(اللہ تعالی نے اس کائنات کی ہر چیز کو اہتمام کے ساتھ بنایا ہے اور ہر چیز میں انوکھا پن اور پر اسراریت رکھی ہے۔ سائنس اور ٹکنالوجى اسی کاریگری کی مرہون منت ہیں۔)
انسان جب کسی کو کچھ دیتا ہے تو ایک ایک چیز گن کر دیتا ہے اور اس کا حساب رکھتا ہے، لیکن یہی انسان اللّہ تعالٰی کی بے شمار نعمتوں سے فائدہ اٹھاتا ہے اور کبھی رک کر ان کا اعتراف اور شکر ادا نہیں کرتا! یہ یوز اینڈ تھرو اور احسان فراموشی والا رویہ سخت معیوب اور غیر عادلانہ رویہ ہے۔
جس طرح مچھلی پانی میں زندہ رہتی ہے اسی طرح ہم اللّہ تعالٰی کے احسانات اور اس کی عطا کردہ نعمتوں میں جی رہے ہیں۔ اللّہ تعالٰی کے احسانات کو یاد رکھنا، یاد کرنا اور ہر حال میں یاد رکھنا بندگی اور عدل دونوں کا تقاضا ہے۔
شکر گزاری کا یہ رویہ دراصل انسان کی اہم ضرورت اور خود اس کے لیے مفید ہے۔ شکر گزاری انسان کو مایوسی اور منفی خیالات اور جذبات سے محفوظ رکھتی ہے۔ شکر گزار انسان حقیقت پسند اور قوت عمل میں آگے ہوتا ہے۔
مشکلاتِ حیات میں شکرگزاری اور اللّہ تعالٰی کے احسانات کو یاد رکھنے والا رویہ اللّہ تعالٰی کے وفادار بندوں کا خاصہ اور ان کی پہچان ہوتی ہے۔ ہر لمحہ ان کی زبان اور ان کا دل الحمدللہ علی کل حال کی نہایت خوب صورت اور دل کش تصویر بنا رہتا ہے۔
شکر گزاری والا رویہ انسان کی فطری ضرورت ہے۔ اللّہ تعالٰی کے احسانات کو یاد کرتے رہنا اور شکر بجا لانا افضل ترین ذکر ہے۔
اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری اور اس نے احسان کا جو معاملہ ہمارے ساتھ رکھا ہے اسے آگے بندوں تک پہنچانا اور بندوں کے ساتھ احسان والا رویہ اختیار کرنا شکر گزاری کا عین تقاضا ہے۔ اللّہ تعالٰی کے احسانات کو یاد رکھنے کا عین تقاضا ہے کہ اللّہ تعالٰی کے بندوں کے ساتھ احسان والا رویہ اختیار کیا جائے۔
شکر و احسان کی ان بنیادوں پر بننے والا معاشرہ اور ان بنیادوں پر تعمیر ہونے والا تمدن مکمل اور حسین ترین تمدن ہوتا ہے۔ ایسا ہی تمدن ہر آن ترقی کرتا اور اپنے برگ و بار سے پوری انسانیت کو حقیقی فیض پہنچاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی یہ نعمتیں جو پوری زندگی کو محیط ہیں اور جن کا احاطہ کرنا نگاہ و بیان سے باہر ہے، ان میں سے ہر نعمت میں غایت درجے کا ’’اہتمام‘‘ نظر آتا ہے۔ یہ اہتمام اور کاریگری انسان کی جستجو کو مہمیز کرتی اور اس کو سوچنے پر ابھارتی ہے۔ عالم وجود میں یہ اہتمام انسان کو خالق کائنات کی طرف اور اس کی خلاقیت، قدرت، رحمت اور حکمت جیسی صفات کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اور یہی اہتمام تلاش وجستجو پر اکساتا ہے، جس سے ہر دور کی سائنس اور ٹکنالوجی وجود میں آئی ہے۔
جب انسان غور کرتا ہے تو پاتا ہے کہ ایسی کتنی ہی چیزیں ہیں جن کو ہم نہیں جانتے لیکن وہ ہماری خدمت پر مامور ہیں۔ فطری جستجو اور شکرگزاری کا تقاضا ہے کہ ہم ان نعمتوں کو دریافت کریں جن کا انتظام اس کائنات میں اللّہ تعالٰی نے ہمارے لیے فرمایا ہے۔ تاکہ ان نعمتوں سے ہم خود مستفید ہوں، ساتھ ہی حق نعمت ادا کریں، شکر بجا لائیں اور ان نعمتوں سے سارے انسانوں کو فائدہ پہنچائیں۔
اللّہ تعالٰی کی کائنات میں کائنات میں راست غور و فکر اور نئی نئی دریافتیں ہماری شکر گزاری کا تقاضا اور اللّہ تعالٰی کا ہم کو دیا گیا ہوم ورک ہے، کہ تلاش کرو اور ڈھونڈو !
ہم یہ تلاش کریں کہ الله سبحانہ تعالٰی نے ہمارے لیے اس کائنات میں کیسے کیسے انتظامات فرمائے ہیں۔ وہ نعمتیں بھی ان میں شامل ہیں جو کھلی آنکھوں سے نظر آتی ہیں۔ اور وہ نعمتیں بھی جن کوانسانوں نے اپنے تمدنی سفر میں دریافت کیا ہے، جیسے معدنی ذخائر، پٹرول، خوردبینی جاندار وغیرہ۔
پھر وہ نعمتیں بھی ان میں شامل ہیں جو انسانی تخلیق اور ایجادات ہیں جو اللّہ تعالٰی کی نعمتوں سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے ناگزیر ہیں جیسے کشتی، سواریاں، ادویات، انجن وغیرہ۔
جتنا زیادہ انسان تلاش اور جستجو کرے گا، کائنات اس کو نعمتوں کا مخزن نظر آئے گی۔ نعمتیں اور خزانے تلاش کرنے کا انسانوں کا یہ سفر کبھی ختم نہیں ہوگا۔
یہ ہماری عقل و دماغ اور صلاحتیوں کا فطری میدان ہے اور ہماری تمدنی ضرورت بھی ہے۔
جس طرح انسان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اس کا مال اور اس کے وسائل میں مسلسل اضافہ ہو، رزق کی نئی راہیں وہ تلاش کرتا ہے اور اس کی اس کوشش کو اللّہ تعالی اپنے “فضل” سے تعبیر کرتا ہے اور اس کو ایک پسندیدہ کوشش قرار دیتا ہے، اسی طرح جو نعمتیں اور خزانے اللّہ تعالٰی نے اس کائنات میں رکھے ہیں اس بات کے متقاضی ہیں کہ انسان اللّہ تعالٰی کے ان خزانوں کو تلاش کرے اور انسانوں میں ان کا فائدہ عام کرے۔ جس طرح عام رزق کو اللّہ تعالٰی کی راہ میں خرچ کرنے اور بڑھ چڑھ کر خرچ کرنے کی فضیلت ہے اسی طرح اللّہ تعالی کی ان نعمتوں کو افادہ عام کے لیے جاری کرنا بھی اللّہ تعالٰی کی راہ میں خرچ کے مترادف ہے۔ ایک ساںنس داں اپنی محنتیں صرف کرتا ہے اس کے نتیجے میں جو علوم اور خزانے اس کے ہاتھ لگتے ہیں، وہ ان سے انسانوں کو فائدہ پہنچاتا ہے وہ سائنسداں دراصل اس شخص کے مانند ہے جو خوب محنت و مشقت سے رزق حلال تلاش کرتا ہے دوڑ دھوپ کرتا ہے اور جب اللّہ تعالٰی اس کو اپنے فضل سے نوازتا ہے تو وہ اللّہ تعالٰی کا عطا کردہ یہ مال اللّہ تعالٰی کی خوشنودی کے لیے بے دریغ اس کی راہ میں خرچ کرتا ہے اور صرف اللّہ تعالٰی سے اجر کا متمنی ہوتا ہے۔ اللّہ تعالٰی کا ایسے انسانوں سے اجر عظیم کا وعدہ ہے۔ رزق حلال کی تلاش، دوڑ دھوپ اور خرچ تمام سرگرمیوں کو قرآن مجید جہاد فی سبیل الله کے ساتھ ذکر کرتا ہے۔ ایک سائنسداں کی کوششیں اگر وہ اسی نیت اور جذبے و ارادے اور طریقے سے ہوں تو یہ رزق حلال کی کوششوں سے افضل ہیں، کیوں کہ ان سے جہاں انسانوں کو مفید مادی وسائل فراہم ہوتے ہیں، وہ علم حاصل ہوتا ہے جس سے اللّه تعالٰی کی خلاقیت، قدرت، رحمت اور حکمت جیسی صفات کا انسان راست مشاہدہ کرتا ہے۔ اس کی اپنی معرفت میں اضافہ ہوتا ہے اور زبان شکر سے تر ہوتی ہے، وہیں یہ علم دوسرے انسانوں کے لیے بھی معرفت اور شکرگزاری کا باعث بنتا ہے۔ یہ علوم پھر معرفت الہی کا راستہ، اللّہ سبحانہ تعالٰی کی حمد و تعریف کا وسیلہ اور انسانوں کے لیے سراسر رحمت بن جاتے ہیں۔ اللّہ تعالٰی کی خوشنودی میں ایسے علوم کی دریافتیں جہاں معرفت الہی حمد و تسبیح پر ابھارتی ہیں، وہیں ان کی بنیاد پر وجود میں آنے والی نئی انسان دوست اور غریب پرور ٹکنالوجیاں جہاد فی سبیل الله اور انفاق فی سبیل الله میں شامل ہوجاتی ہیں۔ علم و معرفت اور شکر و احسان پر تعمیر ہونے والی سائنس و ٹکنالوجی صحت مند تمدن اور پاکیزہ تہذیب کے لیے مضبوط بنیادیں فراہم کرتی ہے جو فطرت انسانی سے ہم آہنگ، فطرت کے نورِ توحید کے مطابق اور اللّہ عز و جل سے انسانوں کو قریب لانے والی ہوتی ہے۔
علم صحیح پر استوار اور شکر سے سیراب یہ گلستانِ تمدن انسانوں کے لیے سراسر رحمت اور بے پناہ کشکش اور اپیل رکھتا ہے۔
اللّہ تعالی کی راہ میں خرچ کرنے کا جذبہ جہاں ایک مومن کو رزق حلال کی کوششوں اور اللّہ تعالٰی کے فضل کی تلاش پر ابھارتا ہے اسی طرح سائنس اور ٹکنالوجى کا یہ میدان بھی مسلم نوجوانوں اور اللّہ تعالی کی خوش نودی کے لیے کام کرنے والوں کو مہمیز کرتا ہے کہ وہ ان علوم سے معرفت الہی اور فطرت انسانی میں موجود نور توحید کی آب یاری کریں، شکر و احسان کی روش پر چلتے ہوئے انسانوں کی خدمت کریں اور ان کا فیض انسانوں میں عام کریں۔ یہی وہ راستہ ہے جو علم کے تکبر میں مبتلا ہونے سے روکتا ہے اور علم کی طاقت سے زمین پر فساد پھیلانے سے بھی باز رکھتا ہے۔
سائنس و ٹکنالوجی کی راستی کے لیے اور انسانوں کی بھلائی کے لیے سائنس و ٹکنالوجی کے اس روحانی پہلو کو سامنے لانا ضروری ہے۔
مشمولہ: شمارہ مئی 2021