ترکی کے شہر استنبول میں ۱۶؍تا ۱۹؍اپریل ۲۰۱۸ء کے دوران مسلم اقلیتو ں کے حالات اور مسائل پر غور وفکر کے لیے ایک بین الاقوامی اجتماع منعقد ہواتھا۔ اس میں ایشیا، افریقہ، یورپ اور امریکہ کے ۱۲۵؍سے زائد ممالک کے نمائندے شریک ہوئے تھے۔ ان میں چھوٹی آبادیوں کی بھی نمائندگی تھی اور بڑی آبادیوں کی بھی۔محترم امیر جماعت اسلامی ہند نے اس میں شرکت فرمائی۔ جناب عبد اللہ منہام (کیرلا) بھی اس اجتماع میں شریک ہوئے۔ ہندوستان میں مسلمان اصطلاحی معنیٰ میں اقلیت میں ہیں، لیکن اپنی آبادی اور صدیوں پر پھیلی ہوئی تاریخ کے لحاظ سے یہ دنیا کی سب سے بڑی اقلیت کہے جاسکتے ہیں۔ ہندوستانی مسلمانوں کے موجودہ حالات کے پس منظر میںذیل کا مضمون مذکورہ اجتماع میں پیش کیا گیا تھا۔ اسے افادۂ عام کے لیے شائع کیا جارہا ہے۔
ہندوستان کی خصوصیات
ہندوستان ایک وسیع ملک ہے ۔ اس کی آبادی اس وقت ایک سو تیس کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔ اس میں دنیا کے بڑے مذاہب کے ماننے والے پائے جاتے ہیں۔ یہاں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ہندی اور انگریزی کو سرکاری زبان کی حیثیت حاصل ہے۔ یہاں تہذیب اور کلچر اور طرز بود و باش میں بڑا تنوع پایاجاتا ہے۔یہاں مسلمانوں کی آبادی بیس (۲۰)کروڑ کے قریب ہے۔وہ پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کاتناسب کہیں کم اور کہیں زیادہ ہے۔ پورے ملک میں ان کے چھوٹے بڑے دینی تعلیم کے مراکز ہیں، جہاں دین کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ان میں دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء لکھنؤ کو عالمی سطح پر شہرت حاصل ہے۔ ان کے علاوہ سینکڑوں بڑے اور ہزاروں چھوٹے مدارس پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں ، جہاں دینی علوم کی تکمیل کا نظم ہے۔ امت میں ان دینی اداروں کا بڑا اعتبار ہے۔ مسلمانوں کی عام تعلیم کے ادارے بھی ہیں، جن میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی معروف ہیں۔ اسی طرح سینکڑوں کالج ہیں، جن میں حکومت کا منظور شدہ نصاب پڑھایا جاتاہے۔ انہیں حکومت کی سند اور بعض اوقات مالی تعاون بھی حاصل ہے۔
مسلمانوں کے مسائل
ملک کی وسعت اورمسلمانوں کی آبادی کے لحاظ سے یہ تعلیمی ادارے بہت ناکافی ہیں۔اسی وجہ سے مسلمان تعلیم کے میدان میں ملک کی دوسری اقوام سے پیچھے ہیں۔ دین سے ان کی جذباتی وابستگی تو ہے، لیکن ان میں علم دین عام نہیں ہے ۔بہت سے غیر اسلامی رسوم و رواج ان میں جگہ پاچکے ہیں۔ عام تعلیم میں بھی دیگر اقوام ان سے کافی آگے ہیں۔مسلمان معاشی لحاظ سے بھی پس ماندگی کا شکار ہیں۔ ملازمتوں میں ان کا تناسب برائے نام ہے۔ تجارت، صنعت و حرفت میں وہ کم زور ہیں،وسائل کی کمی اور ٹیکنیکل ناواقفیت کی وجہ سے ملک کی دوسری قوموں سےمسابقت نہیں کر پاتے۔
ہندوستان کے دستور و قانون کے لحاظ سےملک میں ہر مذہبی اور تہذیبی اکائی کو اپنے پرسنل لا پر عمل کا حق حاصل ہے۔ مسلمانوں کے لیے بھی اپنے پرسنل لا پر عمل کی آزادی موجود ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت معاشرتی معاملات میں دین پر عمل کرتی ہے۔ بعض معاملات میں ان سے کوتاہی بھی ہوتی ہے۔ قابلِ تشویش بات یہ ہے کہ حکومت او رعدلیہ کی طرف سے پرسنل لا میںجابجا مداخلت ہوتی رہتی ہے۔ قرآن و حدیث سے جو احکام ثابت ہیں اور جن پر امت مسلمہ کااتفاق ہے ان کے خلاف بھی عدالتوں کےفیصلے آجاتے ہیں، جن سے مسلمانوں میں اضطراب کا پیدا ہونا فطری ہے۔ اس مداخلت کے خلاف مسلمان آواز بھی اٹھاتے ہیں اور اپنے اس عزم و ارادے کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ مسلم پرسنل لا میں مداخلت گوارا نہیں کریں گے۔
جارحانہ قوم پرستی
ہندوستان کی سوسائٹی ایک Plural Society (متنوع معاشرہ) ہے۔ یہاں کی آبادی بڑی حد تک تہذیبی اور سماجی رواداری کی روایات رکھتی ہے۔ ہندو، مسلم اور دیگر مذاہب کے لوگ عموماً امن وآشتی کے ساتھ رہتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں شر کت کرتے ہیں۔ اسکول، کالج، دفتر اور بازار، ہر جگہ ایک دوسرے سے سابقہ پیش آتا ہے۔ بہت سے لوگوںکے اندر ملک کی خدمت اور اس کی ترقی کے لیے سعی کا جذبہ پایا جاتا ہے۔
عام آبادی کی خیر پسندی کے باوجودملک کا ایک طبقہ جارحانہ قوم پرستی کاحامل ہے۔ وہ فسطائی ذہن رکھتا ہے اور ملک کو ایک خاص تہذیب اور کلچر کا جبراً پابند بناناچاہتا ہے۔ اس گروہ کی حرکتوں سے یہاں کی دوسری تہذیبی اکائیاں اور اقلیتیں تشویش محسو س کرتی ہیں۔ یہ عنصر خاص طور پر مسلمانوں کوملک دشمن قوم کی حیثیت سے دیکھتا ہے۔ اس کی طرف سے اکثر جھگڑے اور فسادات ہوتے رہتے ہیں ،جن میں انسانوں کا جانی و مالی نقصان ہوتا ہے۔ بعض اوقات انتظامیہ کی تائید بھی مفسد عناصر کو حاصل ہوتی ہے۔ اس وجہ سے مسلمان خود کو پریشانی کی حالت میں محسوس کرتے ہیں۔مسلمانوں اور امن پسند لوگوں کے لیے اطمینان کا پہلو یہ ہے کہ ملکی آئین اس جارحانہ قوم پرستی اور فسطائیت کے خلاف ہے اور اس غلط رجحان کو یہاں کے عوام کی تائید بھی حاصل نہیں ہے۔
جماعت اسلامی ہند
مسلمانوں کی اہم شخصیات، ادارے اور تنظیمیں ان کے مسائل پرامن طریقہ سے حل کرنے، اورانہیں دین و شریعت کا پابند بنانے کی کوشش کررہے ہیں، تاکہ مسلمان اپنی دینی شناخت کے ساتھ زندگی بسر کریں اور ایک بہتر شہری کا کردار ادا کریں۔مناسب ہے کہ میں یہاں جماعت اسلامی ہند اور اس کی خدمات کا مختصر تذکرہ کروں ۔ جماعت اسلامی ہند اس ملک میں مسلمانوں کی ایک بڑی اور منظم جماعت ہے ، جو پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے۔ اس کے ارکان اور کارکنوں کی تعداد ہزار وں میں ہے اس سے ہمدردی رکھنے اور اس کے ساتھ تعاون کرنے والے لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ جماعت کی کوشش ہے کہ اس سے وابستہ افراد اسلامی تعلیمات کے پابند ہوں اور اپنی سیرت و کردار سے اسلام کا نمونہ پیش کریں۔
ملک میں مسلمان تقریباً پندرہ فیصد( ۱۰۰/۱۵) اور غیر مسلم پچاسی(۱۰۰/۸۵) فیصد ہیں۔ جماعت کی کوششوں کا ایک خاص ہدف یہ ہے کہ یہاں غیر مسلم آبادی میں اسلام کا وسیع تعارف ہو۔ انہیں بتایا جائے کہ اسلام اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ دین ہے، وہ پوری نوع انسانی کے لیے سراپا رحمت ہے، اس میں دنیا اور آخرت کی فلاح ہے۔ جماعت کی کوشش ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں جو غلط فہمیاں ہیں وہ دور ہوں اور اسلام کی صحیح تصویر ملک کے سامنے آئے۔ اسلام کے تعارف کے لیے جماعت نے ملک کی چودہ بڑی زبانوں میں قرآن ، حدیث اور سیرت کے تراجم فراہم کیے ہیں اور وسیع لٹریچر تیار کیا ہے۔اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے وہ تمام مروّجہ اور جائز ذرائع استعمال کرتی ہے۔
جماعت کےکام کا دوسرا میدان امت مسلمہ کی اصلاح و تربیت ہے۔ جماعت کوشش کرتی ہے کہ اُمت دین سے پوری طرح واقف ہو ، اس کے اندر روح دین پیدا ہو، خاص طور پر اپنی عائلی زندگی میں وہ اسلام کے احکام کی پابند ہو او رمسلمانوں میں مثالی خاندان وجود میں آئیں ۔
خدمت خلق
تعلیم کے میدان میں بھی جماعت اپنا رول ادا کررہی ہے۔ ملک میں پانچ سو سے زیادہ جماعت سے متعلق تعلیمی ادارے کام کررہے ہیں۔ ان میں ابتدائی درجات سے لے کر ہائی اسکول اور کالج تک کے ادارے شامل ہیں ۔ دینی درس گاہیں بھی ہیں، جہاں دینی علوم کی اعلیٰ تعلیم دی جاتی ہے۔
جماعت بڑے پیمانے پر خدمت خلق کا فرض بغیر کسی فرق و امتیازکے انسانی بنیاد پر انجام دیتی ہے۔ ارضی و سماوی آفات میں ریلیف فراہم کرتی ہے۔ اس طرح اس نے چھوٹے بڑے دواخانے پورے ملک میں قائم کیے ہیں۔ ان سے سب ہی باشندگانِ ملک فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ وہ طلبہ کو اسکالرشپ (وظائف) دیتی ہے ، بے روزگاروں کو اپنی استطاعت کے مطابق روزگار فراہم کرتی ہے،جو مدد کے مستحق ہیں ان کی مدد کرتی ہے۔جماعت مختلف مذاہب کے پیرووں کے درمیان خوش گوار تعلقات برقرار رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ امن و امان کے قیام اور عام انسانی مسائل کے حل کے لیے مذہبی، سماجی و سیاسی شخصیات اور تنظیموں سے ربط رکھتی ہے ۔ بہتر فضاکے فروغ کے لیے اس نے بعض مشترکہ فورم بھی قائم کیے ہیں۔
اتحاد امت
جماعت مسلمانوں کی دینی اور سیاسی تنظیموں سے مسلسل ربط رکھتی ہے۔ مسلمانوں کے مابین اتحاد کے لیے مشترکہ پلیٹ فارم موجود ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ مسائل پیدا ہوں تو انھیں مشترکہ طور پرحل کیا جائے اور ملت کی تعمیر و ترقی کے پروگراموں کو مل جل کر زیر عمل لایا جائے۔جماعت کی طرف سے حکومت کواس کی ذمہ داریوںکی ادائیگی اور عام انسانی مسائل کے حل کی طرف بروقت متوجہ کیاجاتا ہے۔حکومت کی فلاحی اسکیموں سے استفادہ کے لیے عوام کی رہ نمائی کی جاتی ہے۔
بلا شبہ یہ خدمات ،ملک و ملت کی ضروریات اور تقاضوںکے لحاظ سے بہت کم ہیں۔ انہیں زیادہ بڑے پیمانہ پر انجا م دینے کی ضرورت ہے۔ جو کوششیں ہورہی ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں موثر بنائے، شرف قبولیت سے نوازے اور مزید خدمت کی توفیق عطا فرمائے۔
مشمولہ: شمارہ جولائی 2018