بیسویں صدی کے اس عظیم قائد اور تحریک اسلامی ہند کے اولین امیر مولانا ابواللیث ندوی سے مجھے اپنی زندگی کے ابتدائی دور میں استفادے کا موقع ملا۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ ۱۹۵۷ سے ۱۹۶۰تک رامپور میں مجھے مرحوم سے قریب رہنے ، ان کے عادات و اطوار کا مشاہدہ کرنے اور ان سے علمی استفادے کا موقع حاصل ہوا۔ میں نے اس قلندر صفت انسان کو نام ونمود سے بے نیاز اور ملت و اسلام کے فروغ کے لیے اپنی جان کھپا دینے والا نرالا رہ نما پایا۔ وہ اس قدر سادہ اور درویشانہ زندگی بسر کرتے تھے، جس کا ان کے رتبے کے انسان کے سلسلے میں تصور نہیں کیا جاسکتا ۔ایک عام انسان کے معیار زندگی کے مطابق وہ اور ان کے رفقاء نہایت قناعت سے گزارا کرتے تھے اور اپنے قلم اور فکروعمل سے ایک انقلاب برپا کرنے کے لیے کوشاں تھے۔ آزادی کے بعد تحریک اسلامی اس ملک کے سیاستدانوں کے براہ راست نشانے پر تھی۔ اسے دستور کی عطا کردہ جمہوری آزادیوں سے فیضیاب ہونے کا وہ موقع دینا نہیں چاہتے تھے۔ اُنھیں اندیشہ تھا کہ اسلام اپنی اصل روح کے ساتھ اس ملک میں برقرار رہتا ہے تو ان کی سیکولرائزیشن اور اجتماعی امور میں مذہب کو بے دخل کرنے کی پالیسی کامیاب نہ ہوسکے گی۔ مغرب کی نقالی میں لامذہبیت اور اشتراکیت کے رعب کا یہ عالم تھا کہ نوجوان کامریڈ خدا کو برا بھلا کہنے پر کمربستہ تھے۔ ملک کا حکمراں طبقہ ان کی حوصلہ افزائی کرتا تھا۔ اس عالم میں تحریک اسلامی نے مولانا ابواللیث ندوی کی قیادت میں دعوت حق کی صدا بلند کی۔ مولانا اور ان کے رفقاء ملک کے گوشے گوشے میں دین حق کا پیغام پہنچانے کے لیے سرگرم عمل ہوگئے۔ اس وقت تحریک وسائل سے محروم تھی۔ مگر مولانا ابواللیث ندوی ، حسرت موہانی کی طرح ریل کے تھرڈ کلاس ڈبے میں سفر کرتے ، معمولی بستر ساتھ ہوتا اور معمولی کھانے کی پوٹلی بھی رفیق راہ رہتی۔ ان کے سینے میں ملک کے بگڑتے ماحول کو ٹھیک کرنے اور نئی نسل کو راہ حق پر گامزن کرنے کا ولولہ موجزن رہتا تھا۔
رام پور میں جب جماعت اسلامی ہند کا مرکز قائم ہوا تو سرگرمیاں اور آزمائشیں دوش بدوش آئیں۔ میں ۱۹۵۵ سے ۱۹۵۷ تک لکھنؤ یونیورسٹی میں گریجویشن کر رہا تھا اور ایک سال جماعت اسلامی لکھنؤ کے مرکز کے ایک کمرے میں رشید کوثر فاروقی مرحوم کے ساتھ قیام تھا۔ مولانا عبدالغفار ندوی ہم لوگوں کے سرپرست تھے ۔ اس دوران مولانا ابواللیث ندوی کئی بار لکھنؤ تشریف لائے۔ پھر جب میں نے رامپور قیام کیاتو مولانا کی حیثیت میرے استاذ اور سرپرست کی ہوگئی۔ ثانوی درسگاہ جس میں میرا قیام تھا اورمحلہ کھنڈسارکہنہ میں مرکز جماعت آمنے سامنے تھے۔ مولانا کی رہائش مرکز کے ایک گوشے میں تھی۔ ان کی نشست گاہ مرکز میں داخل ہوتے ہی ایک کمرے میں تھی۔ کسی پردے اور کسی چق سے بے نیاز کھلے دروازے میں مولانا اپنی میز پر لکھنے پڑھنے میں مصروف نظر آتے تھے۔ صبح کو ہوا خوری کا پورا اہتمام تھا اور رامپور کے مضافات کے سبزہ زار اس کے لیے موزوں تھے۔ ہم طلبہ ثانوی درس گاہ بھی اسی طرف نماز فجر کے بعد چہل قدمی کرتے۔ اکثر شیروانی یا کرتے میں ملبوس یہ چھریرے بدن کا درویش اپنی سیاہ چھڑی کے ساتھ تیز تیز قدم بڑھاتا ہمیں ملتا اور ہماری خیروعافیت دریافت کرتا۔ ثانوی درسگاہ میں اکثر مہمان آتے۔ ہم لوگوں کے لیے کیرالہ کے وی پی محمد علی صاحب ، حیدرآباد کے لطیفی صاحب اور بھوپال کے انعام الرحمن خاں صاحب وجہ کشش تھے۔ مولانا عبدالحی ّمدیر الحسنات اورمولانا سید حامد علی مدیر زندگی ان سب میں منفرد تھے۔ یہ سارے سیارے جس آفتاب کے گرد جمع تھے وہ مولانا ابواللیث ندوی کی شخصیت تھی۔ میں رامپور سے اعلیٰ تعلیم کے لیے مدرسۃ الاصلاح پھر گورکھپور یونیورسٹی چلا گیا ۔ پھر دہلی کی کوشش مجھ کوریڈئینس اخبار کے ادارتی شعبے میں لے گئی، جو ۱۹۶۳ میں دہلی سے یوسف صدیقی کی نگرانی میں شائع ہوا۔ یوسف صدیقی صورت شکل سے ابوالکلام آزاد نظر آتے۔ تحریک اسلامی کے اس عہد کے اساطین میں تھے۔ طبیعت شاہانہ اور مزاج نہایت لطیف وسلیم پایا تھا۔ اس زمانے میں مولانا ابواللیث ندوی دہلی میں سوئی والان کی عمارت کے ایک حصے میں مقیم تھے، جہاں جماعت کا مرکز تھا۔ ریڈئینس کی ادارت کے لیے اے اے رؤف صاحب کو مدراس سے بلایا گیا تھا، جو تقسیم ہند سے پہلے مسلم لیگ کے ترجمان دکن ہیرالڈ کے مدیر رہ چکے تھے۔ نہایت چست ، چبھتی ہوئی اور رواں دواں انگریزی میں وہ حالات حاضرہ کا جائزہ لیتے تھے۔ ان کی مشہور کتاب “Meet Mr Jinnah” اس وقت بے حد مقبول تھی۔ وہ بھی سوئی والان کی بالائی منزل پر مقیم تھے، جہاں زیریں منزل پر دفتر دعوت تھا۔ وہاں بھی ایک درویش محمد مسلم دعوت کے مدیر کی کرسی پر جلوہ افروز نظر آتے۔ اس عہد میں میں مولانا ابواللیث صاحب سے برابر استفادہ کرتا رہا پھر جب میں نے ٹانڈہ ﴿فیض آباد﴾ سے مولانا مختار احمد مظاہری کی معیت میں دوام نکالا تو تقریباً ہر ماہ دہلی جانا ہوتا تھا۔ اب مرکز جماعت چتلی قبر منتقل ہوچکا تھا اور خاصی کشادگی تھی۔ مولانا شام کو عصر بعد دفتر کے صحن میں جلوہ افروز ہوتے اور ہر طرح کے موضوعات زیر بحث آتے۔ اس زمانے میں مجلس نمائندگان کے ممبر کی حیثیت سے کئی بار اسی عمارت میں اجلاسوں میں مجھے شرکت کا موقع ملا جس کی صدارت مولانا فرماتے تھے۔ جب ۱۹۷۲ کے بعد مولانا امیر جماعت نہیں رہے تو اکابرین جماعت کے اصرار کے باوجود کہ وہ دہلی میں قیام فرمائیں اورعلمی کام انجام دیں وہ اپنے وطن چاند پٹی ﴿اعظم گڑھ﴾ چلے آئے۔
مولانا کا اپنے وطن چاند پٹی میں قیام دیکھ کر حیرت ہوئی کہ دہلی کی زندگی کے بعد ایک قریاتی ماحول میں جہاں زندگی کی بہت سی سہولتوں سے انسان محروم رہتا ہے، وہ کس طرح خوش رہ سکتا ہے ۔ وہ اپنے کھپڑے سے چھائے ہوئے سفالین درودیوار کے مکان میں یوں جلوہ فرما رہے گویا شاہ جہاں اپنے تخت طاؤس پر بیٹھا ہوا ہے۔ مجھے اس گاؤں میں کئی بار جانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ کچھ مدت تک مولانا نے جامعۃ الفلاح کی بھی کچھ ذمے داریاں قبول کرلیں۔ ملک کے مختلف حصوں میں مختلف اجلاسوں میں وہ شرکت بھی فرماتے ، خاص طور پر مسلم مجلس مشاورت کے اجلاسوں میں جاتے۔ اس دوران میرا قیام فیض آباد میں ایک کالج میں لیکچرر کی حیثیت سے تھا۔ مولانا نے اس دوران مجھے کئی خطوط لکھے جس سے ان کے خلوص ودردمندی کا اظہار ہوتا ہے۔ انتخابات میں ارکان کو ووٹ دینے کی اجازت کے مسئلے پر جب اختلاف ہوا تو میں نے اور مختار احمد مظاہری نے اور ملک کے دیگر کئی اصحاب نے رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔ اس زمانے میں میرا تعلق ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی اور ان کی مسلم مجلس سے کافی قربت کا ہوگیا تھا۔ مولانا ابواللیث ندوی نے مسلم مجلس مشاورت کے قیام اور اس کے فروغ میں جو رول ادا کیا وہ تاریخ ملت میں فراموش نہ کیاجاسکے گا۔ انھوں نے مسلسل ملک کے مختلف حصوں کا مشاورت کی ٹیم کے ساتھ دورہ کیا۔ بعد میں جب مشاورت نے انتخابات پر اثرانداز ہونے کا فیصلہ کیا تو اس زمانے میں مولانا ابواللیث ندوی نے اپنے ایک انٹرویو میں اسے ناپسند فرمایا۔ مجھے یاد ہے کہ میرے محترم رفیق مختار احمد مظاہری اور میں نے مولانا کو ایک مفصل خط لکھا جس میں ڈاکٹر فریدی پر مولانا کی نکتہ چینی کے سلسلے میں تفصیلات جاننی چاہیں۔ مولانا کا ۲۵/ دسمبر ۱۹۶۶ء کو مرکز جماعت دہلی سے ایک نہایت مفصل خط آیا جس میں ڈاکٹر فریدی کی خدمات کی قدردانی کے اظہار کے باوجود انتخابات کے سلسلے میں ان کے موقف سے اختلاف کیاگیا تھا۔ وہ مفصل خط موجود ہے مگر اس کو نقل کرنے میں طوالت ہے۔
مولاناجب چاند پٹی ۱۹۷۲ میں آگئے تو مجھے خطوط لکھتے رہے۔
﴿۱﴾ مولانا۱۹/فروری ۱۹۷۲ئ کے خط میں رقمطراز ہیں:
برادرعزیز !سلام مسنون
معلوم نہیں میرا خط آپ کو ملا یا نہیں۔ میں مدرسۃالا صلاح پر آپ کے جواب کا منتظر تھا۔ کل میرا قیام وہیں تھا اور آج ٹانڈہ روانہ ہونے والا تھا۔ لیکن آپ کا جواب نہ ملنے کی وجہ سے ارادے میں تذبذب پیدا ہوگیا کہ معلوم نہیں آپ لوگوں سے ملاقات ہوسکے گی یا نہیں۔ ڈاکٹر عباد صاحب سے بھی ملاقات کرنی تھی اور ان کو آنکھ دکھانی چاہتا تھا۔بہرحال آج میں گھر واپس جارہا ہوں۔ دوتین روز بعد لکھنؤ اور رام پور کے لئے روانہ ہوں گا۔ اب غالباً زیادہ مناسب یہی ہوگا کہ ادھر سے واپسی میں ٹانڈہ آؤں۔ اندازہ یہ ہے کہ یکم مارچ کو رام پور سے نکل سکوں گا اور ایک دو دن لکھنؤ یا ممکن ہے رائے بریلی میں قیام کرنا پڑے گا۔ اس کے بعد ٹانڈہ آسکوں گا۔ رام پور میں میرا قیام عبدالحیّ صاحب کے یہاں رہے گا اور حالات بدستور ہیں۔ مولانا مظاہری اور دیگر پرسان حال کو سلام عرض ہے۔ والسلام ابواللیث
﴿۲﴾ ۲۳/ مئی ۱۹۷۲ئ ۔ چاند پٹی اعظم گڑھ
برادر عزیز السلام علیکم ۔ کارڈ ملا۔ خیروعافیت معلوم کرکے مسرت ہوئی۔ میں بھی بحمداللہ اچھا ہوں۔ گھر میں بھی طبیعت پہلے سے بہتر ہے لیکن ابھی قابل اطمینان نہیں۔ دعا کی ضرورت ہے۔ آپ لوگوں سے اسٹیشن پر ملاقات ہوجاتی تو مجھے بھی خوشی ہوتی۔ لیکن پروگرام اس طرح طے ہوا کہ وقت پر اطلاع نہیں دی جاسکی۔ آپ کی تشریف آوری میرے لئے باعث مسرت ہوگی لیکن ابھی اس شدید گرمی میں سفر کچھ مناسب نہ ہوگا۔ کچھ بارش ہوجائے پھر تکلیف فرمائیں تو اچھا ہے۔ وسط جون میں میاں ابوسعید سلمہ بھی امید ہے علی گڑھ سے آجائیں گے ویسے اندیشہ یہ ہے کہ شاید ان کا امتحان کچھ اور مؤخر نہ ہوجائے۔ لیکن اگر آپ جلد آنا چاہیں تو کسی دن بھی تشریف لائیں۔ یہ بات موجب تردد ہے کہ آپ کو کچھ مسائل کے سلسلے میں خلجان درپیش ہے۔ معلوم نہیں کہ یہ کس طرح کے مسائل ہیں۔ کیاخط میں ان کی طرف کچھ اشارہ کرسکتے ہیں۔ مولانا مظاہری کی طبیعت اب اچھی ہے سلام کہہ دیجئے گا۔ حاجی بشیر اور عبدالحفیظ صاحب و دیگر پرسان حال کو سلام عرض ہے۔ والسلام ، ابواللیث
نوٹ: مولانا نے جن مسائل کی طرف اشارہ کیا ہے وہ دراصل دوام کے بند ہونے ، میرے کچھ مدت کے لئے بھٹکل جانے ، مظاہری صاحب کی طویل علالت اور پھر انتخابات کے سلسلے میں جماعت کے سخت موقف وغیرہ سے متعلق تھے۔
﴿۳﴾ ۲۸/نومبر۱۹۷۲ئ ، چاندپٹی اعظم گڑھ
برادر عزیز ،السلام علیکم۔ کارڈ ملا۔ خیروعافیت معلوم کرکے خوشی ہوئی۔ ٹانڈہ کے ایک رفیق رمضان میں تھوڑی دیر کے لیے یہا ں آئے تھے۔ ان کی زبانی مجھے یہ معلوم ہوگیا تھا کہ آپ بھٹکل گئے ہوئے ہیں۔ بھٹکل میں بھی جاچکا ہوں۔ وہاں کے بہت سے لوگوں سے ملاقات باہر بھی ہوتی رہتی ہے۔ جگہ اور اعتبار سے تو اچھی ہے اوروہاں کے لوگ اپنی بعض خصوصیات کے لحاظ سے بہت قابل قدر بھی ہیں لیکن میں خود بھی یہی رائے رکھتا ہوں کہ آپ کا وہاں قیام کچھ زیادہ مناسب نہیں ہوگا۔ دوری کے علاوہ یہ بات بھی میرے پیش نظر ہے کہ وہاں کے لوگ اپنا ایک خاص دائرۂ فکر وعمل رکھتے ہیں۔ اس کے آگے کچھ سوچنا ان کے لیے دشوار ہے الا ماشاء اللہ۔ یہ اچھا ہو ا کہ آپ واپس آگئے۔ یہاں رہ کر آپ غالباً زیادہ کام کرسکیں گے۔ رمضان میں عرصے کے بعد مجھے پھر بواسیر کی شکایت ہوگئی تھی اور زیادہ شدید تھی لیکن اللہ کا شکر ہے اب اچھا ہوں۔ اس بنا پر اور کچھ اور وجوہ سے بھی میں اس بار بھی شوریٰ میں شریک نہیں ہوسکا۔ ابھی کمزوری باقی ہے۔ اس لیے فی الحال آپ کے یہاں آنے کا بھی ارادہ نہیں کرسکتا۔ آئندہ کسی وقت ان شاء اللہ آسکوں گا۔ ڈاکٹر عباد کو آنکھ دکھانے اور مظاہری صاحب کی عیادت کے لیے بھی آنے کو جی چاہتا ہے۔ ویسے یہ معلوم ہوچکا ہے کہ اب وہ پہلے سے بہتر ہیں۔ میاں ابوسعید سلمہ عید میں گھر آئے تھے۔ چند دن پہلے واپس جاچکے ہیں۔ میں نے کچھ لکھنے کا کام شروع کردیا ہے۔ ابھی کچھ پرانی یادیں قلم بند کرنے کا خیال ہے۔ دیکھیے اس میں کیا کیا باتیں آتی ہیں۔ عرصے سے میں املا کرانے کا عادی تھا اور اس میں مجھے سہولت محسوس ہوتی تھی لیکن یہاں خود لکھنا پڑ رہا ہے۔ اس کی وجہ سے رفتار بہت سست ہے۔ خدا کرے آپ سب لوگ بخیریت ہوں۔ والسلام ! ابواللیث
نوٹ: یہ خط میرے تین چار ماہ بھٹکل کے قیام کے بعد واپسی پر مجھے فاربس کالج فیض آباد کے پتے پر موصول ہوا۔
﴿۴﴾ ۲۸/ نومبر ۱۹۷۲ئ ، چاند پٹی اعظم گڑھ
برادر عزیز! السلام علیکم ۔ کارڈ ملا۔ بحمداللہ اب اچھا ہوں۔ مرض کا اثر زائل ہوچکا ہے ۔ البتہ مرض چونکہ باقی ہے اس لیے اندیشہ لگا رہتا ہے کہ معلوم نہیں پھر کب عود کر آئے ، کچھ ضروری احتیاط بھی نہیں کرپا رہا ہوں۔ اب ان شاء اللہ خیال رکھوں گا۔ لوگ آپریشن کا مشورہ دیتے ہیں لیکن ڈاکٹر عبدالعلی اور حکیم نبی احمد وغیرہ اس کے خلاف تھے۔ اس لیے اس کی طرف طبیعت مائل نہیں ہورہی ہے۔ یہ سوچتا ہوں کہ زیادہ عمر اِس کے ساتھ گزر چکی ہے اب اس بقیہ عمر میں کیوں اس کی زیادہ پروا کروں۔ آپ کے یہاں آنا تو ہے لیکن وقت کی تعیین مشکل ہے۔ شاید اس میں زیادہ آسانی ہوگی کہ لکھنؤ وغیرہ آتے جاتے وقت آپ کے یہاں اتر جائوں۔ ندوہ والوں نے یہ ستم ظریفی کی ہے کہ مجھے مجلس انتظامیہ کا رکن منتخب کرلیا ہے۔ علی میاں صاحب کے اصرار پر میں نے منظور بھی کرلیا ہے۔ اس سلسلے میں بھی آنا جانا رہے گا۔ آپ یہاں آنے کی زحمت گوارا کریں تو آپ کی تشریف آوری میرے لیے خوشی ہی کی موجب ہوگی لیکن اگر مقصود محض عیادت ہے تو بحمد اللہ میں اب اچھا ہوں۔ اس کی خاطر زحمت اٹھانا غیر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ جامعۃ الفلاح میں قیام کے لیے وہاں کے لوگوں کا اصرار بھی تھا لیکن بوجوہ میں نے اسے مناسب نہیں سمجھا۔ وہاں کچھ سہولتیں مجھے لکھنے پڑھنے کے سلسلے میں حاصل ہوسکتی ہیں لیکن شاید ذہنی یکسوئی وہاں بھی حاصل نہیں ہوسکے گی۔ آپ کو شاید معلوم ہو کہ وہاں حال میں کچھ تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ مولوی ابوبکر کو لوگوں نے رخصت کردیا۔ اندرونی حال شاید اچھا نہیں ہے۔ اللہ رحم کرے ۔ مظاہری صاحب وغیرہ کو سلام عرض کردیں۔ ابھی میں اپنی ابتدائی زندگی کے کچھ حالات جو بعض اعتبار سے سبق آموز ہوسکتے ہیں لکھ رہا ہوں۔ وقت پر جماعتی حالات ومسائل بھی ان شاء اللہ زیر بحث آئیں گے۔ توفیق کی دعا کریں۔ بحمد اللہ حالات بڑی حد تک لکھنے پڑھنے کے لیے سازگار ہیں۔ آپ لوگوں کو کسی فکروتردد کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف دعا مطلوب ہے۔ والسلام ۔ ابواللیث
﴿یہ خط بھی فاربس کالج فیض آباد کے پتے پر آیا تھا۔﴾
﴿۵﴾ ۱۰/ فروری ۱۹۷۳ئ
برادرعزیز! السلام علیکم ۔ کئی روز پہلے آپ کا گرامی نامہ ملا تھا۔ ادھر مجھے لکھنؤ اور رام پور وغیرہ جانا ہے۔ اور یکم مارچ تک واپس لوٹنا بعض وجوہ سے نہایت ضروری ہے اس لیے مجھے افسوس ہے کہ میں فیض آباد آنے کے لیے مقررکردہ تاریخوں کی پابندی نہیں کرسکوں گا اور اس بنا پر آپ کی تعلیمی تقریب میں بھی شریک نہیں ہوسکوں گا۔ مجھے ۲۱/ فروری کی شام تک لکھنؤ پہنچنا ہے اس کے بعد رائے بریلی اور پھر ۲۴/ ۲۵/ رام پور جانے کا پروگرام ہے۔ اس لیے یہ ہوسکتا ہے کہ میں ۲۰/ کو دہرہ ﴿ٹرین﴾ سے ٹانڈہ یا فیض آباد آئوں اور دوسرے روز اس گاڑی سے لکھنؤ روانہ ہوجائوں۔ اگر یہ تاریخیں آپ کے نزدیک صائب ہوں تو براہ راست فوراً مطلع فرمائیں تاکہ میں آخری طور پر یہ پروگرام طے کرسکوں۔ اگر ٹانڈہ جانا ہو تو یہ اچھا رہے گا کہ وہاں ڈاکٹر صاحب کو میں آنکھ بھی دکھالوں گا ۔ بشرطیکہ وہ کچھ زیادہ وقت نہ لیں اور نہ وہ اس میں کوئی زحمت محسوس کریں۔ ٹانڈہ پہنچنے کے لیے اسٹیشن سے سواریاں تو غالباً بروقت مل ہی جاتی ہیں۔ لیکن یہ مجھے معلوم ہونا چاہیے کہ مجھے وہاں سے کہاں پہنچنا ہوگا اور اگر فیض آباد میں اتارنا چاہتے ہوں تو کسی کو اسٹیشن ضرور بھیج دیجیے گا۔ وقت نہیں۔ گنجائش ہوتو چاندپٹی کے پتے پر جواب دیں ورنہ مدرسۃ الاصلاح کے پتے پر خط لکھیں۔ میں ۱۷ کو یہاں سے روانہ ہوجائوں گا اور ۱۸/ کو مدرسے پر میراقیام رہے گا۔ اس دن دائرہ حمیدیہ کی ایک ضروری میٹنگ ہے۔ مختار صاحب وغیرہ کو سلام عرض ہے۔ والسلام ۔ ابواللیث
﴿نوٹ: ڈاکٹر عباد مرحوم اس وقت ٹانڈہ کے ممتاز معالج چشم تھے اور تحریک اسلامی کے مخلص کارکن تھے۔ فیض آباد سے شہر ٹانڈہ قریب ہے۔ مولانا ٹانڈہ کئی بار جماعتی ذمے داری کے دور میں تشریف لائے۔ یاد پڑتا ہے ۱۹۶۵ئ میں وہ ایک بار اس شہر کے ایک بڑے اجلاس کو خطاب کرنے آئے مگر دوسرے دن مولانا کو صبح لکھنؤ کسی پروگرام میں شرکت کرنی تھی اور وہاں کے لیے اسٹیشن اکبر پور سے ٹرین پانچ بجے صبح ملتی تھی۔ جاڑوں کی رات ٹانڈہ سے اکبر پور بیس کلو میٹر کی دوری، رات میں صبح تک ٹانڈہ سے کوئی سواری ملنا دشوار۔ آخر طے ہوا کہ بارہ بجے رات میں اجلاس کے بعد ٹانڈہ کے چند رفقائ بذریعہ سائیکل موصوف کو اکبر پور پہنچائیں۔ اس صاحب عزم وحوصلہ قائد نے سائیکل کے کیریر پر بیٹھ کر بیس کلو میٹر سفر رات کے اندھیرے میں کرنا منظور کیا تاکہ دوسرے دن صبح کو لکھنؤ پہنچ سکیں۔ رفقائے جماعت بھی مولانا کے ہمالیائی عزم پر انگشت بدنداں تھے۔
﴿۶﴾ ۸/ مئی ۱۹۷۳ئ ۔ چاند پٹی، اعظم گڑھ
برادر عزیز، السلام علیکم ۔ کارڈ ملا۔ عرصے کے بعدخیروعافیت معلوم کرکے خوشی ہوئی۔ پچھلے دنوں میری صحت بھی کچھ خراب ہوگئی تھی لیکن اب بحمداللہ سنبھل گئی ہے۔ پچھلے دنوں کئی جگہ آنا جانا ہوا۔ اور کچھ خانگی الجھنیں بھی درپیش تھیں، اس لیے لکھنے پڑھنے کا سلسلہ بھی برقرار نہ رہ سکا اور جہاں تک پرانی یاد داشتوں کو مرتب کرنے کا سوال ہے اس کے لیے تو ادھر کچھ بھی وقت نہیں نکال سکا ہوں۔ اس میں ایک رکاوٹ یہ بھی ہے کہ بار بار یہ خیال آتا ہے کہ اس کی ضرورت کیا ہے اور اس سے کس کو کیافائدہ پہنچ سکتا ہے۔ لوگوں کے پڑھنے پڑھانے کے لیے بہت کچھ بل کہ ضرورت سے زیادہ ہی پہلے سے موجود ہے ۔ تاہم اس کا خیال ترک نہیں کیا ہے۔ میں جب رام پور گیا تووہاں آنکھ کا معائنہ بھی کرالیا تھا اور پچھلے دنوں حیدرآباد جانا ہوا تو وہاں بھی ایک مشہور ماہر چشم کو آنکھ دکھا دی تھی اور ان کے مشور ے کے مطابق چشمے کے نمبر بھی بدلوا لئے ہیں۔ اس لیے سردست آنکھ دکھانے کے لیے وہاں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن اس ضرورت کے بغیر بھی ایک بار وہاں آنے کا ارادہ پہلے سے کرچکا ہوں۔ اس لیے آئندہ کسی وقت ان شاء اللہ وہاں آسکوں گا۔ اب تو موسم بھی بہت سخت ہوچکا ہے۔ سفر کی ہمت نہیں ہورہی ہے ۔ آپ لوگوں کے استعفیٰ کی خبربہرحال باعث ملال بنی ہوئی ہے۔ کاش اس کی نوبت نہ آئی ہوتی۔ لیکن آپ لوگوں کے جو جذبات اس کے محرک ہوئے ہیں، ان کے پیش نظر اس کو وزن نہ دینا بھی مشکل ہے۔
والسلام ابواللیث
﴿نوٹ﴾:اس خط کے کچھ ہی دنوں قبل میں نے اور مختار احمد مظاہری صاحب نے ووٹ دینے پر پابندی اور کسی بھی احتجاج میں جیل جانے پر عائد بندش کو ناپسند کرتے ہوئے جماعت کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اس وقت ہمیں ڈاکٹر رام منوہر لوہیا کاوہ مشورہ یاد آرہا تھا جو انھوں نے رام پور میں مرکز جماعت میں آکر گفتگو کے دوران جماعت کے ذمے داروں کو دیا تھا کہ کارکنوں کو کسی جائز احتجاج کے ذریعے سال میں ایک بار ضرور جیل جانے کا موقع مہیا کریں۔ جہاں انسان کی اچھی تربیت ہوتی ہے۔ بہرحال میں نے رکنیت سے استعفیٰ کے بعد ڈاکٹر فریدی اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو ختم کرنے والا لفظ مسلم ہٹانے کے مسٹر چھاگلہ کے ارادے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے لکھنؤ میں جیل کا سفر اختیار کیا اور بیس دن وہاں مقید رہا۔ یہ بڑا دلچسپ سفر تھا۔ اس میں راج نرائن اور مسلم یونیورسٹی کے طلبہ خاص طور پر اخترالواسع اور متعدد بڑی شخصیتیں جیل میں آگئی تھیں۔
﴿۷﴾ ۱۸/ جون ۱۹۷۳ئ ،چاند پٹی،اعظم گڑھ
برادر عزیز! السلام علیکم۔ گرامی نامہ ملا۔ خط کے جواب میں تاخیر سے مجھے کچھ تردد ضرور ہوا تھا لیکن ذہن اس طرف نہیں گیا تھا کہ اس کا باعث یہ ہے کہ آپ اس دوران میں سنت یوسفی ادا کر رہے تھے ۔ البتہ آپ کا خط موصول ہونے سے پہلے ہی اس کی اطلاع مل چکی تھی۔ میں اعظم گڑھ گیا ہوا تھا، وہاں آپ کے رفیق زنداں یحییٰ صاحب سے سرراہ ملاقات ہوگئی تھی۔ ان کی زبانی معلوم ہوا تھا کہ آپ بھی جیل میں تھے اور ان کے ساتھ ہی رہا ہوئے ہیں۔ اعظم گڑھ کے ایک وکیل جناب مسعود صاحب بھی گرفتار ہوئے تھے۔ میں ان سے ملنے کے لیے گیا بھی تھا لیکن وہ کچہری گئے ہوئے تھے اس لیے ملاقات نہ ہوسکی۔ اس مدت میں ان گرفتاریوں کا میرے دل پر بہت اثر رہا۔ ان کے لیے صبرو استقامت کے لیے برابر دعائیں کرتا رہا۔ ڈاکٹر صاحب اور حاجی شفیق صاحب خاص طور پر بہت یاد آتے رہے لیکن آپ کو تعجب ہوگا کہ میں نے انھیں مبارکباد کا کوئی خط نہیں لکھا ہے۔ کیوں کہ بہت باتیں ذہن میں آئیں معلوم نہیں خط پاکر ان کا ذہن کہا ںکہاں جائے گا اور مجھے کیا کیا کہیں گے۔البتہ مولانا عبدالغفار صاحب کو لکھ دیا تھا کہ وہ زبانی مناسب انداز میں ہدیہ مبارک باد پیش کردیں گے۔ آپ سے سلسلہ نہیں ورنہ آپ ہی کو اپنا واسطہ قرار دیتا۔
آپ کے استعفیٰ پر مجھے افسوس ہوا تھا اور اس سے زیادہ اس پر افسوس ہوا کہ اب جماعت سے آپ کا تعلق باقی نہیں رہا۔ لیکن میں نے بوجوہ یہ طے کرلیا ہے کہ عام فرائض رکنیت کے علاوہ دیگر معاملات سے کوئی سروکار نہ رکھوں اس لیے اس معاملے میں بھی کوئی رائے زنی نہیں کرنا چاہتا۔ اس بنا پر آپ کی مراسلت کا مطالعہ بھی میرے لیے کچھ غیر ضروری ہی ہے۔ آپ نے جس تحریر کے مطالعے کا شوق ظاہر کیا ہے کاغذات میں کہیں موجود ضرور ہوگی لیکن تلاش کے بعد ہی مل سکتی ہے اور جہاں تک مجھے یاد ہے وہ جماعت کے سابقہ فیصلوں کی محض تفصیل تھی۔ کسی میں مسئلہ زیر بحث سے تعرض نہیں کیاگیا تھا۔ تو کیا اس صورت میں بھی اس کی آپ کو ضرورت ہے۔ یاد داشت کی تسوید کا کام سردست ملتوی ہے ۔لیکن آیندہ شاید کچھ کرسکوں۔ دعا کیجیے۔ مظاہری صاحب اور پرسان حال کو سلام عرض ہے۔ والسلام ابواللیث
مولانا کے اس خط کے بعد بھی اکا دکا خطوط آئے جن کو میں خطوط کے انبار میں تلاش نہ کرسکا۔ ۱۹۸۱ئ میں مولانا دوبارہ امیر جماعت منتخب ہوئے۔ میں ان کی امارت کے آخری دور میں تقریباً ہر ماہ ماہ نامہ ’دوام نو‘ کی طاعت کے سلسلے میں دہلی کا سفر کرتا رہا اور مولانا سے بالمشافہ گفتگو کا شرف حاصل ہوتا رہا۔ میں مرکز جماعت کے مہمان خانے میں قیام کرتا تھا۔ جہاں مولانا کی رہایش تھی۔ اس وقت بھی مولانا کی صبح کی ہوا خوری کی عادت برقرار تھی۔ وہ جامع مسجد کے سامنے پارک میں برابر ٹہلنے جاتے اور ان کی قدیم سیاہ چھڑی ان کی رفاقت کرتی۔ کبھی کبھی ہم جیسے نیاز مند بھی کچھ سیکھنے کی غرض سے ساتھ ہولیتے۔ جماعت کے تنظیمی اور تربیتی اسفار کے علاوہ مشاورت کے لیے مولانا نے مسلسل سفر کیے۔ چتلی قبر کے مرکز میں ملت کے رہ نمائوں کی مسلسل آمد رہتی تھی۔ مگر یہ درویش اتنی طویل مدت دہلی میں رہنے کے باوجود اپنے گائوں چاند پٹی کے کچے مکان کے سوا کہیں کوئی اپنا مسکن نہ بنا سکا۔آخر تک سادگی ایثار کی قدیم روایت پر سختی سے قایم رہے۔ معمولی لباس، معمولی خوردونوش اور نام و نمود سے حتی الامکان گریز۔ آج نام نہاد قومی ملی رہنمائوں کا اس وقت تک کھانا ہضم نہیں ہوتا جب تک ان کی کوئی نہ کوئی تصویر کسی بیان کے ساتھ اخبار میں چھپ نہ جائے۔ ابواللیث ندوی کی کسی یادگار تصویر کو آنکھیں ترستی ہیں ۔جب کہ اس قدآور انسان نے اتنی خدمات ملک و ملت اور اسلام کی انجام دیں جن کو اگر ایک جگہ جمع کریں تو اس کی بلندی ہمالیہ کے آگے نکل جائے۔
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2012