اخلاق کی تعریف
پروفیسر راجرس(Rogers)کی رائے میں اخلاقیات وہ علم ہے جوایسے اصول بتاتا ہے جن سے انسانی کردار کے صحیح مقاصد کی حقیقی اور سچی قدر وقیمت کا تعین ہوسکے۔
انسان کا اخلاق و کردار ہی وہ واحد سرچشمہ ہے جس سے اس کے معاشی، تمدنی اور سیاسی اعمال کے چشمے جاری ہوتے ہیں۔انسان کی اخلاقی زندگی کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ ہیئت اجتماعی کے وسیع تر اغراض ومقاصد کے مقابلے میں اسے اپنے انفرادی اغراض اورذاتی خواہشات کو ذیلی حیثیت دینی چاہیئے۔ ۱؎
عیسائیت
انسائیکلوپیڈیا برٹانیکامیں عیسائیت کی تعریف یہ کی گئی ہے:
’’وہ مذہب جو اپنی اصلیت کو ناصرہ کے باشندے یسوع کی طرف منسوب کرتا اوراسے خدا کا منتخب مسیح مانتا ہے‘‘۔ ۲؎
انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجن اینڈا یتھکس کے مقالے ’’عیسائیت ‘‘میں گاروے لکھتا ہے کہ:
’’عیسائیت کی تعریف اس طرح کی جا سکتی ہے کہ وہ اخلاقی ،تاریخی ،کائناتی،موحدانہ اور کفارے پر ایمان رکھنے والا مذہب ہے جس میں خدا اورانسان کے تعلق کو خداوند یسوع مسیح کی شخصیت اورکردار کے ذریعہ پختہ کردیا گیا ہے‘‘۔
اس تعریف کو بیان کرکے مسٹرگاروے نے ایک ایک جزء کی توضیح کی ہے۔
’’اخلاقی مذہب سے اس کے نزدیک وہ مذہب مراد ہے جس میں عبادتوں اور قربانیوں کے ذریعہ کوئی دنیاوی مقصد حاصل کرنے کی تعلیم نہ دی گئی ہو بلکہ اس کا تمام تر مقصد روحانی کمال کا حصول اورخدا کی رضا جوئی ہو‘‘۔
’’کائناتی ہونے کا اس کے نزدیک یہ مطلب ہے کہ یہ مذہب کسی خاص رنگ ونسل کے لئے نہیں ہے بلکہ اس کی دعوت عالمگیر ہے‘‘۔
’’تاریخی مذہب کا مطلب وہ یہ بیان کرتا ہے کہ اس مذہب کا محور فکر وعمل ایک تاریخی شخصیت ہے‘‘۔
عیسائی مذہب کو موحد (Monotheist)وہ اس لئے قرار دیتا ہے کہ اس مذہب میں تین اقانیم تسلیم کئے جانے کے باوجود خدا کو ایک کہاگیا ہے۔
عیسائیت کی آخری خصوصیت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ کفارے پر ایمان رکھتا ہے۔
عیسائیت پہلی صدی عیسوی میں وجود میں آئی ۔یسوع مسیح جن کو اسلامی دنیا عیسیٰ علیہ السلام کے نام سے پکارتی ہے ان کو تثلیث کا ایک جزء یعنی مسیح کہا جاتا ہے ۔لیکن کئی فرقے مسیح کو خدا نہیں مانتے وہ انہیں ایک نبی یاعا م انسان مانتے ہیں ۔
تاهم مسیحیت میں تین خدائوں کا عقیدہ بہت عام ہے جسے تثلیث بھی کہا جاتا ہے مسیحیت میں خدا ،بیٹا، اور روح القدس ایك هیں۔ یه ماننے والے اپنے آپ کو موحد کہتے ہیں اور اسے تو حید فی التثلیث کا نام دیتے ہیں۔
مسیحیت ایک سامی مذہب ہے اور تحقیق کے مطابق پوری دنیا میں اس کے لگ بھگ دو ارب پیروکار ہیں ۔ بائبل مسیحیوں کی مقدس کتاب ہے۔بائبل کو دوحصوں میں تقسیم کیاجاتا ہے۔
۱۔ عہدنامہ قدیم ۲۔ عہد نامہ جدید
عیسائیت میں اخلاقیات کی اہمیت
عیسائیت میں اخلاقیات پر بہت زور دیا گیا ہے عیسائی اخلاقیات کی بنیاد ان اوامر ونواہی اور فرائض وفضائل کے مختلف حوالوں سے مستحکم ہوتی ہے جن کا سب سے بڑا منبع بائبل ہے۔جو عیسائیت میں مستند سمجھی جاتی ہے مذہب اسلام کی طرح عیسائیت میں بھی اخلاق حسنہ کی طرف خصوصی توجہ دی گئی ہے ۔
عیسائیت میں اخلاق کی بنیاد:
كلیدی تصورات دو هیں:ایک تمام نبی نوع انسان سے محبت، دوسرا کفارے کا تصور۔ یعنی انسان کی پیدائش گناہ کا نتیجہ ہے اور یوں اس کی تمام تر زندگی گناہ ہے جس کا کفارہ حضرت عیسیٰ نے اپنی جان دے کر اداكیا۔ ۳؎
حضرت عیسیٰ کی اخلاقی تعلیمات
حضرت عیسیٰ کی اخلاقی تعلیمات کے بارے میں ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی کا کہنا ہے کہ حضرت عیسیٰ نے کوئی باقاعدہ ضابطہ اخلاق نہیں دیا ان کی اپنی کوئی تحریر بھی نہیں ا ن کے اخلاقی اقوال ونظریات بعد میں لکھے گئے ۔حضرت عیسیٰ کی تعلیمات میں خیرات ،نفس کشی ،ترک دنیا،تزکیہ نفس،ہمہ گیر محبت اورخدا پر یقین پر زور دیا گیا ہے۔
حضرت عیسیٰ نے گلیلی میں رہ کر مذہب کی تبلیغ کی اور انہوں نے اپنی تبلیغ کا دائرہ سمریا اور یروشلم تک وسیع کیاانہوں نے فرمایا کہ حکومت خدا کی ہے ۔حضرت عیسیٰ کی تعلیمات کا خاص عنصر تمثیلی کہانیوں کے پیرایہ میں ہے جس کا تعلق تمام انسانی کرداروں اورواقعات سے ہوتا ہے۔ دنیا کےبهت سے مذاہب کی تعلیمات میںتمثیلات کا حوالہ دیا جاتا ہے جن سے اخلاقی نتائج بر آمد ہوتے ہیں۔
انجیل متی باب ۵ آیت ۳۰ تا۳۵ میں ہے:
ایك سوال پر یسوع نے جواب میں کہا کہ ایک آدمی یروشلم سے یریحو کی طرف جارہا تھا کہ ڈاکوئوں میں گھر گیا ۔انہوں نے اس کے کپڑے اتار لئے اور مارا بھی اور ادھ مرا چھوڑ کر چلے گئے۔ اتفاقاً ایک کاہن اسی راہ میں جارہا تھا اوردیکھ کر کتراکر چلا گیا ۔اسی طرح ایل لاوی اس جگہ آیا وہ بھی اسے دیکھ کر کتراکر چلا گیا۔لیکن ایک سامری سفر کرتے ہوئے وہاں آنکلا ۔اور اسے دیکھ کر اس نے ترس کھایا اورپاس آکر اس کے زخموں کو تیل لگاکر باندھا اوراپنے جانور پر سوار کرکے سرائے میں لے گیا اور اس کی خبر گیری کی ۔ دوسرے دن دو دینار نکال کر بھٹیارے کو دیئے اورکہا۔
اس کی خبر گیری کرنا اورجو کچھ اس سے زیادہ خرچ ہوگا میں پھر آکر ادا کردوں گا۔
اس حکایت سے یہ اخلاقی درس ملتا ہے کہ نسل اورمذہب کا خیال کئے بغیر ہر شخص کی بروقت ضرور مدد کرنی چاہیئے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اخلاقی تعلیمات کا نچوڑ ان کا پہاڑی کا وعظ ہے ۔جس کے چیدہ چیدہ نکات یہ ہیں۔
(۱)مبارک ہیں وہ جو غریب ہیں کیونکہ ان کے لئے آسماں کی بادشاہت ہے۔(۲)مبارک ہیں وہ جو دکھ سہتے ہیں کیونکہ انہیں راحت ملے گی۔(۳)مبارک ہیں وہ جو کمزور ہیں کیونکہ زمین کی میراث پائیں گے۔(۴)مبارک ہیں وہ سچائی کی خاطر مصلوب کئے جاتے ہیں کیونکہ آسمان کی بادشاہت ان کی ہے۔(۵)مبارک ہوتم جب آدمی تم پر میرے حوالے سے ظلم کرتے اور ہر قسم کی بری بات کہتے ہیں (۶)خوش اور مسرور رہو کیونکہ آسمان میں تمہارا انعام بہت عظیم ہے کیونکہ آدمیوں نے تم سے پہلے آنے والے نبیوں کو بھی’قتل کیا‘۔ ۴؎
حضرت عیسیٰ کی تعلیمات میں بندوں کے درمیان برادرانہ تعلق پر بہت زور دیا گیاہے۔اس ضمن میں حضرت عیسیٰ نے جن خوبیوں کو خصوصی اہمیت دی ہے ان میں مساوات ،عفوودرگزر،عیب جوئی سے پرہیز،عجزوانکساری اوراپنے دشمنوں اوربراچاہنے والوں کے ساتھ بھی نیکی کا سلوک سرفہرست ہیں۔ شریر کا مقابلہ نه کرنے اور بدلہ نہ لینے کی اہمیت کے بارے میں انجیل متی (باب۵،آیات ۲۲ اور ۸ ۳تا۴۲)میںفرمایا گیا ہے:
’’اور تم سن چکے ہو کہ اگلوں سے کہا تھا کہ خون نہ کرنا اور جو کوئی خون کرے گا وہ عدالت کی سزا کے لائق ہوگا اور میں تم سے کہتا ہو ںکہ جو کوئی اپنے بھائی کو پاگل کہے گا وہ عدالت کی سزا اور جو کوئی اسے احمق کہے گا وہ آتش جہنم کا سزاوار ہوگا ۔تم سن چکے ہو کہ تم سے کہا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ دانت کے بدلے دانت ۔میں تم سے کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو کوئی تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے تو دوسرا بھی اس کی طرف پھیردے اورجو کوئی تجھ سے مانگے دے دے اور جو کوئی تجھ سے قرض چاہے منہ نہ موڑ‘‘۔ ۵؎
حضرت عیسیٰ نےاس بات پر زور دیاکہ انسانوں کے ساتھ عدل وانصاف کیاجائے اورخدا کے حضور میں عاجزی ،انکساری اورخاکساری اختیار کی جائے۔خدا سے غیر مشروط محبت کا تقاضہ یہ ہے کہ اس کی مخلوق سے محبت کی جائے۔
حضرت عیسیٰ کی تعلیمات واضح اور سادہ ہیں ان میں اخلاص ،فقر،توکل اور ایثار نمایاں ہیں۔
خلاصہ یہ کہ عیسائیت میں امن و محبت ،بھائی چارہ اور صلح کل کا پیغام ملتا ہے اور یہی اس کے اخلاقی فلسفہ کے نمایاں خدوخال کو متعین کرتا ہے۔
حواشی
۱۔ اسلام کا نظریہ اخلاق ،محمد مظہر الدین صدیقی۔
۲۔ انسائیکلو پیڈیا آف برٹینکا،مقالہ عیسائیت،ص۶۹۳،ج۵۔
۳۔ اخلاقیات ایرانی ادبیات میں ،ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی،ص۸۰،۷۹۔
۴۔ انجیل متی،نیا عہد نامہ،لاہور برٹش اینڈ فارن سوسائٹی،باب ۵،۲۱۰۔
۵۔ مذاہب عالم کا تقابلی مطالعہ،غلام رسول چودھری،ص۴۳۲۔
مشمولہ: شمارہ جولائی 2019