نبی کریم ﷺ نے آخری حج کے موقع پر،جسے حجة الوداع کہا جاتا ہے،مسلم امت سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا:
اسمعوا منی تعیشوا۔میری باتیں غور سے سنو، ہمیشہ پھلتے پھولتے رہوگے!
اس موقع پر آپ نے مسلم امت کو جو بہت سی وصیتیں فرمائی تھیں ان میں سے ایک نہایت قیمتی وصیت یہ تھی:
ترکت فیکم امرین ما ان تمسکتم بھما لن تضلوا بعدی: کتاب اللہ وسنتی۔
میں تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں، جب تک تم انہیںمضبوطی سے تھامے رہوگے کبھی گم راہ نہیں ہوگے۔وہ دونوں چیزیں ہیں : اللہ کی کتاب اور میری سنت۔
یہ کتنی قیمتی وصیت تھی‘جو مسلم امت کی سلامتی، اس کی ترقی، اس کی سربلندی، اوردنیا و آخرت میں اس کی سرخ روئی کی ضامن تھی۔
اگر اس وصیت پرہم نے عمل کیا ہوتا‘تو آج ہم اندھیروں میںنہ بھٹکتے،آج ہم دردر کی ٹھوکریں نہ کھاتے‘ آج ہم دشمنوں کے رحم وکرم پر نہ جیتے ! مگر افسوس صد افسوس کہ ہم نے اپنے نبی ﷺ کی اس وصیت پر عمل نہیں کیا۔
شاید آپ کو تعجب ہوکہ میں یہ کیا کہہ رہا ہوں؟
مگر یقین مانیے صورت حال کچھ ایسی ہی ہے۔آج ہم نے کتاب الہی اور سنت رسول کو پس پشت ڈال رکھا ہے۔آج ہماری زندگیاں ان سے بالکل نا آشنا ہیں۔
آج ہم کتاب و سنت کے نام پرلڑنے جھگرنے، اور ہنگامے کرنے کے لیے تو ہر آن تیار رہتے ہیں‘ مگر کتاب و سنت کے مطابق اک صاف ستھری زندگی گزارنے‘ اپنے حوصلوں اور ارمانوں کو ان کے تابع رکھنے اور ان کی روشنی میںاپنی اوراپنے گھر والوں کی اصلاح و تربیت کرنے کی فکر نہیں کرتے۔ اور اگراس کے لیے کچھ فکرمندی ہوتی بھی ہے‘تو وہ خالی زبان سے کہنے کی حد تک ہوتی ہے، جہد وعمل کی دنیا میں اس کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی!
حالاں کہ ہماری بول چال، اور ہماری گفتگوؤںمیں اس درد کی کسک،اور ہمارے طرزعمل میں اس کی جھلک نظر آنی چاہیے تھی۔
ایسا کیوں ہے؟ اس کو سمجھنے ‘ اور اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
قرآن پاک سے اس وقت تک ہم مضبوط وابستگی قائم نھیں کرسکتے‘جب تک فکر آخرت کی بھٹیاں ہمارے سینوں میں نہ دہکنے لگیں۔جب تک آخرت کی جواب دہی کے احساس سے ہما ری آنکھوں کی نیندنہ اڑجائے،اورہمارے دل کا سکون درہم برہم نہ ہوجائے۔
قرآن پاک میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ جَعَلْنَا بَینَكَ وَبَینَ الَّذِینَ لَا یؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ حِجَابًا مَسْتُورًا. وَجَعَلْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ یفْقَهُوهُ وَفِی آذَانِهِمْ وَقْرًا [الإسراء: 45و 46]
(اور جب تم قرآن پڑھتے ہوتو ہم تمھارے درمیان اور ان لوگوں کے درمیان جو آخرت پر ایمان نھیں رکھتے، ایک دبیز پردہ حائل کر دیتے ہیں۔اوران کے دلوں پر غلاف چڑھادیتے ہیں کہ کچھ سمجھ نہیں پاتے،اور ان کے کانوں کو بوجھل کردیتے ہیں۔)
معلوم ہوا قرآن پاک سے گہری وابستگی اس وقت تک ممکن نہیںجب تک آخرت پر ایمان نہ ہو۔
آخرت پر ایمان کیا چیز ہے ؟ آخرت پرایمان سے مراد :
بجھا ہوا بے شعورایمان !
یاسویا ہوا بے حس ایمان !
یا اونگھتا ہواکم زورا یمان نہیں ہے !
ایمان سے مراد وہ ایمان ہے جو انسان کے سینے میںفکر آخرت کے انگارے دہکادے۔جو اسے جھنم کے عذاب سے بچنے کے لیے ماہی بے آب کی طرح سراپا اضطراب بنادے۔
چوتھے خلیفہ راشد حضرت علیؓ بن طالب کو ایک رات کسی دیکھنے والے نے دیکھا‘وہ اس طرح بلک بلک کر رو رہے تھے جیسے ان پر غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہو۔ وہ اس طرح بے قرار تھے جیسے انھیں کسی زہریلے سانپ نے ڈس لیا ہو۔(کان یتململ تململ السلیم وکان یبکی بکاء الحزین)
وہ اپنی ریش مبارک کوزور سے دبوچے ہوئے تھے، اور درد وکرب میں ڈوبی ہوئی آواز میں کہہ رہے تھے:
یا دنیا غری غیری! یا دنیا غری غیری!
اے دنیا جا،کسی اور کو دھوکا دے! اے دنیا جا،کسی اور کو فریب دے!
میں تجھے تین طلاقیں دے چکا ہوں،جس کے بعد اب تجھ سے رجوع کرنا ممکن نہیں ہے۔
آہ ! من قلۃ الزاد! وبعد السفر! ووحشۃ الطریق!
آہ! سفر کتنا لمبا ہے ! راستہ کتنا وحشت ناک ہے ! اور زادسفر کچھ بھی نہیں!
یہ کس کا حال تھا؟ یہ ان کا حال تھا، جو رسول خدا ﷺکی تربیت میں پلے بڑھے تھے،جن کی پوری زندگی نیکی وتقوی اورجہاد وعزیمت کی زندگی تھی!اس پر بھی انھیں یہ احساس ستارہا تھا کہ ان کے پاس زادراہ کچھ بھی نہیں!
آہ! پھر ہم لوگوں کا کیا بنے گا؟
ان لوگوں کا کیا بنے گاجن کی جھولی میں آرزووں اور تمناؤں کے سواکچھ بھی نہیں! جن کی پوری زندگی دنیا بنانے میں گزر گئی،اور آخرت کے لیے سوچتے ہی رہ گئے!جنت کے لیے دعائیں اور تمنائیں کرنے کے علاوہ کچھ کر نہیں سکے!
خلیفہ دوم حضر ت عمر فاروق ؓرات کی تاریکی میں نیند سے اٹھ اٹھ کر مدینے کی گلیوں میں گھومتے پھرتے تھے، اس خوف سے کہ کہیں کوئی پریشاں حال نہ ہو،جسے فوری مدد کی ضرورت ہو،اور میں اس کی مدد کوبر وقت نہ پہنچ پاؤں!
ایک رات کا قصہ ہے، وہ مدینے کی گلیوںمیں گشت لگارہے تھے،دور سے،آبادی سے کچھ فاصلے پر، انہیںکچھ روشنی دکھائی دی،اور کچھ مبہم سی آوازیں سنائی دیں،وہ قریب گئے تو معلوم ہوا،کہیں باہر سے آیا ہواقافلہ وہاں ٹھہرا ہوا ہے،اور بچے بھوک سے بلک رہے ہیں،ان کے پاس کھانے کھلانے کے لیے کچھ بھی نہیںہے !
یہ صورت حال دیکھ کرامیر المومنین تڑپ اٹھے،کہ ہائے عمراپنے رب کو کیا جواب دے گا !
وہ گھبرائے ہوئے الٹے پاؤں واپس آئے،بیت المال کے خازن کوبلوایا،اس سے بیت المال کھلوایا، آٹے کی بوری اپنی پیٹھ پر لادی،ہاتھ میں گھی کا ڈبہ،اور کچھ ضرورت کی چیزیں لیں، اور اس قافلے کی طرف تیز تیز قدموں سے بڑھنے لگے!
بیت المال کے خازن نے آواز دی،امیر المؤمنین! زرا ٹھہریے، آٹے کی بوری بہت بھاری ہے، اجازت ہو تو میں اسے اٹھالوں!
فرمایا: کیا آخرت میں میرا بوجھ اٹھاسکوگے؟ اگر نہیں تو آج یہ بوجھ مجھے خود اٹھانے دو!
آخرت کے خوف سے امیر المؤمنین لرزرہے تھے،اور برابرلرزتے رہتے تھے!
ایک بار انھوں نے فرمایا: اگر دریائے فرات کے کنارے کسی خچر کو ٹھوکر لگتی ہے تو مجھے ڈر لگتا ہے کہیں میرا رب مجھ سے یہ حساب نہ لے کہ میں نے اس کے لیے راستہ کیوں نہیں ہم وار کیا!
اللہ! اللہ! یہ خوف خدا، اور یہ فکر آخرت!
امیر المومنین کو صرف اپنی سلطنت میں رہنے والے انسانوں کی ہی فکر نہیں ہوتی تھی، جنگل کے جانوروں کی بھی فکرستاتی تھی!
واضح رہے دریائے فرات مدینے کے آس پاس نہیں ہے، وہاں سے سیکڑوں میل کی دوری پرہے۔
آہ! یہ خوف آخرت او ر یہ فکرعاقبت ہی دراصل ایمان کی جان ہے۔ انجام اورعاقبت کی یہ فکر جب کسی کے دل ودماغ پر سوار ہوجاتی ہے تو اسی وقت اس کے ایمان کا چراغ روشن ہوتا ہے، جس سے تاریکیاں دور بھاگتی ہیں،اوروہ ایمان ایک نا قابل تسخیر طاقت بن جاتا ہے۔
فکر آخرت کی یہ دو مثالیں ہیں،ورنہ عہد صحابہ میں اس کی مثالوں کا شمار نہیں۔وہ پوری قوم ہی’’رات میں راہب، دن میں مجاہد‘‘ کی جیتی جاگتی تصویر تھی!
قرآن پاک نے بھی جگہ جگہ صحابہ کرام کی فکر آخرت کو سراہا ہے، اور اس کا چرچا کیا ہے۔ایک جگہ فرمایا:
وَالَّذِینَ هُمْ مِنْ عَذَابِ رَبِّهِمْ مُشْفِقُونَ۔إِنَّ عَذَابَ رَبِّهِمْ غَیرُ مَأْمُونٍ (سورة المعارج)
(ان نمازیوں کی یہ کیفیت ہوتی ہے کہ وہ اپنے رب کے عذاب سے کانپتے رہتے ہیں۔ان کے رب کا عذاب ہے ہی ایسا کہ اس سے مطمئن نہ ہوا جائے۔)
ایک دوسری جگہ فرمایا:
وَالَّذِینَ یؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَى رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ [المؤمنون: 60]
(اورجوخرچ کرتے ہیں جو کچھ خرچ کرتے ہیں اس حال میں کہ ان کے دل لرزرہے ہوتے ہیں کہ انھیں اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے!)
یہی فکر آخرت تھی جو انھیں رات رات بھرخواب گاہوں سے دور،سجدہ وقیام کی حالت میں مصروف رکھتی تھی۔فرمایا:
وَالَّذِینَ یبِیتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِیامًا [الفرقان: 64]۔ رحمان کے بندے وہ ہیں جو رات رات بھر اپنے رب کے آگے سجدہ وقیام میں مصروف رہتے ہیں۔
یہی فکر آخرت تھی جس نے صحابہء کرام کو وہ بلندیاں عطا کیںجو آج تک کسی قوم کو نہیں حاصل ہوئیں۔ انھیں وہ دبدبہ عطا کیا، جو کسی دوسری قوم کو نہیں حاصل ہوا !اسی فکر آخرت نے انہیںایک ناقابل تسخیر طاقت بنادیا تھا۔
زلزلے جن سے شہنشاہوں کے درباروں میں تھے، بجلیوں کے آشیانے جن کی تلواروں میں تھے!
چناں چہ انھوں نے اپنے وقت کی تمام ظالم طاقتوں کو چیلنج کیا،اور دیکھتے دیکھتے ان سب کو چکنا چورکرکے رکھ دیا! اور پوری کائنات لا الہ الا اللہ، اور الحمد للہ رب العالمین کے جاں نوازنغموں سے گونجنے لگی۔آج ہمارے کرنے کا کام بھی یہی ہے۔آج دنیاظلم وستم کی آگ میںجھلس رہی ہے، یہ آگ اگر ہم نے نہیں بجھائی تو کون بجھائے گا؟
اس بات کو کبھی نہ بھولیے کہ ایمان کی جان، اورایک مومن کی اصل طاقت فکر آخرت ہے۔
یہی فکر آخرت ہے جو شیطان کے حملوں سے بچاتی ہے۔ یہی فکر آخرت ہے جو نفسانی خواہشات کے فتنوں سے محفوظ رکھتی ہے۔ یہی فکرآخرت ہے جوایک مومن کو جوش عمل سے سرشار کردیتی ہے۔ یہی فکر آخرت ہے جو حقوق اللہ اورحقوق العباد کی ادائگی کے لیے اسے بے چین رکھتی ہے۔ یہی فکر آخرت ہے جو ایک مومن کو تمام انسانوں کا ہمدرد وغمگسار بنادیتی ہے، چاہے وہ کسی ذات برادری سے تعلق رکھتے ہوں۔
یہی فکرآخرت ہے جو ایک مومن کو اللہ کے لیے جینے،اور اللہ کے لیے مرنے کا حوصلہ عطا کرتی ہے۔ یہی فکر آخرت ہے جس سے عبادتوں میں لذت پیدا ہوتی ہے، اور ایمان کی مٹھاس محسوس ہوتی ہے۔ یہی فکر آخرت ہے جواہل ایمان کو باہم شیر وشکر کردیتی،انھیں ایثار ومحبت کا سبق سکھاتی،اور انھیں اشداء علی الکفار اور رحماء بینہم کا جاں نواز پیکر بنادیتی ہے۔
ہم دعوت دین اور اقامت دین کا جو عظیم مقصد لے کر اٹھے ہیں،وہ کوئی آسان کام نہیں ہے، اس کی ذمے داریوں سے عہدہ برآہونے کے لیے وہی فکر آخرت درکار ہے، جو صحابہء کرام کے دلوں کو تڑپاتی تھی، اور رات ودن انہیںبے چین رکھتی تھی۔جب تک ہمارے اندر بھی دعوت دین اور اقامت دین کے لیے وہی بے چینی نہ پیدا ہوجائے،اس وقت تک اس کام کو انجام دینا ہمارے لیے ممکن نہیںہے۔
چوتھے خلیفہء راشد حضرت علیؒ فرمایا کرتے تھے:
‘‘ سن لو،دنیا جارہی ہے،اور آخرت آرہی ہے،اور ان دونوں میں سے ہرایک کے فرزندہوتے ہیں، تو تم آخرت کے فرزندبنو، دنیا کے فرزند نہ بنو۔ ’’
ہمارے پیارے نبی ﷺ فرمایا کرتے تھے:
من خاف ادلج، ومن ادلج بلغ المنزل۔ الا إن سلعۃ اللہ غالیۃ! الا ان سلعۃ اللہ الجنۃ!
(جس کے اندر منزل سے بچھڑنے کا خوف ہوتا ہے،وہ رات کے اندھیرے میں ہی چل پڑتا ہے،اور جو رات کے اندھیرے میں ہی چل پڑتا ہے،وہ منزل پر پہنچ جاتا ہے۔سن لو،اللہ کی طرف سے ملنے والا انعام بڑاہی گراں قدر ہے۔سن لو اللہ کی طرف سے ملنے والا انعام جنت ہے!
اللہ تعالی ہمیں اس حقیقت کو سمجھنے،اور اپنے اندرفکر آخرت کی آگ دہکانے کی توفیق دے۔آمین یا رب العالمین۔
یا رب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرما دے، جو روح کو تڑپا دے!
مشمولہ: شمارہ مارچ 2025