اسلام کے امتیازات

اسلام ایک ہمہ گیر  اور آفاقی دین ہے،  اس کی تعلیمات انسان کی پوری زندگی کو محیط ہیں اوریہ زندگی کے ہر  پہلو،ہر لمحہ اور ہر موضوع کی اس خوب صورتی سے وضاحت کرتا ہے کہ زندگی کا کوئی مرحلہ اس کی رہ نمائی سے محروم نہیں رہتا۔اسلام ہی حقیقی طریقِ زندگی اور صحیح طرز فکروعمل ہے،اسی لئے اسلام کے سواکوئی دوسرا مذہب اللہ کے نزدیک  قابل قبول نہیں ہے ۔

بنی نوع انسان کی نجات اور کامیابی دین اسلام میں ہی ہے ۔

دین اسلام کی عالمگیر اور آفاقی خوبیوں اور محاسن کی بنا پراس کے دشمنان اور حاسدین روزِاول سے ہی اس کے خاتمے کے لئے کوشاں ہیں لیکن ان کی کوششیں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتیں کیونکہ یہ اللہ کا پسندیدہ دین ہے۔

دین اسلام اپنی جامعیت اور تعلیمات کے کامل ہونے کی بنا پر دیگر مذاہبِ عالم پر فوقیت رکھتا ہے ۔یہ دوسرے تمام مذاہب سے ممتاز ہے ۔ذیل میں اسلام کی ان خوبیوں اور اوصاف کا تذکرہ کیا جاتا ہے جو  اس کو دیگر مذاہب  اور نظریات سے ممتاز کرتے ہیں۔

نام کے اعتبار سے امتیاز

دنیا میں جتنے مذاہب ہیں ان میں سے اکثر کسی مخصوص شخصیت یا  خاص علاقہ کی طرف منسوب ہیں ۔ اسلام کی یہ خوبی ہے کہ  اس کا نام کسی شخصیت یا علاقہ کی مناسبت سے نہیں رکھا گیا، بلکہ اس کے نام میں ایک پیغام دیا گیا ہے کہ جو فرد بھی  اس دین کو قبول کرے گا وہ امن اور سلامتی میں آجائے گا۔مولاناسید ابوالاعلیٰ مودودی ؒلکھتے ہیں:

’’دنیا میں جتنے مذاہب ہیں ان میں سے ہر ایک کا نام یا تو کسی خاص شخص کے نام پر رکھا گیا ہے یا اس قوم کے  نام پر جس میں وہ مذہب پیدا ہوا۔مثلاََ عیسائیت کا نام اس لیے عیسائیت ہے کہ اس کی نسبت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف ہے۔بدھ مت کا نام اس لیے بدھ مت ہے کہ اس کے بانی مہاتما بدھ تھے۔زرتشتی مذہب کا نام اپنے بانی زرتشت کے نام پر ہے۔یہودی مذہب ایک خاص قبیلہ میں پیدا ہوا جس کا نام یہودہ تھا۔ایسا ہی حال دوسرے مذاہب کے ناموں کا ہے۔مگر اسلام کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ کسی شخص یا قوم کی طرف منسوب نہیں ہے، بلکہ اس کا نام ایک خاص صفت کو ظاہر کرتا ہے جو لفظ’اسلام ‘کے معنی میں پائی جاتی ہے‘‘۔(دینیات، طبع لاہور ص ۹۔۱۰)

ازلی، قدیم اور دائمی دین

اسلام  اللہ کا پسندیدہ پیغام ہے، جس کی مقدس شمع آدم علیہ السلام سے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک جملہ انبیاء اپنے اپنے دور میں روشن کرتے رہے۔ اس کی تکمیل اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے فرمائی ہے۔گویاحضرت آدم علیہ السلام سے رسول اکرمﷺ تک جتنے بھی انبیاء آئے انہوں نے اسلام ہی کی دعوت دی ۔مولانامودودی ؒلکھتے ہیں:

’’یہ در حقیقت کوئی جدید العہد مذہب نہیں ہے جس کی بنا پر اب سے ۱۳۶۳ برس پہلے عرب میں محمد صلی اللہ علیہ وسلّم نے ڈالی ہو،بلکہ جس روز پہلی مرتبہ اس کرۂ زمین پر انسان کا ظہور ہوا اسی روز خدا نے انسان کو بتا دیا تھا کہ تیرے لئے صرف یہ ِ’الاسلام‘ہی ایک صحیح طرز عمل ہے۔ اس کے بعد دنیا کے مختلف گوشوں میں وقتاََ فوقتاََجو پیغمبر بھی خدا کی طرف سے انسانوں کی رہ نمائی کے لیے مامور ہوئے ہیں ان سب کی دعوت بھی بلااستثناء اسی اسلام کی طرف رہی ہے جس کی طرف بالآخر محمد صلی اللہ علیہ وسلّم نے دنیا کو دعوت دی۔ یہ اور بات ہے کہ موسیٰ کے پیرووٗں نے بعد میں بہت سی مختلف چیزوں کی آمیزش کرکے ایک نظام یہودیت کے نام سے اور مسیح کے پیرووٗں نے دوسرا نظام مسیحیت کے نام سے،اور اسی طرح ہندوستان ،ایران،چین اور دوسرے ممالک کے پیغمبروںکی امتوں نے مختلف مخلوط و مرکب نظامات دوسرے ناموں سے بنالیے ہوں ،لیکن موسیٰ اور مسیح اور دوسرے تمام معروف و غیر معروف انبیاء جس دین کی دعوت دینے آئے تھے وہ خالص اسلام تھا نہ کہ کچھ  اور ۔‘‘(دین حق ، طبع لاہور، ص ۷۔۸)

پروفیسر خورشید احمد لکھتے ہیں:

’’اکثر لوگ اسلام کی ابتدا حضرت محمد صلی اللہ علہ وسلّم سے کرتے ہیں، لیکن یہ درست نہیں ۔ اسلام وہی مذہب ہے جس کی تبلیغ واشاعت حضرت آدمؑ سے لے کرآں حضرت صلی اللہ علیہ وسلّم تک ہر پیغمبر نے کی۔حضرت ابراہیم علیہ السلام،حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سب درحقیقت مسلمان تھے اور اسلام کے داعی،لیکن بعد میں ان کے پیروؤں نے ان کی تعلیمات مسخ کر ڈالیں۔عیسائیت اور یہودیت درحقیقت اسلام ہی کی بگڑی ہوئی شکلیں ہیں ‘ ‘ ۔ (اسلامی نظریۃ حیات، طبع کراچی ، ص ۶۶)

عالم گیر دین

دین اسلام کسی خاص خاندان،کسی قبیلے،کسی ملک یا کسی زبان والوں کے لیے مخصوص نہیں ہے، بلکہ عالم انسانی کے لیے اس کو نازل کیا گیاہے۔اس سے پہلے تمام انبیاء کسی مخصوص علاقہ یا مخصوص قوم کی طرف مبعوث کئے گئے تھے ، جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر فرمایاہے:(ملاحظہ کیجئے ہود : ۲۵،۵۰،۶۱،۸۴،الصف:۶)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم نے اس کی وضاحت یوں فرمائی ہے:

وَکَانَ النَّبِیُّ یُبْعَثُ إِلَی قَوْمِہِ خَاصَّۃً وَبُعِثْتُ إِلَی النَّاسِ عَامَّۃً(بخاری : ۳۳۵)

’’ہر نبی خاص اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا اور میں تمام آدمیوں کی طرف بھیجا گیا ہوں۔‘‘

اسلام کے علاوہ جو مذاہب ہیں ان میں یہ خاصیت نہیں ہے کہ وہ سارے عالم کی رہ نمائی کرسکیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بعثت کا مقصد تورات میں جو بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات دلانابتایا گیاہے  ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت کا مقصد انجیل میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ یہودیوں کی اصلاح کریں۔ ان کا قول ہے:

’’میں اسرائیل کے گھر کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے علاوہ اور کسی کے لیے نہیں بھیجا گیا‘ ‘ ( متی  : ۱۵:۱۰)انجیل میں ہے کہ حضرت عیسیٰؑ نے جب اپنے بارہ حواریوں کو تبلیغ کے لیے بھیجا تو ان کو ہدایت فرمائی:

’’غیریہودی  قوموں کی طرف نہ جانا۔اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا۔بلکہ بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا۔‘‘(متی: ۱۰: ۵۔۶)

ڈاکٹر محمد ذکی لکھتے ہیں:

’’اسلام سے پہلے کوئی انقلاب ایسا روٗنما نہیںہوا جسے انسانی اور عالم گیری انقلاب کہا جاسکے۔دنیا میں جتنے انقلاب برپا ہو ئے ہیں وہ زیادہ سے زیادہ قومی انقلاب تھے۔وہ انگلینڈو امریکہ کا انقلاب  ہویا فرانس،اٹلی یا روس کا،سب کا مقصد زیادہ سے زیادہ اپنے ملک میں تبدیلی لانا تھا۔انقلابیوں کے سامنے ایک مخصوص طبقہ یااپنی ہی قوم کا مفاد تھا۔اس سے باہر نہ ان کی نظریں اٹھیں نہ دوسرے اس میں شریک ہوئے ،مثلاََفرانس میں انقلاب برپا ہوا تو ہندوستان کا کبھی بھی اس سے کوئی تعلق نہیں رہا۔فرانس کے لوگ فرانس ہی کے نظام میں تبدیلی کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔ان کا مقصد کبھی یہ نہیں رہا کہ ایسی ہی تبدیلی ساری دنیامیں ہو اور ساری دنیا کے مروّجہ نظام الٹ کر ایسا نظام قائم ہوجائے جیسا کہ وہ فرانس میں لانا چاہتے تھے۔یہی بات دوسرے انقلابات کے بارے میں کہی جاسکتی ہے‘ ‘ ۔

اسلام کی تعلیمات میں  قیامت تک انسانوں کے لیے رہ نمائی موجود ہے یہ تعلیمات ہر دور اورہر زمانہ کے بدلتے ہوئے احوال و تغیرات کا حل پیش کرتی ہیں ۔

متوازن دین

اسلام متوازن اور اعتدال پسند دین ہے۔ اس کی تعلیمات اور احکام میں توازن پایا جاتا ہے۔ اس نے ہر معاملۂ انسانی میں اعتدال کا حکم دیاہے اور افراط و تفریط کا خاتمہ کیا ہے۔عیسائیوں نے اعتدال کا راستہ چھوڑکر رہبانیت کو قربِ الٰہی کا ذریعہ قرار دیا۔ بدھ مت میں نروان کے حصول کے لیے بھکشوبننالازم قرار دیاگیا ، ہندومت میں یوگی بننے کو نجات کا راستہ خیال کیا گیا ہے ، اسی طرح دیگر مذاہب میں بھی اعتدال کے راستے کو چھوڑ کر غیر فطری طریقوں کو اختیار کیا گیا،جب کہ اسلام میں توازن اور اعتدال کی تعلیمات دی گئی ہیں۔پروفیسرخورشید احمد لکھتے ہیں:

’’اسلام کی تعلیمات نہایت ہمہ گیر اور جامع ہیں۔اسلام انفرادی زندگی کے لیے بھی ہدایات دیتا ہے اور اجتماعی زندگی کے لیے بھی۔اسلام میں جتنی اہمیت اخلاقی نظام اور عبادت کی ہے اتنی ہی اہمیت سیاسی،معاشرتی،تمدنی اور اقتصادی نظام کی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اسلام کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں نہ انسان کو لامحدود آزادی دی گئی ہے اور نہ اسے بے انتہا جکڑ کر رکھا گیا ہے ۔قرآن و سنّت کے ذریعے زندگی کے بنیادی اصول متعین کر دیے گئے ہیں۔ان اصول کی روشنی میں ہر زمانہ کے حالات کے تحت قوانین مدوّن کیے جا سکتے ہیں۔اس حکیمانہ نظام کی بنا پر اسلام میں ہر دور کا ساتھ دینے کی گنجائش رکھ دی گئی ہے‘‘۔(اسلامی نظریہ حیات، ص۷۱)

اسلام نے تمام امور میں انسانوں کو اعتدال اور توازن کا حکم دیا ہے، خواہ عبادات ہوں یا دنیاوی امور ، وہ کسی بھی معاملہ میں بے اعتدالی کو پسند نہیں کرتا۔

غیر متعصب دین

اسلام نسلی تفریق کاخاتمہ کرتا ہے ۔ اس کی تعلیمات نسلی تعصبات سے مبرّا ہیں۔اس میں کسی خاص نسل یا قبیلے کی بنا پر کسی سے نفرت یا دشمنی کی سخت مخالفت کی گئی ہے۔اسلام کی تعلیمات اتفاق اور اتحاد پر مبنی ہیں، جب کہ دیگر ادیان ایک دوسرے پر برتری کے دعوے دار ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ کسی طرح ان کے ہم مرتبہ اور مساوی نہیں ہیں ۔یہود و نصاریٰ نے جو دعوے کیے ہیں اس کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَقَالَتِ الْیَہُوْدُ لَیْسَتِ النَّصٰرٰی عَلٰی شَیْء ٍ  وَّقَالَتِ النَّصٰرٰی لَیْسَتِ الْیَہُوْدُ عَلٰی شَیْء  ٍ(البقرۃ:۱۱۳)

’’یہودی کہتے ہیں: عیسائیوں کے پاس کچھ نہیں ۔ عیسائی کہتے ہیں : یہودیوں کے پاس کچھ نہیں‘‘

یہودیوں میں نسلی تفاخر اور مذہبی برتری پائی جاتی ہے۔وہ خود کو خدا کی پسندیدہ مخلوق سمجھتے ہیں ۔ عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی جان کی قربانی دے کر انسانوںکے گناہوں کا کفارہ اداکردیا ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے والے گناہوں سے پاک ہو جاتے ہیں، کیوں کہ انہوں نے اپنے پیروکاروں کی نجات کے لیے خود کو مصلوب کر کے ان کے گناہوں کا کفارہ ادا کردیا ہے۔اسلام میں کسی نسلی تفرق کا اظہار نہیں کیا گیا،بلکہ تمام نوع انسانی کے لیے ایک ہی قانون وضع کیا گیا ہے اور کہاگیا ہے کہ جس کے اعمال اچھے ہیں وہی خدا کے ہاں  بلند مقام و مرتبہ رکھتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکم (الحجرات:۱۳)

’’درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے ۔‘‘

جناب عماد الحسن فاروقی لکھتے ہیں:

’’اسلامی تصور الٰہ میں خدا تعالیٰ کی رحمت و ہدایت اور فائدہ پہنچانے والی صفات تمام انسانوں (اور بہت سی خصوصیات تمام مخلوقات)کے لیے عام ہیں۔قرآن پاک میں نجات وہدایت کاوعدہ نسلی یا جغرافیائی اعتبار سے کسی مخصوص قوم یا جماعت سے نہیں ہے، بلکہ ایمان اور عمل صالح کی شرط کے ساتھ بنی نوع انسان کو محیط ہے۔دوسری طرف یہودیت کے بر خلاف، جہاں عہد  خدا و ند ی ، نجات ، جزاوسزاوغیرہ اجتماعی حیثیت سے بنی اسرائیل کی پوری قوم کے لیے ہے،اسلام میں خدا تعالیٰ کا عہد ہر انسان سے انفرادی حیثیت سے ہے،اس لیے اس کی نجات،جزایا سزابھی انفرادی حیثیت سے ہوگی‘‘(دنیا کے بڑے مذاہب ، ص ۳۲۵)

دینِ رواداری

اسلام کاایک امتیاز مذہبی رواداری ہے ۔ اسلام نے غیر مسلموں کی مذہبی شخصیات کے احترام کا حکم دیا ہے اور انہیں برا بھلا کہنے سے روکا ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ کَذٰلِکَ زَیَّنَّا لِکُلِّ اُمَّۃٍ عَمَلَہُمْ  ثُمَّ اِلٰی رَبِّہِمْ مَّرْجِعُہُمْ فَیُنَبِّئُہُمْ بِمَاکَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (الانعام:۱۰۸  )

’’اور (اے ایمان لانے والو )یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انہیں گالیاں نہ دو، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں ۔‘‘

مخالفین اوردشمنوں کے ساتھ بھی عدل کا حکم دیا گیا ہے اور ان سے کسی قسم کی  زیادتی کرنے سے منع کیا گیاہے۔ارشادیِ باری تعالیٰ ہے:

وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَـنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا  وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی  وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ(المائدۃ:۲)

’’اور دیکھو ، ایک گروہ نے جو تمہارے لیے مسجد حرام کا راستہ بند کر دیا ہے تو اس پر تمہارا غصّہ تمہیں اتنا مشتعل نہ کر دے کہ تم بھی ان کے مقابلہ میں ناروا زیادتیاں کرنے لگو ،نہیں ! جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو‘‘۔

دین اسلام کو قبول کرنے میں  زبردستی اور جبر نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکُمْ  فَمَنْ شَاء َ فَلْیُؤْمِنْ وَّمَنْ شَاء َ فَلْیَکْفُرْ(الکہف:۲۹)

’’صاف کہہ دو کہ یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے ، اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کر دے‘‘

لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِِ (البقرۃ:۲۵۶)’’دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے ‘‘

دینِ مساوات

اسلام میں مساوات کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اس نے رنگ و نسل اور علاقائی امتیازات کا خاتمہ کرکے مساواتِ  انسانی کا درس دیا ہے، جب کہ ہندومت نے انسانوں کو چار طبقات میں تقسیم کررکھا ہے ،یہودی خود کو تمام اقوام سے اعلیٰ سمجھتے ہیں اور وہ کسی غیر یہودی کواپنا ہم سفر نہیں سمجھتے۔اسلام نےتمام  انسانوں کو بھائی بھائی قرار دیاہے:

یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَایِلَ لِتَعَارَفُوْا   اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰیکُمْ  اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ (الحجرات:۱۳)

’’لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو ۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ یقیناً اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے ۔‘‘

اسلام نے رنگ و نسل،حسب ونسب ،مذہب اور علاقہ کی بنا پر عدم مساوات،ظلم و ستم اور نفرت کو حرام قرار دیا ہے۔

 آسان دین

اسلام میں سہولت اورآسانی کو ملحوظ رکھا گیاہے۔انسانوں کو ایسے احکام کا مکلف نہیں ٹھہرایا گیاجو ان کے لیے ناقابلِ تحمل یا باعث مشقت ہوں ۔ارشادِباری تعالیٰ ہے:

یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسرَ(البقرۃ:۱۸۵)

’’اللہ تم سے آسانی کا ارادہ رکھتا ہے اور وہ تنگی کا ارادہ نہیں رکھتا۔‘‘

دوسری جگہ فرمایا :

لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعھا(البقرۃ:۲۸۶)

’’اللہ کسی کو اس کی برداشت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا‘‘

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم   افراد کی استطاعت اوران کےحالات کا جائزہ لینے کے بعد احکام صادر فرمایا کرتے تھے۔ آپ کی  یہ کوشش ہوتی تھی کہ لوگ تنگی اور مشکلات کا شکار نہ ہوں ۔ آپؐ کی اس صفت کو اللہ تعالیٰ نے یوں بیان کیا ہے:

وَ یَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیھم(الاعراف:۱۵۹)

’’وہ ان سے بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔‘‘

نبی اکرم صلٰی اللہ علیہ وسلم نے خو د اپنے متعلق اس بات کی وضاحت فرمائی ہے ۔ آپؐ نے فرمایا:

إِنَّ اللہَ لَمْ یَبْعَثْنِی مُعَنِّفًا، وَلَکِنْ بَعَثَنِی مُعَلِّمًا مُیَسِّرًا(مسند احمد:۵:۱۴۵)

ـ’’اللہ تعالی نے مجھے سختی کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا ،بلکہ مجھے معلّم اور آسانی پیدا کرنے والا بنا کر بھیجا ہے‘‘

اپنی امت کی رہ نمائی کرتے ہوئے فرمایا:

إِنَّ الدِّینَ یُسْرٌ، وَلَنْ یُشَادَّ الدِّینَ أَحَدٌ إِلَّا غَلَبَہُ، فَسَدِّدُوا وَقَارِبُوا، وَأَبْشِرُوا، وَاسْتَعِینُوا بِالْغَدْوَۃِ وَالرَّوْحَۃِ وَشَیْء ٍ مِنَ الدُّلْجۃِ(بخاری:۳۹)

’’بے شک دین آسان ہے اور جو شخص دین میں سختی کرے گا دین اس پر غالب آجائے گا  (یعنی اس کی سختی نہ چل سکے گی ) ۔ پس اپنے عمل میں پختگی اختیار کرو اور جہاں تک ممکن ہو میانہ روی اور نرمی برتو اور خوش ہو جاؤ اور صبح ،دوپہر، شام اور کچھ قدر رات کو مدد حاصل کرو۔‘‘

کامل دین

زندگی کا کوئی لمحہ ایسا نہیں ہے جس کے متعلق اسلام کی رہ نمائی نہ ملتی  ہو۔یہ دین کامل ہے اور اس کی تعلیمات قیامت تک کے لیے ہیں۔اس کے بعد کسی اور شریعت ،نبی اور رسول کی ضرورت نہیں۔ کیوںکہ اللہ تعالیٰ نےاس کے ذریعے  انسانوں کی مکمل رہ نمائی فرمادی ہے۔ اس کا ارشاد ہے:

اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاََتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمْ الْاِسْلَامَ دِیْناًَ(المائدۃ:۳)

’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پرپوری کردی۔ اور میں نے تمہارے لئے اسلام کودین کے طور پر پسند کرلیا۔‘‘

اسلام ساری دنیا کے لیے کامیابی وکام رانی کا راستہ ہے ۔ جو اس کو قبول نہیں کرتا اس کی نجات ممکن نہیں ہے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا:

وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ، لَا یَسْمَعُ بِی أَحَدٌ مِنْ ہَذِہِ الْأُمَّۃِ یَہُودِیٌّ، وَلَا نَصْرَانِیٌّ، ثُمَّ یَمُوتُ وَلَمْ یُؤْمِنْ بِالَّذِی أُرْسِلْتُ بِہِ، إِلَّا کَانَ مِنْ أَصْحَابِ النارِ (مسلم:۱۵۳)

’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے، میری اُمت میں سے جس نے بھی میرا نام سنا، وہ یہودی ہو یا نصرانی۔ پھر وہ میری رسالت پر ایمان لائے بغیر ہی مرگیا، تو وہ جہنمیوں میں سے ہوگا۔‘‘

دنیا کے تمام مذاہب  میں سوائے اسلام کے کوئی مذہب انسانی فطرت کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا۔عیسائیت اوریہودیت الہامی مذاہب ہونے کے باوجود تحریف اور تبدّل کی بنا پر اپنی واقعی حیثیت کو کھو چکے ہیں۔اس لیے اسلام کے علاوہ کوئی مذہب بھی صحیح رہ نمائی کرنے سے عاجز ہے۔

مشمولہ: شمارہ نومبر 2015

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223