فرائض و واجبات میں ایمان کا رتبہ سب سے اعلیٰ وبالا ہے۔ بلکہ یوں کہناچاہیے کہ اس کی حیثیت اوجب الواجبات کی ہے۔ اس لیے کہ دنیا و آخرت کی تمام بھلائیاں اسی ایمان کے وجود اور اس کی صحت و سلامتی ہی پر موقوف ہیں۔ اس کے فوائد بے شمار ہیں۔ اس کے پھل پکے ہوئے اور لذیذ ہیں، اور اس کی بھلائیاں دائمی ہیں۔
صحابہ کرام ؓ کا یہ دستور مبارک تھا کہ وہ اپنے ایمان کا جائزہ لیتے،اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے اور باہم اس میںاضافے کی تلقین کیا کرتے تھے:
﴿۱﴾ یہ عمر بن خطاب ؓ صحابہؓ سے کہا کرتے تھے ‘‘ھلمو انزداد ایمانا’’آؤ ہم سب اپنا ایمان بڑھائیں ‘‘ تعالو نزداد ایمانا’’ادھر آؤ تاکہ ہم اپنے ایمان میں اضافہ کریں۔
﴿۲﴾ عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے تھے: ’اجلسوا بنا نزداد ایمانا‘ ہمارے ساتھ بیٹھو تاکہ ہم اپنے ایمان کو فزوں ترکر لیں۔ یہ اللہ سے یہ دعا کرتے تھے:’اللھم زدنی ایمانا و یقینا و فقھا‘ ’اے اللہ! ہمارے ایمان و یقین اور فہم دین میں اضافہ کر دے۔‘
﴿۳﴾ معاذ بن جبل ؓ کہتے تھے: ‘‘اجلسو ابنا نؤ من ساعۃ ’’ساتھ بیٹھو تاکہ تھوڑی دیر کے لیے ہم مومن ہو جائیں۔‘
﴿۴﴾ عبد اللہ بن رواحہ ؓ ساتھیوں کی ایک جماعت کے ہاتھ پکڑ کر یہ درخواست کرتے تھے: ‘‘تعالوا نومن ساعۃ تعالو افلنذ کر اللہ ونذداد ایمانا بطاعتہ لعلہ یذکرنا بمغفرتہ’’ آؤ کچھ دیر کے لیے مومن بن جائیں آؤ اللہ کا ذکر کریں اور اس کی اطاعت کرکے ایمان میں اضافہ کر لیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی مغفرت کے ذریعے ہمیں یاد کر لے۔
﴿۵﴾ ابو دردا ؓ کہتے تھے کہ ‘‘بندہ کے سمجھ دار ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ اپنے ایمان سے متعلق یہ جاننے کی کوشش کرے کہ یہ ایمان بڑھ رہا ہے یا گھٹ رہا ہے۔ ایک زیرک انسان کی یہ بھی پہچان ہے کہ اسے شیطان کے وساوس کا علم ہو۔‘
﴿۶﴾ عمیر بن حبیب الخطمیؓ کہا کرتے تھے:’‘ ایمان گھٹتا اور بڑھتا ہے‘ اور جب ان سے پوچھا گیا کہ ایمان کے گھٹنے اور بڑھنے کا کیا مطلب ہے؟ تو فرمایا کہ جب ہم اللہ کا ذکر کریں گے، اس کی تسبیح اور تمحید بیان کریں گے تو ایمان میں اضافہہوگا اور جب ہم اس سے غافل ہو جائیںگے تو ایمان میں کمی آئے گی۔
﴿۷﴾ علقمہ بن قیس نخعیؒ ایک بڑے بزرگ تابعی ہیں۔ اپنے ساتھیوں سے کہا کرتے تھے: ’امشوا ابنا نزداد ایمانا‘ ’ہمارے ساتھ چلو تاکہ ہم اپنا ایمان بڑھالیں۔‘
﴿۸﴾ عبد الرحمن بن عمر و اوزعیؒ سے ایمان کے متعلق پوچھا گیا کہ کیا وہ بڑھتا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں وہ بڑھ کر پہاڑ کے مانند ہو جاتا ہے اور جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا ایمان گھٹتا ہے؟ تو فرمایا کہ ہاں ’ وہ اتنا گھٹ جاتا ہے کہ کچھ باقی نہیں رہتا۔‘
﴿۹﴾ احمد بن حنبلؒ سے ایمان کی کمی و بیشی کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا : ’ ایمان اتنا بڑھتا ہے کہ ساتوں آسمان کے اوپر پہنچ جاتا ہے اور اتنا کم ہو جاتا ہے کہ ساتوں طبق زمین کے نیچے چلا جاتا ہے۔ یہ بھی فرمایا: ’ایمان قول و عمل کا نام ہے جو گھٹتا بڑھتا ہے، جب تم نیکی کروگے تو بڑھ جائے گا اور نیکی ضائع کردو گے تو گھٹ جائے گا۔‘
ہمارے یہ سلف صالحین اس سے آگاہ تھے کہ بہت سارے ایسے اسباب جن سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے، جو ایمان کو مضبوط کرتے ہیں اور جو ایمان کو ترقی عطا کرتے ہیں اسی طرح بہت سے سارے اسباب بھی ہیں جو ایمان کو گھٹاتے اور کمزور بناتے ہیں۔اس لیے انھوں نے ایسے تمام اسباب وسائل کو اختیار کیا جو ایمان کی تقویت و تکمیل کا سبب تھے اور ان تمام اسباب سے پوری سختی کے ساتھ اجتناب کیا جو ایمان کو کمزور کرتے ہیں۔
اس لیے ہر وہ شخص جسے اپنی سعادت و خوش بختی پیاری ہے اسے چاہیے کہ وہ ان اسباب کو جان کر ان میں غور کرے اور انہیں اپنی زندگی میں نافذ کرلے تاکہ اس کے ایمان و یقین میں اضافہ ہو سکے اور اسی طرح وہ ایمان کی کمی کے اسباب سے اپنے آپ کو محفوظ رکھے تاکہ نقصان ایمان کے خطرناک نتائج اور المناک انجام سے بچ جائے یہ توفیق جسے حاصل ہو گئی اس نے ہر قسم کی بھلائیاں جمع کر لیں۔
ایمان میں اِضافے کے اسباب
اللہ تعالیٰ نے سب سے اہم اور سب سے عظیم اور نفع بخش عمل ایمان کی ترقی و اضافہ اور تقویت کے اسباب وذرائع بھی بیان کر دئے ہیں کہ جب بندے ان اوصاف کے حامل اور ان صفات سے متصف ہوںگے تو ان کا یقین قوی ہو جائے گا اور ان کے ایمان میں اضافہہوگا۔ وہ تمام طریقے اللہ کی کتاب میں اور اس کے رسول ﷺ کی سنت میں موجود ہیں، جن میں سب سے اہم اسباب درج ذیل ہیں۔
﴿۱﴾ کتاب وسنت سے مستفاد علم نافع کا حصول
علم نافع کی تعریف کرتے ہوئے علامہ ابن رجب رقم طراز ہیں:’علم نافع کتاب وسنت کے نصوص یاد کرنے اور اس کے معانی کو صحابہ و تابعین اور تبع تابعین کے اقوال کی روشنی میں سمجھنے اور حلال و حرام، زہدوورع، ترغیب و ترہیب وغیرہ کے مسائل میں ان کے فتاوی جاننے اور صحیح و ضعیف نصوص کے مابین تمیز کرنے اور ان نصوص کے معانی کی واقفیت اور ان کی تفہیم و تشریح کا ملکہ پیدا ہونے کو کہتے ہیں۔ مرددانا کے لیے اتنا علم ہی کافی ہے اور اسی قدر علم کے حصول میں مشغول ہونے کو علم نافع سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ ﴿فصل علم السلف علی علم الخلف،ص: ۵۴﴾
اس علم کی توفیق جسے مل گئی اسے اضافۂ ایمان کے سب سے عظیم سبب کی واقفیت ہو گئی۔ کتاب و سنت کے نصوص میں غور فکر کرنے والے یقینا میرے اس قول کی تائید کریں گے۔
شَھِدَ اللّٰہ لآا الہ الّا ھُوَ وَالمَلٰئِ ٓکَۃُ وَ اُو لُواالعِلمِ قائِماً بِلقِسطِ لآ الٰہ اِلّا ھُوَالعَزِیزُالحَکِیمُ ﴿آل عمران:۱۸﴾
’اللہ تعالیٰ، فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں،اور وہ عدل کو قائم رکھنے والا ہے، اس غالب اور حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔‘
لٰکِنِ الرَّاسِخُونَ فِیْ الْعِلْمِ مِنْہُمْ وَالْمُؤْمِنُونَ یُؤْمِنُونَ بِمَآ أُنزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ أُنزِلَ مِن قَبْلِکَ وَالْمُقِیْمِیْنَ الصَّلاَۃَ وَالْمُؤْتُونَ الزَّکَوٰۃَ وَالْمُؤْمِنُونَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ أُوْلَ ئِٓکَ سَنُؤْتِیْہِمْ أَجْراً عَظِیْما ً﴿النساء:۱۶۲﴾
لیکن ان میں سے جو کامل اور مضبوط علم والے ہیں اور ایمان والے ہیں جو اس پر ایمان لاتے ہیں جو آپ کی طرف اتارا گیا اور جو آپ سے پہلے اتارا گیا اور نمازوں کو قائم رکھنے والے ہیں اور زکوۃ کے ادا کرنے والے ہیں اور اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والے ہیں۔ یہ ہیں جنہیں ہم بہت بڑے اجر عطا فرمائیں گے۔‘
وَلِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ أُوتُوا الْعِلْمَ أَنَّہُ الْحَقُّ مِن رَّبِّکَ فَیُؤْمِنُوا بِہِ فَتُخْبِتَ لَہُ قُلُوبُہُمْ وَاِنَّ اللَّہَ لَہَادِ الَّذِیْنَ آمَنُوا اِلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْم ﴿الحج:۵۴﴾
‘‘اور اس لئے بھی کہ جنہیں علم عطا فرمایا گیا ہے وہ یقین کر لیں کہ یہ آپ کے رب ہی کی طرف سے سراسر حق ہی ہے پھر وہ اس پر ایمان لائیں اور ان کے دل اس کی طرف جھک جائیں۔ یقینا اللہ تعالیٰ ایمان داروں کو راہ راست کی طرف رہبری کرنے والا ہے۔’’
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
‘‘ من یرد اللّٰہ بہ خیر ا یفقھہ فی الدین’’﴿بخاری و مسلم عن معاویہ﴾
‘‘اللہ اپنے جس بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ کرتا ہے اسے تفقہ فی الدین عطا کرتا ہے۔’’
دوسری حدیث میں فرمایا ‘‘ جو شخص علم کے لئے کسی راستے پر چلا اسے اللہ جنت کا راستہ طے کراتا ہے فرشتے طالب علم کے عمل سے خوش ہو کہ اس پر اپنے بازو پھیلا دیتے ہیں اور عالم کے لیے آسمان و زمین کی تمام چیزیں یہاں تک کہ پانی کی مچھلیاں بھی دعائے مغفرت کرتی ہیں اور ایک عالم کو عابد پر اس طرح فضیلت حاصل ہے جس طرح چودھویں کے چاند کو تمام ستاروں پرہے اور علمائ انبیائ کے وارث ہیں اور انبیائ نے انہیں وراثت میں روپے پیسے نہیں دیے بلکہ انہیں اپنے علم کا وارث بنایا ہے اس لیے جس نے علم سیکھ لیا اس نے میراث نبوی سے اپنا پورا حق پا لیا ﴿صحیح الجامع:۵/۳۰۲﴾۔
ترمذی وغیرہ میں حضرت ابو امامہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ‘‘عالم کو عابد پراسی طرح فضیلت حاصل ہے جس طرح مجھے کسی ادنی شخص پر فضیلت ہے جو شخص لوگوں کو خیر کی تعلیم دیتا ہے اس پر اللہ عزو جل رحم فرماتا ہے۔ فرشتے، زمین آ سمان والے یہاں تک کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور مچھلی اس کے لیے دعائے مغفرت کرتی ہے۔’’ ﴿صحیح الترمذی :۳۴۳۲﴾
مذکورہ بالا آیات و احادیث میں علم کا مقام و منزلت، رفعت شان اور اہمیت بیان کی گئی ہے ساتھ ہی دنیا و آخرت میں ظاہر ہونے والے علم کے خوشگوار اثرات اور کریمانہ اخلاق و عادات کی وضاحت کی گئی ہے اور یہ بیان کیا گیا ہے کہ علم ہی کے ذریعے شریعت الٰہی کی تابعداری اور احکام خداوندی کی تعمیل کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ چوں کہ جو عالم ہوگا وہ اپنے رب کو اور اس کے نبی کو اس کے احکام و حدود کو پہچان سکے گا اور وہ ان چیزوں کے درمیان تفریق کر سکے گا کہ اللہ کن چیزوں کو پسند کرتا ہے اور کن چیزوں کو ناپسند کرتا ہے۔ اگر اس کا علم اللہ کے اوامر کی بجا آوری پر آمادہ کرتا ہے تو ٹھیک ورنہ اس کا علم اس کے لے وبال ہو جائے گا۔
چو نکہ علم دراصل اللہ وحدہ کی عبادت کا بہترین وسیلہ ہے جو تمام انبیاء کی بعثت کا مقصود اولین ہے،اس لیے طلب علم کے لیے سفر کرنے، علمی مجالس میں بیٹھنے اور علم پر عمل کرنے سے ایمان میںاضافہ ہوتاہے۔
﴿۲﴾ قرآن کریم کی تلاوت اور معانی پر غورو فکر
یہ ایمان کی زیادتی اوراس کی تقویت کا سب سے اہم ذریعہ ہے چوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر ایسی کتاب نازل کی ہے ہدایت و رحمت کا باعث ہے جو سراپا نور ہے جس میں اللہ والوں کے لئے بشارت و موعظت ہے:
وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا ہُوَ شِفَائ وَرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَلاَ یَزِیْدُ الظَّالِمِیْنَ اَلاَّ خَسَارا ﴿بنی اسرائیل:۸۲﴾
‘‘یہ قرآن جو ہم نازل کر رہے ہیں مومنوں کے لئے تو سراسر شفا اور رحمت ہے۔ ہاں ظالموں کو بجز نقصان کے اور کوئی زیادتی نہیں ہوتی۔’’
اس لیے جو شخص کتاب اللہ کی تلاوت کریگا اور اس کی آیتوں پرغور و فکر کرے گا تو اس کے اسلوب وانداز اور مضامین میں ایسے علوم و معارف نظر آئیں گے جن سے اس کے ایمان میں اضافہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ اپنے بندوں کو غور و فکر کی ترغیب دیتا ہے۔
أَفَلاَ یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِندِ غَیْْرِ اللّہِ لَوَجَدُواْ فِیْہِ اخْتِلاَفاً کَثِیْراً ﴿النساء:۸۲﴾
‘‘کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقینا اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے۔’’
اس کے بارے میں اللہ نے فرمایا کہ مومنین جب اس کتاب کو پڑھیں گے اور تدبیر کریںگے تو ان کے ایمان بڑھ جائیں گے:
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّہُ وَجِلَتْ قُلُوبُہُمْ وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْْہِمْ آیَاتُہُ زَادَتْہُمْ اِیْمَاناً وَعَلَی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُونَ ﴿الانفعال:۲﴾
‘‘بس ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو ان کے قلوب ڈر جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتیں ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور زیادہ کر دیتی ہیں اور وہ لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں ۔’’
ایمان میں کمال و یقین اور دین پر استقامت ہم اس وقت تک حاصل نہیں کرسکتے جب تک کہ ہم کثرت سے قرآن کی تلاوت نہ کریں، حصول ہدایث کی نیت سے اس میں غور و فکر نہ کریںاور اس کے اوامر ونواہی پر عمل نہ کریں۔
مشمولہ: شمارہ فروری 2011