پچھلے مضمون میں +LGBTQ شادی شدہ جوڑوں اور عام شادی شدہ جوڑوں سے متعلق ڈسکورس کی تفصیل گزر چکی ہے۔ قارئین کے استحضار کے لیے یہاں یہ عرض کر دینا ضروری ہے کہ انحرافی جنسی رویوں کے نفسی معاشرتی ڈسکورس کے تنقیدی جائزے کے آخری دو نکات +LGBTQکے حقوق اور مذہب و قانون پر مبنی ہیں۔ لیکن ان دونوں نکات پر بامقصد اور مربوط بحث اس وقت تک ممکن نہیں جب تک انحرافی جنسی رویوں کے نفسی معاشرتی ڈسکورس سے ملحق مگر ذرا اس سے جدا پہلو پر بات نہ کر لی جائے۔ جسے صنفی شناخت (Gender Identity)کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ +LGBTQڈسکورس کی ابتدا ہمارے نزدیک اصلًا ہم جنسیت بالخصوص مرد ہم جنسیت کے حوالے ہی سے شروع ہوئی ہے۔ دھیرے دھیرے اس کے ضمنی خدوخال واضح ہوئے اور اس میں دیگر انحرافی جنسی رویوں کا اتصال ہوتا رہا یا وہ اس میں شامل کیے جاتے رہے۔ ان مشمولات میں اب سب سے زیادہ زور صنفی شناخت پر ہے۔
صنفی شناخت کیا ہے؟ صنفی شناخت دراصل کسی شخص کا اپنے آپ کے تئیں عورت یا مرد، لڑکا یا لڑکی یا کسی صنف کے ساتھ اپنے آپ کو شناخت نہ کروانے کے احساس کا نام ہے۔ +LGBTQکے حوالے سے صنفی شناخت کا پہلو کئی زاویوں سے دل چسپ ہے۔ مثلًا یہ ’’شناخت‘‘کے پیچیدہ فلسفے اور ڈسکورس سے برآمد کیا جاتا ہے۔ اور شناخت کے وسیع کینوس پر اپنے مخصوص جنسی رنگ کے ساتھ نمودار ہوتا ہے۔ یہ شناخت کے تصور سے اپنے حقوق کی آبیاری کرتا ہے۔ اور بہت چالاکی سے خود شناخت کے بنیادی Premise کی نفی کر دیتا ہے۔ کیوں کہ ’شناخت‘ مخصوص ’رول‘رکھتی ہے۔ یہ رول فطری طور پر بھی ودیعت کردہ ہوتے ہیں جیسے عورت کی صنفی شناخت نسل کی بقا کے رول کے حوالے سے ہے۔ اور بعض رول سماج اور ماحول کے ذریعے تفویض کیے جاتے ہیں۔ جیسے کسب معاش کی ذمہ داری عام طور مرد کے رول کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔ +LGBTQکے ذریعے متاثر کردہ (Inspired ) ’صنفی شناخت‘ ’رول‘کے دونوں سرچشموں یعنی فطرت اور سماج کا انکار کرتی ہے اور صنفی شناخت سے متعلق ایک مبہم، پیچیدہ اور غیر منطقی قسم کا ڈسکورس کھڑا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
اس سے پہلے کہ انحرافی جنسی رویوں کے نفسی معاشرتی ڈسکورس کے اس اہم پہلو پر آگے بڑھا جائے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ صنفی شناخت اور اس سے جڑے ڈسکورس میں استعمال ہونے والی اصطلاحات کا مختصر تعارف کرا دیا جائے۔
جنسی اضطراب (Gender Dysphoria)ایسی حالت کو کہتے ہیں جس میں فرد اپنے تئیں محسوس کردہ صنفی شناخت اور پیدائش کے وقت تفویض کردہ صنفی شناخت کے درمیان عدم مطابقت کی وجہ سے پریشانی کا شکار ہو۔
ٹرانس وومین: ایسے مرد کو کہتے ہیں جس کی ثانوی خصوصیات مردوں جیسی ہو لیکن اندرون میں وہ اپنے آپ کو عورت محسوس کرتا ہو۔ اور عورت ہی کی طرح سجنا، سنورنا اور لباس پہننا چاہتا ہو یا اس طرح سجنے، سنورنے اور لباس پہننے میں اطمینان محسوس کرتا ہو، نیز مردوں کی طرح رہنے سہنے پر اسے ایک اندرونی بے چینی ہوتی ہو۔ ایسے تمام افراد کے لیے ٹرانس وومین کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ آج کل صنفی شناخت کے حوالے سے اس طرح کی ذہنی کشمکش سے دو چار افراد کے لیے انگریزی میں A woman trapped in a man’s body کا مقولہ استعمال کیا جانے لگا ہے۔
ٹرانس مین: ایسی عورت کو کہتے ہیں جس کی ثانوی خصوصیات عورت جیسی ہوں لیکن اندرون میں وہ اپنے آپ کو ایک مرد کی طرح محسوس کرتی ہو۔ اور مرد ہی کی طرح لباس پہنتی ہو یا اس میں اطمینان محسوس کرتی ہے۔ مرد ہی کی طرح بول چال میں کشش محسوس کرتی ہو۔
بلوغت کی صنفی عدم مطابقت: Gender Incongruence of Adolescence
کسی فرد کا اس صنف سے عدم مطابقت کا اظہار کرنا ہے جو اسے پیدائش کے وقت اس کے ثانوی جنسی اعضا کو دیکھ کر تفویض کی گئی تھی۔ مزید کہ پیدائش کے وقت تفویض کردہ جنس سے مختلف جنس بننے کی شدید خواہش کرنا، اپنے ثانوی جنسی اعضا سے کراہیت یا نفرت کرنا اور اس بات کی خواہش کرنا کہ اس کے ثانوی جنسی اعضا اس صنف کے مطابق ہو جائیں جسے وہ محسوس کرتا ہے۔ اور یہ سب کم از کم دو سال کے عرصے تک باقی رہے۔ یہ کیفیت بلوغت کی صنفی عدم مطابقت کہلاتی ہے۔
صنفی شناخت اور اس سے جڑے ڈسکورس کا ایک خالص ’’نسوانیاتی‘‘(Feministic)پیراڈائم بھی ہے، جو شناخت اور رول کی بحث اور اس سے ابھرنے والے سماجی اور ثقافتی مسائل اور زیادتیوں سے بحث کرتا ہے۔ یہاں اس حوالے سے بات نہیں کی جائے گی بلکہ صنفی شناخت +LGBTQکے ڈسکورس میں اسے کس طرح دیکھا جا رہا ہے، اس پر فوکس کیا جائے گا۔
اوپر دی گئی اصطلاحات سے قارئین کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ بظاہر بہت سادہ نظر آنے والے اس پہلو میں کتنی تہہ داریت ہے۔ عام طور پر عوام +LGBTQکے تمام مظاہرکو زنخے، ہیجڑے یا زیادہ سے زیادہ مرد ہم جنس پرست یا عورت ہم جنس پرست کے خانوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم جنسیت اتنی سادہ اور اتنی واضح طور پر منقسم نہیں ہے بطور خاص صنفی شناخت ان سب سے کافی مختلف ہے۔
عام طور پر جنسی رخ اور صنفی شناخت کو خلط ملط کر دیا جاتا ہے۔ جنسی رخ کسی مرد یا عورت کی طرف جنسی میلان کے حوالے سے ہے۔ جب کہ صنفی شناخت ایک داخلی احساس ہے جو مرد اور عورت والی جنسیت کے احساس سے عبارت ہے جو ثانوی جنسی اعضا کے علی الرغم ہوتا ہے۔ اور ان معنوں میں وہ مرد ہم جنس پرستی اور عورت ہم جنس پرستی یا دوہری جنس پرستی وغیرہ سے بہت مختلف ہو جاتی ہے۔ کیوں کہ صنفی شناخت کے مسائل سے جھوجھنے والے افراد اپنے آپ کو ایک غیر مانوس جسم میں قید سمجھتے ہیں۔
اور ایسا نہیں ہے کہ اس طرح کے احساسات جدید مغربی، اباحیت زدہ تہذیب کے شاخسانے ہیں بلکہ معلوم تاریخ میں صنفی شناخت کے ملتے جلتے مظاہر بکثرت دیکھنے کو ملتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ ان اکا دکا مظاہر کو عمومی نہیں کہا جاسکتا۔ مثلًا ایک ہلکی سے تاریخی جھلک ملاحظہ ہو:
- جنوبی ایشیا میں ہیجڑوں کا تصور اور موجودگی:ہیجڑے جنوبی ایشیا خاص طور پر بھارت پاکستان اور بنگلہ دیش میں ایک سماجی اور ثقافتی گروہ ہے۔ انھیں اکثر پیدائش کے وقت مرد قرار دیا جاتا ہے لیکن ان کی شناخت ایک مختلف صنف کے طور پر کی جاتی ہے، اکثر مرد اور عورت کا مجموعہ یا تیسری جنس کے طور پر۔ اس خطے میں ہیجڑوں کی ایک طویل تاریخ ہے اور انھیں مختلف ادوار میں قبولیت اور امتیازی سلوک دونوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
- مقامی امریکی قبائل میں دو ارواح(two sprits):بہت سے مقامی امریکی قبائل میں ان افراد کا تذکرہ ملتا ہے جن میں مردانہ اور نسوانی دونوں خصوصیات موجود تھیں۔ ان قبائل میں انھیں دو ارواح کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دو روح والے افراد تاریخی طور پر اپنی برادریوں کے اندر قابل احترام کردار ادا کرتے تھے اور ان کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ مرد اور عورت دونوں روحوں کے مالک تھے۔
- قدیم روم میں گیلی:قدیم روم میں گیلی دیوی سائبیل کے پجاری تھے۔ یہ وہ مرد تھے جو عورت بننے کے لیے صنفی تبدیلی سے گزرے تھے۔ وہ اپنے داخلی صنفی احساس کو اپنے خارجی صنفی اوصاف کے ساتھ ہم آہنگ نہیں کر پاتے تھے۔ ان کا تذکرہ بھی قدیم رومی تہذیب میں مستند حوالوں سے ملتا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اس زمانے میں بھی انسان صنفی شناخت کے مسائل سے گزرے تھے۔
4.سیمون (Samoan) قبائل کی ثقافت میں فافین: یہ قبائل قدیم ترین انسانی تہذیبوں میں شمار کیے جاتے ہیں جو موجودہ امریکہ کے بعض جزائر میں بستے ہیں۔ ان قبائل کی ثقافت میں فافین افراد کا تذکرہ ملتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں پیدائش کے وقت مرد قرار دیا جاتا ہے لیکن وہ خواتین کے صنفی کردار اور شناخت کو قبول کرتے ہیں۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ ان قبائل میں ان کی قبولیت عام تھی اور وہ قبیلے کے اہم مناصب پر فائز بھی ہوا کرتے تھے۔ لیکن بعض محققین اس سے اختلاف کرتے ہیں۔ فافین گوکہ مرد ہوا کرتے تھے لیکن وہ روایتی خواتین کے کاموں کو انجام دیتےتھے۔
- بلقان ثقافت میں حلف بردارکنواریاں:بلقان کے کچھ حصوں میں، ’’حلف بردار کنواریوں‘‘کی روایت ہے۔ یہ وہ خواتین افراد ہیں جو زندگی بھر برہمچاری رہنے کا عہد کرتیں اور مرد صنفی کرداروں کو اپناتی تھیں۔ وہ مرد وارثوں کی کمی یا خاندانی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے ایسا کرتی تھیں۔
یہ بہت مختصر سا تاریخی جائزہ بتلاتا ہے کہ صنفی شناخت اور بلوغت کی صنفی عدم مطابقت سے جڑے مظاہر قدیم ترین تہذیبوں میں اور علیحدہ طور پر ارتقا پذیر قبائل میں بھی موجود تھے۔ لیکن کیا یہ مظاہر اور افراد اور ان سے تعامل کرتے ہوئے اس وقت کے تہذیبی اور اخلاقی اقدار کے ادارے بعینہ ویسے ہی تھے جیسے آج ہیں؟ کیا آج کے صنفی تصورات اور قدیم ترین صنفی تصورات میں کوئی مطابقت پائی جاتی ہے؟
اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ کیوں کہ حالیہ صنفی شناخت کا ڈسکورس انھیں بالکل الگ طریقے سے دیکھتا ہے۔ وہ الگ طریقہ کیا ہے؟
ماضی مین صنفی شناخت کا مسئلہ ’شاذ‘(Rare) کے زمرہ میں رکھا جاتا تھا حالیہ ڈسکورس اس پر مصر ہے کہ اسے جنسیت کے ایک مظہر کے طور پر قبول کیا جائے۔ اسے ‘شاذ’ نہ مانا جائے بلکہ ‘عام’ تسلیم کیا جائے۔
ماضی میں صنفی شناخت کی عدم مطابقت لازمًا تعصب، رسوائی اور کلنک (Stigma) سے عبارت نہیں تھی۔ یقینًا ایسا بھی ہوتا تھا۔ لیکن بہت ساری تہذیبوں میں ان کی خاص شناخت اور حیثیت تسلیم کی جاتی تھی۔ اور انھیں خاص درجہ حاصل تھا۔ حال میں صنفی شناخت کو کامل طور پر بے عزتی، ہراسانی، ایذارسانی اور ذہنی تکلیف کا باعث مانا جاتا ہے۔
ماضی میں صنفی شناخت کو تبدیل کرنے کے مواقع حاصل تھے اور جو چاہتا اس وقت کے جو کچھ بھی طریقے تھے ان کا استعمال کر سکتا تھا۔ حال میں یہ ممکن نہیں ہے۔ اگر کوئی اپنی صنفی شناخت کو جو اس کے ثانوی جنسی اعضا سے متصادم ہے درست کرنا چاہے تو وہ ایسا نہیں کر سکتا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ایسے افراد جو صنفی اضطراب (Gender Dysphoria)سے گزر رہے ہوں وہ اپنے اضطراب کو کم کرنے کے لیے کسی ماہر سے رجوع کر سکتے ہیں لیکن اگر وہ یہ چاہیں کہ صنف کے اپنے داخلی احساس کو اپنے فطری طور پر موجود ثانوی جنسی اعضا کے مطابق کرلیں تو یہ غیر قانونی ہے۔
ماضی میں صنفی شناخت کو واحد ’شناخت‘کی حیثیت میں متعارف کرنے کا داعیہ موجود نہیں تھا۔درحقیقت افراد کی مختلف شناختیں ہوتی ہیں، جیسے مذہبی شناخت، سماجی شناخت اور ان میں سے ایک شناخت صنفی شناخت بھی ہے۔ حال میں یہ داعیہ پایا جاتا ہے کہ بہر صورت صنفی شناخت کو منوایا جائے اور باقی تمام شناختیں اس کی تابع ہوں۔ اس کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں اور ان میں اختلاف بھی ممکن ہے۔ لیکن عام طور پر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ صنفی شناخت کے چلتے اس ’’حالت‘‘سے نبرد آزما فرد غیر معمولی ’’دباؤ‘‘ اور ’’تناؤ‘‘کا شکار ہوتا ہے اگر اسے اس دباؤ اور تناؤ کی کیفیت کو ختم کرنا ہے تو اسے اس ‘شناخت’ پر اصرار (Assertion)کرنا بے حد ضروری ہے۔
+LGBTQ ڈسکورس میں صنفی شناخت کی بحث ٹرانس وومن اور ٹرانس مین کے حوالے سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ اور وسیع تر تناظر میں جنسی شناخت کے حوالے سے جنسیت کے ‘طیف’ میں ہونے (یعنی مرد و عورت کی دوئی میں نہ قید ہونے) سے اور جنسیت کی سیالیت (Fluidity)کے تصور سے ہم آہنگ ہے۔
اور یہی اصل مسئلہ کی جڑ ہے۔ پہلے پہل جب جرمن ماہر میگنس ہرش فیلڈ نے ٹرانس سیکسولزم کی اصطلاح استعمال کی تو یہ ایک ایسی بیماری کے طور پر متعارف ہوئی جس میں فرد پیدائش کے وقت تفویض کردہ صنفی شناخت اور اپنے اندر موجود صنفی احساس کے درمیان مطابقت نہیں محسوس کرتا تھا۔ یعنی وہ مرد ہوتا ہے اور مرد کے تمام ثانوی خصائص رکھتا ہے، لیکن اس کا دل عورتوں کی طرح کپڑے پہننے کے لیے مچلتا ہے اور اس کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ وہ ظاہری طور پر بھی عورتوں کی طرح نظر آئے۔ اسی طرح بعض ایسی عورتیں ہوتی ہیں جو مرد کی طرح نظر آنا چاہتی ہیں اور پیدائش کے وقت ان کے ثانوی جنسی کردار (Secondary Sex Character) کی بنیاد پر انھیں عورت صنف کے زمرے میں رکھا جاتا ہے لیکن وہ اپنے آپ کو عورت کے جسم میں “پھنسا” ہوا (Trapped) محسوس کرتی ہیں۔ یہی وہ وقت تھا جب پہلے پہل صنفی شناخت میں عدم مطابقت کو ایک بیماری کی طرح دیکھا جانے لگا۔
بیسویں صدی کے اوائل میں، طبی برادری کے اندر صنفی شناخت کی خرابی (Gender Identity Disorder) کے سلسلے میں کافی بیداری آنا شروع ہوئی۔ واضح ہو کہ ابھی بھی وہ بیماری کی عینک سے دیکھی جا رہی تھی۔ “ٹرانسویسٹزم” کا تصور ابھر کر سامنے آیا، جس میں ایسے افراد کی نشان دہی کی گئی جو عام طور پر مخالف جنس سے وابستہ لباس پہننے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ تاہم اس اصطلاح کو بنیادی طور پر انفرادی شناخت کے ایک پہلو کے طور پر تسلیم کرنے کے بجائے صنفی عدم مطابقت والے رویے کو بجا طور پر ایک ارتقائی سقم کے طور پر دیکھا گیا۔
۱۹۵۰ء سے ۱۹۷۰ء کے دورانیے میں امریکی نفسیاتی ایسوسی ایشن (اے پی اے) نے اپنے تشخیصی مینوئل میں صنفی شناخت کی خرابی (GID)کو شامل کرنا شروع کیا۔ ۱۹۵۲ء میں دماغی امراض کی تشخیص اور شماریاتی مینوئل (ڈی ایس ایم) کے پہلے ایڈیشن میں “سماجی شخصیت کی خرابی” کو ایک زمرے کے طور پر شامل کیا گیا تھا جس میں ہم جنس پرستی شامل تھی۔
۱۹۸۰ء میں، ڈی ایس ایم-۳ نے ان افراد کے لیے ’’صنفی شناخت کی خرابی‘‘کا تشخیصی زمرہ (Diagnostic category)متعارف کرایا جن کی صنفی شناخت انھیں تفویض کردہ جنس سے متصادم تھی۔ ۱۹۹۴ء میں شائع ہونے والے ڈی ایس ایم ۴ نے جی آئی ڈی کے تشخیصی معیار کو مزید آگے بڑھایا.
۲۰۱۳ء میں، ڈی ایس ایم (ڈی ایس ایم – ۵) کے پانچویں ایڈیشن نے جی آئی ڈی کی تشخیص کو ’’جینڈر ڈسفوریا‘‘کے ساتھ تبدیل کر دیا۔ یہ تبدیلی بڑی معنی خیز تبدیلی تھی کیوں کہ اس میں جی آئی ڈی کے علاج پر سے توجہ ہٹا کر اس بات پر توجہ مرکوز کی گئی کہ ان افراد کو جو اس حالت میں ہیں کس طرح طبعی طور پر تبدیل کیا جا سکے۔ یعنی اگر وہ مرد ہیں لیکن اپنے آپ کو عورت محسوس کرتے ہیں تو ہارمون اور سرجری کے ذریعے انھیں عورت بنا دیا جائے۔ یعنی افراد کو اور ان کی شناخت کو متاثر کرنے کے بجائے شناخت کی اس عدم مطابقت کی وجہ سے ہو رہی پریشانیوں پر توجہ مرکوز کی جائے۔
صنفی شناخت کی اصطلاح اور اس سے جڑے ارتقا کا سفر بہت دل چسپ اور معنی خیز ہے اور بجائے خود تحقیق کا ایک بڑا میدان ہے۔ مختصرًا یہ کہ ابتدا میں (Transvestism)کے تصور سے سماجی شخصیت کی خرابی تک اور اس سے ہوتے ہوئےصنفی شناخت کی خرابی جینڈر آئیڈنٹی ڈس آرڈر (GID) تک اور اس کے بعد اسے محض ایک ‘اضطرابی حالت’ جینڈر ڈسفوریا (GD) تک لانے کا سفر ایک طویل سفر ہے اور اس سفر کے سنگ میل بہت ساری اکیڈمک بددیانتی کے نشان اپنے اندر رکھتے ہیں۔ یہ بھی بڑی معنی خیز بات ہے کہ ۱۹۵۰ءسے ۱۹۷۰ءکی دہائی کے دوران اور اس کے بعد نسوانی تحریکات نے جنسی شناخت کی بحث کو زور و شور سے اٹھانا شروع کیا۔
عیسائی اخلاقیات یا وکٹورین اخلاقیات اس وقت کے سماجی اور سیاسی منظر نامے سے رخت سفر باندھ چکی تھی۔ اس کا براہ راست فائدہ ان اداروں اور نظریات کو ہوا جو مذہب کی دی گئی اخلاقیات کے مقابلے میں لا محدود شخصی آزادی، نیز سیکولر اخلاقیات اور مفاد پر مبنی اخلاقیات (Utilitarian Ethics)کے قائل تھے۔ ان میں سے ایک +LGBTQ بشمول صنفی شناخت کا ڈسکورس بھی ہے۔
ٹھیک اسی وقت نسوانی تحریکات کے زیر اثر خواتین کی صنفی شناخت اور ان کے رول کو صرف گھر اور خاندان تک نہ محدود کرنے کی بحث نے روایتی صنفی بیانیہ کو پچھاڑ دیا۔ صنفی شناخت اور جنسی شناخت کے متبادل تصورات نے اس وقت کے عوامی ذہن کو تیزی سے متاثر کرنا شروع کر دیا۔ جلتی پر تیل کا کام لا محدود شخصی آزادی اور لا محدود جنسی آزادی کی شدید خواہش نے کیا۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ صنفی شناخت کے تئیں خواص میں بھی اور عوام میں بھی غیر منطقی سوچ نے آسانی سے گھر کرلیا۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ محققین کی اتنی بڑی ٹیم اس سادہ سے منطقی سوال کا جواب نہیں دے سکی کہ کیوں ایک صنفی شناخت سے نبردآزما شخص اپنے داخلی احساس کو خارجی اعضا کے ذریعے بننے والی شناخت سے ہم آہنگ نہیں کر سکتا۔ اگر وہ ایسا کرنا چاہے؟
بعض گروہ زور و شور سے یہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ ایسا ممکن نہیں ہے۔ بعض گروہ اس ضمن میں ان زیادتیوں کا حوالہ دیتے ہیں جن سے صنفی شناخت کے مسائل سے نبردآزما افراد گزرے۔ لیکن جب اس ضمن میں ٹھوس تحقیقات کا جائزہ لیا جائے تو حیران کن نتائج سامنے آتے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ وہ تحقیقات ہیں جن کے ذریعے سے یہ ثابت کیا گیا کہ صنفی شناخت کے مسئلے کا واحد حل داخلی احساس کے مطابق خارجی جسم کو بنالینا ہے۔ (یعنی اگر وہ ٹرانس وومین ہے تو اپنے سینے کی سرجری کروائے، ہارمون لے اور عورت بن جائے اور اگر وہ ٹرانس مین ہے تو اپنے جسم کی سرجری کروا کر مرد کی شناخت اختیار کرلے)
لیکن اب ایسی تحقیقات آنےلگی ہیں جن سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ ایسا کرلینے سے بہت سارے جی آئی ڈی سے نبرد آزما افراد کو کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔
اس کے علاوہ ایک تیسرا پہلو وہ ہے جس میں بعض تحقیقات میں ۱۵٪ [1]اور بعض میں ۶۰٪[2]افراد بالآخر اسی صنفی شناخت کی طرف لوٹ گئے جن سے فرار کا ارادہ انھوں نے کیا تھا۔ ایسے افراد De transitioned افراد کہلاتے ہیں۔ غرض صنفی شناخت کے حوالے سے صنفی اضطراب کے پورے پیراڈائم پر سوالات کا ایک انبوہ کثیر ہے۔ جن کے جوابات آنے باقی ہیں۔ ان میں سے بعض کے جو جوابات دیے جاتے ہیں وہ پروپیگنڈے کے زمرے میں آتے ہیں۔
یہ سوالات درج ذیل ہیں:
صنفی اضطراب کی وجوہات کیا تھیں؟ یا کیا ہیں؟
صنفی اضطراب اور جینیائی جبریت میں کوئی تعلق ہے؟
صنفی اضطراب اور اس قبیل کی حالتیں کن سماجی اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے عبارت ہیں؟
صنفی اضطراب کی بنا پر detransitioned ہونے والے افراد کی تعداد کتنی ہے، ان کی epidemiology کیا ہے؟
کیا واقعی صنفی اضطراب محض ‘شناخت’ تک محدود ہے؟
صنفی اضطراب معالجاتی تحقیق پر غیر اعلان شدہ پابندی کیوں ہے؟
وہ افراد جو صنفی اضطراب سے نبرد آزما ہیں اگر وہ اپنی پیدائش کے وقت تفویض کردہ جنس کی طرف لوٹنا چاہیں تو اس کا کتنا اور کیسا موقع انھیں حاصل ہے؟
وہ افراد جو صنفی اضطراب کے چلتے اپنے محسوس جنس کے مطابق عبورکرکے دوسری جنس میں تبدیل ہو گئے یا کر دیے گئے کیا وہ اس پر مطمئن ہیں؟ کیا اس ضمن میں وسیع تر تحقیقات موجود ہیں؟
صنفی اضطراب سے نبردآزما افراد کی ذہنی اذیت پر تو تحقیقات ہیں؟ لیکن ان سے وابستہ افراد خاندان پر جو گزرتی ہے اس پر تحقیقات کہاں تک پہنچی ہیں؟
شناخت کی پوری بحث میں “Meaning Making” کا کیا حصہ ہے؟
صنفی اضطراب کے نفسیاتی محرکات کیا ہیں؟
صنفی اضطراب کی بنا پر ماضی کے تجربات کی ناکامی کی تجزیاتی تحقیق کن نتائج تک پہنچاتی ہے۔
ان سوالات پر تفصیلی بحث ان شاء اللہ اگلے مضمون میں کی جائے گی ۔ (جاری)
[1] Turban JL, Loo SS, Almazan AN, Keuroghlian AS. Factors Leading to “Detransition” Among Transgender and Gender Diverse People in the United States: A Mixed-Methods Analysis. LGBT Health. 2021 May-Jun;8(4):273-280. doi: 10.1089/lgbt.2020.0437. Epub 2021 Mar 31. PMID: 33794108; PMCID: PMC8213007.
[2] Littman L. Individuals Treated for Gender Dysphoria with Medical and/or Surgical Transition Who Subsequently Detransitioned: A Survey of 100 Detransitioners. Arch Sex Behav. 2021 Nov;50(8):3353-3369. doi: 10.1007/s10508-021-02163-w. Epub 2021 Oct 19. PMID: 34665380; PMCID: PMC8604821.
مشمولہ: شمارہ جون 2023