ملک میں خوف و ہراس کا ماحول

جماعت اسلامی ہند کا موقف

موجودہ حالات سے متاثر ہوکر ہندوستان کی مسلم ملت شدید قسم کے خوف و ہراس کا شکار معلوم ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ خوف وہراس کی باتیں بہت زیادہ کرنے لگے ہیں۔وہ خوف کھاتے بھی ہیں اور خوف پھیلاتے بھی ہیں۔

بہت سے لوگ موجودہ حالات کی سنگینی کو اس طرح بیان کرتے ہیں گویا اس سے پہلے ایسے خطرناک حالات کبھی پیش ہی نہیں آئے۔

جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے اس طرح کے خوف زدہ کرنے والے حالات نئے نہیں ہیں۔

ہندوستان کی حالیہ تاریخ سے واقف لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ خوف و ہراس کی فضا ملک کی آزادی اور تقسیم سے پہلے ہی پیدا ہوچکی تھی۔

ملک کی تقسیم کے بعد حالات کی خرابی میں خطرناک حد تک شدت آئی، بہت بڑے پیمانے پر فسادات ہوئے اور ان کے نتیجے میں مسلمانوں کے اندر خوف و دہشت میں بھی بہت اضافہ ہوا۔

اس کے بعد بھی وقفے وقفے سے فسادات کا طویل سلسلہ چلتا رہا۔ فسادات کے دوران جو جانی و مالی نقصان ہوتا ہے، وہ اپنی جگہ، لیکن اس کے نتیجے میں خوف و ہراس کی جو کیفیت پھیلتی ہے وہ زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔

حالیہ دو دہائیوں میں مسلمانوں کے اندر خوف و دہشت کی کیفیت بہت زیادہ دیکھی جارہی ہے۔ نفرت انگیز تقریریں، نعرے اور بیانات، بے قصور نوجوانوں کی گرفتاریاں، موب لنچنگ کی بربریت اور بلڈوزر کے بہیمانہ ظلم کے نتیجے میں خوف و دہشت کا پھیلنا فطری بات ہے۔ مختلف نئے قوانین یا قوانین میں ترمیمیں بھی اپنے اندر ہراسانی کی معقول اور قوی وجوہات رکھتی ہیں۔

لیکن کیا ڈر اور خوف کی کیفیت کے ساتھ ان حالات کا سامنا کیا جاسکے گا؟

زیر نظر مضمون میں مختلف حوالوں سے یہ بتایا گیا ہے کہ جماعت اسلامی ہند کی قیادت روز اول سے آج تک مسلمانوں کے لیے خوف و ہراس کی کیفیت کو نہایت خطرناک قرار دیتی رہی اور مسلمانوں کو خوف و ہراس کی کیفیت سے باہر نکالنے کے لیے مسلسل کوشاں رہی ہے۔

ملک کی تقسیم کے بعد جماعت اسلامی ہند کے پہلے امیر مولانا ابواللیث اصلاحی ندویؒ نے اپنا دوٹوک تجزیہ پیش کیا تھا کہ آزادی کے زمانے میں ہندوستانی مسلمان جن دو نہایت مہلک قسم کے امراض کا شکار ہوئے وہ مایوسی اور خوف کے امراض ہیں۔ ان کے الفاظ میں ‘‘ دو زبردست بیماریاں ہیں جو نہایت تیزی کے ساتھ مسلمانوں کو موت کے گڑھے کی طرف ڈھکیل رہی ہیں۔’’  (مسلمانانِ ہند آزادی کے بعد۱۵۳)

مولانا ابواللیثؒ خوف کی کیفیت کو مسلمانوں کے لیے نہایت مہلک سمجھتے تھے، وہ لکھتے ہیں:

‘‘ تقسیم کے بعد مسلمانوں کا اس حالت کو پہنچ جانا یقیناً تاریخ کا ایک زبردست سانحہ ہے اور اس سے جو نتائج برآمد ہو سکتے ہیں ان کا ہر شخص بہ خوبی اندازہ کر سکتا ہے، یہ ان کے مستقبل کے لیے نہایت ہی برا شگون ہے۔ افراد ہوں یا اقوام، ان میں کوئی بھی اس طرح خوف و ہراس میں مبتلا ہو کر اپنی زندگی کو زیادہ دنوں تک بچا نہیں سکتااور کم از کم باعزت زندگی کے امکان کو تو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیتا ہے۔ یہ دنیا کش مکش اور تصادم کا میدان ہے، اس میں ہر فرد اور ہر قوم کو موانع و مشکلات پیش آتی ہیں لیکن جینے کا حق صرف ان کو حاصل ہوتا ہے جو صبر و ہمت کے ساتھ ان کا مقابلہ کریں اور جولوگ ان کو دیکھ کر گھبرا اٹھیں، وہ گویا قبل از مرگ اپنی موت کا اعلان کر دیتے ہیں، یہی کیفیت آج خوف و ہراس سے مسلمانوں کی ہو رہی ہے۔’’ (مسلمانانِ ہند آزادی کے بعد، ۱۵۱، ۱۵۲)

اس وقت مسلم افراد اور مسلم جماعتیں سبھی خوف و ہراس کا بری طرح شکار تھیں، مولانا ابواللیثؒ اس کی عکاسی اس طرح کرتے ہیں:

‘‘ ہ حالت صرف افراد تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ان کی بڑی بڑی بڑی جماعتیں بھی ان کے اثرات سے محفوظ نہیں ہیں۔ ان کی طرف سے جو اعلانات و بیانات آئے دن شائع ہوتے رہتے ہیں ان کی ہر ہر سطر سے ان کی یہ کیفیت نمایاں ہے۔ حد یہ ہے کہ وہ کھل کر نہ اپنے حالات کا جائزہ لے سکتے ہیں اور نہ ان کے لیے کوئی حل تجویز کر سکتے ہیں۔ ان کو ہر لمحہ یہ خطرہ دامن گیر رہا کرتا ہے کہ ان کی وفاداری مشکوک نہ سمجھ لی جائے اور اپنے مذہب وملت کی فکر کی وجہ سے وہ فرقہ پرست نہ سمجھ لیے جائیں۔ گویا ہندستان میں اس وقت مسلمانوں کا حال اس زخمی جاں بلب شکار کی حالت کے مشابہ ہے جو اس ڈر سے ہاتھ پاؤں نہیں ہلاتا کہ شکاری جو ٹکٹکی باندھے اس کی حالت کو دیکھ رہا ہے، زخم کو نا کافی سمجھ کر اور زیادہ زخم نہ پہنچا دے یا وہ اس توقع میں جان دینے سے پہلے جان دینے لگتا ہے کہ ممکن ہے کہ شکاری کو اس پر رحم آجائے اور وہ اس کو اسی حال میں چھوڑ دے۔’’ (مسلمانانِ ہند آزادی کے بعد، ۱۵۰، ۱۵۱)

خوف کی یہ کیفیت بلا وجہ نہیں تھی، مولانا ابواللیثؒ کے الفاظ میں:

‘‘ ۱۹۴۷ء کے فسادات میں مسلمانوں کو جس وسیع پیمانے پر لوٹا مارا گیا اور جس جس طرح ان کو ذلیل و رسوا کیا گیا اس نے مسلمانوں کے دلوں میں ایسی دہشت و ہیبت طاری کر دی ہے کہ کئی سال گزرنے پر بھی اس کا تصور کرنے سے ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ فسادات ملک کے ایک وسیع خطے میں رونما ہوئے تھے اس لیے کتنوں نے اپنی آنکھوں سے مظلوموں اور بے کسوں کو قتل ہوتے اور عفت مآب خواتین کی عصمتوں کو سر بازار لٹتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس لیے یہ مناظر برابران کی نگاہوں کے سامنے رہتے ہیں اور جنھوں نے یہ مناظر بہ چشم خود نہیں دیکھے تھے اُنھوں نے اس کی الم ناک داستانیں معتبر ذرائع سے سنی تھیں، اس لیے وہ بھی کم و بیش ان سے انھی کی طرح متاثر ہیں۔ ممکن ہے مرورِ ایام سے ان کا زخم مندمل ہو جاتا اور حالات و واقعات پر وہ مایوسی کی بہ جائے پُر امید نقطۂ نظر سے غور کر سکتے لیکن بد قسمتی سے ان فسادات کے بعد بھی فسادات کا سلسلہ کلیتًا منقطع نہیں ہو سکا ہے۔ حکومت کی ہر طرح کی کوششوں کے باوجود آئے دن کہیں نہ کہیں یہ فتنہ سر اٹھاتا ہی رہتا ہے اور اس وقت تک نہیں ٹلتا جب تک کہ کچھ مسلمانوں کی جان اس کی بھینٹ نہیں چڑھ جاتی۔’’ (مسلمانانِ ہند آزادی کے بعد، ۱۴۳)

مولانا کا خیال تھا کہ اس خوف کے نتیجے میں مسلمانوں کے سامنے تین ہی راستے کھلے نظر آتے تھے:

یا تو مایوس ہوکر گھروں میں بیٹھ رہیں۔

یا ممکن ہو تو ملک چھوڑ کر پاکستان کی طرف نقل مکانی کرلیں۔

یا یہیں رہتے ہوئے خوشامد اور تملق کے ذریعے اپنے کام نکالیں۔

یہ تینوں ہی راستے ملت کے لیے سخت نقصان دہ تھے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی ہند کی قیادت ملک کے ان ناقابل بیان حالات سے ذرا بھی خوف زدہ اور مایوس نہیں رہی۔

ایک استفسار کے جواب میں مولانا ابو اللیثؒ لکھتے ہیں:

‘‘ ہم آپ کی اس رائے سے متفق نہیں ہیں کہ “آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے اب کوئی جگہ نہیں رہی” یہ آخر کس بنا پر فرض کر لیا گیا ہے؟ جہاں تک حالات کی ناموافقت کا تعلق ہے یہ مسلّم ہے لیکن حالات کو موافق بنانا ناممکن بات تو نہیں۔ مسلمان اس سے زیادہ ناموافق حالات سے بارہا دو چار ہوتے ہیں لیکن انھوں نے اپنے عزم و ہمت سے حالات کو سازگار بنایا اور اب بھی وہ یہ کر سکتے ہیں۔ بشرطیکہ وہ اب تک جو غلطیاں کرتے رہے ہیں ان سے ہمیشہ کے لیے توبہ کر لیں اور آئندہ اسلام کی ہدایات کے مطابق اپنے عمل کی طرح ڈالیں۔ یہ خطرات جو ہر چہار طرف آپ کو گھیرے ہوئے نظر آرہے ہیں یہ خواہ خود آپ کی گذشتہ قوم پرستانہ سرگرمیوں کا نتیجہ قرار دیے جائیں یا دوسری قوموں کی جارحانہ قوم پرستی کا بہر صورت ان کا ازالہ ممکن ہے اور اس کی صورت صرف ایک ہی ہو سکتی ہے کہ آپ آئندہ سے اپنے کو عرفی معنی میں قوم سمجھنا چھوڑ دیں اور جیسا کہ اسلام تقاضا کرتا ہے ایک اصولی پارٹی کی شکل میں دنیا میں آئیں۔ آپ دیکھیں گے کہ وہ جارحانہ قوم پرستی جس سے آپ اس وقت شکوہ سنج ہیں وہ خود بخود آپ کے مقابلے میں مرجھا کر رہ جائے گی۔۔۔ مگر اس کا کیا علاج کہ مسلمان اس زمانے میں اس درجہ مایوس، دل شکستہ اور مرعوب ہو گئے ہیں کہ اسلام کا نام لیتے ہوئے بھی ان کے جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے اور ہمارے نزدیک ان کے مستقبل کے لیے سب سے بڑا خطرہ یہی ہے۔ یاس و ناامیدی اور مرعوبیت جس کسی قوم پر مسلم ہو جاتی ہے تو اس کا علاج موت کے سوا نہیں ہو سکتا۔ لا قدَّرَ اللہ۔۔۔۔’’ (زندگی نو، نومبر۱۹۴۸، ص۴۵-۴۷)

ملک میں مسلمانوں کے مستقبل کو لے کر جس طرح آج ڈر کی باتیں کی جارہی ہیں، اس وقت بھی کی جارہی تھیں، مولانا ابواللیثؒ نے اس طرح کی قیاس آرائیاں کرنے اور خوف پھیلانے سے منع کیا، مولانا کا زور اس بات پر تھا کہ مستقبل کے موہوم اندیشوں میں گرفتار ہوجانے کے بجائے موجودہ حالات میں اپنی ذمے داریوں کو بھرپور طریقے سے انجام دینا چاہیے، مولانا کا کہنا تھا:

‘‘ ہمیں مستقبل کے بارے میں اس طرح کی قیاس آرائیوں میں اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ مستقبل کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ ہمیں تو اپنی جگہ یہ طے کر کے کام کرنا ہے کہ جس سرزمین میں ہم پیدا ہوئے ہیں، وہی ہمارے کام کا اصلی میدان ہے، اور اس کو ہم اپنی خوشی سے صرف اسی وقت چھوڑ سکتے ہیں جب ہم اس میں کام کرنے کو ضیاع وقت سمجھنے پر مجبور ہو جائیں یا حالات ہی اس پر مجبور کر دیں۔ لیکن جب تک یہ صورت پیش نہیں آتی ہے، اور ہمیں یہی توقع رکھنی چاہیے کہ اگر ہم اپنے کام کو صحیح طریقہ سے انجام دیں تو یہ صورت ہرگز پیش نہیں آئے گی، اس وقت تک تو ہمیں ہر لمحہ قیمتی سمجھنا چاہیے اور پورے انہماک کے ساتھ اپنا کام انجام دینا چاہیے۔‘‘ (الانصاف، ۲۸ مارچ ۵۰ء)

۱۹۵۱ء میں بہار میں جماعت اسلامی ہند کے ایک اجتماع میں مولانا ابواللیثؒ نے مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

‘‘ اب میں مسلمانوں سے خصوصی خطاب کرنا چاہتا ہوں مسلمان اس وقت پورے ہندوستان میں خوف و ہراس اور یاس و قنوط کے شکار ہیں۔ میں عرض کروں گا کہ یہ اضطراب و اضمحلال دوسرے وجوہ کے علاوہ اصل میں خوف خدا کی کمی کی وجہ سے ہے۔ اپنے زبانی دعووں کے باوجود مسلمان خدا سے اتنا نہیں ڈرتا جتنا دوسروں سے ڈرتا ہے۔ انسانوں کا خوف نتیجہ ہے اس بات کا کہ خدا کی قدرت و رحمت اور حکمت کا عقیدہ اوجھل ہو گیا ہے۔ مسلمان اگر ان عقاید کے ساتھ آخرت کا بھی پختہ عقیدہ رکھتا ہو تو اس کے دل سے انسانوں کا خوف پورے طور سے دور ہو سکتا ہے۔ اس لیے ہمارا مشورہ ہے کہ مسلمان اللہ کی طرف رجوع کریں اور اسی کے بتائے ہوئے اصولوں سے ہدایت لیں اور ان کو اپنی زندگی میں جگہ دیں یہی ان کے مسائل کا اصل حل ہے۔’’ (الانصاف، ۱۷ جنوری ۱۹۵۱ء)

ملک کے مسلمانوں کے دلوں سے خوف و ہراس دور ہو، جماعت اسلامی ہند نے یہ کام اپنے ذمے لیا اور جماعت کے ارکان کو اس کام میں مصروف ہوجانے کی ہدایت کی۔ جماعت کے پہلے کل ہند اجتماع رامپور میں خطاب کرتے ہوئے مولانا ابواللیثؒ نے ہدایت جاری کی:

‘‘  اس موقع پر مسلمانوں پر ایک خاص طرح کا خوف و ہراس طاری ہو گیا ہے جس کی وجہ سے لوگ بھاگ کر پاکستان جا رہے ہیں یا جانے کی فکر میں ہیں، ایسے تمام لوگوں سے براہ راست ربط و تعلق پیدا کیجیے اور ان کو اللہ پر اعتماد کرنے کا مشورہ دیجیے۔ ایک مسلمان کو ہر حال میں خدا پر بھروسا رکھنا چاہیے اور ایک لمحہ کے لیے بھی اپنے مستقبل کی طرف سے مایوس نہ ہونا چاہیے۔ مسلمانوں کے موجودہ خوف و ہراس کا اگر کوئی علاج ہے تو یہی ہے ورنہ کون کہہ سکتا ہے کہ ہمارے لیے کوئی مقام حفظ و امان کا ضامن ہو سکتا ہے، حقیقی حفاظت بس اللہ کی ہے اور جب تک اس پر اعتماد نہیں کیا جائے گا حفاظت کی تدبیر اختیار کرنے پر بھی آدمی خوف ہی میں مبتلا رہے گا۔ اس وقت ہم جن حالات سے گزر رہے ہیں ان میں انابت اور توجہ الی اللہ کی زیادہ سے زیادہ ضرورت ہے۔ اسی سے ہمارے اندر اعتماد اور اطمیان پیدا ہو سکتا ہے، اور یہی ہمارے لیے حقیقی قوت ہے، خود بھی اس کی طرف توجہ کی جائے اور دوسرے مسلمانوں کو بھی اس کی طرف دعوت دی جائے۔ ’’ (روداد اجتماع رامپور، ص۸۲)

آزادی کے بعد ایک طرف تو مسلمانوں کے لیے مصائب و مسائل سے بھرپور پرآشوب حالات تھے، دوسری طرف جماعت اسلامی ہند کے سامنے اقامت دین کا عظیم اور نہایت ضروری مشن تھا۔ اس مشن کی انجام دہی میں ایک بڑی رکاوٹ مسلمانوں میں پھیلا ہوا خوف و ہراس تھا۔ جماعت اسلامی ہند کو اس رکاوٹ کا احساس تھا۔ مولانا ابواللیثؒ کے الفاظ میں:

‘‘ تیسری رکاوٹ خود مسلمانوں کا موجودہ خوف و ہراس بھی ہے۔ ماضی قریب میں انھیں قومی اور فرقہ وارانہ کشمکش کی وجہ سے کافی نقصان اٹھانا پڑا ہے جس نے ان کے حوصلوں کو سرد کر دیا ہے اور وہ بہت زیادہ مایوسی کے شکار ہیں اور چوں کہ یہ کشمکش اسلام ہی کے نام پر جاری تھی اس لیے دہشت زدہ مسلمان اب اس پہ آمادہ نظر نہیں آتے کہ وہ کسی ایسی تحریک سے بھی اپنا تعلق قائم کر لیں جو فرقہ وارانہ بنیادوں کے بجائے اسلام کی اصولی باتوں پر مبنی ہو۔ ان وجوہ سے اس ماحول میں خود مسلمانوں میں بھی جن کا ایک خصوصی تعلق اسلام سے رہا ہے اور ہے، کام کرنا بہت دشوار ہو گیا ہے۔ ’’ (روداد اجتماع رامپور، ۱۳۷-۱۳۸)

مولانا ابواللیثؒ اس کے بالکل روادار نہیں تھے کہ جماعت کے افراد حالات کی خوف ناکی اور مسلمانوں میں پھیلے خوف و ہراس کا حوالہ دے کر اقامتِ دین کے مشن کی انجام دہی میں ذرا بھی کم زوری دکھائیں۔ انھوں نے جماعت کے افراد سے صاف لفظوں میں کہا:

‘‘ فرقہ وارانہ تکدر کی موجودگی ہمارے لیے عمل کی محرک ہونی چاہیے نہ کہ مایوسی اور دل شکستگی کی۔ جب شر و فساد کا مٹانا ہی آپ کا مقصود ہے اور اسی بنا پر آپ خیر و صلاح کی دعوت لے کر اٹھے ہیں اور آپ اپنی جگہ یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ اس مرض کا علاج در حقیقت آپ ہی کے پاس ہے تو اس صورت میں آپ کا گھروں میں بیٹھ رہنا کسی طرح صحیح نہیں ہوگا۔ آپ کو بالکل بے خوف ہو کر گھروں سے نکلنا چاہیے اور اس مرض کے ازالہ میں اپنی پوری قوت صرف کر دینی چاہیے۔’’

‘‘ ہمیں اس سے بھی انکار نہیں کہ تقسیم کے بعد جو حالات رونما ہوئے ہیں ان کا مسلمانوں کے ذہنوں پر غیر معمولی اثر ہوا ہے وہ سخت مایوسی اور ہراس کے شکار ہیں اور یہ چیز ہماری دعوت کی طرف ان کے بڑھنے میں بڑی حد تک رکاوٹ ثابت ہو رہتی ہے لیکن رپورٹوں میں جس انداز میں مسلمانوں کی مایوس اور ہراس کا تذکرہ کیا گیا ہے اس سے مجھے شبہ ہوتا ہے کہ خدا نخواستہ ہمارے رفقا تو مایوسی اور ہراس کا شکار نہیں ہو رہے ہیں۔ یا پھر میں یہ سوچنا شروع کر دیتا ہوں کہ ہمارے رفقا کے سامنے دعوت کے کام کی صحیح نوعیت ہے بھی کہ نہیں یہی تو وہ حالات ہیں جن میں کام کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے۔’’

‘‘ آپ جو پیغام پیش کر رہے ہیں اسی سے ان کا خوف و ہراس دور ہو سکتا ہے کیوں کہ آپ ایمان باللہ اور توکل علی اللہ کی دعوت دیتے ہیں اور یہی وہ چیز ہے جو مسلمانوں کے دلوں سے خوف و ہراس کو دور کر سکتی ہے۔ اس کے ماسوا اس کو دور کرنے کی اور کوئی تدبیر ممکن ہی نہیں۔’’ (روداد اجتماع رامپور، ۱۴۱-۱۴۳)

بعد ازاں ۱۹۶۴ میں جماعت اسلامی ہند کی مجلس شوری کے اجلاس میں امیر جماعت مولانا ابواللیثؒ نے ملک کی صورت حال کا جائزہ پیش کرتے ہوئے اس اہم نکتے پر زور دیا کہ جانی و مالی نقصانات سے زیادہ قابل توجہ مسلمانوں میں پھیلتا ہوا خوف وہراس ہے، مولانا نے کہا:

‘‘ چھلے دنوں ہندوستان کے مختلف علاقوں میں نہایت سخت اور ہول ناک فسادات ہوئے ہیں جن میں مسلمانوں کو عظیم جانی ومالی نقصانات سے دوچار ہونا پڑا ہے اس صورت حال کا یہ اولین تقاضا ہے کہ اس موقع پر ہم اپنے تباہ حال اور مظلوم بھائیوں کو مدد پہنچانے کے لیے آگے بڑھیں۔ چناں چہ بہت پہلے جماعت کی طرف سے ریلیف کا کام شروع کیا جا چکا ہے اور ہمارے بس میں جو کچھ ہے اس کے مطابق یہ خدمت انجام دی جا رہی ہے لیکن اس وقت مسئلہ صرف ریلیف پہنچانے ہی کا نہیں ہے بلکہ اس سے اہم اور مشکل مسئلہ یہ ہے کہ ان فسادات نے ہندوستان کے عام مسلمانوں اور بالخصوص فساد زدہ علاقوں کے مسلمانوں کے دماغ پر جو اثرات ڈالے ہیں ان کا کس طرح ازالہ کیا جائے۔ مسلمان عام طور سے خوف وہراس میں مبتلا ہیں اور مستقبل کی طرف سے وہ کچھ مایوس ہوتے جا رہے ہیں۔ اگر جلد ان کو ان کیفیات سے نجات نہ دلائی گئی تو اس کا نتیجہ ناگزیر طور سے چند شکلوں میں نمودار ہوگا۔ بہت سے لوگ ہندوستان چھوڑ کر کہیں اور جانے کی فکر میں لگ جائیں گے۔ چناں چہ لوگ پاکستان جا بھی رہے ہیں، کچھ لوگ جو اپنی مجبوریوں کی وجہ سے کہیں جا نہیں سکتے ہیں اور دین سے ان کا لگاؤ بھی برائے نام ہی ہے وہ حالات کی شدت سے گھبرا کر خدا نخواستہ کفرو ارتداد کی راہ اختیار کرنے پر آمادہ ہو سکتے ہیں یا ان پر یاس و اضمحلال کی ایسی کیفیت طاری ہو سکتی ہے کہ آئندہ وہ کچھ سوچنے اور کرنے کے قابل ہی نہ رہ جائیں۔ یہ صورت حال حد درجہ تشویش انگیز ہے جس پر ہمیں خود بھی سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے اور اس کی طرف ہمیں ملت کے دوسرے دردمندوں کو بھی متوجہ کرنا چاہیے۔ اور مل جل کر اس کا کوئی حل یا مداوا تلاش کرنا چاہیئے۔ انسانیت، اخوت اسلامی دینی اور دعوتی مصالح غرض گوناگوں پہلوؤں سے یہ ایک نہایت ضروری کام ہے۔’’ (روداد مجلس شوری، جلد اول، ص۲۲۲-۲۲۳)

بعد کی دہائیوں میں ملک کے حالات پہلے کی طرح خوف و ہراس پیدا کرنے والے تو نہیں رہے، لیکن پھر بھی خوف و ہراس کسی نہ کسی درجے میں برقرار اور مسلمانوں کے رویے پر اثر انداز ہوتا رہا۔ آر ایس ایس کی بڑھتی ہوئی طاقت، پھیلتی ہوئی سرگرمیاں اور مسلمانوں کے سلسلے میں شدت پسندانہ بیانیہ تشویش کا باعث بنتا جارہا تھا۔ جماعت اسلامی ہند کی قیادت اس سلسلے میں حسّاس تھی مگر خوف زدہ ہونے کی قائل نہیں تھی۔ جماعت اسلامی ہند کے دوسرے امیر مولانا محمد یوسفؒ نے دو ٹوک لہجے میں مسلمانوں کو آر ایس ایس کے خوف سے باہر نکل آنے کی تاکید کی:

‘‘ مسلمانوں کو نہ آر ایس ایس سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت ہے نہ کسی اور تنظیم سے۔ ہاں مخالفانہ سرگرمیوں اور چالبازیوں سے ہوشیار رہنے کی اشد ضرورت ہے۔ نیز یہ بات بڑی اہمیت کے ساتھ ان کے پیش نظر رہنی چاہیے کہ کوئی پارٹی یا ادارہ خواہ وہ سیاسی ہو یا کلچرل انھیں اپنا آلہ کار نہ بنائے۔ اگر وہ اسلام کا سچا نمونہ بن جائیں، محبت و دلسوزی کے ساتھ باشندگانِ ملک تک خدا کا وہ پیغام پہنچائیں جو سب انسانوں کی دنیوی و اخروی فلاح کا ضامن ہے اور انسانی فطرت کی پکار ہے۔ اگر وہ بلا امتیاز مذہب و ملت انسانوں کے دکھ سکھ میں شریک ہوں اور ملک کے مسائل کو غیر مسلمین کے اشتراک سے عدل و راستی کی بنیاد پر حل کرنے کی کوشش کریں اور اپنے اختلافات کو ختم کر کے دین کی بنیاد پر دین کی اقامت کے لیے متحد ہو جائیں تو نفرت و عداوت اور تعصب کا کوئی پہاڑ ان کی راہ نہ روک سکے گا اور ان کے حسنِ کردار، حسنِ اخلاق، حسنِ دعوت، خدمت و اصلاحِ انسانیت اور نظم و اتحاد کے سیلاب میں نفرتوں اور مخالفتوں کے پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر بہہ جائیں گے۔’’ (آر ایس ایس اور جماعت اسلامی ہند، ص۳۱)

گذشتہ صدی کے اختتام اور رواں صدی کے آغاز سے ملک میں ہندتو انتہا پسندی زیادہ زور پکڑنے لگی اور دوہزار چودہ میں اس نظریہ کی علم بردار قوتوں کے برسر اقتدار آنے کے بعد مسلمانوں میں اسی طرح کا خوف و ہراس پھیلنے لگا، جس طرح کا آزادی کے وقت تھا۔ خاص طور سے شہریت ترمیمی بل نے خوف کو بہت زیادہ بڑھادیا۔ موب لنچنگ اور بلڈوزر کی زیادتیوں نے بڑے پیمانے پر لوگوں کو خوف زدہ کرنے کا کام کیا۔ تاہم جماعت اسلامی ہند کی موجودہ قیادت آج بھی اپنے موقف پر برقرار ہے۔ وہ حالات کو بہتر طریقے سے سمجھنے، حالات کو بدلنے کی بہتر سے بہتر تدبیر اختیار کرنے اور حالات کے سلسلے میں کسی خوش فہمی میں مبتلا نہ ہونے کی دعوت دیتی ہے۔ ساتھ ہی وہ حالات سے خوف زدہ ہونے کو سب سے بڑا خطرہ اور نقصان قرار دیتی ہے۔

جماعت اسلامی ہند کے موجودہ امیر سید سعادت اللہ حسینی ملک کے موجودہ حالات کو ایک عارضی کیفیت قرار دیتے ہیں:

‘‘ ندتو فرقہ پرستوں کا پیدا کردہ شور و غوغا یہ ایک عارضی کیفیت ہے۔ یقین مانیے کہ یہ بہت ہی شیلّو، سطحی، نامکمل اور مبہم نظریہ ہے۔ ایک خوف ناک آندھی کے مانند، یہ پوری قوت سے ضرور ملک پر چھائیں گے۔ لیکن یہ چھانا بہت عارضی ہوگا۔ بہت جلد یہ گرد و غبار بیٹھ جائے گا۔ مطلع صاف ہوگا تو راستے روشن ہوں گے۔ یہ نوشتہ دیوار ہے کہ اس آندھی اور اس کی لائی ہوئی تباہیاں آخر کار اس ملک میں بڑی اصلاحات کی راہیں ہم وار کریں گی۔ ’’ (حالات حاضرہ میں جماعت اسلامی ہند کی معنویت، زندگی نو، جولائی ۲۰۲۳)

سعادت صاحب اس پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں کہ حالات کا صحیح مشاہدہ اور تجزیہ کیا جائے، اس میں مبالغہ آرائی کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی بلکہ الٹا مسلمانوں کو کم زور کرے گی۔ وہ کہتے ہیں:

‘‘ اس تحریک اور اس کے پیدا کردہ خطرات کا مقابلہ کیسے ہو؟ اس سوال پر غور کرنے کے لیے پہلی ضرورت یہ ہے کہ حالات کا درست تجزیہ اوربالکل ٹھیک مشاہدہ (precise observation) ہو۔ چیلنجوں کے درمیان مشاہدے کی معمولی غلطی بھی آگے کے راستے کو کھوٹا کردیتی ہے۔ جب تک حالات کا درست فہم نہ ہو اس وقت تک نہ مناسب حکمت عملی تک پہنچنا ممکن ہوتاہے اور نہ اس کے موثر نفاذ کا کوئی امکان ہے۔ہمارا خیال یہ ہے کہ اس وقت عام طور پر ہمارے اہل فکر صورت حال کو اس کے تمام زاویوں سے دیکھ نہیں پا رہے ہیں۔ خوف، بے بسی اور ناامیدی کی نفسیات ایسی سرنگ میں پہنچادیتی ہے جہاں سے منظر نامے کا ایک بہت چھوٹا سا حصہ ہی دکھائی دیتاہے اور اسی چھوٹے سے حصے پر اعصاب کا ارتکاز ہوجاتا ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کے شور و غوغا نے ایسی صورت حال پیدا کردی ہے کہ ہر خوف پیدا کرنے والا واقعہ اپنے حجم سے کئی گنا بڑھ کر دکھائی دینے لگا ہے۔ چناں چہ قتل و غارت گری اور فتنہ و فساد کا ہر واقعہ قتل عام (genocide) کی شروعات محسوس ہونے لگتا ہے۔ بل ڈوزر کی بے ہودہ سیاست، ملک گیر سطح پر مسلم آبادیوں کی تباہی کے وسیع منصوبے کی شروعات لگنے لگتی ہے۔ فرقہ پرستوں کی چھوٹی بڑی بزدلانہ شر انگیزیاں بیس کروڑ انسانوں کی وسیع آبادی کے اندر ’اسپین کی تاریخ‘کے اعادے کا اندیشہ پیدا کردیتی ہیں۔

یہ خوف، یہ شدت احساس اور یہ اجتماعی پیرانوئیا (collective paranoia) ہمارے حوصلوں کو پست کرتا ہے اور آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کی امنگ میں مخل ہوتا ہے۔ اس وقت امت کی بڑی ضرورت یہ ہے کہ وہ ترقی کرے، تعلیم، معیشت اور سیاست کے میدانوں میں آگے بڑھے، اخلاقی وسماجی قوت حاصل کرے اور اپنی کم زوری و انفعالیت (vulnerability) دور کرے۔ احساس عدم تحفظ کی شدت یہ ہونے نہیں دیتی۔ یہ احساس کہ اب جان شدید خطرے کی زد میں ہے، آدمی کے حواس کو مکمل طور پر اپنے تحفظ پر مرکوز کردیتا ہے۔ وہ دوسری ساری فکریں چھوڑ دیتا ہے۔ ’’ (ہندتو انتہا پسندی، ۴۳۴، ۴۳۵)

سعادت صاحب کے نزدیک یہ بیانیہ درست نہیں ہے کہ ہندوستان کی پوری تاریخ میں مسلمان کبھی اتنے خطرناک حالات سے نہیں گزرے جتنےخطرناک حالات سے اس وقت دوچار ہیں۔ البتہ ان کے مطابق مسلمان جس قدر خوف وہراس کا شکار اس وقت ہیں، وہ اس سے پہلے اس سے بھی مشکل حالات میں نہیں ہوئے۔

وہ لکھتے ہیں:

‘‘ ہ حالات نئے نہیں ہیں۔ لیکن ان حالات کی بنیاد پر جو شدتِ احساس اور خوف و مایوسی کی جو فضا پیدا کی جارہی ہے، وہ ایک نئی صورت حال ہے اور تشویش ناک ہے۔اس امت کے دشمنوں کی فہرست تیار کی جائے تواس وقت جوسب سے بڑا دشمن ہے وہ، ڈر، خوف یا مایوسی کی نفسیات ہے۔ کسی قوم کے لیے سب سے بڑی تباہی مایوسی و ناامیدی ہے۔ سخت حالات کی عمر مختصر ہوتی ہے لیکن اگر پست ہمتی اور خوف کی نفسیات عام ہوجائے تو اس کے اثرات دیر پا ہوتے ہیں۔ یہ نفسیات زندگی کی امنگ چھین لیتی ہے۔ خود اعتمادی کو مجروح کردیتی ہے۔ آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے حوصلوں کو ختم کردیتی ہے۔ اگر امید کی لو روشن رہے تو بڑی سے بڑی ناکامی اور بھیانک سے بھیانک سانحہ بھی قوموں کی کمر نہیں توڑسکتا۔ وہ اپنی خاکستر میں امید کی چنگاریوں کو چھپائے رکھتے ہیں اور مناسب وقت پر مثبت تبدیلی کا ایک ہلکا سا جھونکا بھی ان چنگاریوں کو بھڑکاکر شعلہ بنادیتا ہے۔ اس کے برخلاف اگر امید و یقین کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے تو سائے اور واہمے بھی دہشت طاری کرنے لگتے ہیں۔ ہوا کے جھونکے سے بھی تباہ کن آندھی کا احساس ہوتا ہے۔ ایسی بزدل قوموں کو مارنے کے لیے کسی دشمن کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اندیشوں اور واہموں کی شکار ہوکر وہ اپنی موت آپ مرجاتی ہیں۔۔۔

یہ یقین عام کرنے کی ضرورت ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت بیس کروڑ مسلمانوں کو ختم نہیں کرسکتی۔

ان حالات کی عمر بھی ان شاء اللہ زیادہ طویل نہیں ہوگی۔ یہ دور گزرے گا۔ کوششوں کا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ ان حالات سے ہم زیادہ طاقتور اور زیادہ موثر ہوکر نکلیں اور ہمارے ملک میں بھی حالات کے یہ تھپیڑے زیادہ بہتر فضا اور موثر اصلاحات کی راہیں ہم وار کریں۔ان حالات کو فیڈ بیک کی حیثیت سے لینے کی ضرورت ہے۔ ان مشکلات کا اصل مقصد یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہم اپنے احتساب کی طرف مائل ہوں۔ اُن کم زوریوں اور غلطیوں کا ادراک کریں جو اپنی تاریخ میں ہم مسلسل دہراتے رہے ہیں اور آج بھی دہرارہے ہیں۔ اپنے رویوں کو بدلیں۔ زیادہ قوت اور بہتر حکمت عملی کے ساتھ صحیح سمت میں جدو جہد کے لیے آگے بڑھیں۔ سخت حالات بعض قوموں کو کم زور کردیتے ہیں اور انھی جیسےحالات سے بعض قومیں زیادہ طاقتور اور زیادہ بااثر بن کر نکلتی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے حوصلے باقی رہیں، خود اعتمادی باقی رہے اور ساتھ ہی جائزہ و احتساب کی اور خود کو بہتر رخ پر بدلنے کی اسپرٹ پروان چڑھے۔ ہمارے اہل فکر اور قیادتوں کی بنیادی ذمے داری انھی جذبات کو پروان چڑھانا ہے نہ کہ مبالغہ آمیز خوف اور مایوسی پیدا کرنا۔ ’’ (ہندتو انتہا پسندی، ۴۴۸ تا ۴۵۰)

جماعت اسلامی ہند کی مجلس شوری نے ۱۹۶۴ کے حالات میں مسلمانوں کو بے خوفی کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنے کی تاکید کی تھی:

‘‘ مسلمانوں میں صبرو استقامت اور اعتماد و توکل علی اللہ کے جذبات پیدا کرنے کے ساتھ ان کو یہ احساس دلایا جائے کہ حملوں کے وقت مایوسی اور گھبراہٹ کا شکار نہ ہوں بلکہ صورت حال کا جرأت اور پامردی کے ساتھ مقابلہ کریں اور اپنی محافظت اور مدافعت کے لیے وہ تمام تدبیریں بروئے کار لائیں جو نہ شرعا اور اخلاق غلط ہوں اور نہ مروجہ قانون کے خلاف اور اس سلسلے میں سماج کے دیگر من پسند عناصر کا تعاون بھی حاصل کریں۔’’ (روداد مجلس شوری، جلد اول، ۲۳۲)

جماعت کی موجودہ قیادت کا موقف بھی یہی ہے، امیر جماعت سید سعادت اللہ حسینی اسی موقف کا اعادہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

‘‘ اگر کہیں ظلم ہوتا ہے، جان و مال پر حملے ہوتے ہیں تو اپنے دفاع کی ہر ممکن کوشش ضرور کریں۔ اسلام اس کا حکم دیتا ہےاور ملک کا قانون و آئین اس کو یعنی اپنے دفاع کے حق کو تسلیم کرتا ہے۔ ہم پوری بہادری سے، موت سے ڈرے بغیر خود کو، اپنے بھائیوں کواور اپنی بستیوں کو بچانے کی کوشش کریں۔ ہر مظلوم کی حفاظت کریں چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب یا فرقے سے ہو۔ ظلم کے خلاف آواز بھی بلند کریں۔ مظلوموں کے حق کے لیے قانونی جدوجہد بھی کریں۔ لیکن ان کاموں کو سب کچھ نہ سمجھیں۔ یہ رد عمل درست ہونے کے باوجود محض فوری درپیش مسائل کا عارضی رد عمل ہے۔اس پر اکتفا نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہ ضروری (necessary)ہے لیکن کافی (sufficient)نہیں۔’’ (ہندتو انتہا پسندی، ۴۵۶)

خلاصہ یہ ہے کہ ملک کے حالات کتنے ہی خطرناک اور تشویش ناک کیوں نہ ہوں، جماعت اسلامی ہند کی قیادت کا موقف ہمیشہ یہی رہا ہے اور آج بھی یہی ہے کہ حالات سے خوف زدہ ہونے کے بجائے حالات کو بدلنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ روز اول سے جماعت اسلامی ہند کے بیانات، تقاریر اور پالیسی و پروگرام کسی بھی طرح کے خوف و ہراس سے پاک اور ہمت و حوصلہ سے معمور نظر آتے ہیں۔

مشمولہ: شمارہ جنوری 2025

مزید

حالیہ شمارے

جنوری 2025

شمارہ پڑھیں

دسمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223