مئی۱۹۷۳ء کی بات ہے۔ ہفتہ وار تحریک ملت کااقبال نمبر شائع ہونے والا تھا۔ راقم اس کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ خوش قسمتی سے اسی دوران میں دنیاے اسلام کی تین معتبر اور معروف شخصیتوں کے کلکتے میں تشریف آوری ہوئی۔ مولانا محمد یوسف صاحب امیر جماعت اسلامی ہند اور جناب محمد مسلم ایڈیٹر ’دعوت‘ دہلی سے میری شناسائی تھی۔ دونوں شخصیتوں سے ملاقات اور بات چیت کے کئی مواقع میسر آئے تھے۔ مگر حضرت مولانا قاری محمدطیب قاسمی جو دنیا کی سب سے بڑی مذہبی یونیورسٹی دارالعلوم دیوبند کے مہتمم تھے اور جن کا نام نامی بہت بار مَیں سن چکا تھا، جن کی بعض کتابیں اور مضامین بھی میں نے پڑھے تھے، ان کی جامع اور مدلل تقاریر اور گفتگو کاچرچا بھی سن رکھا تھا، ان سے ملاقات کی سعادت حاصل نہیں ہوئی تھی۔ خوش قسمتی سے ’’عصر جدید کلکتہ‘‘ کے ایڈیٹر طارق غازی سے میری اچھی ملاقات تھی۔ طارق صاحب حضرت قاری طیب صاحب کے نواسے تھے۔ اچھے انسان اور اچھے صحافی تھے۔بڑے باپ ﴿مولانا حامد الانصاری غازی ﴾ کے بیٹے تھے۔ میں نے ان سے قاری صاحب سے علامہ اقبال کی شخصیت اور کارنامے پر انٹرویو کا تذکرہ کیاتو طارق غازی صاحب نے کہا :’’یہ کام کرادوںگا۔‘‘ قاری صاحب، یوسف فیروزی صاحب کے مکان میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ جب ہم دونوں ان کی خدمت میں حاضرہوئے تو حضرت قاری صاحب شہر کی چند بزرگ شخصیتوں کے جھرمٹ میں محو گفتگوتھے۔ ہم لوگ ادب و احترام سے سلام کرکے بیٹھ گئے۔ کچھ دیر کے بعد جب طارق غازی صاحب نے میرے پرچے ﴿تحریک ملّت﴾ اور میرے تعارف کے بعد مدعابیان کیاتو قاری صاحب نے فرمایا: ’’قلم نکالو، لکھو۔ میں قلم وکاغذ سنبھال کر بیٹھ گیا۔ مولانا نے بولنا شروع کیا:
علامہ اقبال
’’ڈاکٹر اقبال محض شاعر نہیں تھے۔ بلکہ حکیم بھی تھے۔ ان کے اشعار محض اشعار ہی نہیں ہوتے تھے، بلکہ ہر شعر ایک مستقل پیغام ہوتا تھا۔ اس لیے میرے خیال میں محض شاعری کے نقط نظر سے انھیں سمجھنے کی کوشش کرنا نہ سمجھنے کی دلیل ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا ایک خاص و صف یہ ہے کہ انھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سچا عشق تھا۔ جو ان کے اشعار سے بھی ظاہر ہے۔ اس لیے کہاجاسکتا ہے کہ وہ محض حکیم ہی نہ تھے، بلکہ عشق و محبت میں صاحب حال بھی تھے۔ایک شخصیت جودین و محبت کی پیغام رساں بھی ہو، اس میں حکمت و رمزآشنا بھی ہو اور اس رمز شناسی میں صاحب حال بھی تو اسے شاعر کہنا اس کی توہین سے کم نہیں ہے۔ مجھے یاد ہے کہ کئی امور میں ان کے تفصیلی خطوط حضرت الاستاذ علامہ مولاناانور شاہ کشمیر رحمۃ اللہ علیہ صدر دارلعلوم دیوبند کے نام آیا کرتے تھے اور حضرت شاہ صاحب ان کے محققانہ تفصیلی جوابات تحریر فرمایاکرتے تھے، جو ڈاکٹرصاحب کے لیے شرحِ صدر کا باعث ہوتے تھے۔ ایسے سوالات دہی کرسکتا ہے جس میں دین واسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی لگن لگی ہوئی ہو۔
ڈاکٹر اقبال کے پیغام میں جہاں دین و دیانت اور فراست کی جھلک ہوتی تھی۔ وہیں تصوف اور باطنی کیفیات کی جھلکیاں بھی پائی جاتی تھیں۔ بہ ہرحال ڈاکٹر صاحب ایک حکیم، ایک صاحب حال اور ایک دردآشنا شخصیت تھے۔قوم میں ان کا وقار ،اس لئے نہیں تھا کہ وہ ایک شاعر تھے ،بلکہ اس لیے تھا کہ ان کا باطن عشق و محبت رسول ﷺ سے لبریز تھا اور ساتھ ہی وہ اس کیفیت سے پوری قوم کو رنگین بنادینا چاہتے تھے۔ حق تعالیٰ ان کی قبر کو نور سے بھردے اور انھیں اعلیٰ مقامات پر فائز فرمائے۔ آمین‘‘!
مولانا دبلے پتلے تھے، مگر زور بیان زبردست تھا۔ بولتے چلے گئے کسی مقام پر ایک لمحے کے لیے بھی رکے نہیں۔ جو چیز میرے لیے ان کی شخصیت میں سب سے زیادہ وجہ کشش محسوس ہوئی وہ یہ تھی کہ وہ سب سے بے تکلف گفتگو کررہے تھے۔ کچھ لیے دیے نہ تھے اور نہ کہیں سے بھی ظاہر ہونے دے رہے تھے کہ وہ کوئی بڑی چیز ہیں۔ کپڑے حددرجہ معمولی ،ہر چیز سے سادگی اور پرہیزگاری ٹپکتی تھی ان کے اندر قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی صفت جھلکتی تھی۔ اتنی بلندو بالا شخصیت سے یہ میری پہلی ملاقات تھی مگر وہ اس طرح ملے جیسے موصوف مجھے پہلے سے جانتے رہے ہوں۔میر نے ایسے ہی بزرگوں کے لیے کہا ہے:
ملیے اس شخص سے جو آدم ہوئے
ناز اس کو کمال پر بہت کم ہوئے
ہوگرم سخن تو گرد آوے ایک خلق
خاموش رہے تو ایک عالم ہوئے
مولانا محمد یوسف صاحب اور جناب محمد مسلم جماعتی منصوبے کے تحت کلکتہ تشریف لائے تھے۔ دونوں حضرات تقریباًپندرہ روز تک کلکتے میں رہے۔ ایک کام بنگلہ اسلامی پرکاشن ٹرسٹ کے قیام کا تھا، جس کے ذریعے سے قرآن مجید، احادیث، اسلامی لٹیریچر کی کتابوں کابنگلہ زبان میں شائع کرنے کے لیے منصوبہ سازی کا تھا اور دوسرا بنگلہ زبان میں اسلام اور اسلامیان ہند کی ترجمانی کے لیے ایک ہفتہ واراخبار کے اجراء کا تھا۔
کتابوں کی اشاعت کا منصوبہ بنایاگیا اور بنگلہ ہفتہ وار ’میزان‘ کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیاگیا ۔الحمداللہ یہ بلاناغہ کلکتے سے اب تک ٹرسٹ کے زیر نگرانی شائع ہورہا ہے۔ قرآن مجید و احادیث رسولﷺ کے ترجمے اور تفسیر کا کام بھی پورا ہوا اور پچاس ساٹھ سے زائد اسلامی کتابوں کی اشاعت کاکام بھی مکمل ہوا۔ بہت سارے کام ابھی باقی ہیں۔ یہ دونوں کام دونوں بزرگون کی انتھک کوششوں اور جماعت کے کارکنوںکی مدد سے شروع ہوے۔ میزان کے لیے پورے بنگال سے تقریباً سترہزار کی رقم چندے کے ذریعے سے جمع کی گئی۔ ٹرسٹ کے لیے اس سے کچھ زیادہ رقم حاصل ہوئی۔
مولانا محمد یوسف صاحب سے بھی جب میں نے گزارش کی کہ آپ بھی علامہ اقبال پر کچھ اظہار خیال فرمائیں تو وہ لکھ کر دینے کے لیے تیار ہوگئے۔ چنانچہ انھوں نے یہ تحریر لکھ کردی:
مغربی سیلاب کا مقابلہ
’’اقبال کا شاعرانہ کمال خواہ کتنا ہی بلند ہو، لیکن دنیا انھیں ایک حکیم و مفکر کی حیثیت سے پہچانتی ہے اور وہی ان کی خداداد شخصیت کاحقیقی روپ ہے۔ وہ ایک ایسے دور میں پیدا ہوئے، جسے قدیم اور جدید افکار و نظریات کے ٹکرائو کادورکہاجاتا ہے۔ اس دور میں ملت اسلامیہ کے کتنے ہی مفکرین مغرب سے آنے والے سیلاب سے پسپا ہوتے چلے جارہے تھے اور مفاہمت ومداہنت کے طرز کی ذہنیت پیدا ہونے لگی تھی۔ اس نازک اور سنگین دور میں جن چند شخصیتوں نے سینہ سپر ہو کر اس طوفان کامقابلہ کیا، علامہ اقبال ان میں سے ایک تھے۔ یہ وہی زمانہ تھا جب دارالاسلام پٹھانکوٹ میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی تشکیک، تذبذب اور مداہنت کے اٹھتے ہوئے سیلاب کو چیلنج کرتے ہوئے ایک نئی قوت کی داغ بیل ڈالنے کی کوشش میں مصروف تھے۔ علامہ اس تحریک کے زبردست حامیوں میں تھے اور ان کا یہ وصف تھا کہ وہ ہم عصری کے جذبات سے بالا ترہو کر اپنے دور کے ہر اس دل کی دھڑکن بننے کی کوشش کرتے تھے، جو اسلام کی سر بلندی کاخواہاں ہو۔ اللہ تعالیٰ ہماری اس عظیم مرحوم شخصیت کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور مرحوم کے خوابوں کی تعبیر کو عملی شکل عطا ہو۔‘‘محمد یوسف مقیم کلکتہ، ۲/مئی۱۹۷۳ء
جناب محمد مسلم سے بھی میں نے درخواست کی تو انھیں بڑی خوشی ہوئی۔ فوراًکاغذ منگوایا اور درج ذیل تحریر لکھ دی:
مرد مومن کی تلاش
’’اقبال کو جس مرد مومن کی تلاش تھی، اس کی ضرورت واہمیت برابر بڑھتی چلی جارہی ہے۔ ضرورت اب ان کے اشعار کو پڑھنے اور ان پر سردھننے سے زیادہ اس بات کی ہے کہ خودی سے آشنا مردانِ کار ہرہر ملک ،ہر شہر اور بستی میں پیدا ہوں اور اپنی بصیرت و ہمت سے زمانے کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لیں۔ زمانہ اگرچہ کچھ گروہوں کو پامال کرتا رہتا ہے تو اسی کے ساتھ وہ کچھ گروہوں کے اشارے ہر حرکت کرنے کے لیے بھی آمادہ رہتا ہے۔ اقبال کا حقیقی اور مطلوبہ مرد مومن وہی ہے جو زمانے کے بے چین اور متحرک گھوڑے کی پیٹھ پر سواری کرے۔ نہ کہ اپنے آپ کو بیکسی کے عالم میں اس کی ٹاپوں کے آگے روندے جانے کے لیے ڈال دے‘‘۔
جناب محمد مسلم ملک کے ممتاز صحافی ،قائد ، دانشور اور تاریخ امت مسلمہ میں چند اہم کارنامے انجام دینے والی شخصیتوں میں سے تھے۔ سابق وائس چانسلر علیگڑھ مسلم یونیورسٹی نے مسلم صاحب کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’ اگر مجھ سے کوئی دریافت کرے کہ صحافی کیسا ہوناچاہئے تو میں کہوں گا کہ محمد مسلم صاحب جیسا صحافی ہوناچاہیے‘‘۔ ﴿تہذیب الاخلاق﴾
مسلم صاحب کا تعلق جماعت اسلامی ہند سے تھا مگر جماعت کے باہر کا حلقہ بھی ان سے قربت اور تعلق رکھنے میں خوشی محسوس کرتا تھا ۔ہندو اور مسلمان سبھی مسلم صاحب سے پیار اور محبت کااظہار کرتے تھے۔ وہ انسانیت نوازی کے قائل تھے ۔ سابق وزیراعظم اندر کمارگجرال، مشہور صحافی کلدیپ نیر جیسے لوگ آپ کے ایک کمرہ والے گھرمیں خوشی سے آیا کرتے تھے۔ مسلمان صحافیوں میں جو لوگ جماعت اور تحریک کو نا پسند کرتے تھے وہ بھی مسلم صاحب سے ملاقات کے خواہاں رہتے تھے۔ محترم احمدسعید ملیح آبادی کو جب بھی خبر ہوتی تھی کہ مسلم صاحب کلکتہ تشریف لائے ہیں تو وہ ضرور دفتر جماعت میں ملاقات کے لیے تشریف لاتے تھے۔مولانا علی میاں، مولانا عتیق الرحمن عثمانی، ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی، اورڈاکٹر سید محمود، جیسی عظیم شخصیتیں بھی ان کی دانشوری اور انسان دوستی کی قائل تھیں۔ ملک بھر سے چھوٹے بڑے مسلم رہنما اور جماعتوں کے لیڈران مسلم صاحب سے’’ دعوت‘‘ کے دفتر میں ملاقات کے لیے تشریف لاتے اور مسلم صاحب چھوٹے بڑے سب کی عزت کرتے تھے اور اپنی حیثیت کے مطابق مہمان نوازی بھی کرتے تھے۔ راقم سے دہلی یا کلکتے میں جب بھی ملاقات ہوتی تو پیار اور محبت کااظہار کرتے اور مفید مشوروں سے نوازتے۔ جب مشرقی پاکستان ﴿موجودہ بنگلہ دیش﴾ سے ہزاروں لوگ ہندستان آگئے تھے تو وزیراعظم محترمہ اندراگاندھی نے ہندوپاک جنگ سے پہلے اردو ایڈیٹروں کو مشرقی پاکستان کی سرحد پر موجود سرنارتھیوں کو دکھانے کے لیے کلکتہ بھیجا تھا۔ دہلی میں ایڈیٹروں کو خطاب بھی کیاتھا۔ اردو کے صرف دو ایڈیٹر محمد مسلم اور جناب غلام سرور ایڈیٹر سنگم پٹنہ نے محترمہ اندرا گاندھی سے ان کی تقریر کے بعد کہا کہ ’’پاکستان کو توڑنا ہندستان کے حق میں بہتر نہیں ہوگا۔‘‘
سرنارتھیوں کے دیکھنے کے بعد جب ایڈیٹر صاحبان کلکتہ تشریف لائے تو مسلم صاحب نے یہ بات بتائی کہ ’’ شمیم احمد شمیم﴿سابق ایم پی﴾ ایڈیٹر آئینہ سرینگر نے مسلم صاحب سے کہا کہ’’ آپ لوگ قومی دھارے سے الگ ہٹ کر بات کرتے ہیں جو مسلمانوں کے حق میں بہتر نہیں ہے‘‘۔
مسلم صاحب نے شمیم صاحب سے جواباً ’’کہا کہ‘‘ شمیم صاحب ہم لوگ ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جو اپنی جڑ سے الگ ہوگئے ہیں یا اس پتے کی مانند نہیں ہیں جو ڈالی سے ٹوٹ جائے اور ہوا جدھر چاہئے اڑالے جائے‘‘۔
مولانا محمدیوسف صاحب جماعت کے ولی اللہ تھے۔ نہایت متقی اور پرہیزگار۔ کم سخن تھے جو بھی بات کرتےTo the Pointکرتے۔ بات نہ کم کرتے نہ زیادہ جس قدر ضرورت ہوتی بس اتنی ہی کرتے۔ مولانا محمد یوسف صاحب کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے تحریک اسلامی کو دنیا کی دوسری تحریکوں سے جوڑنے میں بہت اہم رول ادا کیا اللہ تعالیٰ تینوں بزرگوں کی قبروں کو نور سے بھردے ۔آمین۔ حضرات ملت کے روشن ستارے تھے۔
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2012