا راج اور خا نے بھی ہو ں گے ) کے نیچے ایسے کا غذ کو رکھنا مکروہ ہے جس پر اللہ کا نا لکھا ہواہو۔ اور اس بیگ (جس میں یہ کا غذرکھا ہو) پر بیٹھنا بھی مکروہ ہے۔ اور بعض علما ء نے کہا ہے کہ یہ مکرو ہ نہیں ہے کیوں کہ یہ ایسے ہو گا جیسے کہ اس کوکمرہ میں رکھے اور اس کی چھت پر بیٹھ جا ئے( جو کہ جا ئز ہے۔ مکروہ نہیں ہے) اور اگر نسخۂ قرآن کوسفری بیگ میں اوپر رکھا تو سفر کے دوران اس بیگ پر سوار ہو نے میں کو ئی حر ج نہیں ہے۔ یہ اسی طرح ہو جا ئے گا جیسے کہ چوری سے حفا ظت کے لئے کو ئی نسخۂ قرآن کو اپنے سر کے نیچے رکھ لے۔ اور بغیر سفر کی مجبوری یا چوری سے حفا ظت کی ضرورت کے، ایسا کر نا مکروہ ہے۔ کوئی شخص بیت الخلاء میں دا خل ہو اور اس کے جیب میں ایسا درہم ہے جس پر اللہ تعا لی کا نام یا قرآن کی کوئی آیت لکھی ہو ئی ہے تو اس میں کو ئی حرج نہیں ہے۔ اوراگر اس کی انگو ٹھی پر اللہ کا نام لکھا ہوا ہے تو اس کے نگینے کا ہتھیلی کی طرف کر لے۔‘‘( الفتا وی البزازیۃ جلداول علی ھامش الھندیۃ الجزأ الرابع ص ۷۳ مطبوعہ دا ر الکتاب دیو بند (
۱۶۷۔ فقہ اور کتب احا دیث کی حفا ظت کے لئے ان پر ٹیک لگا نا مکروہ نہیں ہے(۳) حا شیہ(۳) میں ہے اسی طرح فتاوی ہندیہ جلد۵ ص ۳۲۲؍ پر ہے۔ محققین نے بیان کیا ہے کہ ایسی کتا ب جس میں اخبار ہوں اس پر بلا نیت ِحفا ظت کے ٹیک لگانا جا ئز نہیں ہے ۔ اور سفر میں چوری سے حفا ظت کی نیت سے قرآن کو سر کے نیچے رکھنا جا ئز ہے اور بغیر اس ضرورت کے سر کے نیچے رکھنا مکروہ ہے۔ ‘‘ مختا رات النوا زل
اسم ِالٰہی لکھی انگو ٹھی کے نگینہ کو بیت الخلاء میںجا تے وقت، اندرکی جانب کر نے کا ادب بتلا یا گیا ہے۔لیکن ایسی صورت میں بے وضو ہو تے ہو ئے بھی نگینہ کے وا سطے سے اس انگوٹھی میں مکتوب اسمِ الہی کو مس کر نا متبادر ہے اسی طرح مو با ئیل کا حکم ہو گا۔ موبا ئیل کا ڈھا نچہ ایسا غلا ف ما نا جا ئے جس کو بے و ضو چھو نا جا ئز ہے ۔ حا شیۃ بدا ئع الصنا ئع میں غلا ف کے وا سطے سے حا ئضہ کا قرآن چھو نے کی اجا زت نقل کی گئی ہے
)۱(اور قرآن کو غلاف سے چھو ناجا ئز ہے اس کی بنیا د بخاری کی( جلد ۳ ص ۱۵۹ پر ) تعلیقا روا یت ہے ۔ اورعمدۃ القاری میں روایت یہ ہے کہ حضرت ابو وائل اپنی خا دمہ کو ابورزین کے پاس بھیجتے تھے تو وہ جا تیں اور حا لت حیض میں ہو تی ہو ئی کسی غلا ف سے قرآن کو اٹھا لا تیں ۔‘‘
)حاشیۃ ۱؎ بدا ئع الصنائع جلد اول ص ۱۴۱؍(
مو با ئل کے با ڈی کو غلا ف مان کو اسکرین پر مو جو د قرآ نی عبارتوں کو بلا وضو چھوا جا سکتا ہے ۔لیکن عام حا لا ت میں جس طرح قرآن کو بلاوجہ کھلا نہیں رکھنا چا ہئے۔ اسی طرح اسکرین پر عام حا لا ت میں بلا وجہ قرآن کی عبارت نہ رکھی جا ئے تا کہ بے ادبی سے حفاظت رہے ۔
اشاعت قرآن کی ایک نئی صورت، آڈیو رکا رڈنگ بھی ہے اور مو با ئل میں اس سہولیات کی وجہ سے تلا وت قرآن کے صوتی سلسلے کو بہت زیا دہ شیوع اور عمو میت ملی ہے ۔لیکن مو بائل یا اس قسم کے کسی اور جدید اخترا عات(مثلاً قلم یا کا غذ کے ذریعہ صورتی ریکا رڈنگ اور تلاوت) کے ذریعہ نشر ہو نے والی آیا ت قرآن یہ پر انسان کے ذریعہ کی جا نے والی تلا وت قرآن کی طرح کے احکام نہیں جا ری ہو ں گے۔ رد المحتا ر میں ہے۔
’’اور باز گشت اور پرندوں کی آ واز میں آیا تِ سجدہ سننے پر سجدہ ٔ تلا وت نہیں وا جب ہوتا ہے۔ اور اسی طرح ہر وہ شخص جوایک ایک حرف کر کے تلا وت کر تا ہو اور ہجے کر کے پڑ ھتا ہو اس کو سن کر بھی سجدہ تلاوت وغیرہ واجب نہیں ہو گا۔ علا مہ شامی کہتے ہیں صدی کا مطلب تمہا ری آواز کا لو ٹ کر آنا ہے اسی طر ح تمہاری اس آوا ز کا حکم ہے جو پہا ڑ یا صحر یاان دونوں جیسے کسی اور مقام ہو، اس میں گو نجے۔ اسی طرح معتمد کتب فقہ میں مذکور ہے۔ پھر علا مہ شامی کہتے ہیں صاحب دؒر نے پرندے کے آوا ز کا ذکر کیا ہے اس قسم کی آوا زوں پر علا مہ زیلعی ؒ وغیرہ نے سجدہ تلاوت کے عدم وجوب کو ہی درست قرار دیا ہے۔ اسی فتوی پر صاحب ِ نو ر الا یضا ح نے اسی پر اعتماد کیا ہے۔ ( الشا میۃ ص۵۸۳؍ جلد ثا نی زکریا(
خلاصہ مباحث
۱۔ بغیر متن کے ترجمہ قرآن کی اشاعت تحریف ِقر آ ن کا اندیشہ پیدا کرتی ہے ۔صرفہ سے بچنے کے لئے قرآ ن میں تحریف نہیں کی جا سکتی ۔ اس لئے اس طرح قرآن کی اشاعت گنا ہ کبیرہ ہے ۔ اس میں چوں کہ قرآن کے مضامین ہو تے ہیں اس لئے اس کی خریداری درست ہوسکتی ہے۔ لیکن مطابع اس طرح کی اشاعت کے گنا ہ پر جری ہو سکتے ہیں۔ اس لئے اس کو خرید نے سے بھی بچناچا ہئے۔ عام حا لا ت میں تر غیب و تعا رف کے بعد غیر مسلموں کو عربی رسم الخط کے ساتھ اُن کی زبان میں قرآن کا تر جمہ اور تفسیر دی جائے اور اگر اہا نت یا استخفاف کا یقین یا ظنِّ غالب ہو تو پھر قرآن کے بجائے قرآنی مضامین پر مشتمل کتابچے انھیں دئے جا ئیں ۔
۲۔غیر عر بی رسم الخط میں قرآن کی اشاعت سے تحریف قرآن کا اندیشہ ہے ۔ اس لئے (اصل عر بی کے ساتھ یا عر بی کے بغیر) ہر دو صورتوں میں دوسرے رسم الخط میں قرآن کی اشاعت ممنوع ہے ۔ البتہ سیکھنے کے لئے چند سورتوں اور ایک پا رہ تک عر بی عبارت کے ساتھ دوسری زبان کے رسم الخط میں قرآن کولکھنے کی گنجائش ہے ۔ عربی عبا رت کے ساتھ دوسری زبا ن کے رسم الخط کی قرآنی عبارت، اعرا ب کے درجے میں ہوگی ۔
۳۔بریل کو ڈ اسلا می نقطہ نظر سے ایک مستحسن ایجا د ہے مسلم سا ئنس دا نو ں کو آ گے بڑ ھ کر اسے اصل حروف کے طریقےپرلا کر نا بینا افرا د کے لئے مزید سہولت پیدا کر نا چا ہئے ۔ مروجہ بریل کو ڈ میں قرآن کی کتابت ہو تی ہے توابھی چو ں کہ اس میں صرف نقطے ہو تے ہیں اس لئے وہ محض اعراب قرآ ن کی حیثیت سے لا ئق احترام ہیں ۔ اس لئے ان کے چھو نے کے لئے وضو اور طہا رت وغیرہ ضروری نہیں ہے البتہ بریل کو ڈمیں بھی قرآن کو دا ئیں طر ف سے لکھنے کا التزام کیا جا ئے۔ اگر یہ نا ممکن ہو تو پھر صفحات تو لا زمی طور پر دا ئیں طرف سے قا ئم کئے جا ئیں۔ تا کہ اس اشارا تی قرآن کی ورق گردا نی اصل نسخۂ قرآن کے مطا بق دائیں طرف سے ہو۔اور کا غذ وغیرہ معیا ری رکھے جا ئیں۔
۴۔مو با ئل کاڈھا نچہ، مو با ئل میں جڑا ہو نے کے با جو د غلا فِ منفصل کے حکم میں ہو گا اس لئے مو با ئل اسکرین پر قرآ نی آ یا ت کو مس کر نے کے لئے وضو اور طہارت وغیرہ ضروری نہیں ہے ۔لیکن بہتر یہ ہے کہ بلاوجہ، بے وضو آ یتوں کو اسکرین پر نہ رکھا جائے ۔
۵۔ مو بائل پر آ یا ت قرآن کی سما عت سے سجدہ تلا وت نہیں وا جب ہو تا ہے ۔ البتہ جب کو ئی سننے والا نہ ہو یا اس آواز سے دوسروں کو پریشانی ہو تو پھر مو با ئل پرتلا وتِ قرآن کی آوازیں آنOn نہیںکر نا چاہئے۔واللہ اعلم با لصوا ب
مشمولہ: شمارہ مارچ 2015