اس سے پہلے ان سطور میں سائنس اور اسلامی تصورکائنات کے مابین تعلق کے بارے میں چند معروضات پیش کی جاچکی ہیں۔ علوم کی جو تقسیم آج کل مقبول ہے ، اس میں سائنس (یعنی طبعی علوم)کے علاوہ سماجی علوم (Social Sciences)کو بھی علم کا ایک اہم شعبہ تسلیم کیاگیاہے۔چنانچہ ذیل کی سطور میں سماجی علوم اور اسلامی تصور حیات و کائنات کے درمیان ربط کے سلسلے میں گفتگو کی جائے گی۔
گفتگو کا آغاز انسان کے وجود کے بارے میں غور و فکر سے کیا جاسکتا ہے۔ قرآن مجید ہمیں یہ کلیدی حقیقت بتاتا ہے کہ مخلوقات میں انسان ہی وہ ہستی ہے جس کو بارِ امانت سپرد کیا گیا ہے۔ انسان کا یہ امتیاز اسے دوسری مخلوقات سے ممیز کرتا ہے۔ قرآن مجید کا ارشاد ہے:
إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَۃَ عَلَی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَیْنَ أَن یَحْمِلْنَہَا وَأَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الْإِنسَانُ إِنَّہُ کَانَ ظَلُوماً جَہُولاً۔ لِیُعَذّبَ اللَّہُ الْمُنَافِقِیْنَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِکِیْنَ وَالْمُشْرِکَاتِ وَیَتُوبَ اللَّہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَکَانَ اللَّہُ غَفُوراً رَّحِیْماً۔(سورہ الاحزاب، آیات : ۷۲- ۷۳)
’’ہم نے امانت دکھائی آسمانوں کو اور زمین کو اور پہاڑوں کو۔ پھر کسی نے قبول نہ کیا کہ اس کو اٹھائیں اور اس سے ڈرگئے۔ اور انسان نے اس کو اٹھا لیا۔ وہ بڑا ظالم اور نادان ہے۔ (یہ اس لیے ہوا) کہ اللہ عذاب دے منافق مردوں اور عورتوں کو اور مشرک مردوں اور عورتوں کو۔ اور اللہ معاف کرے ایمان لانے والے مردوں اور عورتوں کو۔ اور اللہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔‘‘
بارِامانت کا مفہوم کیا ہے؟ اس سلسلے میں جناب شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں:
’’امانت کیا ہے؟ پرائی چیز رکھنی، اپنی خواہش کو روک کر۔‘‘
گویا انسان کی وہ اخلاقی حس بارِ امانت کا سبب ہے، جو انسان کو اپنی خواہش پر کنٹرول کرنے کااہل بناتی ہے اور خواہش کے علی الرغم انسان کے اندر وہ طاقت پیدا کرتی ہے کہ وہ حق پر قائم رہ سکے اور عدل کے تقاضے پورے کرسکے۔
انسان کی حیثیت کے بیان کے لیے قرآن مجید نے خلافت کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے:
وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَئِکَۃِ إِنّیْ جَاعِلٌ فِیْ الأَرْضِ خَلِیْفَۃً۔ (سورۃالبقرۃ، آیت: ۳۰)
’’جب کہا تیرے رب نے فرشتوں سے کہ میں زمین میں ایک نائب بنانے والا ہوں۔‘‘
وَہُوَ الَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلٰئِفَ الأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَا آتَاکُمْ إِنَّ رَبَّکَ سَرِیْعُ الْعِقَابِ وَإِنَّہُ لَغَفُورٌ رَّحِیْمٌ۔ (سورۃ الانعام، آیت: ۱۶۵)
’’اور اسی (اللہ) نے تم کو زمین میں نائب کیا ہے اور تم میں سے بعض کے درجات بعض پر بلند کردیے ہیں تاکہ تم کو اپنے دیے ہوئے احکام کے ذریعے آزمائے۔ بے شک تیرا رب عذاب دینے میں تیز ہے اور وہی بخشنے والا اور مہربان بھی ہے۔‘‘
جناب شبیر احمد عثمانی اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں:
’’یعنی خدا نے زمین میں تم کو اپنا نائب بنایا کہ تم اس کے دیے ہوئے اختیارات سے کام لے کر کیسے کیسے حاکمانہ تصرفات کرتے ہو۔‘‘
خلافت اور امانت کے مفہوم پر غور کرنے سے یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ انسان ایک ذمہ دار ہستی ہے جسے لازماً اپنے کاموں کے لیے مسئول یا جوابدہ سمجھا جانا چاہیے۔ اگر کسی کو اختیارات حاصل ہوں تو عقل اس کا تقاضا کرتی ہے کہ اختیارات کے استعمال کا حساب بھی اس سے لیا جائے:
أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثاً وَأَنَّکُمْ إِلَیْنَا لَا تُرْجَعُونَ۔ فَتَعَالَی اللَّہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ۔ وَمَن یَدْعُ مَعَ اللَّہِ إِلَہاً آخَرَ لَا بُرْہَانَ لَہُ بِہِ فَإِنَّمَا حِسَابُہُ عِندَ رَبِّہِ إِنَّہُ لَا یُفْلِحُ الْکَافِرُون۔ وَقُل رَّبّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنتَ خَیْرُ الرَّاحِمِیْنَ ۔ (سورۃ المومنون، آیات: ۱۱۵تا ۱۱۸)
’’پھر کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تم کو بے کار پیدا کیا ہے اور تم لوٹ کر ہمارے پاس نہ آؤگے۔ پس بہت بالا و برتر ہے اللہ بادشاہِ حقیقی۔ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ وہ مالک ہے عرش کریم کا۔ اور جو کوئی اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارے جس کے لیے کوئی دلیل اس کے پاس نہ ہو، اس کا حساب اس کے رب کے ذمہ ہے۔ بے شک کافر فلاح نہیں پایا کرتے۔ اور کہہ دو کہ اے رب! تو معاف کر اور رحم فرما اور تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔‘‘
انسانی سماج کے مطالعے کے محرکات
انسان کے بارے میں اسلام کا تصور سامنے آنے کے بعد اس پر غور کرنا چاہیے کہ انسان اور انسانی سماج کے مطالعے کے محرکات کیا ہیں؟ اس سلسلے میں تین محرکات کی نشاندہی کی جاسکتی ہے:
(الف) فطری تجسس
(ب) انسانی سماج میں مطلوبہ اقدار کی ترویج کی آرزو اور
(ج) تصور کائنات کے اثبات کا جذبہ۔
مطالعہ کرنے والا خدا کا قائل ہو اور اس کی ہدایت کا اتباع کرنا چاہتا ہو یا اس کے برعکس خدا اور ہدایت الٰہی کا انکار کرتا ہو یا بے نیازی برتتا ہو، ہر صورت میں مطالعہ انسان کے یہی تین محرکات ہوتے ہیں جن کا تذکرہ کیا گیا۔
تجسس انسان کا فطری جذبہ ہے۔ سوالات کرنا اور ان کے جواب ڈھونڈنا انسان کی سرشت میں داخل ہے۔ انسان کے سوالات ہر موضوع سے متعلق ہوتے ہیں۔ ان موضوعات میں خود انسان بھی شامل ہے بلکہ غالباً انسان کی دلچسپی سب سے زیادہ اسی موضوع سے ہوتی ہے۔ موجودہ دور میں انسان کی ذہنی کیفیات سے متعلق علم کو نفسیات کہا جاتا ہے جس میں اصلاً فرد موضوعِ بحث ہوتا ہے۔ مغربی دنیا میں نفسیات کے عنوان کے تحت پچھلی دو صدیوں میں بہت کچھ سوچا اور لکھا گیا ہے۔ علمِ نفسیات کے علاوہ انسان سے اس کی انفرادی حیثیت میں بحث کرنے والے بعض اور ذیلی علوم بھی ہیں جن میں انسان کی صلاحیتوں اور ان کی نشو و نما سے متعلق گفتگو کی جاتی ہے۔ البتہ انسان سے متعلق علوم کا بڑا حصہ سماجی علوم پر مشتمل ہے جس میں انسان کے اجتماعی وجود اور ایک انسان کے دوسرے انسانوں سے تعلق کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ معاشیات، سیاسیات اور تاریخ ایسے ہی علوم ہیں۔ پچھلی تین صدیوں میں مغربی دنیا نے سماجی علوم میں بڑے پیمانے پر تحقیق کی ہے، معلومات کا بڑا ذخیرہ فراہم کیا ہے اور ہر موضوع کے متعلق نظریات پیش کیے ہیں۔
اسلام انسان کے ہر فطری وصف کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور انسانی شخصیت کی معتدل نشو و نما میں تمام فطری اوصاف کے رول کو تسلیم کرتا ہے۔ یہی معاملہ تجسس کا بھی ہے۔ چنانچہ تجسس کا فطری جذبہ ایک مطلوب و پسندیدہ وصف ہے لیکن اس کو اخلاقی حدود کا پابند ہونا چاہیے۔ اسلام اس کو پسند کرتا ہے کہ انسان کی ہستی کے بارے میں اس پہلو سے غور کیا جائے کہ نظامِ کائنات میں انسان کی حیثیت کیا ہے؟ خالق کائنات سے اس کا کیا تعلق ہے اور انسان کے لیے اس کے رب نے کیا ہدایات دی ہیں؟ اس طرح یہ غور کرنا بھی پسندیدہ ہے کہ انسانی تاریخ سے کیا سبق ملتا ہے اور قوموں کے حالات سے حال کے لیے کیا کچھ سیکھا جاسکتا ہے؟ اس کے برعکس لوگوں کے عیوب کو جذبہ تجسس کا موضوع بنانا منع ہے۔ قرآن مجید کی ہدایت ہے:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا کَثِیْراً مّنَ الظَّنّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا۔(سورۃ الحجرات، آیت :۱۲)
’’اے ایمان لانے والو! بہت گمان کرنے سے بچو، بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ اور بھید نہ ٹٹولو۔‘‘
جناب شبیر احمد عثمانیؒ اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں:
’’اختلاف و تفریق ِ باہمی کو بڑھانے میں ان امور کو (یعنی بدگمانی ،غیبت اور تجس کو) خصوصیت سے دخل ہے۔ ایک فریق، دوسرے سے ایسا بدگمان ہوجاتا ہے کہ حسن ِ ظن کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا۔ مخالف کی کوئی بات ہو، اس کا محل اپنے خلاف نکال لیتا ہے۔ اس کی بات میں ہزار احتمال بھلائی کے ہوں اور صرف ایک پہلو برائی کا نکلتا ہو، ہمیشہ اس کی طبیعت برے پہلو کی طرف چلے گی اور اسی برے اور کمزور پہلو کو قطعی اور یقینی قرار دے کر فریق مقابل پر تہمتیں اور الزام لگانا شروع کردے گا۔ پھر نہ صرف یہ کہ ایک بات اتفاقاً پہنچ گئی اور بدگمانی سے اس کو برے معنی پہنادیے گئے (بلکہ مستقل) اس جستجو میں رہتا ہے کہ دوسری طرف کے اندرونی بھید معلوم ہوں جس پر ہم خوب حاشیے چڑھائیں اور اس کی غیبت سے اپنی مجلس گرم کریں۔ ان تمام خرافات سے قرآن کریم منع کرتا ہے۔‘‘
شاہ ولی اللہؒ لکھتے ہیں:
’’الزام لگانا اور بھید ٹٹولنا اور پیٹھ پیچھے برا کہنا کسی جگہ بہتر نہیں مگر جہاں اس میں کچھ دین کا فائدہ ہو اور نفسانیت کی غرض نہ ہو۔‘‘
اس بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ اخلاقی حدود کے دائرے کے اندر ہتے ہوئے علمِ نافع کے حصول کے لیے تجسس جائز ہے جبکہ فاسد اغراض کے لیے تجسس ممنوع ہے۔
معاشرے میں مطلوبہ قدروں کی ترویج
انسان کے بارے میںمطالعہ و تحقیق کرنے والے تسلیم کرتے ہیں کہ انسان اجتماعی وجود ہے۔ انسانی شخصیت کے اجتماعی پہلو کا مطالعہ کرنے کا ایک طریقہ ان قدروں کی دریافت ہے جو کسی سماج میں رائج ہوں۔
اقدار یا Values کے معنی ان معیارات کے ہیں جو صحیح اور غلط، موزوں اور غیر موزوں، مناسب اور غیر مناسب اور پسندیدہ و ناپسندیدہ طرز ِ عمل کے مابین امتیاز کرنے کے لیے قائم کیے جائیں۔ سادہ الفاظ میں قدروں کا تعین اس سوال کا جواب ہے کہ ’’اچھا معاشرہ کیا ہے؟‘‘، چند مثالوں سے اس امر کی وضاحت کی جاسکتی ہے:
v (الف) لبرل تصورات کے مطابق اچھا معاشرہ وہ ہے جہاں فرد کو آزادی حاصل ہو، اس کی آزادی پر سماج یا ریاست کوئی قدغن نہ لگائے۔ قانون کی مداخلت صرف اس غرض کے لیے ہو کہ ایک فرد دوسرے فرد پر جبر نہ کرسکے۔ جبر کی عدم موجودگی میں اپنی آزاد مرضی کے ساتھ، افراد کے درمیان جو معاملات بھی ہوں، سب بجا ودرست ہیں۔ کسی اخلاقی معیار کی بنیاد پر کسی معاملے میں کوئی نکیر نہ ہونی چاہیے۔
(ب) ایک صحافی نے ایک جدید ریاست کے لیے مطلوب صفات میں جن باتوں کا تذکرہ کیا ہے ان میں سماجی و معاشی انصاف اور خواتین کے حقوق و اختیارات میں اضافہ (WOMEN EMPOWERMENT) شامل ہے۔گویا اس صحافی کے نزدیک سماج کی مطلوبہ قدریں–انصاف اور خواتین کے اختیارات میں اضافے سے عبارت ہیں۔
(ج) ہمارے ملک میں ہندتو کے حامیوں کے نزدیک پسندیدہ معاشرہ وہ ہے جہاں ملک کی قدیم تہذیب کے مظاہر نمایاں اور غالب ہوں اور تمام باشندے اس تہذیب کے رنگ میں رنگ جائیں۔گویا ان عناصر کے نزدیک سماج میں قدیم سنسکرتی کی قدروں کو رائج ہونا چاہیے۔
(د) اسلام کے نزدیک اچھا معاشرہ وہ ہے جہاں معروف کو فروغ حاصل ہو اور منکرات کا خاتمہ ہوجائے۔ قرآن مجید اہل ِ ایمان کو اقتدار حاصل ہوجانے کی صورت میں ان کے طرزِ عمل کا تذکرہ کرتا ہے:
الَّذِیْنَ إِن مَّکَّنَّاہُمْ فِیْ الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَآتَوُا الزَّکَوٰۃَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنکَرِ وَلِلَّہِ عَاقِبَۃُ الْأُمُورِ۔
(سورۃ الحج، آیت: ۴۱)
’’اہل ایمان وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو زمین میں اقتدار عطا کریں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔‘‘
جناب شبیر احمد عثمانی اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’یہ ان مسلمانوں کا بیان ہے جن پر ظلم ہوا اور جن کو گھروں سے نکالا گیا۔ (ارشاد ہے کہ) خدا ان کی مدد کیوں نہ کرے گا جب کہ وہ ایسی قوم ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین کی سلطنت دے دیں تب بھی خدا سے غافل نہ ہوں، بذات ِ خود بدنی و مالی نیکیوں میں لگے رہیں اور دوسروں کو بھی اسی راہ پر ڈالنے کی کوشش کریں۔‘‘
مطلوبہ معاشرے کے قیام اور اس میں پسندیدہ قدروں کو رواج دینے کے لیے عملی کوششوں کے ساتھ فکر و تحقیق کی ضرورت بھی پیش آتی ہے۔ سماجی علوم میں تحقیق کا بڑامحرک اپنے پسندیدہ معاشرے کے قیام کی طلب ہے مثلاً مغرب میں سماجی علوم کے ارتقاء کا اہم سبب وہ مذہب مخالف تحریک ہے جو یوروپ کی نشاۃ ثانیہ کے دوران نمودارہوئی اور جس نے قدیم مذہبی اساس کے بجائے محض عقل ِ انسانی کی بنیاد پر سماج و ریاست کے قیام کو اپنا مطمح ِ نظر بنایا۔اس تحریک نے اپنے پسندیدہ معاشرے کے قیام کے لیے سماجی علوم کو ایک خاص رخ پر ترقی دی۔
ظاہر ہے کہ معاشرے میں جن قدروں کو رواج دینا مقصود ہوتا ہے انہی کے اعتبار سے معلومات فراہم کی جاتی ہیں اور ان کو ترتیب دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر جس سماج میں یہ بات پسندیدہ سمجھی جائے کہ خواتین ہر قسم کی معاشی سرگرمی اختیار کریں اور تمام ملازمتوں میں اور دفاتر میںخواتین موجود ہوں وہاں ایسے اعداد و شمار کی ضرورت بھی محسوس کی جائے گی جن سے معلوم ہوسکے کہ روزگار کے مختلف میدانوں میں مردوں اور عورتوں کا تناسب کیا ہے؟ اس کے برعکس جو معاشرہ خواتین کے لیے معاشی دوڑ دھوپ کو لازم نہ کرتا ہو اور ان کے مقام و مرتبے کو ان کی ملازمت یا کاروباری مصروفیت پر موقوف نہ سمجھتاہو، وہ اس طرح کے اعداد و شمار کی کوئی ضرورت ہی محسوس نہ کرے گا کہ کس شعبے میں کتنی خواتین ملازمت کرتی ہیں؟
تاریخ نگاری میں قدروں کا یہ فرق بہت نمایاں ہوکر سامنے آتاہے۔ وہ معاشرہ جہاں قوم پرستی اور تہذیب آبائی سے عقیدت کلی کو پسندیدہ سمجھا جاتا ہو وہاں تاریخ نگاری میں حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا رجحان فروغ پائے گا تاکہ قوم پرستی کے جذبات کی تسکین ہوسکے۔ اس کے برعکس جو معاشرہ وحدت ِ آدم اور حق و صداقت کی عالم گیری کا قائل ہو اسے حقائق کو چھپانے کی ضرورت پیش نہ آئے گی بلکہ وہ تاریخی واقعات کو بے کم و کاست بیان کرے گا اور ان سے وہ کار آمد سبق حاصل کرے گا جو تمام انسانیت کے لیے یکساں مفید ہوں۔ اس مختصر جائزے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مطالعہ اور تحقیق کرنے والے کا نقطہ نظر اور نظامِ اقدار کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ چنانچہ مسلمان محققین کی ذمہ داری ہے کہ وہ صالح نظام اقدار کو اپنی فکری و تحقیقی کاوشوں کی اساس بنائیں۔
تصور کائنات اور تحقیق
انسانی سماج کے سلسلے میں تحقیق کرنے والا ہر محقق، کائنات کے بارے میں کوئی نہ کوئی تصور رکھتا ہے۔ چنانچہ انسانی سماج کے بارے میں جو نظریات، ایک محقق قائم کرتا ہے وہ اس کے تصور کائنات سے ہم آہنگ ہوتے ہیں اس سے ٹکراتے نہیں ہیں۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ نظریات کی ترتیب کے عمل کو تصور کائنات ایک خاص رُخ دیتا ہے۔ تصور کائنات کا مزاج ان تمام نظریات میں جھلکتا ہے جو اس کے تحت وجود میں آتے ہیں۔
یہ کہنا صحیح نہیں کہ محقق اور مشاہد، تصور کائنات کے بارے میں خالی الذہن ہوتا ہے اور اسی عالَم میں اپنی تحقیق کا آغاز کرتا ہے۔ حقیقت ِ واقعہ اس کے برعکس ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک محقق، خدا کا اور اس کے وجود کا قائل ہے اور انسان کو خدا کا نائب اور اخلاقی وجود سمجھتا ہے تو وہ ساری انسانی سرگرمیوں کی اور ماضی کے انسانوں کی تاریخ کی تشریح اسی نقطۂ نظر کے مطابق کرتا ہے۔ اسے انسانوں کی سرگزشت میں خدا کی نشانیاں نظر آتی ہیں اور انسانی سماج کے بارے میں معلومات کی تحقیق و ترتیب کے نتیجے میں اس کا خدا پرستانہ تصور کائنات اور زیادہ واضح شکل اختیار کرتاچلا جاتا ہے۔ عبرت پذیری کی کیفیت اس کے پورے فکری و تحقیقی کام میں نمایاں ہوتی ہے۔ اسباب اور واقعات کی باہم کڑی وہ یقینا تلاش کرتا ہے لیکن اسباب کو مادی اسباب تک محدود نہیں کرتا بلکہ انسانوں کی دینی و اخلاقی کیفیت کو کلیدی اہمیت دیتا ہے۔
اس کے برعکس اگر انسانی سماج کا مطالعہ کرنے والا ملحدانہ نقطۂ نظر رکھتا ہو تو وہ اسی تصور کائنات کے مطابق واقعات و حقائق کی تشریح کرتاہے۔ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ سماجی علوم کے مختلف گوشوں میں جو نظریات بھی قائم کیے جائیں وہ ملحدانہ مزاج سے ہم آہنگ ہوں اور اس مجمل مادہ پرستانہ تصور کائنات کی تفصیلی تعبیر کی جاسکے جو مطالعے کے آغاز میں قائم کیا گیا تھا۔ بہرحال کسی محقق کے لیے ممکن نہیں ہے کہ کائنات اور انسان کے بارے میں کوئی جامع تصور قائم کیے بغیر مطالعہ و تحقیق کے سفر میں قدم بڑھا سکے۔ اگر سفر خالی الذہنی کی کیفیت میں شروع بھی ہوجائے تو جاری نہ رہ سکے گا۔
جب حقیقت واقعہ یہ ہے تو ایک طالب علم اور محقق کے لیے ضروری ہے کہ درست تصور کائنات کو دریافت کرے۔ قرآن مجید اس کا طریقہ ہمیں بتاتا ہے۔ درست تصور کائنات کی دریافت کے لیے ضروری ہے کہ:
(الف) انسان اپنی عقل کا درست استعمال کرنے کے لیے تیار ہو اور کائنات کی نشانیوں پر دیانت داری کے ساتھ غور کرے۔
(ب) وہ اپنے قلب کی اصلاح کرکے اسے حق کو قبول کرنے پر آمادہ کرے (جب حق اس پرواضح ہوچکا ہو) اور
(ج) وہ اپنے اندر اتنی اخلاقی بلندی پیدا کرے کہ حق کے راستے پر چل سکے اور اس کے لیے جو ناگزیر قربانی درکار ہے وہ دے سکے۔ چنانچہ دریافت ِ حق کے لیے محض ذہنی کاوش کافی نہیں بلکہ قلب کا تزکیہ اور اخلاق کی اصلاح بھی درکار ہے۔
یوں تو نشانیاں جو حق کی جانب رہنمائی کرتی ہیں، کائنات کے ہر گوشے میں موجود ہیں لیکن سماجی علوم پر غور کے سیاق میں وہ نشانیاں زیادہ اہمیت رکھتی ہیں جن کا تعلق انسان کی شخصیت، اس کے انفرادی و اجتماعی وجود اور انسانی تاریخ سے ہے۔ قرآن ان نشانیوں کی طرف توجہ دلاتاہے:
ذَلِکَ مِنْ أَنبَاء الْغَیْبِ نُوحِیْہِ إِلَیْکَ وَمَا کُنتَ لَدَیْہِمْ إِذْ أَجْمَعُواْ أَمْرَہُمْ وَہُمْ یَمْکُرُون۔(سورۃ یوسف، آیت :۱۰۲)
’’یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تمہاری طرف وحی کر رہے ہیں۔ ورنہ تم اس وقت موجود نہ تھے جب وہ (برادران ِ یوسف) اپنا منصوبہ بنا رہے تھے اور فریب کر رہے تھے۔ ‘‘
وَکَأَیّن مّن آیَۃٍ فِیْ السَّمٰوٰتِ وَالأَرْضِ یَمُرُّونَ عَلَیْہَا وَہُمْ عَنْہَا مُعْرِضُون۔(سورۃ یوسف، آیت:۱۰۵)
’’اور آسمانوں اور زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں جن پر یہ لوگ گزرتے رہتے ہیں مگر وہ ان پر توجہ نہیں کرتے۔‘‘
إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لَآیَۃً وَمَا کَانَ أَکْثَرُہُم مُّؤْمِنِیْنَ۔ وَإِنَّ رَبَّکَ لَہُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ۔ (سورۃ الشعراء: ۱۲۱۔۱۲۲)
’’(اور نوح کے قصے میں) نشانی ہے اور ان میں سے اکثر لوگ ماننے والے نہیں ہیں اور بے شک تیرا رب زبردست بھی ہے اور رحیم بھی۔‘‘
سَنُرِیْہِمْ آیَاتِنَا فِیْ الْآفَاقِ وَفِیْ أَنفُسِہِمْ حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ أَوَلَمْ یَکْفِ بِرَبّکَ أَنَّہُ عَلَی کُلِّ شَیٔ شَہِیْد۔
(سورۃ حم سجدہ، آیت: ۵۳)
’’جلد ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھلائیں گے اور انفس میں بھی۔ حتیٰ کہ انہیں معلوم ہوجائے گا کہ یہ (قرآن) حق ہے۔ کیا یہ بات کافی نہیں ہے کہ تیرا رب ہر چیز پر شاہد ہے۔‘‘
نشانیوں پر دیانت داری کے ساتھ غور کے ساتھ انسان کے قلب میں امرِ حق کو قبول کرنے کے لیے آمادگی بھی ہونی چاہیے۔
فَأَمَّا مَن أَعْطَی وَاتَّقَی۔ وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَی۔ فَسَنُیَسّرُہُ لِلْیُسْرَی۔(سورۃ اللیل، آیات: ۵ تا ۷)
’’تو جس نے (نیکی کے کاموں میں) خرچ کیا اور (غلط روی سے) بچتا رہا اور بھلی بات کی تصدیق کی تو ہم اس کو آسان راستے کی سہولت دیں گے۔‘‘
یعنی حق کی تصدیق کرنے کے لیے قلب کی درستگی ضروری ہے جس کی علامت نیکی کے کاموں میں خرچ کرنا اور اخلاقی حس کو زندہ رکھنا ہے۔
اس طرح حق تک پہنچنے کے لیے یہ بھی شرط ہے کہ انسان خواہشات کی غلامی سے آزاد ہونے کے لیے تیار ہو اور بندہ نفس بننے کے بجائے حق کا تابع بنے:
وَاتْلُ عَلَیْہِمْ نَبَأَ الَّذِیَ آتَیْنَاہُ آیَاتِنَا فَانسَلَخَ مِنْہَا فَأَتْبَعَہُ الشَّیْطَانُ فَکَانَ مِنَ الْغَاوِیْن۔ وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاہُ بِہَا وَلَـکِنَّہُ أَخْلَدَ إِلَی الأَرْضِ وَاتَّبَعَ ہَوَاہُ فَمَثَلُہُ کَمَثَلِ الْکَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَیْہِ یَلْہَثْ أَوْ تَتْرُکْہُ یَلْہَث۔ (سورۃ الاعراف، آیات :۱۷۵ و ۱۷۶)
’’اور ان لوگوں کو اس شخص کا حال سناؤ جس کو ہم نے اپنی آیتوں کا علم دیا تھا مگر وہ اُن کو چھوڑ نکلا اور پھر شیطان اس کے پیچھے لگ گیا اور وہ گمراہوں میں شامل ہوگیا۔ اگر ہم چاہتے تو ان آیتوں کے ذریعے اس کا مرتبہ بلند کرتے مگر وہ زمین کی طرف جھک گیا اور اپنی خواہش کے پیچھے چل پڑا۔ پھر اس کی حالت کتے جیسی ہوگئی کہ تو اس پر بوجھ لادے تو وہ ہانپے اور چھوڑ دے تب بھی ہانپے۔‘‘
مسلمان محققین کی ذمہ داری ہے کہ سماجی علوم کی اہمیت کو طبعی علوم سے کم نہ سمجھیں۔ ان علوم کو مغربی دنیا میں جس طرح ترتیب دیا گیا ہے اس کا تنقیدی جائزہ لیں۔ صحیح اور غلط تصور کائنات میں امتیاز کریں اور انسانی وجود اور کائنات کے اندر پھیلی ہوئی ان نشانیوں کا ادراک کریں جو درست تصور کائنات کی تصدیق کرتی ہیں۔ مغربی افکار پر تنقید کے ساتھ ان کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ مبنی برحقیقت تصور انسان و کائنات کے مطابق، معلومات کو ازسرِ نو ترتیب دیں ۔اس کے علاوہ ان کا یہ فریضہ ہے کہ نئی معلومات کی دریافت و تحقیق کا کام اس جذبے کے ساتھ انجام دیں کہ انھیں ایک صالح معاشرے کی تعمیر کرنی ہے جو ان عالم گیر قدروں پر استوار ہو جن کو انسان کی فطرت صالحہ پہچانتی ہے اور وحی الٰہی جن کی تصدیق کرتی ہے۔
مشمولہ: شمارہ مئی 2015