اسلام کی ابدیت اور ہمہ گیری

(2)

قرآن مجید میں ۱۹ بار ’’أَطِیْعُواللّٰہَ وَأَطِیْعُوالرَّسُوْل‘‘ کا صیغہ استعمال ہوا ہے جس میں وجوب کا مفہوم پایاجاتا ہے۔ ایک آیت میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ تم اسی وقت سچے مومن ہوسکتے ہو، جب اپنے جھگڑوں اور تنازعات کو رسول کی سنت کے مطابق حل کرو۔ارشاد ہے:

فَلَاوَرَبُّکَ لَایُ ؤمِنُوْنَ حَ تّٰی یُحَکِّمُ وْکَ فِیْمَ ا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَایَجِدُ وْا فِیْ أَن ْفُسِہُمْ مَ رَجَا حَمّاً قَضِْیتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمَا۔﴿النساء:۶۵﴾

’’نہیں اے محمدﷺ تمھاررے رب کی قسم یہ لوگ کبھی مومن نہیں ہوسکتے، جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں ، پھر جو کچھ تم فیصلہ کردو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں، بلکہ سربسرتسلیم کرلیں۔

حلت وحرمت کا فیصلہ اللہ اور اس کے رسول کا حق

اسلام کی ابدیت اور ہمہ گیری کی ایک دلیل یہ ہے کہ شریعت میں کسی چیز کو حلال یا حرام ٹھہرانے کا اختیار اور حق صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ  کا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے حرام اشیائ کی تفصیل بیان کردی ہے ۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حلال وحرام کی وضاحت کردی ہیں۔ اب کوئی اور شخص ان میں حذف واضافہ نہیں کرسکتا۔ جو چیزیں حرام ٹھہرائی گئی ہیں وہ قیامت تک کے لیے حرام ہیں اور جو حلال قرار دی گئی ہیں ان کو کوئی حرام نہیں ٹھہرا سکتا۔

قَدْفَصَّلَ لَکُمْ مَا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ الّاَ مَااضْطَرَرْتُم اِلَیَہَ وَاِنَّ کَثِیْرَالِّیُضِلُّوْنَ بِاَھْوَآئِہِمْ بِغَیْرِعِلْم۔ ﴿الاَنعام: ۱۱۹﴾

’’جو چیزیں اللہ تعالیٰ نے تم پر حرام کی ہیں اس نے تفصیل سے وہ تمہیں بتا دی ہیں۔ یہ حرام کردہ چیزیں اضطرار کے سوا کسی حالت میں حلال نہیں۔ بہ کثرت لوگوں کا حال یہ ہے کہ علم کے بغیر محض اپنی خواہشوں کی بنا پر گمراہ کن باتیں کرتے ہیں۔

حلال کردہ چیز کو حرام ٹھہرانے کی مذمت قرآن مجید میں متعدد جگہ بیان کی گئی ہے۔

ایک جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللَّہِ الَّتِیٓ أَخْرَجَ لِعِبَادِہ وَالطَّیِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ۔ قُلْ ہِیَ لِلَّذِیْنَ اٰ مَنُوْا فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا خَالِصَۃً یَّوْمَ الْقِیَامَۃِ کَذَالِکَ نَفَصَّلُ الاٰ یٰتِ لِقَوْمِ یَّعْلَمُوْن۔ ﴿الاَعراف:۳۲﴾

’’اے نبیﷺ ان سے کہو کس نے اللہ کی اس فرضیت کو حرام کردیا جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے نکالا تھا اور کس نے خدا تعالیٰ کی بخشی ہوئی پاک چیزیں ممنوع کردیں؟ کہو یہ ساری چیزیں دنیا کی زندگی میں بھی ایمان لانے والوں کے لیے ہیں اور قیامت کے روز تو خالصتہً انھی کے لیے ہوں گی‘‘۔

اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺکے سوا کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی چیز کی حلت وحرمت کا فیصلہ کرے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو واضح الفاظ میں کہا ہے۔ ارشاد ہے:

وَلَاتَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ ألسُنَتکُمُ الْکَذِبَ ھٰذَا حَلَال وَّھٰذَا حَرَامُ لِّتَفْتَرُوْا عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ۔ ﴿النحل:۱۱۶﴾

’’اور یہ جو تمھاری زبانیں جھوٹے احکام لگایا کرتی ہیں کہ یہ چیز حلال ہے اور وہ حرام ہے تو اس طرح کے حکم لگاکر اللہ تعالیٰ پر جھوٹ نہ باندھو‘‘۔

حلت و حرمت کا دائرہ ماکولات و مشروبات ہی تک محدود نہیں ہے، بل کہ تمام شعبہ ہائے زندگی پر محیط ہے۔ حتیٰ کہ دین میں معمولی اضافے وترمیم کی بھی گنجایش نہیں ہے۔ ایسی ہر کوشش کو شریعت میں بدعت سے تعبیر کی گئی ہے اور بدعت گمراہی اور جہنم میں جانے کا باعث ہے۔

ایک حدیث میں وارد ہے۔

من عائشہ قالت قال رسول اللّٰہ ﷺ من احدث فی امرنا ھٰذا مالیس فیہ فھو رد۔ ﴿ابوداؤد،کتاب السنۃ باب لزوم السنۃ﴾

’’حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اس دین میں نئی بات ﴿بدعت﴾ ایجاد کی تو وہ مردود ہے‘‘۔

دوسری روایت میں وارد ہے:

ایاکم و محدثات الامورفان کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ۔﴿حوالہ سابق﴾

’’دین میں نئی چیزیں ایجاد کرنے سے بچو کیوں کہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے‘‘۔

اسلام کی وہ جامع صفات جو اس کی ابدیت پر دلالت کرتی ہیں

اسلام کی ابدیت و ہمہ گیری کی ایک دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کو ہدایت، صراط مستقیم ، سنت اللہ، حق، نعمت،نور، رسی، اللہ کا راستہ اور حدود اللہ جیسی جامع صفات سے متصف کیا ہے اور ہر صفت کی اپنی اہمیت ومعنویت ہے ۔

ھدایت: اسلام کو سراپا ہدایت قرار دیا گیا ہے ، اس کے مقابلے میں جتنے مذاہب اور نظریات ہیں سب ضلالت اور گمراہی ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:

شَہْرُرَمَضَانَ الَّذِیٓ أُنْزِلَ فِیْہ الْقُرْاٰن ھُدَی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتِِ مِّنَ الْھُدَیٰ وَالْفُرْقَان۔ ﴿البقرہ: ۱۸۵﴾

’’رمضان المبارک کے مہینے میں قرآن حکیم کو اتارا گیا جس میں لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور ہدایت کے بارے میں دلائل ہیںاور ہدایت وگمراہی کو الگ الگ کرنے والا ہے‘‘۔

اس آیت میں قرآن حکیم کو ہدایت کہا گیا ہے ۔ ایک دوسری آیت میں رسول ﷺ  کی بعثت کو بھی ہدایت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ارشاد ہے:

ھُوَالَّذِیٓ أَرْسَلَ رَسُوْلَہ‘ بِالْہُدَیٰ وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہَرَہ‘ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہ۔﴿الصف:۹﴾

’’وہی ﴿اللہ﴾ ہے، جس نے اپنے رسولﷺ کو ہدایت کے ساتھ اور دین حق کو بھیجا تاکہ سارے ادیان پر اس کو غالب کرے‘‘۔

صراط مستقیم:ہدایت کی ایک تعبیر صراط مستقیم ہے۔ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ دین سیدھا ہے۔ اس میں کوئی ٹیڑھ اور الجھائو نہیں ہے۔دنیا کے مذاہب اور نظریات کے مقابلے میں یہ دین سیدھے راستے کی تعلیم دیتا ہے اور انسانیت کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی تک پہنچاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَمَنْ یَّعْتَصِمْ بِاللّٰہِ فَقَدْ ھُدَی اِلٰی صِرَاطَ مُّسْتَقِیْم۔ ﴿آل عمران: ۱۰۱﴾

’’جس نے اللہ تعالیٰ کو تھام لیا اسے سیدھے راستے کی ہدایت مل گئی‘‘۔

وَأَنَّ ھٰذَاصِرَاطَی مُّسْتَقِیْمًا فَاتَّبَعُوْہُ وَلَا تَتَّبَعُوالسّبلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہ ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ ِبہ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن۔  ﴿الانعام: ۱۵۳﴾

’’اور یہی ﴿طریقۂ اسلام﴾ میرا سیدھا راستا ہے ، لہٰذا تم اسی پر چلو اورد وسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ اس کے راستے سے ہٹاکر تمھیں پراگندہ کردیں گے۔ یہ ہے وہ ہدایت جو تمھارے رب نے تمھیں کی ہے ، شایدکہ تم کج روی سے بچو‘‘۔

حق:اسلام کو اللہ تعالیٰ نے حق قرارد یا ہے ۔ اس کے علاوہ جو بھی ہے وہ باطل ہے۔ حق کے معنٰی سچ اور واقعے کے مطابق ہونے کے ہیں۔ اسلام واقعی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ دین ہے اور برحق ہے۔ اسلام کی یہ حقانیت ابدیت کو بھی بتاتی ہے ۔ قرآن مجید میں دین کی حقانیت سے متعلق ۲۲۷ آیات وارد ہیں۔مثلاً:

ھُوَالَّذِیٓ أَرْسَلَ رَسُوْلَہ‘ بِالْہُدَیٰ وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہَرَہ‘ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٰ وَلَوْکَرِہَ الْمُشْرِکْوْن۔ ﴿التوبہ: ۳۳﴾

’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے پوری جنس دین پر غالب کردے۔ خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو‘‘۔

قُلْ ھَلْ مِنْ شُرَکَآئِکُمْ مَنْ یَّھْدِیٓ اِلَی الْحَقِّ قُلِ اللّٰہَ یَھْدِیْ لِلْحَقِّ أَفَمَنْ یَّہْدِیْ اِلَی الْحَقِّ أَحَقَّ أَنْ یَّتَبِعُ أَمَّنْ لّایَھْدِیْ اِلّا أَنْ یَّہْدیٰ فَمَا لَکُمْ قَدْکَیْفَ تَحْکُمُوْن۔ ﴿یونس: ۳۵﴾

’’ان سے پوچھو تمھارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو حق کی طرف رہ نمائی کرتا ہو؟ کہو وہ صرف اللہ ہی ہے جو حق کی طرف رہ نمائی کرتا ہے۔ پھر بھلا بتائو جو حق کی طرف رہ نمائی کرتا ہے وہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کی پیروی کی جائے یا وہ جو خود راہ نہیں پاتا ا  لاّ یہ کہ اس کو راستہ دکھایا جائے۔ آخر تمھیں ہوکیا گیا ہے کیسے الٹے سیدھے فیصلے کرتے ہو‘‘؟

نعمت: اللہ تعالیٰ نے انسان پر بے شمار انعامات واحسانات کیے ہیں ۔ اس کو ظاہری، باطنی،مادی اور معنوی ہر طرح کی نعمتیں عطا کی ہیں۔ انھی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت اسلام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی اس نعمت کا قرآن کریم میں حوالہ دیا ہے:

أَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمْ الْاِسْلَامَ دِیْنًا۔ ﴿المائدہ: ۳﴾

’’آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے‘‘۔

حبل اللّٰہ:۔قرآن مجید نے دین کو حبل اللہ ﴿اللہ تبارک وتعالیٰ کی رسی﴾ سے تعبیر کیا ہے اور بتایا ہے کہ یہ مضبوط رسی ہے جو کبھی ٹوٹ نہیں سکتی:

وَاعْتَصِمُوْابِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعاً وَّلاَ َتفَرَّقُوْا۔   ﴿آل عمران:۱۰۳﴾

’’سب مل کر اللہ کی رسی ﴿دین﴾ کو مضبوط پکڑلو اور تفرقے میں نہ پڑو‘‘۔

ایک دوسری جگہ ارشاد ہے:

لَآاِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْتَبَیَّنَ الرُّشْدَ مِنَ الْغَیِّی فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤمِنْ بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقیٰ لَا انْفِصَامَ لَہَا وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْم۔ ﴿البقرہ: ۲۵۶﴾

’’دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔ جو کوئی طاغوت کا انکارکرکے اللہ پر ایمان لے آیا اس نے ایک ایسی مضبوط رسی تھام لی جو ٹوٹنے والی نہیں۔ اللہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے‘‘۔

نور: دین اللہ تعالیٰ کا عطاکردہ نور ہے، جو اپنے ماننے والوں کو تاریکیوں سے نکالتا ہے۔ قرآن مجید میں متعدد جگہ قرآن، رسول اور دین کو نور سے تعبیر کیاگیا ہے۔ ارشاد ہے:

أَفَمْنْ شَرَحَ اللّٰہُ صَدْرَہ‘ لِلْاِسْلَامِ فَھُوَ عَلٰی نُوْرِ مِّنْ رَّبِہٰ۔ ﴿الزمر: ۲۲﴾

’’جس کا سینہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لیے کھول دیا ہے وہ اپنے رب کی طرف سے ایک روشنی ﴿نور﴾ میں چل رہا ہے۔‘‘

وَکَذَالِکَ أَوْحْیْنَآ اِلَیْکَ رُوْحاً مِّنْ أَمْرِنَا مَاکُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَلَا الاِیْمَان وَلٰکِنْ جَعَلْنَاہُ نُوْراً ھُدَی بِّہٰ مَنْ نَشَآئُ مِنْ عِبَادِنَا وَاِنَّکَ لِتَہْدِیْ الیٰ صِرَآ طِ مُّسْتَقِیْم۔ ﴿الشوریٰ: ۵۲﴾

’’اور اس طرح ﴿اے نبیﷺ ﴾ ہم نے اپنے حکم سے ایک روح تمھاری طرف وحی کی ہے۔ تمھیں کچھ پتا نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے ، مگر اس روح کو ہم نے ایک روشنی بنا دیا جس سے ہم راہ دکھاتے اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں۔ یقینا تم سیدھے راستے کی طرف رہ نمائی کر رہے ہو‘‘۔

سبیل اللّٰہ:دین کو اللہ تعالیٰ کا راستابھی کہا گیا ہے۔ کیوں کہ دین پر چل کر آدمی اللہ تعالیٰ تک پہنچتا ہے اور اگر وہ دین پر نہ چلے تو راستا بھٹک کر تباہی وہلاکت کا شکار ہوجائے۔

قُلْ یَٰآھْلُ الِکِتٰب لَمْ تُصَدُّوْنْ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ مَنْ اٰ مَنَ تَبْغُوْنَہَا عِوَجًا وَّ أَنْتُمْ شُھَدَائ۔ ﴿آل عمران: ۹۹﴾

’’کہو: اے اہل کتاب! یہ تمھاری کیا روش ہے کہ جو اللہ کی بات مانتا ہے اسے بھی تم اللہ کے راستے سے روکتے ہو اور چاہتے ہو کہ وہ ٹیڑھی راہ چلے ، حالاں کہ تم خود ﴿اس کے راہ راست ہونے پر﴾ گواہ ہو‘‘۔

أُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ أَحْسَن۔  ﴿النحل: ۱۲۵﴾

’’اے نبیﷺ اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت و حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو‘‘۔

حدوداللّٰہ:دین کے احکام کو قرآن مجید میں متعدد جگہ حدود اللہ سے تعبیر کیاگیا ہے— ان کی پابندی کی تاکید آئی ہے اور ان کے توڑنے والے کو وعید سنائی گئی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

تِلْکَ حُدُوْدُاللّٰہِ فَلَا تَقْرَبُوْھَا۔  ﴿البقرہ:۱۸۷﴾

’’یہ اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں تم ان کے قریب بھی نہ جاؤ ‘‘۔

یہ آیت روزے کے احکام کی تفصیلات کے ضمن میں وارد ہے۔ ایک دوسری آیت میں طلاق کے احکام کے حوالے سے کہا گیا ہے:

تِلْکَ حُدُوْدُاللّٰہِ فَلَا تَعْتَدُوْھَا وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَاللّٰہِ فَأُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الظَّاْلِمُوْن۔  ﴿البقرہ: ۲۲۹﴾

’’یہ اللہ کی حدود ہیں خبردار ان سے آگے نہ بڑھنا اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی حدود سے تجاوز کرجائیں وہ ظالم ہیں‘‘۔

ایک دوسری آیت میں وراثت و وصیت کے احکام بیان ہوئے ہیں۔ ان کو بھی حدود اللہ کہا گیا ہے:

تِلْکَ حُدُوْدُاللّٰہِ وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلِہٰ یُدْخِلْہُ جَنّٰتِِ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہَار خٰلِدِیْنَ فِیْہَا وَذٰلِکَ الْفُوْزُ الْعَظِیْم۔  ﴿النساء: ۱۳﴾

’’یہ حدیں اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی ہیں اور جو اللہ کی اور اس کے رسولﷺ کی فرماں برداری کرے گا اسے اللہ جنتوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ جن میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے‘‘۔

تبلیغِ دین کے احکام

ایک اور پہلو سے اسلام کی ابدیت وہمہ گیری ثابت ہوتی ہے وہ یہ کہ اس دین کی تبلیغ و اشاعت کا حکم دیاگیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا مکلف کیاگیا تھا کہ جو تعلیمات آپﷺ  کو دی جارہی ہیں وہ لوگوں تک پہنچا دیں اور اس بارے میں کسی کوتاہی میں مبتلا نہ ہوں۔ اگر کوتاہی کی گئی تو اللہ تعالیٰ کے یہاں گرفت ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

یایُّہَاالرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا أَنْزَلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَل فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہ‘۔ ﴿المائدہ: ۶۷﴾

’’اے پیغمبر، جو کچھ تمھارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیاگیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا‘‘۔

اس مفہوم کی اور بھی بہت سی آیات ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ  نے کس درجہ لگن، جدوجہد اور کوشش کے ساتھ دین کی تبلیغ و اشاعت کا فریضہ انجام دیا۔ آپ ﷺ  پر ، ہر لمحے تبلیغ دین کی فکر طاری رہتی تھی۔ آپﷺ  نے ہر تدبیر اور طریقے سے دین کے پیغام کو لوگوںتک پہنچانے کا کام کیا۔ آپﷺ  نے بہ نفس نفیس مختلف بستیوں ، آبادیوں اور قبائل کا سفر کیا، بازاروں،میلوں ٹھیلوں اور مجمعوں میں جاکر اسلام کی دعوت پیش کی۔ انفرادی و اجتماعی ہر شکل میں لوگوں کو مخاطب کیا۔ مکہ سے دور دوسرے ممالک کے حکمرانوں اور بادشاہوں کو خطوط لکھے اور ان کو دین کی طرف بلایا۔ مختلف صحابہ کرامؓ  کو مبلغ بناکر مختلف آبادیوں اور شہروں کی طرف بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو دین سکھائیں۔ مزید یہ کہ آپﷺ  نے اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے کفار ومشرکین سے قتال وجہاد کیا تاکہ دین کی راہ کی رکاوٹیں دور ہوجائیں۔ یہ سب کچھ آپﷺ  نے اپنی زندگی میں انجام دیا۔ اس سے آگے آپﷺ  نے اپنے اصحاب کرامؓ  کو مختلف اسالیب اور پیرایوں میں تبلیغ دین کے احکام دیے۔ ایک روایت میں وارد ہے:

بلغوا عن ولوآیۃ۔﴿بخاری کتاب الانبیآء، باب ماذکر عن بنی اسرائیل،نمبر۳۴۶۱﴾

’’میری طرف سے دوسروں تک پہنچائو چاہے ایک ہی آیت ہی کیوں نہ ہو‘‘۔

ایک دوسری روایت میں ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ ا س شخص کو خوش وخرم اور شاداب رکھے جس نے میری بات سنی اسے یاد رکھا، سمجھا، پھر اسے جوں کا توں دوسروں تک پہنچا دیا ۔ آپﷺ  نے حجۃ الوداع کے انتہائی اہم موقع پر بھی تبلیغ دین کی تلقین فرمائی۔﴿مسند احمد ۱/۴۳۷﴿۳/۲۲۵﴾﴿۴/۸۰،۸۲﴾

ألا ھل بلغت قالوا نعم قال أللہم أشہد، قل یبلغ الشاھد الغائب فوب مبلغ اوعیٰ من سامع۔﴿بخاری، کتاب الحج، باب الخطبۃ ایام منیٰ﴾

’’کیا میں نے دین پہنچا دیا لوگوں نے کہا: ہاں‘‘۔آپﷺ نے فرمایا: اے اللہ گواہ رہنا۔ چاہیے کہ یہاں موجود لوگ غیر موجود لوگوںتک دین پہنچا دیں۔ بہت سے پہنچانے والے زیادہ یاد رکھنے والے ہوتے ہیں سننے والے سے‘‘۔

حجۃ الوداع کے موقع پر آپﷺ  نے امت کو جوہدایات دیں، ان کی حیثیت آخری پیغام کی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مخاطبین تک دین پہنچا یا ہے، اسی طرح وہ اسے دوسروں تک پہنچائیں۔تبلیغ دین کے حوالے سے قرآنی آیات کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جس تاکید کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ  کو اس کا حکم دیا اسی تاکید کے ساتھ امت مسلمہ کو بھی اس کا مکلف بنایا تاکہ وہ اس فریضے کو انجام دیتی رہے۔

کُنْتُمْ خَیْرَأُمَّۃِِ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤمِنُوْنَ بِاللّٰہٰ۔  ﴿آل عمران:۱۱۰﴾

’’تم بہترین امت ہو جسے لوگوں ﴿کی ہدایت﴾ کے لیے نکالا گیا ہے تم معروف کا حکم دیتے ہو اور منکر سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔

دین کی تبلیغ معروف ومنکر کی دوسری تعبیر ہے۔ متعدد علمائ کی اس پر تائید موجود ہے۔ امام ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے حکم کے ساتھ اپنی کتابیں نازل کیں اور اپنے رسولﷺ  بھیجے ۔ یہ دین کا ایک جزو ہے‘‘۔ ﴿الحجۃ فی الاسلام، صفحہ ۶۳﴾

ضحاک فرماتے ہیں:

الامر بالمعروف والنھی عن المنکر فریضۃ من فرائض اللّٰہ کتبہا اللّٰہ علی المؤمنین۔﴿فتح القدیرللشوکانی۲/۳۶۳﴾

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اللہ تعالیٰ کے فرائض میں سے ایک فریضہ ہے جسے اس نے اپنے مومن بندوں پر عائد کیا ہے۔

وحدت الٰہ اور وحدتِ انسانیت

اسلام کی ابدیت اورہمہ گیری کی ان داخلی شہادتوں کے علاوہ اسلام کے تصورِ وحدت الٰہ اور وحدتِ انسانیت سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ ایک عالمی مذہب ہے۔ کیوں کہ اس نے سارے انسانوں کو ایک خدا کی مخلوق قرار دیا ہے اور سب کا معبود ایک ہی بتایا ہے۔ معبود کی وحدانیت انسانوں کو جوڑنے کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ اس کے بغیر سیکڑوں طرح کے اختلافات پیدا ہوتے ہیں جن سے انسانیت ٹکڑوں میں تقسیم ہوجاتی ہے۔ ایک حدیث ہے:

یآیہاالناس ان ربکم واحدوأن أباکم واحد الا لافضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علی عربی ولا لاحمر علی أسود ولا لاسود علی أحمر الا بالتقوی۔  ﴿مسند احمد۵/۴۱۱﴾

’’اے لوگو! تمھارا رب ایک ہے اور تمھارا باپ بھی ایک ﴿آدمؑ ﴾ ہے۔ پس کسی عربی کے لیے عجمی پر کوئی فضیلت نہیں، نہ عجمی کے لیے عربی پر کوئی فضیلت ہے۔ گورے کے لیے کالے پر اور نہ کالے کے لیے گورے پر کوئی فضیلت ہے۔ مگر تقویٰ کی بنیاد پر‘‘۔

اسلام کی ابدیت اور اس کا  احیاء

اسلام اپنے اصولوں اور بنیادوں کے اعتبار سے ایک ابدی، ہمہ گیر، عالمی اور زندہ وپایندہ مذہب ہے۔ اس کے اصول وعقائد کو بدلنے کی گنجایش ہے نہ اس کی تعلیمات میں ترمیم و اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے احکام ابدی معنویت کے حامل ہیں اور قیامت تک یہ انسانیت کو روشنی اور ہدایت فراہم کرتا رہے گا۔ البتہ گردش دوراں اور حالات کے تھپیڑوں نے اسلام کی جن تعلیمات پر کوتاہی اور بے عملی کی گرد ڈال دی ہے ۔ یا اسلام کے ماننے والوں نے جن تعلیمات کو ترک کردیا ہے یا خود ساختہ اعمال، تصورات یا رسوم ،رواج اس میں شامل کردیے ہیں ان پہلؤں سے اس کی  احیاء  و تجدید کی یقینا ضرورت ہے۔ ماضی میں تمام مجدد دین اسلام نے انھی پہلؤں سے کارتجدید انجام دیا ہے کہ دین کے جن پہلؤں اور شعبۂ حیات کے جس شعبے میں مسلمانوں کا عمل کمزور ہوا یا اس میں انھوں نے نئی چیزیں اور نئے تصورات ﴿جن کی بنیاد قرآن وحدیث میں نہ ہو﴾ شامل کیے تو مجددین ان کی اصلاح کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی تجدیدی کوششوں کے ذریعے دین کو بگڑنے سے محفوظ رکھا۔

مشمولہ: شمارہ جنوری 2012

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau