دہشت گردی آج دنیا کے ہر خطے میں اور ہر قوم میں کسی نہ کسی شکل میں فروغ پا رہی ہے۔ دہشت گرد انسانی سماج کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ دہشت گردوں کا تعلق تو کسی نہ کسی مذہب سے ہو سکتا ہے لیکن دہشت گردی کا فی نفسہ کوئی مذہب نہیں ہوتا کیوں کہ دہشت گردی اپنی فطرت میں ایک مذہب مخالف رویہ ہے۔ اس کا مقصد سماج میں خوف اور بدامنی کی فضا پیدا کرنا اور انسانوں کے درمیان محبت اور ہمدردی کے رشتوں کو کاٹنا ہے جو سراسر ایک مذہب مخالف رویہ ہے۔ خاص طور پر اسلام کے حوالے سے دہشت گردی کے جواز کی سرے سے کوئی بنیاد ہی نہیں بنتی۔ اس پہلو سے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کچھ بنیادی نکتے قابل غور ہیں۔
مذہب اور فرد
دہشت گردی کے حوالے سے کبھی کبھی یہ غلط فہمی بھی پیدا کی جاتی ہے کہ یہ اسلامی تحریکوں کے نظریاتی بیانیے سے غذا پاتی ہے۔ اور چوں کہ مذہبی جذبات کو برانگیختہ کرکے بعض دہشت گرد گروہ اسلام کے سیاسی نظریہ کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہتے ہیں اس لیے اسلامی تحریکوں کو مورد الزام ٹھہرانا معقول ہے۔ مغالطے کا پہلو یہ ہے کہ اسلامی تحریکوں کے اسلام پر مبنی سیاسی نظریے اور دہشت گردی کے لیے اسلام کے سیاسی استعمال میں فرق کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ حالاں کہ اس استدلال سے زیادہ نامعقول بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ جو تحریک لوگوں میں اعتدال و توازن پیدا کرنے اور پرامن طریقے سے اجتماعی زندگی میں تبدیلی لانے کا ذہن بناتی ہے اور اسی بنا پر بسا اوقات شدت پسندوں کا ہدف بنتی ہے اسے ہی کھینچ تان کر دہشت گردی سے جوڑ دیا جائے۔
سرسری تجزیہ بھی کیا جائے تو اس استدلال کی کوئی حقیقی بنیاد نہیں ہے۔ اگر یہ طرز استدلال اپنالیا جائے تو انصاف، آزادی اور مساوات جیسی اعلی قدروں پر مبنی بیانیوں کو بھی دہشت گردی سے جوڑا جا سکتا ہے کیوں کہ دہشت گرد گروہ انھیں بھی اپنی سرگرمیوں کے جواز میں استعمال کرتے رہتے ہیں۔
سب سے پہلے ہمیں مذہب کے بنیادی مقصد پر غور کرنا چاہیے۔ مذہب بنیادی طور پر آدمی کے اندر روحانی، اخلاقی اور سماجی پہلوؤں سے پاکیزگی، بلندی اور تعاون کو پروان چڑھانا چاہتا ہے۔ اسی لیے مذہب آدمی کے اندر موجود خوبیوں کو نشو و نما دینے اور اس کے اندر موجود خرابیوں پر قابو پانے کی طرف متوجہ کرتا ہے جسے ہم تزکیہ نفس یا self-purification کہتے ہیں۔ قرآن میں اسی بات کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی ٰنے فرمایا: قد افلح من زکّٰہا و قد خاب من دسّٰہا (کام یاب ہوا وہ جس نے اپنے نفس کو پاک کیا اور ناکام ہوا وہ جس نے اپنے نفس کو برباد کیا)۔ اس سے ظاہر ہوا کہ مذہب آدمی کو انسان بنانے کا نام ہے۔ اور اس کے لیے مذہب آدمی کو خدا سے جوڑنے، اس کے اندر جواب دہی کا احساس پیدا کرنے اور اس کے اخلاق و کردار کو سنوارنے کی کوشش کرتا ہے۔ اب یہ ہر آدمی کی اپنی آزاد مرضی پر منحصر ہے کہ وہ اپنی زندگی میں مذہب کا کتنا اثر لیتا ہے کیوں کہ مذہب زور زبردستی کے بغیر آدمی کو از خود بدلنے پر ابھارتا ہے۔
سماج اور فرد
دوسری بات جو سمجھنے کی ہے وہ ہے سماج کی حقیقت۔ یہ بات تو طے ہے کہ آدمی سماج کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ ہر آدمی اپنی پیدائش سے موت تک دوسروں کے ساتھ مختلف رشتوں سے بندھا ہوا ہے۔ دراصل سماج نام ہی انسانی رشتوں کی مختلف جہات کا ہے۔ سماج کی اصل بنیاد محبت، تعاون اور عدل ہے۔ مذہب ان بنیادوں کو مضبوط کرتا اور سماجی رشتوں میں ترتیب اور توازن پیدا کرتا ہے۔ اگر یہ قدریں کم زور پڑتی ہیں تو سماج میں ناہمواری، زیادتی اور بےچینی جنم لینے لگتی ہے جو آدمی کو بگاڑ کی طرف لے جاتی ہے۔ اسی لیے ہر آدمی سماج میں پیدا ہونے والے بگاڑ کو دور کرنے کی فطری خواہش رکھتا ہے، کوئی زیادہ کوئی کم، کوئی سرگرمی سے، کوئی سست روی سے۔ سماجی ناہمواریوں کا رد عمل مختلف افراد اور گروہوں کی طرف سے مختلف ہو سکتا ہے۔ یہ رد عمل پرامن بھی ہو سکتا ہے اور پرتشدد بھی۔ ان دونوں رویوں کا انحصار بہت سارے عوامل اور حالات پر ہے۔
دہشت گردی اور فرد
اب ہم دہشت گردی کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ بظاہر دہشت گردی اور جنگ ایک دوسرے سے ملتے جلتے رویے کا نام ہے۔ لیکن ان دونوں میں بنیادی فرق ہے۔ جنگ قانونی اصولوں کے تحت مسلح کارروائی کا نام ہے اور اس کا اعلان ایک منظم ریاست کی اجازت پر منحصر ہے اور قانونی طور پر اس کا بنیادی ہدف مقابل فوج ہوتی ہے۔ جب کہ دہشت گردی قانون سے ماورا فرد یا گروہ کی مسلح کارروائی کا نام ہے اور اس کا ہدف اکثر و بیشتر عوام الناس بنتے ہیں کیوں کہ دہشت کا ماحول پیدا کرنے کے لیے یہی سافٹ ٹارگٹ ہوتے ہیں۔ دہشت گردی کسی قانونی، اخلاقی یا مذہبی ہدایت کی پابند نہیں ہوتی۔ جو افراد دہشت گردی کی راہ اختیار کرتے ہیں ان کے پیچھے بنیادی طور پر دو طرح کے محرکات ہوتے ہیں: (۱) گم راہ کن جوش و جذبہ (Perverted Inspiration)، (۲) انتقام پسندانہ مایوسی و برہمی (Revengeful Frustration)۔ دونوں طرح کے محرکات کی کبھی حقیقی اور کبھی خیالی وجوہات ہو تی ہیں۔ گم راہ کن جذباتیت یا منتقمانہ مایوسی کی راہ پر جانے سے روکنے کے لیے مذہب، سماج اور ریاست اپنے اپنے انداز سے کام کرتے ہیں۔
مذہب اور دہشت گردی
اصولی طور پر یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ کوئی بھی مذہب دہشت گردی کی نہ تو تائید کرتا ہے، نہ حوصلہ افزائی کرتا ہے اور نہ ہی اس پر خاموشی اختیار کرتا ہے۔ مذہب ہر شخص کی جان، مال، عزت، آبرو اور حقوق کو محترم قرار دیتا ہے۔ مذہب کسی بھی شخص پر جبر اور ظلم کو گوارا نہیں کرتا۔ قرآن تو خدا اور مذہب کا انکار کرنے والوں کو بھی جبر کے ذریعے منوانے کا مخالف ہے اور ہر شخص کے سامنے خدا، رسول، آخرت اور اخلاقی تعلیمات پیش کرکے آزادی دیتا ہے کہ وہ جو راہ اختیار کرنا چاہیں کریں (لا اکراہ فی الدین) اور اپنے عقیدہ و عمل کا نتیجہ ہر شخص خود حاصل کرے۔ نہ تو اس کے اچھے عمل کا انعام کسی دوسرے کو ملے گا اور نہ ہی اس کے برے عمل کا بوجھ دوسرے کو اٹھانا پڑے گا۔ اسی لیے مذہب ہر شخص کو اچھی فکر اور اچھا عمل اختیار کرنے اور بری فکر اور برے عمل سے بچنے کی تلقین کرتا ہے اور بس۔ اب ہر شخص آزاد ہے وہ جو راستہ چاہے اختیارکرے۔
دوسری اہم حقیقت یہ بھی ہے کہ خواہ مذہب لوگوں کو غلط راستہ اختیار کرنے سے منع کرے لیکن لوگ مذہب کے ہی نام پر غلط راستہ اختیار کر سکتے ہیں۔ اس خرابی کی دو وجہیں ہوسکتی ہیں: (۱) لوگوں کو مذہب کی ایسی تشریح پر قائل کر لیا جائے جو اس کی اصل تعلیم کے خلاف ہو اور مذہبی تعلیمات کو توڑ مروڑ کر جائز و ناجائز کو مبہم بنا دیا جائے، یا (۲) دنیوی مفادات کے لیے مذہب کے نام کا جذباتی اور سیاسی استعمال کیا جائے اور مذہب کے نام پر عوام الناس میں غلط رجحان کو فروغ دینے کی کوشش کی جائے۔ ان دونوں ہی انحرافات کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کو مذہب کی بنیادی تعلیمات کی صحیح جانکاری دی جاتی رہے اور مذہب کے سیاسی استحصال کے خلاف رائے عامہ بیدار کی جاتی رہے۔ اگر کسی ایک مذہبی گروہ کو بھی مذہب کے سیاسی استحصال کی چھوٹ ملتی ہے تو دیکھا دیکھی دوسرے مذہب والے بھی اس راہ کو اختیار کر سکتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مذہب اپنی قدر و قیمت کھوتا چلا جائے گا۔ اسی لیے تمام مذہب والوں کی ذمہ داری ہے کہ اپنے ماننے والوں کو سمجھانے کا کام کرتے رہیں۔ محمد ﷺ نے ایک جملے میں بتا دیا کہ: جو شخص اپنے سامنے کوئی برائی ہوتے دیکھے تو اسے اگر طاقت ہو تو ہاتھ سے روکے، اگر اتنی طاقت نہیں تو زبان سے روکے اور اگر اتنی بھی طاقت نہیں تو اسے دل میں برا سمجھ کر روکنے کا منصوبہ بنائے۔ لیکن اگر مذہب کو ماننے والے کسی شخص کے دل میں برائیوں پر کڑھن بھی نہیں پیدا ہوتی تو پھر اس کے مذہبی ہونے کا مطلب کیا ہے؟
سماج اور دہشت گردی
مذہب کے ساتھ خاندان اور سماج لوگوں کو صحیح راہ پر قائم رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر خاندان اور سماج افراد کی طرف سے بے پروا ہو جائیں تو دھیرے دھیرے غلط چلن عام ہونے لگتا ہے جسے دور کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ چناں چہ آج جس طرح لوگ رشوت، جہیز، حق تلفی، چور بازاری،جھوٹی گواہی، عورتوں پر زیادتی، گالی گلوچ اور اسی طرح کی خرابیوں کو دھڑلے سے کرتے نظر آتے ہیں اس کی وجہ خاندان سے سنسکار کا ختم ہونا اور سماج کا خاموش تماشائی بنے رہنا ہے۔ پہلے زمانے میں جب خاندان میں تہذیب و آداب سکھائے جاتے تھے اور سماج میں روک ٹوک ہوتی تھی تو بہت سارے لوگ غلط راستہ اختیار کرنے میں جھجک محسوس کرتے تھے۔ اسی کے ساتھ پرانے زمانے سے چلے آرہی اونچ نیچ، بھید بھاؤ اور دیگر سماجی برائیوں کو دور کرنے کی بھی کوشش ضروری ہے تاکہ کوئی شخص سماج میں رائج برائیوں کا شکار ہو کر غلط راہ اختیار کرنے کی طرف مائل نہ ہو۔ محمد ﷺ نے ایک مثال دے کر سمجھایا: سماج کی مثال ایک کشتی جیسی ہے جس پر کئی منزلیں بنی ہوئی ہیں۔ جو لوگ نچلی منزل میں ہیں وہ پانی لینے کے لیے اوپر کی منزل ((deck پر جاتے ہیں۔ اوپر والے نیچے والوں کو اوپر آکر پانی لینے سے منع کرتے ہیں۔ تب نیچے والے کشتی کے پیندے میں چھید کر کے سمندر سے پانی لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر اوپر والوں نے نیچے والوں کو نہیں روکا اور انھیں اوپر آکر پانی لینے کی اجازت نہیں دی تو پوری کشتی ڈوبے گی، نہ اوپر والے بچیں گے، نہ نیچے والے۔ لہذ ضروری ہے کہ برائیوں اور غلط سوچ کے خلاف سماج اور سماجی اداروں اور تنظیموں کو مضبوط و متحرک کیا جائے اور سماجی اقدامات (social initiative) کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ جو لوگ ریاستی نظم و نسق کے ذمہ دار ہیں وہ ہر سطح پر سماجی کارکنوں اور تنظیموں کو اپنے رابطہ میں رکھیں اور مذہبی لوگ بھی ان کوششوں میں آگے آئیں۔
ریاست اور دہشت گردی
ریاست انسان کی ایسی ضرورت ہے جو دنیا کے ہر علاقے میں اور ہر زمانے میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہی ہے۔ ریاست کے بغیر نہ تو امن قائم ہو سکتا ہے اور نہ لوگوں کو انصاف مل سکتا ہے۔ ریاست قانون اور نفاذ قانون کی حامل قوت قاہرہ کا نام ہے۔ ریاست کی بنیادی ذمہ داری امن و امان اور عدل و انصاف کا قیام، لوگوں کے حقوق کا تحفظ اور معاشرہ میں امداد باہمی کا فروغ ہے۔ اگر کوئی حکومت ان ریاستی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں کوتاہی یا غفلت کا شکار ہوتی ہے تو افراد بھی قانون اور سماجی اقدار سے پہلو تہی کا رویہ اختیار کرنے لگتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں سماج میں معروفات سے انحراف اور منکرات کا ارتکاب بڑھنے لگتا ہے اور اس طرح قانون شکنی کے رجحان کو تقویت ملتی ہے۔ جہاد کا بنیادی تصور ہی یہ ہے کہ خرابیوں پر خاموشی اختیار نہ کی جائے۔ جس کی جتنی سکت اور ہمت ہو برائیوں کے ازالہ کے لیے کوشش کرے: عملاً، قولاً یا کم از کم دلی ارادہ کی حد تک جد و جہد کے لیے خود کو تیار رکھنا ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔ اگر ریاست، سماج اور فرد سب ہی برائیوں سے پہلو تہی اختیار کر نے لگیں تو انارکی کی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔ ایسی صورت حال زیادتی اور ناانصافی کے سامنے فرد کو بے بسی کے احساس سے دوچار کرتی ہے۔ بے بسی کا احساس عوامی بے چینی کو جنم دیتا ہے۔ بعض افراد مایوسی، جھنجھلاہٹ اور غصہ کے اس مقام تک پہنچ جاتے ہیں جسے ہم شدت پسندانہ رجحان سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ صورت حال اگر طویل عرصہ تک برقرار رہے تو شدت پسندانہ رجحان کے حامل افراد قانون شکنی کی طرف راغب ہونے لگتے ہیں۔ اگر جبر یا خوف سے اس بے چینی کو دبانے کی کوشش کی جائے تو بے اطمینانی مزید بڑھتی ہے اور کچھ لوگ سرکشی اور تشدد کی راہ اختیار کرنے لگتے ہیں۔ اگر بروقت بے چینی کے ازالے اور سرکشی کی روک تھام کی تدبیریں نہ اختیار کی جائیں تو بدامنی ان راستوں سے داخل ہونے لگتی ہے جن کا گمان بھی پہلے سے نہیں کیا جا سکتا ہے۔ دنیا کے خوں ریز انقلابات اس کے گواہ ہیں۔ صورت حال کو فطری اور پر امن سطح پر قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ریاستی ادارے اثباتی اور احتیاطی دونوں طرح کے اقدامات کی طرف متوجہ رہیں۔ اولاً عدل و انصاف کا قیام اس طرح یقینی بنایا جائے کہ لوگوں کو محسوس بھی ہو کہ انھیں انصاف مل رہا ہے۔ دوم لوگوں کی محرومی کا ازالہ اس طرح کیا جائے کہ لوگ سمجھیں کہ ریاست ان کی خیر خواہ ہے۔ سوم لوگوں کی آزادی اور حقوق کا تحفظ اس طرح ہونا چاہیے کہ لوگ محسوس کریں کہ وہ کسی جبر اور گھٹن کے ماحول میں نہیں جی رہے ہیں۔ چہارم ان اقدامات کے بعد بھی کچھ لوگ ایسے ہو سکتے ہیں جو انحرافی نظریات یا جارحانہ یاسیت پسندی کی بنا پر مجرمانہ طرز عمل، شدت پسندی یا دہشت گردی کے راستوں پر نکل جائیں اور سماج میں بدامنی اور خوف کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ ایسے میں ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ بزور قوت قانونی طریقے سے اس طرح کی کارروائیوں کی روک تھام کرے اور عدل و سزا کا ایسا نظام قائم کرے کہ معصوم لوگ ریاست کی تادیبی کارروائی کا شکار نہ ہوں۔ دہشت گردوں کی حکمت عملی کا ایک اہم حصہ یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ بے چہرہ کارروائی کرکے ریاستی اداروں کو مشتعل کرتے ہیں تاکہ ریاست کی طرف سے ایسا رد عمل سامنے آئے جس کی زد معصوم لوگوں پر پڑے اور بے چینی کو پھلنے پھولنے کا موقع ملے۔ پھر ریاستی جبر کے شکار معصوم لوگوں کو ورغلانا آسان ہو جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ریاستی اداروں کی بلاتفریق کارروائیاں اور دہشت گردوں کی اشتعال انگیزیاں بدامنی کے ایک ایسے گھن چکر (vicious circle) کو جنم دیتی ہیں جو دہشت گردوں کے لیے سازگار ہوتا ہے۔ ریاست کی غیر ذمے دارانہ کارروائیوں سے وہ ماحول بنتا ہے جو دہشت گردی کی توسیع کا ذریعہ ثابت ہوتا ہے۔ اس chain reaction کو بیچ سے توڑ دینا ہی ریاستی اداروں کی کام یابی اور امن و امان کی ضمانت ہے۔
لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ انسان کے اندر خیر پسندی، انسانی ہمدردی اور امن و سکون کی فطری خواہش کو زندہ رکھنے کی کوششیں مسلسل جاری رکھی جائیں۔ اس سلسلے میں انسان کے فطری اخلاقی داعیہ کو زندہ و تازہ رکھنے کے لیے مذہبی اور سماجی رہ نماؤں کی کوششوں کو تقویت پہنچانا ضروری ہے۔ افراد کی ذہن سازی اور سماج کی ماحول بندی میں ایسے افراد اور تنظیموں کی حوصلہ افزائی ضروری ہے جو بے غرضانہ طور پر سماج میں خیر و عدل اور محبت و انسانیت نوازی کے لیے سرگرم عمل رہتے ہیں۔
مشمولہ: شمارہ نومبر 2022