ایک تحریر ڈاکٹر جاوید احمد غامدی صاحب کے سلسلے میں آپ کی خدمت میں روانہ کررہا ہوں آپ سے گزارش ہے کہ اس میں اگر کچھ غلطی ہو تو اس کی اصلاح فرمادیں اور زندگی نو میں شائع کرادیں ۔ اسلامی ریاست یا اسلامی نظام زندگی کے متعلق ان کا جوموقف ہے وہ درست نہیں ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ سورۂ توبہ جو۹ ہجری میں نازل ہوئی ہے وہ نبی کریم ؐ کی حیات میں دینِ حق کے منکرین اوراس وقت کے اہلِ کتاب کے سلسلے میں ہے ان کا کہنا ہے کہ رسول جب زمین پر قدم رکھتاہے تو زمین پر اللہ کی عدالت قائم ہوجاتی ہے رسول اتمام حجت کرتا ہے پھر اللہ کا عذاب آتا ہے یہی کچھ قوم عاد وثمود کے ساتھ ہوا قوم لوط کے ساتھ ہوا عذاب آسمان سے نازل ہوتا ہے یا رسول کے ہاتھوں سزا دی جاتی ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منکرین اوراہلِ کتاب کو سزا حضور کے ہاتھوں دی گئی ان کے بعد صحابہ کرام سے مکمل کرائی گئی ۔سورۂ توبہ میں دی گئی ہدایت اس وقت کے لئے خاص تھی اس وقت کے لیے نہیں ہے۔
یہ بات مجھ کو ہضم نہیں ہوتی اوراچھی طرح اس پر علمی گرفت کی جاسکتی ہے لیکن طوالت کے خوف سے فی الحال یہ کوشش ملتوی رکھی ہے آپ سے گزارش ہے کہ یوٹیوب پر ان کے پروگرام دیکھیں اس میں اسلامی ریاست کے عنوان سے ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے ساتھ تین قسطوں میں بحث ہے وہ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کواس بات پر قائل نہیں کرسکے کہ سورہ توبہ کی ہدایت ایک خاص وقت کے لیے نازل ہوئی ہے دوسرے ’’ عصر حاضر اور علمائے کرام کی ذمہ داریاں ‘‘ اس پر وگرام کوبھی یوٹیوب پر ضرور دیکھ لیں پھر آپ اس سلسلے میں تحریر فرمائیں۔
قمر الطاف جھریا ۴؍جولائی ۱۷ء
ڈاکٹر جاوید احمد غامدی صاحب پاکستان کے ایک اسلامی اسکولر ہیں جو اس وقت بیرونِ مُلک مقیم ہیں موصوف خود کو مولانا امین احسن اصلاحی صاحبؒ کا شاگرد کہتے ہیں۔ اور شاگردی کی مدت پچیس سال ہے۔ انہوں نے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ صاحب سے بھی استفادہ کیا ہے اور عصری تعلیم بھی حاصل کی ہے جدید مغربی مادی افکار سے اچھی طرح واقف ہیں۔ ان کے لکچرس سن کر اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف کی علمی صلاحیت اچھی ہے۔ ان کے لکچرس اور جوابات سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں پورا قرآن حفظ ہے اور قرآن وسنت وفقہ پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ تقریر اور سوالوں کے جوابات قرآن وسنت کی روشنی میں دیتے ہیں اور بات دلائل کے بغیر نہیں کرتے ۔ عقلی دلائل بڑی خوبی سے پیش کرتے ہیں۔ بحث ومباحثہ پر سکون انداز میں کرتے ہیں دوران تقریر ہاتھ پاؤں نہیں چلاتے، بات تیز آواز میں نہیں کرتے، جھنجھلاہٹ اور غصہ ان کے چہرے سے ظاہر نہیں ہوتا، گفتگو بڑی شائستگی اور اعتماد کے ساتھ کرتے ہیں۔
ٹوپی نہیں پہنتے داڑھی چھوٹی رکھتے ہیں۔ ہمارا ان کے متعلق یہ تاثر دو ماہ تک ان کے ویڈیو کلپس دیکھ کر قائم ہوا ہے جو اس وقت You Tube پر موجود ہیں۔ دو ماہ قبل میں ان سے واقف نہیں تھا ان کا نام نہیں سنا تھا ۔
You Tubeپر ڈاکٹر جاوید احمد غامدی صاحب کا ایک مستقل پروگرام ’علم و حکمت‘ کے عنوان سے آتا ہے جس میں سوال وجواب کاپروگرام ہوتا ہے اس میں اینکر ڈاکٹر زبیر احمد سوال کرتے ہیں یہ وہ سوالات ہوتے ہیں جو لوگ ان کے پاس نیٹ کے ذریعے بھیجتے ہیں جن کے جوابات غامدی صاحب تفصیل سے دلائل کے ساتھ دیتے ہیں اور اس پروگرام میں کچھ مرد وخواتین بھی سامع کی حیثیت سے موجود ہوتے ہیں۔ وہ بھی کبھی کبھی سوال کرتے ہیں یا مزید استفسار چاہتے تو ان کو بھی جواب دیا جاتا ہے پروگرام ۴۵، منٹ کا ہوتا ہے۔ سارا پروگرام یوٹیوب پر موجود ہوتا ہے ۔ یوٹیوب پر ڈاکٹر جاوید احمد غامدی صاحب کے کئی طرح کے دوسرے پروگرام کے ویڈیو بھی موجود ہیں اس میں لکچرس بھی ہیں مدارس کے علماء کے ساتھ مذاکرہ بھی ہے اور دوسرے کئی اسلامی اسکالرس کے ساتھ بحث ومباحثہ بھی ہے اور ، اپنے مخالفین سے گفتگو بھی ہے۔ وہ صبر کے ساتھ سنتے ہیں اور گفتگو میں مشغول نظر آتے ہیں۔
یہ اختصار کے ساتھ ڈاکٹر جاوید احمد غامدی صاحب کا تعارف تھا۔ راقم جماعت اسلامی ہند کا رکن ہے اور اقامت دین کو فرض سمجھتا ہے یہ ہماری جماعت کا نصب العین ہے خلافت راشدہ ہمارے لئے نمونہ ہے اور دنیا کی تمام تحریکات اسلامی کا یہی نصب العین ہے۔ جماعت بنانے کی بنیادیہی ہے اور دوسرے کسی کام کے لئے ہم جمع نہیں ہوئے ہیں ڈاکٹر جاوید احمد غامدی صاحب کا نظریہ اس سلسلے میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ ذمہ داری ہم پر نہیں ڈالی ہے کہ تم باطل نظام کو مٹا کر دین حق قائم کرو یا اسلامی ریاست قائم کرو یہ قرآن وسنت سے ثابت نہیں ہے۔ سورہ توبہ کی آیات اُس وقت کے منکرین اور اہل کتاب کےلئے سزا کے طور پر نازل ہوئی ہیں۔ اس وقت کے اہل کتاب اور موجودہ دور کے مشرکین اور منکرین اور اہل کتاب سورہ توبہ کی زد میں نہیں آتے وہ سب مستثنیٰ ہیں۔
یوٹیوب پر ایک پروگرام ہے ’’عصر حاضر اور علمائے کرام کی ذمہ داریاں‘‘ اس پروگرام میں ڈاکٹر زبیر احمد غامدی صاحب سے سوال کررہے ہیں کہ علمائے کرام کی ذمہ داریاں کیا ہیں ان کا جواب ہے انذار کریں لوگوں کو دین بتائیں دعوت وتبلیغ تک خود کو محدود رکھیں پھر اینکر سوال کرتا ہے کہ علما انذار کے ساتھ ساتھ نظام حکومت کو بھی بدلنے کی کوشش (پر امن کوشش کریں تو اس میں کیا حرج ہے جواب ارشاد ہوتا ہے کہ علمائے دین کا اصل کام انذار ہے دعوت و تبلیغ ہے حکومت وسیاست میں حصہ لینا ان کاکام نہیں ہے ایک ڈاکٹر کا کام علاج کرنا ہے وہ علاج کرے عالم دین اگر نظام حکومت وسیاست میں خدائی فوجدار بن کر جائے گا تو معاشرے میں فساد پیدا ہوگا اور آپ اطمینان رکھیں اقتدار ان کو کبھی نہیں ملے گا عوام جانتے ہیں کہ حکومت کے کام کے لئے کون مناسب ہے اور اسلام میں ریاست کاکوئی تصور نہیںہے اسلام تو دین ہے جس پر عمل کرکے آخرت میں اللہ کی گرفت سے انسان بچے اور جنت کا مستحق بنے۔ اسلام خدا کا دین ہے یہ کوئی نظام نہیں ہے علما کرام سیاسی جدوجہد کرسکتے ہیں یہ کوئی حرام کام نہیں ہے لیکن علمائے دین کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ وہ دین کی سچی بصیرت حاصل کریں اور لوگوں کو انذار کریں تاکہ لوگ اللہ کی گرفت سے بچ سکیں۔
اسی ایپسوڈ میں زبیر احمد سوال کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت فرما کر مدینے تشریف لائے تو وہاں کے لوگ عبداللہ بن ابئی کو بادشاہ بنانے والے تھے تب حضورؐ نے سرداری اپنے ہاتھ میں لے لی تھی اور اسلامی ریاست قائم کی تھی اس کاجواب غامدی صاحب یہ دیتے ہیں کہ سرداری لی نہیں تھی بلکہ مل گئی تھی ریاست مل گئی تھی مولانا شبلی نے اپنی کتاب سیرت میں لکھا ہے کہ اوس وخزرج کے رؤساء نے مل کر مدینے کی سرداری حضور کے ہاتھ میں دی تھی۔ گویا ریاست بنائی نہیں تھی بلکہ ان کو ریاست مل گئی تھی جب ریاست مل گئی تو عزت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دین کے مطابق چلایا۔ وہ اللہ کی عدالت بن کر آئے تھے ان کے منکرین پر اللہ نے آسمان سے عذاب نازل نہیں کیا بلکہ ان کے ہاتھوں منکرین کو موت کی سزا دی اور اہل کتاب کو محکومی کی سزا دی کہ تم چھوٹے بن کر رہو اور جزیہ دو۔
مولانا مودودیؒ کا موقف
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ، تفہیم القرآن میں سورہ توبہ کی شان نزول میں لکھتے ہیں:
(۲) عرب میں اسلام کا مشن پایہ تکمیل کو پہنچ جانے کے بعد دوسرا اہم مرحلہ جو سامنے تھا وہ یہ تھا کہ عرب کے باہر دین حق کا دائرہ اثر پھیلایاجائے اس معاملے میں روم اور ایران کی سیاسی قوت سب سے بڑی سدِّ راہ تھی اور ناگزیر تھا کہ عرب کے کام سے فارغ ہوتے ہی اس سے تصادم ہو نیز آگے چل کر دوسرے غیر مسلم سیاسی وتمدنی نظاموں سے بھی اسی طرح سابقہ پیش آنا تھا۔ اس لئے مسلمانوں کو ہدایت کی گئی کہ عرب کے باہر جو لوگ دین حق کے پیرو نہیں ہیں ان کی خود مختارانہ فرماروائی کو بزور شمشیر ختم کردو تاکہ آنکہ وہ اسلامی اقتدار کے تابع ہوکر رہنا قبول کرلیں جہاں تک دین حق پر ایمان لانے کا تعلق ہے ان کو اختیار ہے کہ ایمان لائیں یا نہ لائیں لیکن ان کو یہ حق نہیں ہے کہ خدا کی زمین پر اپنا حکم جاری کریں اور انسانی سوسائٹیوں کی زمام کار اپنے ہاتھ میں رکھ کر اپنی گمراہیوں کو خلق خدا پر اور ان کی آنے والی نسلوں پر زبردستی مسلط کرتے رہیں۔ زیادہ سے زیادہ جس آزادی کے استعمال کا انہیں اختیار دیا جاسکتا ہے وہ بس اسی حد تک ہے کہ خود گمراہ رہنا چاہتے ہیں تو رہیں ، بشرطیکے جزیہ دے کر اسلامی اقتدار کے مطیع بنے رہیں‘‘۔
سورہ توبہ کی آیت ۳۲ اور ۳۳میں اللہ تعالیٰ اہل ایمان اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتا ہے:
ترجمہ: یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھادیں۔ مگر اللہ اپنی روشنی کو مکمل کئے بغیر ماننے والا نہیں ہے خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنس دین پر غالب کردے خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو‘‘۔
اور آگے خطاب ہوتا ہے:
اے ایمان لانے والو…………………………….
مولانا مودودیؒ سورہ توبہ کی آیت ۳۳کے نوٹ نمبر۳۲میں فرماتے ہیں:
متن میں ’’الدین‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا ترجمہ ہم نے ’جنس دین کیا ہے، دین کا لفظ جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں۔عربی زبان میں اُس نظا م زندگی یا طریق زندگی کے لئے استعمال ہوتا ہے جس کے قائم کرنے والے کو سند اور مطاع تسلیم کرکے اس کا اتباع کیاجائے پس بعثت رسول کی غرض اس آیت میں یہ بتائی گئی ہے جس ہدایت اور دین حق کو وہ خدا کی طرف سے لایا ہے اسے دین کی نوعیت رکھنے والے تما م طریقوں اور نظاموں پر غالب کردے۔ دوسرے الفاظ میں رسول کی بعثت کبھی اس غرض کے لئے نہیں ہوئی کہ جو نظام زندگی لے کر وہ آیا ہے وہ کسی دوسرے نظام زندگی کا تابع اور اس سے مغلوب بن کر اور اس کی دی ہوئی رعایتوں اور گنجائشوں میں سمٹ کر رہے۔ بلکہ وہ بادشاہ ارض وسماء کا نمائندہ بن کر آتا ہے اور اپنے بادشاہ کے نظام حق کو غالب دیکھنا چاہتا ہے۔ اگر کوئی دوسرا نظام زندگی دنیا میں رہے بھی تو اسے خدائی نظام کی بخشی ہوئی گنجائش میں سمٹ کر رہنا چاہئے جیسا کہ جزیہ ادا کرنے کی صورت میں ذمیوں کانظام زندگی رہتا ہے‘‘۔
غامدی صاحب کی لغزش
ہم نے ڈاکٹر جاوید احمد غامدی صاحب کے ویڈیو کلپس دیکھے ہیں اور ان کی تقریریں سنی ہیں ۔ اسلامی ریاست یا نظام حکومت کو پتہ نہیں کس بِنا پر دین کے باہر کی اور اضافی چیز سمجھتے ہیں کہتے ہیں کہ کوشش نہیں کی جائے گی اللہ چاہے گا تو اہل ایمان کو حکومت عطا فرمادے گا۔ بس مسلمان کتاب وسنت کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کریں۔ ان سے سوا ل کیا جاسکتا ہے کہ پھر سورۂ توبہ سمیت پورا قرآن قیامت تک کتاب ہدایت کیسے ہے۔
اس فکری غلطی کے علاوہ محترم ڈاکٹر جاوید احمد غامدی صاحب مجموعی اعتبار سے امت کے لئے ایک مفید علمی شخصیت ہیں ان کے علم سے ضرور استفادہ کرنا چاہئے قرآن فہمی اور جدید مسائل پر ان کی گہری نظر ہے۔ انہوں نے مسلمان بچوں کی تعلیم کے لئے جو خاکہ پیش کیا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ بچوں کو دینی اور عصری تعلیم ساتھ ساتھ ایک ہی اسکول میں دی جائے۔ ایسی شخصیات سے امت کو فائدہ اٹھانا چاہئے ایک معاملے میں اگر وہ غلطی پر ہیں تو ان کی پوری شخصیت اور ان کے پورے علم کو غلط نہیں ٹھہرانا چاہئے اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو یہ ہماری نادانی ہوگی۔ دُنیا میں عبقری لوگ کم پیدا ہوتے ہیں ایسے لوگوں کی قدر کرنی چاہئے۔
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2017