(جس قوم کو اللہ نے فرعون کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچایا، وہی قوم اللہ کے نبیوں کی قاتل بن گئی)۔
چھ سال کی معصوم بچی ہند اپنے دادا کے بھائی اور گھر کے دوسرے بچوں کے ساتھ گاڑی میں جارہی تھی۔ یہ لوگ اسرائیلی فوجیوں کے ظلم سے بچنے کے لیے کسی محفوظ مقام کی تلاش میں تھے۔ راستے میں اسرائیلی ٹینکوں روک لیا اور گاڑی کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ اس کے ماموں کی چودہ سالہ لڑکی لیان نے فلسطینی ریڈ کریسنٹ کو فون لگایا اور مدد کے لیے پکارنے لگی، اتنے میں گولیاں چلنے کی آواز آئی اور لیان کی چیخیں سنائی دیں۔ اب چھ سال کی ہند اپنے گھر والوں کی لاشوں کے درمیان تنہا بچی تھی۔ وہ خوف سے کانپ رہی تھی۔ اس نے موبائیل لیا اور اپنی امی کو فون لگایا، فون پر اس کی ڈری سہمی آواز سنائی دی: ‘‘ماں آجاؤ مجھے لے لو، خدا کے لیے آجاؤ، ماں مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے، کسی کو بھیج دو مجھے لے جائے۔ ’’ غزہ کا وہ علاقہ اسرائیلی فوج کی حراست میں تھا۔ فلسطینی ریڈ کریسنٹ والوں نے اسرائیلی حکام سے رابطہ کرکے اس علاقے میں جانے کی اطلاع دی اور ان کے دو رضاکار ایمبولینس سے روانہ ہوگئے۔ کچھ دیر بعد ہند کا موبائیل بند ہوگیا اور پھر ایمبولنس سے بھی رابطہ منقطع ہوگیا۔ بارہ دن تک پوری دنیا کی توجہ ہند کی طرف رہی۔ نہ اس کی کوئی خبر مل رہی تھی اور نہ ہی ایمبولینس سے رابطہ ہوپارہا تھا۔ بارہ دن جب پریس رپورٹر وہاں پہنچ سکے تو انھیں ہند کی لاش ملی۔ اس کے پانچ رشتے داروں کی گولیوں سے بھنی ہوئی لاشیں ملی۔ ایمولینس کے دونوں رضاکار بھی شہید کردیے گئے تھے۔
غزہ کی سرزمین نے گذشتہ پانچ مہینوں میں سفاکی اور بربربیت کے ایسے بے شمار مناظر دیکھے ہیں۔ ان الم ناک داستانوں کو سنتے ہوئے یہ خیال بار بار آتا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں کےسینے میں کیا دل نہیں دھڑکتا ہے۔ ان کے دل کتنے سخت ہیں؟ اتنا سخت تو پتھر بھی نہیں ہوتا ہے۔ وہ کیسے اتنی وحشیانہ حرکت انجام دےلیتے ہیں؟ معصوم بچوں پر نشانہ سادھ کر گولی چلانے کے لیے ان کی انگلی کیسے حرکت کرپاتی ہے؟
لیکن جب ہم قرآن مجید کی طرف رجوع کرتے ہیں تو اسرائیلی قوم کی حقیقی تصویر ہمارے سامنے آجاتی ہے اور ان سوالوں کا جواب مل جاتا ہے۔
قرآن مجید بتاتا ہے کہ بنی اسرائیل نے بار بار اللہ سے کیے ہوئے عہد کو توڑا اور فسق و فجور کو اپنا شیوہ بنالیا۔ قرآن مجید میں بنی اسرائیل کی بڑی بڑی برائیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک بڑی برائی یہ ہے کہ انھوں نے انسانوں کے قتل کو اپنا شیوہ بنالیا تھا۔ ان کی اس برائی کا قرآن خاص طور سے بار بار ذکر کرتا ہے۔
اللہ تعالی نے ان سے خاص طور پر اس بات کا عہد لیا تھا کہ وہ انسانوں کا خون نہیں بہائیں گے۔
وَإِذْ أَخَذْنَا مِیثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُونَ أَنْفُسَكُمْ مِنْ دِیارِكُمْ ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنْتُمْ تَشْهَدُونَ [البقرة: 84]
(پھر ذرا یاد کرو، ہم نے تم سے مضبوط عہد لیا تھا کہ آپس میں ایک دوسرے کا خون نہ بہانا اور نہ ایک دوسرے کو گھر سے بے گھر کرنا،تم نے اس کا اقرار کیا تھا، تم خود اس پر گواہ ہو)۔
لیکن انھوں نے اس عہد کی کھل کر خلاف ورزی کی:
ثُمَّ اَنۡـتُمۡ هٰٓؤُلَاۤءِ تَقۡتُلُوۡنَ اَنۡفُسَكُمۡ [البقرة: 85]
(پھر تم وہی ہو کہ اپنوں کو قتل کر دیتے ہو) ۔
قرآن بنی اسرائیل کی تاریخ کا ایک واقعہ ذکر کرتا ہے جس میں وہ ایک قاتل کو سزا دینے کے بجائے اس کے پشتی بان بنے نظر آتے ہیں:
وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادَّارَأْتُمْ فِیهَا [البقرة: 72]
(اور تمھیں یاد ہے وہ واقعہ جب تم نے ایک شخص کی جان لی تھی، پھر تم نے اس( الزام) کو(قاتل سے) دفع کرنے کی ہر طرح سے کوشش کی)۔
اس واقعہ کے فوراً بعد قرآن بتاتا ہے کہ ان کے دل پتھر کی چٹان سے زیادہ سخت ہوگئے ہیں۔
ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ فَهِی كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً [البقرة: 74]
(پھر اس کے بعد تمھارے دل سخت ہو گئے۔ گویا وہ پتھر ہیں یا ان سے بھی زیادہ سخت)۔
یہیں سے ہمیں یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ انسانی جان کے معاملے میں پتھر سے زیادہ سخت دل کیسے ہوجاتے ہیں۔
یہ قوم قتل کرنے میں اتنی جری تھی کہ نبیوں کے قتل جیسے نہایت شنیع جرم کا ارتکاب کرنے میں ابھی اسے کوئی باک نہ تھا۔ قرآن مجید نے ان کے اس شیوہ جرم کو بار بار ذکر کیا ہے:
اَفَكُلَّمَا جَآءَكُمۡ رَسُوۡلٌۢ بِمَا لَا تَهۡوٰٓى اَنۡفُسُكُمُ اسۡتَكۡبَرۡتُمۡۚفَفَرِیۡقًا كَذَّبۡتُمۡ وَفَرِیۡقًا تَقۡتُلُوۡنَ[البقرة: 87]
(تو جب کوئی پیغمبر تمھارے پاس ایسی باتیں لے کر آئے، جن کو تمھارا جی نہیں چاہتا تھا، تو تم سرکش ہو جاتے رہے، اور ایک گروہ (انبیا) کو تو جھٹلایا اور ایک گروہ کو قتل کرنے کے درپے ہوئے)۔
قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُونَ أَنْبِیاءَ اللَّهِ مِنْ قَبْلُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ [البقرة: 91]
(کہہ دو پھر تم کیوں اس سے پہلے الله کے نبیوں کو قتل کرتے رہے اگر تم مومن تھے) ۔
لَقَدۡ اَخَذۡنَا مِیۡثَاقَ بَنِىۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ وَاَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡهِمۡ رُسُلًا ؕ كُلَّمَا جَآءَهُمۡ رَسُوۡلٌ ۢ بِمَا لَا تَهۡوٰٓى اَنۡفُسُهُمۙۡ فَرِیۡقًا كَذَّبُوۡا وَفَرِیۡقًا یقۡتُلُوۡنَ [المائدة: 70]
(ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ وعدہ لیا تھا اور ان کی طرف کئی رسول بھیجے تھے جب کبھی کوئی رسول ان کے پاس وہ حکم لایا جو ان کے نفس نہیں چاہتے تھے تو ایک جماعت کو جھٹلایا اور ایک جماعت کو قتل کے درپے ہوئے)۔
لَقَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّذِینَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ فَقِیرٌ وَنَحْنُ أَغْنِیاءُ سَنَكْتُبُ مَا قَالُوا وَقَتْلَهُمُ الْأَنْبِیاءَ بِغَیرِ حَقٍّ وَنَقُولُ ذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِیقِ [آل عمران: 181]
(بے شک الله نے ان کی بات سنی ہے جنھوں نے کہا کہ بے شک الله محتاج ہے اور ہم بے نیاز ہیں اب ہم ان کی بات لکھ رکھیں گے اور جو انھوں نے انبیا کے ناحق خون کیے ہیں اور کہیں گے کہ جلتی آگ کا عذاب چکھو)۔
قُلْ قَدْ جَاءَكُمْ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِی بِالْبَینَاتِ وَبِالَّذِی قُلْتُمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوهُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِینَ [آل عمران: 183]
( کہہ دو مجھ سے پہلے کتنے رسول نشانیاں لے کر تمھارے پاس آئے اور یہ نشانی بھی جو تم کہتے ہو پھر انھیں تم نے کیوں قتل کیا اگر تم سچے ہو)۔
فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِیثَاقَهُمْ وَكُفْرِهِمْ بِآیاتِ اللَّهِ وَقَتْلِهِمُ الْأَنْبِیاءَ بِغَیرِ حَقٍّ وَقَوْلِهِمْ قُلُوبُنَا غُلْفٌ بَلْ طَبَعَ اللَّهُ عَلَیهَا بِكُفْرِهِمْ فَلَا یؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِیلًا [النساء: 155]
(پھر ان کی عہد شکنی پر اور الله کی آیتوں سے منکر ہونے پر اور پیغمبروں کا ناحق خون کرنے پر اور اس کہنے پرکہ ہمارے دلوں پرپر دے رہے ہیں انھیں سزا ملی ،پردے نہیں بلکہ الله نے ان کے دلوں پر کفر کے سبب سے مہر کر دی ہے سو ایمان نہیں لاتے مگر تھوڑے)۔
وَضُرِبَتْ عَلَیهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا یكْفُرُونَ بِآیاتِ اللَّهِ وَیقْتُلُونَ النَّبِیینَ بِغَیرِ الْحَقِّ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا یعْتَدُونَ [البقرة: 61]
(اور ان پر ذلت اور محتاجی ڈال دی گئی اور انھوں نے غضب الہیٰ کمایا یہ اس لیے کہ وہ الله کی نشانیوں کا انکار کرتے تھے اور نبیوں کو ناحق قتل کرتے تھے یہ اس لیے کہ نافرمان تھے اور حد سے بڑھ جاتے تھے)۔
ان کی سفاکی کا حال یہ تھا کہ نبیوں کے علاوہ یہ ان لوگوں کو بھی قتل کردیا کرتے جو انصاف کی بات کرتے:
إِنَّ الَّذِینَ یكْفُرُونَ بِآیاتِ اللَّهِ وَیقْتُلُونَ النَّبِیینَ بِغَیرِ حَقٍّ وَیقْتُلُونَ الَّذِینَ یأْمُرُونَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِیمٍ [آل عمران: 21]
(بے شک جولوگ الله کے حکموں کا انکار کرتے ہیں اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرتے ہیں اور لوگوں میں سے انصاف کا حکم کرنے والوں کو قتل کرتے ہیں سو انھیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دیجیے)۔
بے شرمی اور ڈھٹائی کا عالم یہ ہے کہ وہ فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے قاتل وہ ہیں۔
وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیحَ عِیسَى ابْنَ مَرْیمَ رَسُولَ اللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ [النساء: 157]
(اور ان کے اس کہنے پر کہ ہم نے مسیح عیسیٰ مریم کے بیٹے کو قتل کیا جو الله کا رسول تھا حالاں کہ انھوں نے نہ اسے قتل کیا اور نہ سولی پر چڑھایا لیکن وہ مغالطے کا شکار ہیں)۔
یہ کیسا عجیب معاملہ اور کتنا بڑا تضاد ہے کہ بنی اسرائیل (یہود) وہ قوم ہے جو فرعون کے قتل عام کا نشانہ بنی اور اسی قوم نے موقع ملنے پر سفاکی کی ساری حدیں پار کرلیں۔ اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو فرعون کے قتل عام سے بچایا تھا۔ یہ ان پر اللہ کا بہت بڑا احسان تھا۔ اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ امن کے علم بردار بنتے اور قتل و خوں ریزی سے بے زار ہوتے۔ لیکن ان کا عمل اس کے بالکل برعکس رہا۔ جنھیں اللہ نے ظالمانہ قتل عام سے بچایا وہی ظالمانہ قتل عام کا ارتکاب کرتے رہے۔
قرآن مجید اس بات کو بہت نمایاں کر کے بار بار پیش کرتا ہے۔
وَإِذْ نَجَّینَاكُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ یسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ یذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَیسْتَحْیونَ نِسَاءَكُمْ [البقرة: 49]
(اور جب ہم نے تمھیں فرعونیوں سے نجات دی و ہ تمھیں بری طرح عذاب دیا کرتے تھے تمھارے بیٹوں کو ذبح کرتے تھے اور تمھاری بیٹیوں کو زندہ رکھتے تھے )۔
وَإِذْ أَنْجَینَاكُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ یسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ یقَتِّلُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَیسْتَحْیونَ نِسَاءَكُمْ [الأعراف: 141]
(اور یا د کرو جب ہم نے تمھیں فرعون والوں سے نجات دی جو تمھیں برا عذاب دیتے تھے تمھارے بیٹوں کو مار ڈال دیتے اور تمھاری عورتوں کو زندہ رکھتے )۔
وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَیكُمْ إِذْ أَنْجَاكُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ یسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ وَیذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَیسْتَحْیونَ نِسَاءَكُمْ [إبراهیم: 6]
(اورجب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا الله کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب تمھیں فرعون کی قوم سے چھڑا یا وہ تمھیں برا عذاب چکھاتے اور تمھارے بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمھاری عورتوں کو زندہ رکھتے)۔
فَلَمَّا جَاءَهُمْ بِالْحَقِّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوا اقْتُلُوا أَبْنَاءَ الَّذِینَ آمَنُوا مَعَهُ وَاسْتَحْیوا نِسَاءَهُمْ [غافر: 25]
(پس جب وہ ان کے پاس ہماری طرف سے سچا دین لائے تو کہنے لگے ان لوگوں کے بیٹوں کو قتل کر دو جو موسیٰ پر ایمان لائے ہیں اور ان کی عورتوں کو زندہ رہنے دو)۔
وَقَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِ فِرْعَوْنَ أَتَذَرُ مُوسَىٰ وَقَوْمَهُ لِیفْسِدُوا فِی الْأَرْضِ وَیذَرَكَ وَآلِهَتَكَ قَالَ سَنُقَتِّلُ أَبْنَاءَهُمْ وَنَسْتَحْیی نِسَاءَهُمْ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قَاهِرُونَ [الأعراف: 127]
(اور فرعون کی قوم کے سرداروں نے کہا کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو چھوڑتا ہے تاکہ وہ ملک میں فساد کریں اور تجھے اورتیرے معبودوں کو چھوڑ دے کہا ہم ان کے بیٹوں کو قتل کریں گے اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھیں گے اور بے شک ہم ان پر غالب ہیں)۔
إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِیعًا یسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِنْهُمْ یذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَیسْتَحْیی نِسَاءَهُمْ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِینَ [القصص: 4]
(بے شک فرعون زمین پر سرکش ہو گیا تھا اور وہاں کے لوگوں کے کئی گروہ کر دیے تھے ان میں سے ایک گروہ کو کم زور کر رکھا تھا ان کے لڑکوں کو قتل کرتا تھا اور ان کی لڑکیوں کو زندہ رکھتا تھا)۔
یہ بات قابل غور ہے کہ قرآن مجید میں صرف بنی اسرائیل کے حوالے سے یہ بات بار بار ذکر کی گئی ہے کہ وہ قتل عام کا نشانہ بنائے جارہے تھے۔ اسی طرح قرآن مجید میں صرف بنی اسرائیل کے حوالے سے یہ بات بار بار ذکر کی گئی ہے کہ وہ نبیوں کو قتل کرتے رہے۔
نسل کشی کا لفظ بنی اسرائیل کے ساتھ اس طرح جڑ گیا ہے کہ جب بھی بنی اسرائیل کا ذکر آتا ہے فرعون کے ہاتھوں ان کے بچوں کے قتل عام کا خیال ذہن میں آجاتا ہے۔ نسل کشی کا نشانہ بننے والی قوم کے اندر قتل عا م سے نفرت ہونی چاہیے تھی۔ لیکن ان کی ناشکری، عہد شکنی اور گناہ پسندی نے ان کی فطرت کو اس طرح مسخ کردیا کہ وہ قتل عام کے دل دادہ بن گئے۔ اس لیے جب بھی بنی اسرائیل کا ذکر آتا ہے ساتھ ہی یہ خیال بھی آتا ہے کہ اس قوم کے ہاتھ نبیوں کے خون سے آلودہ ہیں۔
نسل کشی کا ایک مشہور واقعہ وہ ہے جو جرمنی میں یہودیوں کے ساتھ پیش آیا۔ ہٹلر کے ہاتھوں وہ بڑے پیمانے پر قتل کیے گئے۔ اندازے کے مطابق قتل ہونے والے یہودیوں کی تعداد ساٹھ لاکھ تھی۔ اس کا لازمی اثر تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ وہ معصوموں کے قتل سے شدید متنفر ہوجاتے، لیکن اس کے بعد سے ہی وہ فلسطین میں عام شہریوں، معصوم بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو بے رحمی سے قتل کرنے کے بدترین نمونے پیش کرتے رہے۔ ابھی تو ہٹلر کی فرد جرم کی روشنائی خشک بھی نہیں ہوئی، گیس چیمبروں کی دیواریں بوسیدہ تک نہیں ہوئیں، ہولوکاسٹ کی یادیں دھندلی بھی نہیں ہوئیں، لیکن اپنے اوپر ہوئے تمام مظالم کو فراموش کرکے اسرائیلی مقتدرہ نے نازی جرمنوں کی روش اختیار کرلی۔
یہ اس قدیم تاریخ کا اعادہ ہے کہ فرعون کے مذبح خانے سے نکلے ہوئے کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ انھوں نے خود اپنے ہاتھ خون سے رنگین کرنے شروع کردیے تھے۔
تاریخ کے مختلف ادوار میں یہودیوں کا قتل عام ہوا ہے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ان کا کوئی قتل عام مسلمانوں کے ہاتھوں نہیں ہوا۔ کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ دیگر قوموں خاص کر عیسائیوں کے ہاتھوں بار بار ظلم اور قتل عام کا نشانہ بننے والے یہودی آج عیسائی مقتدرہ کی پشت پناہی میں فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام کررہے ہیں۔
جس وقت یہ تحریر لکھی جارہی ہے غزہ میں جہاں کی آبادی صرف چوبیس لاکھ ہے، ستر ہزار شہری زخمی اور اٹھائیس ہزار شہری قتل کردیے گئے ہیں۔ پندرہ لاکھ افراد بے گھر کردیے گئے ہیں۔ وہ اپنے علاقے چھوڑ کر رفح کے علاقے میں کیمپوں میں موت اور زندگی کی کشمکش سے دوچار ہیں۔ کئی ماہ سے وہ مسلسل بھوک اور شدید سردی کا سامنا کررہے ہیں۔ ان میں بڑی تعداد زخمیوں اور بیماروں کی ہے۔ اسرائیلی حکومت اب وہاں بھی فوجی کارروائی کرنے کے ناپاک عزائم کا اظہار کرچکی ہے۔ دنیا کے تمام انسان جو دل میں ذرا بھی درد رکھتے ہیں اپنی بے چینی کا اظہار کررہے ہیں۔ لیکن قاتل صفت اسرائیلیوں کے کانوں پر جوں نہیں رینگ رہی ہے۔ مغربی مقتدرہ کی پشت پناہی کے ساتھ اسرائیلی فوجیں قتل و خوں ریزی کی ساری حدوں کو پار کرچکی ہیں۔
قتل کی داستان صرف غزہ تک محدود نہیں ہے۔ اور قاتل صرف اسرائیل فوجیں نہیں ہیں۔ پوری دنیا کو دیکھیں تو اس سے بھی زیادہ الم ناک خونی داستان سامنے آتی ہے۔ اس داستان میں قاتل امریکی مقتدرہ اور مقتول دنیا کے کچھ ملکوں کے لاکھوں مسلمان ہیں۔
قتل پسندی کے اس مرض میں یہودیت زدہ مغربی مقتدرہ کس طرح مبتلا ہے، اس کا اندازہ کرنے کے لیے امریکہ کی براؤن یونیورسٹی کے ایک ریسرچ سینٹر (Watson Institute for International and Public Affairs)کی گذشتہ مئی کی رپورٹ ہوش اڑادینے کے لیے کافی ہے۔ رپورٹ کا عنوان ہے:
(How Death Outlives War: The Reverberating Impact of the Post-9/11 Wars on Human Health)
رپورٹ کا خلاصہ دیکھیے:
https://home.watson.brown.edu/research/research-briefs/how-death-outlives-war-reverberating-impact-post-911-wars human-health
اس رپورٹ کے مطابق2001 کے بعد سے بیس سال کے اندر مزعومہ دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ کے نتیجے میں چھ مسلم ملکوں (افغانستان، پاکستان، عراق، شام، یمن اور صومالیہ) میں راست اور بالواسطہ پچاس لاکھ مسلمان شہری موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں۔ غور طلب بات یہ بھی ہے کہ امریکہ نے انسانوں کو قتل کرنے کی اس مہم میں آٹھ ہزار ملین (8,000,000,000,000) ڈالر خرچ کرڈالے۔ اتنی بڑی تعداد قاتل صفت یہودیت زدہ امریکی مقتدرہ کے نزدیک صفر سے زیادہ نہیں ہے۔ امریکی مقتدرہ کی منطق یہ ہے کہ انسداد دہشت گردی اور قومی سلامتی کے نام پر جتنے شہریوں کو قتل کردیا جائے وہ صفر شمار ہوں گے۔ اسی منطق کے تحت امریکی نیشنل سیکورٹی کونسل کے ترجمان جون کیری کے بیان کو سمجھا جاسکتا ہے، جب اس نے کہا کہ غزہ میں جنگ کا نشانہ بننے والے شہریوں کی تعداد صفر ہے، وہاں نسل کشی کی کسی کارروائی کا کوئی ایک بھی اشارہ نہیں ملتا ہے۔ اس انسانیت سوز منطق پر پوری دنیا کی خاموشی اس سے بھی زیادہ افسوس ناک ہے۔ یہ کتنی شرم کی بات ہے کہ بیس برسوں کے دوران پچاس لاکھ انسانوں کو بے دریغ موت کے گھاٹ اتار دیا جائے اور پوری دنیا خاموش تماشائی بنی رہے۔ عالمی انسانی ضمیر کے اوپر یہ سوالیہ نشان ہے۔
ایک طرف اسرائیل اور اسرائیلیت زدہ امریکہ کا یہ مجرمانہ کردار ہے اور دوسری طرف قرآن میں مذکور بنی اسرائیل کی تاریخ ہے۔ یہ قرآن کا اعجاز ہی تو ہے کہ خاص طور پر بنی اسرائیل کے حوالے سے کہا گیا:
مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ كَتَبْنَا عَلَى بَنِی إِسْرَائِیلَ أَنَّهُ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِی الْأَرْضِ فَكَاَنَّمَاۤ قَتَلَ النَّاسَ جَمِیعًا وَمَنْ أَحْیاهَا فَكَاَنَّمَاۤ أَحْیا النَّاسَ جَمِیعًا وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَینَاتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِیرًا مِنْهُمْ بَعْدَ ذَلِكَ فِی الْأَرْضِ لَمُسْرِفُونَ [المائدة: 32]
(اسی وجہ سے بنی اسرائیل پر ہم نے یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ “جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اُس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی” مگر اُن کا حال یہ ہے کہ ہمارے رسول پے در پے ان کے پاس کھلی کھلی ہدایات لے کر آئے پھر بھی ان میں بکثرت لوگ زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہیں)۔
انسانی جان کے سلسلے میں خاص طور پر بنی اسرائیل کو ایسا زبردست اصول دیا گیا۔ لیکن جب بھی موقع ملا انھوں نے اس اصول کو پامال کیا۔
غزہ میں خوں ریزی اور سفاکی کا ننگا ناچ جاری ہے اور ہم مجبور و بے بس انسانوں کے ہاتھ اللہ کے حضور دعا کے لیے اٹھے ہوئے ہیں:
یا اللہ جس طرح تو نے بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم سے نجات دی، آج بنی اسرائیل کے ظلم سے مسلمانوں کو نجات دے دے۔
مسلم امت کی ذمے داری
انسانی جان کے احترام کے تئیں مسلم امت کے پاس ٹھوس اصول اور روشن تاریخ ہے۔ قرآن مجید میں انسانی جان کے احترام اور تحفظ کے لیے خصوصی تاکید کی گئی ہے اور ناحق قتل پر سخت وعیدیں سنائی گئی ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ کی سیرت میں انسانی جان کا احترام و تحفظ نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ جنگ بدر کے قیدیوں کو قتل نہ کرنے سے لے کر فتح مکہ کے بعد تمام دشمنوں کو عام معافی دینے تک انسانی جان کے احترام و تحفظ کی بہت سی تابناک مثالیں ہیں۔ بہت کم عرصے میں ملک عرب کا دیارِ جنگ سے دیار امن میں تبدیل ہوجانا ایک زبردست معجزہ تھا۔ مسلمانوں کی تاریخ اس لحاظ سے نہایت روشن ہے کہ اس میں مسلمانوں کے ہاتھوں قتل عام کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ یہاں کوئی فرعون، کوئی چنگیز اور کوئی ہٹلر واسٹالن اور مسولینی نہیں ملتے۔
قتل و خوں ریزی کی چکی میں بار بار پسنے والی انسانی دنیا کو انسانی جان کے احترام کا سبق سکھانے کا کام مسلم امت کا ہے۔
مسلم طلبہ کے ایک مجمع میں مقرر نے سوال رکھا کہ دنیا دو حصوں میں تقسیم ہے، ایک طرف ظالم ہیں جو دولت و طاقت اور اقتدار کے نشے میں انسانوں پر ظلم کررہے ہیں دوسری طرف ظلم کی چکی میں پسنے والے مظلوم ہیں، تم کدھر رہنا پسند کرو گے۔ ؟ کیا ظالموں کی طرف؟ سب نے بیک آواز کہا : نہیں۔ یہ جواب اطمینان بخش تھا۔ اسلامی تعلیمات کے نتیجے میں ہر مسلمان کے اندر ظلم سے نفرت ہونی ہی چاہیے۔ کوئی شخص ایسا نہیں ہوسکتا کہ اس کے دل میں ایمان ہو اور وہ ظالم بننا پسند کرے۔ لیکن جب مقرر نے پوچھا کیا مظلوموں میں شامل ہونا پسند کروگے؟ سب نے بیک آواز کہا: ہاں۔ اور یہ جواب اطمینان بخش نہیں تھا۔ جب کم زور لوگ مظلوم بننا پسند کرلیتے ہیں تو ظالموں کے حوصلے بلند ہوجاتے ہیں۔ اس لیے انسانوں کی ایک تیسری قسم کا ہونا ضروری ہے۔ ایسے لوگ جو نہ ظالم بننا پسند کریں اور نہ مظلوم بنے رہنا گوارا کریں، وہ ظلم کو روکنے والے ہوں۔ ظالموں اور مظلوموں میں تقسیم انسانی دنیا کو ظلم کےخلاف اٹھنے والے انسانوں کی شدید ضرورت ہے۔ مسلم امت یہ عظیم فریضہ انجام دے سکتی ہے اور اسے اس کے لیے سامنے آنا چاہیے۔
مشمولہ: شمارہ مارچ 2024