پچھلے مضمون میں +LGBTQ کے نفسی معاشرتی ڈسکورس (psycho-sociological)کو دس نکات کے تحت بیان کیا گیا تھا۔ اور پھر ان میں سے پہلے نکتے کا تنقیدی تجزیہ بھی پیش کیا گیا تھا۔ وہ نکتہ یہ تھا کہ یہ ڈسکورس کہتا ہے کہ ‘‘جنسیت نر اور مادہ کی دوئی ہی میں قید نہیں ہے، مرد ہم جنسیت، عورت ہم جنسیت اور دیگر انحرافی جنسی رویے نارمل جنسیت ہی کے مظہر ہیں، یہ کوئی بیماری نہیں ہے۔ نہ ہی اس کے علاج کی ضرورت ہے نہ ہی اس پر کسی قسم کی شرمساری یا احساس خطا ہونا چاہیے۔’’
اس نکتہ کے تفصیلی تجزیہ سے یہ بات سامنے آئی کہ نارمل اور ایب نارمل کی تعریف ہی بہت سارے مسائل کی جڑ ہے۔ اس طرح اس نکتہ کے تحت مثالوں کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ امریکن سائیکلوجیکل ایسوسی ایشن APA کے ذریعے دی گئی مختلف دلیلوں میں کیا سائنسی سقم ہے۔
انحرافی جنسی رویوں کے نفسی معاشرتی ڈسکورس کا دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ ‘‘جنسی انحرافی رویے فطری ہیں اور اس طرح کے جنسی انحرافی رویے رکھنے والے افراد بالکل نارمل ہوتے ہیں۔’’ اب اس نکتہ کا تنقیدی تجزیہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔
یہ بات پیچھے گزر چکی کہ 1973 سے پہلے ‘ہم جنسیت’کو بیماری سمجھا جاتا تھا۔ 1973 میںAPA نے اسے بیماری کی فہرست سے نکال دیا۔ اور اس کے بعد جنسیت میں تحقیقات کی گاڑی کنسےکے ذریعے دی گئی پٹری پر دوڑتی رہی۔ سب سے دل چسپ اور متضاد بات یہ رہی کہ فطرت پرستانہ تصور ارتقا Natural Theory of Evolutionکے ماڈل میں جنسیت اور جنسی انحرافی رویہ بالکل فٹ نہیں بیٹھتے ہیں پھر بھی کھینچ تان کر اس گاڑی کی سمت سفر اسی منزل پر مرکوز رکھی گئی۔
ہم جنس پرستی پر تحقیق جیسے جیسے آگے بڑھتی گئی اس تصور کی وضاحت مشکل سے مشکل ہوتی گئی۔ جب تک یہ ‘‘بیماری’’ یا ‘‘ایب نارمل’’کے درجے میں تھا تب تک اسے نشو و نما کے سقم کے طور پر مان لیا جاتا تھا۔ لیکن جیسے ہی اسے جنسیت کے عمومی مظہر، یا نارمل مظہر کے طور پر قبول کرلیا گیا (سائنسی تحقیق میں!) اس کے بعد اس کی توضیح و تشریح کی علمی بنیادوں میں زبردست تضادات ابھر کر سامنے آنے لگے۔
مرد ہم جنسیت اور عورت ہم جنسیت اور دیگر انحرافی جنسی رویوں کی سائنسی تحقیق میں اس وقت کے سماجی اور ثقافتی ماحول کے زیر اثر سارا زور اس بات پر رہا کہ کسی طرح مرد ہم جنسیت کو نارمل ثابت کر دیا جائے اور اس کے پیچھے دلیل یہ تھی کہ اگر ایک بار یہ ثابت ہو جائے کہ یہ ایک نارمل بات ہے اور جنسیت کا عام مظہر ہے یا یہ کہ ‘‘یہ بھی جنسیت کی ایک قسم ہے’’ تو پھر اس طرح کے جنسی انحرافی رویوں میں مبتلا افراد کے لیے سماجی انصاف کا حصول آسان ہو جائے گا، ان کی تضحیک نہیں کی جائے گی اور انھیں کم تر نہیں سمجھا جائے گا۔ اس طرح اس ضمن میں قانون سازی کی جاسکے گی اور ان کے تئیں عوام الناس کی ذہنی تربیت کی جا سکے گی۔
بادی النظر میں صحیح لگنے والے اس نقطہِ نظر میں کئی اعتبار سے سقم ہے۔
1. سماجی انصاف کا حصول صرف ان انحرافی رویوں کو نارمل ثابت کرنے سے نہیں ہو سکتا تھا اور نہ ہی ہوا ہے۔ کیوں کہ سماجی انصاف کے حصول کے لیے کچھ اور ہی عوامل پر کام کرنا ضروری ہے۔ اس کے لیے عوام الناس کی ذہنی تربیت ضروری ہے اور اس کے لیے کچھ آفاقی قدروں اور اصولوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اس ڈسکورس کا سارا زور ہی ان آفاقی قدروں کو غلط، قدیم، فرسودہ اور بیکار مان لینے پر تھا۔ (خاص طور پر جنسیت اور جنسی حد بندیوں کے اعتبار سے)۔
سماجی انصاف کے حوالے سے ہندوستان میں ذات پات کے نظام، آسٹریلیا اور ساؤتھ افریقہ میں کالے افراد کے ساتھ سماجی رویے اور پوری دنیا میں مختلف عنوانات کے تحت جاری نسلی، گروہی، لسانی عصبیتیں اور ان کا مطالعہ بتاتا ہے کہ سماجی انصاف کے حصول کے مسئلے کا حل قانون سازی نہیں، ذہن سازی ہے۔ ہندوستان میں ذات پات کے سلسلے میں بہت سخت قوانین ہیں اور یہی حال آسٹریلیا میں امریکہ اور ساؤتھ افریقہ میں ہے، لیکن اس کے باوجود کیا وہاں سماجی انصاف کا حصول ممکن ہوا ہے۔
2. جنسی دوئی کے اتنے غیر معمولی نظام میں اس طرح جنسی رویوں کو نارمل ثابت کرنے یا جنسیت کے تسلسل کے طور پر دیکھنے کے لیے جن پختہ ثبوتوں کی ضرورت تھی اور ہے، ان کا حصول اب تک نہیں ہو سکا۔ جو کچھ تحقیقات ہوئی ہیں ان سے مکمل طور پر تصویر صاف نہیں ہوئی ہے۔ بایں ہمہ 1973 سے تقریبا 1995 تک مختلف تحقیقات میں سارا زور ان رویوں کے نارمل ثابت کرنے اور انھیں کامل طور پر فطری بتانے پر رہا۔ یہی نہیں بلکہ اس بات کو بھی زور و شور سے کہا جانے لگا کہ ہم جنس پرست افراد بالکل نارمل ہوتے ہیں۔ لیکن اس دوران بعض تحقیقات ایسی بھی آنے لگیں جن میں یہ بات ابھر کر سامنے آئی کہ عام جنسیت رکھنے والے افراد کے بالمقابل انحرافی جنسی رویہ رکھنے والے افراد کے ذہنی مشاکلہ میں فرق ہوتا ہے۔ (لیکن ان تحقیقات کو شدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑا۔ ان محققین کو دھمکیاں موصول ہوئیں۔ ان کا مذاق اڑایا گیا۔ ان میں سے بعض کا تذکرہ یہاں پیش کیا جاتا ہے)
ان محققین کے مطابق یہ فرق درج ذیل پہلوؤں سے ہوتا ہے۔
1. خودکشی کے رجحانات
2. اضطراب(anxiety)
3. شناخت میں خلل (identity disorder)
4. ڈپریشن
5. رویہ جاتی خلل (conduct disorder)
6.تمباکو (نکوٹین کی لت)
7. دیگر منشیات کی لت [1]
لیکن جیسے ہی اس طرح کی تحقیقات کی شہرت ہونے لگی دو طرح کے رجحانات سامنے آنے لگے:
1. جو محققین اور مذہبی رہ نما اس بات پر مصر تھے کہ یہ ایک ذہنی بیماری ہے انھوں نے کہنا شروع کیا کہ دیکھا ہم نہ کہتے تھے کہ یہ ایک ذہنی بیماری ہے کیوں کہ اس میں مبتلا افراد میں دوسرے ذہنی خلل بھی ہیں۔
2. بعض محققین نے کہا کہ ایسا نہیں ہے چوں کہ یہ افراد ایک ایسے سماج میں رہتے ہیں جہاں ہم جنس افراد کے خلاف جارحانہ ماحول ہے، انھیں ذہنی مربض مانا جاتا ہے اور انھیں باعث شرم اور ذلت سمجھا جاتا ہے اور وہ مذہبی طور پر مبغوض بھی ہوئے ہیں اس لیے ان میں خودکشی کے رجحانات اور ڈپریشن وغیرہ پایا جاتا ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں رجحان مکمل طور پر صحیح نہیں ہیں۔
جتنے ثبوت پہلے رجحان کے متعلق دیے جاتے ہیں۔ ان میں بھی اضافیت ہے اور دوسرے رجحان کے بارے میں بھی یہی بات صحیح ہے۔ مثلا: یہ بات ثابت کرنا بہت مشکل ہے کہ جنسی رخ کی وجہ سے خودکشی کا رجحان زیادہ ہوتا ہے۔ کیوں کہ اس کا کوئی طریقہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ چناں چہ علت اور معلول یعنی cause and effect میں علت (cause) اور معلول (effect) کیا ہے؟ اس کا معلوم کرنا بہت مشکل ہے۔ یہ مرغی اور انڈے جیسا ہے کہ پہلے کون آیا! یعنی جنسی رخ کی وجہ سے خودکشی کا رجحان زیادہ ہے یا جنسی رخ کی وجہ سے ہونے والے احساس اور مسائل اور سماجی دباؤ کی وجہ سے یہ رجحان پنپتا ہے لیکن اس دوئی کے باہر آکر بھی دیکھا جائے تو دو اہم پہلوؤں سے جنسی انحرافی رویے رکھنے والے افراد اور عام جنسی رویہ رکھنے والے افراد میں فرق ہوتا ہے۔ تعداد اور کیفیت دونوں حوالوں سے اور وہ دو پہلو یہ ہیں: [2]
1. نرگسیت (narcissism) رکھ رکھاؤ میں بے اعتدالی
2. بسیار خوری (binge eating) خورد و نوش میں بے اعتدالی
عام لفظوں میں اپنے آپ پر اپنے ظاہری رکھ رکھاؤ پر حد سے زیادہ توجہ نفسیات کی زبان میں نرگسیت کہلاتی ہے۔ اس پہلو سے کئی تحقیقات آئی ہیں کہ جنسی انحرافی رویہ رکھنے والے مرد حضرات زیادہ نرگسیت رکھتے ہیں۔[3]
بسیار خوری: عام جنسی رویہ رکھنے والے افراد کے مقابلے ہم جنس پرست افراد زیادہ کھاتے ہیں یا ان میں عام طور پر خورد و نوش میں غیر اعتدال پسندی دیکھی گئی ہے۔[4]
لیکن کیا دونوں گروہوں میں جنسی رخ یہ طے کرتا ہے کہ خود کشی کے رجحانات اور دیگر ذہنی خلل زیادہ پائے جائیں گے؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈھا جا رہا ہے۔
اب یہ بیانیہ سامنے آرہا ہے کہ یکساں جنس کے مابین کشش (same sex attraction) دراصل جنسی اقلیت (sexual minority) ہے۔ (انحرافی جنسی رویوں میں اکادمی کی سطح پر اصطلاحات کو نرم کرنے کا کام بجائے خود ایک تفصیلی تحقیق کا متقاضی ہے۔ کس طرح مختلف اصطلاحات انسانی دماغ میں کسی طرح کے رد عمل کو منضبط کر سکتی ہیں، اس پر دل چسپ کام کیا جا سکتا ہے! لیکن یہ مضمون اس کا متحمل نہیں ہے۔)
بہرحال اب یہ کہا جارہا ہے کہ اس طرح کے افراد ایک طرح کے اقلیتی دباؤ (minority stress) میں رہتے ہیں۔ اسی کے ساتھ جیتے ہیں اور سماج میں روز مرہ کی زندگی میں مستقل اس کا سامنا کرتے رہتے ہیں۔ اس لیے ان میں خودکشی کا رجحان، ڈپریشن، یا کھانے پینے کے ذہنی خلل وغیرہ پائے جاتے ہیں۔ یعنی بنیادی طور پر وہ نارمل ہی ہیں۔ لیکن اقلیتی دباؤ کی بنا پر ان کے ساتھ ایسا ہوتا ہے [5]لیکن اس دلیل کی بہت ساری خامیاں ہیں۔
1. اگر اقلیتی دباؤ خودکشی کے رجحانات اور ڈپریشن اور منشیات کے استعمال کی طرف ابھارتا ہے یا انھیں بڑھاوا دیتا ہے تو یہ بات سارے اقلیتی دباؤ کے ساتھ صحیح ہونا چاہیے۔ امریکہ میں لاطینی اور کالے افراد، فلسطین میں فلسطینی، ہندوستان میں مسلمان۔ امریکہ اور یوروپ میں سیکڑوں لسانی، تہذیبی اور قومی اقلیتیں ہیں۔ وہ سماجی کا ہراسانی سامنا بھی کرتی ہیں۔ LGBT+ کے افراد کی طرح اپنی شناخت کی بنیاد پر قتل بھی کی جاتی ہیں۔ لیکن ان میں تو خودکشی اور ڈپریشن اس طرح سے نہیں ہوتا جیسے ان افراد میں ہوتا ہے! تو کیا کچھ اور عوامل ہیں جو ان رجحانات کے لیے ذمہ دار ہیں؟ کیا عام افراد اور جنسی انحرافی رویہ رکھنے والے افراد کی Psychopathology میں کوئی فرق ہے!
3. ایک نکتہ یہاں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ان افراد میں اس طرح کے شدید رجحانات کی وجہ کیا ہے، اصل بات تو یہ ہے کہ اس کا حل ہونا چاہیے۔ بے شک درست! لیکن جب تک اصل وجہ، اصل جڑ تک نہیں پہنچا جائے گا، تب تک پائیدار حل ممکن نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس بات کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ضروری ہے کہ عام افراد اور +LGBTQ افراد کی psychopathology میں کیا فرق ہے۔ صرف یہ مان لینے سے بات نہیں بنے گی کہ یہ سب عام ہی ہیں۔ اور محض اقلیتی دباؤ کے تحت ذہنی خلل کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس ضمن میں ایک دل چسپ تحقیق کی طرف یہاں اشارہ کیا جاتا ہے، جو اطالوی اور اسپینی نوجوانوں میں کی گئی تھی۔ جس میں جنسی رخ کے کردار کی وضاحت پیش نظر تھی۔ اس تحقیق سے پتہ چلا کہ خودکشی کے رجحان کا براہ راست تعلق صنفی رخ سے ہے اور عام نوجوانوں کے مقابلے میں ان افراد میں خودکشی کا رجحان زیادہ پایا گیا جو غیر مذہبی نیز جنسی انحرافی رویہ رکھنے والے تھے۔ یہاں پر غیر مذہبی لفظ پر غور کیا جانا چاہیے۔ اس تحقیق کا نچوڑ محققین کی زبان میں حسب ذیل ہے:
4. ‘‘خودکشی کے رجحان کے لیے جنسی رخ’’ غیر مذہبت کم تعلیم، مرد ہم جنسیت اور والدین اور مربین کے ساتھ انتہائی کم تعلق وغیرہ شامل ہیں۔[6]
یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس تحقیق میں تو اور بھی دوسرے عوامل شامل ہیں جو خودکشی کے رجحان کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ بے شک، لیکن وہ تمام عوامل عام افراد میں بھی یکساں ہیں۔ جو امر قابل توجہ ہے وہ انحرافی جنسی رویوں کے ساتھ ساتھ غیر مذہبی ہونا بھی ہے۔
یہ بات مزید دل چسپ ہوگی اگر تحقیق اور اعداد و شماریاتی سائنس (statistics) کا استعمال کرکے یہ دیکھا جائے کہ وہ ہم جنس پرست افراد جو اپنے آپ کو مذہبی بتاتے ہیں، خواہ وہ کسی بھی مذہب سے ہوں اور مذہب میں کسی بھی تصور حیات سے مرتبط ہوں، ان میں اور وہ ہم جنس پرست افراد جو اپنے آپ کو لادینی، غیر مذہبی اور لا ادری بتاتے ہیں، ان میں خودکشی کے رجحان، آئیڈیا کی سطح پر، کوشش کی سطح پر اور خودکشی کرنے میں کام یاب ہو جانے کی سطح پر کیا فرق ہے۔
لیکن تادم تحریر ایسی کوئی تحقیق نہیں ہے جو یہ بتاسکے کہ مذہبیت اور ہم جنسی انحرافی رویے ایک دوسرے سے تعامل کیسے کرتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ +LGBTQ کا نفسی معاشرتی ڈسکورس دراصل دو سطحوں سے ’عام‘ یا ’نارمل‘ ہونے کا دعوی کرتا ہے، ایک انحرافی جنسی رویے کی سطح سے اور دوسرا فرد کے ذہنی مشاکلہ اور فرد کی ذہنی صحت اور نفسیاتی صحت کے حوالے سے۔
ان دو سطحوں میں ہر سطح کے اپنے گہرے سوال ہیں۔ مثلا ‘عام’ خاصہ یا trait کسے کہتے ہیں؟ ‘نارمل’کی صحیح تر تعریف کیا ہے؟ اگر ‘عام’بھیلاؤ کے تناسب سے ہے تو پھر بہت سارے عام ذہنی مرض، مرض کیوں ہیں؟ اسی طرح دوسری سطح فرد کے ذہنی مشاکلہ اور psychopathology کے حوالے سے ہے۔
+LGBTQ کا نفسی معاشرتی ڈسکورس بڑی چالاکی سے تمام انحرافی رویے رکھنے والے افراد کو نارمل قرار دے دیتا ہے۔ اس کے نزدیک جنسی دوئی کے باہر کا سب کچھ قابل قبول ہے۔ حالاں کہ ایسا نہیں ہے۔ اس پورے ڈسکورس کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ یہ اقلیت میں اکثریت کا خیال نہیں رکھتا۔ مطلب یہ ہے کہ انحرافی جنسی رویوں کےحاملین کو ایک اقلیت قرار دے کر اس کے حقوق کی دہائی تو دیتا ہے، لیکن اس اقلیت کے بڑے حصے کے تقاضوں کو یکسر نظر انداز کردیتا ہے۔ (واضح رہے کہ جدید اصطلاح میں جنسی انحرافی رویوں کو ‘‘جنسی اقلیتوں’’سے تعبیر کیا جا رہا ہے)
یعنی یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ +LGBTQ کے تمام جنسی انحرافی رویے، جن میں مرد ہم جنسیت، عورت ہم جنسیت، دو جنسے، ٹراسن جینڈر، غیر جنسی کشش والے، تمام کے تمام جنسی دوئی کے باہر کے رویے رکھنے کے باعث پریشان رہتے ہیں۔ الجھن میں ہوتے ہیں۔ انھیں اپنے جنسی رویے یا رویوں پر اطمینان نہیں ہوتا۔ وہ تمام کے تمام ایک نہیں ہیں۔ ان پر پورے نفسی معاشرتی ڈسکورس کا اطلاق نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہ بہت زیادہ مختلف فیہ گروہ (heterogeneous group) ہیں۔ مثلًا ذیل کی تقسیم ملاحظہ ہو:
1۔ وہ افراد جو اس طرح کے انحرافی جنسی رویہ سے مکمل مطمئن ہیں اور جنسی دوئی کے باہر اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل کے لیے سرگرم ہیں۔ جنسی دوئی کے پورے ڈسکورس سے نفرت کرتے ہیں۔ ویسی ہی نفرت جیسی عام جنسی رویے رکھے والے افراد انحرافی جنسی رویہ رکھنے والے افراد سے کرتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر شدید طور پر غیر مذہبی ہوتے ہیں۔ ان میں مرد ہم جنس پرست اور عورت ہم جنس پرست افراد رکھے جا سکتے ہیں۔
2۔ وہ افراد جو اس طرح کے انحرافی جنسی رویے سے بے چین رہتے ہیں۔ ان میں احساس خطا اور احساس جرم پایا جاتا ہے۔ وہ جنسی دوئی میں واپس جانے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ اس کے لیے علاج و معالجے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان میں مذہبی افراد پائے جاتے ہیں۔ ان میں مذہبیت کا بھی ایک طیف (spectrum) ہوتا ہے۔ اس میں عام طور پر مذہبی، نیم مذہبی اور اس قبیل کے افراد پائے جاتے ہیں۔
3۔ وہ افراد جن میں جنس کا شعور، جنسیت کا شعور، جنسی رخ کا شعور نہیں ہوتا۔ وہ اس بات کا فیصلہ نہیں کرپاتے کہ وہ ‘‘ایسے’’کیوں ہیں جیسے کہ وہ ہیں۔ جنسی دوئی والی جنسیت سے محروم کیوں ہیں؟ کیوں ان کا میلان جنسی مخالف کے بجائے ہم جنس کی طرف ہوتا ہے۔ یہ افراد بھی اپنے آپ کو ‘‘دریافت’’کرنا چاہتے ہیں۔ اس الجھن سے باہر آنا چاہتے ہیں۔ لیکن سماجی، مذہبی اور ثقافتی دباؤ کی بنا پر اس ضمن میں کسی سے بات نہیں کر سکتے۔ صلاح و مشورہ نہیں کر سکتے۔ اور معروف اصطلاح میں مخفی جنسی رخ کے حامل (closeted) ہوتے ہیں۔
4۔ وہ افراد جن میں کسی بھی جنس کی طرف کوئی کشش ہی نہیں پائی جاتی۔ وہ بظاہر صحت مند ہوتے ہیں۔ ان کے جنسی اعضاء بھی درست ہوتے ہیں اور ان میں جنسیت کو لے کر کوئی خلجان بھی نہیں پایا جاتا بلکہ وہ اپنے آپ کو مرد یا عورت کے زمرے میں بآسانی رکھ پاتے ہیں۔ ایسے افراد بے جنسیے (asexual)کہلاتے ہیں۔
اس کے علاوہ بھی کئی قسم کے جنسی انحرافی رویے ہیں۔ ان کی تعداد 16 سے اوپر تجاوز کرچکی ہے۔ اور آئے دن کوئی نہ کوئی نیا جنسی رخ ‘‘دریافت’’ ہو رہا ہے۔
اصل سوال یہ ہے کہ اتنے زیادہ متضاد، اتنے زیادہ متنوع اور اتنے زیادہ کثیر پہلوی ڈسکورس کو بس ایک ہی برش سے کیسے پینٹ کیا جا رہا ہے؟ آپ ایسے جنسی انحرافی رویے والے مرد ہم جنس افراد یا عورت ہم جنس پرست افراد کو کیا کہیں گے جو ‘‘نارمل’’ میں واپس جانا چاہ رہے ہیں؟ وہ آپ کے ڈسکورس کا بوجھ کیوں ڈھوئیں گے؟ اگر وہ اسی جنسی دوئی کے خواہش مند ہیں اور اسی کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو آپ کا جنسی انحرافی ڈسکورس انھیں غیر بنانے کا کام کیوں کرتا ہے؟
اس تناظر میں ان افراد کے لیے کیا مواقع ہیں؟ کہا جاسکتا ہے کہ انھیں کون مجبور کرتا ہے! وہ آزاد ہیں۔ لیکن کیا حقیقت یہی ہے! اس ضمن میں ہورہی کوششیں تو کچھ اور ہی منظر دکھا رہی ہیں۔ مثلًا مرد ہم جنس پرستی سے نکلنے کی کوششوں کے سلسلے میں ہورہی کونسلنگ کو یہ پورا ڈسکورس ‘‘حقارت’’کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اس کے باوجود کہ اس طرح کی کوششوں کے نتیجے کیا آ رہے ہیں۔ ان کوششوں کو ہی حقارت کی نظر سے دیکھنا، اس ضمن میں ہو رہی تحقیقات کو کم تر گرداننا اور اکیڈمی کی سطح پر اسے ازکار رفتہ ٹھہرانا کون سا صحت مند طرز عمل ہے؟!
حد یہ ہے کہ کوئی انحرافی جنسی رویہ رکھنے والا شخص اگر اپنی کونسلنگ کروانا چاہے! تو رجسٹرڈ کونسلر اور سائیکٹرسٹ اس کا کیس لینے سے ہچکچا رہے ہیں۔ کیوں کہ قانونی طور پر ہم جنس پرستی کو بیماری کے درجے سے ہٹا دیا گیا ہے۔
تازہ ترین کیس جو اس پہلو سے ہوا ہے وہ اکولہ میں ہوئے ڈاکٹر دیپک کیلکر کا ہے۔ ڈاکٹر دیپک کیلکر ایک رجسٹرڈ سائیکٹرسٹ ہیں۔ پچھلے پچاس برسوں میں ہزاروں نفسیاتی کیسوں پر کام کرچکے ہیں۔ پورے صوبہ مہاراشٹر کے ہزاروں ایسے کیس ان کے پاس آتے ہیں جو مرد ہم جنس پرست افراد کے ہوتے ہیں۔ اگر ان کی مانیں تو وہ کہتے ہیں اور انھوں نے اس کا ریکارڈ رکھا ہے کہ ‘‘ہزاروں ہم جنس پرست مرد اپنا جنسی رخ’’ درست کرکے خوش گوار ازدواجی زندگی گزار رہے ہیں۔
حال ہی میں ڈاکٹر دیپک کیلکر نے ایک بیان دیا جس میں انھوں نے مرد ہم جنسیت کے اپنے تجربات کو شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ایک بیماری کی طرح ہے اور جو لوگ چاہیں علاج کرواسکتے ہیں۔ ان کے اس بیان کا بہت سخت نوٹس لیا گیا۔ ان کا پریکٹس لائیسنس رد کرنے کی بات کی گئی ہے۔ انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن نے ان پر کریمنل چارج لگانے کی دھمکی دی۔ بالآخر ڈاکٹر کیلکر کو نہ صرف اپنے بیان سے رجوع کرنا پڑا بلکہ وہ سارے ویڈیو لیکچر جن میں مرد ہم جنسیت اور اس سے باہر نکلنے کے حوالے سے بہت قیمتی اور اکیڈمک مواد انٹرنیٹ پر موجود تھا اور جس سے استفادے کے لیے اپنی پرائیویسی کو قربان کرنے کی ضرورت نہیں تھی، وہ تمام ویڈیو بھی انھیں ہٹانے پڑے۔
مہاراشٹر صوبے کے ایک نسبتًا غیر مشہور ضلع ہیڈکوارٹر پر پریکٹس کر رہے ایک بزرگ سائیکیٹرسٹ کے ساتھ ہونے والا یہ رویہ اس بات کا غماز ہے کہ +LGBTQ کا نفسی معاشرتی ڈسکورس صرف اکیڈمک سطح پر اپنے آپ کو منوانا نہیں چاہتا بلکہ یہ ایک جارح رخ اختیار کر چکا ہے۔ یہ رخ ان تمام افراد کے لیے خطرہ ہے جو جنسی رخ کے حوالے سے اپنی آزاد مرضی کا استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ڈسکورس جنسی اقلیت میں موجود اکثریت کے مفاد کے خلاف ہے۔
حوالہ جات
1. Is Sexual Orientation Related to Mental Health Problems and Suicidality in Young People? David M. Fergusson, L. John Horwood, Annette L. Beautrais. Arch Gen Psychiatry. 1999;56:876-880 and
2. Narcissism and self-esteem among homosexual and heterosexual male students. Rubinstein G. : J Sex Marital Ther. 2010;36(1):24-34. doi: 10.1080/00926230903375594. PMID: 20063233
3. Review of Bulimia Nervosa in Males : Daniel J. and Carlos A. Camargo, Jr., Am J Psychiatry 148:7, July 1991 831
4. ibid
5. Suicidal behaviors in homosexual and bisexual males. Bagley C, Tremblay P. Crisis. 1997;18:24-34.
6. The associations between health risk behaviors and sexual orientation among a school-based sample of adolescents. Garofalo RA, Wolf RC, Kessel S, Palfrey J, DuRant RH. Pediatrics. 1998;101:895-902.
مشمولہ: شمارہ جنوری 2023