ربِّ کائنات کی کبریائی کا اعلان

عید الفطر کے چند دن بعد ، جماعت اسلامی ہند کی جانب سے انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر دہلی میں یکم ؍جولائی 2017 کی شام کوعید کی مناسبت سے ایک پُر وقار تقریب کا اہتمام کیا گیا ۔ مسلمانوں اورغیر مسلموں کی بڑی تعداد اس تقریب میں مو جود تھی جن میں اہلِ علم ودانش ، ذرائع ابلاغ کے نمائندے ، سماجی وسیاسی کارکن ، ملِّی شخصیات اورسفارت خانوں سے متعلق احباب شامل تھے۔ اس موقع پر محترم امیر جماعت اسلامی ہند ، جناب سید جلال الدین عمری نے خطاب فرمایا ۔ اس خطاب کا انگریزی ترجمہ بھی پیش کیا گیا ۔ افادہ عام کے لئے اس اہم تقریر کوذیل میں درج کیا جارہا ہے۔

الحمد للہ رب العالمین، والصلوٰۃ والسلام علیٰ رسولہِ الکریم

میں اپنی طرف سے اورجماعت اسلامی ہند کی طرف سے آپ سب کا عید الفطر کے بعد منعقد اس تقریب میں، خلوصِ دل سے خیر مقدم کرتا ہوں اور عید کی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

بالخصوص میں اپنے غیر مسلم برادران وطن کا استقبال کرتا ہوں اورانہیں خوش آمدید کہتاہوں جو اس موقع پر تشریف لائے اور ہماری اس خوشی میں شریک ہوئے ۔ رمضان المبارک کے بعد عید الفطر یہ پیغام لے کر آتی ہے کہ اِنسانوں کی اِس دنیا میں ربِ کائنات کی کبریائی کا اعلان کیا جائے۔

بزرگو اور بھائیو!

اس وقت ہمارا یہ ملک نازک حالات سے گزررہا ہے اِن حالات سے ہم سب واقف ہیں ملک کا امن وامان درہم برہم ہورہا ہے ، گر چہ عید، خوشی کا موقع ہے مگر حالات سے ہم بے تعلق نہیں رہ سکتے ۔ واقعہ یہ ہے کہ مختلف طبقات کے درمیان دوری پیدا کی جارہی ہے ، اقلیتوں اورکم زور طبقات کومظالم کا نشانہ ٹارگٹ بنایا جارہا ہے ۔ چھوٹی چھوٹی باتوںکو  بہانہ بنا کر لوگوں کو زدو کوب کیا جارہا ہے ، بے قصورں کی جان لی جارہی ہے ۔ قانون کی بالادستی شمالی ہند کی ریاستوں میں گویا ختم ہورہی ہے اور لا قانو نیت پھیل رہی ہے ۔ مجرم اور خطا کار قانون کی گرفت سے عملاً آزاد ہیں ۔ اس صورت حال میں ملک کے سنجیدہ اوربہی خواہ اصحاب وحلقوں کوفکر مند ہونا چاہیے۔  یہ فضا شدید نقصان دہ ہے۔ کسی قدر اطمینان اس امر پر کیا جاسکتا ہے کہ حال میں پورے ملک میں اس ظلم پر احتجاج ہوا ہے اور زیادتیوں کی مذمت کی گئی ہے ۔ اس سے محسوس ہوتا ہے کہ ابھی ملک میں انسانیت کے احترام کا جذبہ موجود ہے ۔ امید ہے یہ جذبہ فروغ پائے گا اورظلم و چیرہ دستی  پر قابو پایا جاسکے گا۔

حیاتِ طیبہ

دوستو اور ساتھیو! مظلوموں کے ساتھ بعض اچھے لوگوں کی اس  ہمدردی کے باوجود ملک کی موجودہ صورت حال سے ہم سب پریشان اورمضطرب ہیں۔ دل دکھتا ہے کہ آخر اس ملک وسماج کا کیا ہوگا؟ اس پریشانی میں  اللہ کی کتاب قرآن مجید کوکھولتا ہوں تو وہاں سے آواز آتی ہے : من عمل صالحا من ذکر اوانثی وہو مومن فلنحیینہ حیوۃ طیبۃ ولنجزینہم اجرہم باحسن ماکانوا یعملون ۔ (النحل:۹۷)

’’ جس نے نیک کام کیے چاہےوہ مرد  ہو یا عورت مگر ہو مومن، تو ہم اُسے پاکیزہ زندگی بسر کرائیںگے۔ اور ایسے لوگوں کوہم اُن کے بہترین کاموں کا اجر دیں گے‘‘۔

یہ بات کسی انسان کی طرف سے نہیں کہی جارہی بلکہ اس خدائے ذو الجلال کی طرف سے اعلان ہورہا ہے ،جو اس کائنات کا خالق ومالک ہے اس کے ہاتھ میں قوموں کی تقدیر ہے وہ ہر فرد بشر مرد، عورت کواطمینان دلاتا ہے کہ اگر دلوں میں اللہ پر ایمان موجودہے، اس کی ہدایت ورہنمائی پر اطمینا ن ہے اس حقیقت پر یقین ہے کہ مرنے کے بعد پوری زندگی کا خدا کوحساب دینا ہوگا ۔ پھر اس یقین کے مطابق اچھا عمل بھی موجود ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے انسان کو ’حیاتِ طیبہ‘ اورپاکیزہ زندگی عطا کرے گا۔

پاکیزہ زندگی ، وہ ہے جس میں آدمی اخلاق کا پابند ہو ، اس کے کردار میں صداقت ، راستی، دیانت وامانت ہو، انسانوں کی خیر خواہی کا جذبہ ہو۔ اس کی سیرت میں دھوکا ، مکروفریب نہ ہو ۔ وہ دوسروں کا استحصال (EXPLOITATION) نہ کرے۔ سماج اور ملک وقوم کونقصان نہ پہنچائے۔ کوئی یہ نہ خیال کرے کہ اس کردار کی وجہ سے باکردار آدمی مفلس ہوجائے گا  اوردوسروں کا دست نگر بن جائےگا۔ نہیں۔ بلکہ اس کے حصہ کی روزی اسے ضرور ملے گی ۔ صحیح بات یہ ہے کہ اس اعلیٰ کردار کی وجہ سے امید ہے کہ دنیا میں بھی خوش حالی اس کے قدم چومے گی اورآخرت کی فلاح و کامرانی بھی اسے حاصل ہوگی۔

یہ راستہ فرد اختیار کرے تو وہ کامیاب ہے اور یہ راستہ اگر کوئی قوم اختیار کرتی ہے تو قرآن کہتا ہے کہ مادّی ترقی کے راستے بھی اس پر کھلتے ہیں ، زمین اپنے خزانے اس کی بھلائی کے لیے اگل دیتی ہے اور آسمان سے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی بارش ہونے لگتی ہے ۔

رمضان کے اثرات

دوستو اوربھائیو! ابھی رمضان کا مہینہ گزرا ہے ، جس میں روزے رکھے گئے ۔ روزہ کوئی رسم و رواج یا قومی روایت نہیں ، یہ کوئی سماجی عمل نہیں جس کی بلا سوچے سمجھے پابندی کی جاتی ہوبلکہ یہ اللہ کی جانب سے عائد کردہ فرض ہے۔یہ انسان کی دینی اوراخلاقی تربیت کا، انسان کو کارگر فرد اور بہترین پڑوسی بنانے کا ذریعہ ہے ۔ یہ اسی حیاتِ طیبہ کے لیے انسان کوتیار کرتا ہے جس میں دنیا اورآخرت کی فلاح وکام رانی ہے ۔

انسان کی ایک کمزوری خود غرضی ہے ۔ اس کے سامنے عام طورپراپنا مفاد ہوتا ہے ۔ زیادہ سے زیادہ اپنے خاندان کا اور اپنے متعلقین کا مفاد ہوتا ہے ۔ اس مفاد کے حصول کی خاطر وہ صحیح اور غلط،  ہر طریقہ اختیار کرتا ہے ۔ ہر طرح کی جعل سازی کرتا ہے ۔ رشوت کالینا، دینا اس کے لیے آسان ہوتا ہے۔ وہ ایسے اقدامات بھی کر گزرتا ہے جوپورے معاشرے کے لیے ضرر رساں ہوتے ہیں ۔ اپنے مفاد کے لیے وہ ملک وقوم کو بھی داؤ پر لگا دیتا ہے ، وہ ملک کے خفیہ رازفروخت کرتا ہے دشمن کے لیے جاسوسی کرتا اور غداری کا مرتکب ہوسکتا ہے ۔

روزہ انسان کے اندر کنٹرول(ضبطِ نفس) پیدا کرتا ہے۔ اس کا ایک مقصد یہ ہے کہ آدمی مادی نفع ونقصان کی فکر سے بلند ہو جائے ہمیشہ صداقت اور راستی کااختیار کرے۔ روزہ رکھ کر بھی آدمی دروغ گوئی اور کذب بیانی سے باز نہ آئے اور جھوٹ پر عمل جاری رکھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ یہ روزہ محض بھوک پیاس ہے اوراللہ تعالیٰ کواس کی حاجت نہیں کہ اِنسان بلا وجہ بھوکار ہے۔

روزہ انسان کو،  انسانوں کے دکھ درد کو سمجھنے اوران کی مدد کرنے پر آمادہ کرتا ہے ۔ خود غرضی کی جگہ مودت و مواسات اورہمدردی کا جذبہ اُبھارتا ہے ۔ دولت سمیٹ کررکھنے کی جگہ دولت خرچ کرنے کی ترغیب دیتا ہے ۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت معروف تھی ۔ کسی حاجت مند کوخالی ہاتھ نہیں لوٹاتےتھے۔ رمضان کے مہینہ میں آپ کی یہ کیفیت ہوتی  جیسے جودو سخا کی باد بہار آگئی ہو۔

تربیت کیسے؟

انسانوں کی ایک کم زوری جذباتیت ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر لوگ قابو میں نہیں رہتے اوردست وگریبا ں ہوجاتے ہیں۔ حتیٰ کہ ایک دوسرے کا ناحق خون بہادیتے ہیں۔ معاشرے میں کشت و خون کے بہت سے واقعات اسی جذباتیت کا نتیجہ ہیں۔ رمضان اس امر کی تعلیم دیتا ہے کہ بھوک پیاس کی شدت میں بھی آدمی اپنے جذبات پر قابو رکھے اورکوئی لڑنے کے لیے آمادہ ہوتو کہہ دے کہ میرا روزہ مجھے اس کی اجازت نہیں دیتا کہ تمہارا جواب دوں۔

اس وقت سماج کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ماحول میں جنسی جذبات بھڑکادیے گئے ہیں کہ آدمی کے لیے ان پر قابو پانا مشکل ہورہاہے ۔ اس کی وجہ سے جنسی آوارگی عام ہے ۔ خواتین کی عزت وعصمت محفوظ نہیں رہ گئی ہے۔ زنا بالجبر Rape کے واقعات کیس بڑھتے جارہے ہیں ۔ عورت خود کو گھر کے اند ر اورباہر ہر جگہ غیر محفوظ پارہی ہے ۔ روزہ آدمی کو جنسی خواہش پر کنٹرول کی تعلیم دیتا ہے۔

روزہ در اصل جامع  ضبطِ نفس Self Control کی تربیت ہے ۔ یہ تربیت صحیح معنیٰ میں حاصل ہوتو پورا معاشرہ نمونہ کا معاشرہ بنے گا۔ اس بہترین تربیت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے اثرات کو سال بھر زندہ رکھا جائے۔ ضرورت ہے کہ رمضان  میں ایمان والوں نے قرآن مجید سے جوکچھ سیکھا اُس کواِنسانوں تک پہنچائیں اور اِنسانو ں کے خالق کی کبریائی کا اعلان کریں ۔ جب اِنسان، اللہ وحدہٗ لا شریک کی بندگی کریں گے اور باطل معبودوں کی بندگی سے  باز آجائیں گے تودنیا امن وسلامتی سے ہم کنار ہوگی اورآخرت میں صالحین کو فلاح وکامیابی نصیب ہوسکے گی۔ آئیے حق کے پیغام سے خود فائدہ اُٹھائیں اوراپنے پڑوسیوں کوحق سے واقف کرائیں۔

مشمولہ: شمارہ اگست 2017

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223