سید غلام اکبر: ایک ہر دل عزیز شخصیت

سید غلام اکبر صاحب رحمتہ اللہ علیہ ہر دل عزیز شخصیت کے مالک تھے۔ مختلف بیماریوں کے شکار ہونے کے باوجود اُن کی خوش مزاجی میں آخر وقت تک کوئی فرق واقع نہیں ہوا۔طنز و ظرافت اُن کی شخصیت کا حصہ تھی ۔ذہین آدمی تھے، طنز و ظرافت میں بھی اُن کی ذہانت کی جھلک نمایاں تھی۔ تعلیم اور پیشے کے لحاظ سے میکنیکل اور الکٹریکل انجینئر تھے ۔ حیدرآباد سے انجینئرنگ کی دو ڈگریاں حاصل کر نے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے روس گئے اور اینٹی کروزین انجینئرنگ میں تخصص کیا۔ روس میں تعلیم کے دوران میں روسی زبان کی بول چال میں بھی اتنی مہارت حاصل کر لی کہ اُن کی اس لیاقت کی وجہ سے کلکتے کی ایک بڑی کمپنی میں، جس کے معاملات روس کی ایک کمپنی سے تھے، سید غلام اکبرؒ  کو اچھی ملازمت مل گئی ۔ کلکتے کے قیام کے دوران ہی میں وہ جماعت سے قریب ہوئے۔ یوں تو جماعت سے اُن کی قربت پہلے ہی سے تھی اور اسی وجہ سے دفتر حلقہ مغربی بنگال میں شام کے اوقات میں اکثرجایا کرتے تھے اور اپنے مزاج کے مطابق رفقائ سے ہنسی مذاق کرتے رہتے تھے اوروہاں کے ماحول کوگلزار بنا تے رہتے تھے۔ ایک شام اُن کے قہقہے کی آواز سن کر اُس وقت کے امیر حلقہ جناب عبدالفتاح صاحب مرحوم نے انھیں آواز دی اور فرمایا کہ آپ دفتر میں آکر ہنستے بولتے رہتے ہیں اور میں سنتا رہتا ہوں کہ آپ جماعت کے متعلق بھی اکثر بحث کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ آپ نے جماعت کا قریبی مطالعہ نہیں کیاہے۔ آپ یہاں مکتبے سے جماعت کی رودادیں خرید لیں اور اُن کامطالعہ کرلیں۔ پھر جماعت کے بارے میں بحث و مباحثہ کریں تو اچھا ہے۔ موصوف نے رودادیں حاصل کر لیں اور اُن کا مطالعہ کر ڈالا۔ اُن کے مطالعے اور تحریر و تقریر کی رفتاربہت تیز تھی، جس تیزی سے ان کا ذہن کام کرتا تھا، اُسی تیزی سے اُن کی زبان بھی چلتی تھی اور قدم بھی ویسے ہی تیز اُٹھتے تھے۔ منصوبہ بندی کی رفتار بھی بہت تیز تھی اور کاغذ پر منصوبے اور نقشۂ کار بہت جلد رقم کر ڈالتے تھے۔ روداد کے مطالعے کے بعد ان کا تحریکی رشتہ پختہ شعور کے ساتھ قائم ہو گیا۔

روداد جماعت کی یہ بڑی خصوصیت ہے کہ یہ اپنے قاری کے اندر تحریکی شعور اور اسپرٹ پیدا کر دیتی ہے۔ ا س کے مطالعے کے بغیر تحریکی شعور میں پختگی نہیں آپاتی اور نہ کام کی صحیح اسپرٹ کا رکن کے اندر پیدا ہو پاتی ہے۔ موصوف مرحوم کو مطالعے کا شوق تھا ہر قسم کی کتابیں پڑھتے تھے۔ مختلف علوم و فنون پر جو بھی کتاب ملتی اسے خریدتے بھی اورپڑھتے بھی۔ ان کا ذاتی دارالمطالعہ بھی کئی الماریوں پر مشتمل تھا۔ ایک بڑا کمرہ تو کتابوں کی الماریوں سے ہی بھرا رہتا تھا۔ دینی و تحریکی لٹریچر کا مطالعہ بھی وسیع تھا۔ قرآن کی تفاسیر ، سیرت پر مختلف مصنفین کی کتابیں اور احادیث کی مختلف کتب کا مطالعہ کر رکھا تھا۔ عالمی اسلامی تحریکوں کے لٹریچر جو بھی اردو و انگریزی میں دستیاب تھے بالعموم ان کے مطالعے میںآچکے تھے۔ تقریباً تمام اسلامی تحریکوں کی اہم شخصیات سے بھی ملاقات او رتبادلۂ خیال کا اُنھیں شرف حاصل ہو اتھا۔وہ سامنے والے کومتاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے ۔عام لوگوں اور رفقائ سے لے کر اہم شخصیات اور اعلیٰ حکام تک اُن کی گفتگو سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے تھے۔ علمی موضوعات پر اہل علم اور اہم شخصیات کو بھی اُن سے تبادلۂ خیال کرنے میں خوشی ہوتی تھی اور ایسے لوگ بھی اُن کی بے تکلفی اور ظرافت سے محظوظ ہوتے تھے۔ ان کے روابط ہندستان، پاکستان ،بنگلہ دیش، سری لنکا ، کشمیر ، ایران ، ترکی، سوڈان، ملیشیا، انڈونیشیا، عرب اور مشرق وسطی کے دیگر ممالک ، برطانیہ ، امریکہ ، کنیڈا وغیرہ کے تحریکی افراد و ذمہ داران اور بعض دیگر اہم شخصیات اور بعض ممالک کے سربراہان سے بھی رہے ۔ لوگ ان سے گرچہ جماعتی رشتے سے متعارف ہوتے تھے، لیکن اُنھیں شخصی طور سے بھی یاد رکھتے تھے۔ وہ نوجوانوں اور بچوں میں یکساں طور پر مقبول تھے۔

مرحوم شوگر کے مریض ہونے کے باوجود میٹھے کے بہت شوقین تھے۔ مٹھا ئیوں کا بہت کثرت سے استعمال کرتے تھے اور اس میں بھی اُن کی بلند ذوقی نمایاں تھی۔ عمدہ قسم کی کھجوریں اکثر استعمال میں رہتی تھیں۔ خوب کھاتے بھی تھے اور خوب کھلاتے بھی تھے۔ بلکہ کھانے سے زیادہ کھلانے کا شوق تھا۔ جیب میں ہمیشہ عمدہ قسم کی ٹافیاں بھری رہتی تھیں اور راہ چلتے بچوں پر بھی ان کی عنایتیں ہوتی رہتی تھیں۔ شوگر کے مرض نے ان کے اعضائے رئیسہ کو بھی متاثر کر رکھا تھا۔ قلب و جگر کے ساتھ ساتھ گردہ بھی متاثر ہو گیا تھا۔ سوفی صد Pacemaker پر تھے۔ اس کے باوجود Open heart surgeries  کرانی پڑی تھی اور ایک سے زیادہ Heart attack  کے شکار ہو چکے تھے ۔اُن کا انتقال بھی Heart attack  ہی کی وجہ سے ہوا ۔گرچہ انھیں اسپتال میں گردہ کی ڈایلیسس کے لیے داخل کرنا پڑا تھا لیکن وہاں پہنچ کر اُن پر قلب کا جان لیوا حملہ ہوا اور محض دو دنوں کی موت و حیات کی کشمکش کے بعد موت نے اُن پر فتح پالی۔ موت کے فرشتے اگر ان سے گفتگو کر لیتے تو شاید وہ کسی نہ کسی طرح انھیں اپنی ذہانت ، اپنی مدلل گفتگو اور نہیں تو اپنے مزاج سے ہی متاثر کر لیتے— لیکن یہ فرشتے اُس وقت پہنچے جب وہ بے ہوش پڑے تھے۔ مشیت الٰہی یہی رہی ہوگی کہ لوگ اس بات کو ذہن میں تازہ کر لیں کہ اس کے فیصلے کے سامنے ذہانت ، علم ، دولت ، دلیل ، تعلقات اور مناصب کچھ کام نہیں آتے۔

سید غلام اکبر صاحب کے میٹھے کے ذوق کی بات ادھوری رہ جائے گی اگر اس سلسلے میں اُن کے علم و دریافت کا تذکرہ نہ کیا جائے۔ جن ممالک میں وہ گئے اور ہندستان کے جن شہروں اور مقامات پراُن کا جانا ہوا یا وہاں کے کسی شخص سے ملاقات و تعلقات ہوئے، وہاں کس مقام پر معیاری مٹھائیوں کی دوکان ہے، یہ اُن کے ذہن میں نقش تھا اور کس دوکان کی کون سی مٹھائی ذائقے میں زیادہ بہتر ہے، یہ سب بھی انھیں مستحضر تھا۔ ہندستان اور ہندستان سے باہر جب بھی ان کے ساتھ سفر کا موقع ملا وہ اس مقام پر پہنچتے ہی اپنے رفقاءیا ملاقاتی سے مٹھائی اور ٹافیوں کی فرمایش کرتے اور یہ بھی بتاتے تھے کہ کس دوکان سے کون سی مٹھائی آنی چاہیے۔ عرب ملکوں میں جاتے تو یہ بتاتے کہ کس مقام کے کس دوکان سے کون سی کھجوریں لانی ہیں۔ ایک مرتبہ ان کے پیر کے زخم نے جب خطرناک صورت اختیار کر لی تو ڈاکٹر نے کہاکہ اب شوگر لازماً چھوڑنی پڑے گی۔ ورنہ اگر دوا سے تین چار دنوں میں مزید یہ انفکشن نہ رکا توپیر کاٹنا پڑے گا ۔ وہ اس احساس سے بہت مغموم نظر آئے کہ اپاہج ہو کر زندہ رہنا پڑے گا۔لیکن چند ہی گھنٹوں میں وہ اس احساس سے باہر نکل آئے۔ اور مٹھائی مُنہ میں رکھتے ہوئے خوش مزاجی سے فرمایا کہ پیر کٹنے سے زیادہ غم اس بات کا رہے گا کہ ایک پیر کی خاطر مٹھائی کی نعمت سے محروم ہو گیا اور یہ مجھے منظور نہیں۔ کہتے تھے میٹھے سے توبہ کرنے کے بجائے میٹھاکھا کر توبہ کی جائے تویہ بارگاہ الٰہی میں زیادہ مقبول عمل ہوگا اور جنت میں کھانے کے لیے میٹھا ہی ملے گا۔ اس لیے اس کی پریکٹس نہیں چھوٹنی چاہیے۔ اپنے اس خیال کے حق میں وہ بڑی مدلل اور  پُر لطف گفتگو کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ انھیں جنت میں شہد کی نہروں کے قریب رکھے اور من پسند مٹھائیاںاور پھل عطا فرمائے۔

کلکتے کی ملازمت کے بعد موصوف نے بوکارو اسٹیل پلانٹ میں کئی سال ملازمت کی، جو اُس وقت ریاست بہار میں تھا اوراب جھارکھنڈ میں ہے ۔اس کے بعد سعودی عرب تشریف لے گئے اور ریاض میں انٹر نل منسٹری میں ایک لمبے عرصے تک بحیثیت انجینئر ملازمت کے فرائض انجام دیے۔ یہاں بھی انھوں نے ڈپارٹمنٹ میں اپنا مقام پیدا کیا۔ ساتھ ہی ڈاکٹر محمدعبدالحق انصاری سابق امیر جماعت اسلامی ہند جس زمانے میں ریاض یونیورسٹی میں استاد تھے،مرحوم نے ان کی قیادت میں جماعتی رفقائ کو منظم کرنے میں نمایاں رول ادا کیا اور جب ڈاکٹر صاحب ہندستان واپس آگئے تو سعودی حلقے کی نظامت کی ذمے داری بحسن و خوبی انجام دی ۔

ایک وقت ایسا بھی آیا جب سعودی حکومت کا رُخ جماعت کے لوگوں کے خلاف ہوگیا تو بعض دیگر رفقاءکے ساتھ انھیں بھی گرفتار کر لیا گیا اور قید و بند کے اس مرحلے میں اُن کے رویے اورصاف گوئی سے تعینات افسر بہت متاثر رہا۔ چنانچہ وہ اُن سے برابر معافی طلب کرتا رہا اور حکومت کے احکام کی وجہ سے اپنی مجبوریوں کا اظہار کرتا رہا اور جب حکومت نے انھیں Deport کرنے کا حکم جاری کیا تو اُس نے بہت ہی عزت و احترام کے ساتھ انھیں ہوائی جہاز تک پہنچایا۔

حکومت عربیہ نے ان کی ملازمت کے سارے حقوق سلب کر لیے۔ وہ تقریباً خالی ہاتھ اپنے وطن لوٹے اوریہاں آکر انھوں نے اپنی خدمات مرکز جماعت کو پیش کر دیں۔ گرچہ اُنھیں یہاں کی بعض کمپنیوں نے اچھی تنخواہوں کی پیش کش کی، لیکن انھوں نے اسے قبول نہیں کیااور بہت ہی قلیل معاوضے پرسکریٹری تنظیم اور سکریٹری مالیات مرکز کے فرائض انجام دینے لگے۔

وہ مرکز میں سکریٹری کی ذمے داری پر تقریباً ۱۴/ سال مامور رہے۔ شعبہ تنظیم اور شعبہ مالیات کے استحکام میں انھوں نے غیر معمولی رول ادا کیا۔ اس دوران میں انھوں نے جماعت کی مالیات کے استحکام کے ساتھ ساتھ غریبوں، مسکینوں، بیماروں اور ہر طرح کے ضرور ت مندوں کے مسائل کو حل کرنے میں بھی بڑی فکر مندی کا مظاہرہ کیا۔ جماعت کے معمولی کارکن سے لے کر بڑے سے بڑے ذمے دار سے وہ گہرا ذاتی تعلق رکھتے تھے اور سب کے ذاتی مسائل میں دلچسپی لینا اور اُن کے کام آنا اُن کا معمول تھا۔ ہر شخص ان سے اپنائی کا احساس رکھتا تھا۔ اپنوں سے لے کر غیروں تک ان سے امیدیں وابستہ رکھتے تھے اور کوئی مایوس ہو کر نہیںجاتا تھا۔ اپنی ہی نہیں اپنے بیوی بچوں کی جیب سے بھی ضرور ت مندوں کی مددوہ کثرت کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ لُٹنے اور لٹانے میں اُنھیں مزہ آتا تھا۔ حساب دانی میں اُنھیں بڑی مہارت تھی، لیکن اپنے ذاتی پیسے بے حساب خرچ کرتے تھے ۔ ملک و بیرون ملک کی اونچی تنخواہوں والی ملازمت کے باوجودوہ آخر تک اپنا کوئی مکان بنا سکے اور نہ کوئی قطعہ زمین خریدا ۔ کرائے کے مکان سے ہی جنازہ اٹھا۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون ۔

سید غلام اکبر صاحب ہیومن ویلفیئر ٹرسٹ کے بھی سکریٹری تھے۔ اس ٹرسٹ کے تحت مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرزکے فروغ کی بھی اُنھوں نے کامیاب کوشش کی۔ اس ٹرسٹ کے تحت قائم الشفائ اسپتال کی مینیجنگ کمیٹی کے چیئرمین بنائے گئے اور اسپتال کے قیام میں بھی انھوں نے اچھا رول ادا کیا۔

سیّد غلام اکبر مرحوم کے لباس، وضع قطع اور دسترخوان کا معیار بھی بہت بلند تھا۔ مہمان نوازی کا جذبہ بھی خوب تھا ۔ حیدرآباد میں رہتے اور کوئی وہاں پہنچتا اور جب وہ دہلی آتے اور کوئی یہاں آتا تو اس کی مہمان نوازی ضرور کرتے۔ دسترخوان بڑا پر تکلف ہوتا تھا۔ ہم لوگ جب جماعت کے کام سے حیدرآباد جاتے اور ان کی شدید بیماری کی حالت میں ان کی عیادت کے لیے جاتے تو اُس وقت بھی بہ اصرار ایک وقت کے کھانے کی دعوت دیتے اور اس حالت میں بھی جب کہ ان کے لیے بیٹھنا مشکل ہوتا خود بیٹھ کر پر تکلف کھانا کھلانے سے باز نہیں آتے تھے ۔ اُن کے اصرار کے سامنے سب کو مجبور ہونا پڑتا تھا۔

اپنے ذاتی حالات اور معاملات و مسائل میں وہ بالکل بے فکر رہتے تھے۔ لیکن جماعت کے معاملات و مسائل کی فکر ہمیشہ دامن گیر رہتی تھی۔ بارہا جماعتی احوال پر گفتگو کرتے وقت انھیںآب دیدہ ہوتے دیکھا ہے ۔ذاتی معاملے میں اُنھیں صرف اُس وقت پریشان اور فکر مند دیکھا جب ڈاکٹر نے اُن کی اہلیہ محترمہ کو کینسر کے مرض کی تشخیص کی ،لیکن اس فکر مندی پر بھی انھوں نے جلد قابو پا لیا اور اُن کے علاج پر خصوصی توجہ دے کر الحمدللہ اُنھیں اس موذی مرض سے نجات دلائی۔ اُن کی بیوی بھی اُن کی بہترین رفیقہ حیات ثابت ہوئیں۔ بہت ہی خاموش طبع، خوش اخلاق اورہر حال میں شوہر کا ساتھ دینے والی۔ وہ بہت بڑے گھرانے سے آئی تھیں، محل نما مکان سے شوہر کے کرائے کے معمولی مکان میں آئیں اور پوری زندگی اسی حال میں گزار دی ۔ بچے بھی ما شائ اللہ دونوں شاکر او رناصر اسم بامسمیٰ اور سعادت مند نکلے۔ تینوں بچیاں اور داماد بھی اُن سے بڑے بے تکلف اور اُن سے خوب پیار کرنے والے ملے ۔وہ بھی بیٹی داماد، پوتے پوتی، نواسی نواسے سب سے بہت بے تکلف رہتے تھے۔ ان سب سے اسی طرح ہنسی مذاق کرتے، جیسے بے تکلف دوستوں سے کرتے تھے۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ۔ خلوت و جلوت ہر جگہ وہ باغ و بہار رہتے اور ماحول کو گلزار بنائے رہتے ۔ یقینا اُن کی یاد بہت دنوں تک ستاتی رہے گی۔ انھیں بھولنا تو ممکن ہی نہیں ہے۔

انسان کی خوبیاں اور خامیاں یا تو معاملات میں نمایاں ہوتی ہیں یا ہم سفری میں۔ معاملات کے تو الحمد للہ وہ صاف تھے ہی کبھی کسی سے اُن پر کسی معاملے میں کوئی دعویٰ تو درکنار ہ شکوہ بھی کرتے نہیں سنا گیا۔ کئی اسفار میں اُن کا ساتھ ہوا۔ ملک و بیرون ملک ہر جگہ سفر کے بہترین ساتھی ثابت ہوئے ۔ ہر وقت اپنے سفر کے ساتھی کا خیال اپنی ذات سے کہیں زیادہ رکھتے تھے۔

اُن کے تعلقات اصحاب خیر سے خصوصاً بیرون ملک میں اچھے خاصے ہو گئے تھے۔ لیکن کبھی کسی سے کوئی ذاتی منفعت حاصل نہیں کی ۔ تحائف قبول کرنے میں بھی محتاط رہتے تھے ۔ جماعتی وقار کا ہمیشہ خیال رہتا تھا۔ جماعت کی خاطر بھی کبھی کسی کے سامنے مُنہ نہیں کھولتے تھے۔ صرف جماعت کا تعارف ایسے احسن انداز میں کراتے کہ لوگ پیش کش کے لیے تیار ہو جاتے تھے۔لیکن ان کی طرف سے استغنائ کا مظاہرہ ہوتا تھا۔ جس کی وجہ سے لوگ اُن کا بہت احترام کرتے تھے۔

کویت کی معروف صاحب خیر شخصیت شیخ عبداللہ علی المطوع مرحوم کو اُن کا غیر معمولی عقیدت مند پایا۔ لوگ ہیتہ الخیریہ کی میٹنگ میں شیخ مطوع سے ملنے کے لیے کوشاں تھے اور شیخ مطوع میٹنگ سے فارغ ہو کر شیخ اکبر شیخ اکبر پکارتے ہوئے سید غلام اکبر صاحب کے پیچھے دوڑتے نظر آئے۔شیخ مطوع کے انتقال کے بعد اُن کے صاحبزادے کا فون آیا کہ اُن کے والد نے اپنی ڈائری میں یہ لکھا ہے کہ خیر کے کاموں میں امداد کے سلسلہ میں جو نام اُن کی ڈائری میں نہ ملیں ان افراد یا اداروں کو کیا اور کتنا تعاون کیا جائے اس کے لیے مشورے میں سید غلام اکبر صاحب سے بھی رجوع کرو۔ چنانچہ بہ ا صرار اُنھیں کویت بلایا اور اُن سے مشورے کیے۔

سید غلام اکبر صاحب بہت ہی خو ش خط اور خوش کلام تھے۔ بڑی موثر تقاریر کرتے تھے ۔ تقریر پوری تیاری کے ساتھ کرتے تھے۔ ضروری نوٹ سامنے رکھتے تھے۔ تقریر میں دلائل اور جذبات دونوں کا حسین امتزاج ہوتا تھا۔ تربیتی تقریر میں اکثر اُن پر رقت طاری ہو جاتی تھی اور سامعین بھی آبدیدہ ہو جاتے تھے۔ گجرات کے فساد کے بعد جب ہم لوگوںکا امریکہ کا سفر ہوا تو ہم جہاں کہیں بھی گئے اُن کی تقریر خواہ اُردو میں ہو یا انگریزی میں، یکساں طور پر سامعین ان سے متاثر ہوتے تھے اور اُن کی پیش کش کے انداز سے اس قدر متاثر ہوتے تھے کہ بغیر کسی اپیل کے بڑھ بڑھ کر ریلیف کے لیے رقمیں پیش کرتے تھے۔

حفظ مراتب کا بڑا خیال رکھتے تھے ۔ عمر میں بہت بڑے ہونے کے باوجود اس قدر احترام اور محبت سے پیش آتے تھے کہ شرمندگی ہوتی تھی۔ منع کرنے کے باوجود اُن کی وضع داری اور انکسار میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ جب انسان زیادہ قریب ہوتا ہے اور بے تکلفی بڑھ جاتی ہے تو انسان کے کمزور پہلو بھی سامنے آتے ہیں۔ انسان خطا و نسیان کا پتلا ہے۔ جب اُن کی کسی کمزوری کی نشاندہی کی جاتی تو بڑی خندہ پیشانی سے اُس کا اعتراف کرتے اور کھلے دل سے اظہار معذرت کرتے۔ اُن کی یہ ادا بہت پسند آتی تھی۔ یقینا ہماری طرح اُن کے اندر بھی کمزوریاں تھیں، لیکن میرا خیال ہے کہ ایمان داری سے اگر جائزہ لیاجائے تو اُن کی کمزوریوں پر اُن کی خوبیاں بہت بھاری تھیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کی کمزوریوں سے درگزر فرمائے اور بھلائیوں کا پلڑا بھاری رکھے۔ اپنے سایہ رحمت میں جگہ دے۔اعلیٰ علیین اور جنت الفردوس میں مقام عطا فرمائے ۔جس وقت نماز جنازہ ہو رہی تھی اُن کی میت ایک درخت کے سایہ میں رکھی تھی اور درخت پر چڑیاں چہچہا رہی تھیں بار بار خیال آرہا تھا اللہ تعالیٰ نے گویاانھیں بھی موصوف کے حق میں تسبیح و مناجات کی ہدایت فرمادی ہے۔ نماز جنازہ اُن کے بڑے لڑکے حافظ محی الدین شاکر سلمہ، نے پڑھائی جو انجینئر بھی ہیں اور حافظ قرآن بھی۔ موصوف کے دونوں ہی بیٹے رکن جماعت ہیں۔ موصوف گرچہ دنیا سے خالی ہاتھ گئے لیکن سرمایہ آخرت صالح اولاد کی شکل میںچھوڑ گئے ہیں ا ن شائ اللہ یہ صدقہ جاریہ ثابت ہوں گے اور اُن کے درجات کی بلندی کا ذریعہ بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسا ہی خوش نصیب بنائے۔ ﴿آمین﴾

مشمولہ: شمارہ جولائی 2012

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223