انسانی معاشرے کے ترقی پذیر ہونے اور مضبوط ہونے کا اصل معیار اخلاقی اقدار ہیں۔ اخلاقیات ہی سے کوئی فرد یا معاشرہ حقیقتاً خوب صورت و معتدل بنتا ہے۔ انسانی رویوں و عادات کا بھی راست تعلق اخلاقیات ہی سے ہوتا ہے۔ اخلاقیات ہی سے ایک شخص میں ایمان داری، صداقت، عدم تشدد، قوت برداشت، عدل و احسان، سخاوت و فیاضی اور صلہ رحمی جیسی اعلی و بلند قدریں پروان چڑھتی ہیں۔ اخلاقیات ہی کے ذریعے احساس کم تری، تعصب، تکبر، بغض و حسد، شح نفس اور بخل جیسے سفلی جذبات سے انسان کی شخصیت پاک ہوتی ہے۔ اخلاقی زوال انسانی معاشرے کو ذہنی دیوالیہ پن و تنگ نظری کی کھائی میں لے جاتا ہے اور معاشرہ تشتّت و انتشار کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ علامہ سید سلیمان ندویؒ اپنی مشہور کتاب ’سیرت النبی ’میں لکھتے ہیں:
’’دنیا کی ساری خوشی ،خوش حالی اور امن وامان اسی اخلاق کی دولت سے ہے۔ اسی دولت کی کمی کو حکومت وجماعت اپنے طاقت و قوت کے قانون سے پورا کرتی ہے۔ اگر انسانی جماعتیں اپنے اخلاق وفرائض کو پوری طرح از خود انجام دیں تو حکومت کے جبری قوانین کی کوئی ضرورت ہی نہ رہے۔ اس لیے بہترین مذہب وہ ہے جس کا اخلاقی دباؤ اپنے ماننے والوں پر اتنا ہو کہ وہ ان کے قدم قدم کو سیدھے راستے سے بہکنے نہ دے۔‘‘ (سیرت النبی، سید سلیمان ندوی، جلد ششم)
دنیا کے تمام مذاہب کی تعلیمات میں اخلاقی قدروں کو بنیادی حیثیت حاصل رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان تعلیمات کو عملی زندگی سے بے دخل کر دیا گیا اور ان ذرائع (کتب و صحائف) میں بھی تحریف کر دی گئی جہاں سے دوبارہ ان تعلیمات کو زندہ کیا جاسکے۔ اسلام کو یہ شرف و انفرادیت حاصل رہی کہ اللہ نے اسلامی نظام اخلاق کو قرآن و اسوۂ حسنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے قیامت تک کے لیے محفوظ کر دیا، تاکہ جب کبھی مسلمان اخلاقی زوال یا کم زوری کا شکار ہوں تو وہ اس سرچشمہ کی طرف رجوع کرکے اپنی قوت کو دوبارہ حاصل کر سکیں۔
اسلام میں اخلاقیات کی اہمیت و حیثیت کا اندازہ رسول اللہﷺ کی اس حدیث سے لگایا جا سکتا ہے إنما بعثت لأتمم مكارم الأخلاق (رواہ البخاری)‘‘مجھے تواعلی اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہے ’’ یعنی اخلاقیات دین کی کوئی جزوی یا معمولی چیز نہیں ہیں بلکہ ان کی مرکزی حیثیت ہے۔ اسی لیے قرآن نے بہت تفصیل سے اور مختلف انداز میں اخلاقیات کو موضوع بحث بنایا ہے۔ اسلامی اخلاقیات عدل و امن، خونی رشتوں کی حرمت و صلہ رحمی، والدین کے ساتھ حسن سلوک، اولاد کی اعلی تربیت، فحاشی و بےحیائی کا سد باب، عفت و عصمت کی حفاظت، پڑوسیوں کے حقوق، کم زوروں اور مظلوموں کی مدد، سچ کی گواہی جیسے انسانی معاشرے کے تمام پہلوؤں کو موضوع بحث بناتی ہے۔ اسلام کی یہ اخلاقی قدریں آفاقی بھی ہیں اور قابل عمل بھی۔
موجودہ دنیا کا سب سے بڑا المیہ اخلاقی انحطاط و زوال ہے، جس کی وجہ سے انسانی معاشرہ ایسے لوگوں کی آماج گاہ بن گیا ہے جن کی زندگیاں مادہ پرستی و خود غرضی کے دلدل میں پھنسی ہیں۔ ہر روز اس طرح کے واقعات و حادثات انسانی معاشرے میں پیش آتے ہیں جن کی توقع وحشی درندوں سے بھی نہیں کی جا سکتی۔ ہمارے ملک بھارت میں چند دنوں پہلے آسام کے ضلع درنگ میں ایک شرم ناک واقعہ پیش آیا جس میں پوری دنیا نے دیکھا کہ ایک شخص نفرت کے نشے میں بدمست کس طرح لاش پر اچھل رہا ہے۔ اس طرح کے کئی واقعات کی خبریں آئے دن ہم سنتے ہیں۔ لیکن ہمارے معاشرے میں مجموعی طور پر ایسی بے چینی یا تشویش کا مظاہرہ ان خبروں پر نہیں ہوتا جس سے موجودہ معاشرے کو بااخلاق معاشرہ کہا جا سکے۔ کیوں کہ بااخلاق معاشرہ ظلم و استحصال پر خاموش نہیں رہ سکتا۔ قرآن کریم اس تعلق سے حکم دیتا ہے :
یا أَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِینَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَینِ وَالْأَقْرَبِینَ إِن یكُنْ غَنِیا أَوْ فَقِیرًا فَاللَّهُ أَوْلَىٰ بِهِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَىٰ أَن تَعْدِلُوا وَإِن تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرًا
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو فریق معاملہ خواہ مال دار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیر خواہ ہے لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے (سورة النساء آیت 135)
اخلاقی اقدار معاشرے کے اجتماعی ضمیر کو زندہ رکھتی ہیں اور زندہ معاشرہ ظلم و استحصال کے خلاف مضبوط آواز بن کر کھڑا رہتا ہے۔ اگر کسی معاشرے میں کسی طبقے، کسی ادارے یا حکومت کے ظلم و استحصال اور نا انصافی کو برداشت کیا جا رہا ہو تو یہ اس معاشرے کی اخلاقی موت کے مترادف ہے۔ قرآن عدل و انصاف کے تعلق سے اس قدر حساس ہے کہ وہ دشمن کے خلاف بھی نا انصافی کا روادار نہیں۔کہا گیا:
یا أَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِینَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا یجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِیرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جاؤ۔ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے (سورة المائدة آیت 8)
یہ بھی اخلاقی اقدار کی عدم موجودگی کی علامت ہے کہ انسانی خون اور انسانی عزت و عصمت کو بہت معمولی سمجھا جانے لگے۔ پھریہ جرائم اس وقت مزید سنگین ہو جاتے ہیں جب انسانی جان و عزت کی بے حرمتی رنگ و نسل اور مذہب کی بنیاد پر کی جانے لگے اور اس پر سماج کی اکثریت خاموش تماشائی کا کردار ادا کرے۔ ہندوستانی معاشرے کی موجودہ صورت حال پر نظر ڈالی جائے تو اس بات کو شدت سے محسوس کیا جا سکتا ہے کہ نسل پرستی و مذہبی نفرت کی جڑیں یہاں کس قدر گہری ہیں۔ پچھلے چند برسوں میں، کتنے ہی لوگ نفرتی بھیڑ کے اشتعال کا شکار ہوئے۔ کسی کو بازار میں لوگوں کے سامنے بے دردی سے پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا۔ کسی کی ٹرین میں لنچنگ کی گئی۔ اس طرح کے واقعات کا سب سے شرم نا ک پہلو یہ ہے کہ یہ سب واقعات لوگوں کی موجودگی میں ہوئے اور لوگوں کی بھیڑ میں ایک بھی شخص میں اتنی اخلاقیات نہیں تھی کہ انسانی جان کو بچانے کے لیے آگے آئے۔ سماج کی بہت بڑی دلت و آدیباسی آبادی آج بھی سماجی عدل سے محروم ہے۔ ہندو مسلم فسادات کی ایک طویل تاریخ ہے جو اب انتہائی تشویش ناک صورت حال اختیار کر گئی ہے۔ ایسے میں یہ ضروری ہے کہ معاشرے کے اجتماعی ضمیر کے سامنے ان اخلاقیات کو پرزور انداز میں پیش کیا جائے جو انسانی خون و عزت کو تکریم و شرف عطا کرنے والی ہے۔ معاشرے کو بتایا جائے کہ ایک انسان کا نا حق قتل پوری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔ نسل پرستی اور قومی تفاخر کے خلاف رسول اللہ ﷺ کا یہ قول فیصل دنیا کو سنایا جائے کہ
’’اے لوگو! بے شک تمھارا رب بھی ایک ہے اور تمھارا باپ بھی ایک۔ آگاہ رہو! کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی سفید فام کو کسی سیاہ فام پر اور کسی سیاہ فام کو کسی سفید فام پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ فضیلت کا معیار صرف تقویٰ ہے۔ تم میں سے اللہ کے نزدیک زیادہ عزت کا مستحق وہ ہے جو زیادہ حدود کا پابند ہے۔‘‘ (مسند احمد)
اخلاقیات ہی انسان کو اتنا مضبوط بناتی ہیں کہ وہ ان بھیدبھاؤ والے رویوں سے خود کو بچائے اور ان رویوں کے خلاف مہم کا حصہ خود کو بنائے۔ اہل ایمان کا موجودہ حالات میں سب سے بڑا فریضہ یہی ہے کہ وہ اسلام کے اخلاقی نظام کے مطابق خود کو ڈھالیں اور اس کی آفاقیت اہمیت و ضرورت سے لوگوں کو آگاہ کر سماج میں ان اقدار کو جاری کرنے کے لیے جدوجہد کریں۔
مشمولہ: شمارہ مئی 2022