تونے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
علامہ اقبال نے جمہوریت کا یہ تعارف آج سے ایک سو سال پہلے پیش کیا تھا جب کہ جمہوری نظام کے نقصانات اتنے ظاہر نہیں ہوئے تھے جتنےبعد میں ظاہر ہوئے اورآج توہر شخص اپنی آنکھوں سے اس نظام کی خرابیوں کودیکھ رہا ہے، لیکن ہر شخص اس کےجادو میں ایسا گرفتار ہے کہ اس کی تعریف و تحسین میں لگا ہوا ہے ۔
جمہوری نظام سے اس لیے بھی انسانوں کے مسائل حل نہیں ہوسکتے کہ اس کا آغاز ہی مثبت طریقہ سے نہیں بلکہ ایک ردِّ عمل کے طور پر ہوا ہے، اور جو چیز کسی ردِّ عمل کے طور پر وجود میں آتی ہے ، اس میں کوشش کے باوجود اعتدال اورانصاف نہیں ہوتا۔ اگر کوئی ردِ ّ عمل میں اعتدال وانصاف کی کوشش کرے توردِّ عمل کی تحریک ٹھنڈی پڑجاتی ہے ۔
جمہوریت کی تاریخ پر نظر رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ آج سے دو ڈھائی سو سال پہلے جبری اور خاندانی بادشاہی نظام کی مخالفت میں ردِّ عمل کے طور پر جمہوری نظام کا جنم ہوا تھا ، چنانچہ آج بھی دنیا کےکئی ممالک میں جمہوری نظام کا جنم نہیں ہوا اور آج بھی وہ کئی ممالک میں بچپن کی عمر میں ہے اوربہت تھوڑے ممالک میں جوانی کی عمر کو پہنچا ہوا ہے ، لیکن اس حقیقت کا انکشاف بھی جمہوری نظام کے حاملین کے چہروں پر اس کی ناکامی کا زبردست طمانچہ ہے کہ جن جن ممالک میں آج جمہوری نظام جوانی کی عمر کوپہنچا ہوا ہے ، ا ن میں سیاسی افراتفری ، ظلم وستم اوراستحصال اُن ممالک سے کہیں زیادہ ہے جن میں ابھی جمہوری نظام پیدا نہیں ہوا یا ابتدائی حالت میں ہے ۔ کیا یہ صورتِ حال جمہوری نظام کے پو ر ے طور سے ناکامی کی دلیل نہیں ہے ؟ پھر بھی اگر کوئی اسی نظام پر اصرار کرے یا اسی کو بہتر سمجھے توکیا یہ سچائی کا انکار اور جھوٹ کا اقرار نہیں ہے ؟ جمہوری نظام کو عمل میں لانا در اصل ممکن بھی نہیں، چنانچہ آج جن ممالک میں جمہوری نظام قائم ہے اس کو یہودی اِزم کہنا زیادہ صحیح ہے ، کیونکہ جتنی بھی سیاسی پارٹیاں جمہوری طریقہ سے اقتدار تک پہنچ رہی ہے ان کی پُشت پردنیا کی یہودی لابی ہے اور پوری د نیا میں یہودیوں کی تعداد صرف ڈیڑھ کروڑ ہے ، جن کا تناسب دنیا کی پوری آبادی میں پاؤ فی صد سے بھی کم بنتاہے ، اس لیے کہ اس وقت دنیا کی کُل آبادی چھ ارب سے زیادہ ہورہی ہے ، اگر پوری دنیا میںیہود کی تعداد چھ کروڑ ہوتی، تویہ تب کہا جاسکتا تھا کہ دنیا میں یہو د کی تعداد ایک فی صد کے قریب ہے ، یہود کی تعداد صرف ڈیڑھ کروڑ ہے اس سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ دراصل جمہوریت کے نام پر دنیا میں چند مٹھی بھر یہودیوں کی حکومت ہے، جوکندھے اورہاتھ کے طور پر دنیا کے چند عیسائیوں ، مسلمانوں اورمشرکین کو استعمال کرتے ہیں۔
جمہوری نظام کا ایک دوسرے پہلو سے جائزہ لیا جائے تومعلوم ہوگا کہ یہ اسلامی نظام کاراستہ روکنے کے لیے وضع کیا گیا ہے ، یہی وجہ ہے کہ جن اسلامی پارٹیوں نے جمہوریت کے راستے سے اسلامی نظام کوقائم کرنے کی کوشش کی اور عوام نے انہیں جمہوری طریقے سے منتخب بھی کیا ، اس کے باوجود ان کو اقتدار نہیں سنبھالنے دیا گیا ، جیسے ۱۹۹۲ء میں الجزائر کی اسلامک سالویشن فرنٹ نے دو تہائی اکثریت حاصل کی تھی ، لیکن اسے اقتدار توکیا ، الٹا اسے غیرقانونی پارٹی قرار دیا گیا ، اسی طرح ۲۰۰۴ء میں فلسطین کی اسلامی تنظیم حماس نے انتخابات میں اکثریت حاصل کی تواسے بھی اقتدار سے محروم کردیا گیا اورغیر قانونی قرار دے دیا گیا ۔ یہ بات اور ہے کہ بعد میں حماس نے اسلامی جہاد کا راستہ اختیار کرکے غزّہ میں دوبارہ اقتدار حاصل کرلیا ، اسی طرح ۲۰۱۳ء میں مصر میں اِخوان المسلمون نے ڈاکٹر محمد مرسی کی قیادت میں انتخابات میں کامیابی حاصل کی توایک سال کے اندر انہیں اقتدار سے ہٹا کر جیل میں ڈال دیا گیا ، اور اِخوان ُ المسلمون کوغیر قانونی قرار دے کر اس کے لاکھوں افراد کو جیل میں بند کردیا گیا اورہزاروں کوگولیوں سے بھون دیا گیا ۔ یہ چند مثالیں ہیں جنہوں نے مغرب کے وضع کردہ جمہوریت کے راستہ سے اسلامی نظام کولانے کی کوشش کی جبکہ اسلامی نظام اسلامی سیاست کے راستہ سے آتا ہے اوراسلامی سیاست کا راستہ آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت، دعوت اورسیاست سے متعین ہوگیا ، جس میں آپؐ کے دورِ مکی کی تیرہ سالہ ہے اور دس سالہ دورِ مدنی کی جدّ وجہد ہے۔ دورِ مکّی کی جدّوجہد ایک طرح سے انسانی معاشرہ میں اسلامی سیاست کا بیج ڈالنے اوراسلامی سیاست کو قائم کرنے والی فوج کی تیاری کا دور ہے ، اور دورِ مدنی کی جدّ وجہد براہِ راست غیر اسلامی فوج سے مسلّح مقابلہ کی جدّ وجہد ہے۔ چنانچہ باطل سے مسلّح مقابلہ کے نتیجہ میں ہی جنگِ بدر ، جنگِ احد ،جنگِ احزاب اوردیگر معرکے پیش آئے ۔اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تیئس (۲۳ )سالہ جدّ و جہد کے نتیجہ میں پورے عرب میں اسلام ہر لحاظ سے غالب آگیا ۔ اب قیامت تک اسلام کوغالب کرنے کا راستہ صرف اور صرف آں حضـرتؐ کی تیئس (۲۳) سالہ جدّ وجہد کا معیاراور نمونہ ہے ، البتہ اس کی مدّت میں فرق ہوسکتا ہے ۔ کیوں کہ دینِ اسلام کے اصل مخاطب انسان ہے۔ اس لحاظ سے غلبۂ اسلام کے سلسلہ میں انسانی وسائل و مسائل کا بنیادی دخل ہے۔ آپؐ کی تیئس (۲۳) سالہ نبوی زندگی کا جائزہ لیا جائے تومعلوم ہوگا کہ آپ کا اصل مخالف اورمزاحم گر وہ اہلِ مکہ کا تھا ، یقیناً بعد میں مشرکینِ مکہ کے ساتھ عرب کے دوسرے قبائل، اسی طرح یہود اورمنافقین بھی اسلام دشمنی میں شامل ہوگئے، لیکن اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ فتح مکہ تک مکہ والے ہی آنحضـور ؐ اور اہل ایمان کی دشمنی میں پیش پیش تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب آٹھ(۸) ہجری میں مکہ فتح ہوگیا توپورے عرب میں اسلام دشمنی کا زور ٹوٹ گیا اورلوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے۔ اس لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کہ اسلام کی تحریک کے اصل دشمن اورمخالف صرف مشرکینِ مکہ تھے ۔ اب اگر آج سے ساڑھے چودہ سو(۱۴۰۰) سال پہلے دورِ نبوی میں مکّہ کی انسانی آبادی کی تحقیق کی جائے تودس ہزار انسانوںسے زیادہ نہیں ملےگی، جن میں سے پانچ ہزار بالغ آبادی اور پانچ ہزار نابالغ آبادی ہوگی، اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ہجرت کے ایک سال کے بعد جنگِ بدر ہوئی توابوجہل کی کوشش کے باوجود مکّہ سے صرف ایک ہزار کا لشکر نکلا۔ اس کے ایک سال کے بعد جنگِ احد میںمکہ والوں کی قیادت میں تین ہزار کا لشکر آیا تھا، لیکن ان میں بہت سے لوگ باہر کے تھے جومکہ والوں کا ساتھ دینے کے لیے آئے تھے ، اس کے دوسال کے بعد پانچ ہجری میں جنگِ خندق کے موقع پر اس سے بڑا لشکر تقریباً دس ہزار پر مشتمل مدینہ پر حملہ آور ہوا ، لیکن یہ ایک طرح سے عرب کے مختلف قبیلوں کا متحدہ لشکرتھا، اس لیے اس جنگ کوجنگِ احزاب بھی کہتے ہیں۔
اگرآج گہرائی سے دیکھا جائے توغزوۂ خندق کے موقع پرآ نحضور صلی اللہ علیہ وسلم اورایمان والوں کو جس طرح کے حالات کا سامنا تھا اورمشرکینِ مکہ اوران کے حلیف لشکروں نے اسلامی نظام کوختم کرنے کی جوتدبیر اورسازش کی تھی آج کے دور کے اسلام دشمنوں نےعالمی سطح پر اسلامی نظام کوختم کرنے کی وہی تدبیر و سازش کررکھی ہے ، چنانچہ اسی کے لیے عالمی سطح پر اقوام متحدہ کے ادارہ کا قیام عمل میں آیا ہے، جس کے تقریباً دو سو ممالک رکن ہیں، جن میں سے امریکہ ، برطانیہ ، فرانس ، روس، چین ، جرمنی کو بنیادی اورفیصلہ کن حیثیت حاصل ہے، بلکہ آج کل تو صرف امریکہ ہی کوان تمام ممالک نے فیصلہ کن حیثیت دے دی ہے۔ چنانچہ آج دنیا میں جہاں کہیں بھی اسلامی نظام کی بات اٹھتی ہے، چا ہے وہ جمہوری راستہ ہی سے کیوں نہ اُٹھے ،اقوامِ متحدہ کا لشکر امریکی فوج کی قیادت میں میدان میں آجاتا ہے ، لیکن اس سلسلہ میں سب سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ بہت سے مسلم ممالک بھی اس ادارہ کے رکن بنے ہوئے ہیں، جبکہ ان کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ اِس اسلام دشمن ادارہ سے اپنا تعلق توڑلیتے اور اقوام متحدہ کے ظلم کوختم کرنے کے لیے کسی متحدہ اسلامی ادارہ کی بنیاد رکھتے اور دوسر ے ممالک کوبھی اس سے وابستہ ہونے کی دعوت دیتے۔
اب عالمی سطح پر اسلامی نظام کو اربوں انسانوں کی دشمنی کا سامنا ہے اورکروڑوں اسلام دشمن فوج اور پولیس اسلامی نظام کے غلبہ کا راستہ روکنے میں لگی ہوئی ہے توظاہر ہے کہ اسلامی نظام کے غلبہ میں کئی صدیاں لگ سکتی ہیں۔ تواس کوبہت دیرسے حاصل ہونے والا غلبہ نہیں کہاجاسکتا۔ ویسے بھی اہلِ ایمان صرف اسلامی نظام کے غلبہ کی جدّ وجہد ہی کے مکلف اورجواب دہ ہیں، مطلب یہ کہ اسلامی نظام کی جدّوجہد کے نتیجے میں اگرسینکڑوں سالوں میں بھی اسلام کوسیاسی غلبہ حاصل نہ ہوتو اہلِ ایمان سے اس سلسلہ میں نہیں پوچھا جائے گا ، چنا ں چہ قرآن میں ایک مقام پر حضرت نوح علیہ السلام کی دینی دعوت و جدّوجہد کی مدّت کا تذکرہ ہے جو ساڑھے نوسو برسوں پر پھیلی ہوئی تھی اورجس کے نتیجہ میں صرف گنتی کے چند افراد نے دین کی دعوت قبول کی تھی ، لیکن اس سلسلہ میں اللہ کی طرف سے حضرت نوح علیہ السلام کی باز پُرس نہیں ہوئی، بلکہ ان کی دعوت کوجھٹلانے والی قوم کوعذابِ الٰہی سے ہلاک کردیا گیا ۔ البتہ اس سلسلہ میں اہلِ ایمان ضرور اس بات کے مکلف اورجواب دہ ہیں کہ وہ دینِ اسلام کو مکمل نظامِ زندگی کی حیثیت سے پیش کریں اور اس کے مکمل غلبہ کی جدّ وجہد کریں، باطل حکمرانوں کی ناراضی سے بچنے کے لیے اسلام کو صرف عبادات کے طور پر پیش کرنا یا اسلام کے غلبہ کی مشکلات کودیکھ کر باطل نظام سے سمجھوتا کرلینا دینِ اسلام کے ساتھ بدترین خیانت اوراللہ کی حاکمیت میں کھلا ہوا شرک ہے ، اورشرک بہت بڑا ظلم اور گناہ ہے ۔
ویسے تواسلام کے دونوں ہی دور (یعنی اسلام کی سیاسی مغلوبیت اور اسلام کا سیاسی غلبہ) ایمان والوں سے جان ومال کی قربانی کا تقاضا کرتے ہیں ، لیکن اسلام کی سیاسی مغلوبیت کا دُور کچھ زیادہ ہی جان ومال کی قربانی چاہتا ہے اوراس دور کی قربانی کا اجربھی زیادہ ہے ،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی سورۂ حدید میں اسی فرق وتفاوت کوبیان فرمایا :
لَايَسْتَوِيْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقٰتَلَ۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِيْنَ اَنْفَقُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَقٰتَلُوْا۰ۭ وَكُلًّا وَّعَدَ اللہُ الْحُسْنٰى۰ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ۱۰ (الحدید :۱۰)
’’نہیں برابر تم میں سے ، جس نے فتح یعنی غلبہ سے پہلے خرچ کیا اورجنگ کی۔ ان تمام لوگوں کا اجر بہت زیادہ بڑھا ہوا ہے ان تمام لوگوں سے جنہوں نے غلبہ کے بعد خرچ کیا اورجنگ کی ، اوران سب ہی لوگوں سے اللہ کا وعدہ بھلائی کا ہے ، اوراللہ تمہارے اعمال کی خبر رکھنے والا ہے ۔‘‘
مذکورہ آیت میںجس فتح کا تذکرہ ہے اس سے مراد مکہ کی فتح ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جن ایمان والوں نے فتح مکہ سے پہلے دین کی خاطر جان ومال کی قربانی دی ان کا اجر بعدمیں جان ومال کی قربانی دینے والوں سے بڑھا ہوا ہے ، لیکن مذکورہ آیت کا اصول اوراطلاق صرف فتح مکہ سے پہلے اورفتح مکہ کے بعد کے حالات ہی کے لیے خاص نہیں ہے ، بلکہ قیامت تک کے لیے ہے ۔ مطلب یہ کہ جس ملک و علاقہ میں اسلام سیاسی لحاظ سے مغلوب ہے اس وقت اسلام کے غلبہ کے لیے جان ومال کی قربانی دینا غلبہ کے بعد کی قربانی سے زیادہ اجر کا باعث ہے ۔اللہ کا یہ اصول عین عدل پرمبنی ہے، کیونکہ اسلام کی سیاسی مغلوبیت کے دورمیں اسلام کے غلبہ کے لیے جان ومال کی قربانی دینا بڑا کٹھن کام ہوتا ہے۔ ساتھ ہی باطل پرستوں کی طرف سے تکلیفیں بھی زیادہ پہنچتی ہے ، جبکہ اسلام کے سیاسی غلبہ کے بعد دین کے لیے جان ومال کی قربانی پہلے کی بہ نسبت آسان ہوجاتی ہے اورباطل پرستوں کی سازشوں اور تکلیفو ں کا طاقت وقوت سے مقابلہ کرنا آسان ہوجاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج عالمی سطح پر اسلام سیاسی لحاظ سے مغلوب ہے تو پوری دنیا میں اسلام پسندوں پر باطل حکم رانوں کی طرف سے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں اورظلم و ستم کے وہ ہتکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں جس کے سامنے چنگیز خان ، ہلاکو خان اورہٹلر ومسولینی کے ظلم کے کارنامے پھیکے پڑجائیں، اوریہ سب جمہوریت کے نام پر ہورہا ہے ۔لیکن اس سلسلے میں سب سے زیادہ افسوس ناک اورخو ن کے آنسورُلانے والی بات یہ کہ خود مسلم ممالک میں دینِ اسلام سیاسی مغلوبیت کے تاریک ترین دورسے گزررہا ہے ۔
یہاں یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ مسلمانوں کی مغلوبیت اوراسلام کی مغلوبیت ایک معنیٰ میں نہیں ہے ۔ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔ اِس حقیقت کوعلامہ اقبال کے اِس شعر سے سمجھا جاسکتا ہے:
تونہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے
نشۂ مئے کو تعلق نہیں پیمانے سے
علامہ اقبال نے جوابِ شکوہ کے اس شعر سے یہ حقیقت سمجھائی کہ اسلام کی بقا اوراس کی حقانیت اس کے اقتدار پر منحصر نہیںہے۔ جس طرح شراب کا نشہ اس کے پیمانے پر منحصر نہیںہے ، یہ بات اورہے کہ پیمانہ سے شراب کے پلانے میں آسانی ہوتی ہے ، اسی طرح اسلامی اقتدار ہوتواسلام پر عمل کرنے میں آسانی ہوتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ دنیا میں صرف اسلامی نظام ہی ایسا نظامِ زندگی ہے جودنیا کی تاریخ کے اکثر حصہ میں سیاسی اقتدار سے محروم رہا ہے، پھر بھی اس کی حقانیت تاریخ کےہر دَور میں مسلّم رہی ہے اورجب بھی اہلِ ایمان نے اس کے سیاسی غلبہ کے لیے جدّوجہد کی ہے وہ سیاسی لحاظ سے غالب بھی ہوا ہے ، جبکہ غیراسلامی نظام اپنے دورِ اقتدار میں بھی اپنی حقانیت نہیںمنوا سکا۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ جب ایک باطل نظام سے اُکتا جاتے ہیں توشیطان اوراس کے چیلےاس کو نیا نام اورنئی شکل دے کر انسانوں کے سامنے پیش کردیتے ہیں اوروہ اُسے نیا نظام سمجھ کر آسانی سے قبول کرلیتے ہیں۔ علّامہ اقبال نے اس حقیقت کواپنے کلام میں ابلیس کی مجلسِ شوریٰ کا عنوان قائم کرکے بڑی خوبی سے سمجھا یا ہے۔ چنانچہ ابلیس کا ایک مُشیر جب جمہوری نظام کے سلسلہ میں اپنے خطرات کا اظہار کرتا ہے تو اس کا دوسرا مشیر اسے بتاتا ہے کہ جمہوری نظام سے ڈرنے کی ـضرورت نہیں، کیوں کہ اس کو ہم ہی نے بنایا ہے ۔ چنانچہ ایک مشیر کہتا ہے :
خیر ہے سلطانی جمہور کا غوغا کہ شر؟
توجہاں کے تازہ فتنوں سے نہیں ہے باخبر
اس کے جواب میں دُوسرا مشیر کہتا ہے :
ہوں، مگر میری جہاں بینی بتاتی ہے مجھے
جوملوکیت کا اک پردہ ہو، کیا اس سے خطر
ہم نے خودشاہی کوپہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر
کسی بھی نظام کو سیاسی لحاظ سے غالب کرنے کے لیے افرادی قوّت ایک لازمی چیز ہے ، البتہ اس سلسلہ میں افرادی قوّت کا پیمانہ الگ الگ ہوسکتاہے ، لیکن یہ پیمانہ بھی بہت حد تک اُس نظام کی وُسعت اورنوعیت پر منحصر ہوگا ۔ کسی نظام کے ماننے والوں کے پیش نظر اپنے مخالفین کا صرف عسکری زور توڑنا ہے تو صرف ایک لشکر بنالینا کافی ہے۔ اس لشکر کی تعداد اپنے مخالفین کی آبادی سے ایک فی صد سے بھی کم ہوسکتی ہے مثلاً ایک کروڑآبادی رکھنے والے ملک کا فوجی زور چند ہزار کا لشکر توڑسکتا ہے ، اسی طرح کسی گروہ کے پیشِ نظر اپنے مخالفین کی صرف نظریاتی اصلاح مقصود ہے تواس کے لیے بھی صرف چند معلّمین کا ایک گروہ درکار ہے جومخالف قوم کی تعداد سے ایک فی صد سے بھی کم ہوسکتا ہے ، لیکن جونظام اپنے پاس مکمل نظامِ زندگی کا پیغام رکھتا ہواورمکمل غلبہ کی تعلیم دیتا ہو ،ایسے نظام کوانسانی زندگی کے تمام شعبوں میں غالب کرنے اور غالب رکھنے کے لیے آبادی کے ایک فی صد دو فی صد طبقہ کا قبول کرلینا اوراُس کے لیے جدّ وجہد کرنا کافی نہیں ہے۔رہا یہ سوال کہ کسی نظام کو انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں غالب ونافذ کرنے کے لیے کتنے فیصد افراد درکار ہیں؟ اس کا جواب کسی بھی ملک کی حکومت کے سرکاری ملازمین کی تعداد سے سمجھنا آسان ہے ۔ اس لحاظ سے اگردیکھا جائے تو کسی بھی ملک کی حکومت کے ملازمین کی تعداد ملک کی کل آبادی کا کم از کم دس فیصد ہوتی ہے ، مثلاً کوئی ملک اگر ایک کروڑکی آبادی والا ہوتو اس میں حکومت کے ملازمین کی تعداد کم از کم دس لاکھ ہوگی، لیکن یہ تمام ملازمین ایک ہی فکر اورایک ہی نظم سے وابستہ ہوتے ہیں تب کہیں جاکر ملک کا نظام چلتا ہے ۔ اسی طرح کسی ملک میں اسلامی نظام کے قیام ونفاذ کے لیے اُس ملک کی کم ازکم دس فیصد آبادی کا اسلامی فکر اورایک ہی اسلامی اجتماعیت سے وابستہ ہونا ضروری ہے ، بلکہ دیکھا جائے تو اسلامی نظامِ حکومت کے کام غیر اسلامی نظامِ حکومت سے زیادہ ہوتے ہیں ، کیوں کہ غیر اسلامی حکومت میں لوگوں کے عقائد واعمال کی اصلاح کا کوئی نظم نہیں ہوتا ، جبکہ اسلامی حکومت کا اولین کام لوگوں کے عقائد و اعمال کی اصلاح ہے توظاہر ہے اس کے لیے افراد بھی درکار ہوتے ہیں۔ قرآن مجید کی سورۂ انفا ل کی ایک آیت سے بھی اسلامی غلبہ کے متعلق کم از کم دس فیصد تعداد کا ثبوت ملتا ہے ۔ چنانچہ ارشادِ ربانی ہے :
يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلَي الْقِتَالِ۰ۭ اِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ عِشْــرُوْنَ صٰبِرُوْنَ يَغْلِبُوْا مِائَـتَيْنِ۰ۚ وَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَۃٌ يَّغْلِبُوْٓا اَلْفًا مِّنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَہُوْنَ۶۵ (الانفال: ۶۵)
’’ اے نبی ؐ مومنین کولڑائی پر ابھاریئے اگرتم میں بیس صبر کرنے والے ہوںگے تودو سو پرغالب آئیںگے اوراگر تم میں ایک سو ہوںگے توایک ہزار کا فروں پر غالب آئیں گے اس لیے کہ وہ ناسمجھ قوم ہے ۔‘‘
مذکورہ آیت سے یہ بات واضح ہوئی کہ اسلامی جنگ میں کافروں پر مومنین کے غلبہ کے لیے کم از کم مومنین کی تعداد کافروں کی تعداد کے مقابلے میں دس فی صد ضـروری ہے ۔
مذکورہ آیت میں اہل ایمان کے غلبہ کا یہ اصول اورپیمانہ اگرچہ اسلامی جنگ کے متعلق بیان کیا گیا ہے لیکن اسلامی جنگ اوراسلامی نظام کے قیام میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے ۔
مذکورہ آیت کے کم ازکم دس فی صد اہل ایمان کے غلبہ کے اصول سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ جوبھی اسلامی تحریک کسی ملک میں اسلامی نظام قائم کرنا چاہتی ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے وہ اس ملک کی کم از کم دس فیصد تعداد کواپنا ہم نوا بنائے۔ واضح رہے کہ مذکوہ آیت میں جن ایل ایمان کے غلبہ کی بات کہی گئی ہے ان کی دو بنیادی صفات مذکور ہیں : (مُوْمِنُوْنَ، صَابِرُوْنَ) ان سے مراد وہ اہل ایمان ہیں جو ایمان کے تمام تقاضوں پر عمل پیرا ہو ں اوران تقاضوں کی بنیاد پر آنے والی تکلیفوں کوبرداشت کریں یہ الفاظ دیگر اس آیت میں صرف قانونی ایمان والوں کے غلبہ کی بات نہیں کہی گئی ہے ۔ بلکہ حقیقی اور شعوری ایمان والوں کے لیے یہ خوش خبری سنائی گئی ہے ۔ (ختم شد)
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2015