عید مبارک !
کووِڈ وارڈ میں صبح ۸ بجے ڈاکٹر انوارصدیقی عید کی مبارکباداپنے مریضوں سے قبول کررہے ہیں۔ اور انھیں بھی مبارکبادی کے ساتھ حوصلہ، ہمت، دوا،دعا، صبر، توکل اور مسکراہٹوں کے قیمتی تحائف بانٹ رہے ہیں۔
ناگپور کے گرم موسم اور روزوں کی تھکان کے بیچ ڈاکٹر انواررات دس بجے گھر پہنچتے ہیں۔اورچند گھنٹے آرام کے بعد عید کے دن صبح سات بجے اگلے ۱۴ گھنٹوںپر مشتمل انتھک کوویڈ خدمات کا عزم لیے گھر سے نکل پڑتے ہیں۔یہ دل فریب منظر ہے ڈیڈی کیٹیڈ کوویڈ ہیلتھ سینٹر پانچ پاؤلی( ناگپور) کا۔ یہاں جماعت اسلامی ہند ناگپور کی بے لوث ورکنگ ٹیم عملاًکئی اعلیٰ اقدار کا سبق دے رہی ہے، مومنانہ فراست، جذبہ خدمت، ہمت و جرأت اور اور فیصلہ سازی کی صلاحیت !
آئیے اسی حیرت انگیزاورمجسم ‘اسپرنگ ٹو ایکشن ’ پروجیکٹ کے خد و خال جانتے ہیں۔
پس منظر اور قیام
ہندوستان کے دیگر علاقے نسبتاً پرسکون اور کورونا سے بے خوف تھے، عین اسی وقت مشرقی مہاراشٹر کے امراوتی اور ناگپور کا درمیانی علاقہ کوویڈ کے مصائب جھیل رہا تھا۔ کوویڈ کی اس نئی مصیبت کی ہلاکت خیزی، انفکٹیوٹی، ممکنہ علاج اور چیلنج ابھی ایک راز تھے اور ان کا اندازہ لگانا نیز اس مناسبت سے ضروری تیاریاں جٹانا ہنوزمشکل تھا۔ لیکن پریشان حال سماج کی خدمت ضروری تھی، اس لیے جماعت اسلامی ہند (جے آئی ایچ) ناگپور کی میڈیکوز کی ٹیم نے مسجد مرکز اسلامی سے ہنگامی طور پر ۱۰۰ آکسیجن سیلنڈرس کے ساتھ ایک آکسیجن فیسیلیٹی سینٹر کا آغاز صرف ریفلنگ چارجس کی بنیاد پر کیا۔ لیکن جب کیومں کی تعداد نے اچانک رخ بدلا تو فیصلہ ہوا کہ خدمات کے دائرے کو بڑھایا جائے۔ ایک مکمل اسپتال مع انفراسٹرکچر کا فوری قیام مشکل تھا، اس لیے طے ہوا کہ کیوں نہ ایسے کسی معطل شدہ اسپتال کی تلاش کی جائے جہاں انفراسٹرکچر موجود ہو لیکن زیر استعمال نہ ہو۔ یہ تلاش جلد کام یاب نہ ہوسکی۔ کہیں لوکیشن آڑے آیا، کہیں کرایہ اور جب سب کچھ ٹھیک ٹھاک رہا تو شناخت کا مسئلہ۔
ملکی سیاست نے نفرت کے جو بیج بوئے ہیں اس پیڑکے کڑوے کسیلے پھل جا بجا ٹپک پڑتے ہیں اور اپنا تعفن پھیلاتے ہیں۔لیکن ٹیم نے ہمت نہ ہاری اور تلاش جاری رکھی اور بالآخرشہر کے قلب میں پولیس کالونی میں واقع کارپوریشن کی ایک ایسی عمارت کی نشان دہی کی گئی جہاں بنیادی سہولتیں موجود تھیں۔حکومتی اداروں سے تعاون ایک مشکل اور حوصلہ شکن کاغذی کارروائی چاہتا ہے لیکن اس ٹیم کے پاس وقت کم تھا، حالات ہنگامی تھے اور ضرورت شدید۔اس لیے کمشنر سے راست ملاقات کا فیصلہ ہوا۔ ملاقات کام یاب رہی اورآناً فاناً معاملہ طئے ہوا۔ یوں ایک بنیادی ضرورت کی تکمیل ہوئی۔اور جماعت اسلامی ہند ناگپور اور میونسپل کارپوریشن ناگپور کا مشترکہ پروجیکٹ ترتیب پایا۔ جو ۷۸ بیڈس پر مشتمل ‘‘ڈیڈیکیٹڈکوویڈ ہیلتھ سینٹر پانچ پاؤلی’’ (ڈی سی ایچ سی)کہلایا۔
اگلا مرحلہ بڑا مشکل تھا یعنی ہیومن رسورس کی فراہمی۔ مینیجنگ ٹیم ڈاکٹرس پر مشتمل تھی۔ اصل کنسلٹنگ خدمات کے لیے یہ کور ٹیم پرعزم تھی لیکن پیرا میڈیکل اسٹاف بالخصوص نرسس کی دستیابی اصل چیلنج تھی۔ باضابطہ تشہیر، انٹرویوز اور اپائنٹمنٹ وقت طلب کام ہے اس لیے کور ٹیم نے طے کیا کہ کیوں نہ سٹی نرسنگ ایسوسی ایشن سے ربط کیا جائے۔ایسوسی ایشن کے ذمہ دارجناب بابا خان کے تعاون سے کچھ باصلاحیت نرسنگ اسٹاف سے ملاقات کی گئی اورآنا فاناً ان کا تقرر کیا۔ مزید اسٹاف کی ضرورت تھی۔ معلوم ہوا کسی جگہ واک ان انٹرویوز جاری ہیں۔ ٹیم کے کچھ افراد وہاں پہنچ گئے اور وہاں موجود باصلاحیت افراد کی بڑی تعداد میں سے فوراً چند لوگوں کو منتخب کرکے ان کا تقرر کیا۔کچھ اسی طرز پر فارمیسسٹ اور دیگر اسٹاف کا تقرر عمل میں آیا اور یوں بنا اشتہار اور کسی لمبی کارروائی کے بغیر صرف تین دن میں یہ مرحلہ تمام ہوا۔
ادھر کارپوریشن کے عہدیداروں کو یہ اطمینان تھا کہ ہیومن ریسورسزکی فراہمی مشکل کام ہے جو یقیناً کئی دنوں پر مشتمل ہوگا، اس دوران حسب وعدہ عمارت کی ضروری مرمت مکمل کرلی جائے گی۔ تیسرے دن جبجے آئی ایچٹیم نے یہ اطلاع دی کہ ہم نے اپنی تیاریاں مکمل کرلیں اورکل افتتاح کے لیے تیار ہیں تو وہ حیرت زدہ رہ گئے۔ پھر انھوں نے بھی اپنی توانائی جھونک کر ضروری تیاریاں آنا فاناً مکمل کرلیں اور دوسرے دن اسپتال کے افتتاح کا اعلان ہوگیا۔ امیر حلقہ جانب رضوان الرحمان خان صاحب اور پریس کی موجودگی میں سٹی مئیر جناب دیا شنکر تیواری نے افتتاح کیا اور دونوں عمائدین نے پریس سے گفتگو کی اور ضروری تفصیل فراہم کی اور چند منٹوں میں یوں افتتاح مکمل ہوا اور پریس کے ذریعے عوام و خواص تک بات عام ہوگئی۔
اسپتال کے قیام میں ڈاکٹر انوارصدیقی ( ناظم شہرجماعت اسلامی ہند ناگپور) کے علاوہ ڈاکٹرس کی باعزم ٹیم نے زبردست رول انجام دیا۔ ان میں ڈاکٹر نعیم نیازی (صدر ایم ایس ایس )، ڈاکٹرآصف الزماںخاں، ڈاکٹر صدیق احمد( میڈیکل آفیسر ناگپور ہائی کورٹ )،برادر شفیق احمد،کے علاوہ برادرمحمد عمر خان ( مینیجر ) کی خدمات اور امیرحلقہ کی رہ نمائی شامل رہیں۔ ڈاکٹراحتشام، ڈاکٹرطارق ، ڈاکٹر شفاعت، ڈاکٹر عارف، ڈاکٹر حسن البناء، اور ڈاکٹر وکی رام ٹیکے پر مشتمل ٹیم طبی ذمہ داریاں انجام دے رہی ہے۔
ندرت اورانفرادیت :
- اس پروجیکٹ کا سب سے منفرد پہلوادارہ جاتی تعاون سے عبارت ہے۔ لال فیتہ شاہی کلچر کو مات دے کر حکومتی اداروں کے ساتھ باہمی تعاون اور ایک کام یاب مشترکہ سرگرمی کی عمدہ مثال اس پروجیکٹ نے قائم کی۔
٭ پروجیکٹ کی ایک اور انفرادیت اس کی ہنگامی شروعات ہے۔ ہنگامی ضرورتوں سے لوگ گھبراتے ہیں۔ یہ حوصلہ شکن ہوتی ہیں۔ ایمرجنسی آغاز کے باوجو د کام یاب عمل آوری اس پروجیکٹ کو ممتاز بناتی ہے۔
- ناگپور شہر کارپوریشن کے دیگرتمام اسپتالوں کے مقابل اس سینٹر کا ریکوری ریٹ ( شفایابی کی شرح ) کہیں بلند ہے۔ کارپوریشن کے اعداد و شمار کے مطابق (بحوالہ: لوکمت سماچار ) ان۸اسپتالوں سے۱۵ مئی تک کل۲۰۳۴مریض شفایاب ہوئے۔ ان میں ۵۳۳مریض اسی ایک اسپتال سے شفایاب ہوچکے ہیں۔
- تمام ضروری احتیاط ملحوظ رکھتے ہوئے غیر ضروری خوف کے ماحول کو یہاں کونسلنگ کے ذریعے ختم کیا گیا۔ یہی سبب ہے کہ یہاں ڈاکٹر اور نرسنگ اسٹاف مریضوں سے اپنائیت کے ساتھ پیش آنے سے ہچکچاتے نہیں۔ عام کوویڈ اسپتالوں کے ماحول کے علی الرغم ہر مریض سے دن میں کم از کم پانچ مرتبہ ڈاکٹر کنسلٹ کرتے ہیں۔ اس کا خاطر خواہ اثر شفایابی کی شرح پر ہوتا ہے۔
- غالبا یہ اپنی نوعیت کا منفرد اسپتال ہے جہاں میڈیکل اسٹاف کے علاوہ کم از کم ۲۵رضاکاروں کی ٹیم ہمہ وقت حاضر ہوتی ہے۔جو مریضو ں کی ممکنہ خدمت، کونسلنگ اور دلجوئی کے لیے مستعد رہتی ہے۔
- بالعموم عمائدین کو مدعو کرنا تشہیر و افتخار کا سبب سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اس پروجیکٹ کی نیک نامی سے سے متاثر ہوکر کئی سیاسی اور سماجی قائدین ازخود یہاں چلے آرہے ہیں اور کافی ستائش کرتے ہیں۔ اس سینٹر میں کسی سیاسی قائد کو مدعو کرنے کا کلچر نہیں رہا لیکن وہ خود آنے کے متمنی ہوتے ہیں۔مہاراشٹر کانگریس صدر جناب نانا پٹولے، کیبنیٹ منسٹر جناب نتن راوت، دیگر اسمبلی اراکین ، ملی و سماجی قائدین کے علاوہ مہاراشٹر کے سابق چیف منسٹر دیویندر فرنویس ( بی جے پی ) نے بھی دورہ کیا اور ستائشی کلمات اپنے سوشل میڈیا اکاونٹ پر درج کیے۔
پیغام عمل :
ٹیم کے کپتان نے یہ تجویز رکھی کہ کام مکمل اونر شپ کے ساتھ ہوگا۔ جس محاذ کی اونر شپ جس فرد کے سپرد ہوگی وہ اس محاذکے تمام مسائل کے بھلے برے کامکمل ذمہ دار ہوگا۔ انوارصدیقی نے آگے بڑھ کر جماعت کے وسیع تعاون اور فنڈ مینجمنٹ کا بوجھ اس عزم کے ساتھ اٹھا یا کہ اپنی جیب سے آخری روپیہ بھی نکال کر جھونکنا پڑے تو پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ڈاکٹر صدیق احمد اور آصف الزماں خان نے سرکاری کارروائی اور کارپوریشن کے معاملات کی تکمیل، ڈاکٹر نعیم نیازی نے علاج معالجہ برادر محمد عمر خان نے اسپتال مینجمنٹ اور برادرشفیق نے رضاکاروں کی فراہمی کے سلسلے میں کچھ ایسی ہی مکمل ذمے داری اپنے سر لی اور ان کا حق ادا کیا۔
اسپتال کی تجویز کے ساتھ ہی مسائل اور خدشات کی لمبی فہرست بھی نکل آئی تھی۔رسک لینے سے ہچکچانا عام فطرت ہے۔ ایک راستہ یہ تھا کہ ٹیم سر جوڑ کر بیٹھتی، تمام ممکنہ مناظر کا تصور کرتی، ان کے مطابق طویل منصوبہ بندی کرتی اور پھر کام کا آغاز ہوتا۔دوسرا راستہ یہ کہ بلا تاخیر کام شروع ہوجائے اس لیے کہ ہنگامی ضرورت ہے۔ اس کے بعد جو مسائل پیش آئیں ان کا مقابلہ دیوانہ وار ہو۔ پروجیکٹ ٹیم نے دوسرا راستہ ترجیحاً اختیار کیا۔ فیصلہ سازی کبھی منصوبہ بندی کے تکلفات سے اوپر اٹھ کر ایمرجنسی ضروریات کی تکمیل کا جنون چاہتی ہے۔ بقول عامرؔ عثمانی ؎
عقل تھک کر لوٹ آئی جادہ آلام سے
اب جنوں آغاز فرمائے گا اس انجام سے
ڈاکٹر صدیق احمد ناگپور ہائی کورٹ میں میڈیکل افسرہیں۔ افسر شاہی کے انداز خوب جانتے ہیں۔ ان کے مطابق روایتی کارروائی بوجھل اور وقت طلب عمل ہے۔ اس لیے ہم نے روایتی کاغذی کارروائی کے بجائے عہدیداروں سے راست بات چیت کرنا طے کیا۔ کمشنر سے وقت لے کر آفس پہنچ گئے اور راست اپنا مدعا بیان کیا۔ ٹیم کی صلاحیتیں ثابت کیں اور گزارش کی کہ آپ کھلا کھلا جواب دیں تاکہ ہم معینہ وقت میں فیصلہ لے سکیں۔ کمشنران کی راست گوئی اور عزائم دیکھ کر کافی متاثر ہوئے اور پوچھا کہ آپ اسپتال کب شروع کرسکتے ہیں۔ ہم نے تمام چیلنجوں کے باوجود راست یہ تیقن دیا کہ بس ایک ہفتہ۔ عزائم اورصلاحیتوں کا موقعہ پر اظہار اور تمام سوالات اورخدشات کا اطمینان بخش جواب کام کرگیا۔ عملی میدان میں یہ تجربہ کارگر ہوسکتا ہے۔
سب سے بڑا چیلنج ہیومن رسورس کا تھا۔ اس حوصلہ شکن ماحول میں سب سے پہلے جماعت کے ناظم شہرنے یہ عہد کیا کہ جب تک اضافی ڈاکٹروں کا نظم نہ ہو میں اپنا کلینک اور پریکٹس بند کرکے مکمل وقت اسپتال کے لیے فارغ کردوں گا۔( آج بھی وہ روزانہ دس گھنٹے اسپتال کی خدمت کے لیے اور شام میں دو گھنٹے اپنے کلینک کے لیے فارغ کرتے ہیں ) امیر کی اطاعت کے ساتھ سبھی لوگوں نے یہی عہد کیا۔ان کے عہد کا یہ عالم تھا کہ ضرورت شدید ہو تو ہم نرسنگ کی ذمہ داریاں بھی ادا کریں گے اور اسپتال کی صفائی کا کام بھی کریں گے، لیکن یہ ضروریقینی بنائیں گے اسپتال کا کام کاج متاثر نہ ہو!
ہر بڑا کام قربانی چاہتا ہے اور اگرقائد قربانی کے لیے پہلے آگے بڑھے تومخلص کیڈر دس قد م بڑھانے سے نہیں چوکتا۔
کل ۴۵ رضاکاروں کی ٹیم روزوں کے اہتمام کے ساتھ یہاں شب وروزخدمت میں جٹی ہے۔گذشتہ ڈیڑھ ماہ سے مستقل یہ لوگ کوویڈ مریضوں کے قریب ہیں۔ ان میں سے کئی احباب کی راتیں اسپتال میں ہی گزرتی ہیں یہیں سحرو افطار اور تراویح کا اہتمام ہوتا ہے، لیکن رب کریم کا احسان ہے کہ ان میں سے کوئی والنٹیر متاثر نہ ہوا۔ ان کے لیے اب ویکسین کا خصوصی نظم کیا گیا ہے۔ زندگی نو کے مستقل قلم کار اور سائنس داں ڈاکٹر محمد رضوان کا تعلق بھی ناگپور سے ہے اور وہ اس پروجیکٹ کی علمی معاونت کرتے ہیں۔ میں نے اس کرشمے کی سائنسی توجیہ جاننی چاہیے، وہ کہتے ہیں کہ مخلص رضاکاروں کی یہ ٹیم گذشتہ سال سے ( لاک ڈاؤن اور پہلی لہر کے دوران ) خدمت میں جٹی ہے، عین ممکن ہے کہ ان میں سے کئی لوگ مستقل ایکسپوزڈ ہوکر امیون ہوچکے ہوں۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ملک کے مختلف علاقوں سے یہ خبر بھی آئی کہ ہمارے کئی رضاکار خدمت کے دوران متاثر ہوکر چل بسے۔اس جوکھم کے باوجود یہ خدمت سے پیچھے ہٹنے والے لوگ نہیں۔ ہر دوصورتوں میں وہ کام یاب ہیں اور ان کا اجر محفوظ ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ تحریک اسلامی کے ذریعے پیدا کیا گیا خدمت خلق کا وہ اصل تصور جو عین اسلامی ہے اس کے بغیر اس طرح کے غیر معمولی کام کو اتنے بڑے عرصے تک اتنا بڑا جو کھم اٹھا کر کرنا ممکن ہی نہیں۔
اسپتال کی نیک نامی جب عام ہوئی توکہیں سے یہ جھوٹی شکایت بھی پہنچ گئی کہ اسپتال کے منتظمین جانبداری سے کام لے رہے ہیں اور صرف ایک طبقے کی خدمت میں جٹے ہیں۔ اس شکایت کی بنیاد پر افسران کا رویہ بھی قدرے سرد ہوگیا۔ دوائیوں کی سپلائی بھی کچھ دن متاثر ہوئی۔منتظمین نے جاکر ملاقات کی اوراسپتال کے شفاف ریکارڈ کی بنیاد پر بتایا کہ تاحال ۱۳۳ شریک دواخانہ مریضوں میں ۱۰۱ برادران وطن ہیں۔ یہ تناسب بالکل فطری ہے۔ یہ وضاحت بھی کی کہ ہم کسی تفریق کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ افسران اس حقیقت کو جان کر نادم ہوئے اور معاملات فوراً نارمل ہوگئے۔
یہ سچ ہے کہ ملک میں فرقہ وارانہ ذہنیت اپنا کام کرتی ہے لیکن یہ وہیں اثر کرتی ہے جہاں سچائی کم زور پڑتی ہے یا حق بیانی اعتماد کھوتی ہے۔
مقامی ذمہ داران کہتے ہیں کہ اسپتال کی مخلصانہ خدمات کے مناظر جب عام ہوئے تو عوامی احترام دوچند ہوگیا۔ شہر کی کئی مساجد کمیٹیوں نے ( کسی اپیل کے بغیر ) یہ فیصلہ کیا کہ مساجد میں جمعہ کے دن دوہرا فنڈ اکٹھا کیا جائے گا۔ ایک مسجد کے لیے مستقل فنڈ اور دوسرا اسپتال کے لیے۔دست تعاون دراز کرنے والوں میں بریلوی، شیعہ، اہل حدیث کے بشمول تمام مسالک کے لوگ شامل ہیں۔حکومتی اداروں نے کرایہ اور بجلی کا بل معاف کردیا۔ ایک کرم فرما نے لاکھوں روپیوں پر مشتمل پیتھالوجی لیب کھڑی کردی۔ ایک صاحب نے مستقل اسپتال کے لیے اراضی کی پیش کش کی۔ برادران وطن کی کئی تنظیمیں، اور افراد بھی دل کھول کر تعاون کررہے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ اسپتال مستقل مفت علاج کے قابل بن سکا۔
ابتدائی فنڈ کی فراہمی سب سے بڑا چیلنج محسوس ہورہا تھا۔ لیکن معلوم یہ ہوا کہ آہنی عزم اور مخلصانہ کام کے آگے خدشات اور مسائل ہیچ ہوتے ہیں۔
عبداللہ ایک محنت کش شخص ہے۔ انھیں کوویڈ نے سخت متاثر کررکھا ہے وہ اسپتال میں شریک ہیں۔ رمڈیسیور کے چھ ڈوز مطلوب تھے لیکن دوائیوں کی فراہمی متاثر تھی۔ عبداللہ نے اپنے بل پر بمشکل ان انجکشنوں کا انتظام خود کیا۔ انجکشنوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ ایک دن کی بات ہے، انھوں نے دیکھا کہ قریب ہی ایک اور مریض تکلیف سے تڑپ رہا ہے،انھوں نے ڈاکٹر سے التجاکی کہ بقیہ انجکشن اس شخص کے لیے استعمال کرلیں۔ ڈاکٹروں نے سمجھانے کی کوشش کی کہ تمھارا کورس چھ انجکشنوں پر مشتمل ہے جو مکمل نہیں ہوا۔ لیکن ان کا اصرارتھا کہ خدا نے چاہا تو ادھورا کورس ہی میرے کام آجائے گا لیکن میں انھیں تڑپتا نہیں دیکھ سکتا ہوں۔ بقول ندیم ؎
آنکھوں سے مناظر کا تسلسل نہیں ٹوٹا
میں ٹوٹ گیا میرا توکل نہیں ٹوٹا
خدانے اپنے بندے کے اس توکل کا پھل دیا اور عبداللہ اپنے ادھورے کورس کے باوجود صحت یاب ہوکر ڈسچارج ہوگئے۔
دوائیوں کی سیاسی اسمگلنگ، نقلی دوائیوں کے کارخانے، اسپتال کے بستروں کی کالا بازاری، اور آکسیجن کی لوٹ کے بیچ ایسے روشن واقعات امید کی کرن جگاتے ہیں۔
کم ہمتی اور مایوسی کے ماحول میں الخلق عیال اللہ کے ماننے والے ایسی روشن مثالیں قائم کرتے رہیں گے۔ان شاء اللہ
مشمولہ: شمارہ جون 2021