ملک کا منظر نامہ اور تحریک اسلامی

لَـقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِالۡبَینٰتِ وَاَنۡزَلۡنَا مَعَهُمُ الۡكِتٰبَ وَالۡمِیۡزَانَ لِیقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ [الحدید : ۲۵]

(ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور اُن کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہو)

اللہ کا شکر و احسان ہے کہ ہم ایک ایسی تحریک کا حصہ ہیں جو ایک عظیم مقصد رکھتی ہے اور انبیائی طریقہ پر قرآن و سنت کی روشنی میں جدوجہد کر رہی ہے۔

ہم اپنے ملک عزیز میں یعنی یہاں کے باشندگان کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں، یہاں کے معاشرے اور نظام میں ایک صالح تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ اور اس کی ابتدا ہم خود اپنے اندر اس صالح تبدیلی سے کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اس ملک عزیز میں اللہ کا پسندیدہ دین یعنی اسلام زندگی کے ہر شعبہ میں اس لیے قائم کرنا چاہتے ہیں کہ یہ اللہ کا حکم ہے، اسی میں تمام انسانوں کی بھلائی ہے اور اسی کے نتیجہ میں عدل و انصاف کا قیام ممکن ہے۔

ہم ہندوستانی سماج کو عدل اور اعتدال کے راستے کی جانب دعوت دیتے اور اس کی رہ نمائی کرتے ہیں۔ کیوں کہ یہی اس کے ساتھ خیر خواہی ہے اور اس میں کوتاہی برتنا اللہ کی ناراضی کا سبب ہوگا۔

حالات کو دیکھنے کا تحریکی زاویہ

ملک کے موجودہ حالات، ان میں آرہی تیز رفتار تبدیلیوں، چیلنجوں اور خطرات کو دیکھنے کا تحریک اسلامی کا زاویہ دوسروں سے قدرے مختلف ہوسکتا ہے۔ دوسرے بہت سے لوگوں کے لیے مادی ترقی، خوشحالی، معیار زندگی میں بہتری جیسی چیزیں زیادہ اہم ہو سکتی ہیں۔ لیکن تحریک اسلامی کے لیے جو سوالات زیادہ اہم ہیں وہ یہ ہیں:

  •  ہمارا معاشرہ اخلاقی لحاظ سے کس طرف جا رہا ہے؟
  •  ملک میں کم زور طبقات، دلت، آدی باسی اور اقلیتوں کے ساتھ عدل و انصاف اور انسانی عظمت کی بحالی کے پہلو سے ہندوستانی سماج کی کیفیت ہے؟
  •  ملک میں آزادی رائے، مذہبی آزادی، اقلیتوں کے حقوق، ان کی دینی شناخت کی حفاظت، عبادت گاہوں، پرسنل لا اور وقف کی جائیدادوں کی صورت حال کیا ہے؟
  •  سماج میں آپسی محبت، اعتماد اور مل جل کر رہنے اور باہمی تعاون کی کیفیت میں کیا بدلاؤ آرہا ہے؟
  •  وہ کون سے عوامل ہیں جو باشندگان ملک تک حق کا پیغام پہنچانے میں اور قبول حق میں معاون و مددگار ہیں یا اس کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں اور ان میں کسی طرح کی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں؟
  •  ملک کے حالات کا مسلمانوں پر کیا اثر ہو رہا ہے؟
  •  منفی اثرات کو روکنے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے؟
  •  ملک کے عوام میں زندگی کا مقصد، اس کی ترجیحات، خدا، آخرت اور خدائی رہ نمائی کے بارے میں کیا تصورات پائے جاتے ہیں؟
  •  نوجوانوں کی فکر، ان کی ترجیحات، ان میں امید یا مایوسی، فکر و عمل میں اعتدال کی کیا کیفیات ہیں اور کیا تبدیلی آرہی ہے؟
  •  ملک میں شہریوں کی آزادی، ان کے حقوق، عوام کی خیر خواہی، جمہوری روایات اور اداروں کی صورت حال، سماج کے تمام طبقات خصوصاً کم زوروں، محروموں اور اقلیتوں کی ملک کے انتظام و اقتدار میں شرکت کتنی ہے؟

ملکی حالات سے تاثر لینے کا مناسب طریقہ

ہم پر یہ واضح ہونا ضروری ہے کہ مسلمانوں اور تحریک اسلامی کے افراد کو خیر امت اور داعی امت ہونے کی حیثیت سے ان حالات سے کس طرح کا تاثر لینا چاہیے یا کن پہلوؤں سے بچنا چاہیے۔

پہلی بات یہ ہے کہ انتہا پسندی کے رویہ سے بچتے ہوئے حالات کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینا چاہیے۔ جیسا ہمارا جائزہ ہوگا ویسا ہی ہمارا تاثر بھی ہوگا۔ س

حالات خراب ضرور ہیں اور مسلمانوں کے لیے بڑی آزمائشیں بھی ہیں لیکن حالات ایسے بھی نہیں ہیں کہ ان کی اصلاح نہ کی جا سکتی ہو۔ مایوسی کا شکار ہو کر ہم جو کچھ کر سکتے ہیں وہ بھی نہ کریں، اس تاثر سے بچنے اور ملک و ملت کے عوام کو بچانے کی ضرورت ہے۔ حالات کی سنگینی کو اتنا ہلکا بھی نہ سمجھا جائے کہ ان حالات کو بدلنے کی تحریک ہی ختم ہو جائے۔

فسطائیت اور نفرت کے ایجنڈا کو آگے بڑھانے والے لوگوں کی تعداد ابھی بھی بہت زیادہ نہیں ہے۔ پورے ملک کے عوام کو ہم اپنا حریف سمجھنے نہ لگیں بلکہ پوری خیر خواہی اور حوصلے کے ساتھ حالات کی اصلاح کے لیے کوشاں رہیں۔ ہمارا مقام تو یہ ہے کہ فساد برپا کرنے والے گروہوں اور افراد کی اصلاح کے لیے بھی ہم فکر مند رہیں۔

حالات کے دباؤ میں ہم ایک رد عمل پیش کرنے والا گروہ نہ بن جائیں بلکہ ایک مثبت اور اصلاح کرنے والا رسپانس دینے والے بنیں۔ تحریک اسلامی اور امت مسلمہ کو ان سنگین حالات اور آزمائشوں کے درمیان سے مواقع اور امکانات پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

دنیا اور اسلام کی تاریخ اور انبیا کے حالات زندگی اس پر شاہد ہیں کہ سخت ترین حالات میں امکانات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔

آئیے ہم ملک کے موجودہ منظرنامہ کو تحریک اسلامی کے زاویے سے دیکھیں۔ ملک اور سماج کے منظر نامہ میں بعض مثبت پہلو ہیں جن کی حفاظت اور ان کے بہتر استعمال کی کوشش کی جانی چاہیے۔ منظر نامہ کا دوسرا پہلو منفی ہے جو ہمارے ملک اور سماج کو کم زور کر رہا ہے اور بگاڑ کی وجہ بن رہا ہے۔ ان منفی پہلوؤں کی کیسے اصلاح کی جا سکتی ہے اور اس میں تحریک اسلامی کا کیا رول ہونا چاہیے اس پر بھی ہمیں گفتگو کرنی ہے۔

مثبت پہلو

ہمارا یہ ملک عزیز آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے بلکہ شاید سب سے بڑا ملک ہے۔ 145 کروڑ کی آبادی کا یہ ملک ایک تکثیری سماج رکھتا ہے۔ تقریباً تمام مذاہب کے ماننے والے افراد یہاں بستے ہیں۔ مذہب اور خدا کو نہ ماننے والے لوگ بھی ہیں مگر ان کی تعداد بہت کم ہے۔ یہ ہمارے ملک کا ایک مثبت پہلو ہے کہ یہاں مذہب اور خدا کی ماننے والوں کی اکثریت ہے لیکن مذہب اور خدا کے تصورات میں بہت فرق پایا جاتا ہے۔ ہندوستانی سماج میں آخرت کے تصورات بھی پائے جاتے ہیں لیکن ان میں بہت پیچیدگیاں پیدا ہوگئی ہیں۔

یہاں قدیم روایات اور کتابیں بھی موجود ہیں جن سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں انبیا کرامؑ اور اللہ کی ہدایات ضرور آئی ہوں گی لیکن وقت کے ساتھ وہ اتنی بدل گئی ہیں اور ان میں اتنی زیادہ ملاوٹ ہوگئی ہے کہ وہ اسلام سے بہت زیادہ مختلف ہو گئی ہیں۔

ہمارا ملک ایک نوجوان ملک ہے۔ 65 فی صد آبادی 35 سال یا اس سے کم عمر کی ہے۔ اس لیے یہاں تبدیلی اور تعمیر کی صلاحیت دنیا کے ملکوں سے کہیں زیادہ ہے۔ گویا ہمارے ملک میں ایک صالح تبدیلی کے امکانات بھی بہت زیادہ ہیں۔ یہ بہت روشن پہلو ہے۔

آزادی کے بعد 77 برسوں میں ہم نے مادی لحاظ سے بہت ترقی کی ہے۔ سبز انقلاب، سفید انقلاب اور صنعتی انقلاب ہمارے ملک کی اہم ترین کام یابیاں ہیں۔

سائنس اور ٹیکنالوجی، اسپیس ٹینالوجی، کمپیوٹر ٹیکنالوجی، ٹیلی کمیونکیشن اور انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ایٹومک انرجی کے میدانوں میں ہم نے غیر معمولی ترقی کی ہے۔ ہمارے محققین، سائنس داں اور سافٹ ویر انجیئرس دنیا میں نمایاں مقام حاصل کر رہے ہیں۔

یہ ایک اطمینان کا پہلو ہے کہ ہم مختلف کم زوریوں اور خامیوں کے ساتھ ہی سہی لیکن ایک جمہوری نظام پر قائم ہیں۔

۷۷ سال قبل سب نے مل کر بڑی قربانیوں اور جدو جہد کے ساتھ آزادی حاصل کی۔ یہاں کے حالات کے پیش نظر جو دستور بنایا گیا اس میں تمام باشندگان کے لیے مساوات، آزادی، عدل و انصاف اور آپسی محبت و بھائی چارہ جیسی اقدار کو بنیاد بنایا۔

موجودہ صورت حال میں بھی ملک میں امن اور انصاف چاہنے والوں اور اس کے لیے کوشش کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ ہندوستانی سماج میں آپسی محبت اور اتحاد کی قدیم روایات موجود ہیں اور ابھی بھی اکثریت اس پر قائم ہے۔ مگر یہ روایات اب خطرے میں پڑتی جا رہی ہیں جن کی حفاظت ضروری ہے۔

درج بالا تمام تر خوبیوں اور روشن پہلوؤں کے ساتھ ساتھ ۷۷ سال کے اس سفر کا اور خصوصاً اس وقت ہمارا ملک جن چیلنجوں اور خطرات کا سامنا کر رہا ہے اس کا بھی ایمانداری سے جائزہ لینا ضروری ہے۔

منفی اور قابل توجہ پہلو

تیز رفتار اخلاقی زوال

ایک بڑا چیلنج ہمارے ملک کے سامنے یہ ہے کہ ہمارا سماج مسلسل اخلاقی زوال کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارا سماج اور ہماری حکومتیں اس اخلاقی زوال پر ذرا بھی فکر مند نہیں ہیں اور اس کو قابل غور و بحث بھی نہیں سمجھا جا رہا ہے۔

اس اخلاقی زوال کے نتیجے میں ہر میدان میں بدعنوانی، جھوٹ، فریب،خواتین پر بڑھتے مظالم اور تشدد، قتل جنین کے بڑھتے واقعات، کم زوروں کی حق تلفی، بوڑھے لوگوں کے ساتھ بڑھتی نا انصافیاں، اور اولڈ ایج ہوم میں لوگوں کی بڑھتی تعداد ہم سب کے لیے تشویشناک ہے۔

مغرب کی تقلید میں اور سرمایہ دارانہ نظام کی خدمت کے لیے عریانیت اور فحاشی کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے اور اس ذہنی غلامی کو آزادی کا چولا پہنایا جا رہا ہے۔ مغرب کی تقلید اور دباؤ میں ایسے قوانین وضع کیے جا رہے ہیں جن سے خاندان کا ادارہ منہدم ہو رہا ہے۔

لیو ان ریلیشن شپ آزادی کے نام پر بڑھاوا دیا جا رہا ہے اور شادی اور ذمہ دارانہ خاندانی زندگی کو غیر ضروری اور ایک بوجھ ثابت کر کے اسے اتار پھینکنے کی کوششیں تیز ہو رہی ہیں۔

ہندوتو کی تحریک اور نفرت کا ایجنڈا

ہمارے ملک کے لیے اس وقت ایک بڑا چیلنج اور خطرہ ہندوتو کی تحریک اور اس کے ذریعے چلایا جا رہا نفرت کا ایجنڈا ہے۔ دستور ہند میں دی گئی مذہبی آزادی اور مساوات کو ایک بڑا خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ جمہوری اقدار اور ادارے پامال ہو رہے ہیں اور فسطائی رجحانات بڑھ رہے ہیں۔ مذہبی اقلیتوں پر اکثریتی کلچر کو تھوپنے کی کوششیں بڑھتی جارہی ہیں۔ مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کیا جارہا ہے اور نفرت کو منصوبہ بند طریقے سے پھیلایا جا رہا ہے جس سے ہمارے ملک میں امن و امان اور باہمی محبت و اعتماد کم ہوتا جا رہا ہے اور ہمارے ملک کی ترقی بھی متاثر ہو رہی ہے۔

سیاست کا گرتا معیار

ہمارے ملک میں اقدار سے خالی، موقع پرست سیاست بہت تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔ سیاست میں دولت کا رول غیر معمولی طور پر بڑھ گیا ہے۔ ملک کی سیاست میں مجرم عناصر کی تعداد میں اضافہ مسلسل ہو رہا ہے۔

نفرت اور تقسیم کی سیاست اور مذہب کی بنیادوں پر سماج میں بڑھتا polarization ملک کے لیے بہت خطرناک ہے۔

سیاست اور جمہوری اداروں میں مسلمانوں کی نمائندگی کا مسلسل کم ہونا بیمار جمہوریت کی علامت ہے۔ ہمارے ملک کی سیاست پر درج ذیل چار عناصر غالب آرہے ہیں جو ملک کے لیے بڑا خطرہ ہیں:

  • Communal (فرقہ پرست)
  • Corporate (سرمایہ دار)
  •  Corrupt (بدعنوان)
  •  Criminal (مجرم)

ملک میں بڑھتی معاشی بدحالی

غریب اور امیر کے درمیان بڑھتی کھائی یعنی دولت کا چند ہاتھوں میں مرکوز ہونا اور اکثریت کا غربت میں مبتلا ہونا بہت تشویشناک ہے۔

Global Hunger Index میں ہماری صورت حال بہت خراب ہے جس کا اندازہ ایک تازہ رپورٹ سے ہوتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 127 ملکوں میں ہم 105 ویں نمبر پر ہیں۔

سودی نظام معیشت اور حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے کم زوروں، غریبوں اور کسانوں میں خودکشی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔

پوری دنیا میں موجود غریبوں کا ایک بڑا حصہ ہمارے ملک میں پایا جاتا ہے۔

ہماری غربت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہم تقریباً  ۸۰کروڑ لوگوں کو رعایتی قیمت پر غلہ تقسیم کرتے ہیں۔

حکومت کی غلط پالیسیاں اور عوام میں بڑھتی بےاعتمادی

حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے بڑے شہروں کا بڑے ہوتے جانا اور چھوٹے قصبوں اور قریوں کا ویران ہوجانا، ساری بنیادی سہولیات اور روزگار کا بڑے شہروں میں مرکوز ہونا جس کی وجہ سے قصبوں اور قریوں کی آبادیاں بڑی تیزی سے شہروں میں منتقل ہو رہی ہے۔ جس کی وجہ سے دیگر مسائل کے ساتھ ماحولیاتی مسائل بھی سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔

مذہبی بنیادوں پر Ghettoization اور Isolation کا بڑھنا بہت تشویشناک ہے۔ جس کی وجہ دراصل نفرت کا ایجنڈا، فرقہ وارانہ فسادات اور مذہبی طبقوں میں ایک دوسرے سے خوف اور عدم تحفظ کے احساس کا بڑھنا ہے۔

ہندوتو انتہا پسندی اور نفرت کے منصوبہ بند ایجنڈا کی وجہ سے سیکولر سمجھی جانے والی سیاسی پارٹیاں بھی کھل کر مسلمانوں پر ہونے والے حملوں اور زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھانے اور اسے روکنے کی کوشش کرنے سے اس وجہ سے ڈرتی ہیں کہ ان کو ہندو مخالف نہ قرار دیا جائے۔

مسلمانوں کے خلاف ہونے والے حملوں اور نفرتی جرائم پر پولیس اور انتظامیہ کا رویہ عام طور پر انصاف پر مبنی نہیں ہوتا بلکہ وہ ہندوتو کے علم برداروں کے دباؤ میں کام کرنے لگتے ہیں جس سے پولیس اور انتظامیہ پر سے اعتماد کم ہوتا جا رہا ہے۔

عوام کے حقوق کے لیے اٹھنے والی آوازوں کو طاقت سے دبا دیا جاتا ہے۔ احتجاج کا دائرہ برابر تنگ کیا جا رہا ہے۔

سیاسی مخالفین کو CBI، ED، IT جیسے اداروں کے ذریعے خاموش کرنے کی کوششیں بہت عام ہوگئی ہیں۔

عدلیہ پر سے کم ہوتا اعتماد

ہمارے ملک کی عدلیہ کی جانب سے کبھی کبھی امید اور حوصلہ دینے والے فیصلے اور مشاہدے بھی آتے ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عدلیہ بھی پوری آزادی کے ساتھ کم زوروں اور مسلمانوں کو انصاف دلانے میں کام یاب نظر نہیں آتی۔ اکثر فیصلے حکومتوں اور طاقتوروں کے حق میں آتے ہیں۔ عام شہریوں خصوصاً کم زور طبقات اور مسلمانوں کا عدلیہ پر سے کم ہوتا اعتماد ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔

غیر ذمہ دار اور جانب دار میڈیا

میڈیا جو کسی جمہوری نظام میں حکومتوں کی کارکردگی اور ان کی پالیسیوں پر نگاہ رکھتا ہے اور عوام کے حقوق کی پاسداری کرنا جس کی ذمہ داری ہے اس کا بڑا حصہ اب صرف حکومت کی تعریف اور نفرت کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا ذریعہ بن رہا ہے۔ میڈیا پر کارپوریٹ کی دنیا کا قبضہ تقریباً مکمل ہوگیا ہے۔ حکومتیں بڑے سرمایہ داروں کے اشاروں پر چل رہی ہیں اور عوام کے مفاد کی حفاظت کرنے کے بجائے سرمایہ داروں کی خدمت اور ان کو فائدہ پہنچانے میں ہی مصروف ہیں۔

مسلمانوں کے خلاف نفرت اور بڑھتے مظالم

مسلمانوں کے دینی تشخص اور ان کی عبادت گاہوں، مذہبی مقامات اور شعائر کی حفاظت مشکل ہوتی جا رہی ہے۔

معصوم اور بے گناہ لوگوں پر بڑھتی قانونی کارروائیاں اور جیلوں میں بڑھتی ان کی تعداد بھی ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔

سیاسی مخالفین کم زور طبقات کے افراد اور مسلمانوں کے خلاف بے جا قانونی کارروائیاں ہورہی ہیں۔ برسہا برس سے صرف الزامات کی بنیاد پر مسلم نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد جیلوں میں بند ہے۔

حکومت کے خلاف احتجاج کرنے اور نا انصافی کے خلاف آواز اٹھانے کے جرم میں کتنے ہی مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوز کا نشانہ بنادیا گیا ہے۔

سماج میں اسلام سے نا واقفیت اور بڑھتی غلط فہمیاں

ان تمام مسائل، خطرات اور چیلنجوں کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے اور ان کے حل کی جانب بہت سنجیدہ اور مسلسل کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔

لیکن ان سب سے زیادہ سنگین مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کی ایک بڑی آبادی اپنے رب سے واقف نہیں ہے، زندگی کا مقصد اس پر واضح نہیں ہے اور وہ اپنے مالک کی جانب سے آئی ہوئی ہدایت اور روشنی سے محروم ہے۔ جس کے نتیجہ میں وہ شرک کی گندگی میں لت پت ہے یا الحاد کی بیڑیوں میں جکڑی ہوئی ہے۔ آخرت کی زندگی اور اس کی حقیقت سے نا واقفیت کی وجہ سے بگاڑ بڑھتا جا رہا ہے۔

اس پر مزید ستم یہ کہ ملک کی اکثریت کو اس فریب میں مبتلا کرنے کی منظم کوششیں ہو رہی ہیں کہ اسلام دنیا کے لیے خطرہ اور بدامنی کی وجہ ہے۔

اسلام یعنی رب کائنات کی جانب سے بھیجا گیا دین جو عدل و رحمت کا دین ہے اور انسانی سماج کو عدل و اعتدال پر قائم رکھنے والی ہدایت اور روشنی ہے۔ اس سے نفرت پیدا کرنے کی منظم سازشیں اور جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈا پوری قوت کے ساتھ ہمارے ملک میں بھی آگے بڑھایا جا رہا ہے۔

ملت اسلامیہ کی کوتاہی، فریضہ دعوت حق سے غفلت

ہمارے ملک میں مسلم ملت اسلام کی نمائندہ اور اس کی علم بردار ہے۔ اس کا مقام تمام ملک کے تمام باشندوں کی حقیقی خیر خواہی ہے۔ لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مسلمان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی سے اسلام کا صحیح تعارف کرانے، اسلام کا حقیقی نمونہ پیش کرنے اور ایک حقیقی خیر خواہ کا کردار ادا کرنے میں بہت کوتاہ ثابت ہوئے ہیں۔ اس صورت حال کی اصلاح کرنا بہت اہم اور ضروری ہے۔

دوسری طرف انسانوں کی خیر خواہ اس ملت کو ملک کے لیے ایک بڑا خطرہ ثابت کرنے کی کوششیں تیز تر ہورہی ہیں اور مسلمانوں کے خلاف نفرت اور غصہ پیدا کرنے کی نہ صرف کوششیں ہو رہی ہیں بلکہ اب ان کے نتائج بھی مختلف شکلوں میں سامنے آرہے ہیں۔ اس کا بڑا افسوس ناک اور تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ اس کام میں حکومتیں اور ان کی خدمت میں لگا میڈیا بھی شامل ہے۔

ملک کے موجودہ حالات میں تحریک اسلامی کا رول

ہر زمانے میں انبیائے کرام اور رسولوں کی رہ نمائی میں کی گئی کوششیں اپنے وقت کی اسلامی تحریکات تھیں جو انسانی معاشرے کو اللہ کی ہدایت اور رہ نمائی کی روشنی میں پروان چڑھانے اور دین کو قائم کرنے کے لیے چلائی گئی تھیں۔

مسلم امت آخری نبیﷺ کی امت ہے، اس لیے اب قیامت تک اسی امت کو یہ ذمہ داری ادا کرنی ہے۔ ہندوستان کی اسلامی تحریک جماعت اسلامی ہند اسی مقصد کے لیے قائم ہوئی اور گذشتہ ۷۶ برسوں سے کام کر رہی ہے۔

ہم یہاں تحریک اسلامی کی بنیادی ذمہ داریاں یاد دلائیں گے:

  • عدل و انصاف قائم کرنا
  • خیر امت ہونے کا عملی نمونہ پیش کرنا
  • عام انسانوں تک قول و عمل کے ذریعے دعوت حق پہنچانا
  • کام یابی اور ناکامی کے پیمانوں کو درست کرنا
  • انسانی زندگی کی ترجیحات کو درست کرنا
  • سوچنے کا انداز درست کرنا
  • انسان کو اپنی فطرت سے قریب لانے کی کوشش کرنا
  • فکر و عمل میں اعتدال قائم کرنا
  • انسانی ضمیر کو آزاد کرانا
  • مظلوموں اور محروموں کی حمایت کرنا اور ان کو ان کا حق دلوانا
  • انسانی سماج کو ہر قسم کی غلامی سے آزاد کرانا
  • سماج کے مسائل کے حل میں رہ نمائی پیش کرنا اور عملی کوشش کرنا

یہ بات ہم پر واضح رہنی ضروری ہے کہ نہ ہم محض کوئی سیاسی پارٹی ہیں نہ ہم صرف خدمت خلق کرنے والی کوئی این جی او ہیں۔ نہ ہی ہم صرف تعلیم کے فروغ کے لیے کام کرنے والا ادارہ ہیں نہ ہی ہماری حیثیت کسی اکیڈمک انسٹی ٹیوشن کی سی ہے۔ یہ تمام کام اہم ہیں اور ہم انھیں کرتے رہے ہیں۔ لیکن صرف ان کاموں تک محدود نہیں ہیں۔ درحقیقت یہ تمام کام ہمارے اصل مقصد کے حصول میں مدد گار ہیں۔

ملکی حالات پر اثر انداز ہونے کی تدابیر

ملک کے حالات میں مثبت تبدیلی لانا، یہاں بڑھتے ہوئے بگاڑ کو روکنے اور چیلنجوں اور خطرات کا مقابلہ کرنے، سخت حالات کو امکانات میں تبدیل کرنے اور ملک و سماج میں جو مثبت عوامل ہیں ان کی حفاظت کرنے اور ان کو مزید مستحکم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم چار سطحوں پر منصوبہ بند طریقے سے کام کریں۔

  1. باشندگان ملک یا ہندوستانی سماج میں کرنے کا کام
  2. حکومت اور نظام میں اصلاح کی کوششیں
  3.  ملت اسلامیہ میں کی جانے والی کوششیں
  4.  تحریک اور افراد تحریک پر کی جانے والی کوششیں

۱۔ باشندگان ملک یا ہندوستانی سماج میں کرنے کا کام

انصاف اور امن پسند افراد کی ایک بڑی تعداد ہمارے ملک میں ہے مگر وہ خاموش ہے۔ اس پہلو سے ہمیں اپنی کوششیں مزید تیز اور منصوبہ بند کرنی ہوں گی کہ لوگ پر امید ہوں اور ظلم و نا انصافی کی مخالفت میں آواز اٹھانے لگیں۔ اس کے لیے ضروری ہوگا کہ ہر سطح پر وسیع روابط قائم کیے جائیں۔

با شعور افراد، سماجی جہد کاروں اور سماج کے بااثر افراد سے رابطے کی خصوصی کوشش ہو۔

ان افراد کو FDCA) Forum for Democracy and Communal Amity) جیسے فورم سے وابستہ کرنے کی کوششیں کی جانی چاہئیں۔

ہر مقام، شہر اور محلے میں امن پسند افراد کو منظم ومتحرک کرنا وقت کا اہم تقاضا ہے۔ ان افراد کو سدبھاؤنا منچ جیسے فورموں سے جوڑنے کی منصوبہ بند کوششیں تیز کرنے کی ضرورت ہے۔

ہم کو کوشش کرنی ہوگی کہ مختلف مذاہب کے حقیقی رہ نماؤں کو ایک ساتھ لایا جائے۔ ان کے ذریعے مذہب کے غلط استعمال کو روکنے اور سماج میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان آپسی محبت، اعتماد اور باہم تبادلہ خیال کو بڑھایا جائے۔

جماعت نے مرکزی سطح پر اور حلقوں کی سطح پر ان مقاصد کے لیے دھارمک جن مورچہ جیسے فورم قائم کیے ہیں جن سے بہت اچھے اثرات ظاہر بھی ہونے لگے ہیں۔

نوجوانوں میں بڑھتی مایوسی، انتہا پسندی، بے چینی اور منشیات کا استعمال اور خود کشی کا رجحان بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ فرقہ پرست اور فسطائی گروہ نوجوانوں کو نفرت اور تشدد کے راستے پر ڈال رہے ہیں۔

تحریک اسلامی کی ذمہ داری ہے کہ ملک کے عام نوجوانوں کے لیے خصوصی منصوبہ اور پروگرام بنائے۔

۲۔ حکومت اور نظام میں اصلاح کی کوششیں

 حکومت کی غلط پالیسیوں کے خلاف کی جانے والی تدابیر

حکومت کی بعض غلط پالیسیاں جو صرف وقتی سیاسی اغراض کے لیے بنائی جاتی ہیں ان کے ملک اور سماج میں دور رس منفی اثرات واقع ہوتے ہیں۔ مثلاً تعلیم اور صحت پر حکومت کی جانب سے کم رقم مختص کرنا اور ان میدانوں میں نجی کاری کو بڑھاوا دینا۔ غلط پالیسیوں کے نتیجے میں بڑے شہروں کا اور بڑا ہونا اور گاؤں اور قصبات کا ترقی میں پیچھے رہ جانا، آبادی کے تعلق سے حکومت کی غلط پالیسیاں جیسے دفعہ 370 کا ہٹایا جانا، تین طلاق پر قانون سازی اور نئے وقف بل کو لانے کی تیاری(ان کے علاوہ بھی ایک لمبی فہرست ہے)۔

یہ سب وقتی سیاسی فائدے، نفرت کے ایجنڈے اور ہندوتو کو ملک پر تھوپنے کے لیے کیا جا رہا ہے جس سے ملک کو بہت نقصان ہو رہا ہے اور حکومت ملک اور عوام کی بھلائی اور ترقی کے لیے کام کرنے کے بجائے ان منفی اور مضر کاموں میں مصروف ہوگئی ہے۔

عوام میں بیداری لانا اور ان پالیسیوں کے غلط نتائج سے لوگوں کو آگاہ کرنا تحریک اسلامی کی بھی ذمہ داری ہے۔ تحریک کو چاہیے کہ وہ ملک کی ترقی اور عوام کی بھلائی کے لیے حکومت کو بر وقت مشورے دے اور اس میدان کے لیے ماہرین بھی تیار کرے۔

پولیس اور انتظامیہ کے رول کو درست کرنے کی تدابیر

گذشتہ کچھ برسوں سے فرقہ وارانہ تشدد، مسلمانوں پر حملے، مذہبی جلوسوں کے ذریعے تشدد، عبادت گاہوں اور مذہبی مقامات پر بلڈوزر کارروائیاں مسلمانوں کے مکانات کو غیر قانونی بتا کریا کسی جرم سے جوڑ کر، قانونی عمل کو پورا کیے بغیر بلڈوز کردینا، تاریخی مساجد کو انتظامیہ کی مدد سے غیر قانونی قرار دینے اور ان کو مسلمانوں سے چھیننے کی کوشش، بے گناہ مسلم نوجوانوں کو جھوٹے الزامات لگا کر برسوں جیلوں میں بند رکھنا، یہ اب عام ہوتا جا رہا ہے۔

ان مسائل کے سلسلے میں جہاں ایک طرف مضبوط قانونی کارروائی کی ضرورت ہے وہیں بعض معاملات میں پولیس اورانتظامیہ کے افسروں کے خلاف قانونی کارروائی بھی کی جانی چاہیے۔ اس کے علاوہ پولیس اور انتظامیہ کے افسران سے ہمارا مسلسل ربط اور تعلق بھی ضروری ہے تاکہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں ان کی غلط فہمیاں دور ہو سکیں اور وہ اپنی ذمہ داری پوری ایمانداری کے ساتھ نبھا سکیں۔

میڈیا کے رول کو درست کرنے کی تدابیر

یہ ایک نا قابل تردید حقیقت ہے کہ مین اسٹریم میڈیا کا ایک بڑا حصہ بڑے سرمایہ داروں نے خرید لیا ہے اور یہ سرمایہ دار حکومت کی خدمت میں مصروف ہوگئے ہیں اور حکومت ان سرمایہ داروں کی خدمت میں لگی ہوئی ہے۔ اس طرح جمہوری ملک میں میڈیا کو جو رول ادا کرنا چاہیے وہ اب نہیں کررہا ہے۔ اب چھوٹے میڈیا ہاؤس، یوٹیوب چینل اور ڈیجٹل میڈیا میدان میں ہے۔ ان کو سہارا دینے  اور اس میدان میں خود تحریک کو آگے بڑھانے کی شدید ضرورت ہے۔ میڈیا کے میدان میں بہت اچھے ماہرین کی تیاری کو بھی ہماری ترجیح میں اوپر آنا چاہیے۔ اس کے علاوہ مین اسٹریم میڈیا میں کچھ افراد ابھی بھی ایسے ہیں جن سے رابطہ رہے، ان کو صحیح معلومات فراہم کی جائیں، مختلف اہم مسائل پر اسلام کا نقطہ نظر یعنی انصاف اور اعتدال پر مبنی نقطہ نظر سے انھیں بتایاجائے۔ تحریک اسلامی کے منصوبے میں تو یہ باتیں شامل ہیں لیکن ان کو موثر انداز میں آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

 ملکی سیاست کی اصلاح کی تدابیر

ملک کی آزادی کے وقت اور اس کے بعد بھی ایک عرصہ تک سیاست میں اچھے کردار کے لوگوں کی بڑی تعداد تھی۔ بنیادی اخلاقی اقدار بیشترسیاسی رہ نماؤں میں پائی جاتی تھیں۔ لیکن آج سیاست میں مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے لوگوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ سیاست اب دولت کا کھیل بن گئی ہے۔ دولت سے سیاست کی جاتی ہے اور دولت کے لیے سیاست کی جاتی ہے۔ تاہم سب سے زیادہ خطرناک تبدیلی جو اس وقت آئی ہے وہ ہے نفرت پر مبنی سیاست۔

ضروری ہے کہ زندگی کے دیگر میدانوں کی طرح سیاست کو بھی پاک صاف اور اقدار پر مبنی بنانے کی جانب توجہ دی جائے۔ یہ بات ابھی ایک خواب ہی نظر آئے گی، کیوں کہ آج کسی کو یقین نہیں آتا کہ اچھے اخلاق و کردار اور اقدار کے ساتھ سیاست کی جا سکتی ہے۔

اقدار پر مبنی سیاست کو پروان چڑھانا تحریک اسلامی کی سیاسی پالیسی کا اہم حصہ ہے۔ اس کے لیے ایک سیاسی متبادل تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ W.P.I. (ویلفیر پارٹی آف انڈیا)کے قیام کے ذریعے اس کی ابتدا کی گئی تھی اور اس میں ارکان جماعت کو شرکت کی اجازت بھی دی گئی تھی۔ اس جانب خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔

عدالتی نظام میں اصلاح کی تدابیر

آج ہمارے ملک میں عدالتوں کا نظام جس طرح زوال کا شکار ہو رہا ہے وہ بہت تشویش ناک ہے۔ اب عدالتیں حق و انصاف کے بجائے عوام کے جذبات اور عوام کے رجحان کے مطابق فیصلے سنانے لگی ہیں۔ عدالتیں اکثر کم زور اور غریب کو اس کا حق دلانے میں ناکام ثابت ہو رہی ہیں۔ ایک نیا رجحان عدالتی ججوں کا ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی اہم عہدہ اور منصب حاصل کرنے کا رجحان ہے جس کی وجہ سے اب ان کے فیصلوں پر سوال اٹھنا فطری بات ہے۔ بابری مسجد کا فیصلہ دینے والے چیف جسٹس کو پارلیامنٹ کی ممبر شپ مل جاتی ہے، کوئی گورنر بنا دیا جاتا ہے۔

وقت کا تقاضا ہے کہ عوام میں بیداری اور مسلسل ربط و تعلق کے ذریعے کوشش کی جائے کہ عدالتوں کے فیصلے انصاف پر مبنی ہوں، کم زور اور غریب لوگوں اور طبقات کو ان کے جائز حقوق مل سکیں اور عدالتوں پر کم ہوتا اعتماد بحال ہوسکے۔

۳۔  ملت اسلامیہ میں کی جانے والی کوششیں

ان حالات میں سب سے اہم کام مسلمانوں کے اندر سے خوف، ڈر اور مایوسی کو ختم کرنا ہے۔ ان میں حوصلہ اور امید پیدا کیا جائے۔ حالات پر زیادہ گفتگو کرنے کے بجائے ان کی اصلاح کرنے کا جذبہ بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ صبر و استقامت، حوصلہ اور حکمت، بلند داعیانہ اخلاق و کردار، اللہ پر توکل و بھروسا جیسی صفات ملت میں پیدا کی جائیں۔

ملت میں پختہ اسلامی شعور پیدا کرنا اور داعی امت اور خیر امت ہونے اور بننے کا جذبہ بیدار کرنا ہمارا بنیادی کام ہے۔ حق کی قولی اور عملی گواہی ہر مسلمان کی پہلی ترجیح بن جائے۔

ملت اسلامیہ کے افراد اپنے اپنے میدانوں میں مہارت حاصل کریں اور ان میں نمایاں مقام حاصل کریں اور ملک کی تعمیر، ترقی اور خوش حالی میں ان کا نمایاں کردار ہو۔

اس بات کی کوشش ضروری ہے کہ ملت اسلامیہ صرف اپنی ترقی یا اپنے مسائل کے بارے میں سوچنے کے بجائے ملک اور باشندگان ملک کی ترقی اور مسائل کے بارے میں بھی فکر مند اور کوشاں ہو۔ ملت کو احساس قومیت (Community Mindset)سے باہر نکال کر خیر امت اور داعی امت کے بلند مقام پر لانے کی کوشش کی جائے۔

ملت اسلامیہ کے افراد کو اس طرح تیار کیا جائے کہ وہ باشندگان ملک کے مسائل کا حل پیش کرنے والے (Problem Solver) گروہ کے طور پر پہچانے جائیں۔

ہر سطح پر انفرادی اور خاندانی روابط برادران وطن سے بڑے پیمانے پر مگر فطری انداز میں اور فطری دائرہ کار میں پیدا کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔

ملت اسلامیہ میں یہ شعور پختہ کرنا ہوگا کہ یہ ملک ہمارا اپنا ملک ہے۔ اس ملک کا ہر فرد ہمارا اپنا ہے، ہم کوئی حریف گروہ نہیں ہیں بلکہ اسی سماج کا حصہ ہیں۔ اس سماج اور ملک کو غلط راستے پر جانے سے روکنا اور ہر سطح پر بڑھ رہے بگاڑ کی اصلاح کرنا ہماری دینی ذمہ داری بھی ہے۔

۴۔  تحریک اور افراد تحریک پر کی جانے والی کوششیں

تحریک اسلامی اور اس کے ہم خیال ادارے اور اس سے وابستہ افراد معاشرے میں ایک قابل تقلید نمونہ بن جائیں۔ وہ سماج میں مرجع خلائق کی حیثیت اختیار کریں۔ لوگ رہ نمائی کے لیے اور مسائل کے حل کے لیے ان کی طرف رجوع کریں۔

اس کے لیے ضروری ہے کہ ہماری کوششیں اس پہلو سے اور زیادہ موثر اور مربوط ہوں کہ رفقائے تحریک میں اور تحریک کی ہر سطح کے ذمہ داروں میں پختہ اسلامی شعور ان کے فکر و عمل میں اعتدال، ان کے اندر داعیانہ وسعت ذہنی اور وسعت قلبی، عام انسانوں کے لیے جذبہ خیر خواہی زیادہ سے زیادہ پروان چڑھے۔ قرآن و سیرت اور اسلامی لٹریچر کے مطالعے کے ساتھ ساتھ ہندوستانی سماج اور اس میں پنپ رہے رجحانات کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے۔

عام انسانوں کے مسائل اور ان کی پریشانیوں سے واقفیت اور متاثرین، مظلومین اور محرومین سے گہرا ربط و تعلق، ان سے ہمدردی جتانے سے آگے بڑھ کر ان کے مسائل کو حل کرنے یا ان کی تکلیف اور پریشانی کو کم کرنے کی عملی جدوجہد کرنے کی کوشش کا جذبہ ہر آن تازہ دم رہے۔ تحریک اسلامی کے کارکنان اور ہر سطح کے ذمہ داران اپنی عملی زندگی میں ایک داعی کی حیثیت سے رہیں جو ہر وقت اور ہر حال میں اپنے قول سے بھی اور اس سے زیادہ اپنے بلند اخلاق اور پرکشش کردار سے دعوت حق کا نمونہ بننے کی کوشش کرے۔

کارکنان تحریک کے فکر و عمل سے صاف محسوس ہو کہ وہ حالات کو بدلنے کے لئےمخلصانہ کوشش کرنے والے اور اللہ کو راضی کرنے اور اس کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے والے ہیں اور وہ سخت ترین حالات میں بھی صبر اور بلند اخلاق پر قائم رہتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ملک کی صورت حال کو ایک بہتر صورت حال میں تبدیل کرنے اور اس ملک میں اقامت دین کی راہیں ہم وار کرنے اور ہمیں اپنی داعیانہ ذمہ داریوں کو کما حقہ ادا کرنے میں ہماری مدد فرمائے۔

مشمولہ: شمارہ جنوری 2025

مزید

حالیہ شمارے

جنوری 2025

شمارہ پڑھیں

دسمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223