شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ ہر شہر کے لوگوںنے وہاں موجود علماء کے فتووں پر عمل کیا جیسے کہ مدینہ کے لوگ وہاں موجود فقہاء کے فتوے پر عمل کیا کرتے تھے اور امام مالکؒ نے انہی کے طریقوںکو مدون کیا اور کسی مسئلے میں وہاں کے لوگوں میں اتفاق ہو تو اس کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ وہ سنت جس کے بارے میں ہمارے یہاں کوئی اختلاف نہیں ہے ، یہ ہے ’’السنۃ التی لا اختلاف فیھا عندنا کذا‘‘اور یہی حال مکہ اور کوفہ کا رہا ہے ۔(حجۃ اللّٰہ البالغۃ:۱/۲۷۱۔)
اور امام مالکؒ کی طرح سے امام ابو حنیفہؒ نے بھی تابعینؒ کا زمانہ پایا اور مدینہ کی طرح سے مکہ ، کوفہ اور شام میں بھی صحابہ کرامؓکی ایک بڑی تعداد آباد تھی اور طبقات ابن سعد کی روایت کے مطابق کوفہ میں اقامت اختیار کرنے والے صحابہ کرام میں سے ستر صحابی ایسے تھے جو جنگ بدر میں شریک تھے اور آٹھ سو وہ صحابہ کرامؓ تھے جو بیعت رضوان میں شامل تھے ، (طبقات ابن سعد:۶/۷۔) اور وہاں کے لوگوں کی تعلیم و تربیت کے لیے حضرت عمرؓ نے خاص طور سے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو بھیجا تھا ، جنہیں روانہ کر تے ہوئے انہوںنے فرمایا تھا کہ ابن مسعودؓ کی مجھے خود ضرورت تھی لیکن تمہاری ضرورت کے پیش نظر میں ایثار سے کام لے رہا ہوں ، ’’قد آثرتکم بعبد اللّٰہ بن مسعود علی نفسی‘‘ (تذکرۃ الحفاظ:۱ /۱ ۶)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اس نو آباد شہر کو علمی اعتبا ر سے کس طرح سے آباد کیا ؟ اس کا قدر ے اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب حضرت علیؓ کوفہ آئے تو بے ساختہ بول پڑے ، اللہ ابن مسعودؓ کا بھلا کرے انہوں نے اس شہر کو علم سے بھر دیا، ان کی محنت وکاوش ، جدو جہد او ر لگن کا نتیجہ تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے اس شہر میں چار ہزار علماء اور محدثین پیدا ہوگئے جن میں ہرایک اپنی جگہ منارۂ نور تھا اور یہ تعداد صرف حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے تلامذہ کی ہے ، دیگر صحابہ کے تلامذہ کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے ۔
حضرت علیؓ نے کوفہ کو دارالخلافہ بنایا اور یہیں اقامت گزیں ہوگئے تو ان کے ساتھ بھی صحابہ کرام کی ایک بڑی تعداد کوفہ منتقل ہوگئی ، جن میں حضرت سلما ن فارسیؓ ، خباب بن ارتؓ ،حذیفہ بن یمانؓ ، ابو موسیٰ اشعریؓ ، براء بن عازبؓ اور عبداللہ بن اوفیؓ وغیرہ کا نام سرفہرست ہے ، (معرفۃ علوم الحدیث:۱۹۱۔) ان عالی مقام اور ممتاز صحابہؓ کی آمد کی وجہ سے کوفہ علم کا ایک جگمگاتا ہوا شہر بن گیا اور وہاں کے آفتاب سے کسب فیض کرکے ایک ایسی جماعت تیارہوگئی ، جو صحابہؓ کی موجودگی میں فتویٰ دیا کرتی تھی ۔
واضح رہے کہ حضرت عمرؓ کی نگاہ میں حضرت علیؓ کاکیا مقام تھا ؟ اسے حضرت سعید بن مسیب نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے :
’’حضرت عمرؓ اس بات سے اللہ کی پناہ چاہتے تھے کہ کوئی مشکل مسئلہ پیش آجائے اور حضرت علیؓ موجود نہ ہوں ‘‘۔(تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۶۔)
صحابہ کرامؓ کے درمیان حضرت علیؓ اور ابن مسعودؓ کا کیا درجہ تھا ،اس کے متعلق مشہور تابعی حضرت مسروقؒ کہا کرتے تھے ، میں نے دیکھا کہ تمام صحابہ کرامؓ کے علوم کے جامع چھ لوگ تھے ، حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ ، زید بن ثابتؓ، ابودرداء ؓاور ابن مسعودؓ ، پھران چھ کے علوم کے جامع دو شخص تھے ، حضرت علیؓ اور ابن مسعودؓ۔(مقدمہ ابن صلاح:۱۲۷۔ )
امام ابوحنیفہؒ نے کوفہ میں موجود صحابہ کرامؓ کے عملی تواتر کو مدون کیا ، چنانچہ وہ خود کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمرؓ کے علوم کو ان کے اصحاب سے اور حضرت علیؓ کے علوم کو ان کے اصحاب سے اور حضرت ابن مسعودؓ کے علوم کو ان کے اصحاب سے سیکھا ۔(الخیرات الحسان:۴۳۔)
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒلکھتے ہیں :
’’امام ابوحنیفہؒ ابراہیم نخعیؒ اور ان کے ہم عصر علماء کے نقطہ نظر کی سختی سے پابندی کیا کرتے تھے او ر بہت کم مسائل میں ان سے الگ رائے اختیارکرتے … …
اور ان کم جگہوں میں بھی وہ کوفہ کے فقہا ء کے نظریہ سے باہر نہیں نکلتے ‘‘۔ (حجۃ اللہ البالغۃ:۱/۲۷۱)
اسی بنیاد پر حضرت سفیان ثوریؒ بھی کوفہ میں رائج عمل پر فتویٰ دیا کرتے تھے ، اس لیے ان کے اور امام ابوحنیفہ کے مسلک میں بہت کم فرق نظر آتا ہے ، سفیان ثوریؒ فقیہ بھی ہیں اور محدث بھی ، بلکہ ایک محدث کی حیثیت سے ان کی شہرت زیادہ ہے اورحدیث کی کتابیں ان کی روایات سے بھری پڑی ہیں ، مگر وہ خوداپنی روایت کرد ہ حدیث پر عمل نہیں کرتے اگر وہ کوفہ میں رائج عمل اور طریقے کے خلاف ہو ، چنانچہ رکوع میں جاتے اور اٹھتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو اٹھانے ، سینے پر باندھنے اور زور سے آمین کہنے کی روایتوںکے وہ خود ناقل ہیں لیکن ان کاعمل اس کے برخلا ف ہے ۔
یہ تو روز پیش آنے والے مسائل ہیں لیکن جو مسائل کبھی کبھار پیش آتے ہیں ان میں بھی وہ امام ابو حنیفہ ؒکے ہم نوا ہیں ، جیسے امام مالکؒ ،شافعیؒ اور علماء حجاز کے نزدیک تین درہم یا چوتھائی دینار کی چوری میں چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا ، اس کے برخلاف امام ابو حنیفہؒ اور عراق کے اکثر لوگوںکے نزدیک دس درہم کی چوری میں ہاتھ کاٹا جائے گا ، کہا جاتا ہے کہ اس نقطہ نظر کی پشت پر کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے مگر سفیان ثوریؒ جیسے محدث کا بھی یہی مسلک ہے ، علامہ عظیم آبادی لکھتے ہیں :’’والیہ ذہب سفیان مع جلالتہ‘‘۔(عون العبود:۱۲/۳۳۔)
یحییٰ بن معین مشہور ناقد حدیث اور محدث ہیں ، علامہ ذہبی نے ان کا تعارف ان الفاظ میں کرایا ہے :
’’وہ امام ،حافظ حدیث ، عبقری اور شیخ المحدثین ہیں ‘‘۔
سفیان بن عیینہ ، ابن مہدی ، یحییٰ القطان جیسے ماہرین فن ان کے اساتذہ ہیں او ر امام احمدؒ ، بخاریؒ ، مسلمؒ او رابو دائودؒ جیسے محدثین ان کے تلامذہ میں شامل ہیں اوران سب کے
باجود وہ فقہ حنفی کے مطابق عمل کیا کرتے تھے ۔
’’قلت قد کان ابوزکریا رحمہ اللّٰہ حنفیا فی الفروع‘‘۔(دیکھیے اعلام النبلاء : ۱۱/۷۱اور۱۱/۸۸۔)
اسی طرح سے حضرت وکیع بن جراحؒ ایک مشہور محدث ہیں ، ہشام بن عروہؒ ، سلیمان بن اعمشؒ ، اوزاعیؒ اور ابن عونؒ وغیرہ سے انہوںنے حدیث سنی اور عبداللہ بن مبارکؒ ،عبدالرحمن بن مہدیؒ ، حمیدیؒ اور ابن معینؒ وغیرہ ان کے شاگرد ہیں لیکن ان کے بارے میں بھی علامہ ذہبی کو یہ اعتراف ہے کہ :
’’اور امام ابو حنیفہؒ کے قول پر فتویٰ دیاکرتے تھے اور انہوںنے ابوحنیفہؒ سے بہت سی حدیثیں سنی ہیں ‘‘۔ (حوالہ مذکور:۹/۱۴۸۔)
بعض حضرات اس کی تاویل میں کہتے ہیں کہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ وہ نبیذ کے حلال ہونے کے مسئلے میں امام ابوحنیفہؒ کے قول پر فتویٰ دیا کرتے تھے ،لیکن سوال یہ ہے کہ کوفہ بلکہ عراق کے زیادہ تر لوگ اس کی حلت کے قائل تھے ، اس لیے ’’یفتی بقول ابی حنیفۃ‘‘ کی جگہ ’’یفتی بقول اھل الکوفۃ‘‘ کہنا چاہیے ، رہا بعض مسائل میں ان کا امام صاحب سے اختلاف تو ایسے ہی ہے جیسے کہ امام ابویوسفؒ اور محمدؒ کا ان سے بعض مسائل میں اختلاف ہے ۔
ان دونوں محدثین کے طرز عمل کی توجیہ اس کے سوا کچھ اور نہیں ہو سکتی ہے کہ وہ جانتے تھے کہ امام ابو حنیفہؒ نے جس چیز کی تدوین کی ہے وہ سنت اور عملی تواتر پر مبنی ہے اور ہمارے پاس جو حدیثیں ہیں وہ زیادہ تر ’’خبر واحد‘‘ ہیں اور عملی تواتر کے ہوتے ہوئے ’’خبر واحد ‘‘ پر عمل کی گنجائش نہیں ہے ۔
میت کو قبر میںکس طرف سے داخل کیاجائے ، دیوار قبلہ کی طرف سے یا پائنتی جانب سے ؟ اس میں ائمہ کے درمیان اختلاف ہے ، امام شافعی وغیرہ کی رائے ہے کہ پائنتی جانب سے داخل کرنا چاہیے اور اس کی دلیل بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں :
’’لوگ بکثرت دنیا سے رخصت ہوتے رہتے ہیں ، اس لیے میت کو قبر میں داخل کرنے کا معاملہ بڑا مشہور ہے اور دفن کے وقت بزر گان دین ، ائمہ کرام اور قابل اعتماد لوگ موجود ہوتے ہیں ، یہ ایک عمومی حیثیت کا معاملہ ہے جس کے لیے کسی حدیث کی ضرورت نہیں ، کیونکہ سب لوگ اس سے واقف ہوتے ہیں ، اس لیے اس طرح کے معاملے میں حدیث پیش کرنا بے جا تکلف ہے ، اللہ کے رسول ﷺ او ر مہاجرین و انصار ہمارے درمیان رہے ہیں جن سے کسی اختلاف کے بغیر عمومی حیثیت سے یہ منقول ہے کہ میت کو پیر کی طرف سے داخل کیاجائے گا ‘‘۔(کتاب الام:۲۴۱۱)
امام شافعی کی یہ تحریر بڑی چشم کشا اور حقیقت افروز ہے اور بڑے اچھے انداز میں سنت اور عملی تواتر پر روشنی ڈالتی ہے ، اس اضافے کے ساتھ کہ دین کی دیگر چیزیں جو ا سی طرح کی عمومی حیثیت کی ہوں ، ان میں بھی اس اصول کا لحاظ رکھا جائے گا اور جس طرح سے صحابہ کرامؓ مکہ اور مدینہ میں سکونت پذیر رہے ، اسی طرح سے کوفہ ، بصرہ ، شام میں بھی انہوں نے اقامت اختیار کی اور وہاں کے لوگوںنے ان کے ذریعے سنت حاصل کی اور پھر امام مالکؒ ، ابوحنیفہؒ وغیر ہ نے مدون شکل میں اسے امت کو پیش کیا ، صورت حال یہ ہے کہ میت کو قبر میں دائیں کروٹ لٹانے کے متعلق سرے سے کوئی حدیث نہیں ہے ، نہ صحیح ، نہ ضعیف لیکن پور ی امت اس کی سنت ہونے پرمتفق ہے کیونکہ عملی تواتر سے ثابت ہے ، علامہ شوکانی کہتے ہیں کہ شریعت اسلامیہ میں یہ ایسا معروف و مشہور ہے کہ اس کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ۔(السیل الجرار:۱/۳۶۲۔)
امام احمد بن حنبلؒ پیشے کے اعتبار سے نکاح میں کفاء ت کے قائل ہیں ،ان سے کہا گیا کہ اس سے متعلق حدیثوںکو آپ خود ضعیف قرار دیتے ہیں ، پھرآپ اس کے قائل کیوں ہیں ؟ جواب میں کہا کہ عمل اسی کے مطابق ہے ’’العمل علی ھذا‘‘۔( فقہ السنۃ:۲/۲۵۲۔)
(جاری)
مشمولہ: شمارہ اگست 2018