موجودہ حالات میں مسلمانانِ ہند کی حکمت عملی

محترم امیرجماعت اسلامی ہند سے انٹرویو

لوک سبھا کے حالیہ انتخابات میں فاشسٹ سمجھی جانے والی ایک مخصوص پارٹی کے بر سر اقتدار آنے کی وجہ سے مسلمان تشویش میں مبتلا ہوگئے تھے اور ان پر حزن و ملال اور یاس و قنوطیت کی کیفیات طاری ہورہی تھیں۔ ان حالات میں ضرورت محسوس ہوئی کہ ان کی صحیح رہنمائی کی جائے اور ان کے سامنے ایک ایسا جامع پروگرام پیش کیا جائے جو ان کے منصب کے مطابق ہو اور جس کے ذریعہ حالات میں مثبت تبدیلی لائی جاسکے۔ اس پس منظر میں محترم مولانا سید جلال الدین عمری امیرجماعت اسلامی ہند سے انٹرویو کی گزارش کی گئی، جس کی انھوں نے بہ طیب خاطر اجازت مرحمت فرمائی۔ اس پر ہم موصوف کے از حد شکر گزار ہیں۔

اس انٹرویو سے موجودہ حالات کا عمیق تجزیہ سامنے آتا ہے، انتخابات میں سیکولر پارٹیوں کی شکست اور مسلمانوں کی انتخابی حکمت عملی کی ناکامی کے اسباب پر روشنی پڑتی ہے اور موجودہ حالات میں مسلمانوں کو بر سر اقتدار پارٹی سے کیا اندیشے ہیں اور ان کے سامنے کیا چیلنج ہیں اُس کا علم ہوتا ہے، دوسری طرف آئندہ کا لائحہ عمل واضح ہوتا ہے، اور رہ نمائی ملتی ہے کہ مسلمان سماجی، تعلیمی اور معاشی میدانوں میں پیش رفت کے لیے کیاحکمت عملی اختیار کریں اور ان کے درمیان اتحاد و اتفاق کو کیوں کر فروغ دیا جاسکتا ہے۔ (ادارہ)

سوال : حالیہ لوک سبھا انتخابات میں سیکولر پارٹیوں کی شکست کے کیا اسباب ہیں؟

جواب: لوک سبھا انتخابا ت پر میڈیا میں بہت بحث ہوچکی ہے۔ سیکولر پارٹیوں کی شکست کے متعدد اسباب ہیں۔ایک سبب ان کا عدم اتحاد ہے۔ مرکز میں UPA کی حکومت تھی، جس کی سربراہی کانگریس کررہی تھی۔ ابتدائی چند سال تک تو یہ اتحاد باقی رہا، بعد میں انتشار کا شکار ہوگیا اور ایک دوسرے پر الزامات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ S.P. اور B.S.P جو کانگریس کی باہر سے حمایت کررہی تھیں کانگریس کو مستقل ہدف تنقید بنائے ہوئے تھیں اور کانگریس کی ناکامی میں اپنی کامیابی دیکھ رہی تھیں۔ یہی حال دوسری پارٹیوں کا رہا۔

مرکز میں جو حکومت تھی وہ اس قدر کرپٹ ہوچکی تھی کہ ماضی میں شاید اس کی مثال نہ ملے۔ ہر ایک کی زبان پر اس کے کرپشن اور بدعنوانی کا ذکر تھا۔ کانگریس کو اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کی حمایت حاصل رہی تھی۔ کانگریس نے مسلمانوں سے وعدے تو بہت کیے ، سچر کمیٹی کی سفارشات پر عمل در آمد کا اعلان بھی کرتی رہی، لیکن عملاً مسلمانوں کے اہم مطالبات کو نظر انداز کرتی رہی، جیسے مسلم بے گناہ نوجوانوں کی گرفتاری کا مسئلہ، فسادات مخالف بل کا مسئلہ، ان کی معیشت اور روزگار کا مسئلہ۔ اس طرح کے دیگر مسائل میں بھی مسلمانوں کو کانگریس سے شکایت رہی اور وہ اس سے غیر مطمئن ہوگئے۔ انھوں نے بی جے پی اور کانگریس کے درمیان جہاں براہ راست مقابلہ تھا، کانگریس کی تائید کی لیکن یہ تائید خوش دلی سے نہیں تھی، بلکہ بہ درجۂ مجبوری تھی۔ چناں چہ جہاں کانگریس کا کوئی متبادل موجود تھا، وہاں انھوں نے اس متبادل کو ترجیح دی۔

کانگریس کی ناکامیوں کے ساتھ تبدیلی کی خواہش بھی موجود تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کانگریس یا UPA اور بی جے پی یا NDA کے درمیان پالیسیوں کا کوئی خاص فرق نہیں تھا۔ کانگریس کی پالیسی ملکی اور عالمی سطح پر امریکا اور اسرائیل کے حق میں تھی، بلکہ ان کی مرضی کے تابع تھی۔ ملکی معیشت پر ملٹی نیشنل کمپنیوں اور کارپوریٹ کا قبضہ تھا۔ سب جانتے ہیں کہ بی جے پی بھی ان ہی خطوط پر کام کرنا چاہتی ہے۔ اس لیے جب کانگریس کم زور ہوئی یا اس سے مایوسی ہوئی تو ان طاقتوں کی پشت پناہی بی جے پی کو حاصل ہوگئی اور پورا کارپوریٹ اس کے پیچھے کھڑا ہوگیا۔ اس نے الیکشن میں اپنا پیسہ بی جے پی یا مودی صاحب کے لیے پانی کی طر ح بہایا۔ کیوں کہ وہ دیکھ رہاتھا کہ اس کے مفادات اب بی جے پی ہی کے ہاتھوں میں زیاد ہ محفوظ ہیں۔ یہاں سوال یہ تھا کہ ایک ہی پالیسی کو کانگریس اور بی جے پی میں کون بہتر طریقے سے پورا کرسکتا ہے۔ عوام نے بی جے پی کے حق میں رائے دے دی اور تبدیلی کی خواہش بھی پوری ہوگئی۔

سیکولر پارٹیوں کی ناکامی میں بڑا دخل یہاں کے الیکشن سسٹم کا بھی ہے۔ اس کے تحت متعدد نمائندوں اور پارٹیوں میں اس طرح ووٹ تقسیم ہوجاتے ہیں کہ جس امیدوارکو بھی اپنے قریب ترین حریف کے مقابلہ میں ایک فی صد کی بھی اکثریت حاصل ہو، وہ کامیاب ہوجاتا ہے، چاہے مجموعی ووٹ کے لحاظ سے اسے زیادہ ووٹ حاصل نہ ہوں۔ یہی معاملہ پارٹیوں کا بھی ہے۔کم ووٹ حاصل کرنے کے باوجود ایک پارٹی کامیاب ہوجاتی ہے اور دوسری ناکام رہتی ہے۔ چنانچہ اتر پردیش میں بہو جن سماج پارٹی کو ۴ فیصد ووٹ ملے، لیکن ایک بھی سیٹ حاصل نہیں کرسکی۔ ترنمول کانگریس کو ۸ء۳ فیصد ووٹ ملے اور ۳۲سیٹیں اس کے حصہ میں آئیں۔ انا ڈی ایم نے ۳ء۳ فی صد ووٹ حاصل کرکے ۳۷ نشستیں جیت لیں، بیجو جتنا دل ۶ء۱ فی صد ووٹ حاصل کرکے ۲۰ نشستوں پر کامیاب قرار پائی۔ اگر متناسب نمائندگی کے اصول پر عمل ہو تو یہ صورت حال بدل سکتی ہے۔ اب اس کا مطالبہ مختلف جماعتوں کی طرف سے ہونے لگا ہے۔ اس پر ملکی سطح پر غور ہونا چاہیے۔

سوال : مسلمانوں کی انتخابی حکمت عملی کیوں ناکام ہوئی؟

جواب: یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ مسلمانوں کی انتخابی حکمت عملی ناکام رہی۔ ہر الیکشن کے موقع پر ان کی انتخابی حکمت عملی کی دو بنیادیں رہی ہیں۔ ایک فاشسٹ طاقتوں کو شکست دینا اور دوسرے سیکولر طاقتوں کی حمایت کرنا، ان کے سامنے اپنے مطالبات رکھنا اور ان سے مطالبات کی تکمیل کی توقع رکھنا۔ یہ دونوں چیزیں اس وقت بھی مسلمانوں کے سامنے رہی ہیں۔

مسلمان عام طور پر کانگریس کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ اس کا ا سے فائدہ بھی پہنچتا رہا ہے ۔وقت کے ساتھ ایک طرف تو کانگریس نے اپنا اعتماد کھو دیا اوردوسری طرف مسلمان مختلف سیکولر پارٹیوں میں منقسم ہوگئے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ان پارٹیوں سے ان کی وابستگی کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔اس سے ان کے بھی اور پارٹیوں کے بھی مفادات وابستہ ہیں۔ نہ وہ پارٹی چھوڑ سکتے ہیں اور نہ پارٹی انھیں چھوڑنا چاہے گی۔اس لیے موجودہ حالات میں یہ ایک غیر عملی بات ہے کہ مسلمان متحد ہوکر کسی خاص سیکولر پارٹی کے نمائندے کو کامیاب بنانے کی کوشش کریں۔ نہ پہلے یہ ہوا ہے اور نہ فی الحال اس کا امکان ہے۔ اس سلسلہ میں کچھ کوششیں ہوتی رہی ہیں اور اب کی بار بھی ہوئی ہیں۔ کہیں کہیں اس کا بہتر نتیجہ بھی سامنے آیا ہے، لیکن مجموعی طور پر اسے کامیاب نہیں کہاجاسکتا۔ بہرحال مسلمانوں نے ہمیشہ کی طرح سیکولر پارٹیوں ہی کی تائید کی۔ اس کے باوجود وہ ناکام ہوگئیں، اسے ان پارٹیوں کی ناکامی تو کہاجاسکتا ہے، مسلمانوں کی ناکامی کہنا مشکل ہے۔ یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ مسلمان پورے ملک میں صرف آٹھ دس انتخابی حلقوں میں اکثریت میں ہیں، وہاں اگر ان کے ووٹ تقسیم نہ ہوں تو ان کا نمائندہ کامیاب ہوسکتا ہے، لیکن باقی مقامات پر ان کے ووٹ نتائج پر اثر انداز تو ہوسکتے ہیں، لیکن فیصلہ کن نہیں ہوسکتے۔

مسلمانوں کے انتخابی اتحاد پر غور کرتے وقت اس کے رد عمل کوبھی سامنے رکھنا ہوگا۔ اگر مسلمان کہیں تیس فیصد بھی ہوں اور وہ متحدہوجائیں تو ستر فیصد بھی متحد ہوسکتے ہیں، بلکہ ان کی نصف تعداد بھی متحد ہوجائے تو وہی کامیاب ہوں گے۔

سوال : نئی برسر اقتدار پارٹی سے مسلمانوں کو کیا اندیشے ہیں؟

جواب: یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ بی جے پی ایک سیاسی پارٹی ہی نہیں، بلکہ ایک نظریاتی پارٹی بھی ہے۔اس کی فکری اساس آر ایس ایس ہے۔ اس سے وہ فکری غذا حاصل کرتی ہے اور اسی کے عزائم کو سیاسی طور پر پورا کرنا اس کے مقاصدمیں شامل ہے۔ آر ایس ایس اس ملک میں ایک خاص کلچر اور تہذیب کی علم بردار ہے اور اسی کا یہاں غلبہ چاہتی ہے ، جسے ہندو تو کہاجاتا ہے۔ اس سے مسلمان اور دیگر تہذیبی اقلیتیں بہ جا طور پر اندیشے محسوس کرتی ہیں۔ مسلمان سمجھتے ہیں کہ اس سے ان کا پرسنل لا ختم ہوسکتا ہے،ان کے لیے دینی تعلیم کو جاری رکھنے میں دشواریاں پیش آسکتی ہیں، سرکاری نصاب میں ایسی تبدیلی آسکتی ہے جو اسلام کی اساسی تعلیمات کے خلاف ہو۔ چناں چہ جن ریاستوں میں بی جے پی پہلے سے اقتدار میں ہے وہاں اس طرح کی کوششیں شروع ہوگئی ہیں۔ اس سلسلے میں مسلمانوں کو بیدا ر رہنا ہوگا اور ملک کے لیے اس کے نقصانات کو واضح کرنا ہوگا۔ تہذیبی جارحیت کو مسلمان ہی نہیں یہاں کی دوسری اقلیتیں بھی قبول نہیں کرسکتیں۔ یہ ان کے تشخص اور انفرادیت کو ختم کرنے والا رویہ ہے۔ اقلیتوں میں اس اندیشہ کا پیدا ہوناکہ ان کی انفرادیت ختم کی جارہی ہے ملک کے اتحاد و سا لمیت کے لیے نقصان دہ ہے۔ تہذیبی جارحیت کے خلاف جہاں قانونی اقدام کی ضرورت ہو وہاں اس کی بھی کوشش ہونی چاہیے۔

بعض مسائل میں حکومت بہ ظاہر کھلی بحث چاہتی ہے۔ چناں چہ کبھی مسلمانوں کے اقلیت ہونے یا نہ ہونے کی بحث چھیڑی جاتی ہے، کبھی کامن سول کوڈ کا سوال کھڑا کردیا جاتا ہے، کبھی دفعہ ۳۷۰ پر بحث کی جاتی ہے، حالانکہ اس کا تعلق کشمیر سے ہے۔اس طرح کے سوالات کے ذریعہ یوں محسوس ہوتاہے کہ مسلمانوں کا رجحان اور رد عمل جاننے کی کوشش ہورہی ہے۔اس معاملہ میں مسلمانوں کو اپنا موقف حکومت کے سامنے بھی مضبوطی سے پیش کرنا چاہیے اور ملک کے سامنے بھی اسے دلائل کے ساتھ لانا چاہیے۔

یہ کہنا مشکل ہے کہ موجودہ حالات میں، جب کہ ملک ایک طرح کے معاشی بحران سے گزر رہا ہے، ہوش ربا گرانی نے عوام کے ہوش اڑا رکھے ہیں۔ حکومت میں آنے سے پہلے اچھے دن کا جو خواب دکھایا گیاتھا عوام کو دور دور تک اس کی تعبیر نظر نہیں آرہی ہے، اس کا امکان کم ہی ہے کہ حکومت اپنے ایجنڈے پر فوراً عمل شروع کردے گی، لیکن اس کے باوجود اس کی راہیں نکالنے کی کوشش ضرور کرے گی۔ اس لیے اس کے اقدامات کا باریک بینی سے جائزہ لیتے رہنا ہوگا اور بر وقت مناسب اقدامات بھی کرنے ہوں گے۔

سوال:کیا موجودہ حکومت اپنے سیاسی ایجنڈے پر عمل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی؟ اس سلسلہ میں مسلمانوں کا کیا رول ہونا چاہیے؟

جواب: مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بات کسی قدر ماضی سے شروع ہو۔ ۲۰۰۴ء میں بی جے پی نے باجپئی صاحب کی قیادت میں شائننگ انڈیا Shining India کے ایشو پر الیکشن لڑا تھا، لیکن وہ کامیاب نہیں ہوسکی۔ اب کی بار نریندر مودی صاحب ملک کی ترقی کے نام پر الیکشن کے میدان میں آئے اور کامیاب ہوگئے۔ انھوں نے ملک کی ترقی، سب کا ساتھ اور بہتر وچست انتظامیہ کو موضوع بنایا اور کامیابی حاصل کی۔ دونوں مواقع بر بی جے پی نے اپنے خاص نظریات کو الیکشن کا ایجنڈا نہیں بنایا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خود بی جے پی یہ محسوس کررہی ہے کہ اس کے نظریاتی ایجنڈے سے ملک کو دل چسپی نہیں ہے، اس سے عوام کا کچھ بھلا نہیں ہوگا۔ انہیں اصل دل چسپی اس سے ہے کہ ملک ترقی کرے۔ ان کی خواہش ہے کہ ان کا ملک ترقی پزیر ملکوں کی صف سے نکل کر ترقی یافتہ ممالک کے درمیان کھڑا ہو۔ اس کی ترقی کا فائدہ بلا امتیاز ہر شخص کو ہو اور موجودہ کرپٹ انتظامیہ کی جگہ صاف ستھری انتظامیہ وجود میں آئے۔ بی جے پی کے الیکشنی رہ نما اور نام زد وزیر اعظم نریندر مودی نے اس حقیقت کو سمجھا اور اپنے نظریاتی ایجنڈے کو چھوڑ کر ایک ایسے ایجنڈے کو ملک کے سامنے رکھا جس میں ملک کے عوام کے لیے کشش ہوسکتی تھی۔ اس میں وہ کامیاب رہے۔انھوںنے حسبِ موقع ذات پات کا ایشو بھی چھیڑا، لیکن اس کی حیثیت زیادہ تر مقامی تھی، ملکی سطح کی نہیں تھی۔

اب ملک کے ہر شہری کی ذمہ داری ہے کہ وہ حکومت کو متوجہ کرتا رہے کہ وہ تعمیر وترقی کے الیکشنی ایجنڈے پر عمل کرے اور اس کی کارکردگی اور اقدامات پر بھی اس کی نظر ہو کہ حکومت اِس ایجنڈے سے انحراف تو نہیں کررہی ہے۔ مسلمانوں کو بھی اس پہلو سے جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ وہ اس ایجنڈے کو ترک کرکے ہندو تو کے ایجنڈے کی طرف نہ جائے۔

اس ملک کا ایک دستور ہے۔ اس کے تحت انتخابات ہوتے ہیں، حکومت بنتی اور نظام حکومت چلتا ہے۔ دستورکی اساس، فکر و عمل کی آزادی ، مساوات اور عدل و انصاف پر قائم ہے۔ آزادی کا مطلب یہ ہے کہ ہر فرد اور گروہ کو عقیدہ اور فکر کی آزادی ہوگی، اس کا مذہبی تشخص اور انفرادیت باقی رہے گی، اسے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور معاشی تگ و دو کا حق حاصل ہوگا اور ایسا ماحول فراہم کیا جائے گا جس میں وہ محسوس کرے کہ وہ کھلی فضا میں سانس لے رہاہے اور ہر طرح کے جبر اور نا روا بندشوں سے آزاد ہے۔ اسی طرح حقوق و اختیارات کے معاملہ میںایک فرد اور دوسرے فرد یا ایک گروہ اور دوسرے گروہ کے درمیان فرق و امتیاز نہ ہو اور عدل و انصاف کے تقاضے ہرحال میں پورے کیے جائیں۔

ملک کے عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ دیکھیں کہ ملکی نظام میں دستور کی پابندی ہورہی ہے یا نہیں۔ اگر کسی طرف سے اس کی خلاف ورزی ہوتو اس کے خلاف آواز بلندکرے، اس ملک میں عدلیہ بھی موجود ہے، دستور کی پاس داری جس کی ذمہ داری ہے۔ اسے بھی اس معاملہ میں چوکس اور مستعد ہونا چاہیے۔

سوال: موجودہ حالات میں ہندوستانی مسلمانوں کے سامنے بڑے چیلنج کیا ہیں؟

جواب: ہندوستان کے مسلمانوں کے سامنے جو چیلنج ہیں وہ نئے نہیں ہیں، البتہ موجودہ حالات نے ان کی شدت میں اضافہ کردیا ہے۔ ان میں سے صرف دو کا یہاں ذکر کیاجارہا ہے:

۱- مسلمان عام طور پر اسلام کی تعلیمات سے بے خبر ہیں۔ اس سلسلہ میں جو کوششیں مسلمانوں کی طرف سے ہورہی ہیں وہ ناکافی ہیں۔ اسلام سے ناواقفیت انھیں دین سے دور کررہی ہے۔ اس کے ساتھ موجود ہ تعلیم و تدریس، لٹریچر اور میڈیا میں ایک تو اسلام کا کوئی ذکر ہی نہیںہوتا اور کبھی ہوتا بھی ہے تو منفی اندازمیں۔ اس وجہ سے ایک عام مسلمان اسلام سے دور نہ بھی ہو تو اس میں کوئی کشش نہیں محسوس کرتا اور اسلام سے اس کی محض ایک رسمی وابستگی رہ جاتی ہے ۔ اس کے لیے پوری امت میں دین کے علم کو عام کرنے اور اس سے تعلق کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام طویل منصوبہ بندی کا تقاضا کرتا ہے۔اسے پورا کرنے کی ممکنہ تدبیر کرنی چاہیے۔

۲- پوری دنیا پر مغربی تہذیب کا غلبہ ہے۔ اسی کی ہر طرف حکمرانی ہے۔ مسلمانان ہند نے بھی اس تہذیب کو اختیار کر رکھا ہے۔ موجودہ حالات میں ہندو تو کے ایک خاص کلچر کو فروغ دینے کی کوشش جاری ہے۔ اس کاتعلق لباس، وضع قطع اور کھانے پینے کے طور طریقوں سے زیادہ مذہب اور عقیدے سے ہے۔ اس سے مسلمان بھی متاثر ہورہے ہیں۔ اس سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ تہذیب اور کلچر کے بارے میں اسلام کا اپنا ایک نقطۂ نظر ہے،وہ کسی بھی ملک اور علاقہ کی تہذیب اور روایات کو ختم نہیں کرتا، البتہ اسے اپنے عقیدے کے تابع رکھتا ہے۔ مسلمانان ہند نے بھی یہاں کے طور و طریقوں کو اختیار کیا، لیکن اپنے عقیدے پر قائم رہے۔

سوال : ملک کی سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کے سلسلے میں کیا رویہ اختیار کیا ہے؟

جواب: یہ ایک واقعہ ہے کہ ملک کی سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کو ووٹ بینک حیثیت سے دیکھتی ہیں۔ انھیں ان کے مسائل سے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔ وہ اگر دل چسپی لیتی بھی ہیں تو صرف اس حد تک کہ انھیں بر سراقتدار آنے میں مسلمانوں کا تعاون حاصل ہو۔ اس کے لیے بھی وہ اکثریت کی چشم و ابرو کو دیکھتی ہیں کہ وہ ان سے دور نہ ہونے پائے۔ سچر کمیٹی نے اعداد و شمار کے ذریعہ بتادیا ہے کہ مسلمان بعض ـپہلوؤں سے یہاں کے پس ماندہ طبقات OBC سے بھی پیچھے ہیں۔ اگر یہاں کی سیاسی پارٹیوں کو مسلمانوں کے مسائل سے دل چسپی ہوتی تو شاید مسلمانوں کا یہ حال نہ ہوتا۔ کسی بھی پارٹی کے بارے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ مسلمانوں کے مسائل پر ہمدردی سے غور کرتی ہے اور ان کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے سنجیدہ کوشش کررہی ہے۔

سوال : مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی ترقی کے لیے مسلمان خود کیا حکمت عملی اختیار کریں؟

جواب: تعلیم ہر شخص کا فطری حق ہے۔ اس کے بغیر وہ نہ تو ترقی کرسکتا ہے اور نہ سماج میں اس کا اعتبار قائم ہوسکتا ہے۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ مسلمان تعلیم کے میدان میں دوسروں سے کافی پیچھے ہیں۔ سابق حکومت نے لازمی تعلیم کا قانون پاس کیا ، اس سے مسلمانوں کو فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ سرکاری مدارس میں جو نصاب پڑھایا جاتا ہے اس سے طالب علم کو دینی معلومات نہیں حاصل ہوتیں، بلکہ ایک طرح سے دین اس کے لیے اجنبی ہوکر رہ جاتا ہے۔ یہاں مسلمانوں کے بڑے بڑے دینی مدارس قائم ہیں، جہاں دینی علوم کی تعلیم دی جاتی ہے، وہیں کے فارغین بالعموم دین کی ترجمانی کا فرض انجام دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ان کی اپنی خدمات ہیں، لیکن جیسا کہ اعداد و شمار بتاتے ہیں ، ان سے استفادہ کرنے والے مسلم طلبہ کی تعداد صرف چار فیصد ہے۔ باقی تعداد سیکولر اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتی ہے۔ دین سے ان کی واقفیت کے لیے جگہ جگہ شبینہ اور صباحی مدارس اور مکاتب موجود ہیں۔ ان سے دین کا ابتدائی تعارف کسی حد تک ہوجاتا ہے، لیکن دینی تعلیم کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ اس کے لیے بہت تفصیلی پروگرام ہونا چاہیے۔ جدید تعلیم کے جو ادارے قائم کیے جائیں یا جو عملاً موجود ہیں ان میں دینی تعلیم رسما ًنہ ہو، جیسا کہ اب تک ہورہا ہے، بلکہ نصاب میں اسے مناسب جگہ دی جائے اور طلبہ و اساتذہ اسے وقت گزاری کا ذریعہ نہ سمجھیں، بلکہ اسے فی الواقع وہ اہمیت دیں جس کی وہ مستحق ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بعض اداروں میں اس کی کوشش بھی ہوتی ہے۔ خود جماعت اسلامی ہند نے جو ادارے قائم کیے ہیں ان میں اس کا اہتمام کیا جارہا ہے، لیکن اس کے تقاضے اس سے زیادہ ہیں۔ اس کے لیے پوری امت کو توجہ کرنی ہوگی۔ وہ چاہے تو پورے ملک میں اس طرح کے اداروں کاجال پھیلا سکتی ہے جن میں دنیوی علوم کے ساتھ علم دین کو بھی مناسب جگہ دی جائے، لیکن اس کے باوجود یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ مسلمان طلبہ کا رخ بدل جائے گااور وہاں سے دین کے ترجمان اور اس کے حامی وناصر طالب علم تیار ہوں گے۔ اس کے لیے پورے نظام تعلیم ہی کو اسلامی ہدایات اورعصری تقاضوں کے پیش نظر تبدیل کرنا ہوگا اور ایک نیا نظام تعلیم وجود میں لانا ہوگا۔ یہ ایک طویل العمل منصوبہ ہے، اس کا کہیں تجربہ بھی نہیں ہوا ہے، جس سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔موجودہ حالات میں ہم اس موقف میںنہیں ہیں کہ کسی نئے نظامِ تعلیم پر عمل کرسکیںاس لیے جو کچھ کرسکتے ہیں وہ یہی کہ موجودہ تعلیمی نظام میں اسلام کی تعلیم کومؤثر جگہ دی جائے اور ان اداروں کے فارغین ہی میں سے چند ایک کودین کی خدمت اور سربلندی کے لیے تیار کیا جائے۔ یہ پورا مسئلہ غور طلب ہے۔ اس پر تفصیل سے گفتگو کا یہ موقع نہیں ہے۔

معاش کا تعلق بھی تعلیم سے ہے۔ اس کے بغیر معاشی ترقی کا تصور مشکل ہی سے کیا جاسکتا ہے۔ تعلیم کے ساتھ سرکاری اور غیر سرکاری ملازمت کا تصور ابھرتا ہے۔ اس کے مواقع محدود ہیں۔ اس سے ہٹ کر بھی تعلیم یافتہ آدمی کے لیے حصول معاش کے امکانات غیر تعلیم یافتہ شخص کے مقابلہ میں زیادہ ہوتے ہیں۔ مسلمانوں میں آج بھی ایسے با صلاحیت اور تعلیم یافتہ نوجوان موجود ہیں کہ انھیں مالی تعاون حاصل ہوتو وہ معاشی لحاظ سے اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکتے ہیں، بلکہ دوسروں کی مدد بھی کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے اسلام نے صحت اور سرمایہ دونوں کو اہمیت دی ہے اور اس کے بھرپور استعمال کا حکم دیا ہے۔ وہ فرد کو معاشی تگ و دو کی ترغیب دیتا ہے اور اس کے اندر محنت و مشقت اور جفا کشی کا جذبہ پیدا کرتا ہے کہ آدمی اپنے لیے اور اپنے بیوی بچوں اور زیر کفالت متعلقین کے لیے جائز حدود میں ممکنہ جدوجہد کرے۔ اسے وہ کارِ ثواب قرار دیتا ہے۔ بعض اوقات آدمی کو جتنی محنت کرنی چاہیے یا جتنی وہ کرسکتا ہے اس میں کوتاہی ہوتی ہے، اس وجہ سے وہ معاشی لحاظ سے کم زور بلکہ دوسروں کا دست نگر ہوجاتا ہے۔

اس کے ساتھ اسلام معاشرے کے اندر ہمدردی کی فضا پیدا کرتا ہے کہ جوافراد بے روزگار ہیں انھیں روزگار سے لگائے۔ اس میں شک نہیں کہ امت میں بعض افراد اور کہیں کہیں ادارے اس کی کوشش بھی کرتے ہیں، لیکن مسئلہ جتنا بڑا ہے اس لحاظ سے یہ کوششیں بہت تھوڑی ہیں۔ اگر پوری امت یہ طے کرلے کہ اس کاکوئی با صلاحیت فرد بے روزگار نہ ہوگا تو ان کی معیشت کی بہتری کی راہیں کھل سکتی ہیں، لیکن اس طرح کا کوئی وسیع اور جامع منصوبہ امت کے سامنے نہیں ہے۔ اس پر سوچنا چاہیے۔

سوال: مسلمانوں کے اتحاد میں کیا چیزیں مانع ہیں اور ان پر کیسے قابو پایا جاسکتا ہے؟

جواب: اللہ تعالیٰ نے دنیا کے تمام مسلمانوں کو ایک امت بنایا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ’ جسدواحد‘ قرار دیا کہ جسم کے ایک حصہ کو تکلیف پہنجتی ہے تو پورا جسم اس کا درد و کرب محسوس کرتا اور بے چین ہوجاتا ہے۔ اس امت کا عقیدہ ایک ہے، اس کی عبادات مشترک ہیں، اس کا نفع و ضرر ایک ہے۔ اس لیے اسے اپنی صفوں میں اتحاد پیداکرنے اور اختلاف و نزاع سے دامن کش رہنے کی تاکید کی گئی ہے، لیکن وقت کے ساتھ یہ امت مختلف کلامی، فقہی اورمسلکی گروہوں میں منقسم ہوتی چلی گئی۔ ان کے درمیان اختلافات نے اتنی شدت اختیار کرلی ہے کہ ان کا ختم ہونا مشکل ہے، لیکن اس کے باوجود یہ احساس بھی پایا جاتا ہے کہ ہمارے درمیان اتحاد و اتفاق ہونا چاہیے۔ امت کی کسی نمایاں شخصیت اور معروف تنظیم کو اس سے اختلاف نہیں ہے۔ سب ہی محسوس کرتے ہیں کہ اختلافات نے ہمیں کم زور کردیا ہے اور ہمارا وزن نہیں محسوس کیا جارہا ہے۔

اس امت کے اتحاد کی بنیاد اس کا مقصد حیات ہے۔ قرآن نے صاف الفاظ میں کہا کہ یہ امت دنیا میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے برپا کی گئی ہے۔ اسے یہاں شہادتِ حق کا فرض انجام دینا ہے۔ یہ مقصد پیش نظر ہو، وسعت قلب سے کام لیاجائے اور مخلصانہ جدو وجہد ہو تو اختلافات کے درمیان اتحاد کی راہیں نکل سکتی ہیں۔

امت کے درمیان فقہی اختلافات بھی ہیں۔ ان اختلافات میں شدت بھی پائی جاتی ہے۔ حالاںکہ یہ اختلافات فروعی ہیں، ان میں شدت کا جواز نہیں ہے۔ اگر امت کا نصب العین پیش نظر ہو اوراتحاد کا جذبہ موجود ہو تو ان اختلافات کے باوجود ہم سب مل کر چل سکتے ہیں۔جماعت اسلامی نے اپنے دائرہ میں فقہی اختلافات کو ختم کرکے امت کو اس کے مقصد ِ حیات پر جمع کرنے کی کوشش کی ہے اور اس میں بڑی حد تک کامیاب ہے۔ یہاں حنفی، شافعی ، اہل حدیث سب ہی مسالک سے تعلق رکھنے والے اصحاب مل جل کر دین کی دعوت اور اس کی سربلندی کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔

ملکی سطح پر مسلمانوں کے ایسے مسائل، جن کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، ان کے سلسلے میں متحدہ موقف اختیار کیا جانا چاہیے۔ مسلم مجلس مشاورت اورمسلم پرسنل لا بورڈ کی شکل میں اس کا تجربہ ہوچکا ہے۔ ان سے مختلف مکاتب فکر کے اصحاب وابستہ ہیں۔ اس کے بہتر نتائج بھی دیکھے جارہے ہیں۔ ان تنظیموں کا دائرہ وسیع کرنے اور انھیں مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ جو مسائل ان کے دائرے سے باہر ہیں ان کے لیے کسی اور مشترک پلیٹ فارم کی تشکیل کے بارے میں بھی سوچا جاسکتا ہے۔ جماعت اس طرح کے مسائل میں مشترکہ جدو جہد کا خیر مقدم کرتی ہے اور ہر طرح کے تعاون کے لیے تیار ہے۔

مشمولہ: شمارہ اگست 2014

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223