قرآن مجید زندگی کو سنوارنے والی کتاب ہے۔ وہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کی تعمیر و تزئین بہترین اور خوبصورت انداز میں کرتی ہے۔ قرآن مجید کی تعلیمات کو انسان اپنے پیکر میں اتار کرکے اپنی شخصیت کو بہترین بنا سکتا ہے۔ اس کتاب سے جہاں ایک طرف انسان کی اپنی زندگی سنورتی ہے وہیں پھر سماج سدھار کی راہیں بھی کھلتی ہیں۔ قرآن مجید کی گوناگوں خصوصیات ہیں۔ وہ اپنے اندر زبان و بیان کے نوع بہ نوع کمالات سموئے ہوئے ہے۔ قرآن میں طاقت ور تعبیریں کثرت سے استعمال کی گئی ہے، جو اپنے آپ میں بہت معنی خیز اور انسان کے اندر انقلاب برپا کردینے والی ہوتی ہے۔ اسی طرح کی ایک طاقت ور تعبیر لفظ ’’ رجال‘‘ہے۔ یہ جمع کا صیغہ ہے اس کا واحد رجل ہے۔ قرآن میں کئی مقامات پر ’’رجال‘‘ اور ’’رجل‘‘ کی تعبیریں استعمال کی گئی ہیں۔ جس کی معنی خیزی پر ہم اس مضمون میں گفتگو کریں گے۔
رجل کا معروف معنی تو عورت کے مقابل مرد ہے۔ لیکن یہ کبھی کچھ اعلی صفات کی حامل شخصیت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔
مولانا امین احسن اصلاحی رجال کا معنی واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’رجال کا لفظ یوں تو اپنے عام مفہوم میں بھی استعمال ہوتا ہے لیکن عربیت کا ذوق رکھنے والے جانتے ہیں کہ اس سے بالعموم نمایاں اور ممتاز اشخاص مراد ہوتے ہیں۔ مثلًا رِجَالٌۭ لَّا تُلْهِیهِمْ تِجَـٰرَةٌ وَلَا بَیعٌ عَن ذِكْرِ ٱللَّهِ۔۔۔۔۔(ایسے رجال جن کو تجارت اور خرید و فروخت یاد الہی سے غافل نہیں کرتی) (النور۳۷)، مِنَ ٱلْمُؤْمِنِینَ رِجَالٌۭ صَدَقُوا۟ مَا عَـٰهَدُوا۟ ٱللَّهَ عَلَیهِ ۔۔۔۔ (اور اہل ایمان میں سے رجال ہیں جنہوں نے اس عہد کو سچ کر دکھایا جو خدا سے انہوں نے باندھا)۔‘‘ (تدبر قرآن، سورہ اعراف: ۴۶)
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’لفظ رجال اس طرح استعمال ہوتا ہے تو وہ تضخیم شان پر دلیل ہوتا ہے، اس وجہ سے اگر اس کا ترجمہ مردان حق یا مردان کار، کیا جائے تو یہ ترجمہ لفظ کی روح کے مطابق ہوگا۔‘‘(تدبر قرآن: سورہ الاحزاب:۲۳)
رجال اپنے عظیم مفہوم میں جس طرح محض جنس پر دلالت نہیں کرتا اسی طرح اس کا اطلاق کسی خاص عمر کا پابند بھی نہیں ہوتا۔ کوئی کم سن یا عمر رسیدہ شخص رجال سے مراد ہوسکتا ہے اور کوئی جوان اپنی کم ہمتی اور بے مروتی کی بنا پر اس لفظ کے لیے نااہل قرار دیا جاسکتا ہے۔ رجل اور رجال کا تعلق اس احساس، شعور، جذبے اور مشن سے ہے جسے اس نے اپنی زندگی کے لیے اپنایا ہے۔ اس کے استعمالات یہ بھی بتاتے ہیں کہ یہ صرف شجاعت و بہادری کا نام نہیں ہے اور نہ ہی صرف کچھ اچھے اور نیک کام کر لینے کا نام ہے بلکہ اس میں وہ تمام خوبیاں شامل ہوگئی ہیں جو اللہ تعالی کو ایک بندہ مومن سے مطلوب ہیں۔ زندگی میں خدا کے ساتھ کیے گئے عہد کی تکمیل قرآن کے رجل اور رجال کی اصل روح ہے۔
عہدِ وفا کے پکے لوگ
مِنَ ٱلْمُؤْمِنِینَ رِجَالٌۭ صَدَقُوا۟ مَا عَـٰهَدُوا۟ ٱللَّهَ عَلَیهِ ۖ فَمِنْهُم مَّن قَضَىٰ نَحْبَهُۥ وَمِنْهُم مَّن ینتَظِرُۖ وَمَا بَدَّلُوا۟ تَبْدِیلًۭا لِّیجْزِىَ ٱللَّهُ ٱلصَّـٰدِقِینَ بِصِدْقِهِمْ وَیعَذِّبَ ٱلْمُنَـٰفِقِینَ إِن شَآءَ أَوْ یتُوبَ عَلَیهِمْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ غَفُورًۭا رَّحِیمًۭا۔ (الأحزاب: 23-24)
(ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے انہوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی(یہ سب کچھ اس لیے ہوا) تاکہ اللہ سچوں کو اُن کی سچائی کی جزا دے اور منافقوں کو چاہے تو سزا دے اور چاہے تو ان کی توبہ قبول کر لے، بے شک اللہ غفور و رحیم ہے۔)
قرآن مجید میں مومنوں کی ایک اہم صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ عہد کو پورا کرنے والے ہوتے ہیں۔ یہی مومنوں کی شان ہوتی ہے۔ اور اسی شان کے ساتھ وہ اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ زندگی میں ہر طرح کی آزمائش پر صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور حکمت کے ساتھ ان آزمائش کا مقابلہ کرنے کی تدبیر کرتے ہیں۔ اسی راہ میں جام شہادت بھی پی لیتے ہیں لیکن اپنے ایمان کا سودا نہیں کرتے۔ اصل میں یہی وہ راستہ ہے جس سے اہل ایمان گزرتے ہیں اور اسی راستے سے ان کا امتحان ہوتا ہے۔ مردان حق کی ایک صفت یہی بتائی گئی ہے کہ وہ خدا سے عہد کرنے کے بعد اس کو سچا کر دکھا دیتے ہیں۔
سورہ بقرہ میں بنی اسرائیل کی روداد بتاتی ہے کہ انھوں نے اللہ تعالی سے کیے ہوئے عہد کو فراموش کر دیا تو اللہ نے ان سے عزت و شرف کا مقام چھین لیا۔
حقیقت یہ ہے کہ عہد کی پاسداری سے ہی خدا کے احکام کو بجا لانے کے راستے ہموار ہوتے ہیں۔ عہد کی پاسداری سے ہی اس کے احکام سے زندگی کو مزین کرنےکی ترغیب ملتی ہے، جہاں اس سے حقوق اللہ ادا ہوتے ہیں، وہیں حقوق العباد بھی ادا ہوتے ہیں اور زمین میں اصلاح کا کام ہوتا ہے۔ نقض عہد، قطع تعلق اور فساد فی الارض کی طرف لے جاتا ہے۔[البقرہ:۲۷] اس لیےزندگی کے تمام امور کا دارو مدار اللہ سے کیے ہوئے عہد پر ہے۔ اس عہد کی جیسی پاسداری ہوگی ویسی ہی زندگی کی تعمیر ہوگی۔ عہد کی پاسداری سے ہی انسانوں کی نجات جڑی ہوئی ہے۔ اللہ کے عہد کو پورا کرنے کا مطلب ہر طرح کے حالات میں اس کے دیے ہوئے احکام کی روشنی میں زندگی گزارنا ہے۔ قرآن کے رجال کی صفت یہ ہے کہ وہ اللہ کے عہد کو پورا کرتے ہیں۔یہی وہ لوگ ہیں جو مومنانہ کردار ادا کرتے ہیں۔
قرآنی رجال کے شب و روز
فِى بُیوتٍ أَذِنَ ٱللَّهُ أَن تُرْفَعَ وَیذْكَرَ فِیهَا ٱسْمُهُۥ یسَبِّحُ لَهُۥ فِیهَا بِٱلْغُدُوِّ وَٱلْـَٔاصَالِ۔ رِجَالٌۭ لَّا تُلْهِیهِمْ تِجَـٰرَةٌۭ وَلَا بَیعٌ عَن ذِكْرِ ٱللَّهِ وَإِقَامِ ٱلصَّلَوٰةِ وَإِیتَآءِ ٱلزَّكَوٰةِ ۙ یخَافُونَ یوْمًۭا تَتَقَلَّبُ فِیهِ ٱلْقُلُوبُ وَٱلْأَبْصَـٰرُ لِیجْزِیهُمُ ٱللَّهُ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا۟ وَیزِیدَهُم مِّن فَضْلِهِۦ ۗ وَٱللَّهُ یرْزُقُ مَن یشَآءُ بِغَیرِ حِسَابٍۢ [النور: 36-38]
((اُس کے نور کی طرف ہدایت پانے والے) اُن گھروں میں پائے جاتے ہیں جنہیں بلند کرنے کا اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ نے اذن دیا ہے۔ اُن میں ایسے لوگ صبح و شام اُس کی تسبیح کرتے ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کی یاد سے اور اقامت نماز و ادائے زکوٰة سے غافل نہیں کر دیتی وہ اُس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں دل الٹنے اور دیدے پتھرا جانے کی نوبت آ جائے گی۔(اور وہ یہ سب کچھ اس لیے کرتے ہیں) تاکہ اللہ ان کے بہترین اعمال کی جزا اُن کو دے اور مزید اپنے فضل سے نوازے، اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب دیتا ہے)
درج بالا آیتوں میں رجال کا ذکر کرکے ان کی خاص صفتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا اللہ سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اللہ کا ذکر ان کی زندگی کا سب سے بڑا عنوان ہوتا ہے۔ اللہ سے تعلق انھیں اللہ کے گھر سے وابستہ رکھتا ہے۔ وہ اللہ کے تصور میں ڈوبے اللہ کی تسبیح کرتے ہیں۔ وہ نماز قائم کرتے اور زکات ادا کرتے ہوئے اساس دین کی تعمیر میں مشغول رہتے ہیں۔ ان کی دین داری ان کے اندر غرور پیدا نہیں کرتی ہے اور وہ اپنے انجام کی فکر میں ڈوبے رہتے ہیں۔
قرآنی رجال تزکیہ کی منزلیں طے کرتے ہیں
لَا تَقُمْ فِیهِ أَبَدًۭا ۚ لَّمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى ٱلتَّقْوَىٰ مِنْ أَوَّلِ یوْمٍ أَحَقُّ أَن تَقُومَ فِیهِ ۚ فِیهِ رِجَالٌۭ یحِبُّونَ أَن یتَطَهَّرُوا۟ ۚ وَٱللَّهُ یحِبُّ ٱلْمُطَّهِّرِینَ (التوبة-108)
(تم ہرگز اس عمارت میں کھڑے نہ ہونا جو مسجد اول روز سے تقویٰ پر قائم کی گئی تھی وہی اس کے لیے زیادہ موزوں ہے کہ تم اس میں (عباد ت کے لیے) کھڑے ہو، اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنا پسند کرتے ہیں اور اللہ کو پاکیزگی اختیار کرنے والے ہی پسند ہیں)
تقوی مومنین کی اہم خوبی ہے، اعمال اور عبادتوں کا ایک اہم مقصد قرآن مجید میں یہ بتایا گیا ہے کہ تم تقوی کی روش اختیار کروں۔ تقوی خدا سے بے پناہ محبت میں زندگی گزارنے کا نام ہے۔ جب ایک بندہ خدا سے بے پناہ محبت کرتا ہے تو اس کے تمام احکام کو بروئے کار لانے کی کوشش کرتا ہے اور انہی احکام کے سائے میں اپنی زندگی گزارتا ہے۔مذکورہ آیت میں مادی اور معنوی طور پر طہارت کی بات کہی گئی ہے۔ اس کے پہلے والی آیت میں اس مسجد کا ذکر کیا گیا ہے جس کی بنیاد ہی نقصان، کفر ، اہل ایمان کے درمیان پھوٹ ڈالنے اور خدا سے بغاوت کرنے کے لیے ڈالی گئی ہو۔ لیکن جس مسجد کی بنیاد تقوی پر ہوتوایسی مسجد بارگاہ الہی میں قابل قبول مسجد ہے۔ وہاں پر مادی اور معنوی دونوں اس کا اصل مقصد تقوی ہے۔ تقوی کے تعلق سے قرآن مجید میں بے شمار مقامات پر رہنمائی ملتی ہے۔
تقوی ہی وہ راستہ ہے جس کے بعد انسان کے لیے تزکیہ کا راستہ ہموار ہوتا ہے۔ تقوی کے بغیر تزکیہ کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ تقوی اور تزکیہ ایک دوسرے کو مکمل کرتے ہیں۔ اس لیے تقوی وہ راہ ہے جس سے تزکیہ کیا جاتا ہے۔
قرآنی رجال کا شعار نصرتِ دین
قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر لفظ ’’رجل‘‘ کا ذکر ہوا ہے۔ دین کی نصرت کے لیے ہمت و جرات سے کام لینے اور اس راہ میں عظیم الشان قربانی دینے والے افراد کے لیے یہ لفظ آیا ہے۔ قرآن کے الفاظ میں اور تصور کی آنکھوں سے یہ مناظر دیکھنے کا لطف ہی کچھ اور ہے۔
ایک رجل عظیم سورہ یس میں نظر آتا ہے۔
وَجَاءَ مِنْ أَقْصَى الْمَدِینَةِ رَجُلٌ یسْعَى قَالَ یاقَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِینَ۔ اتَّبِعُوا مَنْ لَا یسْأَلُكُمْ أَجْرًا وَهُمْ مُهْتَدُونَ۔ وَمَا لِی لَا أَعْبُدُ الَّذِی فَطَرَنِی وَإِلَیهِ تُرْجَعُونَ۔ أَأَتَّخِذُ مِنْ دُونِهِ آلِهَةً إِنْ یرِدْنِ الرَّحْمَنُ بِضُرٍّ لَا تُغْنِ عَنِّی شَفَاعَتُهُمْ شَیئًا وَلَا ینْقِذُونِ۔ إِنِّی إِذًا لَفِی ضَلَالٍ مُبِینٍ۔ إِنِّی آمَنْتُ بِرَبِّكُمْ فَاسْمَعُونِ۔ قِیلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ قَالَ یالَیتَ قَوْمِی یعْلَمُونَ۔ بِمَا غَفَرَ لِی رَبِّی وَجَعَلَنِی مِنَ الْمُكْرَمِینَ۔ [یس: 20 – 27]
(اتنے میں شہر کے دُور دراز گوشے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور بولا ’اے میری قوم کے لوگو، رسولوں کی پیروی اختیار کر لو۔ پیروی کرو اُن لوگوں کی جو تم سے کوئی اجر نہیں چاہتے اور ٹھیک راستے پر ہیں۔ آخر کیوں نہ میں اُس ہستی کی بندگی کروں جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور جس کی طرف تم سب کو پلٹ کر جانا ہے؟۔ کیا میں اُسے چھوڑ کر دوسرے معبود بنا لوں؟ حالانکہ اگر خدائے رحمٰن مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو نہ اُن کی شفاعت میرے کسی کام آ سکتی ہے اور نہ وہ مجھے چھڑا ہی سکتے ہیں۔ اگر میں ایسا کروں تو میں صریح گمراہی میں مبتلا ہو جاؤں گا۔ میں تو تمہارے رب پر ایمان لے آیا، تم بھی میری بات مان لو۔‘ (آخرکار ان لوگوں نے اسے قتل کر دیا اور) اس شخص سے کہہ دیا گیا کہ ’’داخل ہو جا جنت میں‘‘اُس نے کہا ’’کاش میری قوم کو معلوم ہوتا۔ کہ میرے رب نے کس چیز کی بدولت میری مغفرت فرما دی اور مجھے با عزت لوگوں میں داخل فرمایا۔‘‘)
دوسرا رجل عظیم سورہ قصص میں نظر آتا ہے:
وَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَقْصَى الْمَدِینَةِ یسْعَى قَالَ یامُوسَى إِنَّ الْمَلَأَ یأْتَمِرُونَ بِكَ لِیقْتُلُوكَ فَاخْرُجْ إِنِّی لَكَ مِنَ النَّاصِحِینَ [القصص: 20]
(اس کے بعد ایک آدمی شہر کے پرلے سِرے سے دَوڑتا ہوا آیا اور بولا : موسیٰؑ، سرداروں میں تیرے قتل کے مشورے ہو رہے ہیں، یہاں سے نکل جا، میں تیرا خیر خواہ ہوں)،
ایک اور رجل عظیم سورہ غافر میں نظر آتا ہے:
فرعون کے دربار میں فرعون کے خاندان ہی کا وہ مرد حق حضرت موسی علیہ السلام کے حق میں اپنی آواز بلند کرتا ہے اس طرح کہ فرعون کا دربار گونج اٹھتا ہے اور اس کے تخت کے پایے لرزنے لگتے ہیں۔
وَقَالَ رَجُلٌ مُؤْمِنٌ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ یكْتُمُ إِیمَانَهُ أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَنْ یقُولَ رَبِّی اللَّهُ وَقَدْ جَاءَكُمْ بِالْبَینَاتِ مِنْ رَبِّكُمْ وَإِنْ یكُ كَاذِبًا فَعَلَیهِ كَذِبُهُ وَإِنْ یكُ صَادِقًا یصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِی یعِدُكُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا یهْدِی مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ۔ یاقَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْیوْمَ ظَاهِرِینَ فِی الْأَرْضِ فَمَنْ ینْصُرُنَا مِنْ بَأْسِ اللَّهِ إِنْ جَاءَنَا قَالَ فِرْعَوْنُ مَا أُرِیكُمْ إِلَّا مَا أَرَى وَمَا أَهْدِیكُمْ إِلَّا سَبِیلَ الرَّشَادِ۔ وَقَالَ الَّذِی آمَنَ یاقَوْمِ إِنِّی أَخَافُ عَلَیكُمْ مِثْلَ یوْمِ الْأَحْزَابِ۔ مِثْلَ دَأْبِ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَالَّذِینَ مِنْ بَعْدِهِمْ وَمَا اللَّهُ یرِیدُ ظُلْمًا لِلْعِبَادِ ۔ وَیاقَوْمِ إِنِّی أَخَافُ عَلَیكُمْ یوْمَ التَّنَادِ۔ یوْمَ تُوَلُّونَ مُدْبِرِینَ مَا لَكُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ عَاصِمٍ وَمَنْ یضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ ۔ [غافر: 28 – 33]
(اس موقع پر آل فرعون میں سے ایک مومن شخص، جو اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا، بول اٹھا: کیا تم ایک شخص کو صرف اِس بنا پر قتل کر دو گے کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے؟ حالانکہ وہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس بینات لے آیا اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کا جھوٹ خود اسی پر پلٹ پڑے گا لیکن اگر وہ سچا ہے تو جن ہولناک نتائج کا وہ تم کو خوف دلاتا ہے ان میں سے کچھ تو تم پر ضرور ہی آ جائیں گے اللہ کسی شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو حد سے گزر جانے والا اور کذاب ہو۔ اے میری قوم کے لوگو! آج تمہیں بادشاہی حاصل ہے اور زمین میں تم غالب ہو، لیکن اگر خدا کا عذاب ہم پر آ گیا تو پھر کون ہے جو ہماری مدد کر سکے گا فرعون نے کہا ’’میں تو تم لوگوں کو وہی رائے دے رہا ہوں جو مجھے مناسب نظر آتی ہے اور میں اُسی راستے کی طرف تمہاری رہنمائی کرتا ہوں جو ٹھیک ہے‘‘۔ وہ شخص جو ایمان لایا تھا اُس نے کہا ’’اے میری قوم کے لوگو، مجھے خوف ہے کہ کہیں تم پر بھی وہ دن نہ آ جائے جو اس سے پہلے بہت سے جتھوں پر آ چکا ہے۔ جیسا دن قوم نوحؑ اور عاد اور ثمود اور ان کے بعد والی قوموں پر آیا تھا اور یہ حقیقت ہے کہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ اے قوم، مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم پر فریاد و فغاں کا دن نہ آ جائے۔ جب تم ایک دوسرے کو پکارو گے اور بھاگے بھاگے پھرو گے، مگر اُس وقت اللہ سے بچانے والا کوئی نہ ہو گا سچ یہ ہے کہ جسے اللہ بھٹکا دے اُسے پھر کوئی راستہ دکھانے والا نہیں ہوتا۔ )
قرآن کے رجل عظیم کی یہ صفت ہوتی ہے کہ وہ دین حق کی نصرت اور اہل دین کی خیرخواہی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ جہاں بھی اور جس طرح بھی اسے دین کی خدمت، حفاظت اور نصرت کا موقع ملتا ہے وہ بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیتا ہے۔ قرآن کا رجل عظیم دعوت دین کے لیے کام کرنے والوں کی ہر طرح سے معاونت کرتا ہے، ان کا ساتھ دیتا ہے اور دین حق کی دعوت میں بڑھ چل کر حصہ لیتا ہے۔
ان آیات کے مجموعی مطالعہ سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن کے مردان حق صرف اپنی زندگی کی پرواہ نہیں کرتے، وہ اپنی زندگی میں ہی چراغ جلانا نہیں چاہتے بلکہ انھیں اپنی زندگی کے ساتھ دوسروں کی بھی فکر ہوتی ہے۔ دوسروں کو اندھیرے میں دیکھ کر وہ کبھی چین سے نہیں رہتے۔ اس لیے مردان حق کی زندگی دوسروں کے لیے روشنی کا ذریعہ بنتی ہے۔
بلند ترین مقام والے رجال
وَبَینَهُمَا حِجَابٌۭ وَعَلَى ٱلْأَعْرَافِ رِجَالٌۭ یعْرِفُونَ كُلًّۢا بِسِیمَىٰهُمْ ۚ وَنَادَوْا۟ أَصْحَـٰبَ ٱلْجَنَّةِ أَن سَلَـٰمٌ عَلَیكُمْ ۚ لَمْ یدْخُلُوهَا وَهُمْ یطْمَعُونَ [الأعراف: 46]
(ان دونوں گروہوں کے درمیان ایک اوٹ حائل ہوگی جس کی بلندیوں (اعراف) پر کچھ بہت خاص لوگ ہوں گے یہ ہر ایک کو اس کے قیافہ سے پہچانیں گے اور جنت والوں سے پکار کر کہیں گے کہ ’’سلامتی ہو تم پر‘‘یہ لوگ جنت میں داخل تو نہیں ہوئے مگر اس کے امیدوار ہونگے)
بلندیوں پر رجال کی وہ کون سی جماعت ہوگی جو مومنوں کو جنت کی بشارت دے رہے ہوگی؟ لفظ اعراف کی معنویت اور سیاق و سباق کی دلالت بتاتی ہے کہ بلندیوں پر مومنوں کی وہ جماعت ہوگی جو ایمان کے بلند ترین مرتبے پر فائز ہوگی۔ ان میں سرفہرست تو نبیوں کی جماعت ہے، جو انسانیت کے سب سے بڑے محسن ہیں اور امید ہے کہ وہ لوگ بھی ہوں گے جنھوں نے رسولوں کے مشن کو اپنی زندگی کا نصب العین بنالیا اور پوری زندگی اس کے لیے وقف کردی۔
امت کا سب سے قیمتی سرمایہ
بلند سوچ اور اونچے کردار کے رجال دین حق کا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں۔ دین کی نصرت کے لیے مال واسباب سے کہیں زیادہ اہمیت مردان حق کی ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے رجال کی اہمیت کو بڑے عمدہ طریقے سے واضح فرمایا۔
عُمَرَ بْنَ الْخطاب قَالَ لأَصْحَابه تمنوا فَقَالَ أحد أَتَمَنَّى أَنْ یكُونَ مِلْءُ هَذَا الْبَیتِ دَرَاهِمَ فأنفقها فِی سَبِیل الله فَقَالَ تَمَنَّوْا قَالَ آخَرُ أَتَمَنَّى أَنْ یكُونَ مِلْءُ هَذَا الْبَیت ذَهَبا فأنفقها فِی سَبِیلِ اللَّهِ قَالَ تَمَنَّوْا قَالَ آخَرُ أَتَمَنَّى أَنْ یكُونَ مِلْءُ هَذَا الْبَیتِ جَوْهَرًا أَوْ نَحْوَهُ فَأُنْفِقَهُ فِی سَبِیلِ اللَّهِ فَقَالَ عمر تمنوا فَقَالُوا مَا تَمَنَّینَا بَعْدَ هَذَا قَالَ عُمَرُ لَكِنِّی أَتَمَنَّى أَنْ یكُونَ مِلْءُ هَذَا الْبَیتِ رِجَالا مِثْلَ أَبِی عُبَیدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ وَحُذَیفَةَ بْنِ الْیمَانِ فَأَسْتَعْمِلَهُمْ فِی طَاعَةِ اللَّهِ قَالَ ثُمَّ بَعَثَ بِمَالٍ إِلَى حُذَیفَةَ قَالَ انْظُرْ مَا یصْنَعُ قَالَ فَلَمَّا أَتَاهُ قَسَمَهُ ثُمَّ بَعَثَ بِمَالٍ إِلَى مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ فَقَسَمَهُ ثُمَّ بَعَثَ بِمَالٍ یعْنِی إِلَى أَبِی عُبَیدَةَ قَالَ انْظُرْ مَا یصْنَعُ فَقَالَ عُمَرُ قَدْ قُلْتُ لَكُمْ أَوْ كَمَا قَال (التاریخ الأوسط، للبخاری)
حضرت عمر بن خطابؓ نے اپنے ساتھیوں سے کہا: ’’تمنا کرو۔‘‘ایک شخص نے کہا: ’’میں چاہتا ہوں کہ یہ گھر چاندی سے بھرا ہو تاکہ میں اسے اللہ کی راہ میں خرچ کروں۔‘‘ حضرت عمرؓ نے کہا: ’’تمنا کرو۔‘‘دوسرے نے کہا: ’’میں چاہتا ہوں کہ یہ گھر سونے سے بھرا ہو تاکہ میں اسے اللہ کی راہ میں خرچ کروں۔‘‘ حضرت عمرؓ نے پھر کہا: تمنا کرو۔’’ایک اور شخص نے کہا: میں چاہتا ہوں کہ یہ گھر ہیرے جواہرات یا ان جیسی چیزوں سے بھرا ہو تاکہ میں اسے اللہ کی راہ میں خرچ کروں۔‘‘حضرت عمرؓ نے کہا: تمنا کرو۔ انہوں نے کہا: ہم اس کے بعد کیا تمنا کریں؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا: لیکن میں چاہتا ہوں کہ یہ گھر ابو عبیدہ بن الجراحؓ، معاذ بن جبلؓ اور حذیفہ بن الیمانؓ جیسے رجال سے بھرا ہو، تاکہ میں انہیں اللہ کی اطاعت میں استعمال کروں۔پھر حضرت عمرؓ نے حضرت حذیفہؓ کے پاس مال بھیجا اور کہا: دیکھو، یہ کیا کرتے ہیں؟ جب حضرت حذیفہؓ کے پاس مال آیا تو انھوں نے اسے تقسیم کردیا۔ پھر حضرت عمرؓ نے حضرت معاذ بن جبلؓ کے پاس بھی مال بھیجا اور انھوں نے بھی اسے تقسیم کردیا۔ پھر حضرت عمرؓ نے حضرت ابوعبیدہؓ کے پاس بھی مال بھیجا اور کہا: دیکھو، یہ کیا کرتے ہیں؟ انھوں نے بھی وہی کیا۔ تب حضرت عمرؓ نے فرمایا: دیکھو میں نے تم سے کہا تھا نا۔
اسلامی تحریک میں سب سے زیادہ توجہ افراد سازی پر ہونی چاہیے۔ قرآن مجید نے رجال کے جو اوصاف بیان کیے ہیں افراد سازی کے حوالے سے ان کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ اس پہلو سے قرآن مجید میں رجل اور رجال کے ساتھ مذکور اوصاف کا گہرا مطالعہ ہونا چاہیے۔
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2024