مُدلیار کمیشن نے بھی مذہب کی تعلیم کو جائز قرار دیا تھا
ہمارے اس سلسلۂ مضامین کے متعلق بعض قارئین کی رائے یہ ہے کہ : اخلاق کی تعلیم کے خاکے کی تدوین میں یہ بحث یا مطالعہ کتنا معاون ثابت ہوگا۔ اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ ہم اخلاق کی تعلیم، تعلیم گاہوں میں کیسے دی جائے، اس کا ایک نظام ترتیب دینا چاہتے ہیں۔ ظاہری بات ہے کہ اس نظام پر عمل اسکولوں میں ہوگا۔ یہ اور بات ہے کہ اس مجوزہ سسٹم کو سماج اور طلبا کے گھروں سے بھی تعاون ملنا چاہیے۔ اسکول ایک قانونی طور پر تسلیم شدہ ادارہ ہوتا ہے۔ اسکولوں کی نگرانی ریاستی بورڈ یا مرکزی حکومت کے تحت قائم بورڈ کرتے ہیں۔ ریاستی ہو کہ مرکزی بورڈ، وہ اسکولوں میں ہونے والی سرگرمیوں کی نگرانی کرتے ہیں۔ جو سرگرمیاں حکومت کی تعلیمی پالیسی کے مغائر ہوتی ہیں ان پر ضروری اقدامات کرنے کا انھیں حق حاصل رہتا ہے اور جن پروگراموں کا ذکر حکومت کی منظور شدہ تعلیمی پالیسی اور دیگر تعلیم سے متعلق دستاویزات میں ہوتا ہے انھیں اسکولوں میں جاری کرنے کے وہ بورڈمجاز ہوتے ہیں۔ اخلاق کی تعلیم سے متعلق حکومت کی جو بھی پالیسی اور پروگرام ہوتا ہے اس کا لازماً اثر اسکولوں میں دی جانے والی اخلاق کی تعلیم پر پڑتا ہے۔
دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ رفتہ رفتہ دنیا بھر میں حکومتیں بعض شعبوں کی نگرانی کڑی کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے ہی شعبوں میں ایک تعلیم کا شعبہ بھی ہے۔ نسلیں تعلیم گاہوں میں پروان چڑھتی ہیں۔ کسی بھی قوم کی فکر، سوچ، سماجی رویہ اور سیاسی نظریے کا انتخاب محض فزکس، کیمسٹری، بائیولوجی، ریاضی یا دیگر سائنسی مضامین کی تعلیم پر منحصر نہیں ہوتے بلکہ اسکولوں میں پڑھائے جانے والے سماجی علوم کے مضامین اور اخلاق کی تعلیم کی بنیادیں افکار کی تشکیل کرتےہیں۔ فکر، اخلاق اور رویوں کی ترتیب میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی پالیسیوں کا جائزہ لیں، پالیسیاں اجتماعی جد و جہد کا خاکہ پیش کرتی ہیں۔ موجودہ تعلیم یافتہ نسل کا ایک سرسری جائزہ بڑی تشویش ناک صورت حال پیش کرتا ہے۔
ملک سے خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ ہم ملک کےسامنے پیش کریں کہ تعلیم کے میدان میں ہم کہاں کم زور رہے اور کہاں ہم نے ٹھوکریں کھائیں۔ ٹھوکر کھا کر ہمیں کیا اصلاحی اقدامات کرنا چاہئیں۔ ایسا اس لیےبھی کرنا ہے کہ ہم ایک داعی گروہ ہیں۔
ابھی تک ہم نے ایک کمیٹی اور ایک کمیشن کا اخلاق اور مذہب کی تعلیم کے حوالے سے جائزہ لیا ہے۔ اس قسط میں ہائیر سیکنڈری کی تعلیم کے جائزے کے لیے قائم کیے گئے مُد لیار کمیشن کا تعارف پیش کر رہے ہیں۔
سیکنڈری ایجوکیشن کمیشن
اس کمیشن کو بھارت کی وزارتِ تعلیم نے اکتوبر ۱۹۵۲ کو قائم کیا تھا۔ اس وقت مولانا ابوالکلام آزاد وزیر تعلیم تھے چناں چہ کمیشن کے افتتاحی اجلاس میں مولانا نے خطاب فرمایا تھا۔ لیکن رپورٹ میں مولانا کے خطبہ کے نکات درج نہیں کیے گئے ہیں۔ ہم نے پہلے بھی لکھا ہے کہ مولانا آزاد بحیثیت وزیر تعلیم، اس عنوان پر تحقیق ہونی چاہیے۔
چوں کہ اس کمیشن کی قیادت ڈاکٹر لکشمن سوامی مُدلیار، وائس چانسلرمدراس یونیورسٹی فرما رہے تھے اس لیے اس کمیشن کو مُدلیارکمیشن بھی کہا جاتا ہے۔
کمیشن نے اپنی رپورٹ ایک سال سے بھی کم عرصے میں تیار کرکے جون ۱۹۵۳میں وزارت تعلیم کو سونپی۔ ۲۷۶ صفحات پر مشتمل یہ دستاویز اس دور کے تعلیمی منظرنامے کو بھی پیش کرتی ہے اور یہ بھی بتاتی ہے کہ اس دور کے ماہرین تعلیم اور پالیسی تدوین کرنے والے نفوذ بھارت کے مستقبل کو کس طرح دیکھتے تھے۔
اس رپورٹ کے صفحہ ۹۷سے صفحہ ۱۰۷تک یعنی ۱۰صفحات پر ‘‘The Education of Character’’کا باب پھیلا ہوا ہے۔ اس باب کو مزید ذیلی عناوین میں تقسیم کیا گیا ہے، جن میں سے چند اہم کا خلاصہ ہم یہاں پیش کر رہے ہیں۔
بنیادی اصول (The Basic Principle)
اس ذیلی عنوان کے تحت کمیشن نے تعلیم کے مقاصد، آزاد بھارت میں تعلیم کا نظریہ، ملک کی تعمیر میں تعلیم کا کردار، سماج کی تشکیل میں تعلیم اور طلبا کا کردار، ان موضوعات پر مختصر اور جامع تاثرات کو کمیشن نے پیش کیاہے۔ ایک پیرا گراف میں کمیشن کے تعلیم کے مقصد کو بیان کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہے:
The supreme end of the education process should be the training of the character and personality of students…
تعلیمی عمل کا اعلیٰ ترین مقصد اخلاق کی تربیت اور طلبا کی شخصیت سازی ہونی چاہیے۔
کمیشن مزید کہتا ہے کہ تعلیم کے میدان میں صرف امتحانات میں کام یابی پر توجہ دی جاتی رہی ہے۔ اس لیے اخلاق کی تعلیم متاثر رہی۔ کمیشن کا یہ مشاہدہ جو اس نے 1953ءمیں پیش کیا تھا آج بھی حقیقت ہے۔ کمیشن کا یہ ماننا تھا کہ شخصیت سازی پر جو بنیادی توجہ ہونی چاہیے تھی وہ نہیں ہوسکی اس لیے طلبا میں سماجی صلاحیتوں کی کمی محسوس ہوتی ہے۔
اسکول اور معاشرے میں باہمی تعاون کی ضرورت
اسکول وسیع تر سماج کا ایک نمائندہ ہوتا ہے۔ معاشرے کا اثر اسکول پر اور اسکول کے ذریعے معاشرے کی اصلاح ایک امر واقعی ہے۔ لہٰذا ان دونوں کے درمیان باہمی ربط و تعلق ہونا چاہیے۔ جن اصولوں اور اخلاق کی تعلیم اسکولوں میں دی جاتی ہے۔ اس پر عمل کے لیے سازگار ماحول معاشرے کو فراہم کرنا چاہیے۔ اسکول معاشرے سے علاحدہ کوئی یونٹ نہیں ہے بلکہ یہ دونوں آپس میں طلبا کی شخصیت سازی کے لیے معاون و مددگار ہوں۔
موجودہ زمانے میں Connect schools with community (معاشرے سے اسکول کا ربط) تعلیم کا ایک اہم حصہ بن گیا ہے۔ اسکول کے اثرات معاشرے پر مرتب ہونا چاہیے۔ اور اسی طرح اسکولوں کو معاشرے سے استفادہ کرنا چاہیے تاکہ طلبا بہترین سماجی رویوں کو اپنی شخصیت میں جذب کرسکیں۔
اس نظریے پر مُدلیار کمیشن نے ۱۹۵۳میں اپنے احساسات قلم بند کیے تھے۔ نصف صدی سے زیادہ وقت گزر جانے کے باوجود اسکولوں اور مدارس کا ان کے قریبی معاشرتی ماحول پر یا سماج پر وہ مطلوبہ اثرات نظر نہیں آتے جن کی آرزو کی گئی تھی۔
اسکول کے اثرات سماج پر، اس کی ایک دل چسپ مثال یورپی ملک آئس لینڈ (Ice Land)میں سامنے آئی۔ کہا جاتا ہے کہ آئس لینڈ وہ ملک ہے جہاں ماحولیات کے تحفظ کا خیال بہت رکھا جاتا ہے۔ اسکولوں میں بھی اس سے متعلق خوب سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ وہاں کے طلبا کے ایک گروہ نے اس بات پر غور کیا کہ ٹوتھ پیسٹ، کارڈ بورڈ کے چھوٹے ڈبوں میں پیک کیا جاتا ہے۔ انھیں بغیر ڈبوں کے بھی فروخت کیا جاسکتا ہے۔ طلبا نے حساب لگایا کہ ان کے ملک میں ماہانہ اوسطاً کتنی تعداد میں ٹوتھ پیسٹ فروخت ہوتے ہیں۔ اتنی تعداد کے کارڈ بورڈ بنانے میں کتنی لکڑی کا استعمال ہوگا۔ اتنی لکڑی کے حصول کے لیے کتنے درخت کاٹنے ہوں گے۔ اس حساب کتاب کو انھوں نے معروضی انداز میں حکومت کے سامنے پیش کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ٹوتھ پیسٹ کے کارڈ بورڈ سے بننے والے ڈبوں پر پابندی عائد کرے۔
اسکول کو سماج سے جوڑنے کی یہ ایک نفیس مثال ہم نے پیش کی ہے۔
ہمارےمعاشرے میں اسکولوں اور مدارس کو سماج سے جوڑنے کی بہت کم مثالیں ملتی ہیں۔ گذشتہ دنوں ملک کے ایک اہم شہر کے ایک علاقہ میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا واقعہ پیش آیا۔ اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے ہمارے ایک دوست نے کہا کہ ‘‘اس علاقہ میں ریاست کا ایک اہم مدرسہ واقع ہے۔ لیکن اس مدرسہ کے اطراف جو سماج واقع ہے اس میں کوئی خاطرخواہ تبدیلی دیکھنے میں نہیں ملتی۔’’ ان کے اس تبصرے کی روشنی میں ہم جائزہ لے سکتے ہیں کہ ملت کے اسکولوں اور مدارس کے اطراف میں آباد محلوں اور بستیوں کا کیا حال ہے۔ کیا اسکول اور مدارس اپنے اطراف میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کی کوشش کرتے ہیں؟ اور اس میں کتنی کام یابی حاصل ہورہی ہے۔
ملت کے تعلیمی ادارے اگر خود کو سماج سے جوڑتے تو شاید صورت حال کچھ اور ہی ہوتی۔ بنگلور کے ملی جلی آبادی والے علاقہ میں ملت کا ایک اسکول قائم ہے۔ اس اسکول نے اپنے آپ کو سماج سے جوڑنے کی کاوش کی تھی۔ اس کے بہترین نتائج برآمد ہوئے ۔ اسکول نے عیدالفطر کے موقع پر اپنے طلبا کے ذریعے اسکول کے اطراف میں آباد غیرمسلموں میں شیر خرما اور اس کے ساتھ عید کے متعلق مختصر لٹریچر تقسیم کیا تھا۔
ملت اپنے اداروں کو سماج سے جوڑے تو امید ہے کہ اس سے بہتراثرات مرتب ہوں گے۔
مُدلیار کمیشن نے اس عمل کو جاری کرنے پر زور دیا تھا۔ ویسے اب تک کی تمام تعلیمی پالیسیوں میں اس کا تذکرہ ملتا ہے۔ لیکن عمل صفر کے آس پاس ہی ہورہا ہے۔
اسی ذیلی عنوان کے تحت مُدلیار کمیشن کی تجویز تھی کہ ‘‘نیشنل کیرکٹر’’ (National Character)اور‘‘ نیشنل ٹریڈیشن ’’(National Tradition)وضع کیے جائیں۔
یہاں نیشنل کیریکٹر کی وضاحت نہیں کی گئی۔ نیشنل کیریکٹر کا مطلب نیشنلزم نہیں ہونا چاہیے۔ قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ نیشنلزم کی بات کرتی ہے۔ نیشنل کیریکٹر سے نیشنلزم کا سفر تعلیمی میدان میں ہندوتو کی سوار پر بیٹھ کر طے کیا گیا ہے۔ اس بحث کو کہ طلبا کی اخلاقی تربیت میں قومی اخلاق کی ضرورت ہے یا قومیت سے بھرپور اخلاق کی؟ ماہرین تعلیم کے درمیان جاری کرنا چاہیے۔
مُدلیار کمیشن نے اخلاقی تعلیم کے لیے جامع نقطہ نظر (holistic approach) کے انداز کو تجویز کیا تھا۔ اسی تصور کو قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰بھی پیش کرتی ہے۔ جب کہ ۲۰۲۰ کی پالیسی کو تدوین کرنے والوں نے اسے پالیسی کا خاصہ ظاہر کیا تھا۔ اس جامعیت کے پروگرام کی وضاحت کرتے ہوئے مُدلیار کمیشن کا کہنا تھا کہ اسکول میں ہونے والی نصابی، ہم نصابی اور کھیل کود جیسی تمام سرگرمیوں میں اخلاقی تعلیم کا عنصر شامل ہو۔ مُدلیار کمیشن کا یہ ماننا تھا کہ ملک کی تعمیر میں طلبا کے اندر اجتماعی جدوجہد کے لیے اعلیٰ کردار سے متصف ہونے کی تربیت دی جانی چاہیے۔
کمیشن اخلاق کی تعلیم کے علیحدہ مضمون سے مطمئن نہیں تھا۔ وہ اس بات کی وکالت کرتا ہے کہ اخلاق کی تعلیم ہر مضمون کا جزوِ لاینفک ہونا چاہیے بالخصوص سماجی تعلیم کی پڑھائی کا بنیادی مقصد ہی طلبا کو ایک بہترین شہری بنانا ہو۔ اسکول میں بچوں کے انفرادی اور اجتماعی رویے اخلاقی تعلیم کے غماز ہوں۔
اساتذہ کا کردار
ہر کمیشن نے اخلاق کی تعلیم میں اساتذہ کے کردار کو بنیادی قرار دیا ہے۔ انھیں محض معلومات کی منتقلی کا ایجنٹ بنانے کے بجائے رول ماڈل اور مربی قرار دیا گیا ہے۔ اکثر جائزوں نے اس بات پر تاسف کا اظہار کیا ہے کہ ٹیچر س اپنا مطلوبہ کردار انجام نہیں دے رہے ہیں۔ مُدلیار کمیشن کی رپورٹ بھی اس تاثر سے علیحدہ نہیں ہے۔ اس کمیشن نے بھی ٹیچروں کو ان کا بھولا سبق یاد دلانے کی بات کہی ہے۔
مذہب اور اخلاق کی تعلیم
کمیشن کی رپورٹ کے صفحہ ۱۰۵پر اس ذیلی عنوان کے تحت کمیشن نے اپنے خیالات کو پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اخلاقی تعلیم کی بنیادیں مذہبی تعلیم سے جڑی ہوتی ہیں۔ کمیشن نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ ہمارے حکومتی نظام میں مذہب کا عمل دخل نہیں ہے تاہم بہترین شہری بنانے کےلیے مذہبی تعلیمات ہی موثر ذریعہ ہیں۔ مذہبی تعلیم کے حوالے سے کمیشن نے نہ تو ‘‘سرو دھرم سمبھاو ’’ کی بات کہی ہے اور نہ ہی قدیم ہندوستانی رسم و رواج کی، بلکہ کمیشن نے واضح طور پر کہا ہے کہ طلبا کو ان کے اپنے مذہب کی تعلیم دی جانی چاہیے۔ بالخصوص مذاہب کے اخلاقی نظام کو پڑھانا اور طلبا کے اندر جذب کرنا ضروری ہے۔ اس نظام کے لیے کمیشن نے کہا کہ مذہب کی تعلیم کا انتظام اسکول کے نظام الاوقات سے علیحدہ ہو اور صرف ان طلبا کو اس کی تعلیم دی جائے جو اس میں دل چسپی رکھتے ہوں۔ مذہب کی تعلیم کے انتظام کے لیے مقامی مذہبی شخصیات، مذہبی جماعتوں اور اداروں سے تعاون حاصل کیا جاسکتا ہے۔
اس گنجائش پر عمل کرتے ہوئے کرناٹک میں جب پہلی بار بی جے پی کی حکومت قائم ہوئی تو ۲۰۰۸ میں ہائی اسکولوں کے لیے حکومت کی جانب سے سرکلر جاری ہوا تھا کہ اسکولی اوقات کے بعد طلبا کو گیتا کی تعلیم دی جائے گی۔
ریاستی حکومتوں سے گفتگو کرکے اس طرح کی گنجائش اسلامی تعلیمات کے لیے بھی نکالی جاسکتی ہے۔ پالیسیوں اور حکومت کے فیصلوں کا علم نہ ہونے کی بنا پر بعض مقامات پر اقلیتی ادارے اپنے اسکولوں میں مذہبی تعلیم کے انتظام سے قاصر ہیں۔
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2021