سورہ آل عمران

دعوتی مشن یاد دلانے والی سورت

قرآن مجید کی ہر سورت کا ایک خاص ماحول اور رنگ ہوتاہے۔ اس سورت کو پڑھتے ہوئے کچھ خاص باتوں کی طرف ذہن خصوصیت کے ساتھ جاتا ہے۔ سورہ آل عمران کا خاص پہلو یہ ہے کہ وہ اہل اسلام کو ان کے دعوتی مشن سے روبرو کرتی ہے۔

سورہ بقرہ کا خاص فوکس دین کی اقامت و نفاذ پر ہے اور سورہ آل عمران کا خاص فوکس اقامت دین کی دعوت و تبلیغ پر ہے۔سورہ بقرہ میں اقامت دین نمایاں ہے تو سورہ آل عمران میں نصرت دین نمایاں ہے۔ سورہ بقرہ کے بعد سورہ آل عمران کے محل وقوع سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ دعوت دین اور نصرت دین اقامت دین سے پہلے بھی مطلوب ہے اور اقامت دین کے بعد بھی۔ دین کے قیام کے لیے بھی اور دین کی حفاظت کے لیے بھی۔ دین قائم ہوجانے کے بعد اگر اس پہلو سے غفلت برتی گئی تو دین کی عمارت کم زور ہونے لگے گی۔

قرآن نازل ہونے سے پہلے اہل کتاب یعنی تورات وانجیل کے حاملین کو یہ ذمے داری دی گئی تھی کہ وہ کتاب کی تبلیغ و اشاعت کا کام کریں۔ قرآن نازل ہونے کے بعد یہ ذمہ داری قرآن پر ایمان لانے والی مسلم امت کے حوالے کی گئی۔ سورہ آل عمران میں یہ دونوں موضوعات ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ ایک طرف اس گروہ کا تذکرہ ہے جس نے اپنی ذمے داری میں شدید قسم کی کوتاہی کی بلکہ ذمے داری کے بالکل برعکس رویہ اختیار کیا اور دوسری طرف اسی حوالے سے نئے ذمہ دار گروہ کی تربیت کی جارہی ہے کہ پچھلے گروہ کی روش سے بچتے ہوئے کس طرح سے اسے اپنی ذمے داری ادا کرنی ہے۔

اس سورت کا آغاز دعوت و تبلیغ کا رنگ لیے ہوئے ہے۔

نَزَّلَ عَلَیكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَینَ یدَیهِ وَأَنْزَلَ التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِیلَ  مِنْ قَبْلُ هُدًى لِلنَّاسِ [آل عمران: ۳-۴]

” اُس نے تم پر یہ کتاب نازل کی ہے، جو حق لے کر آئی ہے اور اُن کتابوں کی تصدیق کر رہی ہے جو پہلے سے آئی ہوئی تھیں اس سے پہلے وہ انسانوں کی ہدایت کے لیے تورات اور انجیل نازل کر چکا ہے۔ “

سورہ بقرہ کے آغاز میں قرآن مجید کو ھدی للمتقین تھا، جس سے کتاب کے تربیتی پہلو کا اشارہ ملتا ہے اور اس سورت میں قرآن مجید کو ھدی للناس کہا گیاہے جو اس کتاب کے دعوتی پہلو کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

عبرت ناک کردار

اہل کتاب کا ذکر سورہ بقرہ میں تفصیل سے ہے، وہاں یہ پہلو نمایاں ہے کہ انھوں نے کتاب کی برکتوں سے خود کو محروم کیا، اللہ کے دین سے دوری اختیار کی اور اللہ کے احکام کو پامال کیا۔ سورہ آل عمران میں بھی اہل کتاب کا ذکر تفصیل سے ہے، البتہ یہاں یہ پہلو نمایاں ہے کہ انھوں نے اللہ کی کتاب کو چھپانے اور اللہ کے دین کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرنے کی ہر کوشش کی۔

اہل کتاب اپنے زمانے کی مسلم امت تھے۔ ان پر یہ ذمہ داری تھی کہ وہ دین پر عمل کریں اور یہ ذمہ داری بھی تھی کہ اپنی کتاب کی تعلیمات لوگوں کے سامنے پیش کریں اور دین کی تبلیغ کرنے والے آخری رسول کی نصرت کریں۔ اس تعلق سے اس سورت میں اہل کتاب سے متعلق کچھ اعلی نمونے بھی ذکر کیے گئے جن کی اہل کتاب کو تقلید کرنی چاہیے تھی۔

ایک نمونہ حضرت مریم کا ہے۔ ان کی والدہ نے انھیں دین کی خدمت کے لیے وقف کردیا تھا اور حضرت زکریا نے ان کی بہترین تربیت کی تھی۔

ایک نمونہ حضرت زکریا کا ہے۔ انھوں نے دین کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے اولاد کی دعا کی تو اللہ نے انھیں حضرت یحیی سے نوازا۔

ایک نمونہ حضرت عیسی کا ہے۔ اللہ نے ان سے دین کے احیا و تجدید کاعظیم کام لیا۔

ایک نمونہ حضرت عیسی کے حواریوں کا ہے۔ انھوں نے حضرت عیسی کا ان کے مشن میں پورا ساتھ دیا۔

ان اعلیٰ کرداروں اور شان دار نمونوں کے ہوتے ہوئے اہل کتاب کے لیے یہی زیبا تھا کہ وہ آخری پیغمبر حضرت محمد ﷺ کا ساتھ دیتےاور تورات وانجیل کے بعد سب سے آگے بڑھ کر قرآن کے امین و علم برداربن جاتے۔ لیکن ان کا رویہ اللہ کے آخری رسول اور آخری کتاب کے سلسلے میں دشمنی اور عناد کا تھا۔

یہ سورت دین کی تبلیغ کے سلسلے میں اہل کتاب کے معاندانہ رویے کوخاص طور سے سامنے لاتی ہے۔مسلم امت کے سامنے اہل کتاب کی روش بطور عبرت رکھ دی گئی ہے۔ جس گروہ کو آخری رسول کا مددگار بننا تھا وہ الٹا رسول کی دشمنی پر اتر آیا۔ جسے حق کی دعوت کاکام کرنا تھا اس نے عداوت کی روش اپنائی۔ مسلم امت کو اہل کتاب کی روش سامنے رکھتےہوئے سختی سے اپناجائزہ لیناچاہیے کہ کہیں وہ اس نہایت اہم اور نازک معاملے میں اہل کتاب سے کسی طرح کی مشابہت میں مبتلا تو نہیں ہورہی ہے۔

اہل کتاب کی روش سے متعلق ہم یہاں کچھ آیتیں ذکر کریں گے۔

یہ سورت بتاتی ہے کہ اہل کتاب کے نبیوں سے عہد لیا گیا تھا اور اس عہد میں تمام اہل کتاب شامل تھے کہ جب اللہ کا رسول تمھارے پاس موجود پیشین گوئیوں کا مصداق بن کر آئے گا تو تم سب اس پر ایمان لاؤگے اور اس کی نصرت کرو گے اور اس کے مشن میں اس کے دست و بازو بنو گے۔

وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِیثَاقَ النَّبِیینَ لَمَا آتَیتُكُمْ مِنْ كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِی قَالُوا أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُمْ مِنَ الشَّاهِدِینَ [آل عمران:۸۱]

” یاد کرو، اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ، ’’آج ہم نے تمھیں کتاب اور حکمت و دانش سے نوازا ہے، کل اگر کوئی دوسرا رسول تمھارے پاس اُسی تعلیم کی تصدیق کرتا ہوا آئے جو پہلے سے تمھارے پاس موجود ہے، تو تم کو اس پر ایمان لانا ہوگا اور اس کی مدد کرنی ہوگی‘‘ یہ ارشاد فرما کر اللہ نے پوچھا، ’’کیا تم اِس کا اقرار کرتے ہو اور اس پر میری طرف سے عہد کی بھاری ذمہ داری اٹھاتے ہو؟‘‘ انھوں نے کہا ہاں ہم اقرار کرتے ہیں اللہ نے فرمایا، ’’اچھا تو گواہ رہو اور میں بھی تمھارے ساتھ گواہ ہوں۔ “

اہل کتاب سے عہد لیا گیا تھا کہ وہ کتاب الٰہی کی تبلیغ کا کام کریں گے اور اس کی تعلیمات کوچھپائیں گے نہیں، مگر انھوں نے تو وہ عہد ہی پس پشت ڈال دیا اور چند ٹکوں کے عوض کتاب الٰہی کا سودا کر لیا۔

وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِیثَاقَ الَّذِینَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَینُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ وَاشْتَرَوْا بِهِ ثَمَنًا قَلِیلًا فَبِئْسَ مَا یشْتَرُونَ [آل عمران:۱۸۷]

” اِن اہل کتاب کو وہ عہد بھی یاد دلاؤ جو اللہ نے ان سے لیا تھا کہ تمھیں کتاب کی تعلیمات کو لوگوں میں پھیلانا ہوگا، انھیں پوشیدہ رکھنا نہیں ہوگا مگر انھوں نے کتاب کو پس پشت ڈال دیا اور تھوڑی قیمت پر اُسے بیچ ڈالا کتنا برا کاروبار ہے جو یہ کر رہے ہیں۔ “

اہل کتاب کو ہدایت کا علم بردار بنایا گیا تھا لیکن ان کا ایک گروہ ہدایت یافتہ مسلمانوں کو گم راہ کرنے کے درپے ہو گیا۔

وَدَّتْ طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ یضِلُّونَكُمْ وَمَا یضِلُّونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا یشْعُرُونَ    [آل عمران: ۶۹]

” (اے ایمان لانے والو) اہل کتاب میں سے ایک گروہ چاہتا ہے کہ کسی طرح تمھیں راہ راست سے ہٹا دے، حالاں کہ در حقیقت وہ اپنے سوا کسی کو گمرا ہی میں نہیں ڈال رہے ہیں مگر انھیں اس کا شعور نہیں ہے۔ “

حق دشمنی کا نتیجہ یہ ہوا کہ حق کی تبلیغ کے بجائے خود حق کو چھپانے کے جتن کرنے لگے اور حق و باطل کو گڈ مڈ کرنے جیسے سنگین جرائم کے مرتکب ہوگئے:

یاأَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَلْبِسُونَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ  [آل عمران:۷۱]

” اے اہل کتاب! کیوں حق کو باطل کا رنگ چڑھا کر مشتبہ بناتے ہو؟ کیوں جانتے بوجھتے حق کو چھپاتے ہو؟ “

اہل کتاب کے ایک گروہ نے دینِ حق کا راستہ روکنے کی بڑی خطرناک سازش رچی۔ بغض و عناد کی آگ نے ان سے بصیرت چھین لی اور انھوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ اللہ کی ہدایت اور اللہ کے فضل سے خود کو محروم کرنا اور دوسروں کے لیے رکاوٹ کھڑی کرنا کتنا سنگین جرم اور کتنی بڑی نادانی ہے:

وَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ آمِنُوا بِالَّذِی أُنْزِلَ عَلَى الَّذِینَ آمَنُوا وَجْهَ النَّهَارِ وَاكْفُرُوا آخِرَهُ لَعَلَّهُمْ یرْجِعُونَ ۔  وَلَا تُؤْمِنُوا إِلَّا لِمَنْ تَبِعَ دِینَكُمْ قُلْ إِنَّ الْهُدَى هُدَى اللَّهِ أَنْ یؤْتَى أَحَدٌ مِثْلَ مَا أُوتِیتُمْ أَوْ یحَاجُّوكُمْ عِنْدَ رَبِّكُمْ قُلْ إِنَّ الْفَضْلَ بِیدِ اللَّهِ یؤْتِیهِ مَنْ یشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ [آل عمران: ۷۲-۷۳]

” اہل کتاب میں سے ایک گروہ کہتا ہے کہ اس نبی کے ماننے والوں پر جو کچھ نازل ہوا ہے اس پر صبح ایمان لاؤ اور شام کو اس سے انکار کر دو، شاید اس ترکیب سے یہ لوگ اپنے ایمان سے پھر جائیں۔ نیز یہ لوگ آپس میں کہتے ہیں کہ اپنے مذہب والے کے سوا کسی کی بات نہ مانو اے نبیؐ! ان سے کہہ دو کہ، ’’اصل میں ہدایت تو اللہ کی ہدایت ہے اور یہ اُسی کی دین ہے کہ کسی کو وہی کچھ دے دیا جائے جو کبھی تم کو دیا گیا تھا، یا یہ کہ دوسروں کو تمھارے رب کے حضور پیش کرنے کے لیے تمھارے خلاف قوی حجت مل جائے‘‘ اے نبیؐ! ان سے کہو کہ، ’’فضل و شرف اللہ کے اختیار میں ہے، جسے چاہے عطا فرمائے وہ وسیع النظر ہے اور سب کچھ جانتا ہے۔ “

انھیں اللہ نے علم سے بھی نوازا تھا اور عقل بھی دی تھی، لیکن وہ علم اور عقل کے تقاضوں سے بے پروا ہوکر اللہ کا دین پیش کرنے والوں سے بے تکی حجتیں کیاکرتے۔

یاأَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَاجُّونَ فِی إِبْرَاهِیمَ وَمَا أُنْزِلَتِ التَّوْرَاةُ وَالْإِنْجِیلُ إِلَّا مِنْ بَعْدِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ۔ هَاأَنْتُمْ هَؤُلَاءِ حَاجَجْتُمْ فِیمَا لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاجُّونَ فِیمَا لَیسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ وَاللَّهُ یعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ [آل عمران: ۶۵-۶۶]

”اے اہل کتاب! تم ابراہیمؑ کے بارے میں ہم سے کیوں جھگڑا کرتے ہو؟ تورات اور انجیل تو ابراہیمؑ کے بعد ہی نازل ہوئی ہیں پھر کیا تم اتنی بات بھی نہیں سمجھتے۔ تم لوگ جن چیزوں کا علم رکھتے ہو اُن میں تو خوب بحثیں کر چکے، اب ان معاملات میں کیوں بحث کرنے چلے ہو جن کا تمھارے پاس کچھ بھی علم نہیں اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے۔ “

اللہ اور اس کی کتاب کی طرف باطل اقوال منسوب کرناان کا وطیرہ بن گیا:

وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِیقًا یلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتَابِ لِتَحْسَبُوهُ مِنَ الْكِتَابِ وَمَا هُوَ مِنَ الْكِتَابِ وَیقُولُونَ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَمَا هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَیقُولُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ یعْلَمُونَ [آل عمران:۷۸]

”اُن میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو کتاب پڑھتے ہوئے اس طرح زبان کا الٹ پھیر کرتے ہیں کہ تم سمجھو جو کچھ وہ پڑھ رہے ہیں وہ کتاب ہی کی عبارت ہے، حالاں کہ وہ کتاب کی عبارت نہیں ہوتی، وہ کہتے ہیں کہ یہ جو کچھ ہم پڑھ رہے ہیں یہ خدا کی طرف سے ہے، حالاں کہ وہ خدا کی طرف سے نہیں ہوتا، وہ جان بوجھ کر جھوٹ بات اللہ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں۔ “

ان کی عقل پر اس طرح پردہ پڑ گیا تھا کہ وہ اللہ کی کتاب توپڑھتے اور اس کی تعلیم بھی دیتے مگر وہ باتیں کرتے جو اس منصب کے شایان شان نہیں ہوتیں:

مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ یؤْتِیهُ اللَّهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ یقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِی مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلَكِنْ كُونُوا رَبَّانِیینَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُونَ                                                                                                                                                                                                                                                                                                                     [آل عمران:۷۹]

”کسی انسان کا یہ کام نہیں ہے کہ اللہ تو اس کو کتاب اور حکم اور نبوت عطا فرمائے اور وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کے بجائے تم میرے بندے بن جاؤ وہ تو یہی کہے گا کہ سچے ربانی بنو جیسا کہ اس کتاب کی تعلیم کا تقاضا ہے جسے تم پڑھتے اور پڑھاتے ہو۔ “

اس بات پر تعجب کا اظہار کیا گیا کہ جس گروہ کو حقیقت کا سارا علم تھا اور وہ حق کا گواہ تھا، وہی گروہ حق کی اتباع کرنے کے بجائے اللہ کے راستے سے روکنے کا کام کرنے لگا۔

قُلْ یاأَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَصُدُّونَ عَنْ سَبِیلِ اللَّهِ مَنْ آمَنَ تَبْغُونَهَا عِوَجًا وَأَنْتُمْ شُهَدَاءُ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ [آل عمران:۹۹]

”کہو، اے اہل کتاب! یہ تمھاری کیا روش ہے کہ جو اللہ کی بات مانتا ہے اُسے بھی تم اللہ کے راستہ سے روکتے ہو اور چاہتے ہو کہ وہ ٹیڑھی راہ چلے، حالاں کہ تم خود (اس کے راہ راست ہونے پر) گواہ ہو تمھاری حرکتوں سے اللہ غافل نہیں ہے۔“

وہ ایمان دشمنی اور کفر پسندی میں حد سے بڑھ چکے تھے، یہاں تک اللہ تعالی نے ایمان والوں کو خبردار کیا کہ ان کی بات مانو گے تو یہ تمھیں کفر تک پہنچادیں گے۔

یاأَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ تُطِیعُوا فَرِیقًا مِنَ الَّذِینَ أُوتُوا الْكِتَابَ یرُدُّوكُمْ بَعْدَ إِیمَانِكُمْ كَافِرِینَ   [آل عمران:۱۰۰]

”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم نے اِن اہل کتاب میں سے ایک گروہ کی بات مانی تو یہ تمھیں ایمان سے پھر کفر کی طرف پھیر لے جائیں گے۔ “

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اہل کتاب آخری رسول پر ایمان لاتے اور ایمان لانے والوں کے گہرے دوست بنتے۔ کیوں کہ اس کے لیے نہایت مضبوط بنیادیں اور بے حد قوی اسباب موجود تھے۔ لیکن انھوں نے بغض اور کینے کا راستہ اختیار کیا۔ ان کے بغض اور کینے کی بالکل صحیح تصویر قرآن مجید میں پیش کی گئی۔

یاأَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِنْ دُونِكُمْ لَا یأْلُونَكُمْ خَبَالًا وَدُّوا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِی صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ قَدْ بَینَّا لَكُمُ الْآیاتِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُونَ [آل عمران: ۱۱۸]

” اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنی جماعت کے لوگوں کے سوا دوسروں کو اپنا راز دار نہ بناؤ وہ تمھاری خرابی کے کسی موقع سے فائدہ اٹھانے میں نہیں چوکتے تمھیں جس چیز سے نقصان پہنچے وہی ان کو محبوب ہے ان کے دل کا بغض ان کے منھ سے نکلا پڑتا ہے اور جو کچھ وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں وہ اس سے شدید تر ہے ہم نے تمھیں صاف صاف ہدایات دے دی ہیں، اگر تم عقل رکھتے ہو (تو ان سے تعلق رکھنے میں احتیاط برتو گے)۔ “

واقعہ یہ ہے کہ اہل کتاب کی حق دشمنی تمام حدود کو تجاوز کرچکی تھی۔ وہ اس دشمنی میں اس پستی تک پہنچ چکے تھے جس کا تصور عام انسانوں کے سلسلے میں بھی کرنا مشکل ہے۔ دشمنی کی ساری حدیں پھاندتے ہوئے وہ اللہ کے نبیوں کو اور عدل و قسط کی طرف بلانے والوں کو قتل کرنے کے درپے ہوگئےتھے۔

إِنَّ الَّذِینَ یكْفُرُونَ بِآیاتِ اللَّهِ وَیقْتُلُونَ النَّبِیینَ بِغَیرِ حَقٍّ وَیقْتُلُونَ الَّذِینَ یأْمُرُونَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِیمٍ [آل عمران:۲۱]

” جو لوگ اللہ کے احکام و ہدایات کو ماننے سے انکار کرتے ہیں اور اس کے پیغمبروں کو ناحق قتل کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کی جان کے درپے ہو جاتے ہیں، جو خلق خدا میں عدل و راستی کا حکم دینے کے لیے اٹھیں، ان کو درد ناک سزا کی خوش خبری سنا دو۔ “

یہ شرم ناک حالت ان لوگوں کی تھی جنھیں کتاب الٰہی کا امین و علم بردار بنایا گیا تھا۔ یہاں تک کہ اللہ کی کتاب کی نسبت سے وہ اہل کتاب کہلاتے تھے۔ وہ اللہ کی کتاب کی تبلیغ کرنے کے بجائے دعوت و تبلیغ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گئے تھے۔

قرآن مجید کا بیانیہ انصاف پر مبنی ہے۔ اہل کتاب کا ذکر کرتے ہوئے وہ یہ نہیں کہتا کہ تمام اہل کتاب دعوتِ دین کے مخالف تھے، بلکہ وہ بار بار کہتا ہے کہ ان کا ایک گروہ ان جرائم کا ارتکاب کرتا تھا۔ اس کے علاوہ پوری صراحت کے ساتھ وہ یہ بھی بتاتا ہے ان میں سے کچھ صالح نفوس اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہیں۔

لَیسُوا سَوَاءً مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ یتْلُونَ آیاتِ اللَّهِ آنَاءَ اللَّیلِ وَهُمْ یسْجُدُونَ یؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْیوْمِ الْآخِرِ وَیأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَینْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَیسَارِعُونَ فِی الْخَیرَاتِ وَأُولَئِكَ مِنَ الصَّالِحِینَ [آل عمران:۱۱۳-۱۱۴]

” مگر سارے اہل کتاب یکساں نہیں ہیں ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو راہ راست پر قائم ہیں، راتوں کو اللہ کی آیات پڑھتے ہیں اور اس کے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، نیکی کا حکم دیتے ہیں، برائیوں سے روکتے ہیں اور بھلائی کے کاموں میں سرگرم رہتے ہیں یہ صالح لوگ ہیں۔ “

لیکن بہرحال اللہ کے راستے سے روکنے والوں کی آواز اونچی تھی اور انھی کا غلغلہ تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ آوازوں کی اس انسانی دنیا میں کسی قوم کا موقف وہی ہوتا ہے جو بلند آواز سے سنائی دیتا ہے، چاہے اس آواز کو سنانے والے اقلیت میں ہی کیوں نہ ہوں۔

سورہ آل عمران میں اہل کتاب کے عبرت ناک تذکرے مسلم امت کو پوری تاکید اور زور کے ساتھ یہ پیغام دیتے ہیں کہ وہ اپنے مشن کے سلسلے میں بے حد حساس رہے۔ وہ راستہ ہرگز نہ اختیار کرے جو اہل کتاب نے اختیار کیا اور اللہ کے غضب کے مستحق بنے۔

امت میں جب دین کے احیا و تجدید کی خاطر، اللہ کی طرف بلانے والی کوئی تحریک برپا ہو تو ہر مسلمان اس تحریک کو تقویت پہنچائے۔ کوئی شخص کسی بھی طرح کی عصبیت یا بغض و عناد سے متاثر ہوکر دینی تحریک کو نقصان نہ پہنچائے۔ تحریک اگر غلط رخ اختیار کرتی ہے تو اسے سیدھے راستے پر لانے کی ذمہ داری بھی ادا کرنی چاہیے، تحریک کو کوئی کم زوری لاحق ہوتی ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش بھی کرنی چاہیے اور تحریک کو ہر طرح کا سہارا دینے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔ امت میں دینی تحریک کا برپا ہونا امت کی بہت بڑی خوش نصیبی ہے۔

عظیم مشن کی تفویض

یہ سورت مسلم امت کو اس کے دعوتی و تبلیغی مشن کی تعلیم دیتی ہے۔

اس سورت میں بڑی تاکید کے ساتھ مسلم امت کو اس کا دعوتی مشن تفویض کیا گیا۔ درج ذیل آیت کا ترجمہ ملاحظہ ہو:

وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ یدْعُونَ إِلَى الْخَیرِ وَیأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَینْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [آل عمران:۱۰۴]

” تم ایسی امت بن جاؤ جو بھلائی کی طرف بلائے، بھلائی کا حکم دے، اور برائیوں سے روکے اوروہی لوگ فلاح پائیں گے۔ “

ہمارے نزدیک کئی وجوہ سے آیت کا یہ صحیح ترجمہ ہے۔سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ پورے قرآن مجید میں جگہ جگہ اس کام کو ہر مومن مرد اور عورت کے کرنے کا کام بتایا گیا ہے، نہ کہ کچھ لوگوں کا۔ آیت کے آخر میں حصر کے اسلوب میں بتایا گیا کہ جو لوگ یہ کام انجام دیں گے وہی فلاح پائیں گے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ فلاح ہر انسان کی ضرورت ہے اور ایمان لانے کے بعد ہر مومن کی سب سے بڑی تمنا ہوتی ہے۔ اس لیے یقینی طور سے فلاح کے لیے مطلوب کاموں کی انجام دہی کو ہر شخص اپنے اوپر فرض سمجھے گا۔

اس آیت میں تین کام بتائے گئے:

  • خیر کی طرف دعوت دینا
  • بھلے کاموں کا حکم دینا
  • اور برے کاموں سے روکنا

معروف اور منکر میں فوکس انسان کے عمل کی نوعیت پر ہوتا ہے کہ وہ اچھا ہے یا برا۔ خیر کی دعوت میں فوکس نتائج و ثمرات پر ہوتا ہے کہ لوگوں کو اچھے مستقبل اور انجام کی طرف دعوت دی جائے۔

خیر امت کی اصل پہچان

اس سورت میں یہ بھی بتایا گیا کہ یہ امت خاص اسی مشن کے لیے تیار کی گئی ہے۔ اس امت کے لیے سرمایہ افتخار اس کا یہی مشن ہے۔ اسی مشن کی بنا پر اسے خیر امت قرار دیا گیا ہے۔

كُنْتُمْ خَیرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ                                                                                                                                                                                                                                                                        [آل عمران:۱۱۰]

” اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ “

اس امت کی سب سے بڑی پہچان اور شناخت اسی مشن کو ہونا چاہیے۔ اس کی ساری جدوجہد اور تمام تر سرگرمیوں کا مرکز و محور یہی مشن ہونا چاہیے۔ اس کی عزت و عظمت اسی مشن سے وابستہ ہے۔

مشن تاقیامت جاری رہے گا

اس سورت میں اہل اسلام کو ذہنی طور سے اس کے لیے بھی تیار کیا گیا کہ اللہ کے رسولﷺ کی رحلت کے بعد بھی وہ اس مشن کو جاری و ساری رکھیں گے۔

وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَنْ ینْقَلِبْ عَلَى عَقِبَیهِ فَلَنْ یضُرَّ اللَّهَ شَیئًا وَسَیجْزِی اللَّهُ الشَّاكِرِینَ [آل عمران:۱۴۴]

” محمدؐ اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول ہیں، اُن سے پہلے اور رسول بھی گزر چکے ہیں، پھر کیا اگر وہ مر جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو تم لوگ الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ یاد رکھو! جو الٹا پھرے گا وہ اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا، البتہ جو اللہ کے شکر گزار بندے بن کر رہیں گے انھیں وہ اس کی جزا دے گا۔ “

ڈر کو قریب نہ آنے دیں

اس مشن کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ باطل پرستوں کا خوف ہوتا ہے۔ شیطان اپنی ٹولی والوں کا خوف دلوں میں بٹھاتا ہے۔ یہ خوف اہل حق کو اگر لاحق ہوجائے تو ان سے ان کی قوت ارادی سلب کرلیتا ہے۔وہ پیغام پیش کرتے ہوئے جھجک محسوس کرتے ہیں۔ اس خوف سے خود کو محفوظ رکھنا بہت ضروری ہے۔ اس خوف سے آزادی کو ایمان کا تقاضا بتایا گیا ہے۔

إِنَّمَا ذَلِكُمُ الشَّیطَانُ یخَوِّفُ أَوْلِیاءَهُ فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ [آل عمران: 175]

” دراصل وہ شیطان ہی ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے۔ تم ان سے نہ ڈرنا، مجھ سے ڈرنا، اگر تم حقیقت میں صاحب ایمان ہو۔ “

کبھی دل برداشتہ نہ ہوں

یہ بھی بتایا گیا کہ کفر کے علم بردار کفر کے راستے میں بہت سرگرم ہوتے ہیں، ان سے دل برداشتہ نہیں ہونا ہے۔ اپنے مشن کی ادائیگی پر پوری توجہ مبذول رکھنی ہے۔

وَلَا یحْزُنْكَ الَّذِینَ یسَارِعُونَ فِی الْكُفْرِ إِنَّهُمْ لَنْ یضُرُّوا اللَّهَ شَیئًا یرِیدُ اللَّهُ أَلَّا یجْعَلَ لَهُمْ حَظًّا فِی الْآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ [آل عمران:۱۷۶]

” (اے پیغمبرؐ) جو لوگ آج کفر کی راہ میں بڑی دوڑ دھوپ کر رہے ہیں ان کی سرگرمیاں تمھیں آزردہ نہ کریں، یہ اللہ کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکیں گے اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ اُن کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہ رکھے، اور بالآخر ان کو سخت سزا ملنے والی ہے۔ “

اسی سورت میں دوسری جگہ بتایا گیا کہ اہل کفر اپنے مشن کو لے کر بہت سرگرم ہیں، لیکن ان کی سرگرمیوں سے دھوکہ کھانے کی ضرورت نہیں ہے۔

لَا یغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِینَ كَفَرُوا فِی الْبِلَادِ [آل عمران:۱۹۶]

” دنیا میں خدا کے نافرمان لوگوں کی چلت پھرت تمھیں کسی دھوکے میں نہ ڈالے۔ “

یہ عبرت کی بات ہے کہ کفر کے علم بردار کفر کی تبلیغ اور اس کے دفاع اور غلبے کے لیے بہت زیادہ کوشاں رہتے ہیں۔ رسول خدا اور آپ کے اصحاب کو تسلی دی گئی کہ اہل باطل کی کوششوں سے دل برداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

بلا شبہ رسول خدا اور آپؐ کے اصحاب اسلام کی تبلیغ اور اس کے غلبے کے لیے اہل کفر سے کہیں زیادہ محنت اور دوڑ دھوپ کرتے تھے۔ تاہم صورت حال اہل ایمان کے لیے بڑی صبر طلب تھی۔ اس میدان میں اٹھنے والا ہر قدم شدید مخالفت کا سامنے کررہا تھا۔ اہل کفر کی تعداد زیادہ اور اس کے ساتھ کوششیں بھی بہت زیادہ۔ بظاہر لگتا تھا کہ جیت ان کی ہوگی۔ اہل ایمان کی تعداد بہت کم تھی اور آگے بڑھنے کے دروازے ان پر بند کرنے کے لیے مخالفین تمام جتن کررہے تھے۔ ایسے میں سب سے بڑا سہارا اللہ کا یہ وعدہ تھا کہ اس معرکہ میں آخری نتیجہ اہل ایمان کے حق میں آنے والا ہے۔

یہ تکلیفوں بھرا راستہ ہے

اس سورت میں بہت تاکید کے ساتھ بتایا گیا کہ ایمان والوں کو جو مشن تفویض کیا گیا ہے، اس راہ میں شدید مخالفت اور اذیت رسانی پیش آئے گی اور ضرور پیش آئے گی۔ صبر اور تقوی اس راہ میں کام یابی کے لیے بہت ضروری ہیں۔

لَتُبْلَوُنَّ فِی أَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِینَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِینَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِیرًا وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ [آل عمران:۱۸۶]

” مسلمانو! تمھیں مال اور جان دونوں کی آزمائشیں پیش آ کر رہیں گی، اور تم اہل کتاب اور مشرکین سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے اگر ان سب حالات میں تم صبر اور خدا ترسی کی روش پر قائم رہو تو یہ بڑے حوصلہ کا کام ہے۔ “

صاف صاف بتایا گیا کہ اللہ کا راستہ تکلیفوں سے بھرا ہے۔ لیکن اس راستے پر چلنے والوں کا انجام بہت اچھاہے۔

فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّی لَا أُضِیعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنْكُمْ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى بَعْضُكُمْ مِنْ بَعْضٍ فَالَّذِینَ هَاجَرُوا وَأُخْرِجُوا مِنْ دِیارِهِمْ وَأُوذُوا فِی سَبِیلِی وَقَاتَلُوا وَقُتِلُوا لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَیئَاتِهِمْ وَلَأُدْخِلَنَّهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ثَوَابًا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَاللَّهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الثَّوَابِ [آل عمران:۱۹۵]

” ان کے رب نے ان کی دعا سن لی، فرمایا، ’’میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع کرنے والا نہیں ہوں خواہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہو لہٰذا جن لوگوں نے اپنے وطن چھوڑے اور جو اپنے گھروں سے نکالے گئے اور جو میری راہ میں ستائے گئے اور لڑے اور مارے گئے میں ضرور اُن کی سب خطائیں دور کر دوں گا اور انھیں ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی یہ اُن کی جزا ہے اللہ کے ہاں اور بہترین جزا اللہ ہی کے پاس ہے۔‘‘

أُوذُوا فِی سَبِیلِیکی معنویت

اس آیت میں أُوذُوا فِی سَبِیلِی بہت متاثر کرنے والا جملہ ہے۔

اللہ تعالی کا یہ فرمادینا کہ ’’میرے راستے میں جنھیں ستایا گیا‘‘، جادہ عشق کے مسافروں کا رتبہ بے انتہا بلند کردیتا ہے۔ اتنا بلند کہ تمام فرشتے ان پر رشک کرتے ہوں گے۔

ذرا سوچیں!

اللہ خود یہ کہے کہ فلاں بندہ میری راہ میں تھکن سے چور ہوا ہے۔ میری راہ میں در بہ در مارا مارا پھرا ہے۔ میری راہ میں ستایا گیا ہے۔

فلاں بندے نے میری راہ میں طعنے سنے ہیں، میری راہ میں پتھر کھائے ہیں، میری راہ میں اپنا پسینہ بہایا ہے، میری راہ میں اسے مارا پیٹا گیا ہے، میری راہ میں اسے قید و بند سے گزرنا پڑا ہے، میری راہ میں اسے پھانسی دی گئی ہے۔

یہ ایک بندے کے لیے اس کے رب کی طرف سے کتنا بڑا اعزاز ہے۔

یہ مختصر سا جملہ ہے لیکن بے حد معنی خیز اور پر اثر ہے۔ یہ جملہ اللہ کی راہ میں ستائے جانے والوں کی ساری تکلیفیں بھلادیتا ہے اور انھیں مسرت و سعادت کے جذبات سے معمور کردیتا ہے۔

یہ اللہ تعالی کی طرف سے اعلان ہے کہ جو لوگ اللہ کے راستے میں تکلیفیں اٹھاتے ہیں وہ اللہ کے بہت مقرّب بندے بن جاتے ہیں اور انھیں ستانے والے اللہ کے نزدیک نہایت مبغوض ہوجاتے ہیں۔

اللہ کی نصرت آئے گی

اس سورت کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں نصرت کا بہت زیادہ ذکر ہے۔ ن ص ر سے تشکیل پانے والے متعددالفاظ اس ایک سورت میں آئے ہیں۔

اس سورت میں امت کے حوالے ایک بڑا مشن کیا گیا اور بار بار یہ بتایا گیا کہ اگر امت اپنے راستے پر آگے بڑھتی گئی تو اللہ کی مدد و نصرت کی مستحق ہوگی اور مخالفت کرنے والے چاہے کتنا ہی زور لگالیں وہ کام یاب نہیں ہوں گے کیوں کہ اللہ کی مدد انھیں ملنے والی نہیں ہے۔

اس سورت مختلف پیرایوں میں یہ بتایا گیا کہ نصرت الٰہی سے کون محروم ہوتا ہے اور کون اس کا اہل قرار پاتا ہے۔ باطل پرستوں کو بار بار خبردار کیا گیا ہے کہ ان کو کہیں سے نصرت ملنے والی نہیں ہے۔ وَمَا لَهُمْ مِنْ نَاصِرِینَ کی تعبیر اس سورت میں تین بار آئی ہے اور یہ اس سورت کی خاص بات ہے۔

وَمَا لَهُمْ مِنْ نَاصِرِینَ [آل عمران: ۲۲]، [آل عمران: ۵۶]، [آل عمران:۹۱]

” ان کا کوئی مدد گار نہیں۔ “

اسی طرح کہا گیا:

ثُمَّ لَا ینْصَرُونَ [آل عمران:۱۱۱]

” پھر ان کی مدد نہیں کی جائے گی۔ “

وَمَا لِلظَّالِمِینَ مِنْ أَنْصَارٍ [آل عمران:۱۹۲]

” ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔ “

دوسری طرف اہل ایمان کے دل کی تقویت کاسامان کیا گیا اور اس سورت میں بار بار انھیں نصرت خداوندی کی امید دلائی گئی۔

وَاللَّهُ یؤَیدُ بِنَصْرِهِ مَنْ یشَاءُ [آل عمران:۱۳]

” اللہ جسے چاہتا ہے اپنی نصرت سے تائید عطا کرتا ہے۔ “

وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ الْعَزِیزِ الْحَكِیمِ [آل عمران:۱۲۶]

” نصرت تو بس اللہ کے پاس سے ہے جو زبردست دانا ہے۔ “

وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِینَ [آل عمران:۱۴۷]

” اور ہمیں کافروں پر نصرت عطا کردے۔ “

بَلِ اللَّهُ مَوْلَاكُمْ وَهُوَ خَیرُ النَّاصِرِینَ [آل عمران:۱۵۰]

” بلکہ اللہ تمھارا کارساز ہے اور وہ بہترین مدد گار ہے۔ “

إِنْ ینْصُرْكُمُ اللَّهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ وَإِنْ یخْذُلْكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِی ینْصُرُكُمْ مِنْ بَعْدِهِ وَعَلَى اللَّهِ فَلْیتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [آل عمران:۱۶۰]

” اللہ تمھاری مدد پر ہو تو کوئی طاقت تم پر غالب آنے والی نہیں، اور وہ تمھیں چھوڑ دے، تو اس کے بعد کون ہے جو تمھاری مدد کرسکتا ہو؟ پس جو سچے مومن ہیں ان کو اللہ ہی پر بھروسا رکھنا چاہیے۔ “

نصرت خداوندی پر بھروسا راہِ حق پر چلنے والوں کی سب سے قیمتی متاع ہے۔

اس سورت میں جنگ احد کا ذکر تفصیل سے ہے، اس تفصیلی تذکرے میں یہ بات سب سے زیادہ نمایاں ہے کہ اہل ایمان کو اللہ پر بھروسا کرتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھنا ہے، راستے کی کچھ پریشانیوں سے ہمت نہیں ہارنی ہے،خطرات سے بچنے کے لیے عافیت پسندی کا راستہ ہرگز اختیار نہیں کرنا ہے۔ اللہ کے دین کو انسانوں تک پہنچانے کا کام آسان نہیں ہے۔ اس راہ سے ہٹانے کے لیے مخالفتوں کے طوفان آئیں گے۔خطرات کی آندھیاں چلیں گی۔ لیکن اہل ایمان کوعزم و استقامت کے ساتھ اس راہ پر آگے بڑھتے رہنا ہے۔

مسلسل اجتماعی جدوجہد

سورہ آل عمران کے آخر میں ایک چھوٹی سی آیت میں اہل ایمان کو مخاطب کرکے پوری سورت کے پیغام کا خلاصہ دے دیا گیا۔

یاأَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [آل عمران:۲۰۰]

” اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر سے کام لو، باطل پرستوں کے مقابلہ میں پا مردی دکھاؤ، حق کی خدمت کے لیے کمر بستہ رہو، اور اللہ سے ڈرتے رہو، امید ہے کہ فلاح پاؤ گے۔ “

گویا اس سورت کا اصل پیغام اور خلاصہ یہ ہے کہ اہل ایمان کو اپنا مشن پوری لگن سے انجام دینا چاہیے۔اس راستے میں مصائب کا سامنا ضرور ہوگا اور ہوتا رہے گا، جو صبر کی روش اختیار کرے گا وہی ان مصائب کے باوجود آگے بڑھ سکے گا۔ اس راستے میں ایسے لوگوں سے مقابلہ ہوگا جو باطل پر ڈٹے ہوں گے، ان کے مقابلے میں اور زیادہ قوت کے ساتھ حق پر جمے رہنا لازم ہوگا۔ اہل باطل جس قدر باطل پر ڈٹے ہوئے ہیں، اس سے زیادہ اہل حق کو حق پر ڈٹنا ہوگا۔ یہ راستہ تیاری چاہتا ہے۔ تیار ہونا اور مخالفین کی تیاری سے زیادہ تیاری کرنا۔ ایک دوسرے کی ہمت بڑھانا اور ایک دوسرے کی کم زوری دور کرنا اہل ایمان پر لازم ہے۔ یہی صبر، مصابرت اور مرابطت ہے۔

اپنے مشن کی خاطر صبر، مصابرت اور مرابطت کی روش میں مسلم امت کی سرخ روئی پنہاں ہے۔ مسلم امت میں اٹھنے والی اسلامی تحریکات کے لیے سورہ آل عمران میں وافر اسباق ہیں۔

مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2025

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2025

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2025

شمارہ پڑھیں
Zindagi-e-Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223