(ملکِ شام کے معروف ومقبول اسلامی مؤرخ وادیب شیخ علی طنطاویؒ
کے ایک طویل مقالے ’’خاتمۃ المطاف‘‘ کی تلخیص وترجمانی۔)
اسّی نوّے سال پرانی کہانی ہے ، مگرواقعہ ایک دم سچا ہے ۔ دمشق کے شمال میں ایک بڑا پس ماندہ دیہات تھا ۔ آبادی ہزار نفوس پر مشتمل ہوگی، مگر ایک نفس بھی تعلیم وتعلم کی بوباس سے آشنا نہیں تھا۔ کبھی بھولا بھٹکا کوئی خط کسی کے نام پر آجاتا تو پڑھنے والے کی تلاش میں دور دورتک کی خاک چھاننی پڑتی اوراتنی دیر میں خط کی گرم خبر بھی ٹھنڈی پڑچکی ہوتی۔ ایسے ماحول میں ایک لڑکا ، جس کا نام عید السفر الجیلانی تھا ، بڑا حساس تھا ۔ دیہات کی یہ جہالت اس سے دیکھی نہیں گئی ۔ گھر والوں کی مرضی کے برخلاف حصولِ تعلیم کے شوق میں یگانہ روانہ ہوگیا ۔ قریب کے ایک شہر میں مسجد کوٹھکانا بنا کر مکتب میں داخل ہوگیا۔ فارغ اوقات میں محنت مزدوری سے دو وقت کی دال روٹی کا انتظام کرلیا ۔ وقت ضائع کیے بغیر دل لگا کر وہ چار سال میں اتنا پڑھ لکھ لیا کہ اپنے دیہاتی دوست احباب اورہم جولیوں کوپڑھانے کی خواہش گھر واپس لے آئی اوراس شوق کے سہارے وہ جی رہا تھا ۔ تعلیم یافتہ انسان کا تعلیم سے بے بہرہ ماحول میں دم گھٹنے لگتا ہے ۔ اس گھٹن کودور کرنے کے لیے اپنے وسیع مکان کے ایک کشادہ ہال کومکتب کی شکل دے دی اوراب سیکھنے والوں کوگھیر گھار کے لانا بڑی ٹیڑھی کھیر ثابت ہورہاتھا ، مگر جہاں نیت نیک ہو، مقصد بلند اور کام عظیم الشان ہو ، تو مایوسیوں کا گزر کم ہوجاتا ہے اورروشنی کی کرن نمودار ہونے کے لیے بے چین ہوجاتی ہے ۔ ابتدا میں اس نے سمجھ دار ، ہونہار بچوں پر توجہ دی، تعلیم کی اہمیت وافادیت آسان الفاظ اوردل نشین اسلوب میں واضح کی اور چار چھے نونہالوں کو قائل کرکے اللہ کے نام پر کام شروع کردیا ۔ علم کی روشنی ایسی تیز ہوتی ہے کہ اندھیرے زیادہ دیر تک اس کی راہ نہیں روک سکتے ۔ طلبہ کا اضافہ ہوتا رہا ۔ مکتب میں ان کی آواز گونجتی رہی اورعلم کی خوشبو ماحول میں مہکتی مہکاتی رہی ؎
میں اکیلا ہی چلا تھاجانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اورکارواں بنتا گیا
دیہات کے آس پاس کچے پکے گنے چنے کچھ مکان تھے۔ ان کے بچوں کوبھی علم کی پیاس آبِ حیات کے اس سرچشمے تک لے آئی ۔ شیخ عید کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا اوران کی جدوجہد رنگ لائی ۔ سب ان کے شکر گزار ، قدردان اورممنونِ احسان تھے ۔ اکیلا بے سروسامان اوربے یارو مدد گار شخص ایسا بھی کرسکتا ہے یہ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا ۔ شیخ نے اسے باقاعدہ مکتب کی شکل سے منظم کیا ۔ طلبہ کی حاـضری ، ان کی کارکردگی کی خانہ پری کے لیے دفتر اوررجسٹر تیار کیے ۔ ہرایک کا نام ، ولدیت ،عمر اور دیگر تفاصیل کاریکارڈ محفوظ کرلیا ۔ طلبہ کی تعداد بڑھنے لگی توشیخ کی خوشی کا کیا پوچھنا ۔ شب وروز اپنی مصروفیت میں شاد کام اورشادماں رہنے لگے ۔
وقت پر لگا کر تیزی سے گزرتا رہا ۔ شیخ کی عمر نوّے کے قریب تھی اوران کے مکتب نے سترسال پور ے کرلیے ۔ طلبہ کی فہرست اور رجسٹر آدھی الماری میں بھر گئے ۔ ملکِ شام ترقی کی راہ پر گام زن تھا۔ قریہ قریہ سرکاری اسکولوں کی بھر مار ہونے لگی۔ شیخ کے مکتب میں ایک دو سال گزارکر طلبہ ان اسکولوں کی راہ سے پڑھنے اورآگے بڑھنے لگے۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد بڑے سے بڑے مناصب پر پہنچ کربھی اس مکتب کے احسانات ، اس کی خوش گوار یادوں اوراس کے فردِ واحد کی جہود ومساعی ، محبت واخلاص اورجذبۂ ایثار وخدمت کوہر جگہ اورہمیشہ یاد رکھتے ۔ دورانِ تعلیم بچے مکتب کے درو دیوار اورشیخ کے لاڈو پیار سے اتنے مانوس ہوجاتے کہ چھٹی کی گھنٹی بجتی توان کے چہروں پر اُداسی کی جھلک صاف دکھائی دیتی ۔ روزانہ کی ان کی عادت بن گئی تھی کہ آنے میں عجلت اورواپسی میں دیر کرتے ، جیسے مکتب نے ان کے پیر پکڑلیے ہوں۔ کبھی شیخ کومکتب بند کرنے کی جلدی ہوتی تو انہیں ڈانٹ ڈپٹ کر باہر بھیجنا پڑتا۔
دنیا نے حساب رکھا کہ شیخ ستر سال سے کوئی دن ناغہ کیے بغیر یہ مکتب چلاتے رہے ، مگر شیخ نے مہ وسال کا کہاں حساب رکھا۔ وہ اپنی لگن میں مگن اورکام میں مست اور مسرور رہتے تھے ۔ پون صدی پہلے اپنا خونِ دل جلا کر جوشمع فروزاں کی تھی آج کی روشنی سے سارا ماحول منور تھا اوراس شمع کے پروانے قریے سے بڑھ کر اورپڑھ کر ملکِ شام کے معاہدہ ومکاتب ، مساجد ودفاتر اورایوانوں میں ہر جگہ علم وعمل کی مشعل وقندیل کے ساتھ دیکھے جاسکتے تھے ۔ شیخ نے کسی سے اپنی خدمت کا صلہ چاہا اور نہ ستائش کی تمنا کی ۔ ان کا سرمایۂ حیات تویہی خاموش خدمت تھی ، جس سے ان کے دل ودماغ آباد تھے، چہرہ روشن تھا اوران کی متاعِ صحت کا راز اسی میں تھا۔
طلبہ کوبھیج کر آج شیخ کچھ تھکے تھکے سے لگتے تھے ۔ بوجھل قدموں سے اُٹھے ۔ چلنا دوبھر لگا تو میز کا سہارا لے کر بیٹھ گئے ۔ سوچنے لگے کہ آج سے پہلے توایسا کبھی نہیں ہوا ۔ پھر یہ غیر معمولی بات کیوں؟ سوچ کا سلسلہ دراز ہوتا گیا ۔ اس دوران ڈاکیہ آیا ۔ ایک رجسٹرڈ خط حوالے کرکے دستخط لے کر چلتا بنا ۔ آپ نے لفافے کوالٹ پلٹ کر دیکھا ۔ دفتر تعلیمات سے آیا ہوا خط تھا۔ چاک کیا توصرف تین سطور کا مضمون تھا:
’’جناب شیخ السفر ، مدیر مکتب اطفال السلام علیکم
وزارتِ تعلیمات کا قانون ہے کہ مکتب چلانے والوں کے پاس سرکاری اسکول کا سرٹیفکیٹ لازماً ہونا چاہیے ۔ آپ کے پاس چوں کہ ایساکوئی سرٹیفکیٹ نہیں ہے ، اس لیے آپ فوراً اپنا مکتب بند کردیں، ورنہ آپ کے خلاف قانونی چارہ جوئی ہوگی، جس کے بعد جرمانہ اورسزا دونوں کے لیے تیار رہنا پڑے گا۔
والسلام
افسر اعلیٰ محکمۂ تعلیمات
شکری عدنان ابراہیم
شکری نام شیخ کے ذہن میں تازہ تھا ۔ پرانے رجسٹر میں تلاش کیا تو مل گیا ۔ بیس سال پہلے وہ اس مکتب میں زیرِ تعلیم رہا ہے ۔ پھر اس کے والد عدنان کا نام کچھ مانوس لگا۔ تھوڑی تلاش کے بعد وہ خود اسی مکتب کا خوشہ چیں نکلا۔ دادا ابراہیم بھی کوئی ساٹھ سال پہلے اسی غیر قانونی مکتب کا ابنِ قدیم ثابت ہوا ۔ یعنی افسر اعلیٰ ہی نہیں ، ان کے والد ماجد اور جد امجد بھی اسی مکتب کے پیدا وار تھے۔ ان کی اٹھان اور اُڑان یہیں سے شروع ہوئی تھی ، جو آج غیر قانونی ثابت کیا جا رہا ہے اور خون پسینے سے سیراب کرنے والا باغبان نا اہل اور قابلِ تعزیر قرار دیا جا رہا ہے ۔ قانون بنانے والے انسان کس عقل سے سوچتے ہیں ، یہ وہی بتا سکیں گے ۔ قانون صرف اللہ کا مبنی بر انصاف اور پائیدار ہوتا ہے ، جس میں ساری دنیائے انسانیت کا پاس و لحاظ ہوتا ہے ۔ انسان کا بنایا قانون تو ربڑ کا ایک کھلونا ہے ، جسے مفاد پرست اور خود غرض انسان جب چاہے ، جیسے چاہے کسی بھی رخ پر موڑ سکتا ہے ۔ اپنوں کو نفع پہنچانے اور غیروں کا نقصان کرنے کے لیے ہمیشہ اس کا استعمال ہوتا رہتا ہے ۔
شیخ کے سینے سے ایک طویل آہ نکلی ، جوبیک وقت سرد بھی تھی اورگرم بھی ۔ ہاتھ پیر برف جیسے ٹھنڈے ہوگئے ۔ سر پسینے میں نہاگیا اوراپنے آپ کو سنبھالنا مشکل ہوگیا ۔ جسم تو آپ کادھان پان تھا ، لیکن اس نئی افتاد کے بوجھ سے سہارنا مشکل ہوگیا ۔ گرے توسرمکتب کی چوکھٹ سے لگا اورجان جانِ آفریں کے سپرد کردی:
جان ہی دے دی جگر نے آج پاے یار پر
عمر بھر کی بے قراری کوقرار آہی گیا
بستی کے لوگوں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ملاجی کبھی مکتب سے جدا بھی ہوسکتے ہیں ۔ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی، مگر یقین کسی کونہیں آیا ۔ لوگ مکتب اورملاّ کولازم وملزوم سمجھ رہے تھے ۔ دمشق کے ایک اخبار نے اندرونی صفحات میں بالکل غیر اہم جگہ ایک ہی سطر میں خبر چھاپ دی کہ ’’مکتب الاطفال کے شیخ عید السفر جیلانی کا انتقال ہوگیا ۔‘‘
ستر سالہ روز وشب کی خدمت کا صلہ دنیا کیا دیتی اوردنیا کے پاس دینے کے لیے ہے بھی کیا ؟ چند بے روح نام اوربے جان خطاب ہی دنیائے مفلس کا کل سرمایہ ہیں۔ غور کیجئے تووہ صرف لینا ہی جانتی ہے ۔ اس نے دنیا کوکہاں سیکھا؟
ظلمتوں کا سینہ چاک کرکے اندھیروں کواجالنے والوں ، اجاڑ کھنڈروں کومسمار کرکے محل بنانے والوں، پریشان حالوں کوسکون واطمینان سے دو چار کرنےوالوں ، پراگندہ بالوں کے گیسو سنوارنے والوں اور بے رنگ ونور چہروںکا روپ نکھارنے والوں کا قرض تودنیائے دنی نے کبھی چکایا ہی نہیں۔ بس آخرت کے اجرو ثواب کا یقین وایمان ہے جومسلمان کویہاں بےنیاز رکھ کر دینے دلانے پر آمادہ کرتا ہے : وَأَنَّ سَعْیَہُ سَوْفَ یُرَی ثُمَّ یُجْزَاہُ الْجَزَاءُ الاَوْفٰی (النجم :۴۰،۴۱) ’’کام کرنے والے کا انجام توروزِ جز ا سامنے آئے گا اورپیدا کرنے والا ہی بھر پور بدلے سے سرفراز فرمائے گا۔‘‘
شیخ کی وفات سے تاریخ کاایک سنہرہ دور ختم ہوا ، مگر ان کی تاریخ رقم کرنے کے لیے کوئی قلم تیار نہیں، کیوں کہ وہ کسی مشہور زمانہ یونی ورسٹی کے پروفیسر نہیں تھے۔ صرف ایک بے نام مکتب کے گم نام ملّا جی تھے ۔ تاریخ کے اوراق کا پیٹ موٹے موٹے ناموں سے بھرتاہے ۔ کام کرنے والے توبس کام چلاؤ ہوتے ہیں اوربس۔
مشمولہ: شمارہ مارچ 2016